انتظار كا مفھوم
 

انتظار اس حالت كو كہتے ھیں جب انسان اپنی موجودہ حالت سے كبیدہ خاطر ھو اور ایك تابناك مستقبل كی تلاش میں ھو، جیسے ایك مریض جو اپنے مرض سے عاجز آچكا ھو صحت و سلامتی كی امید میں رات دن كوشاں ھے، ایك تاجر جو كساد بازاری سے پریشان ھو اس كی ساری تجارت ٹھپ ھو كر رہ گئی ھو، وہ اس انتظار میں ھے كہ كس طرح یہ كساد بازاری ختم ھو اور اس كی تجارت كو فروغ حاصل ھو، اسی امید میں وہ ھمیشہ سعی و كو شش كرتا رھتا ھے۔
انتظار كے دو پہلو ھیں، اور دونوں پہلو غور طلب ھیں:
1) منفی: انسان كا اپنی موجودہ حالت سے كبیدہ خا طر ھونا۔
2) مثبت: تابناك مستقبل كے لئے كو شاں رھنا۔
جب تك انسان كی ذات میں یہ دونوں پہلو نہ پائے جاتے ھوں، اس وقت تك اسے یہ كہنے كا حق نہیں ھے كہ وہ كسی كا منتظر ھے۔ كیونكہ جو شخص موجودہ حالت پر راضی و خوشنود ھوگا اسے مستقبل كے بارے میں كیا فكر ھوسكتی ھے اور اگر وہ موجودہ حالت سے تو راضی نہیں ھے مگر اسے مستقبل كی بھی كوئی فكر نہیں ھے تو ایسی صورت میں یہ شخص كس چیز كا انتظار كرے گا۔
جس قدریہ دونوں پہلو انسانی وجود میں جڑ پكڑتے جائیں گے اسی اعتبار سے اس كی عملی زندگی میں فرق پڑتا جائے گا، كیونكہ جو بات دل كی گہرائیوں میں اتر جاتی ھے اعضاء و جوارح اپنے عمل سے اس كا اظھار ضرور كرتے ھیں۔
انتظار كے دونوں پہلو انسان كی زندگی كے لئے مفید ھیں جب انسان زمانے كی موجودہ حالت سے كبیدہ خاطر ھوگا تو اس بات كی كوشش كرے گا كہ اپنے كو ھر قسم كے گناہ سے دور ركھے، ظلم و فساد سے كنارہ كشی اختیار كرلے، جور و استبداد كے ختم كرنے كی ھر امكانی كوشش كرے۔ اسی كے ساتھ ساتھ نیكی كی طرف قدم بڑھا رھا ھو اپنے كو نیك صفات سے آراستہ كرنے كی فكر میں ھو۔
اب آپ خود ھی فیصلہ كرلیں انتظار كا یہ مفہوم انسان سے احساس ذمہ داری كو چھین لیتا ھے یا احساس ذمہ داری كو اور بڑھا دیتا ھے۔ اس بیان كی روشنی میں گذشتہ روایتوں میں ذكر شدہ باتیں كس قدر روشن ھوجاتی ھیں، انسان میں جس قدر آمادگی پائی جاتی ھے اور جس قدر وہ اپنے كو انقلاب عظیم كے لئے تیار كرچكا ھے اسی اعتبار سے وہ فضیلت كے مرتبہ پر فائز ھے آمادگی كے مراتب كو دیكھتے ھوئے روایتوں میں فضیلت و عظمت كو بیان كیا گیا ھے
جس طرح سے ایك جنگ میں شركت كرنے والوں كے مراتب مختلف ھیں كوئی وہ ھے جو رسول خدا (ص) كے ساتھ ان كے خیمے میں ھے، كوئی جنگ كے لئے آمادہ ھورھا ھے۔ كوئی میدانِ جنگ میں كھڑا ھے، كوئی تلوار چلا رھا ھے كوئی دشمن سے برسر پیكار ھے اور كوئی جنگ كرتے كرتے شھید ھوچكا ھے۔ انھیں مراتب كے اختلاف كی بنا پر جنگ میں شركت كرنے والوں كے ثواب اور مراتب میں بھی اختلاف ھے۔
ہی صورت ان لوگوں كی بھی ھے جو ایك عظیم مصلح كے انتظار میں زندگی كے شب و روز گذار رھے ھیں، ایك عالمی انقلاب كی امید لگائے ھوئے ھیں جس كے بعد دنیا امن و امان، سكون و اطمینان كا گہوارہ ھوجائے گی۔ ظلم و جور و استبداد كی تاریكی كافور ھوجائے گی اب جس میں جتنی آمادگی، جذبۂ فدا كاری، شوق شھادت اور عزم و استقلال پایا جاتا ھے اسی اعتبار سے روایتیں اس كے شاملِ حال ھوتی جائیں گی۔
وہ شخص جو پیغمبر اسلام (ص) كے ھمراہ خیمے میں موجود ھے وہ كبھی بھی حالات سے غافل نہیں رہ سكتا، وہ ھمیشہ حالات پر نگاہ ركھے گا، ماحول كو باقاعدہ نظر میں ركھے گا، كیوں كہ وہ ایسی جگہ پر ھے جہاں غفلت اور لاپروائی سے دامن چھڑا كر یہاں آیا ھے۔ اسے اس بات كا احساس ھے كہ اس كی غفلت سے كیا نتائج برآمد ھوں گے، اس كی معمولی سی چوك كس قدر تباھی اور بربادی كا پیش خیمہ ھوسكتی ھے۔
وہ شخص جو میدان جنگ میں برسرِ پیكار ھے اسے كس قدر ھوشیار ھونا چاھئے، معمولی سے معمولی چیز سے بھی فائدہ اٹھانا چاھئے، ھر لمحہ كو غنیمت شمار كرنا چاھئے۔ فتح حاصل كرنے كے لئے ھر امكانی كوشش كرنی چاھیئے، اگر یہی شخص غافل ھوجائے، فرصت سے استفادہ نہ كرے، لمحات كو غنیمت نہ شمار كرے اس كا لازمی نتیجہ ھزیمت اور شكست ھوگی۔
ہی صورت ان لوگوں كی ھے جو "انتظار" میں زندگی بسر كررھے ھیں اور منتظر كو مجاھد كا جو درجہ دیا گیا ھے اس كی وجہ یہی ھے كہ منتظر كو مجاھد كی طرح ھمیشہ ھوشیار رھنا چاھیئے۔ ماحول پر فتح حاصل كرنے كے لئے ھر امكانی كوشش كرنا چاھئے۔ فساد كی بساط تہ كرنے كے لئے ھمیشہ كوشاں رھنا چاھیئے۔ تاكہ انقلاب عظیم كے مقدمات فراھم ھوسكیں۔
یہ بات بھی یاد ركھنے كے قابل ھے كہ انسان اسی وقت میدان جنگ میں ایك بہادر اور دلیر ثابت ھوگا جب باطنی اور روحی طور پر بھی اس میں شجاعت اور دلیری پائی جاتی ھو ورنہ اگر دل ھی بُزدل ھے تو تیغ بُراں بھی بیكار ھے، حقیقی انتظار كرنے والے كے لئے ضروری ھے كہ اپنے كو باطنی طور پر اس قدر آمادہ كرلے كہ وقتِ انقلاب اس كا شمار مجاھدین میں ھو۔
اس بیان كی روشنی میں "ھر سچّا منتظر" روایات میں اپنی جگہ ڈھونڈھ لے گا۔
قارئین خود ھی فیصلہ كرلیں كہ انتظار كا یہ مفہوم انسانی زندگی كے لئے ضروری ھے یا نہیں، اس كے ضمیر كی آواز ھے كہ نہیں۔؟

انتظار، یا آمادگی
اگر میں خود ھی ظالم اور ستم گر ھوں تو كیونكر ایسے انقلاب كا متمنی ھوسكتا ھوں جس میں ظالم اور ستم گر پہلے ھی حملے میں نیست و نابود ھوجائیں گے۔
اگر میں خود ھی گناھگار، بدكار اور بداخلاق ھوں تو كیونكر ایسے انقلاب كی آرزو
كرسكتا ھوں جس میں گناھگاروں كے لئے كوئی خاص گنجائش نہ ھو۔
وہ فوج جو آمادۂ جنگ ھے كیونكر اس كے سپاھی غافل اور بے پروا ھوسكتے ھیں، فوج ھمیشہ اس فكر میں رھتی ھے كہ معمولی سے معمولی كمزوری كو جلد از جلد دور كیا جائے اور ھماری فوج میں كوئی بھی ضعف باقی نہ رھے اور جو ضعف ھیں ان كی فوراً اصلاح كرلی جائے۔
انسان كو جس چیز كا انتظار ھوتا ھے اسی اعتبار سے وہ خود كو آمادۂ استقبال كرتا ھے۔
اگر كسی مسافر كے آنے كا انتظار ھے تو ایك قسم كی تیاری ھوگی، اگر بہت ھی قریبی، اور جگری دوست آرھا ھے تو دوسرے قسم كی تیاریاں ھوں گی۔ اور اگر كسی طالب علم كو اپنے امتحان كا انتظار ھے تو اب اس كی تیاریاں ایك خاص قسم كی ھوں گی، اگر صحیح معنوں میں اسے امتحان كا انتظار ھے، ایسا ھرگز نہیں ھے جسے امتحان كا انتظار ھو وہ گھر كی صفائی اور اس كے نظم و ضبط میں منہمك ھو اور جسے ایك مسافر كا انتظار ھو وہ اپنی كاپی، كتاب كی اصلاح اور ترتیب میں مصروف و مشغول ھو، اب دیكھنا یہ ھے كہ ھم كس كا انتظار كر رھے ھیں اور كس انقلاب كی آس لگائے ھیں۔
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زمین كے كسی خطے سے مخصوص نہیں۔
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں جغرافیائی حدود كی كوئی قید و شرط نہیں۔
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زندگی كے خاص شعبے میں محدود نہیں۔
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اتنا عظیم انقلاب جس كی مثال تاریخ بشریت كے دامن میں نہ ھو۔
انقلاب۔ اور اتنا
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو سیاست كو ایك نیا رخ دے، جو علم و ھنر میں ایك تازہ روح پھونك دے۔
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اقتصادی الجھنوں كو دور كردے
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اخلاقی قدروں كو سرفراز كردے
اب دیكھنا یہ ھے كہ ایسے انقلاب كے انتظار میں زندگی گزارنے كے اثرات كیا ھیں۔ یہ بات پہلے ذكر كی جاچكی ھے كہ انتظار كے دو پہلو ھیں (1) منفی (2) مثبت
انتظار كی طرح انقلاب كے بھی دو پہلو ھیں: (1) منفی (2) مثبت
1) منفی: موجودہ حالت كو ختم كرنا، فساد و تباھی كو ان كی آخری حد تك پہونچانا۔
2) مثبت: ایك جدید اور زندگی بخش نظام كو پرانے اور فرسودہ نظام كا جانشین قرار دینا۔
اب جو لوگ واقعاً منتظر ھیں اور صحیح معنوں میں ایك "عالمی انقلاب" كی اُمّید لگائے ھوئے ھیں، صرف زبانی اور خیالی جمع خرچ میں مبتلا نہیں ھیں، تو ان لوگوں میں كچھ صفات ضرور پائے جائیں گے ان میں سے چند صفتیں نذر قارئین ھیں۔

1) انفرادی اصلاح ۔ اِصلاحِ نفس
اس عظیم انقلاب كے لئے ایسے افراد كی ضرورت ھے جن كا ذھن عالمی اصلاحات كو قبول كرنے كی صلاحیت ركھتا ھے، ضرورت ھے ایسے افراد كی جو میدان علم كے شھسوار ھوں، افكار میں گہرائی ھو، دل میں وسعت ھو كہ دشمن كو بھی جگہ مل سكے، ضمیر زندہ اور بیدار ھو، اخلاق و مروت كے پرستار ھوں، ایسے افراد كی ضرورت ھے، جو تنگ نظر نہ ھوں، كج فكر اور كج خلق نہ ھوں، كینہ و حسد سے دور ھوں، اختلاف كی خانماں سوز آگ كو صلح و صفا و اخوت كے پانی سے بُجھا چكے ھوں۔
كیوں ۔۔۔ اس لئے كہ اگر كوتاہ فكر ھوں گے تو عالمی اصلاحات كو قبول كرنے سے انكار كردیں گے یا پھر اسے ایك دشوار گذار مرحلہ تصوّر كریں گے، اگر دل میں وسعت اور قلب میں محبّت نہ ھوگی، تو اپنے علاوہ دوسرے كے فائدے كو پسند نہیں كریں گے اگر آپس میں نفاق اور اختلاف ھوگا تو ایك عالمی حكومت سے تعاون نہیں كریں گے، اور دنیا میں افراتفری پھیلائیں گے۔
ایسا بھی نہیں ھے كہ انتظار كرنے والے كی حیثیت صرف ایك تماشہ دیكھنے والے كی حیثیت ھو، اور اس كو انقلاب سے كوئی سروكار نہ ھو، یا تو وہ اس عالمی انقلاب كا موافق ھوگا یا پھر مخالف۔ كسی تیسری صورت كی گنجائش نہیں ھے۔
بیدار ضمیر اور روشن فكر شخص جب كبھی اس انقلاب كے بارے میں فكر كرے گا اور اس كے نتائج پر نظر ركھے گا تو كبھی وہ مخالفین كی صف میں نہ ھوگا، كیونكہ اس انقلاب كے اصول اس قدر فطرت اور ضمیر كے نزدیك ھیں كہ ھر وہ شخص جس كے پہلو میں انسان كا دل ھے وہ ان اصولوں كو ضرور قبول كرے گا۔ مخالفت صرف وھی كریں گے جو ظلم و فساد كے دلدادہ ھوں، یا مظالم ڈھاتے ڈھاتے ظلم كرنا ان كی فطرت ثانیہ بن گئی ھو۔
جب انسان اس "عالمی انقلاب" كے طرفداروں میں ھوگا اور ھر انصاف پسند طرفدار ھوگا، ان لوگوں كے لئے ناگزیر ھے كہ انفرادی طور پر اپنی اصلاح كرلیں اور نیك اعمال بجالانے كے خوگر بنیں، عمل سے زیادہ نیت میں پاكیزگی ھو، تقویٰ دل كی گہرائیوں میں جاگزیں ھو علم و دانش سے سرشار ھو۔
اگر ھم خود فكری یا عملی طور پر ناپاك ھیں تو كیونكر ایسے انقلاب كے متمنی ھیں جس كی پہلی ھی لپیٹ ایسے لوگوں كو نگل جائے گی۔ اگر ھم خود ظالم اور ستم گر ھیں تو كیونكر ایسے انقلاب كا انتظار كررھے ھیں جس میں ظالم اور ستم گر كے لئے كوئی جگہ نہ ھوگی۔
اگر ھم خود مفسد ھیں اور فساد پھیلانے میں لگے رھتے ھیں تو كیوں ایسے انقلاب كی امید میں زندگی كے شب و روز گذار رھے ھیں جس میں مفسد اور فساد پھیلانے والے نیست و نابود ھوجائیں گے۔
خود فیصلہ كرلیجئے كیا اس عالمی انقلاب كا انتظار انسان كو باعمل اور باكردار بنا دینے كے لئے كافی نہیں ھے۔؟ یہ انتظار كی مدّت كیا اس بات كی مہلت نہیں ھے كہ انسان آمد انقلاب سے پہلے خود اپنی اصلاح كرلے اور خود كو انقلاب كے لئے آمادہ كرلے۔
وہ فوج جو ایك قوم اور ملّت بلكہ ایك ملك كو ظلم و ستم سے آزادی دلانا چاھتی ھے اس كے لیے ضروری ھے كہ وہ ھمیشہ مستعد رھے، اپنے اسلحوں كو پركھ لے، اگر كوئی اسلحہ خراب ھوگیا ھے یا زنگ آلود ھوگیا ھے تو اس كی فوراً اصلاح كرلے، حفاظتی اقدام میں كوئی كسر نہ اُٹھا ركھے، اپنی چوكیوں كو مضبوط كرلے، اور جو مضبوط ھیں انھیں مضبوط تر بنالے سپاھیوں كا شمار كرلے، ان كی قوت آزمالے، ان كے جذبات كا جائزہ لے لے، جن كی ھمتیں پست ھوں ان میں ایك تازہ روح پھونكی جائے۔ ھر ایك كو اس كی ھمت اور جذبہ كے مطابق كام سونپا جائے۔ اگر فوج ان خصوصیات كی حامل ھے تب تو اس بات كی امید كی جاسكتی ھے كہ وہ اپنے مقاصد میں كامیاب ھوگی، ورنہ اس كے تمام دعوے جھوٹے اور تمام منصوبے محض خواب و خیال ھوں گے۔
اسی طرح وہ لوگ جو اپنے كو حضرت امام زمانہ علیہ السلام كا منتظر كہتے ھیں اور یہ كہتے ھوئے فخر محسوس كرتے ھیں كہ ایك امام غائب كے انتظار میں زندگی بسر كر رھے ھیں ان كے لئے ضروری ھے كہ وہ اپنے كو اس عالمی انقلاب كے لئے آمادہ كریں۔ اپنے نفوس كا خود امتحان لے لیں، اپنے جذبات كو حقائق كی كسوٹی پر پركھ لیں، كیونكہ الخ
ایك قوم جو ھمیشہ اپنی اصلاح میں منہمك ھو، نہایت شوق و ولولے كے ساتھ نیك اعمال بجا لارھی ھو، سچے جذبات اور خلوص نیت كے ساتھ كردار كے اعلیٰ مراتب طے كر رھی ھو وہ قوم اور سماج كس قدر عالی اور بلند ھوگا، وہ ماحول كس قدر روح افزا اور وہ فضا كس قدر انسانیت ساز ھوگی، وہ صبح كس قدر تابناك ھوگی جس میں ایك ایسی عظیم قوم جنم لے گی۔ وہ قوم كوئی اور نہیں ھوگی بلكہ ھم اور آپ ھی ھوں گے بشرطیكہ متوجہ ھوجائیں اور اصلاحات میں لگ جائیں۔
یہ ھیں اس انتظار كے معنی جس كے بارے میں روایتیں وارد ھوئی ھیں، اور یہ ھے وہ "سچّا منتظر" جس كو روایت میں "مجاھد" اور "شھید" كا درجہ دیا گیا ھے۔
ضرورت ھے ایسے افراد كی جن كے ارادے كے سامنے مصائب كا طوفان خود چكر میں آجائے، جن كے عزم كے سامنے پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں، جن كی امید كے سامنے مایوسی كی چٹانیں پاش پاش ھوجائیں۔ فكر اس قدر وسیع ھوكہ آسمان اور زمین كی وسعتیں كم ھوں، اخلاق اس قدر بلند ھوكہ دشمن بھی كلمہ پڑھیں۔ كردار اتنا مستحكم ھوكہ ملائك بھی سجدہ ریز ھوں۔

2) سماج كی اصلاح
سچّا منتظر وہ ھے جو صرف اپنی اصلاح پر اكتفا نہ كرے بلكہ اس كے لیے ضروری ھے كہ دوسروں كی بھی اصلاح كی فكر كرے۔
كیونكہ جس انقلاب كا انتظار ھم كررھے ھیں، اس میں صرف جزوی اصلاحات نہیں ھوں گی بلكہ سماج كے سبھی افراد اس میں برابر كے شریك ھوں گے، لھذا سب مل كر كوشش كریں، ایك دوسرے كے حالات سے آگاہ رھیں، ایك دوسرے كے شریك رھیں اور شانے سے شانہ ملاتے ھوئے انقلاب كی راہ پر گامزن رھیں۔
جب كام سب مل كر انجام دے رھے ھوں تو اس میں كوئی ایك دوسرے سے غافل نہیں رہ سكتا۔ بلكہ ھر ایك كا فریضہ ھے كہ دوسروں كا بھی خیال ركھے۔ اطراف و جوانب كا بھی علم ركھتا ھو، جہاں پر كوئی معمولی سی كمزوری نظر آئے، فوراً اس كی اصلاح كرے۔ كوئی كمی ھوتو فوراً اس كو پورا كیا جائے۔
اسی بناء پر جہاں ھر انتظار كرنے والے كا یہ فریضہ ھے كہ خود كی اصلاح كرے، كردار كے جوھر سے آراستہ ھو وھاں اس كا یہ بھی فریضہ ھے كہ دوسروں كی بھی اصلاح كرے، سماج میں اخلاقی قدروں كو اجاگر كرے۔
صحیح انتظار كرنے كا یہ دوسرا فلسفہ ھے، ان باتوں كو پیش نظر ركھ كر روایات كا مطالعہ كیا جائے تو معنی كس قدر صاف اور روشن ھوجاتے ھیں۔ منتظر كو كہیں مجاھد كا درجہ، كہیں راہ خدا میں شمشیر بكف كا درجہ، اور كہیں پر فائز بہ شھادت كا درجہ دیا گیا ھے۔ بدیہی بات ھے اپنی اصلاح یا دوسروں كی اصلاح، انفرادی زندگی كے ساتھ حیات اجتماعی كو بھی سنوارنا كس قدر دشوار گذار مرحلہ ھے۔ ان مراحل میں وھی ثابت قدم رہ سكتا ھے جو عزم و عمل كا شاھكار ھو، جس كے قدم ثبات و استقلال كی آپ اپنی مثال ھوں۔

ایك اعتراض
دنیا كے بارے میں ھماری معلومات محدود ھیں، اور نہ ھمیں موجودہ حكم فرما نظام كی حقیقت معلوم ھے اور نہ ھم اس كے نتائج سے باخبر ھیں، اس بناء پر ھم خیال كرتے ھیں كہ ظلم و فساد میں ابھی كچھ كمی ھے۔ اگر صحیح طور سے دیكھا جائے تو آج بھی دنیا فساد سے بھری ھوئی ھے آج بھی دنیا ظلم و ستم كی آما جگاہ بنی ھوئی ھے"۔
دنیا میں كچھ ایسے بھی موجودہ ھیں جو ھمیشہ اس فكر میں رھتے ھیں كہ كس طرح ایك اصلاحی بات سے بھی فساد كا پہلو نكالا جائے۔ ان كی كوشش یہ ھوتی ھے كہ ھر چیز میں اس كا منفی پہلو اُبھارا جائے، اصلاح كو بھی فساد كا جامہ پہنا دیا جائے، تاكہ ان كی دُكان ٹھپ نہ ھونے پائے۔ زیر بحث مسئلہ بھی ان لوگوں كی سازش سے محفوظ نہ رہ سكا۔
ان لوگوں كا كہنا ھے كہ حضرت مھدی علیہ السلام كے ظھور میں شرط یہ ھے كہ آپ اس وقت ظھور فرمائیں گے جب دنیا ظلم و جور سے بھر چكی ھوگی، دور دور تك كہیں اچّھائیوں كا نام تك نہ ھوگا، نیكی كی شمع كوسوں دور بھی نظر نہ آتی ھوگی۔
اگر ھم لوگ اصلاح كے راستے پر قدم بڑھائیں گے، ظلم و جور كو مٹانے كی كوشش میں لگے رھیں گے تو حضرت كے ظھور میں خواہ مخواہ تاخیر ھوگی، لھذا كیوں نہ ھم لوگ مل كر فساد كی آگ كو اور بھڑكادیں، ظلم و ستم كے شعلوں كی لپك كو اور تیز كردیں، استبداد كی بھٹی كو كیوں نہ اور گرم كردیں، جو كچھ تھوڑی بہت كسر رہ گئی ھے، اسے جلد از جلد پورا كریں تاكہ حضرت كا ظھور جلد ھوسكے۔
اسی اعتراض كو ان الفاظ میں بیان كیا جاسكتا ھے:
وہ حضرات جو ظھور حضرت مھدی علیہ السلام كے انتظار میں زندگی بسر كر رھے ھیں، انھیں یہ انتظار كوئی تقویت نہیں پہونچاتا بلكہ رھی سہی قوت ارادی كو بھی چھین لیتا ھے گنے چُنے جو نیك لوگ ھیں انھیں بھی یہ انتظار نیك باقی نہیں رھنے دیتا۔ فقر و فاقہ كی زندگی میں روز بہ روز اضافہ ھی ھوتا چلا جاتا ھے، كیونكہ جو لوگ كم مایہ اور فقیر ھیں وہ اس امید میں ھاتھ پر ھاتھ دھرے بیٹھے ھیں كہ جب حضرت كا ظہور ھوگا، اس وقت ھماری حالت "خود بخود" بدل جائے گی، فقر و فاقہ دور ھوجائے گا، زندگی كا ایك حصہ تو گذر چكا ھے بقیہ بھی اسی امید میں گذر جائے گا۔ سرمایہ داروں كو تو چاندی ھوجائے گی۔ وہ اسی بہانے اپنی تجوریاں بھرتے چلے جائیں گے، لوگوں كو اپنا دست نگر بنانے میں كامیاب ھوتے رھیں گے۔ یہ عقیدہ انسانی زندگی كے لئے آبِ حیات ھے یا صحیح معنوں میں زھر ھلاھل۔؟
یہ ھے وہ اعتراض جسے مخالفین كافی آب و تاب سے بیان كرتے ھیں۔ ھوسكتا ھے
خود دل سے اس اعتراض كو قبول نہ كرتے ھوں، مگر اپنے ناپاك مقاصد كے لئے، اپنی شخصیت كو چھپانے كے لئے اس اعتراض كو "بطور نقاب" استعمال كرتے ھوں۔
جو بھی صورت حال ھو، اس اعتراض كے جواب كے لئے ان باتوں كی طرف توجہ فرمایئے:

1۔ صف بندی اور تشخیص
اس عالمی انقلاب میں یا تو لوگ موافقین كی فہرست میں ملیں گے یا پھر مخالفین كی فہرست میں، تماشائی كی حیثیت كوئی معنی نہیں ركھتی ھے۔ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آتے ھیں سب كی صورت حال یہی ھے۔ كیونكہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ھیں وہ دو صورتوں سے خالی نہیں ھیں۔ انقلاب سماج كے لئے فائدہ مند ھوگا یا فائدہ مند نہیں ھوگا اگر انقلاب سماج كے لئے فائدہ مند ھے تو ھر آدمی كا فریضہ ھے كہ اس میں شركت كرے، اگر یہ انقلاب سماج كے لئے نقصان كا باعث ھے تو سب كا فریضہ ھے كہ مل كر اس كی مخالفت كریں اور اس كو كامیاب نہ ھونے دیں۔ یہ بات دور از عقل ھے كہ انقلاب تو آئے لیكن سماج كے لئے نہ فائدہ مند ھو نہ باعثِ نقصان۔
جب یہ بات تو ھمیں چاھیئے كہ ھم ابھی سے یہ طے كرلیں كہ ھمیں كس صف میں رھنا ھے ھم اپنے كو خود آزمالیں كہ ھمیں كس كا ساتھ دینا ھے۔
اگر آج ھم فساد كی آگ كو ھوا دے رھے ھیں تو كل كیونكر اصلاح كرنے والوں كی صف میں آجائیں گے اور فساد كو آگ بجھا رھے ھوں۔؟ اگر آج ھمارا دامن ظلم و جور سے آلودہ ھوگا تو كل یقیناً ھمارا شمار مخالفین كی فہرست میں ھوگا۔ كیونكہ یہ بات تو سبھی تسلیم كرتے ھیں كہ حضرت مھدی علیہ السلام كے ظھور كے بعد جو انقلاب آئے گا اس میں ظلم و جور كا نشان تك باقی نہ رھے گا۔ ھم كو ان ظالموں كی صف میں اپنے كو شمار كرنا چاھئے جن كی گردنوں كا بوسہ عدل و انصاف كی شمشیر لے گی۔ فساد پھیلانا تو بالكل ایسا ھی ھے كہ ھم ایك ایسی آگ بھڑكائیں جس كا پہلا شعلہ ھمیں ھی خاكستر كردے۔
اگر اس اعتراض كو قبول بھی كرلیا جائے تو اس كا مطلب یہ ھوگا كہ ھم جس قدر اپنے اعمال بد كے ذریعہ حضرت مھدی علیہ السلام كے ظھور كو نزدیك كریں گے اتنا ھی ھم اپنی نابودی اور فنا سے بھی قریب تر ھوجائیں گے، اپنے ھی ھاتھوں اپنے پیروں پر كلہاڑی مار لیں گے۔
اگر ھم باقی رھنا چاھتے ھیں اور اس عالمی انقلاب كے نتائج سے لطف اندوز اور بہرہ مند ھونا چاھتے ھیں تو اپنے دامن كو آلودگیوں سے دور ركھیں، ظلم و جور سے تمام رشتوں كو توڑدیں، ضلالت و گمراھی كے سمندر سے نكل كر ھدایت كے ساحل پر آجائیں۔

2۔ مقصد آمادگی ھے، فساد نہیں
جو چیز حضرت مھدی علیہ السلام كے ظھور كو كسی حد تك نزدیك كرسكتی ھے وہ ھے وہ ظلم وجور و فساد نہیں ھے بلكہ ھماری آمادگی ھے، ھمارا اشتیاق ھے۔ كیا ھمیں حضرت كا اسی طرح انتظار ھے جس طرح سے ایك پیاسے كو پانی كا۔
ھاں یہ اور بات ھے، جس قدر ظلم و جور، فساد اور بربادی میں اضافہ ھوتا جائے گا اتنا ھی لوگ موجودہ نظام اور ضابطۂ حیات سے عاجز ھوتے جائیں گے۔ رفتہ رفتہ لوگوں كو اس بات كا یقین ھوتا جائے گا كہ موجودہ ضابطۂ حیات میں سے كوئی ایك بھی ھماری مشكلات كا حل پیش نہیں كرسكتا بلكہ جتنے بھی نظام رائج ھیں وہ سب كے سب ھماری مشكلات میں اضافہ تو كرسكتے ھیں مگر كمی نہیں كرسكتے۔ یہی یقین اس بات كا سبب ھوگا كہ لوگ ایك ایسے نظام كے منتظر ھوں گے جو واقعاً ان كی مشكلات كا حل پیش كرسكتا ھے جس قدر یہ یقین مستحكم ھوتا جائے گا، اتنا ھی انسان كا اشتیاق بڑھتا جائے گا۔
دھیرے دھیرے یہ بات بھی روشن ھوتی جائے گی اور لوگوں كو یقین ھوتا جائے گا كہ دنیا كی جغرافیائی تقسیم مشكلات كا سر چشمہ ھے۔ یہی جغرافیائی تقسیم ھے جس كی بنا پر بے پناہ سرمایہ اسلحہ سازی میں خرچ ھورھا ھے، انسان كی گاڑھی كمائی كے پیسے سے خود اس كی تباھی كے اسباب فراھم كئے جارھے ھیں۔ جغرافیائی تقسیم اور حد بندی كا نتیجہ ھے جس كی بنا پر ھر قوی اور طاقت ور ملك ضعیف اور فقیر ملك كو اپنے قبضہ میں كرلیتا ھے۔ ان كے پاس جو خدا داد نعمتیں ھیں ان كو ہتھیانے كی فكر میں لگا رھتا ھے۔ یہ جغرافیائی تقسیم اور حد بندی كا نتیجہ ھے جس كی بنا پر ملكوں میں آپس میں ایك حسد اور تعصب پایا جاتا ھے۔ یہی وہ باتیں ھیں جو انسانی مشكلات كا سرچشمہ ھیں، جس قدر یہ حققیت انسانی ذھن میں اترتی جائے گی اتنا ھی انسان ایك ایسی حكومت كی فكر میں ھوگا، جس میں یہ قصّہ ھی نہ ھو، جہاں پر كوئی حد بندی نہ ھو۔ اگر حد بندی ھو تو صرف انسانیت اور آدمیت كی۔ جب ایك عالمی حكومت كا قیام ھوگا تو وہ بے پناہ سرمایہ جو اسلحہ كے اوپر خرچ ھورھا ھے، وہ انسان كی فلاح و بہبود كے لئے خرچ ھوگا، اب نہ حسد كا سوال ھوگا اور نہ رقابت كا، بلكہ سب مل كر شانے سے شانہ ملاكر ھاتھ میں ھاتھ دے كر، عدل و انصاف، صدق و صفا، برادری، اخلاص و ایثار، اخلاق و كردار، مروت و شرافت كی بنیاد پر قصر آدمیت و انسانیت كو تعمیر كریں گے۔

3۔ تاریكی كا عُروج
دنیا تو مدت ھوئی ظلم و جور سے بھر چكی ھے۔ یہ جنگیں یہ قتل و غارت، لوٹ مار خوں ریزیاں اس بات كی نشانی نہیں ھیں كہ دنیا ظلم و جور سے بھری ھوئی ھے۔ یہ كینہ و حسد ایك دوسرے كو تباہ و برباد كرنے كے لئے ایك سے ایك اسلحہ بنانا، طاقت كے گھمنڈ میں غریبوں اور كمزوروں كو كچل كے ركھ دینا، دنیا سے اخلاقی قدروں كو مٹ جانا جہاں كردار كی بھیك مانگے سے نہ ملتی ھو، جہاں شرم و حیا نام كی كوئی چیز نہ ھو تو اب بھی ظلم و جور میں كوئی كمی باقی رہ جاتی ھے۔؟
ھاں جس چیز كی كمی ھے وہ یہ ھے كہ ھم ابھی تك موجودہ نظام ھائے حكومت كی حقیقتوں سے واقف نہیں ھوئے ھیں، ابھی ھم ان ضابطۂ حیات كے نتائج سے باقاعدہ آگاہ نہیں ھوئے۔ ابھی تك یہ بات بالكل روشن نہیں ھوئی ھے كہ واقعاً ھماری مشكلات كا سرچشمہ كیا ھے، جس كی بناء پر ھم اپنے وجود میں اس جذبے كا احساس نہیں كرتے جو ایك پیاسے كو پانی كا ھوتا ھے، ایك مریض كو شفا كی آرزو۔
جس قدر ھمارے جذبات میں اضافہ ھوتا جائے گا، جتنا ھم میں آمادگی پیدا ھوتی جائے گی، جس قدر حضرت (ع) كے ظھور كی ضرورت اور عالمی انقلاب كا احساس ھوتا جائے گا، اتنا ھی حضرت كا ظھور نزدیك ھوتا جائے گا۔

4۔ سچّا منتظر كون۔؟
انتظار كے اثرات و فوائد میں سے دو كا ذكر كیا جاچكا ھے۔ 10 انفرادی اصلاح یا اصلاح نفس (2) سماج كی اصلاح۔
انتظار كے اثرات صرف انھیں دو میں منحصر ھیں بلكہ اور بھی ھیں، ان میں سے ایك اور قارئین كی خدمت میں پیش كیا جاتا ھے۔
جس وقت فساد وباكی طرح عام ھوجائے گا، ھر طرف فساد ھی فساد نظر آئے، اكثریت كا دامن فساد سے آلودہ ھو، ایسے ماحول میں اپنے دامن كو فساد سے محفوظ ركھا ایك سچّے اور حقیقی منتظر كا كام ھے۔ یہ وہ موقع ھوتا ھے جس وقت نیك اور پاك سیرت افراد روحی كش مكش میں مبتلا ھوجاتے ھیں۔ كبھی بھی یہ خیال ذھنوں میں كروٹیں لینے لگتا ھے كہ اب اصلاح كی كوئی امید نہیں ھے۔ یہ مایوسی كردار كے لئے ایك مہلك زھر ثابت ھوسكتی ھے۔ انسان یہ خیال كرنے لگتا ھے كہ اب اصلاح كی كوئی امید نہیں ھے، اب حالات سدھرنے والے نہیں ھیں، اب كوئی تبدیلی واقع نہیں ھوئی، بلكہ حالات بد سے بدتر ھوجائیں گے، ایسی صورت میں اگر ھم اپنے دامن كردار كو بچائے بھی ركھیں تو اس كا كیا فائدہ جب كہ اكثریت كا دامن كردار گناھوں سے آلودہ ھے۔ اب تو زمانہ ایسا آگیا كہ بس "خواھی نشوید رسوا ھم رنگ جماعت باش"۔۔ اگر رسوائی اور بدنامی سے بچنا چاھتے ھو تو جماعت كے ھم رنگ ھوجاؤ۔
ھاں! اگر كوئی چیز ان لوگوں كو آلودہ ھونے سے محفوظ ركھ سكتی ھے اور ان كے دامن كردار كی حفاظت كرسكتی ھے تو وہ صرف یہی عقیدہ كہ ایك دن آئے گا جب حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كا ظھور ھوگا اور دنیا كی اصلاح ھوگی جیسا كہ رسول گرامی (ص) كا ارشاد ھے: "اگر آنے میں صرف ایك ھی دن باقی رہ جائے گا تو خداوند عالم اس دن كو اس قدر طولانی كردے گا كہ حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كا ظھور ھوجائے"۔ (1) جب ایك دن اصلاح ھوگی اور ضرور ھوگی تو كیوں نہ ھم اپنے دامن كردار كو محفوظ ركھیں، دوسروں كی اصلاح كی فكر كیوں نہ كریں۔ اس سعی و كوشش كی بنا پر ھم اس لائق ھوسكیں گے كہ وقت انقلاب موافقین كی صف میں ھوں اور ھمارا بھی شمار حضرت كے اعوان و انصار میں ھو۔
تعلیماتِ اسلامی میں یہ بات بھی ملتی ھے كہ سب سے عظیم گناہ اگر كوئی چیز ھے تو وہ "رحمت الٰہی سے مایوسی ھے"۔ اس كی وجہ بھی صاف واضح ھے۔ جب انسان رحمتِ الٰہی سے مایوسی ھوجائے گا تو كبھی بھی اصلاح كی فكر نہیں كرے گا۔ وہ یہی خیال كرے گا كہ جب كافی عمر گناہ كرتے گزری تو اب چند دنوں كے لئے گناہ سے كنارہ كشی اختیار كرنے سے كیا فائدہ۔ جب ھم گناھوں كے بوجھ سے دبے ھوئے ھیں تو كیا ایك اور كیا دس۔ اب تو پانی سر سے اونچا ھوچكا ھے، ساری دنیا میں بدنامی ھوچكی، اب كاھے كی پرواہ، اپنے اعمال كے ذریعہ دوزخ خرید چكا ھوں۔ جب آتش جہنم میں جلنا ھے تو باقاعدہ جلیں گے اب ڈر كس بات كا۔
اگر انسان كی ساری عمر گناہ كرتے گزری ھو، اور اسے اس بات كا یقین ھو كہ میرے گناہ یقیناً بہت زیادہ ھیں، لیكن رحمتِ الٰہی اس سے بھی زیادہ وسیع ھے۔ میرے لاكھ گناہ سھی مگر اس كی رحمت كے مقابلے میں كچھ بھی نہیں، اس كی ذات سے ھر وقت امید ھے، اگر میں سدھر جاؤں تو وہ آج بھی مجھے بخش سكتا ھے۔ اگر میں اپنے كئے پر نادم ھوجاؤں تو اس كی رحمت شامل حال ھوسكتی ھے۔ یہی وہ تصور اور عقیدہ ھے جو انسان كی زندگی میں ایك نمایاں فرق پیدا كرسكتا ھے، ایك گناھگار كو پاك و پاكیزہ بنا سكتا ھے۔
اسی لئے تو كہا جاتا ھے كہ امید انسانی زندگی كے لئے بہت ضروری چیز ھے۔ امید كردار سازی میں ایك مخصوص درجہ ركھتی ھے۔ اصلاح كی امید فساد كے سمندر میں غرق ھونے سے بچا لیتی ھے، اصلاح كی امید انسانی كردار كے لئے ایك مستحكم سپر ھے۔
جس قدر دنیا فاسد ھوتی جائے گی اسی اعتبار سے حضرت كے ظھور كی امید میں اضافہ ھوتا جائے گا، جس قدر یہ امید بڑھتی جائے گی اسی اعتبار سے انفرادی اور اجتماعی اصلاح ھوتی جائے گی۔ ایك صالح اور با كردار اقلیت كبھی بھی فسادی اكثریت كے سمندر میں غرق نہیں ھوگی۔
یہ ھے انتظار كا وہ فائدہ جو كردار كو فاسد ھونے سے محفوظ ركھتا ھے، ایك سچّے اور با كردار منتظر كا دامنِ عفت گناھوں سے آلودہ نہیں ھوگا۔

مختصر یہ كہ
اگر انتظار كو صحیح معنوں میں پیش كیا جائے تو انتظار انسان كی زندگی كے لیے بہت ضروری ھے۔ اخلاقی قدروں كو اجاگر ركھنے كا ایك بہترین ذریعہ ھے۔ انتظار بے حس انسان كو ذمہ دار بنا دیتا ھے۔ بے ارادہ انسانوں كو پہاڑوں جیسا عزم و استقلال عطا كرتا ھے۔
ھاں اگر انتظار كے مفھوم كو بدل دیا جائے، اس كی غلط تفسیر كی جائے تو اس صورت میں انتظار ضرور ایك بے فائدہ چیز ھوگی۔
انتظار كبھی بھی انسان كو بے عمل نہیں بناتا۔ اور نہ بد اعمالی كی دعوت دیتا ھے، اس بات كی زندہ دلیل وہ روایت ھے جو اس آیتہ كریمہ كے ذیل میں وارد ھوئی ھے: وَعدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوۡا الصّٰلِحٰتِ لِیَسۡتَخۡلِفَنَّھُمۡ فی الارض "وہ لوگ جو ایمان لائے ھیں اور عمل صالح بجالاتے ھیں ان سے خدا كا یہ وعدہ ھے كہ خدا ان كو روئے زمین پر حكومت عطا كرے گا۔" امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اس آیت سے مراد القائم واصحابہ 11 اس سے مراد حضرت مھدی (ع) اور ان كے اصحاب ھیں۔
ایك دوسری روایت میں ھے نزلت فی المھدی 12 یہ آیتہ كریمہ حضرت مھدی كی شان میں نازل ھوئی ھے۔
غور طلب بات یہ ھے كہ اس آیتہ كریمہ میں جو حضرت كے اصحاب كی صفت بیان كی گئی ھے ان میں ایك ایمان ھے اور دوسرا عمل صالح
قیناً اس عالمی انقلاب كے لئے ایسے افراد كی ضرورت ھے جن كے ایمان پختہ ھوں، عقائد مستحكم ھوں، عقیدے كی ھر منزل كامل ھو، عمل كے میدان میں مرد میداں ھوں۔ جو لوگ ابھی انتظار كی گھڑیاں گذار رھے ھیں، ان میں گزشتہ باتوں كا پایا جانا ضروری ھے اور جن میں یہ صفات موجود ھوں گے وھی سچّے منتظر ھوں گے۔
وہ لوگ جن كے ایمان كامل نہیں ھیں یا عمل صالح میں كورے ھیں تو وہ ظھور سے پہلے اپنی اصلاح كرلیں ورنہ بغیر اصلاح كئے ھوئے اگر كسی چیز كا انتظار كر رھے ھیں تو وہ بس اپنی ھی فنا اور نابودی ھے۔
انتظار كا حق اسے ھے جس كا دل ایمان سے لبریز ھو، جو عزم و استقلال كا مالك ھو۔ وہ كیا انتظار كرے گا جو ھمیشہ اونگھا كرتا ھے۔
سچا منتظر وہ ھے جو ھمیشہ اپنی اصلاح میں لگا رھتا ھے اور اسی كے ساتھ سماجی اصلاح كی فكر میں غرق رھتا ھے اجتماع كی فلاح و بہبود میں ھمیشہ كوشاں رھتا ھے۔
ھاں یہ ھے سچا منتظر اور یہ ھیں انتظار كے حقیقی معنی۔

--------------------------------------------------------------------------------

10. بحار الانوار، جلد51 ص74 طبع جدید
11. بحار الانوار ج51، ص58 طبع جدید