حکومت مهدي پر طايرانه نظر
  پہلا حصَّہ

دنیا ظہور سے قبل
جب تک ہم روشنی اور خو شحالی میں ہوتے ہیں ،اس کی قدر و قیمت کا کم اندازہ ہوتا ہے ہمیں اس وقت اس کی حقیقی قدرو قیمت معلوم ہو گی جب ہم ظلمت و تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گھر جائیں گے ۔
جب سورج افق آسمان پر درخشاں ہوتا ہے ہم اس کی طرف کم توجہ دیتے ہیں ، لیکن جب بادل میں چھپ جاتاہے اور ایک مدت تک اپنی نورانیت و حرارت سے محروم کر دیتا ہے تو اس کی ارزش کا اندازہ ہونے لگتا ہے ۔
ظہورآفتاب ولایت کے لازمی ہونے کا ہمیں اس وقت احساس ہو گاجب ظہور سے پہلے بے سرو سا مانی اور نا امنی کے ماحول سے با خبر ہوں ،اور اس وقت کے نا گفتہ بہ حالات کو درک کرلیں۔
اس زمانے کی کلی طور پر نقشہ کشی ،جو روایات سے ماخوذہے ،درج ذیل ہے ۔
امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے ظہور سے قبل فتنہ و فساد ،ہرج ومرج ،بے سرو سامانی، ناامنی، ظلم و استبداد ،عدم مساوات،غارتگری ،قتل و کشتار ،اورتجاوز تمام عالم کو محیط ہوگا اور زمین ظلم و ستم اور ناانصافی سے لبریز ہوگی ۔
خونین جنگ کا آغاز ملتوں اور ممالک کے درمیان ہو چکا ہوگا ،زمین کشتوں سے بھری ہوگی، قتل ناحق اس قدر زیادہ ہوگا کہ کوئی گھر یا خاندان ایسا نہیں ہوگا جسکے ایک یا چند عزیز قتل نہ ہوئے ہوں گے۔ مرد و جوان جنگوں کے اثر سے ختم ہو چکے ہوں گے یہاں تک کہ ہر ۳/ آدمی میں ۲/ آدمی قتل ہو چکا ہو گا ۔
قوم و ملت کے درمیان جان ومال بے وقعت، راستے غیر محفو ظ ہوں گے ، خوف، وحشت ہر انسان کے دل میں بیٹھی ہوگی ،ناگہانی اورحادثاتی موتوں کی کثرت ہو گی، معصوم بچے بد ترین شکنجوں کے ذریعہ ظالم وجابر حکام کے ہاتھوں قتل کئے جائیں گے، سڑکوں اور چوراہوں پر حاملہ عورتوں کے ساتھ تجاوز ہوگا، جان لیوا بیماریاں لاشوں کی بد بو یا انواع و اقسام ہتھیار کے استعمال سے عام ہو جائیں گی ، کھانے پینے کی اشیاء میں کمی ہو گی ، مہنگائی و قحط سے لوگوں کی زندگی مفلوج ہو جائے گی،زمین بیج قبول کرنے نیزاُسے اگانے سے انکار کردے گی، بارش نہیں ہوگی ،یا اگر ہوگی بھی تو بے وقت اور ضرر رساں ہوگی قحط ایسا پڑے گا کہ لوگوں کی زندگی اتنی دشوار و مشکل ہو جائے گی کہ بعض لوگ قوت لایموت فراہم نہ کرنے کی وجہ سے، اپنی عورتوں اور بچیوں کو معمولی غذا کے مقابل دوسرے کے حوالے کر دیں گے ۔
ایسے مشکل و نا ساز گار ماحول میں انسان نا امیدی و قنو طیت کا شکار ہو جائے گا اور اس وقت موت اللہ کا بہترین ہدیہ سمجھی جائے گی،اور صرف و صرف لوگو ں کی آرزو موت بن جائے گی نیز ایسے ماحول میں جب کوئی شخص لاشوں کے درمیان یا قبر ستان سے گذر رہا ہوگا تو اس کی آرزو بس یہی ہوگی کہ کاش میں بھی انھیں میں سے ایک ہوتا تاکہ ذلت کی زندگی سے آسودہ خاطر ہوتا۔
اس وقت کوئی طاقت ،پارٹی ،انجمن نہ ہوگی جو اس بے سرو سامانی،تجاوز ، غارتگری کا سد باب کرے اور ستمگروں و طاقتوروں کو ان کی بد کر داری کی سزا دے۔ لوگوں کے کانوں سے کوئی نجات کی آواز نہیں ٹکرائے گی،سارے جھوٹے دعویدار انسان کی نجات کا جھوٹا نعرہ لگانے والے خائن اور جھوٹے ہوں گے اور انسان صرف ایک مصلح الٰہی ،خدائی معجزہ کا انتظار کرے گا اور بس، اس وقت جب کہ یاس و ناامیدی تمام عالم کو محیط ہوگی، خداوند عالم اپنے لطف و رحمت سے مہدی موعود (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ )، کو مدتوں غیبت و انتظار کے بعد بشریت کی نجات کے لئے ظاہر کرے گا اور ہاتف غیبی کی آسمان سے ایسی نداآئے گی جو ہرایک انسان کے کان سے ٹکرائے گی،”کہ اے دنیا والو! ستمگروں کی حاکمیت کا زمانہ ختم ہو گیا ہے، اور اب عدل الٰہی سے پرُ حکومت کا دور ہے، اور مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) ظہور کر چکے ہیں۔ یہ آسمانی آواز، انسان کے بے جان قالب میں امید کی روح پھونک دے گی اور محرومین ومظلومین کو نجات کا مژدہ سنائے گی۔
یقینا مذکورہ بالا ماحول کا ادراک کرنے کے بعد مصلح الٰہی کے ظہور کی ضرورت کا احساس کر سکتے ہیں نیز حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کی عادلانہ حکومت کی وسعت کا اندا زہ لگا سکتے ہیں۔
یہاں پر امام علیہ السلام کے ظہور سے قبل نا سازگار حالات کو روایات کی نظر میں پانچ فصلوں میں ذکر کریں گے۔