تیسری فصل :
امام کے سپاہی
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے سپاہی مختلف قوم وملت پر مشتمل ہوں گے، اور قیام کے وقت ایک خاص انداز میں بلائے جائیں گے ،جو لوگ پہلے سے کمانڈر معین کئے جاچکے ہوں گے، لشکر کی رہنمائی اور جنگی طریقوں کے بتانے کی ذمہ داری لے لیں گے جو سپاہی حضرت کے لشکر میںخاص شرائط سے قبول کئے گئے ہوں گے وہ خود بخود خصو صیت کے مالک ہوں گے ۔
اس فصل میں اس موضوع سے متعلق روایات ملاحظہ ہوں۔
الف) لشکر کے کمانڈر
روایات میں ایسے لوگوں کا نام ہے جو یا تو اس عنوان سے نام ہے جو خاص فوجی مشق کریں گے ،یا کچھ لشکر کی کمانڈری کریں گے،چنانچہ اس حصے میں ان کے اسماء اور کار کردگی بیان کریں گے ۔
۱۔حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)
امیر الموٴ منین (علیہ السلام) ایک خطبہ میں فرماتے ہیں : اس وقت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) جناب عیسیٰ (علیہ السلام) کو دجّال کے خلاف حملے میں اپنا جانشین بنائیں گے جناب عیسیٰ (علیہ السلام) دجا ل کو شکست دینے کے لئے روانہ ہوں گے، دجال وہ ہے جو پوری دنیاپراپنا تسلط جما کے کھیتوں کو اورا نسانی نسل کو جمع کر کے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے گا، جو قبول کر لے گا،وہ اس کی عنایتوں کا مرکز ہوگا، اور جو انکار کردے گا، اسے وہ قتل کردے گااورمکہ ، مدینہ اوربیت المقدس کے علاوہ پوری کائنات کو درہم و برہم کر دے گا، اور جتنی ناجائز اولادہیں اس کے لشکر سے ملحق ہو جائیں گی۔
دجال حجاز کی سمت حرکت کرے گا،اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے”ہرشا“میں اس سے ملاقات ہوگی تو دردناک صدا بلند کریں گے، اور ایک کاری ضرب اسے لگائیں گے، اور اسے آگ کے شعلوں میں پگھلادیں گے، جس طرح موم آگ میں پگھلتی ہے“(۱)
ایسی ضرب جس سے دجال پگھل جائے یہ اس زمانے کے جدید ترین اسلحوں کے استعما ل سے ہوگا ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اعجاز کی حکایت کرے۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیت میں بیان ہوا ہے: آپ اس درجہ ہیبت رکھتے ہوں گے کہ دشمن دیکھتے ہی موت کو یاد کرنے لگے گا، یا یہ کہوں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی جان کا قصد کر لیا ہے ۔(۲)
۲۔شعیب بن صالح
حضرت امیرالموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” کہ سفیانی اور کالے پرچم والے ایک دوسرے کے روبرو ہوں گے، جب کہ ان کے درمیان ایک بنی ہاشم کا جوان ہوگا جس کے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر سیاہ نشان ہوگا ،اور لشکر کے آگے آگے قبیلہٴ بنی تمیم سے شعیب بن صالح ہوں گے“ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ ضروری نہیں ہے کہ شعیب بن صالح امام کے اصحاب ہی میں ہوں لیکن ہم اس کا جواب اس طرح دیں گے کہ دوسری روایت اس بات پر قرینہ ہے کہ وہ امام کے اصحاب میں ہیں ( ۳ )
حسن بصری کہتے ہیں:سرزمین رے میں شعیب بن صالح نامی شخص جس کے چار سبز شانے ہوں گے، اور داڑھی نہ ہوگی خروج کرے گا، اور چار ہزار کا لشکر اس کے ماتحت ہو گا ،ان کے
-------
(۱)الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص ۱۶۷
(۲)ابن حماد، فتن ،ص۱۶۱
(۳)ابن حما د، فتن، ص۸۶؛عقد الدرر، ص۱۲۷ ؛کنزل العمال ،ج۱۴، ص۵۸۸
لباس سفید اور پر چم سیاہ ہوں گے، وہ لوگ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے مقدمة الجیش میں سے ہوں گے۔(۱)
عمار یاسر فرماتے ہیں : شعیب بن صالح حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کاعلمدار ہے۔(۲)
شبلنجی کہتے ہیں: حضرت مہدی کے لشکر کا پیشرو کمانڈر شعیب بن صالح ہے جو قبیلہٴ بنی تمیم سے ہوگا ،اور جس کی داڑھی کم ہوگی۔(۳)
محمد بن حنفیہ کہتے ہیں : خراسان سے سفید پوش ،اورسیاہ کمر بند والے سپاہی چلیں گے، مقدمة الجیش کے علاوہ ایک کمانڈر شعیب بن صالح یا صالح بن شعیب کے نام سے ہوگا جو قبیلہٴ بنی تمیم سے ہے یہ لوگ سفیانی لشکر کو شکست دیکر، بھاگنے پر مجبور کریں گے، اس کے بعد بیت المقدس میں پڑاوٴ ڈالیں گے ،اور حضرت مہدی کی حکومت کی بنیاد ڈالیں گے۔(۴)
۳۔امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے فرزند اسمعٰیل اور عبد ابن شریک
ابو خدیجہ کہتا ہے: امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا :” میں نے خدا سے چاہا کہ میری جگہ(میرے بیٹے)اسماعیل(علیہ السلام) کو قرار دے ،لیکن خدا نے نہیں چاہا، اور اس کے بارے میں ایک دوسرا مقام عطا کیا، وہ پہلا شخص ہے جو دس لوگوں میں حضرت کے اصحاب
-------
(۱)ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۵۳؛الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۲۱۰
(۲)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۵۳؛الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۲۱۱
(۳)نور الابصار ،ص ۱۳۸؛الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۲۱۱
(۴)ابن حماد ،فتن ،ص۸۴؛ابن المنادی، ص۴۷ ؛دارمی، سنن، ص۹۸؛عقد الدرر، ص۱۲۶؛ابن طاوٴس، فتن، ص۴۹
کے ساتھ ظہورکرے گا اور عبد اللہ بن شریک ان دس میں ایک ہے جو اس کاپرچم دار ہوگا۔(۱)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” گویا میں عبد اللہ بن شریک کو دیکھ رہا ہوں جو سیاہ عمامہ پہنے ہوئے ہے، اور عمامہ کا دونوں سرا شانوں پر لٹک رہا ہے، اور چار ہزار سپاہیوں کے ہمراہ حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے آگے آگے پہاڑ کے دامن سے اوپر چڑھ رہا ہے، اور مسلسل تکبیر کہہ رہا ہے“(۲)
عبداللہ بن شریک امام باقر و امام صادق (علیہما السلام )کے حواریوں میں ہیں نیز حضرت امام سجاد و امام باقر (علیہما السلام)سے روایت بھی کی ہے یہ ان دونوں کے نزدیک مورد توجہ بھی تھے۔(۳)
۴۔عقیل و حارث
حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں:” حضرت مہدی لشکر کو تحریک کریں گے، تاکہ عراق میں داخل ہو جائیں ،جب کہ سپاہی آگے آگے اور آپ پیچھے پیچھے حرکت کر رہے ہوں گے، لشکر طلیعہ کا کمانڈر عقیل نامی شخص ہوگا ،اور پچھلے لشکر کی کمانڈری حارث نامی شخص کے ذمّہ ہوگی۔(۴)
۵۔جبیر بن خابور
امام جعفر صادق (علیہ السلام)حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:” یہ شخص (جبیر )جبل الاھواز پرچار ہزار اسلحوں سے لیس لشکر کے ساتھ ہم اہل بیت (علیہم السلام )کے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کا انتظار کررہے ہیں، پھر یہ شخص حضرت کے ہمراہ
-------
(۱)الایقاظ من الھجعہ، ص۲۶۶؛کشی اختیار معرفة الرجال، ص۲۱۷؛ابن داوٴد، رجال، ص۲۰۶
(۲)الایقاظ من الھجعہ، ص۲۶۶؛ملاحظہ ہو:بحار الانوار، ج۵۳،ص۶۷؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۶۱
(۳)مستدرک علم الرجال،ج۵،ص۳۴؛تنقیح المقال ،ج۲،ص۱۸۹
(۴)الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۱۵۸
اورآپ کے ہمرکاب دشمنوں سے جنگ کرے گا۔(۱)
۶۔مفضل بن عمر
امام جعفر صادق(علیہ السلام)نے مفضل سے کہا:” تم دیگر ۴۴/ آدمیوں کے ساتھ حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ہمراہ ہوگے، تم حضرت کے داہنے طرف امر و نہی کروگے ،اور اس زمانے کے لوگ آج کے لوگوں سے زیادہ تمہاری اطاعت کریں گے۔(۲)
۷۔اصحاب کہف
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: اصحاب کہف حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)
-------
(۱)خرائج، ج۱،ص۱۸۵؛بحارالانوار ،ج۴۱، ص۲۶۹؛مستدرکات ،علم رجال الحدیث ،۲:۱۱۸
جبیر بن خابور کے بارے میں کافی تلاش و تحقیق کے باوجود شیعہ و سنی کتابوں میں درج ذیل مطلب کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جبیر بن خابور معاویہ کا خزانہ دار تھا، اس کی ایک ضعیف ماں تھی جو کوفے میں رہتی تھی ،ایک روز جبیر نے معاویہ سے کہا :میرا دل ماں کے لئے تنگ ہو رہا ہے ؛ اجازت دو،تا کہ اس کی زیارت کروں، اور جو میری گردن پر حق ہے ادا کروں ۔
معاویہ نے کہا :کوفہ شہر میں کیا کام ہے ؟وہاں ایک علی ابن ابی طالب نامی جادو گر ہے مجھے اطمینان نہیں ہے کہ تم اس کے فریب میں نہ آوٴ ۔جبیر نے کہا مجھے علی سے کوئی سرو کار نہیں ہے، میں صرف اپنی ماں سے ملاقات اور اس کا کچھ حق ادا کرنے جارہا ہوں، جبیر اجازت لینے کے بعد عازم سفر ہوا، اس وقت کوفہ پہنچا جب حضرت علی جنگ صفین کے بعد شہر کوفہ میں گما شتے چھوڑے ہوئے تھے ،اور رفت و آمد کو کنٹرول کر رہے تھے، گماشتوں نے اسے پکڑ لیا، اور شہر لے آئے علی نے اس سے کہا :” خدا وندعالم کے خزانوں میں تو ایک ہے، معاویہ نے تم سے کہا ہے کہ میں جادوگر ہوں “جبیر نے کہا:خدا کی قسم معاویہ نے ایسا ہی کہا ہے ،حضرت نے کہا :تمہارے ہمراہ کچھ رقم تھی جسے عین التمر نامی علاقہ میں دفن کردی ہے، جبیر نے اس بات کی بھی تصدیق کی،پھر امیر الموٴمنین نے امام حسن کو حکم دیا کہ اس کی مہمان نوازی کریں، دوسرے دن حضرت علی نے اپنے اصحاب سے کہا :یہ شخص جبل الاہواز میں “(باقی مطلب اصل متن میں موجود ہے)
(۲)دلائل الامامہ، ص۲۴۸؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۵۷۳
کی مدد کو آئیں گے۔(۱)
ب) سپاہیوں کی قومیت
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی فوج مختلف قوم وملت سے تعلق رکھتی ہوگی اس سلسلے میں روایات مختلف ہیں کبھی عجم کا ان کے سپاہی میں نام آتا ہے، تو کبھی غیر عرب کا بعض روایتیں ملک اور شہر کا بھی نام بتاتی ہیں، کبھی خاص قوم کا جیسے بنی اسرائیل کے تائب لوگ ، مسیحی مومنین، اوررجعت یافتہ لائق افراد و۔
اس فصل میں اس سلسلے میں بعض روایات ذکر کریں گے۔
۱۔ ایرانی
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانیوں کی معتد بہ تعداد حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے لشکر میں ہوگی، کیونکہ روایات میں اہل رے ،خراساناورگنج ھای طالقان (طالقان کے خزانے) قمی، اوراہل فارس وکے ذریعہ تعبیر ہوئی ہے۔
امام محمدباقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” پرچم والی فوج جو خراسان سے قیام کرے گی کوفہ آجائے گی،اور جب حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) شہر مکہ میں ظہور کریں گے تو ان کی بیعت کرے گی۔(۲)
امام محمدباقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” غیر عرب اولاد میں امام قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے چاہنے والے ۳۱۳/افراد ہوں گے“(۳)
-------
(۱)حصینی، الہدایہ، ص۳۱؛ارشاد القلوب ،ص۲۸۶ ؛حلیة الابرار، ج۵، ص۳۰۳با تفسیر عیّاشی،ج۱، ص۳۲؛داوٴد رقی، نجم بن اعین ،حمران بن اعین اور مسیر بن عبد العزیز جیسے ہیں جن کا روایات میں زندہ ہونے اور امام زمان (عج) کی خدمت میں حاضر ہونے کی طرف اشارہ ہے لہٰذا ہم آیندہ اس کی طرف اشارہ کریں گے
(۲)ابن حماد ،فتن ،ص۸۵؛عقد الدرر ،ص۱۲۹؛الحاوی للفتاوی ،ج۲،ص ۶۹
(۳)نعمانی ،غیبة، ص۳۲۵؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۵۴۷؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۶۹
عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں : رسول خدا نے فرمایا :” تمہاری طاقت (مسلمانوں کی) عجم کے ذریعہ ہوگی، وہ لوگ ایسے شیر ہیں جو کبھی جنگ سے فرار نہیں کریں گے، تمہیں (عربوں کو) قتل کریں گے اور لوٹ لیں گے “(۱)
حذیفہ بھی رسول خدا سے اسی مضمون کی روایت نقل کرتے ہیں ۔ (۲) لیکن اس روایت کی دلالت میں شک و اشکال ہے، روایت کے مطابق ایک دن ایساآئے گا کہ ایرانی اسلام کی وسعت اور تم عربوں سے اسلام لانے کے لئے تلوار چلائیں گے، اور گردنیں اڑادیں گے، اس وقت عربوں کی حالت ناگفتہ بہ ہوگی، اور سخت و دشوار حالات کا انھیں سامنا ہوگا۔
اگر چہ عجم غیر عرب کو کہا جاتا ہے لیکن قطعی طور پر ایرانیوں کو بھی شامل ہے، دوسری روایات کے مطابق ظہور سے قبل اور قیام کے وقت مقدمہ سازی اورراہ ہموار کرنے میں ایرانیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوگا، اور زیادہ تعداد میں جنگ کے لئے آمادہ ہوں گے۔
حضرت علی (علیہ السلام) کے ایک خطبہ میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ناصروں کے اسماء شہر کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ۔
اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں: حضرت علی (علیہ السلام) نے ایک خطبہ کے ضمن میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ان ساتھیوں کا جو حضرت کے ساتھ قیام کریں گے شما ر کیا ،اور کہا:اھواز سے ایک آدمی شوشتر سے ایک، شیراز سے ۳آدمی ،حفص ، یعقوب،علی نامی، اصفہان سے ۴/ موسیٰ، علی،عبد اللہ و غلفان نامی،بروجرد سے ایک قدیم نامی، نہاوند سے ایک عبد الرزاق نامی، ہمدان سے تین(۳) جعفر، اسحق ،موسیٰ نامی ، اور قم سے دس آدمی جو اہل بیت رسول خدا کے ہمنام
-------
(۱)فردوس الاخبار، ج۵، ص۳۶۶
(۲)عبد الرزاق، مصنف ،ج۱۱،ص۳۸۴؛المعجم الکبیر، ج۷، ص۲۶۸ ؛حلیة الاولیاء، ج۳،ص۲۴؛فردوس الاخبار، ج۵،ص۴۴۵
(۳)احتمال ہے کہ قبیلہ ہمدان عرب کے قبیلوں میں سے ہے
ہوں گے، ایک دوسری حدیث میں ۱۸/ آدمی مذکور ہیں۔شیروان سے ۱،خراسان سے ۱،زید نامی اور پانچ زید جو اصحاب کہف کے ہمنام ہوں گے ،آمل سے۱،جرجان سے ۱،دامغان سے ۱،سرخس سے ۱،ساوہ سے ۱،طالقان سے ۲۴ آدمی، قزوین سے ۲،فارس سے ۱، ابھر سے۱،اردبیل سے ۱، مراغہ سے ۳، خوئی سے ۱، سلماس سے ۱، آبادان سے ۳، کازرون سے۱، آدمی ہوگا ۔
پھر حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) نے فرمایا :رسول خدا نے حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ناصروں کی تعداد ۳۱۳/ بیان کی ہے مانند یا ران بدر ۔اور فرمایا: خدا وند عالم انھیں مشرق و مغرب سے پلک جھپکنے سے پہلے کعبہ کے کنارے جمع کر دے گا۔(۱)
حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کے آغاز میں آپ کے مخصوص سپاہیوں کی تعداد ۳۱۳ ہے جیسا کہ مشاہدہ کر رہے ہیں۔
۷۲/ افرادداخل ایران کے شہروں سے ہوں گے اور اگر دلائل الامامة(۲) طبری کی نقل کے مطابق حساب کیا جائے یا ان شہروں کے نام کے اعتبار سے جو اس زمانے میں ایران میں شمار ہوتے تھے ایرانی سپاہیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو جائےگی ۔
اس روایت میں کبھی ایک شہر کا دوبار نام آیا ہے یا یہ کہ ایک ملک سے چند شہر کا نام ہے اس وقت ملک کا نام بھی مذکور ہے۔
روایت کے صحیح ہونے کی صورت میں اس وقت کی تقسیم اور نامگذاری کا پتہ دیتی ہے آج
-------
(۱)ابن طاوٴ س، ملاحم، ص۱۴۶
(۲)دلائل الامامہ ،ج۳۱۶
کی جغرافیائی تقسیم معیار نہیں بن سکتی ،اس لئے کہ نام بدل گئے ہیں کبھی ایک شہر کانام اس وقت ملک کا نام تھا موجود ہ جغرافیائی نقشہ پر ان شہروں کے نام کی مطابقت کرنے سے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ حضرت کے ناصرو یاور دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔اور ممکن ہے کہ خصوصیت کے ساتھ لفظ ”افر نجہ“کا روایت میں ذکر یورپ زمین کی طرف اشارہ ہو، اگر یہ بات اور مطابقت صحیح ہوتو روایت کا جملہ ”لو خلیت قلبت“بامعنی ہو جائے گا اس لئے کہ زمین کسی وقت نیک افراد سے خالی نہیں رہے گی ورنہ نابود و فنا ہو جائے ۔
دوسری روایات میں خصوصاً شہروں کے نام مذکور ہیں کہ یہاں پر چند شہروں کے نام مانند قم ،خراسان اورطالقان پر اکتفاء کرتے ہیں ۔
قم
امام جعفر صادق (علیہ السلام) ”قم“ کے بارے میں فرماتے ہیں : شہر قم پاکیزہ و مقدس ہے کیا تمہیں نہیں معلوم کہ وہ لوگ ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ناصر و مدد گار اور حق کی دعوت دینے والے ہیں ؟“(۱)
عفان بصری کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) مجھ سے فرماتے تھے: ” کیا تم جانتے ہو کہ شہر قم کو ”قم“ کیوں کہتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا : خدا اور رسول اور آپ بہتر جانتے ہیں، توآپ نے کہا: ”اس لئے کہ قم کے لوگ قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ساتھ رہیں گے اور ان کی ثبات قدمی کے ساتھ مدد کریں گے “(۲)
خراسان
امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں : رسول خدا نے فرمایا کہ خراسان میں
-------
(۱)عن ابی عبد اللہ الصادق علیہ السلام ”تربة قم مقدسة اما و انھم انصار قائمنا و دعاة حقنا “؛ بحارالانوار،ج۶۰ ، ص۲۱۸
(۲)بحار الانوار، ج۶۰،ص۲۱۶
ایسے خزانے ہیں جو سونے چاندی کے نہیں ہیں بلکہ ایسے ہیں جن کا عقیدہ خدا او ر رسول پر ان کو ایک جگہ جمع کر دے گا۔(۱) شاید ان کی مراد یہ ہو کہ ان کا خدا ورسول پر اعتقاد اشتراکی ہو یا یہ کہ سب کو خداوند عالم مکہ میں یکجا کردے گا۔
طالقان
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” طالقان والوں کے لئے مژدہ و خو شخبری ہے! اس لئے کہ خدا وند عالم کا وہاں سونے اور چاندی کے علاوہ خزانہ ہے؛ یعنی وہاں مومنین ہیں جو خدا کو حق کے ساتھ پہچانتے اور وہی لوگ آخر زمانہ میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے یاور و مدد گار ہوں گے “(۲)
۲۔عرب
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ساتھ قیام کے بارے میں عربوں سے متعلق دو طرح کی روایتیں ہیں بعض حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے انقلاب میں ان کی عدم شرکت پر دلالت کرتی ہیں ،اور کچھ روایتیں عرب ممالک کے کچھ شہروں کا نام بتاتی ہیں کہ وہاں سے کچھ لوگ حضرت کی پشت پناہی میں قیام کریں گے۔
جو روایات عربوں کے شرکت نہ کرنے پر دلالت کرتی ہیں، اگر سند صحیح ہو تو بھی قابل توجیہ ہیں اس لئے کہ ممکن ہے کہ حضرت کے آغاز قیام میں مخصوص سپاہیوں میں عرب شامل نہ ہوں، جیسا کہ شیخ حر عاملی ۺ اپنی کتاب اثبات الہداة میں ایسی ہی تشریح کرتے ہیں ،اور جو عربی شہروں کے روایت میں نام بتائے گئے ہیں ممکن ہے وہاں سے غیر عرب سپاہی حضرت کی مدد کے لئے آئیں
-------
(۱)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۴۷؛روضة الواعظین، ص۳۱۰؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۰۴
(۲)کشف الغمہ، ج۳ ،ص۲۶۸؛کنزل العمال، ج۱۴،ص۵۹۱؛شافعی ،بیان، ص۱۰۶؛ینابیع المودة ،ص۹۱
نہ وہ لوگ جو اصل عرب ہوں یا یہ کہ اس سے مراد عربی حکومتیں ہیں ۔اس طرح کی روایات پر توجہ کیجئے۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ”عربوں سے بچو اس لئے کہ ان کا مستقبل خراب و خطر ناک ہے کیا ایسا نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ساتھ قیام نہیں کرے گا “(۱)
شیخ حر عاملی ۺ فرماتے ہیں : شاید امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی گفتگو کا مطلب یہ ہو کہ آغاز قیام میں وہ شرکت نہیں کریں گے، یا کنایہ ہو کہ اگر شرکت کریں گے تو ان کی تعداد کم ہوگی ۔
رسول خدا فرماتے ہیں : سر زمین شام سے شریف و بزرگ لوگ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) سے متمسک ہوں گے، نیز شام کے اطراف سے مختلف قبیلے کے لوگو ں کے دل فولاد کے مانند ہیں، وہ لوگ شب کے پاکیزہ سیرت اور دن کے شیرہیں“(۲)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ۳۱۳/ افراد جنگ بدر والوں کی تعداد میں رکن و مقام (کعبہ) کے درمیان حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی بیعت کریں گے ،ان لوگوں میں بعض بزرگ مصر اور بعض نیک خو شام سے اور بعض پاکیزہ سیرت عراق سے ہوں گے، حضرت جب تک خدا کی مرضی ہوگی حکومت کریں گے“(۳)
نیزامام محمد باقر(علیہ السلام) شہر کوفہ کے بارے میں فرماتے ہیں :”جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے تو خدا وند عالم ۷۰/ ہزار افراد کو کوفہ کی پشت سے(نجف) جو سچے اور صادق ہوں گے مبعوث کرے گا وہ لوگ حضرت کے اصحاب و انصار میں ہوں گے“(۴ )
-------
(۱)طوسی، غیبة، ص۲۸۴؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۱۷؛بحار الانوار ،ج۵۲،ص۳۳۳
(۲)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۴۲؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۰۴
(۳)طوسی، غیبة، چاپ جدید، ص۴۷۷؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۳۴؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۱۸
(۴)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۴۳؛ینابیع المودة، ج۲، ص۴۳۵؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۴۵۶
مختلف ادیان کے پیرو کار
مفضل کہتے ہیں: امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا :” جب قائم آل محمد (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے تو کچھ لوگ کعبے کی پشت سے ظاہر ہوں گے جو درج ذیل ہیں۔ موسیٰ(علیہ السلام) کی قوم سے ۲۸/ آدمی۔جو حق کا فیصلہ کریں گے،۷/ آدمی اصحاب کہف سے،یوشع جناب موسیٰ کے وصی ،مومن آل فرعون ، (۲)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” ارواح مومنین آل محمد کو رَضْوٰی نامی پہاڑ میں مشاہدہ کریں گی، اور انھیں کے کھانے اور پانی سے شکم سیر ہوں گی، ان کی مجلسوں میں شرکت کریں گی، اور ان سے ہم کلام ہوں گی، جب تک کہ ہمارے قائم آل محمد(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام نہ کریں ،جب خدا وند عالم ان کو مبعوث کرے گا تو ،گروہ درگروہ آکر حضرت کی دعوت قبول کریں گی اور حضرت کے ساتھ آئیں گی، اس وقت باطل عقیدے والے شک و تردید میں پڑجائیں گے اور پارٹیاں ،احزاب،حمایت ، طرفداری اور پیروی کے دعویدار ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے، اور مقرب الٰہی (مومنین) نجات پائیں گے “(۳)
ابن جریح کہتے ہیں :میں نے سنا ہے کہ جب بنی اسرائیل کے بارہ۱۲/ قبیلوں نے اپنے نبی کو قتل کر ڈالا ،اور کافر ہوگئے ،تو ایک قبیلہ اس رفتار سے پشیمان ہوا، اور اپنے گروہ سے بیزار ہو کر خداوند عالم سے خود کو دیگر قبیلوں سے جداہونے کی درخواست کی خدا وند عالم نے زمین کے
-------
(۱)اس کا نام سماک بن خرشہ ہے، مرحوم مامقانی اس کے بارے میں کہتے ہیں : میں اسے اچھا سمجھتا ہوں (تنقیح المقال ، ج۲، ص۶۸)
(۲)روضة الواعظین، ج۲،ص۲۶۶
(۳)کافی ،ج۳ ،ص۱۳۱؛الایقاظ ،ص۲۹۰؛بحا رالاانوار ،ج۲۷،ص۳۰۸
نیچےایک سرنگ بنادی اور وہ لوگ ڈیڑھ سال تک اس میں چلتے رہے، یہاں تک کہ سرزمین چین کی پشت سے باہر آئے اور ابھی وہیں زندگی گذا ر رہے ہیں، وہ لوگ مسلمان ہیں، اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں ۔(۱)
بعض لوگ کہتے ہیں : جبرئیل شب معراج، رسول خدا کو ان کے پاس لے گئے، تو حضرت نے قرآن کے مکی سوروں میں سے دس سورہ کی تلاوت کیتو وہ لوگ ایمان لے آئے،اور آپ کی رسالت کی تصدیق کی ،رسول خدا نے انھیں حکم دیا کہ یہیں پر قیام کریں، اور سنیچر کو (یہودیوں کی تعطیل کے روز) اپنے کاموں کو ترک کردیں ،نماز برپا کریں، اور زکاة دیں، ان لوگوں نے بھی قبول کیا، اور اس وظیفے کو انجام دیا (۲) اور ابھی کوئی دوسرا فریضہ واجب نہیں ہوا تھا۔
ابن عباس کہتے ہیں : آیہ مبارکہ <وَ قُلْنَا مِنْ بَعْدِہِ لِبَنِیْ اِسْرَائِیِل اسْکُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَاْ جَاءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَاْ بِکُمْ لفیفاً>(۳)اس کے بعد بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ اس زمین پر سکو نت اختیار کریں اور جب وعدہ آخرت آپہنچے گا تو وہاں سے تمہیں بلالیں گے،
لوگوں نے کہا ہے کہ آخری وعدہ سے مراد، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ظہور ہے، کہ جب آنحضرت کے ساتھ بنی اسرائیل قیام کریں گے؛ لیکن ہمارے اصحاب روایت کرتے ہیں کہ وہ لوگ حضرت قائم آل محمد (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہمراہ قیام کریں گے۔(۴)
-------
(۱)بحا رالاانوار، ج۵۴،ص۳۱۶
(۲)بحا رالاانوار، ج۵۴،ص۳۱۶
(۳)سورہ ٴ اسراء (بنی اسرائیل ) آیت ۱۰۴
(۴)بحا رالاانوار، ج۵۴،ص۳۱۶
آیہ شریفہ <وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰی اُمَةٌ یَھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِہیں یَعْدِلُوْن>۔(۱)”حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے ایک ایک گروہ ہدایت پائے گا اور اس دین کی طرف لوٹ آئے گا (لوگوں کو دین اسلام اور قرآن کی دعوت دیں گے )
مرحوم مجلسیۺ فرماتے ہیں: وہ امت کون ہے اس میں اختلاف نظر ہے۔
بعض جیسے ابن عباس کہتے ہیں کہ وہ وہی قوم ہے جو چین کی طرف زندگی گذارتی ہے، نیز ان کے اور چین کے درمیان ریتیلے بیابان کا فاصلہ ہے، وہ لوگ کبھی حکم الٰہی میں تبدیلی نہیںلائیں گے۔ (۲)
امام محمد باقر(علیہ السلام) ان کی وصف میں فرماتے ہیں :” وہ لوگ کسی مال کو اپنے سے مخصوص نہیں سمجھتے، مگر یہ کہ اپنے دینی بھائی کو اس میں شریک کریں ،وہ رات کو آرام اور دن کو کھیتی باڑی میں مشغول رہتے ہیں لیکن ہم میں سے کوئی ان کی سر زمین تک اور ان میں سے کوئی ہماری سر زمین تک نہیں آئے گا ،وہ لوگ حق پر ہیں۔(۳)
آیہ شریفہ <وَمِنَ الَّذِیْنَ قَاْلُوْا اِنَّانَصَاَرَیٰ اَخَذْنَاْ مِیْثَاقَھُمْ فَنَسُوْا حَظَّامِمَّا ذُکِرُوْ ا بِہیں>۔(۴)
ان میں سے بعض نے کہا: ہم عیسائی ہیں ،تو ہم نے ان سے عہد و پیمان لیا کہ وہ کتاب الٰہی اور رسول خدا کے پیرو رہیں گے،ان لوگوں نے انجیل میں مذکور پند و نصیحت کو بھلا دیا اور حق کے مخالف ہوگئے ۔
-------
(۱)سورہ ٴ اعراف، آیت ۱۵۹
(۲)بحا رالاانوار ،ج۵۴،ص۳۱۶
(۳)بحا رالاانوار، ج۵۴،ص۳۱۶
(۴) سورہ ٴ مائدہ، آیت ۱۴
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:” نصاریٰ اس راہ و روش کو یاد کریں گے اور حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہمراہ ہو جائیں گے “(۱)
۴۔جابَلْقَاْ و جَاْبَرْسَا۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:” خدا وند عالم کا مشرق میں جابلقا نامی شہر ہے اس میں بارہ ہزار سونے کے دروازے ہیں ایک درسے دوسرے در کا فاصلہ ایک فرسخ ہے ۔ہر در پر ایک برجی ہے جس میں ۱۲/ ہزار پر مشتمل لشکر رہتا ہے وہ اپنے تمام جنگی سامان و ہتھیار و تلوار سے آمادہ حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے منتظر ہیں، نیز خدا وند عالم کا ایک شہر جابرسا نامی مغرب میں ہے (انھیں تمام خصوصیات کے ساتھ)اور میں ان پر خدا کی حجت ہوں ‘۔ ‘ (۲)
اس کے علاوہ متعدد روایات پائی جاتی ہیں کہ ان شہروں اور زمینوں کے علاوہ بھی شہروں کا وجود ہے کہ جہاں کے لوگ بھی خدا کی نافرمانی نہیں کرتے، مزید معلومات کے لئے بحار الانوار کی ۵۴ویں جلد کا مطالعہ کیجئے تمام روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) پوری دنیا میں آمادہ لشکر اور چھاوٴنی رکھتے ہیں جو ظہور کے وقت جنگ کریں گے، لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ برسوں پہلے مر چکے ہیں،خدا وند عالم انھیں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی مدد کے لئے دو بارہ زندہ کرے گا،اور وہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے ،اور رجعت کریں گے،(۳)
-------
(۱)کافی ،ج۵ ،ص۳۵۲؛التہذیب ،ج۷، ص۴۰۵؛الوسائل الشیعہ، ج۱۴،ص۵۶؛نورا لثقلین، ج۱، ص۶۰۱؛تفسیر برہان، ج۱،ص۴۵۴؛ینابیع المودة، ص۴۲۲
(۲)بحار الانوار، ج۵۴،ص۳۳۴وج۲۶،ص۴۷
(۳)شیعوں کا عقیدہ ہے کہ اسی دنیا میں حضرت مہدی (عج) کے ظہور کے بعد کچھ مومنین اور کچھ کفار دوبارہ زندہ کئے جائیں گے، اور دنیامیں واپس آئیں گے اس سلسلے میں دسیوں روایتیں موجود ہیں، مرحوم آیة اللہ والد محترم نے شیعہ و رجعت کی دوسری جلد میں بسط و تفصیل سے گفتگو کی ہے آخر میں اس کتاب کو حجة الاسلام میر شاہ ولد نے ستارہٴ درخشاں کے نام سے ترجمہ کر کے شایع کیا ہے اور ۱۵/ سال قبل اس ناچیز کی طرف سے رجعت اور نظر شیعہ کے عنوان سے ایک جزوہ شایع ہوا ہے جو والد مرحوم کی تقریروں اور نوشتوں سے مستفاد ہے
اورمشغول جہاد ہوجائیں گے۔(۱)
نیز حمران اور میسر کے بارے میں فرماتے ہیں : گویا حمران بن اعین اور میسر بن عبد العزیز کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ لوگ تلوار ہاتھوں میں لئے صفاو مروہ کے درمیان لوگوں کو خطبہ دے رہے ہیں۔“(۲)
آیة اللہ خوئی ۺ معجم الرجال الحدیث میں ((یخبطان الناس))شمشیر سے مارنے کی تفسیر کرتے ہیں ۔(۳)
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے داوٴد رقی کی طرف نگاہ کرکے کہا: ”جو حضرت قائم کے انصار کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس شخص کو دیکھے ۔(یعنی یہ شخص حضرت کے ناصر وں میں ہے) اور دوبارہ زندہ کیا جائے گا ۔“(۴)
ج)سپاہیوں کی تعداد
حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے لشکر اور ان کے ساتھیوں کے سلسلے میں مختلف روایتیں ہیں، بعض روایتیں ۳۱۳/ کی تعداد بتاتی ہیں بعض دس ہزار اور اس سے زیادہ بتاتی ہیں۔ یہاں پر دو نکتے قابل ذکر ہیں۔
-------
(۱)الایقاظ من الھجعہ، ص۲۶۹
(۲)کشی، رجال، ص۴۰۲؛الخلاصہ ،ص۹۸؛قہبائی، رجال ،ج۲،ص ۲۸۹؛الایقاظ، ص۲۸۴؛بحا رالانوار، ج۵۴، ص۴؛معجم رجال الحدیث ،ج۶ ،ص۲۵۹
(۳)داوٴد کے ثقہ ہونے کے سلسلے میں علماء رجال نے شرح و بسط سے گفتگو کی ہے بعض نے اس روایت کو ضعیف اور بعض نے اسے موثق جانا ہے ،دوسری روایت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:”داوٴد کا میرے نزدیک وہی مقام ہے جو مقداد کا رسول اللہ کے نزدیک تھا(تنقیح المقال، ج۲،ص۴۱۴)
(۴)الایقاظ ،ص۲۶۴
الف)روایت میں ۳۱۳/ کی تعداد حضرت کے خاص الخاص جو آغاز قیام میں حضرت کے ہمراہ ہوں گے اور وہی لوگ امام زمانہ کی عالمی حکومت میں کار گزاروں میں ہوں گے ؛(یعنی وزراء سفراؤ )
جیسا کہ مرحوم اردبلی ۺ کشف الغمہ میں فرماتے ہیں : دس ہزار والی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کے سپاہیوں کی تعداد ۳۱۳/ میں محدود نہیں ہے ، بلکہ یہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو حضرت کے قیام کے آغاز میں ان کے ہمراہ ہوں گے۔
ب)چار ہزار ،دس ہزار سپاہیوں کی تعدادو جیسا کہ بعض روایات میں بیان کیا گیا ہے حضرت مہدی(عج)کی پوری فوج کی تعداد نہیں ہے؛بلکہ جس طرح روایات سے استفادہ ہوتا ہے۔کہ ان میں سے ہر ایک شمارہ ان افواج کی نشاندہی کرتا ہے جو ظہور کے وقت یا جنگ کے کسی خاص موقع پر دنیا کے گوشہ سے شریک ہوں گے شاید اس کے علاوہ کوئی اور بات ہو جسے ہم نہیں جانتے اوروہ حضرت کے ظہور کے وقت روشن ہو۔
۱۔مخصوص افواج
ظبیان کے بیٹے یونس کہتے ہیں : میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں تھا کہ حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصار کی بات چلنے لگی توآ پ نے کہا:” ان کی تعداد ۳۱۳/ ہے ان میں سے ہر ایک خودکو ۳۰۰ /میں سمجھتا ہے“ (۱)
دو احتمال پائے جاتے ہیں:
۱۔ ہر ایک کی جسمی توانائی ۳۰۰/ سو کے برابر ہے جیسا کہ اُس وقت ہر مومن کی توانائی ۴۰/ مرد کے برابر ہوگی،
۲۔ہر ایک ۳۰۰/ سو فوج رکھتے ہیں کہ خود کو ۳۰۰/ کی تعداد کے درمیان دیکھتے ہیں جو ان
-------
(۱)دلائل الامامہ ،ص۳۲۰؛المحجہ، ص۴۶
کے ماتحت ہیں اس احتما ل کی بناء پر وہ لوگ ۳۰۰/ پر الگ الگ مشتمل فوج کی کمانڈری کریں گے ، اور احتمال ہے کہ وہی ظاہر لفظ مراد ہو یعنی ہر ایک خود کو ۳۰۰/ میں ایک سمجھتا ہے جیسا کہ بعض نے کہا ہے ۔
امام زین العابدین (علیہ السلام) فرماتے ہیں : جو لوگ حضرت کی مدد کے لئے اپنے بستر سے غائب ہوجائیں گے ان کی تعداد ۳۱۳/ کی تعداد اہل بدر کی تعداد ہے،اور اس شب کی صبح یعنی دوسرے دن وہ مکہ میں اکٹھا ہوں گے ۔(۱)
امام جواد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: رسول خدا نے فرمایا : امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) سر زمین تھامہ سے ظہور کریں گے، اس میں سونے اور،چاندی کے علاوہ خزانہ ہے،وہ لوگ اصحاب بدر کی تعداد میں قوی گھوڑے اور نامی گرامی مرد ہیں، وہ ۳۱۳/ میں جو دنیا سے ان کے ارد گرد آئیں گے مہر کردہ کتاب حضرت کے سا تھ ہے، جس پر ساتھیوں کی تعدا د نام اور شہر ،قبیلہ،کنیت نیز تمام پہچان کے ساتھ اس پر لکھی ہوئی ہے ،وہ سب کے سب حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی اطاعت کے لئے کو شش کریں گے “(۲)
رسول خدا فرماتے ہیں ”لوگ پرندوں کی مانند ان کے گرد جمع ہوجائیں گے، تاکہ ۳۱۴/ مرد جس میں عورتیں بھی ہوں گی ان کے پاس آئیں گے، اور آنحضرت ہر ظالم اور اولاد ظالم پر کامیاب ہوں گے، اور ایسی عدالت قائم ہوگی کہ لوگ آرزوکریں گے کہ کاش مردے زندوں کے درمیان ہوتے، اور عدالت سے فیضیاب ہوتے“(۳)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اپنے ۳۱۳/ ساتھی جو اہل بدر کی تعداد میں ہیں ۔کے ہمراہ کسی آگاہی اور پہلے سے کوئی وعدہ کئے بغیر ظاہر
-------
(۱)کمال الدین، ج۲، ص۶۵۴؛عیاشی، تفسیر ،ج۲،ص۵۶؛نور الثقلین، ج۱،ص۱۳۹و ج ۴، ص۹۴؛بحا رالانوار، ج ۲ ۵ ، ص۳۲۳
(۲)عیون اخبار رضا، ج۱، ص۵۹؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۱۰
(۳)مجمع الزوائد ،ج۷ ،ص۳۱۵
(۴)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۶۴؛الفتاوی الحدیثیہ، ج۳۱
ہوجائیں گے ؛جب کہ وہ بہارکے بادل کی طرح پرا کندہ ہیں وہ لوگ دن کے شیر اور رات کے رازو نیاز کرنے والے ہیں ۔“(۴)
ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:” عنقریب ۳۱۳/ آدمی تمہاری مسجد(مکہ) میں آئیں گے، مکہ والے جانتے ہیں کہ یہ اپنے آباوٴ واجداد کی طرف منسوب نہیں ہیں ،(اور مکہ والوں میں سے بھی نہیں ہیں) ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک تلوار ہوگی ،اور تلوار پر لکھا ہو گا کہ اس کلمہ سے ہزار کلمے(مشکل) حل ہوں گے “(۱)
بعض روایات میں ان بعض کا نام بھی درج ہے کہ اس سلسلے میں دو روایت پر اکتفاء کر ر ہا ہو ں ۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) مفضل بن عمر سے فرماتے ہیں : تم اور ۴۴/ آدمی اور حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوستوں اور چاہنے والوں میں سے ہوں گے۔شاید ۴۴کی تعداد سے مراد امام جعفر صادق کے اصحاب ہوں۔(۲)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :”جب حضرت قائم آل محمد(عجل اللہ تعالی فرجہ)ظہورکریں گے تو ۲۷/ آدمی کعبہ کی پشت سے ظاہرہوں گے اور ۲۵/ آدمی موسیٰ کی قوم سے،جو سارے کے سارے حق کے ساتھ قاضی اور عادل ہوں گے،زندہ ہوں گے اور ۷/ آدمی اصحاب کہف سے،یوشع وصی موسیٰ،مومن آل فرعون،سلمان فارسی ، ابو دجانہ انصاری ، مالک اشتر دنیا میں لو ٹائے جائیں گے، (۳) اور بعض روایات میں مقداد بن اسود کا بھی نام ہے، روایات کے مطابق فرشتے نیک لوگوں کو مقامات مقدسہ (کعبہ)میں منتقل کریں گے۔(۴)
اس بناء پر شاید ان کے جسم کعبہ کے کنارے منتقل کئے جا چکے ہیں، اور ان کا دوبارہ زندہ ہونا
-------
(۱)کمال الدین، ج۲، ص۶۷۱؛بصائر الدرجات ،ص۳۱۱؛بحا رالانوار ،ج۵۲، ص۲۸۶
(۲)دلائل الامامہ ،ص۲۴۸؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۵۷۳
(۳)روضة الواعظین، ص۲۶۶؛اثبات الہداة ،ج۳ ،ص۵۵
(۴)دررالاخبار، ج۱،ص۲۵۸
اور رجعت بھی وہیں سے ہوگی، ایک دوسری روایت کے مطابق، شاید یہ جگہ کوفہ شہر کی پشت (نجف) ہو، تو پھر روایت کے معنی صحیح ہو جائیں گے،اس لئے کہ ان کے جسم وہاں یعنی نجف اشرف منتقل ہو چکے ہیں، شایان ذکر یہ ہے کہ یہ لوگ زمانے کے طاغوت کے خلاف سیاسی اور فوجی سابقہ رکھتے ہیں، خصوصا! ،سلمان فارسی،ابو دجانہ ،مالک اشتر ، مقداد جنھوں نے صدرا سلام کی جنگوں میں شرکت کی ہے، اور اپنی ہدایت و راہنمائی کا اظہار کیا ہے، بعض لوگ تو کمانڈری کا بھی سابقہ رکھتے ہیں ۔
۲۔حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی فوج
ابو بصیر کہتے ہیں : ایک کوفے کے رہنے والے نے امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے پوچھا: حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ساتھ کتنے لوگ قیام کریں گے؟ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ہمراہ اہل بدر کی تعدا د کے بقدر سپاہی ہوں گے یعنی ۳۱۳/ آدمی، امام (علیہ السلام) نے کہا:” حضرت مہدی توا نااور قوی فوج کے ساتھ ظہور کریں گے، اوریہ قوی فوج دس ہزار سے کم نہ ہوگی“(۱)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں: جب خدا وند عالم حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کو قیام کی اجازت دے گا تو ۳۱۳/ افراد ان کی بیعت کریں گے، آنحضرت مکہ میں اس وقت تک توقف کریں گے جب تک کہ ان کے اصحاب کی تعداد دس ہزار نہ ہو جائے، پھر اس وقت مدینہ کی سمت حرکت کریں گے ۔(۲)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کم سے کم بارہ ہزاراور زیادہ سے زیادہ ۱۵/ ہزار لشکر کے ساتھ ظہور کریں گے، آپ کی فوجی طاقت کا
-------
(۱)کما ل الدین ،ج۲،ص۶۵۴؛عیاشی ،تفسیر، ج۱،ص۱۳۴؛نور الثقلین ،ج۴،ص۹۸؛ج۱، ص۳۴۰؛العدد القویہ، ص۶۵؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۴۸
(۲)المتجاد، ص۵۱۱
رعب و دبدبہ سپاہیوں کے آگے آگے ہوگا، کوئی دشمن ان کے سامنے نہیں آئے گا، مگر شکست کھا جائے گا ،آنحضرت اور آپ کے سپاہی راہ خدا میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے، آپ کے لشکر کا نعرہ ہوگا ((مار ڈالو مار ڈالو))(۱)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:” حضرت اس وقت ظہور کریں گے جب ان کی تعداد پوری ہو جائے گی “راوی نے پوچھا: ان کی تعداد کتنی ہے؟ حضرت نے کہا: ((دس۱۰/ہزار))(۲)
شیخ حر عاملیۺ کہتے ہیں : روایت میں مکمل فوج کی تعداد ایک لاکھ ہے۔(۳)
۳۔ حفاظتی گارڈ
کعب کہتے ہیں : ایک ہاشمی مرد بیت المقدس میں ساکن ہوگا، اس کی محافظ فوج کی تعداد ۱۲/ ہزار ہے، اور ایک دوسری روایت میں محافظوں کی تعداد ۳۶/ ہزار ہے، اور بیت المقدس تک منتہی ہونے والے ہر بڑے راستوں پر ۱۲/ ہزار فوج لگی ہوگی ۔(۴)
البتہ کلمہ حرس جو روایت میں آیا ہے، اعوان و انصار کے معنی میں بھی ہے، اگر چہ یہ معنی حدیث کے عنوان سے مناسب نہیں ہے، اس لئے کہ ممکن ہے کہ حضرت کے اعوان و انصار مرادہوں ۔
د)سپاہیوں کا اجتماع
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے ،حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے لشکر والے دنیا کے گوشہ و کنار سے ان کے پاس اکٹھا ہو جائیں گے حضرت کے سپاہی کس طرح قیام اور مکہ میں کیسے جمع
-------
(۱)ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۶۵
(۲)نعمانی، غیبة، ص۳۰۷ ؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۵۴۵
(۳)اثبات الہداة، ج۳، ص۵۷۸؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۰۷،۳۶۷؛بشار ة الاسلام، ص۱۹۰
(۴)ابن حماد، فتن ،ص۱۰۶؛عقد الدرر ،ص۱۴۳
ہو جائیں گے مختلف روایتیں ہیں ؛بعض لوگ رات کو بستر پر سوئیں گے، اور امام کے حضورحاضر ہوں گے ؛بعض طی الارض(کم مدت میں طولانی سفر کا ہونا)کے ذریعہ حضرت سے جاملیں گے، اور بعض افراد قیام سے آگاہ ہونے کے بعد بادلوں کے ذریعہ حضرت کے پاس آئیں گے ۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :جب حضرت مہدی کو خروج اور قیام کی اجازت دی جائے گی تو عبری زبان میں خدا کو پکاریں گے، اس وقت ان کے اصحاب، جن کی تعداد ۳۱۳/ ہے اور بادلوں کے مانند پر اکندہ ہیں =آمادہ ہو جائیں گے، یہی لوگ پر چم دار اور کمانڈر ہیں، بعض لوگ رات کو بستر سے غائب ہو جائیں گے، اور صبح کو خود کو مکہ میں پائیں گے، اور بعض لوگ دن میں بادل پر سوار دیکھائی دیں گے ،یہ اپنے نام و نسب اور شہرت سے پہچانے جائیں گے“(۱ )
مفضل بن عمر کہتے ہیں : میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہوجاوٴں؛ کون گروہ ایمان کے لحاظ سے بلند مرتبہ پر فائز ہو گا؟آپ نے فرمایا: جو ابر کی بلندی پر سوار ہوں گے وہی لوگ غائب ہونے والوں میں ہیں، جن کی شان میں یہ آیہ کریمہ ہے:<اَیْنَ مَا تَکُوْنُوا یَاٴتِ بِکُمُ اللّٰہ جمیعاً>؛(۱)
”تم لوگ جہاں بھی ہوگے خدا وند عالم یکجا کر دے گا“
رسول خدا فرماتے ہیں : تمہارے بعد ایسا گروہ آئے گا، کہ زمین ان کے قدموں تلے سمٹے گی، اور دنیا ان کا استقبال کرے گی، فارس کے مردو عورت ان کی خدمت کریں گے، زمین
-------
(۱)کمال الدین ،ج۲،ص۶۷۲؛عیاشی ،تفسیر ،ج۱،ص۶۷؛نعمانی ،غیبة، ص۳۱۵؛بحا رالانوار، ج۲، ص۳۶۸؛ کافی، ج۸، ص۳۱۳؛المحجة، ص۱۹
(۲)سورہ ٴ بقرہ، آیت ۱۴۸
پلک جھپکنے سے پہلے سمٹ جائے گی، اس طرح سے کہ ان میں سے ہر ایک شرق و غرب کی ایک آن میں سیر کرلے گا، وہ لوگ اس دنیا کے نہیں ہیں ،اور نہ ہی اس میں ان کا کوئی حصہ ہے“(۱)
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے شیعہ اور ناصر دنیا کے گوشے سے ان کی طرف آئیں گے، زمین ان کے قدموں میں سمٹ جائے گی، اور طی الارض کے ذریعہ امام تک پہنچ جائیں گے، اور آپ کی بیعت کریں گے “(۲)
عجلان کے بیٹے عبد اللہ کہتے ہیں : امام صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کی بات چلی تو میں نے حضرت سے کہا: حضرت کے ظہور سے ہم کیسے باخبر ہوں گے ؟ آپ نے کہا: صبح کو اپنے تکیہ کے نیچے ایک خط پاوٴگے جس میں تحریر ہوگا کہ حضرت مہدی کی اطا عت اچھا اور نیک کام ہے“(۳)
امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں : خدا کی قسم اگر ہمارے قائم قیام کریں گے تو خداوندعالم ،شیعوں کو تمام شہروں سے ان کے قریب کر دے گا،(۴) نیز امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : جب ہمارے شیعہ ،چھتوں پر سوئے ہوں گے تو اچانک ایک شب بغیر کسی وعدہ کے، حضرت کے پاس لائے جائیں گے، اس وقت سبھی صبح کے وقت حضرت کے پاس ہوں گے۔ (۵)
-------
(۱)فردوس الاخبار، ج۲،ص۴۴۹
(۲)روضة الواعظین، ج۲،ص۲۶۳؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۴۵عقدد الدرر،ص۶۵
(۳)بحارالانوار، ج۵۲،ص۳۲۴؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۸۲؛ترجمہٴ جلد ۱۳؛بحار الانوار، ص۹۱۶
(۴)مجمع البیان ،ج۱،ص۲۳۱؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۲۴؛نور الثقلین ،ج۱،ص۱۴۰؛بحا رالانوار ،ج۵۲، ص۲۹۱
(۵)نعمانی ،غیبة، ص۳۱۶؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۹۸؛بشارة الاسلام، ص۱۹۸
ھ)سپاہیوں کی قبولیت کے شرائط اور امتحان
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصار= جن کی تعداد ۳۱۳/ ہے =ان(حضرت) کی سمت جائیں گے ،اور اپنی گمشدہ چیز پالیں گے، اور سوال کریں گے :کیا تمہیں مہدی موعودہو ؟تو آپ فرمائیں گے : ہاں،میرے ساتھیو!اس کے بعد دوبارہ غائب ہو کر مدینہ چلے جائیں گے ،جب حضرت کے انصار کو خبر ہو گی، راہی مدینہ ہو جائیں گے اورجب وہ لوگ مدینہ پہنچیں گے ،تو امام پو شیدہ طور پر مکہ واپس آجائیں گے، انصا ر حضرت سے ملنے کے لئے مکہ جائیں گے، پھر دوبارہ حضرت مدینہ آجائیں گے، اور جب چاہنے والے مدینہ پہنچیں گے توحضرت مکہ کا قصد کرلیں گے اسی طرح تین بار تکرارہوگی۔
امام (علیہ السلام) اس طرح چاہنے والوں کو آزمائیں گے، تاکہ ان کی پیروی و اطاعت کا معیا ر معلوم ہوجائے، اس کے بعد صفاو مروہ کے درمیان،کعبہ میںظاہر ہوں گے، اور اپنے چاہنے والوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے کہ میں اس وقت تک کوئی کام نہیں کروں گا جب تک تم لوگ شرائط کے ساتھ میری بیعت نہ کرو، اور اس پر پابند نہ رہو، اور ذرا بھی کوئی تبدیلی نہ ہو میں بھی آٹھ چیز وں کا وعدہ کرتا ہوں توسارے اصحاب جواب دیں گے: ہم مکمل تسلیم ہیں ،اور آپ کی پیروی کریں گے،جو شرائط رکھنا چائیں رکھ دیں بتایئے وہ شرائط کیا ہیں؟
حضرت مکہ میں صفا پہاڑی کی طرف جائیں گے تو ان کے انصار بھی پیچھے پیچھے جائیں گے وہاں ان سے مخاطب ہو کر کہیں گے: ”تم سے ان شرائط کے ساتھ عہدو پیمان کرتا ہوں:
۱۔میدان جنگ سے فرار نہیں کرو گے۔
۲۔چوری نہیں کروگے۔
۳۔ناجائز کام نہیں کروگے۔
۴۔حرام کام نہیں کروگے۔
۵۔ منکر و بُرے کام انجام نہیں دوگے۔
۶۔کسی کو ناحق نہیں ماروگے۔
۷۔سونا چاندی ذخیرہ نہیں کروگے۔
۸۔جَو، گیہوں ذخیرہ نہیں کروگے۔
۹۔کسی مسجد کو خراب نہیں کروگے۔
۱۰۔ناحق گواہی نہیں دوگے۔
۱۱۔کسی مومن کو ذلیل و خوار نہیں کروگے۔
۱۲۔سود نہیں کھاوٴگے۔
۱۳۔سختی و مشکلات میں ثابت قدم رہوگے۔
۱۴۔خدا پرست و یکتا پرست انسا ن پر لعنت نہیں کروگے۔
۱۵۔شراب نہیں پیوٴ گے۔
۱۶۔سونے سے بنا لباس نہیں پہنو گے۔
۱۷۔حریر و ریشم کا لباس نہیں پہنو گے۔
۱۸۔ بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کروگے۔
۱۹۔ خون حرام نہیں بہاوٴگے۔
۲۰۔کافر ومنافق سے اتحاد نہیں کروگے۔
۲۱۔خز کا لباس نہیں پہنو گے۔
۲۲۔مٹی کو اپنی تکیہ نہیں بناوٴ گے (شاید اس معنی میں ہو کہ فروتن و خاکسار رہوگے)
۲۳۔نا پسندیدہ کاموں سے پر ہیز کروگے۔
۲۴۔نیکی کا حکم دو گے اور بُرائی سے روکو گے۔
اگر ان شرائط کے پابند ہو، اور ایسی رفتار رکھو گے، تو مجھ پر واجب ہوگا کہ تمہارے علاوہ کسی کو اپنا ناصر نہ بناوٴں اور میں وہی پہنوں گا جو تم پہنو گے، اور جو تم کھاوٴگے وہی کھاوٴں گا، اور جو سواری تم استعما ل کروگے وہی میں استعمال کروں گا، جہاں تم رہوگے وہیں میں بھی رہوں گا، جہاں تم جاوٴگے وہاں میں جاوٴں گا، اور کم فوج پر راضی و خو شحال رہوں گا، نیز زمین کو عدل و انصاف سے بھردوں گا، جس طرح ظلم و ستم سے بھری ہوگی، اور خدا کی ویسی ہی عبادت کروں گا جس کا وہ حقدار ہے، جو میں نے کہا اسے پورا کروں گا، تم بھی اپنے عہد وپیمان کو پورا کرنا۔
اصحاب کہیں گے جو آپ نے فرمایا ہم اس پر راضی اور آپ کی بیعت کرتے ہیں ،اس وقت امام (علیہ السلام) ایک ایک چاہنے والوں سے (بیعت کی علامت کے ساتھ)مصافحہ کریں گے۔(۱)
لیکن یہ خیال رکھنا چاہئے کہ حضرت امام (علیہ السلام) نے یہ شراےط و امتحان اپنی خاص فوج کے لئے رکھی ہیں ،
اس لئے کہ امام (علیہ السلام) کی حکومت کے کار گزاروں میں وہ لوگ ہیں جو اپنے نیک کردار سے دنیا میں عدالت بر قرار کرنے کے لئے ایک موثر اقدام کریں گے ۔
لیکن اس روایت کی سند قابل تاٴمل ہے اس لئے کہ یہ” خطبة البیان“ سے ماخوذ ہے جس کو بعض لوگوں نے ضعیف سمجھاہے، اگر چہ بعض بزرگوں نے اس کا دفاع کر کے قوی بنانے کی
--------
(۱)الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۱۵۷؛عقدالدرر ،ص۹۶
کوشش کی ہے۔( ۱)
و)سپاہیوں کی خصوصیت
روایات میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے اصحاب وانصار کی بہت زیادہ ہی خصوصیت بیان کی گئی ہے، مگر ہم کچھ کے بیان پر اکتفاء کرتے ہیں :
۱۔عبادت و پر ہیز گاری
امام جعفر صادق (علیہ السلام) حضرت کے اصحاب کی توصیف فرماتے ہیں وہ لوگ شب زندہ دارانسان ہیں ۔جو راتوں کوقیام کی حالت میں عبادت کرتے ہیں۔ اور نماز کے وقت شہد کی مکھی کی طرح بھنبھناتے ہیں اور صبح کے وقت گھوڑوں پر سوار اپنی (وظیفوں کو)ماٴ موریت انجام
(۱)والد مرحوم نے الشیعہ والرجعہ کی پہلی جلد کے حاشیہ پر،خطبہٴ بیان کے بارے میں اس طرح فرمایا ہے : ہم نے یہ خطبہ شیخ محمد یزدی کی کتاب دوحة الانوار سے نقل کیا ہے؛لیکن اسی کتاب میں منحصر نہیں ہے بلکہ دیگر کتابوں میں بھی درج ہے جیسا کہ آقا بزرگ تہرانی الذریعہ کی ساتویں جلد میں چند کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں :
۱۔قاضی سعید قمی در شرح حدیث غمامہ م۱۱۰۳ ھق؛
۲۔محقق قمی در جامع الشتات ،ص۷۷۲
۳۔ایک نسخہ کتاب خانہ امام رضا علیہ السلام تاریخ ۷۲۹ھق؛
۴۔ایک نسخہ خط علی بن کمال الدین تاریخ ۹۲۳ھق؛
۵۔خلاصہ الترجمان
۶۔معالم التنزیل
اس خطبے میں ایسی عبارتیں ہیں جو توحید سے ہم آہنگ نہیں ہیں لیکن تمام نسخوں میں یہ عبارتیں نہیں ہیں ،بلا تردید یہ غالیوں کی گڑھی باتیں ہیں ”انا مورق الاشجار و مثمر الثمار “اس طرح کی روایت کثرت سے ہے”بنا اٴثمرت الاشجار و اینعت الثمار “اور زیارت مطلقہ میں اس طرح آیا ہے ”وبکم تنبت الارض اشجار ھا و بکم تخرج الاشجار و اثمارھا“اور زیارت رجبیہ میں ”اٴنا سائلکم و املکم فیما الیکم التفویض وعلیکم التعویض،فبکم یجبر المھیض و یشفی المریض و“اس لحاظ سے جو بات بھی قرآن کے خلاف ہو اور اس کی صحیح تاویل بھی نہو تو بھی معصومین علیہم السلام اس سے بَری ہیں لیکن اس خطبہ کی عبارت کا جعلی ہونا تمام خطبہ کی صحت کو مخدوش نہیں کر سکتا
دینے جاتے ہیں، وہ لوگ رات کے عبادت گزار، پاکیزہ نفس اور دن کے دلاور و شیر ہیں اور خوف الٰہی سے ایک خاص کیفیت پیدا کر چکے ہیں، خدا وندعالم ان کے ذریعہ امام برحق کی مدد کرے گا ۔(۱)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں : ”گویا قائم آل محمد( علیہم السلام) اور ان کے چاہنے والوں کو شہر کوفہ کی پشت پر دیکھ رہا ہوں ،یوں کہئے کہ فرشتے ان کے سروں پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہیں، اور ان کی پیشانی پر سجدہ کا اثر ہے، راہ توشہ تمام ہو چکا ہے، اور ان کے لباس بوسیدہ و پرانے ہو چکے ہیں، ہاں وہ لوگ شب کے پارسا اور دن کے شیر ہیں،ان کے دل آ ہنی ٹکڑوں کے مانند محکم ومضبوط ہیں، ان میں سے ہر ایک چالیس آدمی کی قوت کا مالک ہو گا، اور کافر و منافق کے علاوہ کسی کو قتل نہیں کریں گے، خدا وند عالم قرآن میں ان کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے :
<اِنَّ ذَلِکَ لاْیَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِیْنَ>(۲)
”اس میں ہوشمند افراد کے لئے نشانی اور عبرت ہے“۔(۳)
۲۔امام سے عشق اور آپ کی اطاعت
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرما تے ہیں :”صاحب امر کے لئے بعض درّوں میں غیبت ہے ظہور سے دو شب قبل آپ کا نزدیک ترین خادم حضرت کے دیدار کو جائے گا، اور آپ سے پوچھے گا کہ آپ یہاں کتنے لوگ ہیں ؟
-------
(۱)بحا ر الانوار، ج۵۲، ص۳۰۸
(۲)سورہٴ حجر، آیت۷۵
(۳)بحا رلانوار ،ج۵۲،ص۳۸۶
کہیں گے : چالیس آدمی تو وہ کہے گا: تمہارا کیا حال ہوگا ،جب تم اپنے پیشوا کو دیکھو گے ،جواب دیں گے : اگر وہ پہاڑوں پر زندگی کریں گے تو ہم ان کے ساتھ ہوں گے، اور اُسی طرح زندگی گذاریں گے“(۱)
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : حضرت کے انصار اپنے ہاتھوں کو حضرت امام کی سواری کے زین میں ڈال کر برکت کے لئے کھینچیں گے، اور حضرت کے حلقہ بگوش ہوں گے، اور اپنے جسم و جان کو ان کی سپر بنالیں گے، اور آپ جو اُن سے چاہیں گے وہ کریں گے ۔(۲)
نیز آنحضرت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصار و مدد گاروں کی توصیف میں فرماتے ہیں: ان کے پاس ایسے ایسے لوگ ہیں جن کے دل فولاد کے ٹکڑے ہیں وہ لوگ حضرت کے سامنے کنیز کی طرح جو اپنے مولا و آقا کے سامنے مطیع و فرمانبردارہوتی ہے تسلیم ہوں گے۔(۳)
رسول خدا فرماتے ہیں :” خدا وند عالم حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے لئے دنیا کے گوشہ و کنار سے اہل بدر کی تعداد میں لوگوں کو ان کے ارد گرد جمع کر دے گا، وہ لوگ حضرت کی فرمانبرداری کرنے میں حد سے زیادہ کوشاں ہوں گے۔( ۴)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) اور ان کے ناصرومدد گار نجف(کوفہ) میں مستقر ہیں اور اس طرح ثابت قدم ہیں کہ گویا پرندہ ان کے سر پر سایہ فگن ہے۔(۱)
-------
(۱)عیاشی ،تفسیر ،ج۲،ص۵۶؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۱
(۲)بحا رالانوار، ج۵۲، ص۳۰۸
(۳)اسی جگہ
(۴)وہی،ص۲۱۰
یعنیجنگجو، منظم ،اورتسلیم محض ہو کر حضرت کے سامنے کھڑے ہیں، گویا پرندہ ان کے سروں پر سایہ کئے ہوئے ہے، اگر معمولی حرکت کریں تو پرندے اڑجائیں گے۔
۳۔سپاہی قوی ہیکل اور جوان ہوں گے
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ناصر سارے کے سارے جوان ہیں، کوئی ان میں ضعیف و سن رسیدہ نہیں ہے، جز تھوڑے افراد کے ، جو آنکھ میں سرمہ یا غذامیں نمک کے مانند ہیں،لیکن سب سے کم قیمت زیادہ ضرورت کی چیز نمک ہی ہے۔(۲)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : لوط پیامبر کی مراد اپنی اس بات سے جو انھوں نے دشمنوں سے کہی ہے:اے کاش تمہارے مقابل قوی اور توانا ہوتا یا کسی مضبوط و محکم پایہٴ کی سمت پناہ لیتا ۔کوئی طاقت مہدی موعود(عجل اللہ تعالی فرجہ)اور ان کے ناصروں کی قدرت کے برابر نہیں ہوگی، اور ہر ایک آدمی کی قوت چالیس آدمی کے برابر ہوگی، ان کے پاس لوہے سے زیادہ ہموار دل ہے، اور جب پہاڑوں سے گذریں گے، تو چٹان لرز اٹھیں گے ،اور خدا وند عالم کی رضا و خوشنودی کے حصول تک وہ تلوار چلاتے رہیں گے۔(۳)
حضرت امام سجاد(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں:” جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو خداوند عالم ہمارے شیعوں سے ضعف و سستی کو دور کردے گا ،اور ان کے دلوں کو آ ھنی ٹکڑوں کی طرح محکم و استوار کردے گا،نیز ان میں سے ہر ایک کوچالیس آدمی کی قوت عطا کرے گا ،یہی لوگ
-------
(۱)اثبات الہداة، ج۳ ،ص۵۸۵
(۲)طوسی ،غیبة ،ص۲۸۴؛نعمانی ،غیبة، ص۳۱۵؛ابن طاوٴ س، ملاحم، ص۱۴۵؛کنز ل العمال، ج۱۴،ص۵۹۲؛ بحار لاانو ار ج۵۲، ص۳۳۴؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۱۷
(۳)کمال الدین ،ج۲،ص۶۷۳؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۱۷و۳۲۷
زمین کے حاکم اور رئیس ہوں گے“(۱)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں ہمارے شیعہ زمین کے حاکم اور رئیس ہوں گے، اور ان میں سے ہر ایک کو ۴۰/ مرد کی قوت دی جائے گی۔(۲)
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: آج ہمارے شیعوں کے دلوں میں دشمنوں کا خوف بیٹھا ہوا ہے؛ لیکن جب ہماری حکومت آئے گی اور امام مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)ظہور کریں گے، توہماراہر ایک شیعہ شیر کی طرح نڈر اور تلوار سے زیادہ تیز ہو جائے گا، اور ہمارے دشمنوں کو پاوٴں سے کچل ڈالیں گے اور ہاتھ سے کھینچیں گے۔(۳)
عبد الملک بن اعین کہتا ہے : ایک روز حضرت امام (علیہ السلام)کی خدمت سے جب ہم اٹھے، تو ہاتھوں کا سہارا لیا اور کہا:کاش حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کو جوانی میں درک کرتا، (یعنی جسمی توانائی کے ساتھ)تو امام نے کہا: کیا تمہاری خوشی کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ تمہارے دشمن آپس ہی میں ایک دوسرے کو مارڈالیں گے، لیکن تم لوگ اپنے گھروں میں محفوظ رہوگے؟ اگر امام ظہور کر جائیں گے تو تم میں سے ہر ایک کو ۴۰/ مرد کی قوت دی جائے گی، اور تمہارے دل آ ھنی ٹکڑوں کی طرح ہوں گے، اس طرح سے کہ تم لوگ زمین کے رہبر اور امین رہوگے “(۴)
-------
(۱)کما ل الدین ،ج۲،ص۶۷۳؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۱۷،۳۲۷،۳۷۲؛ینابیع المودة ،ص۴۲۴؛احقا ق الحق ، ج۱۳، ص۳۴۶ (۲)مفید ،اختصاص ،ص۲۴ ؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۷۲
(۳)مفید ،اختصاص، ص ۲۴؛بصائر الدرجات، ج۱،ص۱۲۴؛ینابیع المودة،ص۴۴۸؛،۴۸۹؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۵۷؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۱۸،۳۷۲
(۴)کافی ،ج۸، ص۲۸۲؛بحار الانوار ،ج۵۲، ص۳۳۵
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ہماراحکم (حضرت مہدی کی حکومت) آتے ہی خدا وند عالم ہمارے شیعوں کے دلوں سے خوف مٹادے کر ان کے دشمنوں کے دلوں میں ڈال دے گا اس وقت ہمارا ہر ایک شیعہ نیزہ سے زیادہ تیز اور شیر سے زیاد ہ دلیر ہو جائے گا، ایک شیعہ اپنے نیزہ اور تلوار سے دشمن کا نشانہ لے کر اسے کچل ڈالے گا۔(۱)
اسی طرح حضرت فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے چاہنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دل فولاد کے مانند سخت و مضبوط ہیں اور کبھی ان دلوں پر ذات الٰہی کی راہ میں شک و شبہ نہیں آئے گا ،وہ لوگ پتھر سے زیادہ سخت اور محکم ہیں اگر انھیں حکم دیا جائے کہ پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دیں اور جابجا کر دیں تو وہ بہت آسانی اور تیزی سے ایسا کر دیں گے اسی طرح شہروں کی تباہی کا حکم دیا جائے تو وہ فوراً ویران کر دیں گے، ان کے عمل میں اتنی قاطعیت ہوگی جیسے عقاب گھوڑوں پر سوار ہو۔(۲)
۴۔پسند ید ہ سپاہی
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ناصروں کو دیکھ رہا ہوں کہ پوری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ،اور دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ان کی مطیع و فرمانبردار نہ ہو، زمین کے درندے اور شکاری پرندے بھی ان کی خوشنودی کے خواہاں ہوں گے، وہ لوگ اتنی محبوبیت رکھتے ہوں گے کہ ایک زمین دوسری زمین پر فخر ومباحات کرے گی، اور وہ جگہ
-------
(۱)خرائج، ج۲،ص۸۴۰؛بحار الانوار، ج۵۲ ،ص۳۳۶؛ملاحظہ ہو:حلیة الاولیاء، ج۳، ص۱۸۴؛ کشف الغمہ،ج، ص۳۴۵؛ینابیع المودة، ص۴۴۸؛اس طرح کی روایت امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی منقول ہے :بصائر الدرجات ،ص۴؛ بحار الانوار، ج۲، ص۱۸۹
(۲) بحار الانوار، ج۲ ۵،ص۳۰۸
کہے گی کہ آج حضرت مہدی کے چاہنے والے نے مجھ پر قدم رکھا ہے ۔ (۱)
شہادت کے متوالے
امام جعفر صادق (علیہ السلام) حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ناصروں کی خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہیں :کہ وہ لوگ خدا کا خوف اور شہادت کی تمنا رکھتے ہیں ان کی خواہش یہ ہے کہ راہ خدا میں قتل ہو جائیں ان کا نعرہ حسین کے خون کا بدلہ لینا ہے جب وہ چلیں گے تو ایک ماہ کے فاصلہ سے دشمنوں کے دل میں خوف بیٹھ جائے گا۔(۲)
-------
(۱)کما ل الدین، ج۲ ،ص۶۷۳؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۴۹۳؛ بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۲۷
(۲)مستدرک الوسائل، ج۱۱،ص ۱۱۴
|