چھٹی فصل
امید کے دریچے
گذشتہ بحثوں میں روایات کے سہارے امام عصر( (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہورسے قبل، دنیا کے حالات سے آگاہ ہوئے اگر چہ اِن روایات میں بے سر و سامانی اور اس درجہ مشکلات کا تذکرہ ہے کہ انسان مایوس و ناامید ہو جائے۔ لیکن دیگر روایات میں شیعوں اور موٴ منین کے لئے امید کی جھلکیں اور روشن مستقبل کی طرف اشارہ ہے۔
بعض روایات تو بس ان مومنین کے بارے میں ہیں کہ کبھی زمین ان سے خالی نہیں رہے گی ،اور وہ لوگ ظہورسے قبل کے سخت ترین شرائط کے باوجود عالم میں پائے جائیں گے ۔
کچھ روایتیں دوران غیبت علماء اور اسلامی دانشوروں کے کردار کی جانب اشارہ کرتی ہیں خواہ کتنا ہی معاشرہ کی بد حالی کا باعث ہوں انھیں محافظ دین کے عنوان سے متعارف کراتی ہیں ۔
معصومین (علیہم السلام) کی بعض تقریروں میں ظہور سے قبل شہر قم کے کردار کا تذکرہ ہے ۔
روایتیں ظہور سے قبل و بعد ایرانیوں کی فعالیت و کار کردگی کی خبر دیتی ہیں ۔
الف)حقیقی مومنین
کبھی ایسی روایتوں سے بھی سابقہ ہوتا ہے جو کسی کے جواب میں بیان کی گئی ہیں، جن سے گمان ہوتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جو مومن انسان کے وجود سے خالی ہوگا ۔ امام (عجل اللہ تعالی فرجہ) نے اس گمان کی نفی کی اور ہر زمانہ میں مومنین کے وجود کی خبردی۔
زراد کہتے ہیں :کہ میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے عرض کیا : میں ڈرتا ہوں کہ مومنین میں نہ رہوں امام نے کہا :”کیوں ایسا سوچ رہے ہو؟“میں نے کہا: اس لئے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنے بھائی کو درہم و دینا رپر مقدم کرے؛ لیکن یہ ضرور دیکھ رہا ہوں کہ درھم و دینار کو برادر دینی(جسے ولایت علی علیہ السلام نے ہم سب کو ایک جگہ جمع کیا ہے) پرترجیح دیتا ہے، امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے کہا:ایسا نہیں ہے جیسا تم کہہ رہے ہوتم لوگ صاحبان ایمان ہولیکن تمہاراایمان حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے وقت کامل ہو گا، اس وقت خداو ند عالم تمہاری عقلوں کو کامل کرے گا ،اور تم لوگ مکمل مومن بن جاوٴ گے ۔
اس خدا کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، سارے جہان میں، ایسے انسان پائے جاتے ہیں جن کی نگاہ میں ساری دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے“(۱)
ب)شیعہ علماء و دانشوروں کا کردار
ہر زمانے میں جہالت و ظلمت نے اپنا سایہ انسانی سماج پر ڈال رکھا ہے یہ علماء و دانشور افراد ہیں جنھوں نے ہمیشہ جہل و نادانی کو دور کرنے کی ذمہ داری لے رکھی ہے، اوراپنی سالم فکر سے انھیں دور کرتے رہتے ہیں لوگوں کے درمیان فساد و تباہی کو بحسن و خوبی ختم کرتے ہیں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر زمانہ میں علماء اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیں گے۔
امام ہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:” اگر قائم آل محمد کی غیبت کے زمانے میں علماء و دانشور نہ ہوتے اور لوگوں کو ان کی طرف ہدایت و رہنمائی نہ کرتے اورحجت الٰہی کے ذریعہ دین کا دفاع نہ کرتے اور ضعیف شیعوں کو شیطانی جالوں اوران کے بہی خواہوں سے نجات نہیں دیتے، اور ناصبی (دشمن اہل بیت ) کے شر سے محفوظ نہ رکھتے تو کوئی اپنے دین پر ثابت نہ رہتا،اور سب مر تد ہوجاتے؛ لیکن وہ لوگ جو شیعوں کے ضعیف دلوں کی رہبری اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے حفاظت
-------
(۱)بحارالانوار، ج۶۷،ص۳۵۱
کرتے ہیں؛جس طرح کشتی کا ناخدا کشتی پر سوار افراد اور کشتی کے قانون کی حفاظت کرتا ہے لہٰذا، وہ خدا وند عالم کے نزدیک ،بلند ترین انسان ہیں“(۱)
رسول خدا ہر صدی میں دین کو زندہ کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں : ”خدا وندبزرگ و بر تر امت اسلام کے لئے ہر صدی کے آغاز میں ایک شخص کو مبعوث کرتا ہے تاکہ وہ دین کو زندہ رکھے“(۲)
خصوصاً یہ دو روایتیں اوراس طرح کی دیگر روایات، علماء کے کردار کو غیبت کے زمانہ میں با صراحت بیان کرتی ہیں ۔اور شیطانی مکر و فریب کی نابودی ، اوردین کو حیات نو ملنا دانشوروں کا صدقہ سمجھتی ہیں ۔
البتہ اس مطلب کا اثبات اس زمانے میں دلیل و برہان کا طالب نہیں ہے اس لئے کہ امام خمینی ۺ کا کردار دشمنوں کی ناپاک سازشوں کے بے کار بنا نے میں جنھوں نے اس دور میں اساس دین کو خطرہ میں ڈال رکھا تھا ،کسی پر پو شیدہ نہیں ہے۔
بے شک جو آج اسلام کو عزت و سر بلندی ملی ہے وہ ایران کے اسلامی انقلاب اور اس کے بانی امام خمینی کی برکت سے ہے ۔
ج)شہر قم کا آخر زمانہ میں کردار
اس زمانے میں انسانی جب کہ سماج؛ انحطاط و پستی ،تباہی اوربربادی کی طرف گامزن
-------
(۱)تفسیر امام حسن علیہ السلام :ص۳۴۴؛احتجاج ،ج۲ ،ص۲۶۰؛منیة المرید،ص۳۵؛ محجة البیضاء، ج۱، ص۳۲؛حلیة الابرار، ج۲، ص۵ ۴۵؛بحار الانوار، ج۲، ص۶؛العوالم ،ج۳، ص۲۹۵
(۲)عن النبی :”ان اللّٰہ تعالیٰ یبعث لھذہ الامة علی راس کل مائة سنة من یجدد لھا دینھا “ ابی داوٴدسنن، ج۴ ،ص۱۰۹؛حاکم مستدرک ،ج۴ ،ص۵۲۲؛تاریخ بغداد، ج۲، ص۶۱؛جامع الاصول، ج۱۲، ص۶۳؛کنزل العما ل، ج۱۲، ص۱۹۳اوراس روایت کا مدرک جہاں تک میں نے کوشش کی شیعہ کی کسی کتاب میں نہیں پایا
ہوگا ،توامید کیجھلک ظاہر ہوگی اور نور کے پر چم دار اس تاریکی کے دل میں جگہ بنالیں گے آخر زمانہ میں شہر قم اس ذمہ داری کو نبھائے گا ۔
روایات بہت ہیں جو اس مقدس شہر اور لائق افراد جومکتب اہل بیت(علیہم السلام) کے صاف و شفاف چشمہ سے سیراب ہوئے اور پیام رسانی کی ذمہ داری لئے ہوئے ہیں ،کی ستائش کرتی ہیں ۔
ائمہ معصومین علیہم السلام کی مختلف تقریر یں ہیں جو قم اورثقافتی انقلاب سے متعلق عصر غیبت میں پائی جاتی ہے ہیںجن میں سے آیندہ۔
قم اہل بیت علیہم السلام کا حرم
بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ قم اور اہل قم ولایت اور شیعت کے لئے نمونہ اور اس کا راز و رمز ہیں اس لئے، جسے چاہا کہ دوستدار اہل بیت اور ان کے چاہنے والے کا خطاب دیں ،تو قمی سے خطاب کیا۔
ایک گروہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں مشرف ہوا اور اس نے کہا : ہم رے کے رہنے والے ہیں، حضرت نے فرمایا: ”ہمارے قمی بھائیوں کو مبارک ہو“ان لوگوں نے چند بار تکرار کی، کہ ہم اہل رے ہیں اور رے سے آئے ہیں لیکن حضرت نے اپنی پہلی ہی بات دہرائی اس وقت کہا: خداوندعالم کا حرم مکہ ہے رسول خدا کا حرم مدینہ اور کوفہ امیر الموٴ منین کا حرم ہے اور ہم اہل بیت کا حرم شہر قم ہے، عنقریب میرے فرزندوں میں فاطمہ نامی بیٹی وہاں دفن ہوگی، جو بھی اس کی (معرفت کے ساتھ) زیارت کرے گا اس پر بہشت واجب ہوگی ۔
راوی کہتا ہے :امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے یہ بات اس وقت کہی جب امام کاظم (علیہ السلام) ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے ۔(۱)
-------
(۱)بحار الانوار، ج۶۰،ص۲۱۷
صفوان کہتے ہیں : ایک دن میں ابو الحسن ۔امام کاظم (علیہ السلام) کے پاس تھا کہ قمیوں اور حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) سے ان کے لگاوٴ کی بات نکل گئی؛ تو امام ہفتم (علیہ السلام) نے فرمایا :
”خداوندسبحان ان پر رحمت نازل کرے، اور ان سے راضی رہے اس کے بعد اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: بہشت کے آٹھ دروازے ہیں اس کا ایک دروازہ قم والوں کے لئے ہے، ملکوں اور شہروں کے درمیان و ہ لوگ ( اہل قم) نیک اور بر گزیدہ افراد میں ہمارے شیعہ ہیں خداوندعالم نے ہماری ولایت اور دوستی ان کی طینت اورسرشت سے ملا دی ہے “(۱)
اس روایت سے استفادہ ہوتا ہے کہ ائمہ معصومین( علیہم السلام) نے شہر قم کو اہل بیت علیہم السلام اورحضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے عاشقوں کی مرکزسمجھاہے ،شاید وہ بہشتی دروازہ جو شہر قم سے مخصوص ہے ،باب المجاہدین یا باب الاخیار (نیکوں کا دروازہ)ہو جیسا کہ روایت میں بھی اہل قم کو نیکو کار شیعوں سے یاد کیا گیا ہے ۔
شہر قم دوسرے افراد پر حجت ہے
خدا وند عالم کے ہر زمانے میں ایسے افرا د پائے جاتے ہیں جو دوسروں پر حجت ودلیل ہوں،اور جب وہ لوگ راہ خدا میں قدم اٹھاتے ہیں، اور کلمة اللہ کی بلندی کے لئے مبارزہ کرتے ہیں، تو خدا وندعالم ان کا ناصر و مدد گار ہوتاہے اور ان کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھتاہےغیبت کے زمانے میں شہر قم اور اس کے باشندے دوسروں پر حجت ہیں۔
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: مشکلات و گرفتاریاں قم اور اس کے باشندوں سے دور ہیں، اورایک دن آئے گا کہ قم کے باشندے تمام لوگوں پر حجت ہوں گے، اوریہ زمانہ
-------
(۱)وہی ص۲۱۶
ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی غیبت اور ظہور کازمانہ ہوگا اگر ایسا نہ ہو، تو زمین اپنے باشندہ کو نگل جائے گی یقینا فرشتے بلاوٴں کو قم و اہل قم سے دور رکھتے، اور کوئی ستمگر قم کا ارادہ نہیں کرتا، مگر یہ کہ خداوند عالم اس کی کمر توڑ دیتا ہے ،اور اسے درد و الم ، یا دشمنوں سے گرفتار کر دیتا ہے، خدا وند عالم قم اور اہل قم کا نام ستمگروں کے حافظہ سے اس طرح مٹا دیتا ہے جس طرح انھوں نے خدا کو فراموش کر دیا ہے “
قم؛اسلامی تہذیب و ثقافت کے نشر کا مر کز
روایات میں گذشتہ باتوں کے علاوہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ غیبت کے دوران شہر قم اسلامی پیغام رسانی کا مر کز بنے گا ،اور یہاں سے زمین کے کمزور طبقوں کے کانوں تک اسلام کی بات پہنچے گی، نیز وہاں کے علماء دین اور دانشور حضرات دنیا پر حجت قرار پائیں گے۔
امام صادق (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :“عنقریب شہر کوفہ مومنین سے خالی ہو جائے گا، اور علم و دانش وہاں سے رخصت ہو جائے گا، اور سانپ کے مانند جو اپنی بل میں محدود رہتا ہے، محدود ہو جائے گا ،اور شہر قم سے ظاہر ہوگا پھر وہ جگہ علم و دانش اور فضل و کمال کامرکز بن جائے گی، اس درجہ کہ روئے زمین پر کوئی فکری اعتبار سے کمزور باقی نہیں بچے گا جو دین کے بارے میں جانتا نہ ہو، حدیہ ہے کہ پر دہ نشین خواتین بھی ،اورایسا ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے نزدیک زمانہ میں ہوگا۔
خدا وندعالم قم اور اہل قم کو حضرت حجت (عجل اللہ تعالی فرجہ) کا جانشین قرار دے گا ،اگر ایسا نہ ہوا تو زمین اپنے رہنے والوں کو نگل جائے گی اور روئے زمین پر کوئی حجت نہیں رہ جائے گی لہٰذا شرق و غرب عالم میں قم سے علم و دانش کی اشاعت ہوگی ،اور عالم پر حجت تمام ہوگی ،اس طرح سے کہ کوئی ایسا نہیں باقی بچے گا جو علم و دانش سے محروم ہو،اوراس وقت حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے، اور کافروں پر خدا کا عذاب ان کے ذریعہ نازل ہوگا؛ اس لئے کہ خدا وند عالم اپنے بندوں سے اس وقت تک انتقام نہیں لیتا ،جب تک کہ ان پر حجت نہ تمام ہوئی ہو“(۱)
دوسری روایت میں اس طرح آیاہے : ”اگر قم کے رہنے والے نہ ہوتے تو دین مٹ چکا ہوتا “(۲)
قم کی فکری روش کی تائید
بعض روایات سے استفادہ ہوتاہے کہ ائمہ معصومین( علیہم السلام) نے علماء قم کی تائید کی ہے ۔
چنانچہ امام صادق (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :”قم کی بلندی پر ایک فرشتہ ہے جو اپنے دونوں پروں کو ہلاتا رہتا ہے ،اور کوئی ظالم سوء ارادہ نہیں کرپاتا ؛مگر اسے خدا وند عالم نمک کی طرح پانی میں گھلا دیتا ہے۔
پھر اس وقت حضرت نے عیسیٰ بن عبدا للہ قمی کی طرف اشارہ کرکے کہا: قم پر خداو ندعالم کا درود ہو،خدا وند عالم ان کی سر زمین کو بارش سے سیراب کرے گا، اور ان پر اپنی بر کتیں نازل کرے گا، اورگناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا ،وہ لوگ رکوع ، سجود،قیام اور قعود والے ہیں؛ جس طرح وہ لوگ فقیہ ، دانشمند،اور صاحب درک و فہم ہیں، وہ لوگ اہل درایت و روایت ،اور نیک اور عبادت گذار وں کی بصیرت رکھنے والے ہیں “
اس طرح امام (علیہ السلام) نے اس شخص کے جواب میں جس نے کہا :میں چاہتا ہوں آپ سے وہ سوال کروں کہ مجھ سے پہلے کسی نے نہ پوچھا ہو ،اور نہ میرے بعد پوچھے گا ،کہتے ہیں : شاید تم حشر و نشر سے متعلق سوال کرنا چاہتے ہو ؟“اس نے کہا:ہاں ،اس ذات کی قسم جس نے
-------
(۱)وہی،، ص۲۱۳
(۲)وہی ،ج،۶۰،ص۲۱۳؛سفینة البحار، ج۷، ص۳۵۶
محمدکو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ،حضرت نے کہا: تمام افراد کا حشر بیت المقدس کی سمت ہے؛سرزمین جبل کہ ٹکڑے کی موت جسے قم کہتے ہیں بخشش الٰہی ان کے شامل حال ہے اس شخص نے اونگھتی ہوئی حالت میں کہا : اے فرزند رسول !کیا یہ قم والوں سے مخصوص ہے؟ امام (علیہ السلام) نے جواب دیا: ”ہاں؛وہ لوگ بلکہ ہر وہ شخص جو ان کے عقیدہ پر ہو اور ان کی بات کہے“(۱)
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے انصار
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ روایا ت میں قم والوں اور ان افراد کے جو اہل بیت (علیہم السلام) کا حق لینے کے لئے قیام کریں گے اسماء مذکور ہیں۔
عفان بصری کہتے ہیں : امام صادق (علیہ السلام) نے مجھ سے کہا:کیا جانتے ہو کہ قم کو قم کیوں کہتے ہیں ؟تو میں نے کہا : خداوندعالم اس کا رسول اور آپ بہتر جانتے ہیں ،آپ نے کہا: قم کو اس لئے اس نام سے یا د کرتے ہیں کہ اس کے رہنے والے قائم آل محمد کے ارد گرد جمع ہوں گے، اور حضرت کے ساتھ قیام کریں گے، اور اس راہ میں ثبات قدم اور پایداری کا ثبوت پیش کریں گے، اور آپ کی مدد کریں گے“(۲)
صادق آل محمد (علیہ السلام) ایک دوسری روایت میں اس طرح فرماتے ہیں:”قم کی مٹی، مقدس و پاکیزہ ہے، اور قم والے ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں، کوئی ظالم برائی کا ارادہ نہیں کرے گا مگر یہ کہ اس کواس سے پہلے سزامل جائے ،البتہ یہ اس وقت تک ہے جب اپنے بھائی سے نہ کریں اور اگر ایسا کیا تو، خدا وند عالم ،بد کردارستمگروں کو ان پر مسلط کر دے گا،لیکن قم والے ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصار اور ہمارے حق کی دعوت دینے والے ہیں ۔ اس وقت امام علیہ السلا م
-------
(۱)۲و۳ بحار الانوار، ج۶۰، ص۲۱۷
(۲)وہی ،ص۲۱۸
نے آسمان کی جانب سر اٹھا یا اور اس طرح دعا کی : خدا وند! انھیں ہر فتنے سے محفوظ رکھ اور ہر ہلاکت و تباہی سے نجات عطا کر“(۱ )
ایران،امام زمانہ کا ملک ہے
جو روایات شہر قم کے بارے میں بیان کی گئی ہیں وہ ایک حد تک ظہور سے قبل اور ظہور کے وقت ایرانیوں کی تصویر کشی کرتی ہیں،لیکن معصومین( علیہم السلام) کی تقریروں میں تھوڑا غور کرنے سے اس نتیجہ تک پہنچیں گے کہ انھوں نے، ایرانیوں اور ایران کی طرف خاص توجہ رکھی ہے، اور مختلف مواقع پر دین کی مدد اور ظہور کے لئے مقدمہ چینی کے بارے میں اور بھی تقریریں کی ہیں یہاں پر چند ایسی روایات پر جو ایرانیوں اور ظہور کے سلسلے میںمقدمہ بنانے والوں کی عظمت بیان کرتی ہیں اکتفاء کرتے ہیں :
ایرانیوں کی عظمت
ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول خدا کی خدمت میں فارس، کی بات چلی تو آنحضرت نے کہا:”اہل فارس( ایرانی)بعض ہم اہل بیت سے ہیں“(۲)
جس وقت رسول خدا کی خدمت میں غیر عرب(۳) یا موالی (چاہنے والوں)کی بات چلی تو آنحضرت نے فرمایا :خدا کی قسم میں ان پر تم سے زیادہ اعتماد و اطمینان رکھتا ہوں“ (۴ )ممکن ہے یہ چیز اہل فارس سے مخصوص نہ ہو بلکہ عام ہو۔
-------
(۱)وہی ،ص۲۱۶
(۲)وہی ،ص۲۱۸
(۳)ذکر اصفہان ،ص۱۱
(۴)موالی ومولی کا لغت میں مختلف استعمال ہے علامہ امینی نے الغدیر کی پہلی جلد میں ۲۲معنی ذکر کیا ہے لیکن حدیث و آیت کی اصطلاح میں پانچ معنی ذکر ہوئے ہیں:ولاء عتق،ولاء اسلام،ولاء حلف،ولاء قبیلہ،ولاء عرب کے مقابل لیکن اس سے مراد غیر عرب ہیں اور غالباً یہی معنی علماء رجال کی مراد ہے
ابن عباس کہتے ہیں جس گھڑی سیاہ پر چم تمہاری سمت بڑھ رہے ہوں فارسوں کا احترام کرواس لئے کہ تمہاری حکومت ان کی بدولت ہے“(۱)
ایک روز اشعث نے حضرت علی!(علیہ السلام) سے اعتراض کرتے ہوئے کہا: اے امیرالموٴ منین یہ (گونگے )کیوں تمہارے ارد گرد آئے ہوئے ہیں اور ہم پر سبقت کرتے ہیں۔ ؟ حضرت غصہ ہوئے اور جواب دیا-:کون مجھے معذور قرار دے گا کہ ایسے قوی ہیکل اور بے خیر کہ ان میں سے ہر ایک لمبے کان لئے اپنے بستر پر لوٹتا ہو، اور فخر و مباحات کرتے ہوئے ایک قوم سے رو گرداں ہو؛تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں اُن سے دور ہو جاوٴں ؟کبھی میں ان سے دور نہیں ہوں گا۔(۲) جب تک کہ وہ جاہل کی صف میں شامل نہ ہو جائیں ،اس خدا کی قسم جس نے دانے اُگائے اور مخلوقات کو خلق کیا وہ لوگ ایسے ہیں جو تمہیں دین اسلام کی طرف لوٹانے کے لئے تم سے مبارزہ کریں گے؟ جس طرح تم اسلام لانے کے لئے ان کے درمیان تلوار چلاتے ہو۔“(۳)
ظہور کی راہ ہموار کرنے والے
قابل اہمیت حصہ جو روایات میں ظہور سے پہلے کے واقعات اور حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصار کے بارے میں آیا ہے وہ ایران اور ایرانیوں کے بارے میں مختلف تعبیر کے ساتھ جیسے اہل فارس ۔عجم، اہل خراسان ،اہل قم،اہل طالقان،اہل رے۔وبیان کیا گیا ہے ۔
تمام روایات کی تحقیق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ملک ایران میں ظہور سے پہلے الٰہی حکومت جو ائمہ( علیہم السلام) کی دفاع کرنے والی اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی
-------
(۱)ذکر اصفہان ،ص۱۲؛ملاحظہ ہو:الجامع الصحیح، ج۵، ص۳۸۲
(۲)رموز الاحادیث ،ص۳۳
(۳)مستدرک الوسائل ،ج،۱۳،ص،۲۵۰،حدیث۴
عنایت کا مرکز ہوگی قائم ہوگی، نیز ایرانی ،حضرت کے قیام میں بہت بڑا کردار ادا کریں گے چنانچہ قیام کی بحث میں ذکر کریں گے ،یہاں پر صرف چند روایت پر اکتفاء کرتے ہیں :
رسول خدا فرماتے ہیں :”ایک شخص سر زمین مشرق سے قیام کرے گا، اور حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے قیام کی راہ ہموار کرے گا۔“(۱)
نیز فرماتے ہیں :ایسے سیاہ پر چم مشرق کی طرف سے آئیں گے جن کے دل فولادی ہوں گے ،لہٰذا جو بھی ان کی تحریک سے آگاہ ہو ان کی طرف جائے اور بیعت کرے خواہ انھیں برف پر چلنا پڑے“(۲)
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” گویا میں ایک ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں جس نے مشرق میں قیام کر دیا ہے، اور حق کے طالب ہیں؛لیکن انھیں حق نہیں دیا جا رہا ہے، دو بارہ طلب کرتے ہیں پھر بھی ان کے حوالے نہیں کیا جا رہا ہے، ایسی صورت میں تلواریں نیام سے باہر نکالے شانوں پر رکھے ہوئے ہیں، اس وقت دشمن ان کی مرادوں کو پورا کررہا ہے ،لیکن وہ لوگ قبول نہیں کر رہے، اور قیام کئے ہیں، اور حق صاحب حق ہی کو دیں گے، ان کے مقتولین شہید ہیں ،اور اگر ہم نے انھیں درک کر لیا تو میں خودکو اس صاحب امر کے لئے آمادہ کروں گا “(۳)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصا ر ۳۱۳ / اولاد عجم ہیں “(۴)
-------
(۱)الغارات، ج۲۴،ص۴۹۸؛سفینة البحار، ج۸،ص۶۰۹؛ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ،ج۲۰، ص۲۸۴
(۲)ابن ماجہ ،سنن ،ج ۲،ص۱۳۶۸؛المعجم الاوسط ،ج۱ ،ص۲۰۰؛مجمع الزوائد ،ج۷، ص۳۱۸؛کشف الغمہ ،ج۳، ص۲۶۸؛ اثبات الہداة ،ج۳ ،ص۵۹۹؛بحار الانوار ،ج۵۱ ،ص۸۷
(۳)عقد الدرر، ص۱۲۹؛شافعی ،بیان، ص۴۹۰؛ینابیع المودة ،ص۴۹۱ ؛کشف الغمہ، ج۳، ص۲۶۳؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۹۶؛بحار الانوار، ج۵۱، ص۸۴
(۴)نعمانی ،غیبة، ص۳۷۳ ؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۴۳؛ابن ماجہ، سنن ،ج۲ ،ص۱۳۶۶؛حاکم مستدرک ،ج۴، ص۴۶۴
اگر چہ عجم کا اطلاق غیر عرب پر ہوتا ہے لیکن قطعی طور پر ایرانیوں کو بھی شامل ہے ،اور دیگر روایات پر توجہ کرنے سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی مخصوص فوج کی تعداد زیادہ تر ایرانیوں پر مشتمل ہے۔
رسول خدا فرماتے ہیں : عنقریب تمہارے بعد ایک قو م آئے گی جسے طی الارض کی صلاحیت ہوگی، اور دنیاوی دروازہ ان پر کھلے ہوں گے، نیزان کی خدمت ایرانی مرد اور عورت کریں گی، زمین ان کے قدموں میں سمٹ جائے گی ،اس طرح سے کہ ان میں سے ہرایک شرق و غرب کی فاصلہ کے باوجود ایک گھنٹہ میں مسافت طے کر لے گا، نہ انھوں نے خود کو دنیا سے فروخت کیا ہے، اور نہ ہی وہ دنیادار ہیں“(۱)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں : طالقان والوں کو مبارک ہو کہ خداوند عالم کا وہاں ایسا خزانہ ہے جو نہ سونے کا ہے اور نہ چاندی کا بلکہ صاحب ایمان لوگ ہیں، جنھوں نے خدا کو حق کے ساتھ پہچانا ہے ،اور وہی لوگ آخر زمانہ میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصا ر میں سے ہوں گے “(۲)
رسول خدا بھی خراسان کے بارے میں فرماتے ہیں:”خراسان میں خزانے ہیں لیکن نہ وہ چاندی ہے اور نہ سونا ،بلکہ ایسے لوگ ہیں جنھیں خدا و رسول دوست رکھتے ہیں۔(۳)
-------
(۱)فردو س الاخبار ،ج۳، ص۴۴۹
(۲)شافعی ،بیان، ص۱۰۶؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۵۰؛کنزل العمال ،ج۱۴ ،ص۵۹۱؛ینابیع المودة ،ص۴۹۱؛کشف الغمہ ،ج۳ ،ص۲۸۶
(۳)کنزل العمال، ج۱۴، ص۵۹۱
|