حکومت مهدي پر طايرانه نظر
  تیسری فصل

ظہو ر سے قبل اخلاقی حالت
آخر زمانہ کی نشانیوں میں بارزنشانی خاندانی بنیاد کاکمزور ہونا ،رشتہ داری ، دوستی، انسانی عواطف کا ٹھنڈا پڑنا اورمہر و وفا کا نہ ہونا ہے ۔

الف)انسانی جذبات کا سرد پڑجانا
رسول خدا اس زمانے کی عاطفی(شفقت کے)اعتبار سے حالت یوں بیان فرماتے ہیں: ”اس زمانہ میں،بزرگ اپنے چھوٹوں اور ماتحت افراد پر رحم نہیں کریں گے نیز قوی ناتواں پر رحم نہیں کرے گا اس وقت خدا وند عالم اسے (مہدی کو)قیام و ظہور کی اجازت دے گا“(۱)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” قیامت نہیں آئے گی جب وہ دور نہ آئے کہ ایک شخص فقر و فاقہ کی شدت سے اپنے رشتہ داروں اور قرابتداروں سے رجوع کرے گا اور انھیں اپنی رشتہ داری کہ قسم دے گا تاکہ لوگ اس کی مدد کریں؛ لیکن لوگ اسے کچھ نہیں دیں گے پڑوسی اپنے پڑوسی سے مدد مانگے گا اور اسے ہمسایہ ہونے کی قسم دے گا لیکن ہمسایہ اس کی مدد نہیں کرے گا “(۲)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” قیامت کی علامتوں میں ایک علامت پڑوسی سے بد رفتاری اور رشتہ داری کو ختم کر دینا ہے “(۳)
-------
(۱)بحار الانوار، ج۵۲ ،ص۳۸۰ و ج۳۶ ،ص۳۳۵
(۲)شجری ،امالی، ج۲،ص۲۷۱
(۳)اخبار اصفہان، ج۱، ص۲۷۴؛؛فردوس الاخبار، ج۴ ،ص۵؛الدرالمنثور، ج۶، ص۵۰ ؛جمع الجوامع ،ج۱، ص۸۴۵ ؛ کنزل العمال، ج۱۴، ص۲۴۰
بعض روایات میں ((الساعة))کی تاویل حضرت کے ظہور سے کی گئی ہے اور روایات ((اشراط الساعة))ظہور کی علامتوں سے تفسیر کی گئی ہیں۔(۱)

ب)اخلاقی فساد
جنسی فساد کے علاوہ ہر طرح کے فساد پر تحمل کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ جنسی فساد غیر ت مند اور شرفاء کے لئے بہت ہی ناگوار اور ناقابل تحمل ہے ۔
ظہور سے پہلے بد ترین انحراف و فساد جس سے سماج دوچار ہو گا ۔ناموس اور خانوادگی ناامنی ہے ،اس وقت اخلاقی گراوٹ اور فساد وسیع پیمانہ پر پھیلاہوا ہوگا اخلاقی برائیوں کی زیادتی اور ان کی تکرار کی وجہ سے انسان نما افراد کے حیوانی کردار کی برائی ختم ہو چکی ہو گی،اور یہ عام بات ہو چکی ہوگی، فساد اس درجہ پھیلا ہوگا کہ بہت کم ہی لوگ اسے روکنے کی طاقت یا تمنا رکھیں گے ۔
محمد رضا پہلوی کے دور حکومت ۱۳۵۰ ئشمسی میں ۲۵۰۰ /سو سالہ جشن منایا گیا،جس میں حیوانی زندگی کی بد ترین نمایش ہوئی، اور اسے ہنر شیراز کا نام دیا گیاتو ایران کے اسلامی سماج نے غیض و غضب کے ساتھ اعتراض بھی کیا ،لیکن ظہور سے پہلے ایسے اعتراض کی کوئی خبر نہیں ہے فقط اعتراض ،یہ ہوگا کہ کیوں ایسے برُے افعال چوراہوں پر ہو رہے ہیں یہ سب سے بڑا نہی از منکر ہے جس پر عمل ہوگا ۔ایسا شخص، اپنے زمانہ کا سب سے بڑا عابد ہے۔
اب روایات پر نظر ڈالیں تاکہ اسلامی اقدارکا خاتمہ اور اس عمیق فاجعہ اور وسعت فساد کو اس زمانے میں در ک کریں ۔
رسول خدا فرماتے ہیں :” قیامت نہیں آئے گی مگر جب روز روشن میں عورتوں کو
-------
(۱)تفسیر قمی،ج۲، ص۳۴۰؛کمال الدین،ج۲، ص۴۶۵؛تفسیر صافی،ج۵، ص۹۹؛نور الثقلین، ج۵، ص۱۷۵؛ اثبات الہداة، ج۳، ص۵۵۳؛کشف الغمہ، ج۳، ص ۲۸۰؛شافعی ،البیان، ص۵۲۸؛الصواعق المحرقہ، ص۱۶۲کلمہ ۔یوم الظہور، یوم الکرّہ ،یوم القیامة کی تحقیق کے لئے تفسیر المیزان ،ج۲،ص۱۰۸ ملاحظہ ہو
ان کے شوہر سے چھین کر کھلم کھلا ( لوگوں کے مجمع میں)راستوں میں تعدی نہ کی جائے، لیکن کوئی اس کام کو برا نہیں کہے گا اورنہ ہی اس کی روک تھام کرے گا اس وقت لوگوں میں سب سے اچھا انسان وہ ہوگا جو کہے گا کہ کاش بیچ راستے سے ہٹ کر ایسا کام کرتے“(۱)
اسی طرح حضرت فرماتے ہیں : ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ،یہ امت اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک مرد عورتوں کے راستے میں نہ بیٹھیں اور درندہ شیر کی طرح تجاوز نہ کریں لوگوں میں سب سے اچھا انسان وہ ہوگا جو کہے کہ کاش اسے اس دیوار کے پیچھے انجام دیتے اور ملاء عام میں ایسا نہ کرتے “(۲)
دوسرے بیان میں فرماتے ہیں :” وہ لوگ حیوانوں کی طرح وسط راہ میں ایک دوسرے پر حملہ کریں گے، اور آپس میں جنگ کریں گے، اس وقت ان میں سے کوئی ایک ماں ،بہن، بیٹی کے ساتھ بیچ راہ میں سب کے سامنے تجاوزکریں گے، پھر انھیں دوسرے لوگوں کو تعدی و تجاوز کا موقع دیں گے، اور یکے بعد دیگر اس بد فعلی کا شکار ہوگا؛ لیکن کوئی اس بد کرداری کی ملامت نہیں کرے گا ،اور اسے بدلنے کی کوشش نہیں کرے گا ان میں سب سے بہتر وہی ہوگا جو کہے گا کہ اگرراستے سے ہٹ کر لوگوں کی نگاہوں سے بچ کر ایسا کرتے تو اچھا تھا“(۳)

ج)بد اعمالیوں کا رواج
محمد بن مسلم کہتے ہیں:امام محمدباقرعلیہ السلام سے عرض کیا : اے فرزند رسول خدا آپ کے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کب ظہور کریں گے ؟ تو امام نے کہا!”اس وقت جب مرد خود کو عورتوں کے
-------
(۱)عقد الدرر، ص۳۳۳؛حاکم مستدرک ،ج۴،ص۴۹۵
(۲)المعجم الکبیر، ج۹، ص۱۱۹؛فردوس الاخبار،ج ۵، ص۹۱؛مجمع الزوائد ،ج۷ ،ص۲۱۷
(۳)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۰۱
مشابہ اور عورتیں مردوں کے مشابہ بنالیں۔ اس وقت جب مرد مرد پہ اکتفاء کرے (یعنی لو اط) اور عورتیں عورتوں پہ“(۱)
امام صادق علیہ السلام سے اسی مضمون کی ایک دوسری روایت بھی نقل ہوئی ہے۔ (۲) اور ابو ہریرہ نے بھی رسول خدا سے نقل کی ہے۔” اس وقت قیامت آئے گی جب مرد بد اعمالی پرا یک دوسرے پر سبقت حاصل کریں جیسا کہ عورتوں کے سلسلے میں بھی ایسا ہی کرتے ہیں“( ۳)
اسی مضمون کی ایک دوسری روایت بھی ہے۔(۴)

د)اولا دکم ہونے کی آرزو
رسول خدا فرماتے ہیں :” اس وقت قیامت آئے گی جب پانچ فرزند والے چار فرزند اور چار فر زند والے تین فر زند کی آرزو کرنے لگیں،تین والے دو کی اور دو والے، ایک اور
-------
(۱)کمال الدین ،ج۱، ص۳۳۱
(۲)مختصر اثبات الرجعہ، ص۲۱۶؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۷۰؛مستدرک الوسائل، ج۱۲،ص۳۳۵
(۳)فردوس الاخبار ،ج۵، ص۲۲۶؛کنزالعمال، ج۱۴، ص ۲۴۹
(۴)الف )عن الصادق علیہ السلام ”اذا رایت الرجل یعیر علی اتیان النساء “کافی ،ج۸ ،ص۳۹ ؛بحارالانوار ،ج۵۲، ص۲۵۷؛بشارة الاسلام، ص۱۳۳
ب)”اذا صار الغلام یعطی کما تعطی المراة و یعطی قفاہ لمن ابتغی “کافی، ج۸، ص ۳۸ ؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۵۷
ج)”یزف الرجل للرجال کما تزف المراة لزوجھا “بشارة الاسلام ،ص۷۶؛الزام الناصب ،ص۱۲۱
د)قال الصادق علیہ السلام :”یتمشط الرجل کما تتمشط المراة لزوجھا ،و یعطی الرجال الاموال علی فروجھم و یتنافس فی الرجل و یغار علیہ من الرجال ،و یبذل فی سبیل النفس والمال “کافی ،ج۸، ص۳۸؛بحار الانوار ،ج۵۲، ص۴۵۷
ھ)قال الصادق علیہ السلام :”تکون معیشة الرجل من دبرہ ، ومعیشة المراة من فرجھا “کافی ج۸ ص۳۸
و)”قال الصادق علیہ السلام :”عندما یغار علی الغلام کما یغار علی الجاریة (الشابة) فی بیت اھلھا “بشارة الاسلام، ص۳۶،۷۶،۱۳۳
ز)قال النبی :کاٴنک بالدنیا لم تکن اذا ضیعت امتی الصلاة و اتبعت الشھوات و غلت الاسعار و کثراللواط “بشار ة الاسلام ،ص۲۳؛الزام الناصب، ص۱۸۱
اورفرزند والا آرزو کرنے لگے کہ کاش صاحب فرزند نہ ہوتے“(۱)
دوسری روایت میں فرماتے ہیں : ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ تم لوگ کم فرزند والے سے رشک کروگے جس طرح کہ آج اولاد و مال میں اضافہ کی آرزو کرتے ہو ،حد یہ ہو گی کہ جب تم میں سے کوئی، اپنے بھائی کی قبر سے گذرے گا تو اس کی قبر پر لوٹنے لگے گا؛ جس طرح حیوانات اپنی چراگاہوں کی خاک پر لوٹتے ہیں ۔اور کہے گا: اے کاش اس کی جگہ میں ہوتا اور یہ بات خدا وند عالم کے دیدار کے شوق میں ہوگی اور نہ ہی ان نیک اعما ل کی بنیاد پر ہوگی جو اس نے انجام دیئے ہیں ؛ بلکہ اس مصیبت و بلاء کی وجہ سے ایسا کہے گا جو اس پر نازل ہو رہی ہوں گی “(۲)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” قیامت اس وقت آئے گی جب اولاد کم ہونے لگے گی“(۳) اس روایت میں ”الولد غیضا “آیا ہے جس کے معنی بچوں کے ساقط کرنے اور حمل نہ ٹھہرنے کے معنی ہیں؛ لیکن کلمہ ”غیضا “دوسری روایت میں؛غم و اندوہ ، زحمت و مشقت اور غضب کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
یعنی لوگ اس زمانے میں (Abortion )سقط اور افزایش فرزند اور ان کی زیادتی سے مانع ہوں گے یا فرزند کا وجود غم و اندوہ کا باعث ہوگا شاید اس کی علت اقتصادی مشکل ہو، یا بچوں میں بیماریوں کی وسعت اور آبادی کے کنٹرول کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ و تبلیغ اثر اندازنہ ہوں یا کوئی اور وجہ ۔

ھ)بے سر پر ست خانوا دوں کی زیادتی
رسو ل خدا فرماتے ہیں :” قیامت کی ایک علامت یہ ہے کہ مرد کم ہوں گے اور
-------
(۱)فردوس الاخبار، ج۵ ،ص۲۲۷
(۲)المعجم الکبیر ،ج۱۰، ص۱۲
(۳)الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۱۵۱؛فردوس الاخبار، ج۵، ص۲۲۱؛المعجم الکبیر ،ج۱۰، ص۲۸۱؛بحار الانوار ،ج۳۴، ص۲۴۱
عورتیں زیادہ ہوں گی حد یہ ہے کہ ہر ۵۰/عورت پرایک مرد سر پرست ہوگا“(۱)
شاید یہ حالت مردوں کے جانی نقصان سے ہو جو لگا تار اور طولانی جنگوں میں ہوا ہوگا.
نیز آنحضرت فرماتے ہیں:” اس وقت قیامت آئے گی جب ایک مرد کے پیچھے تقریبا ۳۰/ عورتیں لگ جائیں گی اور ہرا یک اس سے شادی کی در خواست کریں گی“(۲)
حضرت دوسری روایت میں فرماتے ہیں :” خدا وند عالم اپنے دوستوں اور منتخب افراد کو دوسرے لوگوں سے جدا کر دے گا تاکہ زمین منافقین و گمراہوں نیزان کے فرزندوں سے پاک ہو جائےایسا زمانہ آئے گا کہ پچاس پچاس عورتیں ایک مر د سے کہیں گی اے بندہٴ خدا یا تم مجھے خرید لو یا مجھے پناہ دو“(۳)
انس کہتے ہیں کہ رسول خدا فرماتے ہیں :” قیامت اس وقت آئے گی جب مردوں کی کمی اور عورتوں کی زیادتی ہو گی۔اگر کوئی عورت راستے میں کوئی جوتا ،چپل دیکھے گی تو بے دریغ افسوس سے کہے گی: یہ فلاں مرد کی ہے؛ اس زمانہ میں، ہر ۵۰/ عورت پر، ایک مرد سر پر ست ہوگا“(۴)
انس کہتے ہیں کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ جو رسول خدا سے حدیث سنی ہے ،بیان کروں؟ رسول خدا نے فرمایا :” مردوں کاخاتمہ ہو جائے گا اور عورتیں باقی رہ جائیں گی“(۵)
-------
(۱)طیالسی ،مسند ،ج ۸،ص۲۶۶؛احمد مسند ،ج۳،ص ۱۲۰؛ترمذی ،سنن، ج۴، ص۴۹۱؛ابو یعلی ،مسند ،ج۵، ص ۲۷۳؛حلیة الاولیاء، ج۶، ص۲۸۰ دلائل النبوة، ج۶، ص ۵۴۳؛الدر المنثور، ج۶، ص۵۰
(۲)فردوس الاخبار ،ج۵، ص۵۰۹
(۳)مفید ،امالی، ص۱۴۴؛بحارالانوار، ج۵۲،ص۲۵۰
(۴)عقد الدرر ،ص۲۳۲؛فردوس الاخبار، ج۵، ص۲۲۵
(۵)احمد، مسند، ج۳، ص۳۷۷