حکومت مهدي پر طايرانه نظر
  پانچویں فصل

دنیا کی اقتصادی حالت ظہور کے وقت
اس فصل کی روایتوں سے استفادہ ہوتا ہے، کہ فساد و تباہی کے پھیلاوٴ ا ورعطوفت صلہٴ رحمی کے ختم ہوجانے اور جنگ وغیرہ سے دنیا اقتصادی اعتبار سے انحطاطی کیفیت سے دو چار ہوگی؛ اس طرح سے کہ آسمان بھی ان پر رحم نہیں کرے گا، اور بارش کانزول جو کہ رحمت الٰہی ہے غضب میں تبدیل ہو جائے گا، اور ایک تباہ کن حالت ہو گی۔
ہاں، آخر زمانہ میں بارش کم ہو گی، یاپھر بے موسم ہو گی جو کھیتیوں کی نابودی کا سبب قرار پائے گی، چھوٹے چھوٹے دریا اور جھیلیں خشک ہوجائیں گی، اور کھیتیاں سود مند ثابت نہیں ہوں گی، اور تجارت کی آب و تاب ختم اور بھوک مری عام ہو جائے گی، اس درجہ کہ لوگ پیٹ بھرنے کے لئے اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو بازار میں لے آئیں گے، اور انھیں تھوڑی سی غذا کے بدلے بدل ڈالیں گے ۔

الف) بارش کی کمی اور بے موقع بارش
رسول خدا فرماتے ہیں : ”لوگوں پر ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ خدا وند عالم بارش سے انھیں محروم کر دے گا ۔ اور بارش نہیں ہوگی اور اگر ہوگی تو بے موسم ہوگی“(۱)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”گرمی کے موسم میں بارش ہوگی “(۲)
-------
(۱)جامع الاخبار،ص ۱۵۰؛مستدر ک الوسائل، ج۱۱،ص ۳۷۵
(۲)دوحة الا نوار، ص۱۵۰؛الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۱۵۱؛کنز ل العمال ،ج۱۴،ص۲۴۱
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے ایک سال ایسا ہوگا کہ خوب بارش ہوگی جس سے میوہ خراب اور کھجوریں درخت پر ہی فاسد ہوجائیں گی لہٰذا اس وقت شک و شبہ میں مبتلا نہ ہونا( ۱ )
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” بارش اتنی کم ہوگی کہ نہ زمین پودا اگاسکے گی اور نہ ہی آسمان سے بارش ہوگی ایسے موقع پر حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے“(۲)
عطا بن یسار کہتے ہیں:”روز قیامت کی نشانیوں میں ایک۔یہ ہے کہ بارش تو ہوگی لیکن زراعت نہیں ہو پائے گی“
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:” جس وقت حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) اور ان کے اصحاب قیام کریں گے تو پانی زمین پر نایاب ہوجائے گا، موٴ منین خدا وند عالم سے گریہ و زاری، نالہ و فریاد کے ذریعہ بارش کی در خواست کریں گے، تاکہ خدا وند عالم پانی بر سائے اور لوگ سیراب ہوں“(۳)

ب) چھوٹی چھوٹی (ندیوں، جھیلوں کا خشک ہو نا)
رسول خدا فرماتے ہیں :” مصر کے شہر؛ دریائے نیل کے خشک ہو جانے کی وجہ سے تباہ ہوجائیں گے “(۴)
ارطات کہتے ہیں :”اس وقت،دریائے فرات ،نہریں،اورچشمے خشک ہو جائیں گے“( ۵ )
-------
(۱)شیخ مفید ،ارشاد، ص۳۶۱؛شیخ طوسی، غیبة، ص۲۷۲؛اعلام الوری، ص۴۲۸؛خرائج ج۳،ص۱۱۶۴؛ابن طاوٴ س، ملاحم، ص۱۲۵؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۱۴
(۲)ابن طاوٴس ،ملاحم ،ص۱۳۴
(۳)عبد الرزاق ،مصنف ،ج۳ ،ص۱۵۵
(۴)دلائل الامامہ، ص۲۴۵
(۵)بشارة الاسلام ،ص۲۸
نیز روایت میں آیا ہے ”طبرستان کے چھوٹے چھوٹے دریا خشک ہو جائیں گے، کھجور کے درخت بار آور نہیں ہوں گے اور ”زعر“(جو شام میں واقع ہے)چشمہ کا پانی زمین کی تہہ میں چلا جائے گا ‘ ‘(۱)
اسی طرح ایک دوسری روایت میں آیا ہے : نہریں خشک ہو جائیں گی،اور مہنگائی اور خشک سالی تین سال تک بر قرار رہے گی ۔(۲)

ج)قحط،فقرو کساد بازاری
ایک شخص نے رسول خدا سے سوال کیا : قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے کہا: جس سے سوال کیا گیا ہے وہ (رسولخدا) سوال کرنے والے سے زیادہ باخبر نہیں ہے، مگر قیامت کی نشانیاں ہیں: ان میں سے ایک تقارب بازار ی ہے، سوال کیا گیا: تقارب بازار کیا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا مندا بازاری و بارش کا نہ ہونا کہ جس میں گھاس و محصول اپج نہ سکے“(۳)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) نے ابن عباس سے کہا: ”تجارت و معاملات زیادہ ہوں گے، لیکن لوگوں کو اس سے فائدہ کم نصیب ہوگا ۔اس کے بعد شدید قحط پڑے گا “(۴)
محمد بن مسلم کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو کہتے سنا :” حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے قبل خدا وند عالم کی جانب سے موٴمنین کے لئے علامتیں ہیں “میں نے کہا خدا مجھے آپ کا فدیہ قراردے ؛وہ علامتیں کیا ہیں ؟
آپ نے جواب دیا ”وہ خدا وند عالم کے قول کے مطابق ہیں۔
وَلِنَبْلُوَنَّکُمْ بِشْیءٍ مِنَ الْخَوْفِ والجوعِ و نقصٍ من الاموال والانفس
-------
(۱)ابن حماد ،فتن ،ص۱۴۸
(۲)بشارة الاسلام ،ص۱۹۱؛الزام الناصب ،ص۱۶۱
(۳)بشارة الاسلام ،ص۹۸
(۴)الترغیب و الترہیب ،ج۳، ص۴۴۲
والثمراتِ وبَشّر الصابرین>؛(۱)
تمہیں (مو منین ) حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے قبل خوف ، بھوک، جان و مال،اورمیووں کی کمی سے آزمائیں گے لہٰذا صبر کرنے والوں کو مژدہ سناوٴ“
اس وقت فرمایا:خدا وند عالم موٴمنین کو بنی فلاں کے بادشاہوں کے خوف سے ان کے اختتامی حکومت کے زمانے میں آزمائے گا۔
گر سنگی سے مراد ،قیمت کی گرانی ہے اور”کمی دارایھا“سے مراد( Income) آمدنی کی کمی اور مندا بازاری ہے۔نقصان جان سے مراد، موتوں کی زیادتی اور اس کاپئے در پئے واقع ہونا ہے اور میووٴں کی کمی سے مراد، کاشت کی منفعت میں کمی ہے ۔لہٰذا صبر کرنے والوں کو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کا اس وقت مژدہ سناوٴ “(۲)
کتاب”اعلام الوریٰ“ کی نقل کے مطابق ”قلة المعاملات“سے مراد کساد بازاری ، اورعدل و انصاف کی کمی کے معنی میں ہے۔(۳)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”جب سفیانی خروج کرے گا، تو اشیاء خورد و نوش میں کمی آچکی ہوگی ،لوگوں کو قحط کا سامنا ہو گا بارش کم ہوگی “(۴)
ابن مسعود کہتا ہے:جب تجارتیں ختم ہو جائیں گی،اور راستے خراب ہو جائیں گے، تو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور فرمائیں گے۔(۵)
------
(۱)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۲۵
(۲)سورہ ٴ بقرہ، آیت ۱۵۵
(۳)کمال الدین ،ج۲،ص۶۵۰؛نعمانی، غیبة، ص۲۵۰؛مفید ،ارشاد، ص۳۶۱؛اعلام الوری، ص۴۶۵؛عیاشی ،تفسیر، ج۱ ، ص۶۸
(۴)اعلام الوری ،ص۴۵۶
(۵)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۳۳
شاید مندہ بازاری کی وجہ صنعتی وپیداوار مراکز کی ویرانی اور انسانی طاقتوں کی کمی ،خریدنے کی طاقت کا نہ ہونا ،قحط اور راستوں کا غیر محفوظ ہونا وغیرہ ہے۔
مسند احمد بن حنبل میں مذکورہے: حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے قبل لوگ تین سال تک شدید خشک سالی میں مبتلا ہوں گے۔(۱)
ابو ہریرہ کہتے ہیں : اس شر سے جو اُ ن سے نزدیک ہو رہا ہے عرب پر وائے ہو؛ سخت بھوک مری کا سامنا ہوگا، مائیں اپنے بچوں کی بھوک کی وجہ سے، گریہ و زاری کریں گی ۔(۲)

د)غذاکے بدلے عورتوں کا تبادلہ
ظہور سے پہلے قحط اور بھوک مری کا حادثہ اس درجہ دردناک ہوگا کہ کچھ لوگ اپنی لڑکیوں کا معمولی غذا کے عوض معاملہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ابو محمد، مغربی شخص سے روایت کرتے ہیں : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت ظہور کریں گے کہ انسان (فقر فاقہ کی شدت اور بھوک مری سے) اپنی خوبصورت کنیزوں اور لڑکیوں کو بازار میں لائے گا ،اور کہے گا: کون ہے جو مجھ سے اس لڑکی کو خرید لے اور اس کے بدلے خوراک دیدے ؟ایسے شرائط میں حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے ۔(۳)
-------
(۱)الفتاوی الحدیثیہ، ص۳۰؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۴۲؛عقد الدرر،ص۱۳۲
(۲)ابن ماجہ، سنن، ج۲، ص۱۳۶۳
(۳)کنزل العمال ،ج۱۱،ص۲۴۹