انتظار
 

سارے كے سارے مسلمان ایك ایسے "مصلح" كے انتظار میں زندگی كے رات دن گذارے رھے ھیں جس كی خصوصیات یہ ھیں:۔
(1) عدل و انصاف كی بنیاد پر عالم بشریت كی قیادت كرنا، ظلم و جور، استبداد و فساد كی بساط ھمیشہ كے لئے تہ كرنا۔
(2) مساوات و برادری كا پرچار كرنا۔
(3) ایمان و اخلاق، اخلاص و محبّت كی تعلیم دینا۔
(4) ایك علمی انقلاب لانا۔
(5) انسانیت كو ایك حیاتِ جدید سے آگاہ كرانا۔
(6) ھر قسم كی غلامی كا خاتمہ كرنا۔
اس عظیم مصلح كا اسم مبارك مھدی (عج) ھے، پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی اولاد میں ھے۔
اس كتابچے كی تالیف كا مقصد یہ نہیں ھے كہ گزشتہ خصوصیات پر تفصیلی اور سیر حاصل بحث كی جائے، كیونكہ ھر ایك خصوصیت ایسی ھے جس كے لئے ایك مكمل كتاب كی ضرورت ھے۔
مقصد یہ ھے كہ "انتظار" كے اثرات كو دیكھا جائے اور یہ پہچانا جاسكے كہ صحیح معنوں میں منتظر كون ھے اور صرف زبانی دعویٰ كرنے والے كون ھیں، اسلامی روایات و احادیث جو انتظار كے سلسلے میں وارد ھوئی ھیں، یہ انتظار كو ایك عظیم عبادت كیوں شمار كیا جاتا ھے۔؟

غلط فیصلے
سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ھے كہ انتطار كا عقیدہ، كیا ایك خالص اسلامی عقیدہ ھے یا یہ عقیدہ شكست خوردہ انسانوں كی فكر كا نتیجہ ھے۔؟ یا یوں كہا جائے كہ اس عقیدہ كا تعلق انسانی فطرت سے ھے، یا یہ عقیدہ انسانوں كے اوپر لادا گیا ھے۔؟
بعض مستشرقین كا اس بات پر اصرار ھے كہ اس عقیدے كا تعلق انسانی فطرت سے نہیں ھے بلكہ یہ عقیدہ شكست خوردہ ذھنیت كی پیداوار ھے۔
بعض مغرب زدہ ذھنیتوں كا نظریہ ھے كہ یہ عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ نہیں ھے بلكہ یہودی اور عیسائی طرز فكر سے حاصل كیا گیا ھے۔
مادّہ پرست اشخاص كا كہنا ھے ك اس عقیدے كی اصل و اساس اقتصادیات سے ھے۔ صرف فقیروں، مجبوروں، ناداروں اور كمزوروں كو بہلانے كے لئے یہ عقیدہ وجود میں لایا گیا ھے۔
حقیقت یہ ھے ك اس عقیدے كا تعلق انسانی فطرت سے ھے اور یہ ایك خالصِ اسلامی نظریہ ھے، دوسرے نظریات كی وجہ یہ ھے كہ جن لوگوں نے اس عقیدہ كے بارے میں اظھار رائے كیا ھے، اگر ان كو متعصب اور منافع پرست نہ كہا جاسكے تو یہ بات بہر حال مانی ھوئی ھے كہ ان لوگوں كی معلومات اسلامی مسائل كے بارے میں بہت زیادہ محدود ھیں۔ ان محدود معلومات كی بنا پر یہ عقیدہ قائم كرلیا ھے كہ ھم نے سب كچھ سمجھ لیا ھے اور اپنے كو اس بات كا مستحق قرار دے لیتے ھیں كہ اسلامی مسائل كے بارے میں اظھار نظر كریں، اس كا نتیجہ وھی ھوتا ھے جسے آپ ملاحظہ فرما رھے ھیں۔ بدیہی بات ھے كہ محدود معلومات كی بنیادوں پر ایك آخری نظریہ قائم كرلینا كہاں كی عقلمندی ھے، آخری فیصلہ كرنے كا حق صرف اس كو ھے جو مسئلے كے اطراف و جوانب سے باقاعدہ واقف ھو۔
بعض لوگوں كا كہنا ھے كہ ھمیں اس بات سے كوئی سروكار نہیں كہ اس عقیدے كی بنیاد كیا ھے، ھمارا سوال تو صرف یہ ھے كہ اس عقیدے كا فائدہ كیا ھے؟ اور اس كے اثرات كیا ھیں؟
ھم نے جو دیكھا وہ یہ ھے كہ جو لوگ اس عقیدے كو دل سے لگائے ھوئے ھیں وہ ھمیشہ رنج و محن كا شكار ھیں اور ان كی زندگیاں مصائب برداشت كرتے گذرتی ھیں ذمہ داریوں كو قبول كرنے سے بھاگتے ھیں، فساد كے مقابل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رھتے ھیں اور اس كی سعی و كوشش بھی نہیں كرتے كہ فساد ختم بھی ھوسكتا ھے ظلم كا ڈٹ كر مقابلہ بھی كیا جاسكتا ھے، ایسے عقیدے ركھنے والوں كو ایسی كوئی فكر ھی نہیں۔
اس عقیدے كی بنیاد جو بھی ھو مگر اس كے فوائد و اثرات خوش آیند نہیں ھیں یہ عقیدہ انسان كو اور زیادہ كاھل بنا دیتا ھے۔
اگر ایك دانش ور كسی مسئلے میں فیصلہ كرنا چاھتا ھے اور صحیح نظریہ قائم كرنا چاھتا ھے تو اس كے لئے ضروری ھے كہ وہ اس مسئلے كے اطراف و جوانب كا باقاعدہ مطالعہ كرے، اس كے بعد ھی كوئی صحیح نظریہ قائم ھوسكتا ھے۔
آئیے پہلے ھم خود اس مسئلے كے مختلف پہلوؤں پر غور كریں كہ اس عقیدے كی بنیاد كیا ھے؟ كیا واقعاً یہ عقیدہ شكست خوردہ ذھنیت كے افكار كا نتیجہ ھے؟ یا اس كی بنیاد اقتصادیات پر ھے؟ یا پھر اس كا تعلق انسان كی فطرت سے ھے؟ اس عقیدے كے اثرات مفید ھیں یا نقصان رساں؟۔

انتظار اور فطرت
بعض لوگوں كا قول ھے كہ اس عقیدے كی بنیاد فطرت پر نہیں ھے بلكہ انسان كے افكار پریشاں كا نتیجہ ھے اس كے باوجود اس عقیدے كی اصل و اساس انسانی فطرت ھے، اس نظریے كی تعمیر فطرت كی بنیادوں پر ھوئی ھے۔
انسان دو راستوں سے اس عقیدے تك پہونچتا ھے۔ ایك اس كی اپنی فطرت ھے اور دوسرے اس كی عقل۔ فطرت و عقل دونوں ھی انسان كو اس نظریے كی دعوت دیتے ھیں۔
انسان فطری طور پر كمال كا خواھاں ھے، جس طرح سے فطری طور پر اس میں یہ صلاحیت پائی جاتی ھے كہ وہ جن چیزوں كو نہیں جانتا ان كے بارے میں معلومات حاصل كرے، اسی طرح وہ فطری طور پر اچھائیوں كو پسند كرتا ھے اور نیكی كو پسند كرتا ھے۔
بالكل اسی طرح سے انسان میں كمال حاصل كرنے كا جذبہ بھی پایا جاتا ھے۔ یہ وہ جذبہ ھے جو زندگی كے تمام شعبوں پر حاوی ھے، اسی جذبے كے تحت انسان اس بات كی كوشش كرتا ھے كہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل كرسكے كیونكہ وہ جتنا زیادہ علم حاصل كرے گا اتنا ھی زیادہ اس میں كمال نمایاں ھوگا۔ اسی جذبے كے تحت اس كی یہ خواھش ھوتی ھے كہ لوگوں كے ساتھ زیادہ سے زیادہ نیكی كرے، انسان فطری طور پر نیك طینت اور نیك اشخاص كو پسند كرتا ھے۔
كوئی بھی یہ نہیں كہہ سكتا كہ یہ تقاضے ایك شكست خوردہ ذھنیت كا نتیجہ ھیں، یا ان كی بنیاد اقتصادیات پر ھے، یا ان كا تعلق وراثت اور ترتیب وغیرہ سے ھے ھاں یہ ضرور ھے كہ وراثت اور ترتیب ان تقاضوں میں قوت یا ضعف ضرور پیدا كرسكتی ھیں لیكن ان جذبات كو ختم كردینا ان كے بس میں نہیں ھے كیونكہ ان كا وجود ان كا مرھونِ منّت نہیں ھے۔ ان تقاضوں كے فطری ھونے كی ایك دلیل یہ بھی ھے كہ تاریخ كے ھر دور اور ھر قوم میں یہ تقاضے پائے جاتے ھیں كیونكہ اگر یہ تقاضے فطری نہ ھوتے تو كہیں پائے جاتے اور كہیں نہ پائے جاتے۔ انسانی عادتوں كا معاملہ اس كے برعكس ھے كہ ایك قوم كی عادت دوسری قوم میں نہیں پائی جاتی، یا ایك چیز جو ایك قوم میں عزّت كی دلیل ھے وھی دوسری قوم میں ذلّت كا باعث قرار پاتی ھے۔
كمال، علم و دانش، اچھائی اور نیكی سے انسان كا لگاؤ ایك فطری لگاؤ ھے جو ھمیشہ سے انسانی وجود میں پایا جاتا ھے، دنیا كی تمام اقوام اور تمام ادوار تاریخ میں ان كا وجود ملتا ھے۔ عظیم مصلح كا انتظار انھیں جذبات كی معراجِ ارتقاء ھے۔
یہ كیوں كر ممكن ھے كہ انسان میں یہ جذبات تو پائے جائیں مگر اس كے دل میں انتظار كے لئے كوئی كشش نہ ھو، انسانیت و بشریت كا قافلہ اس وقت تك كمالات كے ساحل سے ھم كنار نہیں ھوسكتا جب تك كسی ایسے مصلح بزرگ كا وجود نہ ھو۔
اب یہ بات بھی واضح ھوجاتی ھے كہ یہ عقیدہ شكست خوردہ ذھنیت كا نتیجہ نہیں ھے بلكہ انسانی ضمیر كی آواز ھے اس كا تعلق انسان كی فطرت سے ھے۔
ھم یہ دیكھتے ھیں كہ انسانی بدن كا ھر حصہ انسان كے جسمی كمالات پر اثر انداز ھوتا ھے ھمیں كوئی ایسا عضو نہیں ملے گا جو اس كی غرض كے پورا كرنے میں شریك نہ ھو، ھر عضو اپنی جگہ انسانی كمالات كے حاصل كرنے میں كوشاں ھے۔ اسی طرح روحی اور معنوی كمالات كے سلسلے میں روحانی خصوصیات اس مقصد كے پورا كرنے میں برابر كے شریك ھیں۔
انسان خطرناك چیزوں سے خوف كھاتا ھے یہ روحانی خصوصیت انسان كے وجود كو ھلاكت سے بچاتی ھے اور انسان كے لئے ایك سپر ھے حوادث كا مقابلہ كرنے كے لئے
غصہ انسان میں دفاعی قوت كو بڑھا دیتا ھے، تمام طاقتیں سمٹ كو ایك مركز پر جمع ھوجاتی ھیں جس كی بناء پر انسان چیزوں كو تباہ ھونے سے بچا تا ھے اور فائدہ كو تباہ ھونے سے محفوظ ركھتا ھے، دشمنوں پر غلبہ حاصل كرتا ھے۔
اسی طرح سے انسان میں روحی اور معنوی طور پر كمال حاصل كرنے كا جذبہ پایا جاتا ھے، انسان فطری طور پر عدل و انصاف، مساوات اور برادری كا خواھاں ھے، یہ وہ جذبات ھیں جو كمالات كی طرف انسان كی رھبری كرتے ھیں۔ انسان میں ایك ایسا ولولہ پیدا كردیتے ھیں، جس كی بناء پر وہ ھمیشہ روحانی و معنوی مدارج ارتقاء كو طے كرنے كی فكر میں رھتا ھے، اس كے دل میں یہ آرزو پیدا ھوجاتی ھے كہ وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا عدل و انصاف مساوات و برادری، صدق و صفا، صلح و مروت سے بھر جائے ظلم و جور كی بساط اس دنیا سے اٹھ جائے اور ستم و استبداد رختِ سفر باندھ لے۔
یہ بات بھی سب كو معلوم ھے كہ انسان كا وجود اس كائنات سے الگ نہیں ھے بلكہ اسی نظام كائنات كا ایك حصہ ھے، یہ ساری كائنات انسان سمیت ایك مكمل مجموعہ ھے جس میں زمین ایك جزو آفتاب و ماھتاب ایك جزء اور انسان ایك جزء ھے۔
چونكہ ساری كائنات میں ایك نظام كار فرما ھے لھٰذا اگر انسانی وجود میں كوئی جذبہ پایا جاتا ھے تو یہ اس بات كی دلیل ھے كہ اس جذبے كا جواب خارجی دنیا میں ضرور پایا جاتا ھے۔
اسی بناء پر جب ھمیں پیاس لگتی ھے تو ھم خود بخود پانی كی تلاش میں نكل پڑتے ھیں اسی جذبے كے تحت ھمیں اس بات كا یقین ھے كہ جہاں جہاں پیاس كا وجود ھے وھاں خارجی دنیا میں پیاس كا وجود ضرور ھوگا۔ اگر پانی كا وجود نہ ھوتا تو ھرگز پیاس نہ لگتی۔ اگر ھم اپنی كوتاھیوں كی بناء پر پانی تلاش نہ كرپائیں تو یہ اس بات كی ھرگز دلیل نہ ھوگی كہ پانی كا وجود نہیں ھے، پانی كا وجود ھے البتہ ھماری سعی و كوشش ناقص ھے۔
اگر انسان میں فطری طور پر علم حاصل كرنے كا جذبہ پایا جاتا ھے تو ضرور خارج میں اس شے كا وجود ھوگا جس كا علم انسان بعد میں حاصل كرے گا۔
اسی بنیاد پر اگر انسان ایك ایسے عظیم مصلح كے انتظار میں زندگی بسر كر رھا ھے جو دنیا كے گوشے گوشے كو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ چپہ چپہ نیكیوں كا مرقع بن جائے گا، تو یہ بات واضح ھے كہ انسانی وجود میں یہ صلاحیت پائی جاتی ھے، یہ انسانی سماج ترقی اور تمدن كی اس منزلِ كمال تك پہونچ سكتا ھے تبھی تو ایسے عالمی مصلح كا انتظار انسان كی جان و روح میں شامل ھے۔
عالمی مصلح كے انتظار كا عقیدہ صرف مسلمانوں كے ایك گروہ سے مخصوص نہیں ھے بلكہ سارے مسلمانوں كا یہی عقیدہ ھے۔ اور صرف مسلمانوں ھی تك یہ عقیدہ منحصر نہیں ھے بلكہ دنیا كے دیگر مذاھب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ھے۔
اس عقیدے كی عمومیت خود اس بات كی دلیل ھے كہ یہ عقیدہ شكست خوردہ ذھنیت كا نتیجہ نہیں ھے اور نہ ھی اقتصادیات كی پیداوار ھے كیونكہ جو چیزیں چند خاص شرائط كے تحت وجود میں آتی ھیں ان میں اتنی عمومیت نہیں پائی جاتی۔ ھاں صرف فطری مسائل ایسی عمومیت كے حامل ھوتے ھیں كہ ھر قوم و ملّت اور ھر جگہ پائے جائیں۔ اسی طرح سے عیقدے كی عمومیت اس بات كی زندہ دلیل ھے كہ اس عقیدے كا تعلق انسان كی فطرت سے ھے۔ انسان فطری طور پر ایك عالمی مصلح كے وجود كا احساس كرتا ھے جب اس كا ظھور ھوگا تو دنیا عدل و انصاف كا مرقع ھوجائے گی۔

عالمی مصلح اور اسلامی روایات
ایك ایسی عالمی حكومت كا انتظار جو ساری دنیا میں امن و امان برقرار كرے، انسان كو عدل و انصاف كا دلدادہ بنائے، یہ كسی شكست خوردہ ذھنیت كی ایجاد نہیں ھے، بلكہ انسان فطری طور پر ایسی عالمی حكومت كا احساس كرتا ھے۔ یہ انتظار ضمیر انسانی كی آواز ھے ایك پاكیزہ فطرت كی آرزو ھے۔
بعض لوگوں كا نظریہ ھے كہ یہ عقیدہ ایك خالص اسلامی عقیدہ نہیں ھے بلكہ دوسرے مذاھب سے اس كو اخذ كیا گیا ھے، یا یوں كہا جائے كہ دوسروں نے اس عقیدے كو اسلامی عقائد میں شامل كردیا ھے۔ ان لوگوں كا قول ھے كہ اس عقیدے كی كوئی اصل و اساس نہیں ھے۔ دیكھنا یہ ھے كہ یہ فكر واقعاً ایك غیر اسلامی فكر ھے جو رفتہ رفتہ اسلامی فكر بن گئی ھے؟ یا در اصل یہ ایك خالص اسلامی فكر ھے۔
اس سوال كا جواب كس سے طلب كیا جائے۔ آیا ان مستشرقین سے اس كا جواب طلب كیا جائے جن كی معلومات اسلامیات كے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ھیں۔ یہیں سے مصیبت كا آغاز ھوتا ھے كہ ھم دوسروں سے اسلام كے بارے میں معلومات حاصل كریں۔ یہ بالكل ایسا ھی ھے جیسے كوئی شخص اس آدمی سے پانی طلب نہ كرے جو دریا كے كنارے ھے بلكہ ایك ایسے شخص سے پانی طلب كرے جو دریا سے كوسوں دُور ھے۔
یہ بات بھی درست نہیں ھے كہ مستشرقین كی باتوں كو بالكل كفر و الحاد تصور كیا جائے اور ان كی كوئی بات مانی ھی نہ جائے، بلكہ مقصد صرف یہ ھے كہ "اسلام شناسی" كے بارے میں ان كے افكار كو معیار اور حرفِ آخر تصور نہ كیا جائے۔ اگر ھم تكنیكی مسائل میں علمائے غرب كا سہارا لیتے ھیں تو اس كا مطلب یہ تو نہیں كہ ھم اسلامی مسائل كے بارے میں بھی ان كے سامنے دستِ سوال دراز كریں۔
ھم علمائے غرب كے افكار كو اسلامیات كے بارے میں معیار اس لیے قرار نہیں دے سكتے كہ ایك تو ان كی معلومات اسلامی مسائل كے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ھے، جس كی بنا پر ایك صحیح نظریہ قائم كرنے سے قاصر ھیں۔ دوسری وجہ یہ ھے كہ یہ لوگ تمام اسلامی اصول كو مادی اصولوں كی بنیاد پر پركھنا چاھتے ھیں، ھر چیز میں مادی فائدہ تلاش كرتے ھیں۔ بدیہی بات ھے كہ اگر تمام اسلامی مسائل كو مادیت كی عینك لگا كر دیكھا جائے تو ایسی صورت میں اسلامی مسائل كی حقیقت كیا سمجھ میں آئے گی۔
اسلامی روایات كا مطالعہ كرنے كے بعد یہ بات واضح ھوجاتی ھے كہ "انتظار" كا شمار ان مسائل میں ھے جن كی تعلیم خود پیغمبر اسلام (ص) نے فرمائی ھے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام كی انقلابی مہم كے سلسلے میں روایات اتنی كثرت سے وارد ھوئی ھیں كہ كوئی بھی انصاف پسند صاحبِ تحقیق ان كے "تواتر" سے انكار نہیں كرسكتا ھے۔ شیعہ اور سُنّی دونوں فرقوں كے علماء نے اس سلسلے میں متعدد كتابیں لكھی ھیں اور سب ھی نے ان روایات كے "متواتر" ھونے كا اقرار كیا ھے۔ ھاں صرف "ابن خلدون" اور "احمد امین مصری" نے ان روایات كے سلسلے میں شك و شبہ كا اظھار كیا ھے۔ ان كی تشویش كا سبب روایات نہیں ھیں بلكہ ان كا خیال ھے كہ یہ ایسا مسئلہ ھے جسے اتنی آسانی سے قبول نہیں كیا جاسكتا ھے۔
اس سلسلہ میں اس سوال و جواب كا ذكر مناسب ھوگا جو آج سے چند سال قبل ایك افریقی مسلمان نے مكہ معظمہ میں جو عالمی ادارہ ھے، اس سے كیا تھا۔ یہ بات یاد رھے كہ یہ ارادہ وھابیوں كا ھے اور انھیں كے افكار و نظریات كی ترجمانی كرتا ھے۔ سب كو یہ بات معلوم ھے كہ وھابی اسلام كے بارے میں كس قدر سخت ھیں، اگر یہ لوگ كسی بات كو تسلیم كرلیں تو اس سے اندازہ ھوگا كہ یہ مسئلہ كس قدر اھمیت كا حامل ھے اس میں شبہ كی كوئی گنجائش نہیں ھے۔ اس جواب سے یہ بات بالكل واضح ھوجاتی ھے كہ حضرت امام مہدی (ع) كا انتظار ایك ایسا مسئلہ ھے جس پر دنیا كے تمام لوگ متفق ھیں، اور كسی كو بھی اس سے انكار نہیں ھے۔ وھابیوں كا اس مسئلہ كو قبول كرلینا اس بات كی زندہ دلیل ھے كہ اس سلسلہ میں جو روایات وارد ھوئی ھیں ان میں كسی قسم كے شك و شبہ كی گنجائش نہیں ھے۔ ذیل میں سوال اور جواب پیش كیا جاتا ھے۔

حضرت امام مہدی (ع) كے ظھور پر زندہ دلیلیں
چند سال قبل كینیا (افریقہ) كے ایك باشندے بنام "ابو محمد" نے "ادارہ رابطہ عالم اسلامی" سے حضرت مہدی (ع) كے ظھور كے بارے میں سوال كیا تھا۔
اس ادارے كے جنرل سكریٹری "جناب محمد صالح اتغزاز" نے جو جواب ارسال كیا، اس میں اس بات كی با قاعدہ تصریح كی ھے كہ وھابی فرقے كے بانی "ابن تیمیہ" نے بھی ان روایات كو قبول كیا ھے جو حضرت امام مھدی علیہ السلام كے بارے میں وارد ھوئی ھیں۔ اس جواب كے ذیل میں سكریٹری موصوف نے وہ كتابچہ بھی ارسال كیا ھے جسے پانچ جید علمائے كرام نے مل كر تحریر كیا ھے۔ اس كتابچے كے اقتباسات قارئین محترم كی خدمت میں پیش كئے جاتے ھیں: ۔۔۔۔
عظیم مصلح كا اسم مبارك مھدی (ع) ھے۔ آپ كے والد كا نام "عبد اللہ" ھے اور آپ مكّہ سے ظھور فرمائیں گے۔ ظھور كے وقت ساری دنیا ظلم و جور و فساد سے بھری ھوگی۔ ھر طرف ضلالت و گمراھی كی آندھیاں چل رھی ھوں گی۔ حضرت مہدی (ع) كے ذریعہ خداوندعالم دنیا كو عدل و انصاف سے بھر دے گا، ظلم و جور و ستم كانشان تك بھی نہ ھوگا۔"
رسول گرامی اسلام (ص) كے بارہ جانشینوں میں سے وہ آخری جانشین ھوں گے، اس كی خبر خود پیغمبر اسلام (ص) دے گئے ھیں، حدیث كی معتبر كتابوں میں اس قسم كی روایات كا ذكر باقاعدہ موجود ھے۔"
حضرت مہدی (ع) كے بارے میں جو روایات وارد ھوئی ھیں خود صحابۂ كرام نے ان كو نقل فرمایا ھے ان میں سے بعض كے نام یہ ھیں:۔
(1) علی ابن ابی طالب (ع)، (2) عثمان بن عفان، (3) طلحہ بن عبیدہ، (4) عبد الرحمٰن بن عوف، (5) عبد اللہ بن عباس، (6) عمار یاسر، (7) عبد اللہ بن مسعود، (8) ابوسعید خدری، (9) ثوبان، (10) قرہ ابن اساس مزنی، (11) عبد اللہ ابن حارث، (12) ابوھریرہ، (13) حذیفہ بن یمان، (14) جابر ابن عبد اللہ (15) ابو امامہ، (16) جابر ابن ماجد، (17) عبد اللہ بن عمر (18) انس بن مالك، (19) عمران بن حصین، (20) ام سلمہ۔
پیغمبر اسلام (ص) كی روایات كے علاوہ خود صحابہ كرام كے فرمودات میں ایسی باتیں ملتی ھیں جن میں حضرت مہدی (ع) كے ظھور كو باقاعدہ ذكر كیا گیا ھے۔ یہ ایسا مسئلہ ھے جس میں اجتہاد وغیرہ كا گذر نہیں ھے جس كی بناء پر بڑے اعتماد سے یہ بات كہی جاسكتی ھے كہ یہ تمام باتیں خود پیغمبر اسلام (ص) كی روایات سے اخذ كی گئی ھیں۔ ان تمام باتوں كو علمائے حدیث نے اپنی معتبر كتابوں میں ذكر كیا ھے جیسے:۔
سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، ابن ماجہ، سنن ابن عمر والدانی، مسند احمد، مسند ابن یعلی، مسند بزاز، صحیح حاكم، معاجم طبرانی (كبیر و متوسط)، معجم رویانی، معجم دار قطنی، ابو نعیم كی "اخبار المھدی"۔ تاریخ بغداد، تاریخ ابن عساكر، اور دوسری معتبر كتابیں۔
علمائے اسلام نے حضرت مھدی (ع) كے موضوع پر مستقل كتابیں تحریر كی ھیں جن میں سے بعض كے نام یہ ھیں:

اخبار المھدی؛ تالیف: ابو نعیم
القول المختصر فی علامات المھدی المنتظر؛ تالیف: ابن ھجر ھیثمی
التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر والد جال والمسیح؛ تالیف: شوكانی
المھدی؛ تالیف: ادریس عراقی مغربی
الوھم المكنون فی الرد علی ابن خلدون؛ تالیف: ابو العباس بن عبد المومن المغربی
مدینہ یونی یورسٹی كے وائس چانسلر نے یونی ورسٹی كے ماھنامہ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث كی ھے، ھر دور كے علماء نے اس بات كی باقاعدہ تصریح كی ھے كہ وہ حدیثیں جو حضرت مھدی (ع) كے بارے میں وارد ھوئی ھیں وہ متواتر ھیں جنھیں كسی بھی صورت سے جھٹلایا نہیں جاسكتا۔ جن علماء نے حدیثوں كے متواتر ھونے كا دعویٰ كیا ھے ان كے نام اور كتابوں كے نام حسب ذیل ھیں، جن میں تواتر كا ذكر كیا گیا ھے:۔
1۔ السخاوی اپنی كتاب فتح المغیث میں
2۔ محمد بن السنادینی اپنی كتاب شرح العقیدہ میں
3۔ ابو الحسن الابری اپنی كتاب مناقب الشافعی میں
4۔ ابن تیمیہ اپنے فتوؤں میں
5۔ سیوطی اپنی كتاب الحاوی میں
6۔ ادریس عراقی مغربی اپنی كتاب المھدی میں
7۔ شوكانی اپنی كتاب التوضیح فی تواتر ماجاء میں
8۔ شوكانی اپنی كتاب فی المنتظر والدجال والمسیح میں
9۔ محمد جعفر كنانی اپنی كتاب نظم المتناثر میں
10۔ ابو العباس عبد المومن المغربی اپنی كتاب الوھم المكنون میں
ھاں ابن خلدون نے ضرور اس بات كی كوشش كی ھے كہ ان متواتر اور ناقابل انكار حدیثوں كو ایك جعلی اور بے بنیاد حدیث لا مھدی الا عیسیٰ (حضرت عیسیٰ كے علاوہ اور كوئی مھدی نہیں ھے) كے ھم پلّہ قرار دے كر ان حدیثوں سے انكار كیا جائے۔ لیكن علمائے اسلام نے اس مسئلہ میں ابن خلدون كے نظریے كی باقاعدہ تردید كی ھے خصوصاً ابن عبد المومن نے تو اس موضوع پر ایك مستقل كتاب الوھم المكنون تحریر كی ھے۔ یہ كتاب تقریباً 30 برس قبل مشرق اور مغرب میں شائع ھوچكی ھے۔
حافظان حدیث اور دیگر علمائے كرام نے بھی ان حدیثوں كے متواتر ھونے كی صراحت فرمائی ھے۔
ان تمام باتوں كی بنا پر ھر مسلمان پر واجب ھے كہ وہ حضرت مھدی كے ظھور پر ایمان و عقیدہ ركھے۔ اھل سنت والجماعت كا بھی یہی عقیدہ ھے اور ان كے عقائد میں سے ایك ھے۔
ھاں وہ اشخاص تو ضرور اس عقیدے سے انكار كرسكتے ھیں جو روایات سے بے خبر ھیں، یادین میں بدعت كو رواج دینا چاھتے ھیں، (ورنہ ایك ذی علم اور دیندار كبھی بھی اس عقیدے سے انكار نہیں كرسكتا۔)"
سكریٹری انجمن فقۂ اسلامی
محمد منتصر كنانی
اس جواب كی روشنی میں یہ بات كس قدر واضح ھوجاتی ھے كہ حضرت مھدی (ع) كے ظھور كا عقیدہ صرف ایك خالص اسلامی عقیدہ ھے كسی بھی دوسرے مذھب سے یہ عقیدہ اخذ نہیں كیا گیا ھے۔
ایك بات ضرور قابل ذكر ھے وہ یہ كہ اس جواب میں حضرت امام مھدی (ع) كے والد بزرگوار كا اسمِ مبارك عبد اللہ ذكر كیا گیا ھے۔ جب كہ اھل بیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ھوئی ھیں۔ ان میں بطور یقین حضرت كے والد بزرگوار كا اسم مبارك حضرت امام حسن عسكری علیہ السلام ھے
اس شبہ كی وجہ وہ روایت ھے جس كے الفاظ یہ ھیں "اسم ابیہ اسم ابی" (ان كے والد كا نام میرے والد كا نام ھے) جبكہ بعض دوسری روایات میں ابی (میرے والد) كے بجائے ابنی (میرا فرزند) ھے، صرف نون كا نقطہ حذف ھوجانے یا كاتب كی غلطی سے یہ اختلاف پیدا ھوگیا ھے۔ اسی بات كو "گنجی شافعی" نے اپنی كتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں ذكر كیا ھے، اس كے علاوہ
1۔ یہ جملہ اھل سنت كی اكثر روایات میں موجود نہیں ھے
2۔ ابن ابی لیلیٰ كی روایت كے الفاظ یہ ھیں: اسمہ اسمی اسم ابیہ اسم ابنی۔ (اس كا نام میرا نام ھے، اس كے والد كا نام میرے فرزند كا نام ھے) فرزند سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام ھیں۔
3۔ اھل سنت كی بعض روایات میں اس بات كی تصریح كی گئی ھے كہ امام زمانہ كے والد بزرگوار كا نام حسن ھے۔
4۔ اھلبیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ھوئی ھیں جو تواتر كی حد كو پہونچتی ھیں ان میں صراحت كے ساتھ یہ بات ذكر كی گئی ھے كہ حضرت امام مھدی علیہ السلام كے والد بزرگوار كا اسم مبارك حسن ھے۔

انتظار كے اثرات
گذشتہ بیانات سے یہ بات روشن ھوگئی كہ عظیم مصلح كا انتظار ایك فطری تقاضہ ھے اور انسان دیرینہ آرزو كی تكمیل ھے۔ یہ عقیدہ ایك خالص اسلامی عقیدہ ھے یہ عقیدہ صرف فرقہ شیعہ سے مخصوص نہیں ھے بلكہ اسلام كے تمام فرقے اس میں برابر كے شریك ھیں۔ اس سلسلے میں جو روایات وارد ھوئی ھیں وہ "تواتر" كی حد تك پہونچی ھوئی ھیں۔ 1
ھاں وہ حضرات جن كی معلومات كا دائرہ محدود ھے اور ھر بات كو مادیت اور اقتصادیات كی عینك لگاكر دیكھنا چاھتے ھیں، یہ حضرات ضرور یہ بات كہہ سكتے ھیں كہ یہ ایك اسلامی عقیدہ نہیں ھے، یا یہ طرز فكر ایك شكست خوردہ ذھنیت كا نتیجہ ھے۔
ایك بات باقی رہ جاتی ھے۔ وہ یہ كہ اگر قبول بھی كرلیا جائے كہ یہ عقیدہ ایك خالص اسلامی عقیدہ ھے اور خالص اسلام كے انداز فكر كا نتیجہ ھے مگر اس عقیدے كا فائدہ كیا ھے، عظیم مصلح كے انتظار میں زندگی بسر كرنے سے انسان كی زندگی پر كیا اثرات رونما ھوتے ھیں۔۔؟ انسان كے طرز فكر میں كون سی تبدیلی واقع ھوتی ھے۔؟
یہ عقیدہ انسان كو ایك ذمہ دار شخص بناتا ھے یا لا اُبالی؟
یہ عقیدہ انسان میں ایك جوش پیدا كرتا ھے یا اس كے احساسات پر مایوسی كی اوس ڈال دیتا ھے۔؟
انسانی زندگی كو ایك نیا ساز عطا كرتا ھے یا اس كی زندگی كو بے كیف بنا دیتا ھے۔؟
یہ عقیدہ انسان كو ایك ایسی قوت عطا كرتا ھے جس سے وہ مشكلات كا ڈٹ كر مقابلہ كر سكے یا انسان كو ضعیف و كمزور بنا دیتا ھے۔؟
یہ بات بھی توجہ كے قابل ھے كہ ذوق اور سلیقے كے مختلف ھونے كی بنا پر ھوسكتا ھے كہ ایك ھی چیز سے دو مختلف نتیجے اخذ كئے جائیں۔ ایك آدمی ایسے نتائج برآمد كرلے جو واقعاً مفید اور كار آمد ھوں اور دوسرا آدمی اسی چیز سے ایسے نتائج اخذ كرے جو بے كار اور مضر ھوں۔ ایٹمی توانائی كو انسان ان چیزوں میں بھی استعمال كرسكتا ھے جو حیات انسانی كے لئے مفید اور ضروری ھیں اور اسی ایٹمی توانائی كو انسانیت كی ھلاكت كے لئے بھی استعمال كرسكتا ھے بلكہ كررھا ھے۔
ھی حال ان رواتیوں كا ھے جو انتظار كے سلسلے میں وارد ھوئی ھیں جن میں سے بعض بے خبر یا خود غرض لوگوں نے ایسے نتائج اخذ كئے ھیں جس كی بنا پر اعتراضات كی ایك دیوار قائم ھوگئی۔
انتظار كے اثرات بیان كرنے سے پہلے قارئین كی خدمت میں چند روایتیں پیش كرتے ھیں جن سے انتظار كی اھمیت كا اندازہ ھوجائے گا۔ بعد میں انھیں روایات كو اساس و بنیاد قرار دیتے ھوئے فلسفۂ انتظار كے بارے میں كچھ عرض كریں گے۔ ان روایات كا ذرا غور سے مطالعہ كیجئے تاكہ آئندہ مطالب آسان ھوجائیں۔
1) ایك شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال كیا۔ وہ شخص جو ائمہ كی ولایت كا قائل ھے اور حكومت حق كا انتظار كر رھا ھے ایسے شخص كا مرتبہ اور مقام كیا ھے۔؟
امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ھے: "ھو بمنزلۃ من كان مع القائم فی فسطاطہ۔" ( وہ اس شخص كے مانند ھے جو امام كے ساتھ اس ان كے خیمے میں ھو)۔
امام نے تھوڑی دیر سكوت كے بعد پھرمایا:۔ "ھو كمن كان مع رسول اللہ"۔ وہ اس شخص كے مانند ھے جو رسول اللہ كے ھمراہ (جنگ میں) شریك رھا ھو۔ 2
اسی مضمون كی متعدد روایتیں ائمہ علیہم السلام سے نقل ھوئی ھیں۔
2) بعض روایات میں ھے: "بمنزلۃ الضارب بسیفہ فی سبیل اللہ۔" اس شخص كے ھم رتبہ ھے جو راہ خدا میں شمشیر چلا رھا ھو۔ 3
3) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ھے: :كمن قارع معہ بسیفہ۔" 4 اس شخص كے مانند ھے جو رسول خدا (ص) كے ھمراہ دشمن كے سرپر تلوار لگا رھا ھو۔
4) بعض میں یہ جملہ ملتا ھے: "بمنزلۃ من كان قاعداً تحت لوائہ۔" اس شخص كے مانند ھے جو حضرت مھدی علیہ السلام كے پرچم تلے ھو۔ 5
6) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ھے:۔ "بمنزلۃ مجاھدین بین یدی رسول اللہ۔" اس شخص كے مانند ھے جو پیغمبر اسلام (ص) كے سامنے راہ خدا میں جہاد كر رھا ھو۔ 6
7) بعض دوسری روایتوں میں ھے:۔ "بمنزلۃ من استشھد مع رسول اللہ" اس شخص كے مانند ھے جو خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے ھمراہ درجۂ شھادت پر فائز ھوا ھو۔ 7
ان روایتوں میں جو سات قسم كی تشبیہات كی گئی ھیں ان میں غور وفكر كرنے سے انتظار كی اھمیت كا باقاعدہ انداز ھوجاتا ھے اور یہ بات بھی واضح ھوجاتی ھے كہ انتظار اور جہاد میں كس قدر ربط ھے۔ انتظار اور شھادت میں كتنا گہرا تعلق ھے۔
بعض دوسری روایتوں میں ملتا ھے كہ "انتظار كرنا بہت بڑی عبادت ھے۔" اس مضمون كی روایتیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل ھوئی ھیں۔ جیسا كہ پیغمبر اسلام (ص) كی ایك حدیث كے الفاظ ھیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "افضل اعمال امتی انتظار الفرج من اللہ عزوجل"۔ 8
ایك دوسری روایت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ھے: "افضل العبادة انتظار الفرج۔" 9
یہ تمام روایتیں اس بات كی گواہ ھیں كہ انتظار اور جھاد میں كتنا گہرا لگاؤ ھے۔ اس لگاؤ اور تعلق كا فلسفہ كیا ھے، ا سكے لئے ذرا صبر سے كام لیں۔

--------------------------------------------------------------------------------

1. تفصیلی بحث كے لئے ملاحظہ ھو "منتخب الاثر" تحریر آیت الله لطف اللہ صافی۔ ص231۔ 236
2. بحار الانوار ج 52 ص125 طبع جدید
3. بحار الانوار ج 52 ص 126
4. بحار الانوار جلد 52 ص 126
5. بحار الانوار ج 52 ص 142 طبع جدید
6. بحار الانوار ج 52 ص 122
7. بحار الانوار ج 52 ص 142
8. بحار الانوار ج52 ص128
9. بحار الانوار ج52 ص125