حصہ دوم
پہلی فصل
امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا قیام
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے روز قیام کے سلسلے میں مختلف روایتیںپائی جاتیں ہیں ،بعض میں نو روزکا دن قیام کے آغاز کا دن ہے، اوربعض میں روز عاشورہ ،اورکچھ روایتوں میں سنیچر کا دن اور کچھ میں جمعہ کا،قیام کے لئے معین ہے،
ایک ہی زمانے میں نو روزاور عاشورہ کا واقع ہونامحل اشکال نہیں ہے؛ اس لئے کہ نو روز شمسی اعتبار سے، اور عاشورہ قمری لحاظ سے حساب ہو جائے گا،لہٰذادو روز کا ایک ہونا ممکن ہے۔
اور ان دو روز (عاشورہ و نو روز) کا ایک زمانہ میں واقع ہونا ممکن ہے البتہ جو کچھ مشکل اور مانع ہے وہ ہفتہ میں دو دن بعنوان قیام کا ذکر کرنا ہے، لیکن اس طرح کی روایت بھی قابل توجیہ ہے؛اس طرح کہ اگر ان روائیوں کی سند صحیح ہو تو ایسی صورت میں روز جمعہ والی روایات کو قیام و ظہور کے دن پر حمل کیا جائے گا، اور وہ روایات جو شنبہ کو قیام کا دن کہتی ہیں نظام الٰہی کے اثبات اور مخالفین کی نابودی کا دن سمجھا جائے گا ،لیکن جاننا چاہئے کہ جو روایتیں شنبہ کا دن تعیین کرتی ہیں وہ سند کے لحاظ سے مورد تاّمل ہیں ۔ لیکن روز جمعہ والی روایات اس اعتبار سے بے خدشہ ہیں۔
اس سلسلے میں اب روایات ملاحظہ ہوں۔
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” ہمارا قائم جمعہ کے دن قیام کریں گا “(۱)
-------
(۱)اثبات الہداة، ص۴۹۶؛بحار الانوار، ج۵۲ ،ص۲۷۹
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ حضر ت قائم عاشور کے دن شنبہ کو رکن و مقام کے درمیان کھڑے ہیں ،اور جبرئیل آنحضرت کے سامنے کھڑے لوگوں کو ان کی بیعت کی دعوت دے رہے ہیں“(۱)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : روز عاشورہ شنبہ کے دن حضرت قائم(عجل اللہ فرجہ) قیام کریں گے یعنی جس دن امام حسین (علیہ السلام) شہید ہوئے ہیں۔(۲)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” کیا جانتے ہو کہ عاشور ہ کون سا دن ہے ؟ یہ وہی دن ہے جس میں خداوند عالم نے آدم و حوا کی توبہ قبول کی،اسی دن خدا نے بنی اسرائیل کے لئے دریا شگاف کیا، اور فرعون اور اس کے ماننے والوں کو غرق کیا،اور موسیٰ (علیہ السلام) فرعون پر غالب آئے اسی دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے، حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کے توبہ او ر جناب عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت اور حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کا دن ہے“(۳)
اسی مضمون کی امام محمد باقر (علیہ السلام) سے ایک دوسری روایت بھی نقل ہوئی ہے؛( ۴)
لیکن اس روایت میں ابن بطائنی کی وثاقت جو سلسلہ سند میں واقع ہوا ہے مورد خدشہ ہے ۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” تیسویں کی شب حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فر جہ )
-------
(۱)طو سی، غیبة، ص۲۷۴؛کشف الغمہ، ج۳ ،ص۲۵۲؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۹۰
(۲)کمال الدین ،ج۲، ص۶۵۳؛طوسی ،غیبة، ص۲۷۴ ؛التہذیب، ج۴، ص۳۳۳؛ملاذ الاخیار،ج۷،ص۱۷۴؛ بحار الانوار ، ج۵۲،ص۲۸۵
(۳)بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۸۵
(۴)التہذیب، ج۴، ص۳۰۰؛ابن طاوٴس، اقبال، ص۵۵۸؛خرائج، ج۳ ،ص۱۱۵۹؛وسائل الشیعہ، ج۷، ص۳۳۸ ؛بحار الانوار، ج۹۸،ص۳۴؛ملاذالاخیار ،ج۷، ص۱۱۶
کے نام سے آواز آئے گی اور روز عاشورہ حسین بن علی کی شہادت کے دن قیام کریں گے۔‘ ‘(۱)
اسی طرح آنحضرت فرماتے ہیں :”نوروز کے دن ہم اہل بیت( علیہم السلام )کے قائم ظہور کریں گے“(۲)
الف)اعلان ظہور
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کا اعلان سب سے پہلے آسمانی منادی کے ذریعہ ہوگا ،اس وقت آنحضرت جب کہ قبلہٴ کعبہ سے ٹیک لگائے ہوں گے،حق کی دعوت کے ساتھ، اپنے ظہور کا اعلان کریں گے۔
امیر الموٴمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب منادی آسمانی آواز دے گا: حق آل محمد کی طرف ہے ،اگر تم لوگ ہدایت و سعادت کے خواہاں ہو، توآل محمد کے دامن سے متمسک ہو جاوٴ،اور حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)ظہور کررہے ہیں“ (۳)
امام محمد باقر (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں:” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) مکہ میں نماز عشاء کے وقت ظہور کریں گے ؛جب کہ پیغمبر کا پرچم، تلوار اور پیراہن ہمراہ لئے ہوں گے اور جب نماز عشاء پڑھ چکیں گے، توآوازدیں گے :اے لوگو!تمہیں خدا اور خدا کے سامنے (روز قیامت) کھڑے ہونے کو یاد دلاتا ہوں ؛ جب کہ تم پر دنیا میں اپنی حجت تمام کر چکا ہے انبیاء بھیجے ،اورقرآن نازل کیا،خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کا کسی کو شریک قرار نہ دو اور اس کے پیغمبروں کی
-------
(۱)طوسی ،غیبة، ص۲۷۴؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۹۰
(۲)المہذب البارع ،ج۱، ص۱۹۴؛خاتون آبادی، اربعین ،ص۱۸۷؛وسائل الشیعہ، ج۵،ص۲۲۸؛اثبات الہداة، ج۳ ، ص۵۷۱؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۰۸
(۳)الحاوی للفتاوی، ج۲، ص۶۸ ؛حقا ق الحق ،ج۱۳، ص۳۲۴
اطاعت کرو، جس کے زندہ کرنے کو قرآن نے کہا ہے اسے زندہ کرو، اور جس کے نابود کرنے کا حکم دیا ہے اسے نابود کرو اور راہ ہدایت کے ساتھی بنو اور تقویٰ وپر ہیز گاری اختیار کرو اس لئے کہ دنیا کے فنا ہونے زوال اور وداع کا وقت آچکاہے ۔
میں تمہیں اللہ ،رسول ،کتاب عمل اور باطل کی نابودی رسول اللہ کی سیرت کے احیاء کی دعوت دیتا ہوں، اس وقت ۳۱۳ / انصار کے درمیان ظہور کریں گے۔(۱)
ب)پرچم قیام کا نعرہ
ہر حکومت کا ایک قومی نشان ہوتا ہے تاکہ وہ اسی کے ذریعہ پہچانی جائے ،اسی طرح قیام و انقلاب بھی ایک مخصوص پرچم رکھتے ہیں،اور اس کا مونو گرام ایک حد تک اس کے رہبروں کے مقاصد کو نمایا ں کرتا ہے، حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کا عالمی انقلاب بھی مخصوص مونوگرام رکھتا ہوگا اور اس پر شعار لکھا ہوگا ،البتہ مونوگرام کے شعار کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ایک بات سب میں مشترک ہے وہ یہ کہ لوگوں کو حضرت کی اطاعت کی دعوت دے گا۔(۲)
ابھی ہم اس سلسلے میں چند نمونے ذکرنے پر اکتفاء کرتے ہیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے پرچم پہ لکھا ہوگا :
”کان کھلا رکھو اور حضرت کی اطاعت کرو“(۳)
-------
(۱)ابن حماد، فتن ،ص۹۵؛عقد الدرر ،ص۱۴۵؛سفارینی الوائح، ج۲، ص۱۱؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۶۴؛الصر اط المستقیم ، ج ۲،ص۲۶۲
(۲)امام محمد باقر علیہ السلام نے ابو حمزہ سے فرمایا : میں اہلبیت آل محمد کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ نجف میں وارد ہو رہے ہیں، اور جب نجف کے اندر پہنچے گے تو رسول خدا کے پرچم کو لہرائیں گے، اور وہ پرچم جس طرح بدر میں کھلا تھا فرشتے نیچے آئے تھے اسی طرح حضرت کے لئے بھی نازل ہوں گے “،عیاشی، تفسیر، ج۱، ص۱۰۳ ؛نعمانی ،غیبة، ص۳۰۸؛کمال الدین ،ج۲، ص۶۷۲؛تفسیر، برہان، ج۱، ص۲۰۹؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۲۶
(۳)اثبات الہداة ،ج۲،ص۵۸۲؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۰۵
دوسری جگہ ملتا ہے کہ پر چم مہدی کا نعرہ ”البیعة ِللہ ؛بیعت خدا کے لئے ہے “(۱)
ج)قیام سے کائنات کی خوشحالی
روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کا قیام انسانوں کی خوشحالی کا باعث ہوگا ،اوراس خوشحالی کا بیان مختلف طریقوں سے ہے، بعض روایتوں میں زمین اور آسمان والوں کی خوشی ہے، اور بعض میں مردوں کی خوشحالی مذکور ہے، ایک روایت میں قیام کے لئے لوگوں کے استقبال کا تذکرہ ہے دوسری روایتوں میں مردو ں کے زندہ ہونے کی آرزو کا تذکرہ ہے یہاں پر اس کے چند نمونے ذکر کرتا ہوں۔
رسول خدا فرماتے ہیں : حضرت مہدی کے قیام سے تمام اہل زمین و آسمان پرندے ،درندے اوردریا کی مچھلیاں خو شحال و شاد ہوں گی ۔(۲)
اس سلسلے میں حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:”اس وقت حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے جب آپ کانام مبارک خاص و عام کی زبان زدہوگا اور لوگوں کے وجود حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے عشق سے سرشار ہوں گے، اس طرح سے کہ ان کے نام کے سوا کوئی اور نام نہ زبان زد ہوگا اور نہ یاد رہ جائے گا ،اور ان کی دوستی سے اپنی روح کو سیراب کریں گے“(۳)
-------
(۱)ابن حماد، فتن، ص۹۸؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۶۷؛القول المختصر،ص۲۴؛ینابیع المودة، ص۴۳۵؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۱۰
(۲)عقد الدرر ،ص۸۴، ۱۴۹؛البیان، ص۱۱۸؛حاکم مستدرک ،ج۴،ص۴۳۱؛الدر المنثور، ج۶، ص۵۰؛نور الابصار، ص۱۷۰؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۴۲؛حقاق الحق، ج۱۳، ص۱۵۰
(۳)الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۶۸؛احقا ق الحق ،ج۱۳، ص۳۲۴
روایت میں ”یَشْرِبُوْنَ حُبَّہ“کی تعبیر سے یعنی ”لوگ ان کی محبت سے اپنی پیاس بجھائیں گے“ حضرت سے ارتباط وتعلق کو خوشگوار پینے کے پانی سے تشبیہ دی گئی ہے جسے لوگ الفت اور پوری رغبت سے پیتے ہیں ،اور حضرت مہدی کا عشق ان کے وجود میں نفوذ کر جائے گا۔
حضرت امام رضا (علیہ السلام) ظہور سے قبل کے تلخ حوادث اور فتنوں کو شمار کرتے ہوئے ظہور کے بعد فرج اور کشادگی کے بارے میں فرماتے ہیں :” اس وقت لوگوں کو اس طرح فرج و سکون حاصل ہوگا کہ مردے دوبارہ زندگی کی تمنا کریں گے“(۱)
امام جعفرصادق (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں:”گویا میں منبر کوفہ کی بلندی پر قائم (عج)کو بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں، اوروہ رسول خدا کی زرہ ڈالے ہوئے ہیں، اس وقت حضرت کے بعض حالات بیان فرمائے ،اور اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: کوئی مومن قبر میں نہیں بچے گا کہ اس کے دل میں خوشی و مسرت داخل نہ ہوئی ہو، اس طرح سے کہ ُمردے ایک دوسرے کی زیارت کو جائیں گے، اور حضرت کے ظہور کی ایک دوسرے کو مبارک باد دیں گے ۔
بعض روایتوں میں ”تلک الفرجة“کی لفظ آئی ہے یعنی برزخ کے باشیوں کے لئے حضرت کے ظہور سے کشایش پیدا ہوگی، اس نقل کے مطابق رہبری و انقلاب کی عظمت اس درجہ ہے کہ ارواح پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ (۲)
د)محرومین کی نجا ت
اس میں کوئیشک نہیں کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کا قیام عدالت کی بر قراری اور انسانی سماج سے تمام محرومیت کی بیخ کنی ہے ،اس حصے میں حضرت کے قیام کے وقت مظلوموں
-------
(۱)خرائج ،ج۳،ص۱۱۶۹؛طوسی ،غیبة، ص۲۶۸
(۲)اثبات الہداة، ج۳ ،ص۵۳۰
کے سلسلے میں جوآپ کا اقدام ہوگا کہ محروموں کی پناہ کا باعث ہو اُسے بیان کریں گے۔
رسول خدا فرماتے ہیں :” میری امت سے مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے، خدا انھیں انسانوں کا ملجاء بنا کر بھیجے گا ،اس زمانے میں لوگ نعمت اورآسائش میں زندگی گذاریں گے“(۱)
رسول خدا نے فریاد رسی کو کسی گروہ ،ملت اور قوم وقبیلہ سے مخصوص نہیں کیا ہے ؛بلکہ کلمہٴ (ناس) کے ذریعہ تمام انسانوں کا نجات دہندہ جاناہے، اس بناء پر ان کے ظہور سے پہلے شرائط کچھ ایسے ہوجائیں گے کہ دنیا کے تمام انسان ظہور کی تمنا کریں گے جابر کہتے ہیں : امام محمد باقر (علیہ السلام ) نے فرمایا:” حضرت مہدی مکہ میں ظہور کریں گے اورخدا وند عالم ان کے ہاتھوں سے سرزمین حجاز کو فرج عطا کرے گا، اور حضرت(قائم عج) بنی ہاشم کے تمام قیدیوں کو آزاد کریں گے“(۲)
ابو ارطات کہتا ہے حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)(مکہ سے) مدینہ کے لئے عازم ہوں گے، اور اسراء بنی ہاشم کو آزاد ی دلائیں گے، پھر کوفہ جائیں گے، اور بنی ہاشم کے اسراء کو آزاد کریں گے ۔(۳)
شعرانی کہتا ہے : جب حضرت مہدی غرب کی سر زمین پر پہنچیں گے تواُندلس کے لوگ ان کے پاس جاکے کہیں گے: اے حجة اللہ! جزیرہ اُندلس کی مدد کیجئے کہ وہاں کے لوگ اور جزیرہ تباہ ہو گیا ہے ۔(۴)
-------
(۱)عقد الدرر، ص۱۶۷
(۲)ابن حماد ،فتن ،ص ۹۵؛ابنطاوٴس، ملاحم، ص۶۴؛الفتاوی الحدیثیہ، ص۳۱ ؛القول المختصر ،ص۲۳
(۳)ابن حماد، فتن، ص۸۳؛الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۶۷؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۱۸؛ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۶۴
(۴)قرطبی، مختصر تذکرہ، ص۱۲۸؛احقاق الحق، ج۱۳،ص۲۶۰
۵۔امام (علیہ السلام) کے قیام کے وقت عورتوں کا کردار
ظہور سے قبل و بعد عورتوں کے کردار سے متعلق روایات کی چھان بین کرنے سے چند قابل توجہ باتیں سامنے آتی ہیں، اگر چہ بعض روایات کی رو سے، اکثر دجال کے پیرو یہود اور عورتیں ہوں گی۔(۱)
لیکن انھیں کے مقابل، مومنہ اور پاکدامن عورتیں بھی ہیں کہ اپنے عقیدہ کی حفاظت میں زیادہ سے زیادہ کوشاں رہیں گی، ظہور سے قبل کے حالات سے بہت متاثر ہیں، اوربعض عورتیں ثبات قدم اور مجاہدانہ قوت کی حامل ہوں گی وہ جہاں بھی جائیں گی لوگوں کو دجال کے خلاف جنگ کی تبلیغ کریں گی، اور دجال کی انسانی ہیئت کے خلاف ماہیت کو آشکار کریں گی ۔
بعض روایتوں کے مطابق قیام کے وقت چار سو۴۰۰/ عورتیں امام کے ہمراہ ہوں گی نیز ان کی اکثریت دوا، دارواورمعالجہ میں مشغول ہو گی، البتہ عورتوں کی تعداد کے بارے میں کہ قیام کے وقت کتنی ہوں گی اختلاف ہے، بعض روایتوں میں ۱۳/عورتوں کانام ہے کہ ظہور کے وقت حضرت کے ساتھ ہوں گی ،شاید یہ عورتیں امام کی ابتدائی فوج میں ہوں، اور بعض روایات میں امام کی ناصر عورتوں کی تعداد سات ہزار آٹھ سو ذکر کی گئی ہے، اور وہ وہی عورتیں ہیں جو قیام کے بعد حضرت کے ہمراہ ہو کر حضرت کے کاموں میں مدد کریں گی۔
کتاب” فتن“ میں ابن حماد سے نقل ہے کہ دجال کے خروج کے وقت مومنین کی تعداد ۱۲۰۰۰/ ہزار مرد اور سات ہزار سات سو یا آٹھ سو عورتیں ہوں گی۔(۲)
رسو ل خدا فرماتے ہیں:حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) آٹھ سو مرد اور چار سو
-------
(۱)احمد، مسند، ج۲،ص۷۶؛فردوس الاخبار ،ج۵،س۴۲۴؛مجمع الزوائد، ج۷، ص۱۵
(۲)ابن حماد، فتن ،ص۱۵۱
عورتوں کے درمیان نازل ہوں گے کہ وہ لوگ زمین کے رہنے والوں میں سب سے بہتر اور گذشتہ لوگوں میں صالح تر ہوں گے“(۱)
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:”خدا کی قسم تین سو کچھ افراد آئیں گے جس میں ۵۰/ عدد عورتیں ہوں گی “(۲)
مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:” حضرت قائم ، (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہمراہ ۱۳/ عورتیں ہیں ،میں نے عرض کیا : وہ کیاکریں گی اوران کاکیا کردار ہوگا ؟ آپ نے فرمایا:زخمیوں کا مداوا، اور بیماروں کی تیمار داری کریں گی؛ جس طرح رسول اللہ کے ہمراہ تھیں، میں نے کہا: ان ۱۳/ عورتوں کا نام بتایئے ؟ آپ نے فرمایا:” قنوا دختررشید ہجری،ام ایمن ،حبابہٴ و البیہ،سمیہ مادر عمار یاسر، زبیدہ،ام خالد احمسیہ، ام سعید حنفیہ ،صیانة ماشطہ و ام خالد جھنیہ“(۳)
کتاب” منتخب البصائر“ میں دو عورتوں کانام وتیرہ اوراحبشیہ بھی مذکور ہواہے کہ جو حضرت کے اصحاب و یاور میں ہوں گی۔(۴)
بعض روایتوں میں تنہا عورتوں کے ہمراہ ہونے پر اکتفاء کیا گیا ہے اور ان کی تعداد بیان نہیں کی گئی ہے۔
-------
(۱)فردوس الاخبار، ج۵،ص۵۱۵؛کنزل العمال، ج۱۴، ص۳۳۸؛التصریح، ص۲۵۴
(۲)عیاشی ،تفسیر ،ج۱، ص۶۵؛نعمانی ،غیبة، ص۲۷۹
(۳)دلائل الامامہ، ص۲۵۹اثبات الہداة، ج۳،ص۷۵
(۴)بیان الائمہ، ج۳، ص۳۳۸
تاریخی کتابوں میں عصر ظہور کی عورتوں کے ماضی کی تحقیق
مفضل ابن عمر کی روایت میں وضاحت کے ساتھ ان عورتوں کی تعداد جو حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ساتھ ہوں گی، ۱۳/ ذکر کی گئی ہے؛ لیکن اس تعداد میں بھی صرف ۹/ عورتوں کے اسماء اور خصوصیات بیان کی گئی ہے۔
اوران اسماء پر حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام)کی تاکیدنے مجھے مجبور کیاکہ ان کی سوانح حیات اور خصوصیا ت کی تحقیق کروں ۔اورتحقیق کے بعد ایسے نکتے ملے جو امام کی تاکید کا قانع کنندہ جواب ہیں۔
ان میں سے ہر ایک لیاقت رکھتی ہیں لیکن ان میںسے اکثر نے دشمنان خدا سے جہاد کے موقع پر اپنی صلاحیت کو ظاہر نہیں کیا ان میںسے بعض جیسے صیانہ جو چند شہیدوں کی ماں تھیں، اور خود بھی جانسوز حالت میں شہید ہوئیں ،اور دوسری سمیہ ہیں،جنھوں نے اسلامی عقیدہ کی دفاعی راہ میں سخت شکنجوں کو بر داشت کیا،اور آخر دم تک اپنے عقیدہ کا دفاع کرتی رہیں، انھیں میں ام خالد ہیں، جنھوں نے تندرستی کی نعمت کو قالب اسلام کی حفاظت میں گنوادی اور جانباز بنیں ،انھیں میںزبیدہ خاتون ہیں جنھیں دنیا کی چمک دمک اور مادی زرق وبرق نے اسلام سے منحرف نہیں کیا بلکہ بر عکس ہوا کہ ان امکانات سے عقیدہ کی راہ میں استفادہ کیا،اورحج برپا کرنے کے لئے جو اسلامی مظاہر اور دینی ارکان میں سے ایک ہے مدد کی،اور بعض دوسری خاتون نے امت اسلامی کے عظیم رہبر کی خدمت اور دایہ کا افتخار حاصل کیا ،اور معنویت سے خود کو اتنا آراستہ کیا کہ زبان زد خاص و عام ہو گئیں اور کچھ شہداء گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں جنھوں نے نیم جان جسموں کو اٹھا یا اور ان سے باتیں کی ہیں ۔
ہاں، یہ وہ دل سوختہ ہیں جنھوں نے ہدایت کے فریضہ کی انجام دہی سے ثابت کیا کہ حکومت اسلامی کے وزنی بار کے ایک کونہ کا تحمل کیا جا سکتا ہے ۔
اب ان بعض کا تعارف کراتاہوں :
۱۔صیانة
کتاب ”خصائص فاطمیہ“ میں آیا ہے : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی حکومت میں ۱۳/ عورتیں زخمیوں کا معالجہ کرنے کے لئے زندہ کی جائیں گی،اور دنیا میں دوبارہ واپس آئیں گی۔ ان میںسے ایک صیانہ ہیں جو حضرت حزقیل کی بیوی، اور فرعون کی بیٹی کی آرایش گر تھیں، آپ کے شوہر حزقیل فرعون کے چچا زاد بھائی اور خزانہ کے مالک تھے اور اس کے بقول ،حزقیل اور،خاندان فرعون کے مومن ہیں اوراپنے زمانے کے پیغمبر حضرت موسیٰ(علیہ السلام) پر ایمان لائے ۔(۱)
رسول خدا نے فرمایا :” شب معراج مکہ معظمہ و مسجد اقصیٰ کی سیر کے درمیان اچانک ایک خوشبو میرے مشام سے ٹکڑائی، جس کے مانند کبھی ایسی بو محسوس نہیں کی تھی ،جبرئیل سے پوچھا کہ یہ خوشبو کیسی ہے؟
جبرئیل نے کہا: اے رسول خدا!حزقیل کی بیوی حضرت موسیٰ بن عمران پر ایمان تولائی تھی لیکن اسے پوشیدہ رکھے ہوئے تھی، اس کا کام فرعون کے حرم سرا میں آرایش کرنا تھا ،ایک روز وہ فرعون کی بیٹی کو آرایش کرنے میں مشغول تھی کہ اچانک کنگھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور بے اختیار اس نے کہا: ”بسم اللّٰہ“ فرعون کی بیٹی نے کہا :کیا تم میرے باپ کی تعریف کر رہی ہو؟اس نے کہا: نہیں بلکہ میں اس کی تعریف کر رہی ہوں جس نے تمہارے باپ کو پید اکیا ہے ،اور وہی اسے نابود کرے گا فرعون کی بیٹی تیزی سے اپنے باپ کے پاس گئی اور کہنے لگی :جو عورت ہمارے گھر
-------
(۱)ریاحین الشریعہ ،ج۵،ص۱۵۳؛خصائص فاطمیہ ،ص۳۴۳
میں آرا یش گر ہے، موسیٰ پر ایمان رکھتی ہے فرعون نے اسے بلایا اور کہا: کیا تم میری خدائی کی معترف نہیں ہو؟صیانہ نے کہا: ہر گز نہیں، میں حقیقی خدا سے دوری اختیار کرکے تمہاری پوجا نہیں کروں گی ، فرعون نے حکم دیا، کہ تنور روشن کیا جائے ،جب تنور سرخ ہو گیا، تو اس نے حکم دیا کہ اس کے تمام بچوں کو اس کے سامنے آگ میں ڈال دیا جا ئے ۔
جس وقت اس کے شیرخوا ر بچے کو جو اس کی گود میں تھا لے کر آگ میں ڈالنے لگے، صیانہ کا حال بُرا ہوگیا ،اور سوچا کہ زبان سے دین سے براٴت و بیزار ی کر لیں اچانک خدا کے حکم سے، بچہ گویا ہوا۔اور بولا: ”اصبری یا اُمّاہ اِنَّکِ عَلَی الْحَقْ“ مادر گرامی صبر کیجئے آپ حق پر ہیں فرعونیوں نے اس عورت کو بچے سمیت آگ میں ڈال دیا، اور اس کی خاک کو اس زمین پر ڈال دیا لہٰذا قیامت تک اس زمین سے خوشبو ،آتی رہے گی“(۱)
وہ ان عورتوں میں ہے جو زندہ ہو کر دنیا میں آئے گی اور حضرت مہدی کے ہم رکاب اپنا وظیفہ انجام دے گی۔
۲۔ام ایمن
آپ کانام برکہ ہے آپ حضرت رسول خدا کی کنیز تھیں جو والد بزرگوار، حضرت عبداللہ، سے انھیں میراث میں ملی تھیں ۔اور رسول خدا کی خدمت گذار تھیں۔(۲)
حضرت انھیںماں کہتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ میرے باقی اہل بیت میں ہیں۔
وہ اپنے شوہر عبید خزرجی سے ایک فرزند رکھتی تھیں ،اس لئے ام ایمن نام تھا ایمن ایک مجاہداور مہاجر تھا جو جنگ حنین میں شہید ہوا۔
-------
(۱)منہاج الدموع، ص۹۳
(۲)تاریخ طبری، ج۲،ص۷؛حلبی سیرہ، ج۱، ص۵۹
ام ایمن وہ شخصیت ہیں کہ جب مکہ و مدینہ کے راستے میں ان پر پیاس کا غلبہ ہوا ،اور ہلاکت سے قریب ہوئیں تو آسمان سے پانی کا ڈول آیا،اسے پیا اس کے بعد پھر کبھی پیاسی نہ ہوئیں ۔ (۱)
انھوں نے رسول خدا کی رحلت کے وقت بہت گریہ کیا؛جب ان سے رونے کا سبب پوچھا گیا، تو جواب دیا: خدا کی قسم مجھے معلوم تھا کہ رحلت کریں گے، لیکن گریہ اس بات کا ہے کہ وحی منقطع ہوگئی ۔(۲)
اور انھیںحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فدک کے مسئلہ میں شاہد کے عنوان سے بھی پیش کیا تھاآخر کار عثمان کی خلافت کے دور میں انتقال کر گئیں۔
۳۔زبیدہ
آپ ہارون رشید کی بیوی اور شیعیان اہل بیت میں سے تھیں جب ہارون ان کے عقیدہ سے آگاہ ہواتو قسم کھائی کہ اسے طلاق دیدے آپ نیک کاموں سے معروف تھیں،وہ اس زمانے میں جب شہر مکہ میں ایک مشک پانی کی قیمت ایک دینار سونا تھی، تو ا نھوں نے حجاج اور شاید تمام مکہ والوں کو سیراب کیا انھوں نے پہاڑ اور دروں کو کھدوا کر حرم کے باہر ۱۰/ میل فاصلہ سے پانی حرم میں لائیں ،زبیدہ کی ۱۰۰ کنیزیں تھیں ،اور ساری کی ساری حافظ قرآن اور ہر ایک کا وظیفہ تھا کہ ایک دہم قرآن پڑھیں، اس طرح سے کہ رہائشی مکان تک قرآن کی آواز جائے۔(۳)
-------
(۱)عبد الرزاق، مصنف ،ج۴ ،ص۳۰۹ ؛الاصابہ، ج۴، ص۴۳۲
(۲)تنقیح المقال، ج۳ ،ص۷۰
(۳)وہی، ص۷۸
۴۔سمیّہ
اعلان بعثت کے بعدآپ ساتویں فرد ہیں جو اسلام سے متمسک ہوئیں، اسی وجہ سے ان کو بد ترین شکنجہ دیا گیا، جب رسول خدا کا گذر عمار اوران کے والدین کی طرف سے ہوتا اور دیکھتے کہ مکہ کی گرمی میں تپتی زمین پر شکنجہ دیا جارہا ہے تو فرماتے تھے:اے خاندان یاسر! صبر کرو؛ اور یہ جان لو کہ تمہاری منزل موعود ،جنت ہے ۔،نتیجہ کے طور پر آپ ابو جہل نابکار کے خونی نیزہ سے شہید ہو گئیں یہ اسلام کی پہلی شہیدہ خاتون ہیں۔(۱)
۵۔ام خالد
جب عراق کے حاکم یوسف بن عمر نے زید بن علی کو شہر کوفہ میں شہید کیا تو ام خالد کا ہاتھ شیعہ ہونے اور قیام زید کی طرف مائل ہونے کے جرم میں کاٹ ڈالاگیا۔
ابو بصیر کہتے ہیںمیں امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں تھا کہ ام خالد کٹے ہاتھ لئے آئیں، حضرت نے کہا: اے ابو بصیر !ام خالد کی بات سننے کے خواہشمند ہو؟میں نے عرض کیا: ہاں اور اس سے مجھے مسرت ہو گی،ام خالد حضرت کے قریب گئیں بات کرنے لگیں،میں نے انھیں نہایت ہی فصیح و بلیغ پایا، حضرت نے بھی ولایت کے مسئلہ اور دشمنوں سے براٴت کے موضوع پر بات کی(۲)
۶۔حبابہٴ والبیہ
شیخ طوسی ۺ نے انھیں امام حسن (علیہ السلام) کے اصحاب میں شمار کیا ہے ،اور ابن داوٴد نے امام حسن ،حسین ،سجاد و باقر (علیہم السلام )کے اصحاب میں شمار کیا ہے اوربعض دیگر افراد نے
-------
(۱)اسد الغابہ، ج۵ ،ص۴۸۱
(۲)معجم رجال الحدیث ،ج۱۴، ص۲۳،۱۰۸،۱۷۶؛ریاحین الشریعہ، ج۳، ص۳۸۱
امام رضاتک آٹھ معصوم امام ا صحاب میں شمار کیا ہے ،اسی طرح کہا گیا ہے کہ امام رضا (علیہ السلام) نے اپنے شخصی لباس میں انھیں کفن دیا ہے ،آپ کی عمر وفات کے وقت ۲۴۰ / سال تھی آپ دو مرتبہ جوا ن ہوئی ہیں ایک بار حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کے معجزہ سے اور دوسری بار آٹھویں امام کے معجزہ سے، وہی خاتون ہیں آٹھ معصوم امام نے ان کے ہمرا ہ جو پتھر تھااس پر اپنی انگوٹھی سے نقش کیا ہے ۔ (۱)
حبا بہٴ والبیہ کہتی ہیں: میں نے امیر الموٴ منین (علیہ السلام) سے عر ض کیا: خدا آپ پر رحمت نازل کرے،امامت کی دلیل کیا ہے؟ حضرت نے جواب میں کہا:اس سنگریزہ کو میرے پاس لاوٴ، تومیں اسے حضرت کی خدمت میں لائی ،حضرت علی (علیہ السلام) نے اپنی انگوٹھی سے اس پر مہر کی اس طرح سے کہ اس پتھر پر نقش ہوگیا ،اور مجھ سے کہا:”اے حبابہ ! جو بھی امامت کا مدعی ہو اور اس پر میری طرح مہر کردے تو وہ امام اور اس کی اطاعت واجب ہے امام وہ شخص ہے جو کچھ جاننا چاہے جان لےتا ہے“
پھر میں اپنے کام میں مشغول ہو گئی، اور حضرت علی (علیہ السلام) رحلت کر گئے، تو پھر امام حسن (علیہ السلام) کے پاس آئی، جو حضرت علی کے جانشین تھے، اور لوگ ان سے سوال کر رہے ہیں؛جب مجھے دیکھا تو کہا: ”اے حبابہ والبیہ!“میں نے کہا:حاضر ہوں اے میرے سید و سردار ! آپ نے کہا:”جو تمہارے پاس ہے لے آوٴ“میں نے اس سنگریزہ کو حضرت کو دیا آنحضرت نے حضرت علی (علیہ السلام) کے مانند اپنی انگوٹھی سے مہر کی اس طرح سے کہ مہر کی جگہ نقش ہوگیا۔
پھر میں امام حسین (علیہ السلام) کی خدمت میں آئی جب کہ وہ مسجد رسول خدا میں تھے، مجھے اپنے پاس بلایا،اور خوش آمدید کہا:اور فرمایا: جو تم چاہتی ہو اس کی دلیل موجود ہے، کیا تم امامت کی علامت چاہتی ہو ؟“میں نے کہا :ہاں میرے آقا! آپ نے کہا:”جو تمہارے پاس ہے
-------
(۱)تنقیح المقال ،ج۲۳،ص۷۵
لے آوٴمیں نے وہ سنگریزہ انھیں دیا، تو انھوں نے انگوٹھی سے اس پر نقش کر دیا۔امام حسین(علیہ السلا م) کے بعد امام سجاد (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچی جب کہ اتنی ضعیف ہو چکی تھی کہ میرے بدن میں رعشہ غالب تھا ،اس وقت ۱۱۳/ سال کی تھی آنحضرت رکوع و سجود میں تھے اس لئے میری طرف توجہ نہیں کی تو میں امامت کی نشانی دریافت کرنے سے مایوسی ہوگئی، آنحضرت نے اپنی انگلی سے میری طرف اشارہ کیا، ان کے اشارہ سے میری جو انی پلٹ آئیمیں نے کہا:اے آقا! دنیا کا کتنا حصہ گذر چکا ہے اور کتنا باقی بچاہے؟آپ نے کہا: گذشتہ کے متعلق ،میں نے کہا ہاں اور جوبچا ہے اس کے متعلق نہیں ۔
یعنی ہمیں گذشتہ کا علم ہے آیندہ غیب ہے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ،یا یہ کہ مصلحت نہیں کہ ہم بتائیں، اس وقت مجھ سے کہا: جو تمہارے پاس ہے اسے لے آوٴ میں نے حضرت کو سنگریزہ دیا، حضرت نے اس پر مہر کی پھر کچھ زمانے کے بعد امام محمد باقر (علیہ السلام) کی خدمت میں آئی، آنحضرت نے بھی اس پر مہر کی، اس کے بعد امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے پاس آئی تو آپ نے بھی اس پر مہر کی،پھر سالوں گذر نے کے بعد امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کی خدمت میں شرفیاب ہوئی، آنحضرت نے بھی اس پر مہر کیا اس کے بعد امام رضا (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچی تو آنحضرت نے بھی اس پر نقش کیا اس کے بعد، نو ماہ زندہ رہیں ۔(۱)
۷ ۔قنوا دختر رشید ھجری
اگر چہ آپ کی خصوصیات شیعہ وسنی کتابوں میں مذکور نہیں ہیں اصطلاحاًمہمل ہے۔ (۲ ) لیکن باپ کی اسیری ابن زیاد کے ہاتھوں ان کی شہادت کا قصہ خو د ہی بیان کرتی ہیں، عقیدہ میں پختگی ، اسلام میںپایداری و شیعت سے لگاوٴ اور حضرت علی (علیہ السلام) سے محبت آشکار ہو جاتی ہے ۔
-------
(۱)کافی، ج ۱،ص۳۴۶؛تنقیح المقال، ج۳، ص۷۵
(۲)اعیان الشیعہ،ج ۳۲،ص۶
ابو حیان بجلی کہتا ہے: میں نے رشید ہجری کی بیٹی قنوا سے پوچھا : تم نے اپنے باپ سے کون سی روایت یا حدیث سنی ہے؟اس نے کہا:میرے باپ نے حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) سے نقل کیاہے : آنحضرت نے فرمایا:اے رشید ! تمہارا صبر کیسا ہوگا جب بنی امیہ کا منہ بولا بیٹا (ابن زیاد): تمہیں اپنے پاس بلائے اور دونوں ہاتھ پاوٴں اور زبان قطع کر ڈالے؟“میں نے کہا: آیا اس کا نتیجہ جنت ہے ؟ آپ نے کہا: اے رشید ! تم دنیاو آخرت میں ہمارے ساتھ ہو“
قنوا کہتی ہیں : خدا کی قسم کچھ دن بعد ابن زیاد نے میرے باپ کو بلایا اور ان سے کہا: علی سے بیزاری کرو،لیکن انھوں نے کبھی ایسا نہیں کیا،ابن زیاد نے کہا: تمہارے قتل کی کیفیت علی نے کیسے بیان کی ہے؟میرے باپ نے جواب دیا: میرے دوست علی نے مجھے اس طرح بتایا ہے کہ تم مجھے علی سے بیزاری کرنے کے لئے بلاوٴ گے لیکن میں تمہاری مراد پوری نہیں کروں گا؛پھر میرے دونوں ہاتھ پاوٴں اور زبان کاٹ ڈالوگے،ابن زیاد نے کہا : قسم خدا کی علی کی پیش گوئی کے خلاف تمہارے حق میں کروں گا، اس وقت حکم دیا کہ ان کے دونوں ہاتھ ،پاوٴں کاٹ دئے جائیں ۔
اور زبان سالم چھوڑد ی جائے، قنوا کہتی ہیں : میں نے اپنے باپ کو کاندھے پر اٹھا یا اور راستے میں پوچھا : اے بابا! آیا درد کا احسا س کرتے ہیں ؟تو انھوں نے کہا: نہیں صرف اتنا ہی جتنا مجھے مجمع کے دباوٴ سے ہوتا ہے، جب ہم اپنے باپ کو اٹھا کر ابن زیاد کے محل سے خارج ہوئے، تو لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے، میرے باپ نے موقع سے فائدہ اٹھا یا، اور کہا: قلم، دوات اور کاغذ لے آوٴ تاکہ تمہیں حادثات کی خبر دوں ،لیکن جب یہ خبر ابن زیاد کو پہنچی تو اس نے زبان قطع کرنے کا حکم دیا ،اور میرے باپ اسی شب شہید ہوگئے۔(۱)
(۱)اختیار معرفة الرجال ،ص۷۵ ؛شرح حال رشید ؛تنقیح المقال ،ج۱، ص۴۳۱،اور ج۳،ص۸۲؛معجم رجال الحدیث، ج۷، ص۱۹۰؛اعیان الشیعہ، ج۳۲،ص۶؛سفینة البحار ،ج۲ ۵،ص۳۵۷؛ریاحین الرشیعہ ،ج ۵ ، ص۴۰
پیغمبر اسلام کے زمانے میں عورتوں کا کردار
اس بات پر نظر کرتے ہوئے کہ عورتوں کا حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی حکومت میں وہی کردار ہوگا جو صدر اسلام میں تھا ،مختصر طور پر، اُس زمانہ میں عورتوں کے کردار کے بارے میں بحث کرتے ہیں ۔
اگر چہ روایت میں اشارہ ہوا ہے کہ(یُدَاْوِینَ الْجَرْحیٰ و یَقمَن عَلَی المَرْضیٰ)”زخمیوں کا مداوا اور بیماروں کی تیمارداری کریں گی “لیکن شاید زمانہ پیغمبر میں عورتو ں کی خدمات کا سب سے بہتر نمونہ ہو اس لئے کہ وہ اس کے علاوہ بھی فعالیت کرتی تھیں وہی کردار حضرت مہدی کے زمانہ میں اداکریں گی۔
عورتیں پیغمبر کے ساتھ جنگوں میں دوسرے وظائف کی بھی ذمہ دار تھیں جیسے سپاہیوں کو کھانا پانی پہنچانا،ان کا کھانا پکانا ،سامان کی حفاظت ، دواوٴں کاا نتظام کرنا،اسلحوں کی تعمیر ،اہم خبروں کا پہنچانا ،شہداء کو منتقل کرنا،دفاعی جنگوں میں شرکت ، سپاہیوں کو محاذ جنگ پر جانے کی تشویق دلانا، جنگ میں حوصلہ افزائی کرناو۔
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے کی عورتوں کی، عصر پیغمبر کی عورتوں سے تشبیہ دینا ہمیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ صدر اسلام میں ان کی فعالیت اور کار کردگی کا بھی ذکر کریں ۔
بعض وہ عورتیں جو اہم کر دار ادا کررہی تھیں
۱۔ام عطیہ ؛انھوں نے سات غزوں میں شرکت کی اور ان کی من جملہ خدمات میں زخمیوں کا مداوا کرنا بھی ہے۔(۱)
ام عطیہ کہتی ہیں : میرے تمام کاموں میں ایک کام سپاہیوں کے سامان کی حفاظت کرنا تھا۔(۲)
۲۔ام عمارہ؛ (نسیبہ)؛ جنگ احد میں ان کی راہنمائی اس درجہ تھی کہ پیغمبر کے نزدیک تعریف اور تشکر کی قابل بنی۔(۳)
۳۔ام ابیہ؛یہ ان چھ عورتوں میںسے ایک تھیں جو قلعہ خیبر کی راہی ہوئیں،پیامبر نے ان سے کہا: کس کے حکم سے یہاں آئی ہو؟ ام ابیہ کہتی ہیں : جب ہم نے رسول کو غضبناک دیکھا تو کہا: ہم کچھ دواوٴں کے ساتھ زخمیوں کا مداوا کرنے یہاں آئے ہیں۔
اس وقت حضرت ہمارے وہاں رکنے پر آمادہ ہوگئے اوراس جنگ میں ہمارا کام زخمیوں کا مداوا اور ان کا کھانا پکانا تھا۔
۴۔ام ایمن ؛جنگوں میں زخمیوں کا مداوا کرتی تھیں۔(۴)
۵۔حمنہّ ؛انھوں نے زخمیوں تک پانی پہنچایا اور ان کا مداوا کیا یہ وہ خاتون ہیں جوکہ جنگ میں شوہر ،بھائی اورماموں سے محروم ہو گئیں۔(۵)
۶۔ربیعہ معوذ کی بیٹی ؛ زخمیوں کا مداوا کرتی تھیں ۔(۶) وہ کہتی ہیں ہم رسول خدا کے ساتھ جنگ کے لئے روانہ ہوئے اور شہد ا ء کو مدینہ منتقل کیا۔
-------
(۱)ابو عوانہ، مسند، ج۴، ص۳۳۱
(۲)واقدی، مغازی، ج۱، ص۲۷۰
(۳)کنزل العمال، ج۴،ص۳۴۵
(۴)الاصابہ، ج۴،ص۴۳۳
(۵)ابن سعد طبقات، ج۸، ص۲۴۱
(۶)سد الغابہ ،ج۵،ص۴۵۱؛بخاری صحیح ،ج۱۴، ص۱۶۸
۷۔ام زیاد ؛آپ ا ن چھ عورتوں میں ہیں جو جنگ خیبر میں زخمیوں کے مداوا کے لئے گئیں۔(۱)
۸۔امیہ قیس کی بیٹی؛ ہجرت کے بعد مسلمان ہوئی اور کہتی ہے:بنی غفار کی عورتوں کے ہمراہ رسول خدا کی خدمت میں گئی اور ان سے عرض کیا: ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی خدمت میں زخمیوں کا علاج اور سپاہیوں کی مدد کرنے کے لئے خیبرکی سمت جائیں ۔
رسول خدا نے خوشی سے کہا: ”اللہ کی عنایتوں کے ساتھ جاوٴ“(۲)
۹۔لیلائے غفاریہ؛فرماتی ہیں: میں رسول خدا کے ساتھ زخمیوں کا مداوا کرنے جنگ میں گئی ۔(۳)
۱۰۔ام سلیم ؛جنگ احد میں سپاہیوں کو پانی پہنچاتی تھیں اور حاملہ ہونے کے باوجود؛جنگ حنین میں شریک ہوئیں۔(۴)
۱۱۔معاذہ غفاریة ؛بیماروں کی تیمار داری اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں۔(۵)
۱۲۔ام سنان اسلمیہ ؛آپ نے جنگ خیبر جاتے وقت رسول خدا سے کہا: میں بھی آپ کے ساتھ چلنا چاہتی ہوں ،اور جنگ کے دوران زخمیوں کا معالجہ ، بیماروں کا مداوا،اورسپاہیوں کی مدد کروں گی اور ان کے سامان کی حفاظت اور سپاہیوں کو پانی پہنچاوٴں گی ،رسول خدا نے کہا :”مناسب ہے کہ تم ہماری بیوی ام سلمہ کے ساتھ ہوجاوٴ“(۶)
-------
(۱)الاصابہ، ج۴، ص۴۴۴
(۲)اسد الغابہ ،ج،۵ ص۴۰۵
(۳)نقش زنان در جنگ ،ص۲۲
(۴)ابن سعد، طبقات، ج۸ ،ص۴۲۵
(۵)اعلام النساء، ج ۵،ص۶۱
(۶)ریاحین الشریعہ ،ج۳ ،ص۴۱۰
۱۳۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ؛محمد بن مسلمہ کہتا ہے :جو عورتیںجنگ احد میںپانی تلاش کر رہی تھیں اور وہ چودہ تھیں۔(۱)
اوران چودہ۱۴/ خواتین میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہابھی تھیں، عورتیں کھانا، پانی اپنی پشت پر اٹھا کر لاتی تھیں اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں اور انھیں پانی پلاتی تھیں ۔(۲)
۱۴۔ ام سلبط ؛عمرا بن خطاب کہتے ہیں:ام سبلط جنگ احد میں پانی کی مشک اٹھا کر لاتی اور جنگی ساز وسامان کی تعمیر میں مشغول رہتی تھیں۔(۳)
۱۵۔نسیبہ ؛آپ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ہمراہ جنگ احد میں شریک ہوئیں،پانی کی مشک اٹھاتی تھیں، اور زخمیوں کو سیراب کرتی تھیں، جب جنگ اپنے شباب پر چھڑی تو یہ خود بھی جنگ میں شریک ہوگئیں ،اور تلواراور نیزوں کے بارہ زخم کی متحمل ہوئیں ۔(۴)
۱۶۔انسیہ ؛جنگ احد کے موقع پر رسول خدا کی خدمت میں مشرف ہوئیں اور کہا: اے رسول خدا!میرابیٹا عبد اللہ بن سلمہ جنگ بدر میں شریک ہوا،اورا حد میں شہید ہو گیا،میں چاہتی ہوں کہ اسے مدینہ لے جاوٴں، اور وہاں اسے دفن کروں، تاکہ اس کا مزار میرے گھر سے قریب رہے،اور اس سے اُنس حاصل کروں، رسول خدا نے اسے اجازت دے دی انسیہ نے اپنے بیٹے کے پاکیزہ جسم کو مجدر بن زیادنامی دوسرے شہید کے ساتھ ایک عبا میں لپیٹا اور انھیں اونٹ پر رکھ کر مدینہ لے گئیں۔(۵)
-------
(۱)واقدی ،مغازی، ج۱، ص۲۴۹
(۲)واقدی، مغازی، ج۱، ص۲۴۹
(۳)بخاری، صحیح، ج۱۲، ص۱۵۳
(۴)واقدی ،مغازی، ج۱، ص۲۶۸
(۵)اسد الغابہ، ج۵، ص۴۰۶؛حجة الاسلام محمد جواد طبسی نقش زنانملاحظہ ہو
یہ عورتوں کی مختصر سی اسلامی محاذ پر رسول خدا کے ہم رکاب فعالیت ہے، اور یہ عورتوں کی فوجی ہمراہی اور پشت پناہی اس لئے تھی کہ جنگجو سپاہیوں کا دشمن کے مقابل زیادہ سے زیادہ استفادہ ہو، حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں بھی وہی کر دار اداکریں گی جو رسول اللہ کے زمانے میں تھا، اس زمانے میں اس سے پہلے عورتیں مختلف فعالیت انجام دیتی تھیں ،دجال کے خلاف تبلیغ ،لوگوں کو اس سے محفوظ رکھنا ،ان کے من جملہ وظیفوں میں ہے۔
ابو سعید خدری ؛کہتے ہیں:دجال جہاں بھی جائے گا اس سے پہلے لئیبة (طیبة) نامی خاتون وہاں پہنچ جائے گی، اور لوگوں سے کہے گی : تمہاری طرف دجال آرہا ہے؛ لہٰذا تم لوگ ہو شیار رہو گے اور انجام سے باخبر!(۱)
-------
(۱)ابن حما د، فتن ،ص۱۵۱؛کنزل العمال، ج۱۴، ص۶۰۲
|