دوسری فصل :
رہبر قیام
انقلاب اور حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام سے متعلق ہم گفتگو کر چکے اب اس فصل میں،آپ کے جسمی اور اخلاقی خصوصیات و کرامات کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
الف) جسمی خصوصیات
۱۔عمر اور چہرہ:حصین کا بیٹا عمران کہتا ہے میں نے رسول خدا سے کہا:اس شخص (مہدی) کا مجھے تعارف کرایئے؛ اور ان کے کچھ حالات بیان کیجئے ۔
رسول خدا نے فرمایا:وہ میری اولاد میں سے ہے، ان کا جسم اسرائیل کے مردوں کے مانند سخت اور سڈول ہے؛میری امت کی مصیبت کے وقت قیام کرے گا؛ ان کے چہرے کا رنگ عربوں سے مشابہ ہے؛اس کا قیافہ چالیس ۴۰/سالہ مرد کے مانند ہوگا؛ صورت چاند کے ٹکڑے کے مانند چمکتی ہوگی؛زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا؛جب کہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی بیس سال تک حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے گا اورتمام کفار ممالک مانند قسطنطنیہ و روم و پر قبضہ جمائے گا ۔ (۱)
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:”خداوند متعال حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کی عمر غیبت کے زمانے میں طولانی کر دے گااس کے بعد اپنی قدرت کاملہ سے ان کے چہرے کو چالیس سال سے کم سالہ جوان کی مانند بنا دے گا“ (۲)
-------
(۱)ابن طاوٴس ،ملاحم ،ص۱۴۲
(۲)کمال الدین ،ج۱، ص ۳۱۵؛کفایة الاثر، ص۲۲۴؛اعلام الوری، ص۴۰۱؛الاحتجاج ،ص۲۸۹
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے تو لو گ انکار کریں گے، اور کوئی ان کا پاس و لحاظ نہیں کرے گا؛ سوائے ان لوگوں کے جن سے خداوند عالم نے عالم ارواح (۱)میں عہد و پیمان لیا ہو، وہ ایک مکمل اور کامیاب اورمعتدل انداز میں آئے گا۔“(۲)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:”جب مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو آپ کا سن ۳۰/ اور ۴۰/سال کے درمیان ہوگا“(۳)
مروی کہتا ہے میں نے امام رضا (علیہ السلام) سے عرض کیا : ظہور و قیام کے وقت آپ کے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی کیا علامت ہے ؟امام نے فرمایا: ”علامت یہ ہے کہ عمر تو زیادہ ہے لیکن چہرے سے جوان ہوں گے؛ اور اتنا جوان ہوں گے کہ دیکھنے والے کہیں گے کہ ۳۰/ یا چالیس سال کے ہیں ۔(۴)
دوسری علامت یہ ہے کہ زمانے کی آمد و رفت اسے بوڑھا نہیں بنا سکے گی مگر یہ کہ ان کو موت آجائے “
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ”یقینا ولی خدا ۱۲۰ / سال جناب ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح عمر کریں گے، لیکن چہرہ اور رخسار ۳۰/ یا ۴۰/ سالہ جوان کی طرح ہوگا“
مرحوم مجلسی ۺ فرماتے ہیں : شاید اس سے مراد حکومت اور سلطنت کی مدت ہو یا یہ کہ حضرت کی عمر اتنی ہی تھی؛ اور لیکن اسے خدا وند عالم نے طولانی کر دیا ہے ۔
-------
(۱)سورہ اعراف، آیت ۱۷۲
(۲)نعمانی ،غیبة، ص۱۸۸؛عقد الدرر، ص۴۱؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۸۷؛ینابیع المودة، ص۴۹۲
(۳)احقا ق الحق، ج۱۹، ص۶۵۴
(۴)کمال الدین ،ج۲ ،ص۶۵۲؛اعلام الوری ،ص۴۳۵؛خرائج ،ج۳، ص۱۱۷۰
لفظ”موفق “سے مراد اعضاء کا معتدل اور متناسب ہونا ہے اس سے کنایہ یہ ہے کہ (درمیانی سن کے ہوں گے )یا آخر عمر میں ایک جوان کی طرح ہیں۔(۱)
ظہور کے وقت آپ کے سن کے بارے میں دیگر اقوال بھی پائے جاتے ہیں ،ارطات کہتا ہے: حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ۶۰/ سال کے ہیں۔(۲) ابن حماد کہتا ہے : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ۱۸ / سالہ ہیں ۔(۳)
۲۔جسمی خصوصیات ابو بصیر کی زبانی
ابو بصیر کہتے ہیں : میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے عرض کی کہ میں نے آپ کے والد بزر گوار سے سنا ہے کہ امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کاسینہ کشادہ اور شانے چوڑے ہوں گے ؟حضرت نے کہا: اے ابو محمد! میرے والد نے رسول خدا کی زرہ پہنی تو انھیں بڑی ہو رہی تھی اور اتنی بڑی کہ زمین سے خط کر رہی تھی، میں نے بھی اسے پہنا تو مجھے بھی بڑی ہوئی، لیکن وہی زرہ حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے جسم پر بالکل رسول خدا کے جسم کی طرح مناسب ہوگی ،اور اس زرہ کا نچلا حصہ کوتاہ ہے اس طرح سے کہ ہر دیکھنے والا گمان کرے گا کہ اسے موڑ دیا گیا ہے “(۴)
صلت کے بیٹے ریان کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا (علیہ السلام) سے عرض کیا : کیا آپ صاحب امر ہیں ؟تو آپ نے کہا : میں امام اور صاحب امر ہوں، لیکن نہ وہ صاحب امر جو زمین کو
-------
(۱)بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۸۳
(۲)بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۸۳
(۳)ملاحم ،ابن طاوٴس، ص۷۳؛کنزل العمال، ج۱۴، ص۵۷۶
(۴)ابن حماد، فتن، ص۱۰۲
عدل و انصاف سے بھر دے گا؛ جب کہ ظلم و ستم سے بھرچکی ہوگی میں کس طرح وہ صاحب امر ہوں گا جب کہ میرے جسم کی ناتوانی دیکھ رہے ہو؟ حضر ت قائم وہ ہیں کہ جب ظہور کریں گے، توبوڑھوں کی عمر ہوگی لیکن صورت جوانوں کی سی ہوگی ، قوی اور تندرست جسم کے مالک ہوں گے، کہ اگر کسی بڑے سے بڑے درخت پر ہاتھ ماردیں گے تو وہ جڑ سے اکھڑ جائے گا، اور اگر پہاڑوں کے درمیان آواز دیں گے تو چٹان چٹخ جائیں گے،اور پہاڑ نیز اپنی جگہ چھوڑدیں گے جناب مو سیٰ(علیہ السلام) کا عصا اور حضرت سلیمان کی انگوٹھی ان کے ساتھ ہوگی“(۱)
ب)اخلاقی کمالات
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) دیگر معصومین( علیہم السلام) کی مانند مخصوص اخلاقی کمالات کے مالک ہیں، یعنی حضرات معصومین( علیہم السلام) کامل انسان اور بشریت کے لئے نمونہ اور اعلیٰ حد تک نیک اخلاق کے مالک ہیں۔
حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) لوگوں میں سب سے زیادہ دانا ، حلیم، بردبار اور پر ہیز گار ہیں وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والے، عابد اوربہادر ہیں “(۲)
۱۔خوف خدا
کعب کہتے ہیں : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کا خدا کے سامنے خوف و ہراس عقاب کی طرح ہے۔(۳) یعنی جس طرح اپنے پیروں کے سامنے سر جھکائے رہتا ہےشاید کعب کی مراد
-------
(۱)بصائر الدرجات، ج۴، ص۱۸۸؛ اثبات الہداة ،ج۳، ص۴۴۰و۵۲۰؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۱۹
(۲)کمال الدین، ج۲، ص۴۸؛اعلام الوری، ص۴۰۷؛کشف الغمہ، ج۳ ،ص۴۱۳؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۲۲؛ وافی ،ج۲، ص۱۱۳؛اثبات الہداة، ج۳ ،ص۴۷۸
(۳)ینابیع المودة، ص۴۰۱ ؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۵۳۷؛احقا ق الحق ،ج۱۳، ص۳۶۷
یہ ہوکہ اگر چہ عقاب طاقتور پرندہ ہے لیکن عقاب کی تمام قوت کا دارو مدار پروں پر ہے اگرکسی وقت اس کے پر اس کی مدد نہ کریں تو آسمان سے زمین پر گر پڑے گا حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) بھی الٰہی قدرت مند رہبر ہیں، لیکن اس قدرت کا سر چشمہ اللہ کی ذات ہے ،اگر خداوند عالم کسی وقت آپ کی مدد نہ کرے، تو کار کردگی کی قوت باقی نہیں رہے گی، اس وجہ سے حضرت خدا وندعالم کے سامنے خاضع و خاشع ہیں۔
ابن طاوٴوس کی نقل کے مطابق(۱) حضرت کا خشوع خدا وندعالم کے سامنے نیزوں کے دو طرف سے تشبیہ دیا گیا ہے نیزہ کی کار کردگی اور نشانہ پر اس کا لگنا دوکنارے سے تعلق رکھتا ہے جودو پروں کے مانند ہے کہ اگر ایک سرا ٹیڑھا ہواتو نیزہ خطا کرجائے گا۔
شاید ا س سے مراد یہ ہو کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی قدرت خدا وند عالم سے ہے اور خد اوند عالم کی مدد سے تعلق رکھتی ہے۔
۲۔زہد
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور میں کیوں جلد بازی کرتے ہو؟ خدا جانتا ہے کہ آپ کا لباس معمولی ،اور کھر درا، غذا نان جو، حکومت، تلوار کی حکومت ہے، اور موت تلوارکے سایہ میں ہے“(۲ )
عثمان بن حماد کہتے ہیں :ہم امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی بزم میں تھے کہ ایک شخص نے حضرت سے عرض کی: حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ایسا معمولی لباس پہنتے تھے جس کی
-------
(۱)ابن حماد، فتن، ص۱۰۰؛عقد الدرر، ص۱۵۸؛ابن طاوٴس ،ملاحم ،ص۷۳؛متقی ہندی، برہان، ص۱۰۱
(۲)ابن طاوٴس، ملاحم ،ص۷۳
قیمت چار درہم تھی لیکن آپ قیمتی لباس پہنتے ہیں ! حضرت نے جواب دیا: ”حضرت علی (علیہ السلام) نے ایسا لباس اس زمانے میں زیب تن کیا ہے کہ کوئی اعتراض کرنے والا نہیں تھا، ہر زمانے کا عمدہ لباس اس زمانے کے لوگوں کا ہے ،جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو حضرت علی (علیہ السلام) کا لباس پہنیں گے، اور انھیں کی سیاست اور ڈگر پر چلیں گے۔(۱)
۳۔ لباس
روایات میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کا مخصوص لباس مذکور ہے کبھی رسول اللہ کے لباس کی بات آتی ہے تو کبھی جناب یوسف (علیہ السلام )کے لباس کی گفتگو ہوتی ہے۔
شعیب کے بیٹے یعقوب کہتے ہیں : امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:” کیا تم نہیں چاہتے کہ میں تمہیں وہ لباس دیکھاوٴں جو حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کے وقت زیب تن کریں گے؟“ میں نے کہا: کیوں نہیں دیکھنا چاہتاہوں، حضرت نے صندوقچہ منگوایا، اور اسے کھولا، اورکرباسی(روئی کے دھاگہ سے بناہوا) لباس نکالا اور اسے کھولا تو اس کے بائیں طرف ایک خون کا دھبّہ تھا۔
امام (علیہ السلام) نے کہا:” یہ رسول خدا کا لباس ہے، جس دن حضرت کے اگلے چار دانت (جنگ احد) میں شہید ہوئے تھے حضرت نے اسے پہنا تھا، اور حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) یہی لباس پہنے ہوئے قیام کریں گے، میں نے اس خون کو چوما اور آنکھوں سے لگایا، پھر حضرت نے لباس تہہ کر کے اٹھا لیا “(۲)
مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: جناب یوسف کے لباس کے بارے میں جانتے ہو؟ میںنے کہا: نہیں تو حضرت نے کہا: ”جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام )
-------
(۱)نعمانی، غیبة، ص۲۳۳ و۲۳۴تھوڑے سے فرق کے ساتھ ؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۵۴
(۲)کافی ،ج۶،ص ۴۴۴؛بحا رالانوار، ج۴۱،ص۱۵۹،و ج۴۷ ،ص۵۵
کے لئے آگ روشن کی گئی، تو جبرئیل (علیہ السلام )نے ایک لباس لا کر انھیں پہنایا جو سردی و گرمی سے حفاظت کرتا ہو،اور جب ان کی وفات نزدیک ہوئی ،تو انھوں نے دعا کی اور جلد میں رکھ کر حضرت اسحاق کے بازو پر باندھ دیا،انھوں نے یعقوب(علیہ السلام)کو دیااور جب جناب یوسف (علیہ السلام ) پیدا ہوگئے تو حضرت یعقوب (علیہ السلام )نے یوسف(علیہ السلام) کے بازو پر باندھ دیا یوسف بھی حادثات سے گذرنے کے بعد مصر کے باد شاہ ہوئے،جب جناب یوسف نے اسے وہاں کھولا توحضرت یعقوب نے اس کی خوشبو محسوس کی، یہ خدا وند کی گفتگو قرآن میں ہے کہ یوسف کی یعقوب کے قول کے مطابق حکایت کرتا ہے،کہ میں یوسف کی خوشبو محسو س کر رہا ہوں میری طرف خطا کی نسبت نہ دو“(۱)یہ وہی لباس ہے جو جنت سے آیا ہے“
میں نے عرض کیا: میں قربان جاوٴں ؛وہ لباس کس کے ذریعہ آیا ہے؟ کہا: اس کے اہل کے ہاتھ؛لباس ہمارے قائم کے ہمراہ ہے جب وہ ظہور کریں گے “پھر کہا:ہر نبی جسے علم و دانش یا کوئی اور چیز بعنوان ارث ملی ہے وہ محمد تک پہنچی ہے۔“(۲)
۴۔اسلحہ
رسول خدا نے حضرت علی (علیہ السلام) سے کہا:” جب ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے اور ان کی ماموریت کا وقت آجائے گا تو ان کے ساتھ ایک تلوار ہوگی جو انھیں آوازدے گی: اے خدا کے ولی ! قیام کیجئے اور اپنے دشمنوں کو قتل کیجئے “(۳)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کے
-------
(۱)نعمانی، غیبة، ص۲۴۳؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۴۲؛حلیة الابرار ،ج۲ ،ص۵۷۵؛بحار الانوار،ج۵۲، ص ۵ ۵ ۳
(۲)سورہ ٴ یوسف، آیت ۹۴
(۳)کافی، ج۱،ص۲۳۲؛کمال الدین ،ج۲، ص۶۷۴؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۲۷
وقت رسول خدا کا وہی لباس زیب تن کریں گے جو انھوں نے جنگ احد میں زیب تن کیا تھا اور وہی زرہ و عمامہ بھی ہوگا ،جو آنحضرت نے پہنا تھا اور ذوالفقار جو رسول خدا کی تلوار ہے ہاتھ میں لیں گے، تلوار آٹھ ماہ تک بے دینوں کے کشتوں کے پشتے لگائے گی“(۱)
جابر جعفیۻ کہتے ہیں : امام محمد باقر(علیہ السلام) نے فرمایا:”امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) مکہ سے رکن و مقام کے درمیان اپنے وزیر اور ۳۱۳ / اصحاب کے ساتھ ظہور کریں گے، اور رسول خدا کا دستور العمل ،پر چم اوراسلحہ ان کے ہاتھ میں ہوگا ،اس وقت منادی آسمان مکہ سے حضرت کے نام اور آپ کی ولایت کے ساتھ آواز دے گا ؛اس طرح سے کہ تمام اہل زمین اس نام کو سنیں گے، آپ کا نام حضرت محمد کا نام ہے“(۲)
۵۔امام اور صورت کی شناخت
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی ایک خصوصیت یہ ہوگی کہ انسان کی اندرونی حالت چہروں سے پہچان لیں گے، اور نیک افراد کو بد کردار سے جدا کردیں گے، اور فساد کرنے والوں کو اسی شناخت کے مطابق کیفر کردار تک پہنچا ئیں گے۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے، تو کوئی ایسا نہیں بچے گا جسے حضرت پہچانتے نہ ہوں کہ یہ نیک انسان ہے یا فاسد و بد کردار ۔“(۳)
-------
(۱)کفایة الاثر، ص۲۶۳؛بحار الانوار، ج۳۶،ص۴۰۹ ؛عوالم ،ج۱۵،بخش ۳ ،ص۲۶۹؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۶۳
(۲)نعمانی ،غیبة، ص۳۰۸؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۲۳؛ارشاد، ص۲۷۵
(۳)الاصول الستة عشر، ص۷۹؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۸۸؛بحار الانوار، ج۲۶، ص۲۰۹؛مستدرک الوسائل، ج۱۱، ص۳۸
نیز فرماتے ہیں :”جب قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو ہمارے دشمنوں کو ان کے چہروں سے پہچان لیں گے، اور اس وقت ان کے سرو پیر کو پکڑیں گے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ انھیں قتل کر دیں گے “(۱)
اسی طرح فرماتے ہیں:” جب قیام کریں گے تو دوست و دشمن کو اپنی قوت شناخت سے الگ کردیں گے “
معاویہ دھنی کہتے ہیں : امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے آیہٴ مجرمین جس میں ہے کہ وہ اپنے چہروں سے پہچان لئے جائیں گے تو پھر ان کے سر اور پیر پکڑے جائیں گے ۔ (۲)
امام (علیہ السلام) نے کہا: اے معاویہ! اس سلسلے میں دوسرے لوگ کیا کہتے ہیں ؟ میں نے کہا: ان کا خیال ہے کہ خدا وند عالم قیامت کے دن گناہگاروں کو ان کے قیافے سے پہچان لے گا، اور سر کے بال و پاوٴں پکڑ کر جہنم میں ڈال دے گا،امام (علیہ السلام) نے کہا: خداوند عالم کو کیا ضرورت ہے کہ انھیں ان کے چہروں سے پہچانے جب کہ اسی نے انھیں پیدا کیا ہے“میں نے کہا: پھر آیت کے کیا معنی ہیں ؟ آپ نے کہا: جب قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے تو خدا وند عالم انھیں چہرہ شناسی کا علم عطا کرے گا،اور حضرت حکم دیں گے کہ کافروں کو سر اور پیر پکڑ کر ان پر سخت ضرب لگائی جائے“(۳)
-------
(۱)کما ل الدین، ج۲، ص۶۷۱؛خرائج ،ج۲، ص۹۳۰؛اثبات الہداة، ج۳، ص۴۹۳؛بحار الانوار، ج۵۱،ص۵۸و ج۵۲، ص۳۸۹
(۲)احقا ق الحق،ج۱۳،ص۳۵۷؛ملاحظہ ہو:نعمانی، غیبة،ص۲۴۲؛کمال الدین،ج۲، ص۳۶۶؛ ارشاد، ج۵، ص۳۶؛ اعلام الوری ،ص۴۳۳؛کشف الغمہ، ج۳، ص۲۵۶
(۳)(اس وقت)گناہگار افراد اپنی علامتوں سے پہچا ن لئے جائیں گے تو پیشانی کے پٹے اور پاوٴں پکڑے (جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے۔سورہ ٴ رحمن۵۵، آیت ۴۱
۶۔کرامات
اگر چہ آخر زمانہ میں لوگ قوی حکومت کے بروئے کار آنے سے جب کہ وہ مظلوموں کے حامی کے انتظار میںوقت شماری کریں گے، لیکن بہت ساری حکومتوں سے خوشحال نہیں ہوں گے ، اور ہر گروہ اور پارٹی کی بات نہیں مانیں گے،سچی بات یہ ہے کہ وہ کسی کو قادر نہیں سمجھتے جو دنیا کے نظام کو درست کر سکے اور پُر آشوب دنیا کو ٹھکانے لگاسکے۔
اس لحاظ سے جو سماج کے نظم بر قرار ہونے اور دنیا میں امنیت کی وسعت کے دعویدار ہیں، انھیں مافوق قوت کا مالک ہونا چاہئے اس بات کا اثبات کرامتوں کے ظاہر کرنے اور خارق العادة کاموں کے انجام دینے پر ہے، شاید اس لئے ہے کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ابتدائے ظہور میں معجزات و کرامات سے کام لیں گے،اگر اڑتے پرندوں کو آواز دیں گے تووہ فوراً نیچے آکر حضرت کے اختیار میں آجائیں گے، خشک لکڑی کو اگر بنجر اور سخت زمین میں گاڑیں گے تو بلا فاصلہ وہ ہری بھری ہو جائے گی اوراس میں شاخ و پتے نکل آئیں گے ۔
ان کاموں سے لوگوں پر ثابت ہو جائے گا کہ میرا ایسی شخصیت سے سامنا ہے جس کے اختیا ر میں زمین و آسمان ہیں ،یہ کرامتیں در حقیقت ان لوگوں کے لئے ایک نوید اور مژدہ ہوں گی جو سالہاسال اور صدیوں سے آسمان و زمین کے نیچے مظلوم و مغلوب اور دبے ہوں گے اورلاکھوں قربانی دینے کے باو جود قادر نہ ہو سکے ہوں گے جو ایسے حملوں کے لئے رکاوٹ بن سکے، لیکن اس وقت خود کو ایک ایسی شخصیت کے سامنے پائیں گے جس کے اختیارمیں زمین و آسمان و ما فیھا ہوں گے ۔
جو لوگ کل تک قحط کی زندگی گذار رہے تھے حد تو یہ تھی کہ ابتدائی ضرورتوں کو بھی پورا نہ کر سکتے ہوں گے، اور خشک سالی اور زراعت نہ ہونے کی وجہ سے اقتصادی بحران کا شکار ہوں گے، آج وہ لوگ ایسی شخصیت کے سامنے ہوں گے جس کے ادنیٰ اشارہ سے زمین سر سبز و شاداب ہو جائے گی اور پانی و بارش کا ذخیرہ ہو جائے گا۔
جو لوگ لا علاج بیماریوں سے دوچار ہوں گے، آج اس شخصیت کا سامنا کریں گے جو لا علاج بیماریوں کا علاج کرے گا اور مردوں کو حیات دے گا یہ سارے معجزات و کرامات ہیں جو اس ذات کی قوت و صداقت گفتار کو ثابت کریں گی ۔
خلاصہ یہ کہ دنیا والے یقین کریں گے کہ یہ نوید دینے والا گذشتہ دعویداروں سے کسی طرح مشابہ نہیں ہے ،بلکہ یہ وہی نجات دینے والا ،اللہ کا واقعی ذخیرہ مہدی موعودہے ۔
کبھی حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی کرامتیں سپاہیوں کے لئے ظاہر ہوں گی جو ان کے ایمان کو محکم اور اعتقاد کو راسخ کریں گی ،اور کبھی دشمنوں اور شک کرنے والوں کے لئے ہوں گی جو آنحضرت پر ان کے ایمان و اعتقاد کا سبب ہوگا۔
یہاں پر بعض معجزات و کرامات کو بیان کر رہا ہوں ۔
۱۔پرندوں کا بات کرنا
امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اپنی راہ میں ایک سادات حسنی سے ملاقات کریں گے جس کے پاس بارہ ۱۲/ ہزار سپاہی ہوں گے حسنی احتجاج کرے گا اور خودکو رہبری کا زیادہ حق دار سمجھے، گا حضرت اس کے جواب میں کہیں گے-”میں مہدی ہوں“حسنی ان سے کہے گا :کیا تمہارے پاس کوئی علامت اور نشانی ہے کہ میں بھی بیعت کروںحضرت آسمان پر اڑتے پرندے کی طرف اشارہ کریں گے تو پرندہ نیچے آجائے گا ،اور حضرت کے ہاتھوں پر بیٹھے گا پھر اس وقت قدرت خدا سے گویا ہوگا اور حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی امامت کی گواہی دے گا ۔
سید حسنی کے مزید اطمینان کے لئے حضرت سوکھی لکڑی زمین میں گاڑیں گے تو وہ سر سبز ہو جائے گی اور شاخ و پتے نکل آئیں گے، دوبارہ پتھر کے ٹکڑے کو زمین سے اٹھائیں گے اور ہلکے سے دباوٴ سے اسے ریزہ ریزہ کر کے خمیر کی طرح نرم کر دیں گے ۔
سید یہ ساری کرامتیں دیکھنے کے بعد حضرت پر ایمان لائے گا،اور خود اپنی تمام فوج کے ساتھ حضرت کے سامنے سرتسلیم خم کر دے گا،حضرت اسے فوج کے پہلے دستہ کا کمانڈر بنادیں گے“(۱)
۲۔پانی کا ابلنااور زمین سے غذا کا حاصل کرنا
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:” جب امام (عجل اللہ تعالی فرجہ) شہر مکہ میں ظہور کریں گے اور وہاں سے کو فہ کا قصد کریں گے، تو اپنی فوج میں اعلان کریں گے کہ کوئی اپنے ہمراہ کھانا پانی نہیں لے گا، حضرت موسیٰ(علیہ السلام) کا پتھر جو اپنے ہمراہ صاف و شفاف پانی کا بارہ چشمے رکھتا ہے ،لئے ہوں گے، راستے میں جہاں بھی رکیں گے اس کو نصب کر دیں گے، زمین سے پانی کے چشمے ابل پڑیں گے، اور سارے بھوکے اور پیاسے افراد اس سے شکم سیر ہوجائیں گے۔
راستے میں سپاہیوں کی خوراک کا بندوبست اسی طرح سے ہے، پھر جب نجف پہنچ جائیں گے وہاں اس پتھر کے نصب کرنے سے ہمیشہ کے لئے پانی اور دودھ ابلتا رہے گا، جو بھوکے پیاسوں کو سیراب کرے گا ۔(۲)
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے، تو رسول خدا کا پرچم ،سلیمان کی انگوٹھی، عصا اور سنگ موسیٰ (علیہ السلام) ان کے ہمراہ ہوگا،پھر حضرت کے حکم سے سپاہیوں کے درمیان اعلان ہوگا کہ کوئی اپنے کھانے پینے نیز جانوروں کے چارے کا انتظام نہ کرے ۔ بعض لوگ اپنے ساتھیوں سے کہیں گے :کیا وہ ہمیں ہلاک کرنا اور
-------
(۱)اختصاص ،ص۳۰۴؛نعمانی ،غیبة، ص۱۲۸؛بصائر الدرجات ،ص۳۵۶؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۲۱؛الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۴۳۱؛المحجة، ص۲۱۷؛ینابیع المودة ،ص۴۲۹
(۲)عقد الدرر ،ص۹۷،۱۳۸،۱۳۹؛القول المختصر ،ص۱۹ ؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۱۵۸
ہماری سواریوں کو بھوکا پیاسا مارنا چاہتے ہیں ،پہلی جگہ پہنچتے ہی حضرت پتھر زمین میں نصب کریں گے، اور فوج کے کھانے پینے نیز چوپایوں کے چارے کاا نتظام ہو جائے گا، شہر نجف پہنچنے تک اس سے استفادہ کرتے رہیں گے ۔(۱)
۳۔طی الارض اور سایہ کا فقدان
امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں : جب حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے تو زمین نور الٰہی سے روشن ہوجائے گی، اور حضرت مہدی کے قدموں کے نیچے تیزی سے آگے بڑھے گی، آپ تیزی سے راستہ طے کریں گے اورآپ وہ ہیں کہ جس کا سایہ نہ ہوگا۔(۲)
۴۔انتقال کا ذریعہ
امام محمد باقر (علیہ السلام) نے سورہ نامی شخص سے کہا :”ذوالقرنین کو اختیار دیا گیاکہ نرم و سخت دو بادلوں میں کسی ایک کا انتخاب کرلیں، انھوں نے نرم بادل کا انتخاب کیا، سخت حضرت صاحب الامر کے لئے ذخیرہ رہ گیا ،سورہ نے پوچھا : سخت بادل کس لئے ہے؟حضرت نے کہا جن بادلوںمیں چمک۔ گرج،کڑک اور بجلی ہوگی جب ایسا ابرہوگا تو تمہارے صاحب الامر اس پر سوار ہیں، بے شک آپ بادل پر سورا ہوں گے، اور اس کے ذریعہ آسمان کی بلندی کی طرف جائیں گے، اور سات آسمان و زمین کی مسافت طے کریں گے،وہی پانچ زمینیں جو قابل سکونت ہیں اور ۲/ ویران ہیں۔(۳)
-------
(۱)بصائر الدرجات ،ص۱۸۸؛کافی ،ج۱،ص ۲۳۱؛نعمانی، غیبة، ص۲۳۸؛خرائج، ج۲، ص۶۹۰؛نورالثقلین ،ج۱، ص۸۴؛بحار الانوار، ج۱۳، ص۱۸۵وج ۵۲،ص۳۲۴
(۲)کمال الدین، ص۶۷۰؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۵۱؛وافی، ج۲، ص۴۶۵
(۳)کمال الدین، ص۳۷۲؛کفایة الاثر، ص۳۲۳؛اعلام الوری، ص۴۰۸؛کشف الغمہ، ج۳ ، ص۳۱۴؛فرائد السمطین، ج۲، ص۳۳۶؛ینابیع المودة، ص۴۸۹؛نور الثقلین ،ج۴،ص۴۷؛بحار الانوار، ج۵۱،ص۱۵۷؛ملاحظہ ہو:کفایة الاثر، ص۳۲۴؛ احتجاج، ج۲، ص۴۴۹؛اعلام الوری، ص۴۰۹؛خرائج، ج۳، ص۱۱۷۱؛مستدرک الوسائل ،ج۲،ص۳۳
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں - :”جب خدا وند عالم نے ذوالقرنین کو سخت و نرم بادلوں کے درمیان ایک کا اختیا ر دیا، تو انھوں نے نرم کو اختیار کیا، یہ وہی ابر ہے جس میں بجلی اور کڑک نہیں پائی جاتی اور اگر سخت بادل کا انتخاب کرتے تو انھیں اس سے استفادہ کی اجازت نہیں ملتی، اس لئے کہ خدا وندعالم نے سخت بادل کو حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے لئے ذخیرہ کیا ہے ۔ ( ۱ )
۵۔زمانے کی چال میں سستی
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں:” جب حضرت امام(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے تو کوفہ کی سمت حرکت کریں گے، پھر وہاں سات سال حکومت کریں گے جس کا ہر سال ۱۰/ سال کے برابر ہوگا، پھر اس کے بعد جو اللہ کا ارادہ ہوگا انجام دیں گے، کہا گیا سال کس طرح طولانی ہوگا؟ امام نے کہا: کہ خداوند عالم شمسی اور اس کے مدیر فرشتوں کو حکم دے گا کہ اپنی رفتار کم کرو اس طرح سے ایام وسال طولانی ہو جائیں گے “
کہتے ہیں کہ اگر ان کی رفتار میں معمولی سے بھی تبدیلی ہوئی تو آپس میں ٹکرا کر تباہ ہوجائیں گے تو امام نے جواب دیا: یہ قول مادہ پرستوں اور منکران خدا کا ہے لیکن مسلمان (جو خداوندعا لم کو اس کا گردش دینے والا جانتے ہیں) ایسی بات نہیں کہتے “(۲)
۶۔قدر ت تکبیر
کعب حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ذریعہ شہر قسطنطنیہ کی فتح کے بارے میں کہتا ہے: حضرت ،اپنا پر چم زمین میں رکھ کر پانی کی طرف وضو کرنے نماز صبح کے لئے جائیں گے، پانی حضرت سے دور ہو جائے گا ،امام پرچم اٹھا کر پانی کے طرف دوڑیں گے تاکہ حضرت کا اس گوشہ
-------
(۱)مفید ،اختصاص، ص۱۹۹؛بصائر الدرجات، ص۴۰۹ ؛بحار الانوار ،ج۵۲،ص۳۲۱
(۲)اختصاص، ص۳۲۶؛بحارالانوار،ج ۵۲،ص۳۱۲؛غایة المرام، ص۷۷
سے گذر ہو جائے پھر اس وقت پر چم زمین میں رکھ دیں گے، اور سپاہیوں کو آواز دیں گے اور کہیں گے:اے لوگو! خدا وند عالم نے دریا تمہارے لئے بنائے ہیں ،جس طرح بنی اسرائیل کے لئے شگاف کیا تھا پھر فوجی دریا سے پار ہو کر شہر قسطنطنیہ کے مقابل کھڑے ہوجائیں گے، سپاہی تکبیر کی آواز بلند کریں، اور شہر کی دیواریں ہلنے لگیں گی، دوبارہ تکبیرکہیں گے پھر دیوار ہلنے لگے گی، جب تیسری بار تکبیر کی آواز بلند ہوگی تو بارہ برجی محفوظ دیواریں زمین بوس ہو جائیں گی ۔(۱)
رسول خدا فرماتے ہیں :”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) قسطنطنیہ کے سامنے اتریں گے، اس وقت اس قلعہ میں ۷/دیواریں ہوگی، حضرت سات تکبیر کہیں گے تو دیواریں زمین بوس ہوجائیں گی، اور بہت سارے رومی سپاہی کے قتل کے بعد وہ جگہ حضرت کے تحت تصرف آجائے گی اور کچھ گروہ اسلام لے آئیں گے “(۲)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”پھر حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اور ان کے اصحاب تحریک جاری رکھیں گے، رومی کسی قلعہ سے نہیں گزریں گے مگر وہ ایک (لاالہ الااللہ)سے ڈھ(مسمار) جائے گا ،اس کے بعد شہر قسطنطنیہ سے قریب ہو جائیں گے، وہاں پر چند تکبیر کہیں گے، پھر اس کے پڑوس میں واقع دریا خشک ہو جائے گا، اور پانی زمین کی تہہ میں چلا جائے، گا اور شہر کی دیواریں بھی گر جائیں گی، وہاں سے رومیوں کے شہر کی جانب چل پڑیں گے، اور جب وہاں پہنچ جائیں گے، تو مسلمان تین تکبیر کہیں گے، تو شہر دھول اور ریت کی طرح نرم ہو کر اڑنے لگے گا۔(۳)
-------
(۱)عقد الدرر، ص۱۳۸
(۲)العلل المناہیہ، ج۲،ص۸۵۵؛عقد الدرر، ص۱۸۰
(۳)عقد الدرر، ص۱۳۹
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اپنی تحریک جاری رکھیں گے یہاں تک کہ شہروں کو عبور کرتے ہوئے دریا تک پہنچ جائیں گے، حضرت کا لشکر تکبیر کہے گا، اس کے کہتے ہی دیواریں آپس میں ٹکرا کر گر جائیں گی“(۱)
۷۔پانی سے گذر
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : میرے باپ نے کہا: حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے توافواج کوشہر قسطنطنیہ تک روانہ کریں گے، اس وقت وہ خلیج تک پہنچ جائیں گے ، اپنے قدموں پر ایک جملہ لکھیں گے، اور پانی سے گذر جائیں گے، اور جب رومی اس عظمت اور معجزہ کو دیکھیں گے، توایک دوسرے سے کہیں گے جب امام زمانہ کے سپاہی ایسے ہیں تو خود حضرت کیسے ہوں گے ! اس طرح وہ دروازے کھول دیں گے، اور لشکر شہر میں داخل ہو جائے گا ،اور وہاں حکومت کرے گا“(۲)
۸۔بیماروں کو شفا
امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) پرچموں کو ہلاکر معجزات ظاہر کریں گے، اور خد وند عالم کے اذن سے ناپید اشیاء کو وجود میں لائیں گے،سفید داغ اور کوڑھ کے مریضوں کو شفادیں گے ،مردوں کو زندہ اور زندوں کو مر دہ کریں گے ۔ ( ۳ )
۹۔ہاتھ میں موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: حضرت موسیٰ(علیہ السلام) کا عصا جناب آدم (علیہ السلام)سے متعلق تھا جو شعیب (پیغمبر) تک پہنچا ،اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام)
-------
(۱)الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۱۶۱
(۲)نعمانی ،غیبة، ص۱۵۹؛دلائل الامامہ، ص۲۴۹؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۷۳؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۶۵
(۳)الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص ۱۶۹
ابن عمران کودیا گیا ،وہی عصا اب میرے پاس ہے، ابھی جلدی ہی اسے دیکھا ہے، تو وہ سبز تھا؛ ویسے ہی جیسے ابھی درخت سے الگ کیا گیا ہو، جب اس عصا سے سوال کیا جائے گا،تو جواب دے گا، اور وہ ہمارے قائم کے لئے آمادہ ہے، اور جو کچھ موسیٰ (علیہ السلام)نے اس سے انجام دیا ہے، وہی حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) اس سے انجام دیں گے، اور اس عصا کو جو بھی حکم ہوگا انجام دے گا ،اور جہاں ڈال دیا جائے گاجادوکو نگل جائے گا “(۱)
۱۰۔بادل کی آواز
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : آخر زمانہ میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے تو بادل آپ کے سر پر سایہ فگن ہو کر جہاں آپ جائیں گے آپ کے ہمراہ وہ بھی جائے گا، تاکہ حضرت کی سورج کی تمازت سے حفاظت کرے، اور ببانگ دھل آواز دے گا کہ یہ مہدی ہیں “(۲)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے بقول نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی نبی اور وصی کا معجزہ باقی نہیں بچے گا مگر یہ کہ خدا وند عالم اسے حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہاتھوں ظاہر کر دے گا، تاکہ دشمنوں پر حجت تمام ہو جائے “(۳)
-------
(۱)کمال الدین ،ج۲،ص۶۷۳؛بحار الانوار ،ج۵۲،ص۳۱۸،۳۵۱؛کافی، ج۱، ص۲۳۲
(۲)تاریخ موالید الائمہ، ص۲۰۰ ؛کشف الغمہ، ج۳،ص ۲۶۵؛الصراط المستقیم ،ج۲، ص۲۶۰؛بحار الانوار، ج۵۱، ص۲۴۰؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۶۱۵؛نوری ،کشف الاستار، ص۶۹
(۳)خاتون آبادی، اربعین ،ص۶۷؛اثبات الہداة، ج۳،ص۷۰۰
|