حکومت مهدي پر طايرانه نظر | |||||
پیش گفتار
شوش دانیال کا علاقہ ابھی تازہ تازہ بعثی کافروں کے چنگل سے آزاد ہو اتھا،اور لوگ آہستہ آہستہ اپنے شہر اور وطن کو لوٹ رہے تھے، ان دنوں میں انھیں جانباز عزیزوں کے درمیان اپنے وجود کو فخر و برکت سمجھتے ہوئے اس شہر کی تاریخی مسجد میں امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ )سے متعلق علامہ مجلسی ۺ کی کتاب بحارالانوار سے درس کہنے لگا تو اس بات کی طرف متوجہ ہو اکہ اگر چہ امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) سے متعلق گوناگوں مباحث ،جیسے طول عمر کا راز،فلسفہٴ غیبت،عوامل ظہور وبیان ہوچکے ہیں لیکن قیام کی کیفیت ،حکومتی پروگرام و طریقہ کار، سربراہی کے طرز وغیرہ پر شایان شان تحقیق نہیں ہوئی ہے ۔اس وجہ سے میں نے عز م کر لیا کہ اس میدان میں بھی تحقیق لازم ہے، شاید اب تک لا جواب سوالوں کا جواب دے سکوں تمام پریشان کن سوالات میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ )کس طرح مختلف قوت و خیالات کے حامل سیاسی نظاموں کو ایک سیاسی نظام بنادیں گے۔
حضرت کا حکومتی پروگرام کس طرح ہے جس میں ظلم و جور دنیا سے مٹ جائے گا اور فساد کا خاتمہ اور بھوکوں کا وجود نہیں رہ جائے گا ۔ یہی فکر مجھے چار سال سے مذکورہ موضوع پر تحقیق کر نے کی جبری دعوت دے رہی تھی چنانچہ اسی تحقیق کا نتیجہ آپ کے سامنے موجود ہ کتاب ہے ۔ اس کتاب کے پہلے حصہ میں امام علیہ السلام کے ظہورسے قبل کشت وکشتار ،قتل و غارتگری، ویرانی و بربادی،قحط سالی،موت ،بیماری،ظلم و جور ، اضطراب،بے چینی ،گھٹن،حقوق پامالی اور تجاو ز سے لبریز دور کی تحقیق ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ لوگ اس وقت اپنے مقاصد میں کامیابی ،مکاتیب فکر،مختلف حکومتیں ،حقوق بشر کی دعویدار ،انسانی نیک بختی کا نعرہ لگانے والے زمانے کے اضطراب و ناگفتہ بہ حالا ت سے مایوس ہوچکے ہوں گے اور مصلح جہانی کے ظہور کے منتظر نجات کے امیدوار ہوں گے ۔ دوسرا حصہ ،حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے انقلاب اور تحریک و قیام کی کیفیت پر مشتمل ہے اس انقلاب کی شان یہ ہے کہ اس کا آغاز خانہٴ کعبہ سے حضرت کے اعلان پر ہوگا اور آپ کے خالص اور حقیقی ناصر و مدد گار دنیا کے گوشہ گوشہ سے آکر آپ سے ملحق ہو جائیں گے توفوجی چھاوٴنی ،کوتوالی بنائی جائے گی اور منظم سپاہی اورکمانڈر کا انتخاب عمل میں آئے گا اور وسیع پیمانہ پر جنگ کی تیاری ہوگی ۔ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) ظہور کریں گے تو دنیا سے ظلم و جور مٹا دیں گے یاد رہے کہ یہ دنیا یا سماج و معاشرہ حجاز یا خلیج فارس و ایشیا میں محدود نہیں بلکہ اس کی لا محدود وسعت تمام کرہٴ زمین کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ظلم و جور سے پرُ معاشرہ کی اصلاح ایک مشکل اور دشوار کام ہے اور اس کا مدعی در حقیقت ایک بہت بڑے معجزہ کا مدعی ہے جو اسی کے ہاتھوں انجام پذیر ہوگا ۔ کتاب کا تیسرا حصہ آخری امام علیہ السلام کی حکومت کی طرف اشار ہ ہے کہ آپ بگڑے ہوئے ،سر کش طاغی سماج کا ادارہ کرنے،اسلامی حکومت کی تشکیل دینے کے لئے ایک قادر اور کار آمد حکومت اپنے قوی اورشجاع انصار ،جیسے حضرت عیسیٰ، سلمان فارسیۻ ،مالک اشتر ،صالح ،سلف صالح وکے ذریعہ تشکیل دیں گے، اگر چہ ان لوگوں کی کار کر دگی حکومت جور میں بھی لائق اہمیت و قابل قدر ہے ،لیکن انکا اصلی کردار اور بنیادی کام حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے دور حکومت میں اصلاح اور تعمیر ہے ۔ جو کچھ پیش گفتار میں بیان کیا گیا ہے دسیوں شیعہ اور سنی کتابوں سے ماخوذ نیز سیکڑوں روایت کی مبسوط طور پر چھان بین ،برہان و استدلال کے ساتھ اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ یہ کتاب ادھورے اور نارسا انداز میں سہی ظہور کے بعد اسلامی دنیا میں آل محمد (علیہم السلام )کی عمومی عدالت اور ا س کی و سعت کو بیان کرے اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کی خدمت میں مقبول قرار پائے اور ایرانی مسلمان نیز تمام حقیقی و سچے منتظرین کے لئے قابل استفادہ واقع ہو اور انھیں حضرت کے ظہور کی مقدمہ سازی میں توفیق و تائید کرے۔ خدا وند عالم سے دعا ہے کہ مرجع عالی قدر حضرت امام خمینی ۺ جنھوں نے ایران میں حکومت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کی ایک جھلک دیکھائی ہے ،انہیں انبیاء و معصومین (علیہم السلام )کے ساتھ محشور کرے، نیز اہل بیت اور ان کی حکومت کے خادموں کو توفیق دے اور اسلامی ام القریٰ (ایران)کو اپنی حفاظت میں رکھتے ہوئے تائید فرمائے، یہاں پر چند نکتے کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے : ۱۔ہم ہر گز اس بات کے مدعی نہیں ہیں کہ کتاب ھٰذا میں مذکورہ باتیں نئی اور جدید ہیں ؛ اس لئے کہ انھیں ساری روایات کو گذشتہ علماء نے جمع کیا ہے، اور بعض مقامات پر نتیجہ بھی اخذکیا ہے؛ پھر بھی اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کوشش کی گئی ہے کہ حتی الامکان خاص اصطلاحوں اور اختلافی باتوں سے گریز کیا جائے ،اور جدید لب و لہجہ نیز سادہ و آسان قالب میں ڈھال کر بیان کیا جائے تاکہ عوام بھی استفادہ کر سکیں۔ ۲۔جو ماخوذات روایت سے حاصل ہیں اور انھیں کسی طرف استناد بھی نہیں دیا گیا ہے،وہ مولف کی ذاتی رائے ہے۔ اس لحاظ سے دقت نظر اور چھان بین نیز ایک روایت کا دوسری روایت سے مقایسہ کر نے پر ،دیگر نئے مطالب کا حصول ممکن ہے۔ ۳۔اسی طرح یہ بھی ادعاء نہیں ہے کہ اس کتاب کی تمام موردا ستناد روایات صحیح اور بے خدشہ ہیں ؛بلکہ کوشش اس بات کی کی گئی ہے کہ جو کچھ معتبر محدثین اور قابل وثوق موٴلفین نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے، اس میں ذکر ہو جائے ۔ اسی طرح کچھ مقامات کے علاوہ، روایات کی سند سے بحث نہیں کی گئی ہے، چونکہ مقام نفی واثبات میں نہیں تھے۔ اس کے علاوہ بہت سارے مقامات پر تو اتر اجمالی کے ساتھ روایات کے صدور کا یقین ہوگیا؛ خصوصا ًوہ روایات جو اہل بیت سے مروی ہیں ۔ ۴۔اس کتاب کی روایات معجم احادیث (۱)الامام المہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) سے قبل جمع و تالیف ہوئی ہیں۔ اس بناء پر اس وادی میں تحقیق کرنے والے شائقین حضرات کو اس کتاب کی جانب جو اس کے بعد بحمد اللہ جمع و تالیف ہوئی ہے رجوع کرنے کا مشورہ دیتا ہوں ۔ ۵۔بہت سارے مقامات پرروایات میں کلمہ (الساعة،القیامة)کی حضرت مہدی کے ظہور سے تفسیر کی گئی ہے ۔اس لحاظ سے جو روایات شرائط یا علائم الساعة والقیامة کے عنوان سے ذکر کی گئی ہیں ،اس کتاب میں علائم ظہور کے عنوان سے بیان کی گئی ہیں ۔ (۱)ناچیز نے حوزہ علمیہ قم کے چند افاضل کی مدد سے کتاب ھٰذا کو ۵ جلد وںمیں تالیف کیا ہے اور بنیاد اسلامی قم نے ۱۴۱۱ قمری میں شائع کیا ہے انشاء اللہ ۔ آئندہ نظر ثانی بھی کروں گا ۶۔ اس کتاب کے بعض مطالب مزید تحقیق اور تلاش طلب ہیں؛ اگر چہ کوشش کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں توضیح دی جائے امید ہے کہ خدا وندعالم کی عنایتوں سے دوسری طباعت مزید دقت نظر و تحقیق کے ساتھ منظر عام پر آئے ۔ آخر کلام میں من لم یشکر المخلوق لم یشکر الخالق کے عنوان سے ضروری ہے کہ اپنے دوستوں اور بھائیوں خصوصا ً حجة الاسلام محمد جواد ،حجة الاسلام محمد جعفر طبسی کی راہنمائی اور حجة الاسلام رفیعی وسید محمد حسینی شاہرودی کے دوبارہ لکھنے کی وجہ سے اور کتاب کے مطالب کی تنظیم پر شکر گذار و قدر داں ہوں۔ نجم الدین طبسی قم ۱۳۷۳ھ ش |