حکومت مهدي پر طايرانه نظر
  چوتھی فصل :

حضرت کی جنگیں
جب حضرت کا ہدف پوری دنیا میں حکومت برپا کرنا اور ظلم و ستم کو فنا کرنا ہے تو یقینا اس ھدف کی تکمیل میں انواع و اقسام کی دشواریوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہوگا؟ لہٰذاضروری ہے کہ فوجی مشق اور ٹرینگ کے ذریعہ ان رکاوٹوں کو ختم کریں، اور یکے بعد دیگرے ممالک کو فتح کر کے شرق و غرب عالم میں تسلط حاصل کریں ،اور عادلانہ خدا ئی حکومت قائم کریں، اس فصل میں اس سلسلے میں روایات نقل کرتے ہیںملاحظہ ہوں۔

الف) شہیدوں اور مجاھدوں کی جزا
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں جنگ کا مقصد مفسدین زمانہ اور ستمگار وقت کی نابودی اور خاتمہ ہے، لہٰذا حضرت کے ہمرکاب جنگ میں شرکت بھی، کئی گنا جزا کی حامل ہو گی، اس طرح سے ہے کہ اگر کوئی سپاہی کسی ایک دشمن کو نابود کرے تو۲۰/۲۵شہید وں کا اجر پائے گا،(۱) اور اگر خود شہید ہو جائے تو اس کی جزا دو شہید وں کے برابر ہوگی، اسی طرح جانباز و زخمی افراد معنوی مقام کے علاوہ حکومت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)میں خصوصی امتیاز کے حامل ہوں گے، نیز شہداء کے گھرانے خصوصی امتیاز اور اہمیت کے حامل ہوں گے۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) اپنے شیعوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: ” اگر تمہاری رفتار
-------
(۱)کافی ،ج۲،ص۲۲۲
ہمارے فرمان کے مطابق رہی، اور سر کشی دیکھنے میںنہ آئی، اور کوئی اس حال میں ظہور سے پہلے مرجائے تو شہید ہوگا ،اور اگر حضرت کو درک کر کے درجہ شہادت پر فائز ہوجائے، تو دو شہیدوں کے برابر اجر پائے گا اور اگر ہمارے کسی ایک دشمن کو قتل کر دے تو پھر بیس ۲۰/شہید وں کا اجر پائے گا “( ۱ )
اس روایت میں، دشمنوں کی نابودی ایک شہید کے اجر سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ؛اس لئے کہ دشمن کو قتل کرنا خدا کی خوشنودی ،لوگوں کے سکون و آرام اوراسلام کی عزت و شوکت کا باعث ہوگا؛ اگر چہ شہادت کے درجہ پرفائز ہونا شہید کو کمال تک پہنچاتا ہے اس لحاظ سے سپاہیوں کو چاہئے کہ محاذ جنگ پر دشمنوں کی فکر میں رہیں نہ شہادت کی۔
امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں:”امام (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہمرکاب شہید ہونا دو شہیدوں کا اجر رکھتا ہے “(۲)
”کافی “میں اس طرح آیا ہے:” اگر امام کے سپاہی دشمن کو قتل کردیں تو ان کا اجر ۲۰/ شہید وں کے برابر ہے، اور اگرکوئی حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہمراہ شہید ہو جائے ،تو پھر ۲۵/ شہید وں کا اجر پائے گا “(۳)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے شہداء کے گھرا نو ں اور شہیدوں کے ساتھ طرز سلوک کے سلسلے میں فرماتے ہیں: حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) فوجی تشکیل کے بعد کوفہ روانہ ہو جائیں گے، اور وہاں قیام کریں گے،اور کوئی شہید ایسا نہیں ہوگا، جس کا قرضہ امام ادانہ کریں، اور اس کے خاندان کو دائمی وظیفہ و تنخواہ عنایت کریں گے“ (۴)
-------
(۱)طوسی ،امالی، ج۱، ص۲۳۶؛بشارة ا لمصطفی ،ص۱۱۳؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۲۹؛بحا ر الانوار، ج۵۲،ص۱۲۳، ۷ ۳۱
(۲)اثبات الہداة ،ج۳ ،ص۴۹۰؛ملاحظہ ہو:طوسی، امالی، ج۱،ص۲۳۶؛برقی ،محاسن، ص۱۷۳؛نور الثقلین، ج۵، ص۳۵۶
(۳)کافی، ج۲،ص۲۲۲ (۴)عیاشی ،تفسیر ،ج۲،ص۲۶۱؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۲۴
یہ روایت حضرت کی خاندان شہداء کی دیکھ ریکھ کا پتہ دیتی ہے۔

ب)جنگی اسلحے اور ساز وسامان
قطعی و یقینی طور پر جو اسلحے حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) جنگوں میں استعمال کریں گے، دیگر اسلحوں سے بنیادی طور پر جدا ہوں گے، اور روایت میں لفظ سیف کا استعمال، شاید اسلحہ سے کنایہ ہو نہ یہ کہ مراد خاص کر تلوار ہو؛اس لئے کہ امام کا اسلحہ اس طرح ہے جس کے استعما ل سے کوفہ کی دیوارگر پڑیں گے، اور دھووٴں میںتبدیل ہوجائیں گی، اور دشمن ایک وار میں پانی میں نمک کی طرح پگھل جائے گا، اس لئے کہ دل ہل جائیں گے ۔
روایت کے مطابق، حضرت کے سپاہیوں کا اسلحہ آھنی ہے، لیکن ایساہے کہ اگر پہاڑ پر گرے تو دوٹکڑے ہو جائے گا، شاید دشمن بھی آتشی اسلحہ استعمال کرے ،اس لئے کہ امام وہ لباس پہنیں گے جو گرمی سے محفوظ ہوگا ،اور یہ وہی لبا س ہے جو جبرئیل (علیہ السلام) آسمان سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے آتش نمرود سے نجات کے لئے لائے تھے، وہی لباس حضرت بقیتہ اللہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے اختیار میں ہے ،اگر ایسا نہ ہوتا یعنی ترقی یافتہ اسلحہ دشمن کے پاس نہ ہوتا تو پھر اس لباس کی ضروت نہ ہوتی ،ہر چند اس میں اعجازی جنبہ ہو۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو جنگی تلواریں آسمان سے نازل ہوں گی، ایسی تلواریں کہ جس پر سپاہی اور اس کے باپ کا نام لکھا ہوگا“(۱)
حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہمنواگروہ کے بارے میں فرماتے ہیں:”حضرت مہدی کے ناصر و یاور آھنی تلواریں رکھتے ہیں، لیکن اس کی جنس
-------
(۱)نعمانی، غیبة، ص۲۴۴؛بحار الانوار، ج۵۲ ،ص۳۶۹؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۴۲
لوہے کے علاوہ ہے، اگر ان میں سے کوئی ایک پہاڑ پر وار کردے تو پہاڑ دوٹکڑے ہو جائے گا، حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ایسے سپاہیوں اور اسلحوں کے ساتھ ھند،دیلم ، کرد،روم، بربر، فارس،جابلقا اور جابرسا کے درمیان جنگ کے لئے جائیں گے “-(۱)
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی فوج کے پاس ایسے دفاعی وسائل ہوں گے کہ دشمن بے بس ہوگا امام جعفر صادق (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” اگر حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصا ران سپاہیوں سے جو شرق و غرب میں پھیلے اور قبضہ جمائے ہیں روبرو ہوں گے تو ایک آن میں انھیں فنا کے گھاٹ اتاردیں گے، اور دشمن کے اسلحے ان پر کار آمد نہیں ہوں گے“(۲)

ج)امام کا نجات بشر کے لئے دنیا پر قبضہ
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی فوجی ترتیب او رشہرو ملک پر قابض ہونے کے بارے میں دوطرح کی روایت پائی جاتی ہے، بعض روایت میں شرق وغرب جنوب اور قبلہ ہے نتیجہ کے طور پر ساری کائنات پر تسلط کی خبر ہے اور بعض روایات صرف مخصوص و معین زمین پر فتح و غلبہ کی خبر دیتی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت تمام کائنات کو اپنے قبضہ و دسترس میں کرلیں گے؛ مگر ایسا کیوں ہوا کہ بعض شہروں کے نام مذکور ہیں، تو شاید ایسا کسی اہمیت کے اعتبار سے ہو کہ وہ تمام شہر
-------
(۱)بصائر الدرجات، ص۱۴۱؛اثبات الہداة ،ج۳ ،ص۵۲۳؛تبصرةالولی ،ص۹۷؛بحار الانوار، ج۲۷، ص۴۱و ج۵۴، ص۳۳۴
(۲)بصائر الدرجات ،ص۱۴۱؛اثبات الہداة، ج۳،ص ۵۲۳؛تبصرةالولی، ص۹۷؛بحار الانوار، ج۲۷، ص۴۱و ج۵۴، ص۳۳۴
اس وقت ظاہر ہو جائیں گے یہ اہمیت اس لئے ہے کہ شاید اس وقت ان کا شمار طاقت ورمیں ہواور کسی نہ کسی جگہ کو اپنے نفوذ و تسلط میں رکھے ہوئے ہیں ،یا وہ سر زمین اتنی وسیع و عریض ہے کہ اکثریت آبادی اس میں زندگی گذارتی ہے، یا یہ کہ ایک دین و مذہب کی آرزوٴں کا مرکز ہے؛ اس طرح سے کہ وہ شہر قبضہ میں آجائے تو اس مکتب و آئین کے پیرو بھی تسلیم ہوجائیں ،یا یہ کہ ان کی فوجی اہمیت ہے اس طرح سے کہ ان کے سلنڈر ہو جانے سے دشمن کی تکنک بیکار ہو جائے، تو حضرت کے فوجی حملہ کی راہ ہموار ہو جائے گی ۔
آغاز قیام کے لحاظ سے شہر مکہ کا انتخاب، پھر اس کے بعد عراق ،کوفہ سیاسی مرکز بنانے حکومت کی فوجی تحریک شام کی جانب پھر بیت المقدس کو فتح کرنا شاید اس بات کی تائید ہو اس لئے کہ آج تینوں سرزمینوں کی سیاسی ،مذہبی اورفوجی سرگرمی کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ۔
پہلے دستہ کی روایت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے پورے جہان پر قبضہ کے بارے میں تھی کہ بعض درج ذیل ہیں حضرت رضا (علیہ السلام) اپنے آباوٴ اجداد سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں : رسول خدا نے فرمایا:”جب ہمیں معراج پر لیجایا گیا تو میںنے عرض کیا خدا یا !یہ لوگ (ائمہ)میرے بعد میرے جانشین ہوں گے آواز آئی :ہاں ! اے محمد! یہ لوگ میرے دوست ،منتخب، لوگوں پر حجت ہوں گے، اور تمہارے بعد بہترین بندے اور جانشین ہوں گے، میری عزت و جلال کی قسم اپنے دین و آئین کو ان کے ذریعہ سے لوگوں پر غالب کروں گا، اور کلمة اللّٰہ کو ان کے ذریعہ بر تری عطا کروں گا، اور ان میں آخری کے ذریعہ زمین کو سر کش اور گنہگار افراد سے پاک و پاکیزہ کردوں گا، اور شرق و غرب عالم کی حکومت اسے دے دوں گا۔(۱)
-------
(۱)کمال الدین ،ج۱، ص۳۶۶؛عیون اخبار الرضا، ج۱،ص۲۶۲؛بحار الانوار، ج۱۸، ص۳۴۶
آیہ شریفہ <اَلَّذِیْنَ اِنْ َمکَّنّٰاھُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَاْمُوْااْلصَّلٰوةَ و َآتُوالزَّکٰوةَ>( ۱ )
ان لوگوں کو اگر زمین پر حکومت دیدیں تو نماز قائم کریں گے اور زکوة اداکریں گے۔
امام محمدباقر (علیہ السلام ) فرماتے ہیں : یہ آیت آل محمد اور آخری امام (عجل اللہ تعالی فرجہ) سے مربوط ہے، خدا وند عالم مغرب و مشرق کو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)اور ان کے انصار کے اختیار میں دیدے گا“(۲)
رسول خدا فرماتے ہیں : مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ہمارے فرزند ہیں، خدا وند عالم ان کے ذریعہ مشرق ومغرب کو فتح کرے گا ۔(۳)
رسول خدا فرماتے ہیں : جب مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے تو دین کو اسکی اصلی جگہ لوٹادیں گے،اور درخشاں کامیابی ا ن کے لئے انھیں کے ذریعہ عطا کرے گا،اس وقت صرف اور صرف مسلمان ہوں گے، اور(لاالہ الااللہ )زبان سے جاری کریں گے۔(۴)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) ہم سے ہیں ان کی حکومت مشر ق ومغرب کو محیط ہوگی ۔(۵)
نیز فرماتے ہیں : حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے قیام کے وقت اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا ۔(۶)
رسول خدا سے منقول ہے :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اپنے لشکر کو پوری دنیا میں پھیلا دیں گے۔(۷)
-------
(۱)سورہ ٴحج، آیت۴۱
(۲)تفسیر برہان، ج۲، ص۹۶؛ینابیع المودة ،ص۴۲۵؛بحار الانوار، ج۵۱،ص۱
(۳)احقا ق الحق، ج۱۳، ص ۲۵۹ ینابیع المودة ،ص۴۸۷؛بحا رالانوار ،ج۵۲، ص۳۷۸؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۱۸
(۴)عقد الدرر ،ص۲۲۲ ؛فرائد فوائد الفکر، ص۹
(۵)کمال الدین ،ج۱،ص ۳۳۱؛الفصول المہمہ، ص۲۸۴؛اسعاف الراغبین، ص۱۴۰
(۶)ینابیع المودة ،ص۴۲۳
(۷)القول المختصر ،ص ۲۳
رسول خدا فرماتے ہیں :اگر زندگی اور دنیا کی عمر صرف ایک روز باقی بچے گی؛ تو بھی خداوند عالم مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کو مبعوث کرے گا ،اور اس کے ذریعہ، دین کی عظمت کو واپس کرے گا،اور آشکار و فائق کامیابی ان کے لئے انھیں کے ذریعہ عطا کرے گا، اس وقت ہر ایک (لاالہ الا اللّٰہ) زبان سے کہے گا۔ (۱)
جابر بن عبد اللہ انصاریۻ کہتے ہیں : رسول خدا نے فرمایا :” ذوالقرنین خدا وند عالم کے ایک شایستہ بندے تھے، جنھیں خد اوند عالم نے اپنے بندوں پر حجت قرار دیا، اور اس نے اپنی قوم کویکتا پرستی کی دعوت دی، اور تقویٰ و پر ہیز گاری کا حکم دیا، لیکن انھوں نے اس کے سر پر ایک وار کیا تو وہ مدتوں پوشیدہ رہے؛ اور اتنا کہ انھوں نے خیال کر لیا کہ وہ اب مر چکے ہیں، پھر کچھ مدت بعد اپنی قوم کے درمیان آئے لیکن پھر سر کے دوسرے حصہ پر وار کیا۔
تمہارے درمیان ایسا شخص ہے، جو سنت پر سالک ہوگا ،خد اوند عالم نے ذوالقرنین کو زمین پر اقتدار دیا اور ہر چیز کو ان کے لئے وسیلہ بنادیا تو انھوں نے دین اس کے ذریعہ پوری دنیا میں پھیلا دیا، خد اوند عالم وہی رفتارو روش امام غائب =جو میرے فرزندوں میں ہیں =جاری رکھے گا اور اسے مشرق ومغرب میں پہنچادے گا نیز کوئی پانی کی جگہ ،پہاڑ ،اوربیابان باقی نہیں ہوں گے جس پر ذوا لقرنین نے قدم نہ رکھا ہو، اور جیسے ہی قدم رکھیں گے خداوند عالم زمین کے خزانے و معادن ظاہر کردے گا اور ان کاخوف دشمنوں کے دل میںڈال کر ان کی مدد کرے گا، اور زمین کو ان کے ذریعہ عدل و انصاف سے بھر دے گا، جیسا کہ قیام سے پہلے ظلم و جور سے بھری ہوگی“(۲) دوسرے گروپ
-------
(۱)عیون اخبار الرضا ،ص۶۵؛احقاق الحق ،ج۱۳، ص ۳۴۶؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۱۸
(۲)کمال الدین ،ج۲،ص۳۹۴؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۲۳،۳۳۶؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۱۸؛ملاحظہ ہو:ابن حماد، فتن، ص۹۵؛الصراط المستقیم،ج۲،ص۲۵۰،۲۶۲؛مفید، ارشاد ،ص۳۶۲؛ اعلام الوری، ص۴۳۰
کی روایات شہروں پر فتح کی جانب اشارہ کرتی ہیں ، ہم اس سلسلے میں چند روایت کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں :
حضرت امیر الموٴ منین(علیہ السلام)حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کی شام کی جانب روانگی کے بارے میں فرماتے ہیں : حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے حکم سے لشکر کے حمل ونقل کے اسباب فراہم کئے جائیں گے : اس کے بعد چار سو کشتی بنائی جائے گی، اور ساحل عکا کے کنارے لنگر انداز ہوگی، دوسری طرف سے ملک روم والے سو صلیب کے ہمراہ کہ ہر صلیب دس ہزار لشکر پر مشتمل ہوگی باہر آئیں گے،اور نیزوں اوراسلحوں سے پہل کریں گے، حضرت اپنے سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچیں گے، اور انھیں اتنا قتل کریں گے کہ فرات کا پانی بدل جائے گا،اور ساحل ان کے جسم کی بوسے متعفن ہو جائے گا۔
اس خبر کو سنتے ہی ملک روم میں باقی ر ہ گئے، افراد انطاکیہ فرار کر جائیں گے۔(۱)
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب حضرت قائم قیام کریں گے تو ایک لشکر قسطنطنیہ بھیجیں گے، اور جب وہ لوگ خلیج تک پہنچیں گے تو اپنے پاوٴں پر ایک جملہ لکھیں گے، اور پانی پر سے گذر جائیں گے “(۲)
رسول خدا فرماتے ہیں :”ا گر عمر دنیا کا ایک دن بھی بچے گا تو خد اوند عالم میری عترت سے ایک ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو میرا ہمنام ہوگا، اور اس کی پیشانی چمکتی ہوگی، اور وہ قسطنطنیہ اور جبل دیلم کو فتح کرے گا “(۳)
-------
(۱)ابن حماد، فتن، ص۱۱۶؛عقد الدرر، ص۱۸۹
(۲)بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۶۵
(۳)فردوس الاخبار، ج۳،ص۸۳؛شافعی، بیان، ص۱۳۷؛احقاق الحق، ج۱۳، ص۲۲۹و ج ۱۹، ص۶۶۰
حذیفہ فرماتے ہیں :دیلم و طبرستان ہاشمی مر دکے ہاتھوں فتح ہوں گے اور بس۔(۱)
امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں:” جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو قسطنطنیہ ،چین (۲)اور دیلم کے پہاڑ فتح کرکے سات سال تک فرمانروائی کریں گے“( ۳ )
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں : حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اور ان کے ساتھی قسطنطنیہ فتح کریں گے اور جہاں روم کا بادشاہ قیام پذیر ہے وہاں جائیں گے، اور وہاں سے تین خزانے نکالیں گے جواہرات ،سونے اورچاندی پھر اموال اور غنیمت لشکر کے درمیان تقسیم کردیں گے ۔(۴)
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) فوج کے لئے تین پر چم تین نقطے پر آمادہ کریں گے؛ ایک پر چم قسطنطنیہ (۵)پر لہرائیں گے ،تو خدا وند عالم اس پرفتح و غلبہ عطا کرے گا؛ دوسرا پر چم چین روانہ کریں گے(۶) وہاں بھی حضرت فاتح ہوں گے اور تیسرا پرچم دیلم کے پہاڑ کے لئے روانہ کریں گے، تووہ جگہ بھی آپ کے لشکر کے تصرف میں آجائے گی۔ ( ۷ )
-------
(۱)ابن ابی شیبہ، مصنف ،ج۱۳،ص۱۸
(۲)صین (چین)مشرقی ایشیا کو کہتے ہیں نیز سابق سوویت یونین ،ہند ،نیپال ،برمہ،ویتنام ،جاپان ،چین اور کرہ کے دریا کو بھی شامل ہوتا ہے(المنجد)
(۳)بحارالانوار، ج۵۲، ص۳۳۹؛حقاق الحق، ج۱۳،ص۳۵۲؛الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۴۰۰
(۴)الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۱۶۲
(۵)قسطنطنیہ ترکیہ میں ایک شہر ہے جو ساتویں صدی میں عیسوی سے قبل بنایا گیا ہے اور ایک مدت تک روم کے بادشاہ کا پایہٴ تخت بھی رہا ہے۔ معجم البلدان، ج۴،ص۳۴۷؛اعلام المنجد ،ص۲۸
(۶)دیلم گیلان کے پہاڑی حصہ میں ایک جگہ کانام ہے جو قزوین کے شمال میں واقع ہے، معجم البلدان ،ج۱،ص۹۹؛ اعلام المنجد ، ص۲۲۷؛برہان قاطع ،ج۱،ص۵۷۰
(۷)اثبات الہداة، ج۳، ص۵۸۵؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۸۸؛ملاحظہ ہو:بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۳۲؛ حدیث نمبر ۱،۶،۱۱،۱۴،۱۷،۱۸،۱۹،۳۴،۳۵،۳۶،۴۶
حذیفہ کہتے ہیں : کہ بلنجر(۱) اور دیلم کے پہاڑ فتح نہیں ہوں مگر آل محمد کے جوان کے(۲) ذریعہ حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں : پھر حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ہزار کشتی کے ہمراہ شہر قاطع سے شہر قدس شریف کی جانب روانہ ہوں گے، اور عکا،صور،غزہ،اورعسقلان (۳)ہوتے ہوئے فلسطین میں داخل ہو جائیں گے، اموال و غنیمت باہر لائیں گے، پھر حضرت قدس شریف میں داخل ہو کر وہاں پڑاوٴ ڈال دیں گے، اور دجال کے ظاہر ہونے تک وہیں مقیم رہیں گے ۔(۴)
ابو حمزہٴ ثمالی کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر(علیہ السلام) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”کہ جب قائم آل محمد ظہور کریں گے تو اپنی تلوار نیام سے باہر نکال کر روم،(۵) چین،دیلم، سند،ترک،ھند،کابل،(۶)شام،(۷)خزر کو فتح کریں گے ۔(۸)
ابن حجر کہتے ہیں کہ: سب سے پہلے پر چم، کوتُرک روانہ کریں گے ۔(۹)
-------
(۱)معجم البلدان، ج۱،ص۹۹؛اعلام المنجد ،ص۲۱۴
(۲)عقد الدرر، ص۱۲۳ابن منادی نے ملاحم میں نقل کیا ہے
(۳)فلسطین کے توابع شام میں ایک شہر ہے جو دریا کے کنارے واقع ہے یہ حصہ دو شہر غزہ اور بیت جبرین کے درمیان میں ہے، معجم البلدان، ج۳، ص۶۷۳
(۴)عقدالدرر، ص۲۰۱
(۵)روم اس وقت اٹلی کا مرکز ہے اس زمانے میں ایسی حکومت کا مر کز تھا کہ قیصر کے نامز د بادشاہ اس پر حکومت کرتے تھے، اور دنیا کے بڑے حصہ پر مسلط تھے، اس طرح سے کہ ان کا نفوذ بحر مدیترانہ ،شمالی افریقہ ،یونان ،ترکیہ،سوریہ،لبنان، اورفلسطین تک کو شامل تھا اور پورے علاقہ کو روم کہتے تھے
(۶)ترکستان بر اعظم میں واقع ہے اور چین اورروس کے درمیان تقسیم ہے نیز چین سے سین کیا نغ اور ترکمنستان ، تاشکند ،تاجکستان ،قرنجیر ،اور قزاقستان کو شامل ہے
(۷)جزیرہ کے مانند مثلث کی شکل میں ایشیاء کے جنوب میں واقع ہے اور جمہوری ہند ،پا کستان ،نیپال ،بھوٹان کو بھی شامل ہے،برہان قاطع،ج۱،ص۷۰۳،اعلام المنجد ،ص۵۴۲
(۸)نعمانی ،غیبة، ص۱۰۸ ؛بحا رالانوار ،ج۵۲،ص۳۴۸
(۹)القول المختصر، ص۲۶
شاید ثمالی کی روایت میں سیف مخترط سے مراد خاص اسلحے ہوں جو حضرت مہدی کی دسترس میں آئیں گے ؛اس لئے کہ تمام سرزمینوں کو فتح کرنے کے لئے مافوق طاقت کی ضرورت ہے، اور ایسے مناسب اسلحے جو تمام اسلحوں پر بھاری ہوں؛ خصوصاً اگر ہم کہیں کہ حضرت اپنی مختلف فعالیت عادی اورمعمولی طریقوں سے انجام دیں گے ۔
ہند کے فتح ہونے کے بارے میں کعب کہتا ہے: جو حکومت بیت المقدس میں ہوگی ہند سپاہی بھیجے گی، اور اس جگہ کوفتح کرے گی، اس کے بعد وہ لشکرہند میں داخل ہو جائے گا، اور وہاں کے خزانے بیت المقدس کی حکومت کے لئے روانہ کریں گے، اورہند کے بادشاہوں کو اسیر کی صورت میں ان کے پاس لے آئیں گے مشرق و مغرب ان کے لئے فتح ہو جائے گا، اور دجال کے خروج تک فوجین ہند میں رہیں گی۔(۱)
خذیفہ کہتے ہیں : رسول خدا نے فرمایا : طاہر اسماء کے فرزند نے بنی اسرائیل سے جنگ کی،اور انھیں اسیر کیا، اور بیت المقدس میں آگ لگائی، اور وہاں سے ۱۷۰۰/سو یا ۱۹۰۰/ سو کشتی جواہرات اور سونے کی شہر روم میں لایا یقینا حضرت مہدی اسے باہر نکال کر بیت المقدس واپس لائیں گے ۔(۲)
اگر چہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کا آغاز مکہ سے ہوگا(۳) لیکن ظہور کے بعد سر زمین حجاز کو فتح کریں گے (۴)امام محمدباقر(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :
--------
(۱)عقد الدر ،ص۹۷،۳۱۹؛ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۸۱؛حنفی ،برہان، ص۸۸
(۲)عقد الدر ،ص۲۰۱؛شافعی ،بیان، ص۱۱۴؛احقاق الحق، ج۱۳، ص۲۲۹
(۳)حجاز شمال سے خلیج عقبہ کی سمت مغرب سے بحر الاحمر مشرق سے نجد اور جنوب سے عسیر تک محدود ہوجاتا ہے لیکن حموینی کی نقل کے مطابق یمن میں اعماق صنعا سے شام تک کو حجاز کہتے ہیں اور تبوک و فلسطین بھی اسی کا جزء ہے۔ معجم البلدان
(۴)ابن حماد، فتن ،ص۹۵؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۴۱؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۶۴؛القول المختصر ،ص۲۳
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)مکہ میں ظہور کریں گے، لیکن حجاز بھی فتح ہو جائے گا ،اور تمام ہاشمی قیدیوں کو زندان سے رہا کریں گے ۔(۱)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فتح خراسان کے بارے میں فرماتے ہیں -: حضرت خراسان فتح ہونے تک اپنی تحریک جاری رکھیں گے،(۲) پھراس کے بعد مدینہ واپس آجائیں گے۔(۳)
آنحضرت حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہاتھوں آرمینة(۴) کے فتح ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں : حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اپنی تحریک جاری رکھیں گے،اور جب آرمینیہ پہنچ جائیں گے، اور انھیں وہاں کے لوگ دیکھیں گے تو ایک دانشمند راہب کو حضرت سے مذاکرہ کے لئے بھجیں گے، راہب امام (علیہ السلام) سے کہے گا : کیا تم ہی مہدی ہو؟ تو حضرت جواب دیں گے : ہاں میں ہی ہوں؛ میںوہی ہوں جس کا نام انجیل میں ذکر ہے، اور آخر زمانہ میں جس کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے، وہ سوالات کرے گا اور امام جواب دیں گے ۔
عیسائی راہب اسلام لے آئے گا،لیکن آرمینیہ کے رہنے والے سر کشی اور طغیانی کریں گے، اس کے بعد حضرت کے سپاہی شہر میں داخل ہو جائیں گے اور پانچ سوعیسائی فوج کو نیست ونابود کردیں گے، خدا وندعالم اپنی بے پایاں قدرت سے ان کے شہر کو زمین وآسمان کے مابین معلق کر دے گا اس طرح سے کہ بادشا ہ اور اس کے حوالی موالی جو شہر کے باہر ساکن تھے شہر کو آسمان
-------
(۱)خراسان اس وقت ایران ،افغانستان ،روس کی سر زمین کو کہتے تھے ۔اعلام المنجد، ص۲۶۷
(۲)الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۱۵۸
(۳)ارمینیہ ایشیاء صغیر میں آرارات کے پہاڑوں اور قفقاز ،ایران ،ترکیہ اور دریائے فرات میں محدود تھاایک وقت ایسا آیا کہ مستقل حکومت ہوگئی اور بیزانس کی بادشاہی ختم ہو ئی تو یہ سر زمین ایران ،روس اور عثمانیوں کے مابین تقسیم ہوگئی، المنجد ،ص ۵ ۲
(۴)وہی، ص۱۶۲
وزمین کے درمیان دیکھیں گے، آرمینیة کا باد شاہ خوف سے فرار کرجاے گا، اور اپنے حوالی موالی سے کہے گا : کسی پناہ گاہ میں پناہ لو، اَثنا ء راہ میں ایک شیر راستہ بند کر دے گا ،وہ لوگ خوفزدہ ہو کر ا پنے ہمراہ لئے اموال و اسلحوں کو پھینک دیں گے، اور حضرت کے سپاہی جو ان کے تعاقب میں ہوں گے لے لیں گے، اور اپنے درمیان اس طرح تقسیم کریں گے کہ سب کو سو سوہزار دینار ملے۔(۱)
فتح جہان کا دوسرا حصہ حضرت کے لئے زنج کے شہر ہیں اس سلسلے میں حضرت امیر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اپنی تحریک شہر زنج کبریٰ پہنچنے تک جاری رکھیں گے اس شہر میں ہزار بازار اور ہر بازار میں ہزار دکانیں ہیں ،حضرت اس شہرکو بھی فتح کریں گے، (۲)اسے فتح کرنے کے بعد قاطعِ نامی شہر کا عزم کریں گے، جو جزیرہ کی صورت سمندر کے اوپر واقع ہے۔(۳)
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام) پوری دنیا میں لشکر بھیجنے سے متعلق فرماتے ہیں : گویا ہم قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کو دیکھ رہے ہیں کہ انھوں نے اپنا لشکر پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے“ ( ۴ )
نیز حضرت فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)اپنے لشکر کو بیعت لینے کے لئے پوری دنیا میں روانہ کریں گے ،ظلم و ظالم کو مٹادیں گے، اور فتح شدہ شہر حضرت کے لئے ثابت و بر قرار ہو جائے گا، اور خد اوند عالم آپ کے مبارک ہاتھوں سے، قسطنطنیہ کو فتح کرے گا“(۵)
-------
(۱)وہی،ص۱۶۴
(۲)وہی،ج۱،ص۱۶۴؛ملاحظہ ہو:عقد الدرر ،ص۲۰۰؛احقاق الحق ،ج۱۳، ص۲۲۹
(۳)مفید ،ارشاد، ص۳۴۱؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۳۷
(۴)ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۶۴الفتاوی الحدیثیہ، ص۳۱
(۵)ضبہ حجاز میں ایک دیہات ہے جو شام کے راستے میں دریا کے کنارے واقع ہے اس کے کنارے حضرت یعقوب کا دیہات ”بدا“کے نام سے ہے بنی ضبہ ایک قبیلہ ہے جس نے جنگ جمل میں دشمنان علی کی مدد سے قیام کیا، اور اکثر و بیشتر رجز اورا شعار جو انھوں نے پڑھے، قبیلہٴ ضبہ اور ازد سے مربوط تھے، وہ لوگ اس جنگ میں عائشہ کے اونٹ کے ارد گرد رہے، اور اس کی حمایت کی سمعانی انساب ،ج۴،ص۱۲ ؛ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۹، ص۳۲۰وج۱،ص۲۵۳

شورشوں کی سرکوبی ،فتنوں کی خاموشی
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور ومختلف شہروں ا ور ملکوں کے فتح ہوجانے کے بعد بعض شہراور قبیلے کے لوگ حضرت کے مقابل آجائیں گے، لیکن حضرت کے لشکر کے ذریعہ شکست کھائیں گے، نیز بعض کج فکر افراد حضرت کی بعض مسائل میں نا فرمانی کریں گے ،اور حضرت کے خلاف طغیانی کریں گے، پھر دوبارہ حضرت کے لشکر کے ذریعہ سرکوب ہوں گے، اس سلسلہ میں روایات ملاحظہ ہوں ۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : تیرہ۱۳/ شہر و طائفے(قبیلے) ایسے ہیں جو حضرت کے ساتھ جنگ کریں گے، اور حضرت ان سے جنگ کریں گے، وہ تیرہ درج ذیل ہیں ۔
مکہ ،مدینہ ،شام، بنی امیہ،بصرہ،دمنسیان ،کرد،عرب قبیلے،بنی ضبہ،(۱)غنی(۲) باھلہ ، (۳)ازد،سر زمین رے کے لوگ۔(۴)
امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی باتوں سے بعض لوگوں کی پر خاش کے بارے میں کہتے ہیں : جب حضرت مہدی کچھ احکام بیان کریں گے
-------
(۱)غنی ایک قبیلہ ہے جو جزیرة العرب کی سر زمین ”ہار“جو موصل اور شام کے درمیان واقع ہے رہتا تھا، اور غنی بن یعصر نامی شخص سے منسوب ہیںسمعانی انساب، ج۴،ص۳۱۵
(۲)باہلہ، باہلہ بن اعصر کی طرف منسوب ایک طائفہ ہے عرب اس زمانے میں ان سے ارتباط و تعلق سے پر ہیز کرتے تھے اس لئے کہ ان کے درمیان شرافتمند اور محترم انسان کوئی نہیں تھا ،باہلہ طائفہ کے لوگ پست تھے، حضرت علی نے جنگ صفین میں جانے سے پہلے ان کے بارے میں کہا:”خدا شاہد ہے کہ میں تم سے اور تم ہم سے ناراض ہو،لہٰذا تم لوگ آوٴ اور اپنا حق لے لو، اور کوفہ سے دیلم روانہ ہو جاوٴ؛سمعانی انساب، ج۱،ص۲۷۵؛وقعة صفین، ص۱۱۶:النفی والتغریب ،ص۳۴۹؛ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ، ج۳،ص۲۷۲؛الغارات ،ج۲،ص۲۱
(۳)نعمانی، غیبة، ص۲۹۹؛بصائر الدرجات ،ص۳۳۶؛حلیة الابرار، ج۲،ص۶۳۲؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۶۳ و ج۲۸، ص۸۴
(۴)عیاشی ،تفسیر ،ج۲،ص۶۱؛تفسیر برہان، ج۲،ص۸۳؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۴۵
یابعض سنت کی بات کریں گے، توبعض گروہ حضرت پر اعتراض اور مخالفت کرتے ہوئے مسجد سے باہرنکل پڑیں گا حضرت ان کے تعاقب کا حکم دیں گے، حضرت کا لشکر تمّارین محلہ میں ان پر قابو پائے گا، اور انھیں اسیر کر کے، حضرت کی خدمت میں لائیں گے، تو حضرت حکم دیں گے کے سب کی گردن مار دو، یہ حضرت کے خلاف آخری شورش و سر پیچی ہوگی۔(۱)
مقام رمیلہ میں یورش اور اس کی نابودی کے بارے میں ابی یعفور کے بیٹے کہتے ہیں :میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں اس وقت آیا جب کہ ایک گروہ ان کے پاس موجود تھا، حضرت نے مجھ سے کہا: کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟میں نے کہا :ہاں!لیکن اس معروف و مشہور قرآن سے، امام نے کہا:میری مراد یہی تھی میں نے کہا: اس سوال کا کیا مطلب ؟ تو آپ نے کہا: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لئے کچھ بیان کیا،لیکن وہ اس کے اہل نہیں تھے، اور حضرت کے خلاف مصر میں قیام کر بیٹھے، موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی ان کے ساتھ مبارزہ کیا اور قتل کر ڈالا۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو کچھ کہا، ان لوگوں نے اسے برداشت نہیں کیا، اور ان کے خلاف شہر تکریت میں قیام کر بیٹھے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ان کے روبرو آگئے ، اور انھیں نابو د کر دیا ،یہ خدا وند عالم کے قول کے معنی ہیں۔
<فامنت من بنی اسرائیل >(۲)
نبی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرا گروہ کافر ہو گیا تو ہم نے ایمان لانے والے کی نصرت کی اور دشمنوں پر کامیابی عطا کی۔
-------
(۱)سورہٴ صف، آیت ۱۴
(۲)بصائر الدرجات، ص۳۳۶؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۷۵و ج ۴۷، ص۸۴و ج ۱۴، ص۲۷۹
حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) بھی جب ظہور کریں گے توایسی باتیں کہیں گے جسے بر داشت نہیں کر پاوٴگے، اس اعتبار سے شہر رمیلہ میں حضرت کے خلاف قیام اورجنگ کروگے، توحضرت بھی تمہارے مقابل آکر تمہیں قتل کریں گے ،یہ حضرت کے خلاف آخری یورش ہوگی“( ۱)

ھ)جنگوں کا خاتمہ
حضرت امام عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت بر قرار اور نظام الٰہی کے استوار ہونے اور شیطانی طاقتوں کے خاتمے سے جنگ رک جائے گی، پھر کوئی ایسی طاقت نہیں ہوگی جو حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی فوج سے نبردآزمائی کرے اس لحاظ سے فوجی ساز و سامان بغیر مانگ کے بازاروں میں نظر آئیں گے، آخر کا راتنے سستے ہوں گے کہ کوئی خریدار نہ ہوگا۔
حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: جنگیں بھی ختم ہو جائیں گی۔(۲)
کعب کہتے ہیں : اس وقت ایاّم کا خاتمہ ہوگا جب قریش سے ایک شخص بیت المقدس میں ساکن ہو جائے اور جنگیں بھی بند ہوجائیں ۔(۳)
رسول خدا نے ایک خطبہ میں دجال اور اس کے قتل ہونے کے بارے میں فرمایا: کہ اس کے بعد ایک گھوڑے کی قیمت چند درہم ہو جائے گی۔(۴)
ابن مسعود کہتے ہیں :قیامت کی ایک علامت یہ ہے کہ عورت اور گھوڑے مہنگے ہو جائیں گے؛پھر اس کے بعد سستے ہوجائیں گے کہ قیامت تک پھر کبھی ان کی قیمت نہیں بڑھے گی ۔ ( ۵)
-------
(۱)ابن حماد ،فتن، ص۱۶۲؛المعجم الصغیر ،ص۱۵۰؛احقا ق الحق، ج۱۳،ص۲۰۴
(۲)عقد الدرر، ص۱۶۶ ؛ملاحظہ ہو:عبد الرزاق، مصنف ،ج۱۱،ص۴۰۱
(۳)ابن طاوٴس ،ملاحم ،ص۱۵۲
(۴)المعجم الکبیر، ج۹،ص۳۴۲؛ اور اسی سے مربوط مطلب عقد الدرر، ص۳۳۱خارجہ ابن صلت سے نقل ہوا ہے
(۵)الفائق، ج۱،ص۳۵۴
شاید ظہور امام زمان(عجل اللہ تعالی فرجہ) سے پہلے عورت کی گرانی سے مراد یہ ہو کہ اقتصادی حالات کے ناگوار ہونے سے ایک عورت کی حفاظت اور خاندانوں کی تشکیل مشکل ہو جائے گی ؛اس طرح سے کہ جنگوں کی زیادتی اور گھوڑوں کی ضرورت کی بناء پر جنگی سامان کی فراہمی دشواراور گراں ہوگی، لیکن جنگ بند ہونے اور حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کے بعد جنگی آلات سستے ہو جائیں گے، اور اقتصادی حالات کی بہتری کی وجہ سے ازدواجی مشکل آسان ہو جائے گی گویا عورت سستی ہوگئی ہو۔
زمخشری نقل کرتے ہیں : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کی ایک علامت یہ ہے کہ شمشیر کو کلہاڑی کی جگہ استعما ل کیا جائے گا۔(۱)
اس لئے کہ جب اس زمانے میں پھر کوئی جنگ نہ ہوگی؛تو نتیجہ کے طور پر وہ آلات و ہتھیار جو جنگ میں استعما ل ہوتے ہیں، کھیتوں کی ترقی میں استعمال ہوں گے۔
رسول خدا فرماتے ہیں : گائے کی قیمت بڑھ جائے گی، لیکن گھوڑے کی قیمت گھٹ جائے گی (۲)شاید اس روایت کی بھی تفسیر اسی طرح ہو؛ اس لئے کہ گائے کاا ستعمال کھیتی میں ہونے لگے گا، اور اس کا گوشت ،اور دودھ قابل استفاہ ہوگا؛ لیکن گھوڑوں کازیادہ تر استعمال جنگی آلات کی جگہ ہوتاہے (اور جنگ ختم ہو چکی ہوگی)
-------
(۱)الفائق، ج۱،ص۳۵۴
(۲)ابن حماد ،فتن ،ص۱۵۹؛ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۸۲