چوتھی فصل
ظہور سے پہلے امن وامان
الف)ھرج و مرج اور ناامنی
بڑی طاقتوں کی زیادتی و تجاوز کے سبب، چھوٹی چھوٹی حکومتوں اور ناتواں اقوام کے درمیان امنیت کا خاتمہ ہو جائے گا اس کے علاوہ آزادی و امنیت کا کوئی مفہوم نہیں رہ جائے گا ۔
(SUPER POWER)سوپر پاور حکومتیں ناتواں ملتوں ا ور ضعیف اقوام پر اس درجہ دباوٴ ڈالیں گی اور ملتوں کے حقوق سے اتنا تجاوزکریں گی کہ لوگوں کو سانس لینے کی بھی مہلت نہیں ملے گی ۔
رسول خدا اس زمانہ کی اس طرح تصویر کشی کرتے ہیں :”عنقریب امتیں (دیگر آئین و مکاتب کے پیرو)تمہارے خلاف اقدام کریں گی ؛جس طرح بھوکے کھانے کے برتنوں پر حملہ بولتے “(ٹوٹ پڑتے )ہیں ایک شخص نے کہا: کیا اس وجہ سے ایسا ہوگا کہ ہم اس وقت اقلیت میں ہوں گے، کہ ایسے حملہ کا نشانہ بنیں گے؟ رسول خدا نے کہا:” تمہاری تعداد اس وقت زیادہ ہوگی، لیکن خس و خاشاک کے مانند باڑھ میں سطح آب پر ہو گے خدا وند عالم تمہاری ہیبت و عظمت تمہارے دشمنوں کے دلوں سے نکال دے گا ،اور تمہارے دلوں پرسستی چھا جائے گی “کسی نے پوچھا : یا رسول اللہ! یہ سستی کس وجہ سے ہوگی؟آپ نے فرمایا : ”دنیا کی محبت اور موت کو اچھا نہ سمجھنے سے“(۱)
-------
(۱) طیالسی ،مسند ،ص۱۳۳؛ابی داوٴد ،سنن ،ج۴ ،ص۱۱۱؛المعجم الکبیر ،ج۲، ص۱۰۱
یہ دو بری خصلتیں جسے رسول خدا نے یاد دلائی ہیں، ملتوں کے آزادی حاصل کرنے اور اپنے اقدار کا دفاع کرنے سے مانع ہونے کے لئے کافی ہیں اور انھیں ذلت آمیز زندگی جو ہر شرائط کے ساتھ ہو مانوس کرے ؛ہر چند ایسادین و اصول مکتب کے گنوا دینے سے ہو۔
رسول خدا فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کا ظہور اس وقت ہوگا جب دنیا پر آشوب اور ھرج مرج سے بھر جائے گی۔(۱) ایک گروہ دوسرے گروہ کے خلاف یورش کرنے لگے گا، اور نہ بڑا چھوٹے پر اور نہ ہی قوی، ناتواں پر رحم کرے گا تو ایسے موقع پر خدا وند عالم انھیں قیام کی اجازت دےگا“(۲)
ب)راستوں کا غیر محفوظ ہونا
ہرج و مرج اور ناامنی کا دائرہ راستوں تک ہوگا بے رحمی وسیع ہو جائے گی اس وقت خداوندعالم حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کو بھیجے گا اور ان کے دست زبردست سے گمراہیوں کے باب کی فتح ہوگی ۔
مہدی موعود (عجل اللہ تعالی فرجہ) تنہا کشادہ استوار قلعوں کی جانب توجہ نہیں دلائیں گے بلکہ حقائق و معنویت سے غافل دلوں کوکھول دیں گے اور حقائق کے قبول کرنے کے لئے آمادہ کر دیں گے ۔
رسول خدا اپنی بیٹی سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :” اس خدا کی قسم جس نے مجھے مبعوث کیا ہے حقیقتاً اس امت کا مہدی حسین کی نسل سے ہے، جب دنیا میں ھرج و مرج اور بے سروسامانی ہوگی ۔ اور فتنے (یکے بعد دیگرے) آشکار ہوں گے راستے ،سڑکیں ناامن ہو جائیں گی اور بعض کچھ لوگوں پر حملہ کریں گے؛ نہ بڑا چھوٹے پر رحم کرے گا اور نہ چھوٹا بڑے کا
-------
(۱)بحار الانوار، ج۳۶،ص ۳۳۵؛؛ج۵۲،ص۳۸۰
(۲)وہی، ج۵۲،ص۱۵۴
احترام کرے گا ؛ایسے ہنگام میں خدا وند عالم حسن و حسین علیہماالسلام کی نسل سے ایک شخص کو مبعوث کرے گا گمراہی کے قلعوں کو درھم و برھم کردے اور اسے فتح کرے ۔ اور ایسے دلوں کو جن پر جہالت ونادانی کا پردہ پڑا ہوا ہے اور حقائق کے درک سے عاجز ہیں بے نقاب کردیگا وہ آخر زمانہ میں قیام کریگا اسی طرح جیسے ہم نے اول میں قیام کیا ہے اوروہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر د ےگا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہو گی۔“(۱)
ج)خوفناک جرائم
ستمگروں اورجلادوں کے جرائم تاریخ میں نہایت خوفناک اور ڈراوٴنے رہے ہیں۔ تاریخی صفحات جرائم وظلم و استبداد سے بھرے پڑے ہیں ظالم و جابر اورخون کے پیاسے حکام اقوام عالم کو محروم رکھے ہوئے ہیں، جس کے نمونے چنگیز ،ہٹلر ، اورآٹیلاہیں۔
رہا سوال ان جرائم کا جو امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے قبل رونما ہوں گے، خطرناک ترین جرائم ہیں جس کا تصور کیا جا سکتا ہے لکڑی کے دار پر چھوٹے چھوٹے بچوں کو پھانسی دینا ،انھیں آگ میں جلانا ،پانی میں ڈبونا، انسانوں کوفولادی ہتھیار آرہ سے ٹکڑے ٹکڑے کرنا،چکیوں میں پیس دیناوغیرہ ۔
تاریخ کے تلخ حادثات، ہیں جو حکومت عدل جہانی کے قیام سے پہلے دفاع بشر کی دعویدار حکومتوں سے رونما ہوں گے ایسی درندگی کے ظہور سے حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہو جائے گا جس کے بارے میں روایات کہتی ہیں کہ محرومین کی پناہ ہوگی ۔
-------
(۱)عقد الدرر، ص۱۵۲؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۵۴؛احقاق الحق ،ج۱۳، ص۱۱۶؛الاربعون حدیثاً (ابو نعیم) ذخائر العقبی، ص۱۳۵؛ینابیع المودة، ص۴۲۶
حضرت علی (علیہ السلام)ایسے تلخ ایام کی منظر کشی یوں فرماتے ہیں : ”اس وقت سفیانی ایک پارٹی کو مامور کرے گا تاکہ وہ لوگ بچوں کو ایک جگہ جمع کریں ؛اس گھڑی انھیں جلانے کے لئے تیل کھولا یا جائے گا ؛بچے کہیں گے : اگر ہمارے آباوٴ اجداد نے تمہاری مخالفت کی ہے، تو میرا کیا گناہ ہے “کہ ہم ضرو رجلائے جائیں، پھروہ ان بچوں کے درمیان حسن و حسین نامی بچوں کو باہر لاکر دار پر لٹکائے گا ،اس کے بعد کوفہ کی سمت روانہ ہوگا اور وہی (پہلے کی وحشت ناک)حرکت وہاں کے بچوں کے ساتھ بھی انجام دے گا اور اسی نام کے دو بچوں کو مسجد کوفہ کے دروازہ پر دار پر لٹکائے گا۔ اور وہاں سے باہر نکل کر پھر ظلم و جنایت کرے گا، اور ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے حاملہ عورتوں کو قید کرے گا، اور انھیں اپنے کسی ایک چاہنے والے کے حوالے کر دے گا، اور اسے حکم دے گا کہ بیچ راستے میں اس کے ساتھ تجاوز (عصمت دری)کرو اور تجازو کے بعد عورت کا پیٹ چاک کرکے بچے کو باہر نکال لے گا کوئی اس ہولناک حالت کو نہیں بدل سکتا “(۵)
امام جعفر صادق علیہ السلام لوح کی خبر میں فرماتے ہیں : ”خدا وند عالم اپنی رحمت رسول خدا کی بیٹی کے فرزند کے ذریعہ کامل کرے گا، وہی شخص جو موسی علیہ السلام کا کمال، عیسیٰ (علیہ السلام) کی ہیبت ،ایوب پیغمبر( علیہ السلام) کا صبر و استقامت رکھتا ہے ہمارے چاہنے والے، (ظہور سے قبل) خوارو ذلیل ہوں گے اور ان کے سر ترک ودیلم کے رہنے والوں کی مانند (ظالموں و حکام)کے لئے ھدیہ کئے جائیں گے، وہ قتل کئے جائیں گے ،جلائے جائیں گے ،اور ان پر خوف و ہراس طاری ہوگا، زمین ان کے خون سے رنگین ہوجائے گی، نالہ و فریاد عورتوں کے
-------
(۵)عقد الدرر ،ص۹۴؛الشیعہ والرجعہ، ج۱ ،ص۱۵۵
درمیان بڑھ جائے گی وہ لوگ ہمارے سچے و واقعی دوست ہیں وہ ان کے ذریعہ ہر اندھے و تاریک فتنے کا دفاع کریں گے زلزلے اور بے چینی کو بر طرف کریں گے اور قید وبند کی زندگی سے انھیں آزاد کردیں گے خدا وند عالم کا ان پر درود ہو کہ وہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔“(۱)
ابن عباس کہتے ہیں: ”سفیانی و فلانی خروج کرکے آپس میں جنگ کریں گے اس طرح سے کہ (سفیانی) عورتوں کے شکم چاک کرکے بچوں کو نکال لے گااور بڑے دیگ میں جلاڈالے گا“ ( ۲ )
ارطات کہتا ہے :سفیانی اپنے مخالف کو قتل کرے گا، آرہ سے اپنے مخالفین کو دو آدھا کردے گا انھیں دیگ میں ڈال کرنابود کر دے گااور یہ ظلم و ستم ۶/ ماہ تک رہے گا۔(۳)
د)زندوں کو موت کی آرزو
رسول خدا فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، دنیا ختم نہیں ہونے پائے گی کہ وہ وقت آجائے گا کہ جب کوئی مرد قبر ستان سے گذرے گا ،تو خود کو قبر پر گرا دے گا، اور کہے گا: کاش اس کی جگہ میں ہوتا، جب کہ اس کی مشکل قرض نہیں ہوگی، بلکہ زمانے کی مصیبت ،ظلم و جور ہوگی“(۴)
روایت میں کلمہ ”رجل“(رد)کے ذکر سے دو بات کا استفاد ہوتا ہے: اول یہ کہ یہ مصیبت و مشکلات اور اس وقت مو ت کی آرزو کرنا، کسی گروہ،قوم اورطائفہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سبھی اس ناگوار حادثات کا شکا ر ہوں گے ۔
-------
(۱)کما ل الدین ،ج۱، ص۳۱۱؛ابن شہر آشوب ،مناقب، ج۲، ص۲۹۷؛ اعلام الوری، ص۳۷۱ ؛اثبات الوصیہ، ص ۶ ۲ ۲
(۲)ابن حماد، فتن، ص۸۳؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۵۱
(۳)حاکم، مستدرک، ج۴ ،ص۵۲۰الحاوی للفتاوی، ج۲ ،ص ۶۵؛متخب کنزل العمال، ج۶، ص۳۱(حاشیہ مسند احمد)؛ احقا ق الحق، ج۱۳، ص۲۹۳
(۴)احمد، مسند، ج۲، ص۶۳۶؛مسلم ،صحیح، ج۴، ص۲۲۳۱؛المعجم الکبیر، ج۹، ص۴۱۰؛مصابیح السنہ، ج۲، ص۱۳۹؛عقد الدرر، ص۲۳۶
دوم یہ کہ مرد کے ذریعہ تعبیر کرنا، اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ اس وقت دباوٴ و سختی زیادہ بڑھی ہوگی؛اس لئے کہ مر د اکثر مشکلات و شدائد میں عورت سے زیادہ مقا ومت کرتا ہے ،اس بات سے کہ مردوں کو اس زمانے کی سختیاںنا قابل بر داشت ہوں گی، استفادہ ہوتا ہے کہ مشکل بہت بڑی اور کمر شکن ہے ۔
ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں کہ امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا : اے ابو حمزہ حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت قیام کریں گے جب خوف و ہراس ، مصیبتیں ،اورفتنے معاشرہ میں حاکم ہوں گے ۔گرفتاری و بلاء لوگوں کے دامن گیر ہوگی، اور اس سے پہلے طاعون ،کی بیماری پھیلی ہوگی عرب کے مابین شدید اختلاف و نزاع واقع ہوگا ،اور لوگوں کے درمیان سخت اختلاف حاکم ہوگا، اور ایسا،دین اور اس کے آئین سے دوری کی بنیاد پر ہوگا ۔ لوگوں کی حالت اس حد تک بدل جائے گی کہ ہر شخص شب و روزجو اس نے لوگوں کی درندگی اور ایک دوسرے کے حق سے تجاوز دیکھاہے، مرنے کی آرزو کرےگا۔(۱)
حذیفہ صحابی ،رسو ل خدا سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :” یقینا تم پر ایک ایسا وقت آئے گاکہ انسان اس وقت مرنے کی آرزو کرے گا؛اور یہ آرزو فقر و تنگدستی کے سبب نہیں ہوگی“( ۲)
ابن عمر کہتے ہیں کہ یقینا لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ مومن زمین کی مصیبت، اور شدتِ گرفتاری کی وجہ سے آرزو کرے گا کہ کاش میں اپنے خانوادہ (اہل و عیال) سمیت کشتی پر سوار ہوتا اور دریا میں غرق ہو جاتا ۔(۳)
-------
(۱)نعمانی، غیبة، ص۲۳۵؛طوسی ،غیبة، ص۲۴۷؛اعلام الوری، ص۴۲۸؛بحار الانوار، ج۲،۵ ص۳۴۸؛اثبات الہداة، ج۳ ،ص۵۴۰؛حلیة الا برار، ج۲، ص۶۲۶؛بشارة الاسلام ،ص۸۲
(۲)ابن ابی شیبہ ،مصنف ،ج۱۵،ص۹۱؛مالک ،موطا، ج۱، ص۲۴۱؛مسلم ،صحیح، ج۸، ص۱۸۲؛احمد، مسند،ج۲، ص۲۳۶ ؛ بخاری، ج۹، ص۷۳؛فردوس الاخبار، ج۵، ص۲۲۱
(۳)عقد الدرر، ص۳۳۴
ھ)مسلمانوں کا اسیر ہونا
حذیفہ بن یمانی کہتے ہیں کہ رسول خدا نے ان مشکلات کے بیان کرتے ہوئے جن سے مسلمان دوچار ہوں گے فرمایا: دباوٴ کی وجہ سے آزاد افراد کوفروخت کریں گے اور عورتیں و مردغلامی کا اقرار کریں گے مشرکین مسلمانوں کو اپنی مزدوری و نوکری کے لئے استعمال کریں گے اور انھیں شہروں میں فروخت کریں گے اور کوئی ہمدرد ودلگیر نہیں ہوگا، نہ مومن اور نہ بد کار و فاجر ۔ اے حذیفہ! گرفتاری اس زمانے کے لوگو ں پر قائم رہے گی، اور اس درجہ مایوس ہوں گے کہ ظہور کشایش(فرج) سے بد گمان ہوجائیں گے ،اس وقت خدا وندعالم میری پاکیزہ عترت نیک فرزندوں میں سے جو عادل ،مبارک اور پاکیزہ ہوگا ،ایک شخص کو بھیجے گاوہ ذرا بھی چشم پوشی اور چھوٹ سے کام نہیں لے گا ۔خدا وند عالم دین،قرآن ،اسلام اور اس کے اہل کو اس کی مدد سے عزیز اور شرک کو ذلیل کرے گا ،وہ ہمیشہ خدا سے ڈرتا ہے اور کبھی مجھ سے اپنی رشتہ پر ناز نہیں کرتا ؛پتھر کو پتھر پر نہیں رکھے گا اور کسی کو کوڑے نہیں مارے گا، سوائے یہ کہ حق ہو یا حد کا اجراء ہو خدا وند عالم اس کے ذریعہ بد عتوں کا خاتمہ اور فتنوں کو نابود کردے گا اور حق کے دروازوں کو کھول دے گا نیز باطل کے دروازے بند کردے گا اور مسلمان اسیروں کو جہاں کہیں بھی ہوں گے ان کے وطن لوٹا دے گا“(۱)
و)زمین میں دھسنا
رسو خدا فرماتے ہیں:” یقینا اس امت پر وہ زمانہ آئے گا کہ دن کو رات بنادے گا، جب کہ ہر ایک دوسرے سے سوال کرے گا، آج رات زمین کس کو کھاگئی، جس طرح لو گ ایک دوسرے سے سوال کریں گے کہ فلاںخاندان و قبیلہ سے کون زندہ ہے کیا کوئی اس خاندان سے زندہ ہے؟“(۲)
-------
(۱)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۳۲
(۲)المطالب العالیہ، ج۴، ص۳۴۸
شاید یہ کنایہ ہو آخر زمانہ کی کشت وکشتارا ور جنگ و جدال سے کہ جدید و نئے اسلحوں کے استعمال سے ہر روزلوگوں کی خاصی تعداد ماری جائے گی اور شاید زمین گناہ کی زیادتی سے، اپنے رہنے والوں کو کھاجائے ۔
ز)ناگہانی (اچانک)اموات کی زیادتی
رسول خدا فرماتے ہیں:”قیامت کی ایک علامت فالج کی بیماری اور ناگہانی موت ہے“(۱)
نیز فرماتے ہیں -:”قیامت اس وقت آئے گی جب سفید موت ہونے لگے لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ!سفید موت کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا: ”ناگہانی موت“(۲)
امیر الموٴ منین علیہ السلام فرماتے ہیں ”حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے سرخ و سفید موت ہوگی سفید موت، طاعون ہے‘‘(۳)
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) ایسے زمانے میں قیام کریں گے کہ جب خوف و ہراس کا غلبہ ہوگا اور اس سے پہلے طاعون کا مرض عام ہوگا “ ( ۴)
ح)دنیا والے نجات سے نا امید ہوں گے
رسول خدا فرماتے ہیں :”اے علی! حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت ظہور کریں گے، جب شہر دگر گون ہو جائیں گے، اور خدا کے بندے ضعیف اور حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے فرج و ظہور سے مایوس ہو چکے ہوں گے، ایسے وقت میں مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ) قائم میرے فرزندوں کی نسل سے ظاہر ہوں گے“( ۵)
-------
(۱)شجری ،امالی، ج۲ ،ص۲۷۷
(۲)الفائق ،ج۱، ص۱۴۱
(۳)نعمانی ،غیبة، ص۲۷۷؛طوسی، غیبة، ص۲۶۷؛اعلام الوری ،ص۴۲۷؛خرائج ،ج۳ ،ص۱۵۲؛عقد الدرر،ص۶۵؛ الفصول المہمہ، ص۳۰۱؛الصراط المستقیم ،ج۲ ،ص۲۴۹؛بحار الانوار ،ج۵۲، ص ۲۱۱
(۴)بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۴۸
(۵)ینابیع المودة، ص۴۴۰؛احقاق الحق ،ج۱۳، ص۱۲۵
ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں امام محمد باقر علیہ السلام فرمایا:”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کا قیام اس وقت ہو گا جب لوگ اپنے کاموں میں کشادگی اور حضرت کے فرج سے مایوس ہو چکے ہوں گے“ ( ۱)
حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں :”یقینا میرے اہل بیت سے ایک شخص میرا جانشین ہوگا،اور ایسا اس وقت ہوگا جب زمانہ مصیبتوں اور سختیوں کا شکار ہوگا ؛اس وقت جب کہ مصیبتیں سخت وشوار اور امیدیں منقطع ہوں گی“(۲)
ط)مدد گاروں کا فقدان
رسول خدا فرماتے ہیں:”اس امت پر اس قدر بلائیں نازل ہوں گی کہ انسان کو ظلم سے بچنے کے لئے کوئی پناہ نہیں ملے گی“(۳)
نیز فرماتے ہیں :آخر زمانہ میں ہماری امت پر ان کی حکومتوں کی جانب سے مصیبتیں نازل ہوں گی اس طرح سے کہ مومن کو ظلم سے نجات کے لئے کوئی ٹھکانہ نہ ہو گا ‘ ‘ (۴)
دوسری روایت میں فرماتے ہیں:” تمہیں مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) فرزند فاطمہ(س) کی خوشخبری ہے کہ آپ مغرب سے ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے “کہا گیا: یارسول اللہ! (یہ ظہور) کس وقت ہوگا ؟ تو حضرت نے فرمایا:” ایسا اس وقت ہوگا جب قاضی رشوت لینے لگیں اور لوگ فاجر ہو جائیں “عرض کیا گیا :مہدی کس طرح ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا : اپنے
-------
(۱)بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۴۸
(۲)ابن المنادی ،ملاحم ،ص۶۴؛ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،ج۱، ص۲۷۶؛ المسترشد، ص۷۵؛ مفید ،ارشاد، ص۱۲۸؛ کنزل العمال، ج۱۴، ص۵۹۲؛غایة المرام، ص۲۰۸بحار الانوار، ج ۳ ۲ ، ص۹؛احقا ق الحق ،ج۱۳، ص۳۱۴؛منتخب کنزل العمال، ج۶، ص۳۵
(۳)شافعی، بیان، ص۱۰۸
(۴)عقد الدرر، ص۴۳
اہل و عیال اورخاندان سے علیحدگی اختیار کریں گے نیز وطن سے دور عالم مسافرت میں زندگی گذاریں گے “ ( ۱)
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :تم لوگ جس کے انتظار میں ہو اسے دیکھ نہیں پاوٴ گے مگر اس وقت کہ جب تم بکریوں کی طرح جو درندوں کے چنگل میں پھنس گئی اور سے کوئی چارہ جوئی کا راستہ نہ مل رہا ہو اس وقت تجاوز و تعدی سے محفو ظ رہنے کا کوئی ٹھکانا نہ پاوٴگے اور نہ ہی کوئی ایسی بلند جگہ کہ اس پر چڑھ کر اپنا بچا وٴ کر سکو۔(۲)
ی)جنگ ،قتل،اور فتنے
روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام سے پہلے سارے عالم میں قتل وخون ہوگا ۔بعض روایتیں فتنے کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ،کچھ روایتیں پئے در پئے جنگ کی خبر دیتی ہیں، کچھ روایتیں انسان کے قتل اور جنگ اور طاعون، سے پیدا شدہ بیماریو ں کی خبر دیتی ہیں ۔
رسول خدا فرماتے ہیں :” میرے بعد تمہیں چار فتنوں کا سامنا ہوگا:پہلے فتنے میں ، خون مباح سمجھا جائے گا اور قتل کی زیادتی ہوگی ۔ دوسرے فتنے میں، خون اور مال حلا ل سمجھا جائے گا، اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوگا ۔تیسرے فتنے، میں لوگوں کے خون و اموال اورعزتیں مباح سمجھی جائیں گی اور قتل و غارت گری کے علاوہ انسان کی ناموس بھی محفوظ نہیں رہے گی ۔ چوتھے فتنے میں، اندھیرے کا راج ہوگا، اور ایسا سخت زمانہ آئے گا جیسے دریامیں کشتی تلاطم و اضطراب کا شکار ہو ۔ جس کی وجہ سے کسی کو پناہ گاہ نصیب نہیں ہوگی ۔شام سے فتنے اٹھیں گے اور عراق پر محیط
-------
(۱)احقاق الحق، ج۱۹، ص۶۷۹
(۲)کافی، ج۸، ص۲۱۳؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۴۶
ہو جائیں گے اور جزیرہ حجاز کا اس میں ہاتھ خون آلود ہوگا ،مصیبتیں لوگوں کو ہلاکے رکھ دیں گی، اور ایسا ہو جائے گا کہ کسی کو چوں و چرا کی گنجائش نہیں رہ جائے گی، اور اگر کسی طرف سے فتنے کی آگ خاموش بھی ہو گی تو دوسری طرف سے بھڑک جائے گی “(۱)
دوسری حدیث میں فرماتے ہیں :” میرے بعد ایسے ایسے فتنے اٹھیں گے کہ انسان کو اس سے راہ نجات نہیں ملے گی، اس میں جنگ ،فرار اور آوارگی ہوگی، اس کے بعد ایسے فتنے اٹھیں گے کہ ہر فتنہ پہلے فتنہ سے سخت تر ہوگا، ابھی ایک فتنہ خاموش نہیں ہونے پائے گا کہ دوسرا فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا ۔ حدیہ ہو گی کہ عرب کا کوئی گھر اس فتنے کی آگ سے محفوظ نہیں رہ پائے گا ۔اور کوئی مسلمان ایسا نہیں ہوگا جو اس فتنے سے امان میں ہو اس وقت میرے خاندان سے ایک شخص ظہور کرے گا “(۲)
نیز فرماتے ہیں : ”عنقریب میرے بعد ایسے ایسے فتنے اٹھیں گے کہ اگر ایک طرف سے امن ہوگا تو دوسر ی طرف سے نا امنی کی آواز آئے گی ، یہاں تک کہ آسمان سے منادی ندا کرے گا: تمہارا امیر و سردار مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)ہے“(۳ )
ان روایات میں ان فتنوں سے متعلق گفتگو ہے جو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے رونما ہوں گے، لیکن دوسری روایتوں میں ان خانہ سوز جنگوں کا تذکرہ ہے جسے ابھی بیان کروں گا ۔
عمار یاسر فرماتے ہیں : تمہارے پیغمبر کے اہل بیت کی دعوت آخر زمانہ میں یہ ہے کہ جب تک ہمارے اہل بیت سے اپنے رہبر کو نہ دیکھ لو ہر طرح کی نزاع سے پر ہیز کرو۔
-------
(۱)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۲۱؛کمال الدین ،ج۲، ص۳۷۱
(۲)عقد الدرر، ص۵۰
(۳)احقا ق الحق، ج۱۳،ص۲۹۵؛احمد ،مسند ،ج۲، ص۳۷۱
اس وقت ترک ،رومیوں کی مخالفت کریں گے، اور زمین پر جنگ چھڑ جائے گی “ (۱)
کچھ روایتیں، ظہورمہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) سے پہلے قتل و کشتار کی خبر دیتی ہیں ،ان میں سے بعض روایات میں صرف کشتار کا تذ کر ہ ہے، اور بعض قتل و غارت گری کے عالمگیر ہونے کی خبر دیتی ہیں ۔
اس سلسلے میں امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے پئے در پئے اور بدون وقفہ قتل ہوں گے “(۲)
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ شہر مدینہ میں اس درجہ قتل و غارت گری ہوگی کہ اس میں ”احجار الزیت“(۳) نامی علاقہ درہم و برہم ہو جائے گا اور ”حرہ“(۴)کا حادثہ اس کے سامنے ایک تازیانہ کی چوٹ سے زیادہ نہیں سمجھاجائے گا ؛اس وقت کشتار کے بعد تقریباً دو فر سخ مدینہ سے دور ، حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی بیعت کی جائے گی ۔(۵)
ابوقبیل کہتا ہے کہ بنی ہاشم کا ایک شخص سر براہ حکومت ہوگا، اور صرف بنی امیہ کا قتل عام کرے گا؛ اس طرح سے کہ معدود چند کے سوا ،کوئی باقی نہیں بچے گا۔ اس کے بعد بنی امیہ کا ایک شخص خروج کرے گا اور ہر فرد کے مقابل ،دو آدمی کو قتل کرے گا؛ اس طرح سے کہ عورتوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں بچے گا۔(۶)
-------
(۱)طوسی، غیبة، چاپ جدید ،ص۴۴۱؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۱۲
(۲)قرب الاسناد، ص۱۷۰؛نعمانی ،غیبة، ص۲۷۱
(۳) مدینہ شہرمیں ایک محلہ ہے جو نماز استسقاء پڑھنے کی جگہ ہے معجم البلدان ،ج۱،ص۱۰۹
(۴)امام حسین کی شہادت اور مدینہ والوں کے یزید کے خلاف قیام کے بعد مدینے کے لوگ یزیدی حکم سے قتل عام ہوئے اور اس واقعہ میں دس ہزار سے زیادہ افر اد مارے گئے یہ جگہ وہی (حرةو اقم)ہے معجم البلدان ،ج۲،ص۲۴۹
(۵)ابن طاوٴس، ملاحم ،ص۵۸
(۶)وہی ص۵۹
رسول خدا اس طرح فرماتے ہیں :”قسم اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، دنیا کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک وہ زمانہ نہ آجائے جس میں قاتل کو اپنے قتل کرنے کی اور مقتول کے قتل ہونے کی علت معلوم نہ ہو جائے ۔ اور ھرج ومرج (اضطراب و بے چینی) سارے عالم پر محیط ہوگا ایسے وقت میں، قاتل و مقتول دونوں ہی جہنم میں جائیں گے “(۱)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” ظہور سے پہلے دنیا دو طرح کی موت سے دو چار ہوگی: سفید و سرخ ۔سرخ موت تلوار (اسلحوں) سے ہوگی اور سفید موت طاعون کے ذریعہ“(۲)
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” قائم آل محمد (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے لئے دو غیبتیں ہیں اس میں سے ایک دوسری سے دراز مدت ہے ،اس وقت لوگوں کو موت و قتل کا سامنا ہوگا“(۳)
جابر کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے سوال کیا کہ کس وقت یہ بات (قیام مہدی عج) وقوع پذیر ہوگی؟(۴) امام (علیہ السلام) نے جواب میں کہا: کیسے اس کا تحقق ہو جب کہ ابھی ”حیرہ“ اور کوفہ کے درمیان کشتوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوئی ہے ۔(۵)
-------
(۱)فردوس الاخبار، ج۵، ص۹۱
(۲)نعمانی ،غیبة، ص۲۷۷؛مفید، ارشاد، ص۳۵۹؛طوسی، غیبة، ص۲۶۷ ؛صراط المستقیم ،ج۲، ص۲۴۹بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۱۱
(۳)نعمانی، غیبة، ص۱۷۳؛دلائل الامامہ ،ص۲۹۳؛تقریب المعارف ،ص۱۸۷؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۱۵۶
(۴)(کوفہ سے (۶ کیلو میٹر ) دور ایک شہر ہے؛معجم البلدان، ج۲،ص۳۲۸
(۵)طوسی ،غیبة، چاپ جدید ،ص۴۴۶؛اثبات الہداة، ج۳،ص۷۲۸؛بحار الانوار ،ج۵۲،ص۲۰۹
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے دو طرح کی موت آئے گی سرخ اور سفید، اور اس درجہ انسان قتل کئے جائیں گے کہ ہر ۷/ آدمی میں دو آدمی باقی بچیں گے“(۱)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:”حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)اس وقت ظہور کریں گے جب ایک تہائی انسان قتل کر دئے جائیں گے، اور ایک تہائی مر جائیں اور ایک تہائی باقی بچیں گے “(۲)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) سے پوچھا گیا:” آیا حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کی کوئی علامت و پہچان بھی ہے؟ تو آپ نے فرمایا :”درد ناک قتل، اچانک موت ، اور دہشت آمیزطاعون“(۳)
کتاب ارشاد قلوب کی نقل کے مطابق ۔(۴)”قتل ذریع“یعنی اچانک و عالمگیر۔
اورکتاب مدینة المعاجز کے(۵) مطابق ۔”قتل رضیع“یعنی لئیم و پست۔
اورحلیة الابرار کے مطابق۔(۶)”قتل فضیع“یعنی ناگوار۔
روایت کے معنی یہ ہیں ”ہاں ،حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ظہور کی علامتیں ہیں، من جملہ عالمگیر ،ناگوار ،پست قتل،اچانک موتیں پئے در پئے اور ،طاعون کا رواج“
-------
(۱)کمال الدین، ج۲،ص۶۶۵؛العدد القویہ، ص۶۶؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۰۷
(۲)ابن طاوٴوس، ملاحم، ص۵۸؛احقاق الحق، ج ۱۳،ص۲۹
(۳)حصینی، ہدایہ، ص۳۱
(۴)ارشاد القلوب ،ص۲۸۶
(۵)مدینة المعاجز ،ص۱۳۳
(۶)حلیة الابرار، ص۶۰۱
محمد بن مسلم کہتے ہیں : امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا :” امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت ظہور کریں گے جب دوتہائی آبادی ختم ہو جائے گی “کہا گیا:کہ اگر دوتہائی قتل ہو جائیں گے تو پھر کتنی تعداد باقی بچے گی؟ تو آپ نے فرمایا :کیا تم راضی نہیں ہو (اور دوست نہیں رکھتے) کہ ایک تہائی باقی رہنے والوں میں تم ایک رہو۔(۱)
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ظہوراس وقت ہوگا جب (۱۰/۹)آبادی ختم ہو جائے گی ۔(۲)
حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” اس زمانے میں ایک تہائی کے علاوہ کوئی باقی نہیں بچے گا“(۳)
رسول خدا فرماتے ہیں :” ہر دس ہزار کی تعداد میں نو ہزار نو سوافراد قتل ہو جائیں گے جز معدود چند افراد کے“(۴)
ابن سیرین کہتے ہیں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت ظہور کریں گے جب ہر نو آدمی پر مشتمل جماعت کے سات آدمی قتل ہو جائیں ۔(۵)
-------
(۱)طوسی ،غیبة،چاپ جدید، ص۳۳۹؛کمال الدین، ج۲ ،ص۶۵۵؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۱۰؛ بحار الانوار، ج۵۲،ص۷ا۲۰؛الزام الناصب ،ج۲ ،ص۱۳۶؛ابن حماد، فتن ،ص۹۱؛کنزل العمال، ج۱۴،ص۵۸۷؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۱۱
(۲)الزام الناصب، ج۲، ص۱۳۶،۱۸۷؛عقد الدرر، ص۵۴،۵۹،۶۳،۶۵،۲۳۷؛نعمانی، غیبة، ص۲۷۴؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۴۲
(۳)حصینی، ہدایہ، ص۳۱؛ارشاد القلوب، ص۲۸۶
(۴)مجمع الزوائد، ج۵، ص۱۸۸
(۵)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۷۸
محترم قارئین! مذکورہ تمام روایات سے مندرجہ ذیل نکات نکلتے ہیں :
۱۔حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے کشت و کشتار ہوگی ،اور اکثر انسان قتل ہو جائیں گے ،اور جو لوگ بچ جائیں گے ان کی تعداد مقتولین سے کم ہوگی۔
۲۔کچھ افراد جنگ کی وجہ سے قتل ہوں گے، اور کچھ لوگ سرایت کرنے والی بیماری کی وجہ سے، (جو احتمال قوی )کی بناء پر لاشوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہوگی ۔اسی طرح احتمال ہے کہ کیمیائی اسلحوں اور خطرناک اور مہلک ہتھیاروں کی وجہ سے بیماری وجود میں آئے گی، اور لوگ جان بحق ہوں گے ۔
۳۔اس اقلیت کے درمیان امام کے چاہنے والے شیعہ ہوں گے؛ اس لئے کہ وہی لوگ ہیں جو امام کی بیعت کریں گے نیز امام صادق (علیہ السلام) کی حدیث میں آیا ہے کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ اس باقی رہنے والی ایک سوم آبادی میں تم رہو۔؟
|