فلسفۂ انتظار
مؤلف : مكارم شیرازی، ناصر (آیۃ اللہ) مترجم / مصحح : احمد علی عابدی ناشر : نور اسلام نشر کی جگہ : فیض آباد هندوستان نشر کا سال : 1983 جلدوں کی تعداد : 1 صفحات : 104 سائز : رقعی زبان : اردو پیش لفظ
خداوند عالم نے جب انسان كو پیدا كیا تو اس كی مرضی یہ تھی كہ انسان ھدایت كی شاھراہ پر گامزن اور ضلالت و گمراھی كے راستوں سے دور رھے۔ اسی بنا پر خداوند عالم نے اس روئے زمین پر سب سے پہلے جس انسان كو بھیجا اس كو "رھبر" بنا كر بھیجا۔ تاكہ بعد میں آنے والے رھبر كی تلاش میں سرگرداں نہ رھیں۔
رھبر كے ساتھ ساتھ خداوند عالم نے ایك ایسا جامع نظام حیات بھی بھیجا جس كے تمام قانون فطرت كی بنیاد پر بنائے گئے ھیں، تاكہ قوانین پر عمل كرنے میں كوئی دشواری پیش نہ آئے۔ یہ قوانین فطرت كے سانچے میں اس لئے ڈھالے گئے كہ ان پر عمل كرنے كے لئے بس ضمیر كی آواز كافی ھو اور رھبروں كی ذمہ داری توجہ دلانا ھو ۔۔ اس حقیقت كی طرف مولائے كائنات (ع) نے نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا ھے: ۔۔ انبیاء اس لئے مبعوث كیے گئے تاكہ وجود انسانی میں عقل كے پوشیدہ خزانوں كو سامنے لاسكیں"۔ جس وقت سے زمین آباد ھوئی ھے اس وقت سے آج تك كبھی ایسا نہیں ھوا كہ پوری زمین پر اللہ كی حكمرانی ھو، اور بس اسی كا قانون چل رھا ھو۔ ھاں جناب سلیمان علیہ السلام كے زمانے میں ضرور كچھ دن دنیا پر اللہ كے قوانین كی حكومت تھی۔ كچھ دن اس مدّت كے مقابلہ میں لكھا گیا جب الٰہی احكام كا نفاذ نہیں تھا۔ ایك طرف ھم یہ دیكھ رھے ھیں كہ شیطان كی مسلسل كوشش یہ ھے كہ الٰہی احكام نافذ نہ ھونے پائیں۔ ھدایت كی شاھراہ كے بجائے انسان ضلالت كی وادیوں میں ھاتھ پیر مارتا رھے اور اسی حالت میں جان دے دے۔ ھم یہ دیكھتے ھیں كہ گمراہ كرنے كا جو منصوبہ شیطان نے بنایا تھا وہ اس میں كافی حد تك كامیاب رھا اور آج تك الٰہی احكام ساری دنیا پر نافذ نہ ھوسكے۔ ایك مدت كے بعد خدا كے مخلص بندوں نے ایران سے شیطانی حكومت كو اكھاڑ پھینكا اور الٰہی احكام نافذ كئے۔ مگر شیطان نے اس حكومت كے خلاف اتنا زیادہ پروپیگنڈہ كیا كہ نزدیك كے ممالك بھی حقیقت حال سے آگاہ نہ ھوسكے اور اندیشہائے دور و دراز میں مبتلا نظر آتے ھیں۔ ہاں ایك سوال یہ ھوسكتا ھے كہ كیا تك یہی صورت حال رھے گی۔ ساری دنیا پر اللہ كے احكام نافذ نہ ھوپائیں گے، اور شیطان كی عمل داری قائم رھے گی؟۔ اگر اس سوال كا جواب مثبت ھے تو اس كا مطلب یہ نكلے گا كہ الٰہی احكام میں اس كی لیاقت ھی نہیں كہ ساری دنیا پر ان كا نفاذ ھوسكے۔ وہ لوگ جو عقیدۂ مہدویت كے قائل نہیں ھیں ان كے پاس گذشتہ سوال كا جواب ھی نہیں۔ البتہ وہ افراد جو عقیدۂ مہدویت كو دل سے لگائے ھوئے ھیں، یقین كامل سے یہ بات كہتے ھیں كہ شیطان كی ساری ریشہ دوانیاں پس چند روزہ ھیں، باطل كی چمك دمك وقتی ھے۔ ایك دن یقیناً ایسا آئے گا جب اللہ كی آخری حجت كا ظھور ھوگا۔ روئے زمین پر صرف اللہ كے احكام نافذ ھوں گے۔ فطرت سے منحرف انسان اپنی فطرت كی طرف واپس آجائے گا، انسان كا ضمیر اتنا زیادہ بیدار ھوجائے گا كہ وہ انسان كو انحراف سے باز ركھے گا۔ حضرت ولی عصر (عج) كے سلسلے میں اس مختصر كتاب میں جامع معلومات فراھم كی گئی ھیں۔ اس كے پہلے ایڈیشن میں صرف "انتظار" كا فلسفہ بیان كیا گیا تھا۔ لیكن اس جدید ایڈیشن میں كئی نئے مباحث كا اضافہ كیا گیا ھے۔ انتظار" بھی استاد بزرگوار آیۃ اللہ مكارم شیرازی مدظلہ كے قلم كی تخلیق تھا اور جن نئے مباحث كا اضافہ كیا گیا ھے وہ بھی استاد بزرگوار كی گراں مایہ تصنیف "مھدی انقلابی بزرگ" سے اقتباس كیے گئے ھیں۔ نام: محمد كنیت: ابو القاسم القاب: مھدی، صاحب الزمان، قائم، منتظر، ولی عصر، بقیۃ اللہ… والد بزرگوار: حضرت امام حسن عسكری علیہ السلام والدۂ ماجدہ: جناب نرجس خاتون تاریخ ولادت: 15/ شعبان، 255 ھجری جائے ولادت: سامراء (عراق) غیبت صغریٰ: 260 ھجری غیبت صغریٰ میں امام علیہ السلام كے نائبین: (1) ابو عمر عثمان بن سعید العمری (ربیع الاول 260 - شعبان 265) (2) ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید العمری _شعبان 265 - جمادی الاولیٰ 305) (3) ابو القاسم حسین بن روح النوبختی (جمادی الاولیٰ 305 - شعبان 326) (4) ابوالحسن علی بن محمد السمری (شعبان 326 - شعبان 329) 329 ھجری كے بعد غیبت صغریٰ تمام ھوگئی۔ غیبت صغریٰ میں امام علیہ السلام عام نگاھوں سے پوشیدہ تھے۔ مگر ان نائبین كے ذریعہ امام تك رسائی ممكن تھی۔ یہ نائبین لوگوں كے مسائل امام كی خدمت میں پیش كرتے تھے اور امام جواب مرحمت فرمادیتے تھے۔ ایك نائب كے انتقال كے بعد دوسرے نائب كا تعین فرمادیتے تھے۔ لیكن ابوالحسن السمری كے انتقال سے چند دن پہلے آپ نے توقیع میں تحریر فرمایا كہ: اسی ھفتہ تمھارا انتقال ھوجائے گا، تم كسی كو نائب معین نہ كرنا۔۔۔۔۔ غیبتِ كبریٰ شروع ھونے والی ھے، خدا كے حكم سے ظھور ھوگا۔ اس دوران جو میری ملاقات كا دعویٰ كرے وہ جھوٹا ھے۔" غیبت صغریٰ كے بعد نیابت خاصہ كا دور ختم ھوگیا۔ غیبت كبریٰ میں نیابت عامہ كا آغاز ھوا۔ غیبت كبریٰ میں امام نے دین كے تحفظ كی ذمہ داری كسی خاص فرد پر نہیں بلكہ عادل فقہاء پر عائد فرمائی ھے۔ ایك توقیع میں امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جدید مسائل كے بارے میں ھماری احادیث كے راوی (فقہاء) كی طرف رجوع كرو، كیونكہ یہ میری طرف سے تم لوگوں پر حجت ھیں اور میں خدا كی طرف سے ان پر حجت ھوں، ان كی بات كو رد كرنا میری بات كا رد كرنا ھے۔" گذشتہ انبیاء علیہم السلام كی شریعتیں اس لئے تحریف كا شكار ھوگئیں كہ اس وقت ایسے امین فقہاء نہ تھے ۔۔۔ لائق صد آفریں ھیں وہ فقہاء جنھوں نے دین كو تحریف سے محفوظ ركھا اور ھم تك دین پہونچایا ۔۔ اور اس اسلام دشمن دور میں اسلام كا پرچم بلند كیے ھوئے ھیں۔ سلام ھو ان فقہاء پر۔ جس دن ان كی ولادت ھوئی، جس دن ان كی وفات ھوئی اور جس دن وہ محشور كیے جائیں گے۔ آئیے حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ كے اقوال پر ایك نظر ڈالیں، اور ان پر عمل كرنے كی كوشش كریں۔ میرا وجود غیبت میں بھی لوگوں كے لیے ایسا ھی مفید ھے جیسے آفتاب بادلوں كی اوٹ سے۔ میں زمین كو عدل و انصاف سے اس طرح بھردوں گا جس طرح وہ ظلم و جود سے بھر گئی ھے۔ ظھور میں تعجیل كے لئے دعا مانگو كیونكہ اسی میں تمھاری بھلائی ھے۔ جو لوگ ھمارے اموال كو مشتبہ اور مخلوط كیے ھوئے ھیں، جو كوئی بھی اس میں سے ذرہ برابر بلا استحقاق كھائے گا گویا اس نے اپنا شكم آگ سے پر كیا۔ میں اھل زمین كے لئے اس طرح باعثِ امان ھوں جس طرح ستارے اھل آسمان كے لئے۔ ھمارا علم تمھارے سارے حالات پر محیط ھے اور تمھاری كوئی چیز ھم سے پوشیدہ نہیں ھے۔ ھم تمھاری خبر گیری سے غافل نہیں ھیں اور نہ تمھاری یاد اپنےدل سے نكال سكتے ھیں۔ ھر وہ كام كرو جو تمھیں ھم سے نزدیك كردے اور ھر اس عمل سے پرھیز كرو جو ھمارے لئے بار خاطر اور ناراضگی كا سبب ھو۔ تم میں كوئی تقویٰ اختیار كرے گا اور مستحق تك اس كا حق پہونچائے گا وہ آنے والی آفتوں سے محفوظ رھے گا۔ اگر ھمارے چاھنے والے اپنے عہد و پیمان كی وفا كرتے تو ھماری ملاقات میں تاخیر نہ ھوتی۔ اور ھماری زیارت انھیں جلد نصیب ھوتی۔ ھمیں تم سے كوئی چیز دور نہیں كرتی مگر وہ جو ھمیں ناگوار اور ناپسند ھیں۔ نماز شیطان كو رسوا كردیتی ھے، نماز پڑھو اور شیطان كو رُسوا كرو۔ تعجب ھے ان لوگوں كی نماز كیسے قبول ھوتی ھے جو سورہ انّا انرلناہ كی تلاوت نہیں كرتے۔ ملعون ھے ملعون وہ شخص جو نماز مغرب میں اتنی تاخیر كرے كہ تارے خوب كھل جائیں۔ اور ملعون ھے، ملعون ھے وہ شخص جو نماز صبح میں اتنی تاخیر كرے جب كہ تمام ستارے غائب ھوجائیں۔ بطورِ ابتداء
آج دانش ور حضرات یہ كہتے ھوئے نظر آرھے ھیں كہ اگر دنیا كی یہی حالت رھی اور اسی رفتار سے مہلك ہتھیاروں میں اضافہ ھوتا رھا تو دنیا بہت جلد نیست و نابود ھوجائے گی۔ دنیا میں كبھی امن قائم نہیں ھوسكتا۔
اگر دنیا میں امن قائم ھوسكتا ھے تو اس كی بس ایك صورت ھے اور وہ یہ كہ دنیا سے ممالك كی تقسیم اور جغرافیائی حد بندیاں ختم ھوجائیں، پوری دنیا پر صرف ایك حكومت ھو اور بس یہی ایك صورت ھے جس كی بنا پر امن قائم ھوسكتا ھے۔ آج نہیں تو كچھ دنوں بعد ضرور یہ حقیقت بالكل واضح ھوجائے گی۔ ایك سوال ذھن میں كروٹیں لیتا ھے كہ اس عظیم حكومت كی رھبری كس كے سپرد ھو، زمام حكومت كس كے ھاتھوں میں ھو۔؟ زمامِ حكومت بس اسی كے ھاتھوں میں ھونا چاھیئے جس نے اپنے اوپر پورا اختیار ھو، جو جذبات پر باقاعدہ مسلط ھو۔ جذبات میں بہہ جانے والا، خواھشات كے سمندر میں غرق ھوجانے والا كبھی صحیح رھبری نہیں كرسكے گا۔ خواھشات كا پابند ھونے كا مطلب یہی ھے كہ عدل و انصاف كا دامن اس كے ھاتھوں سے چھوٹ جائے، تو اس میں امن كہاں قائم ھوسكتا ھے۔ اگر دنیا كے عام انسان اس عظیم رھبری كی صلاحیت ركھتے ھوتے تو دنیا كب كی گہوارۂ امن بن چكی ھوتی۔ ضرورت ھے ایك ایسے رھبر كی جسے ھم اصطلاحاً معصوم كہتے ھیں۔ اس بات پر دنیا كے تمام مسلمان متفق ھیں كہ قبل ایك ایسے انسان كا ظھور ھوگا جو معصوم ھوگا، ساری دنیا پر اس كی حكومت ھوگی، جس كے نتیجہ یہ میدانِ جنگ گہوارۂ امن میں تبدیل ھوجائے گا۔ اختلاف صرف اس بات كا ھے كہ وہ عظیم انسان پیدا ھوچكا ھے، یا پیدا ھوگا۔۔؟ شیعوں كا عقیدہ یہ ھے كہ وہ عظیم انسان 256 ھجری میں اس دنیا میں آچكا ھے، اور اس وقت وہ پردۂ غیبت میں ھے، جس كا ھم لوگ انتظار كر رھے ھیں۔ كیا ایك انسان اتنے دنوں تك زندہ رہ سكتا ھے۔؟ اگر وہ زندہ ھے تو ھمیں دكھائی كیوں نہیں دیتا۔؟ ارادہ تو یہی تھا كہ اس مقدمہ میں اس قسم كے سوالات كا معقول اور اطمینان بخش جواب قرآن و حدیث كی روشنی میں دیا جائے مگر اس صورت میں كتاب كافی طویل ھوجاتی۔ جس كی بنا پر صرف نظر كرنا پڑا۔ اگر توفیق خداوندی شاملِ حال رھی تو انشاء اللہ عنقریب ان موضوعات كو پیش كیا جائے گا۔ ایك سوال اور ھوتا ھے، اور وہ یہ كہ: اگر ایك امامِ غائب كا عقیدہ ایك خالص اسلامی عقیدہ ھے اور امام كا انتظار كرنا ایك عظیم عبادت ھے تو اس انتظار كا فائدہ كیا ھے۔ اور اس عقیدے كے اثرات انسانی زندگی پر كیا ھیں۔؟ اس سوال كا مفصل جواب قرآن و حدیث كی روشنی میں اس كتابچے میں ملے گا۔ اس كتابچے كو استاد محترم دانشمند عالی قدر حضرت علامہ الحاج آقایٔ ناصر مكارم شیرازی دام ظلہ العالی نے تحریر فرمایا ھے۔ آپ كا شمار "حوزہ علمیہ قم" (ایران) كے صفِ اوّل كے اساتذہ كرام میں ھوتا ھے،آپ كے جلسہ درس میں سیكڑوں با فضل طلاب علوم شركت كرتے ھیں، اور آپ كے سر چشمۂ علم و كمال سے اپنے لئے بقدر طرف ذخیرہ كرتے ھیں۔ جہاں آپ "حوزہ علمیہ قم" كے طلاب علم كو معارف اسلامی سے آشنا كرتے ھیں، وھاں آپ ایران كے گوشہ و كنار میں لوگوں كو اسلامی تعلیمات سے آشنا كرانے كے لئے كثیر تعداد میں مبلغین ارسال فرمایا كرتے ھیں اور ان كے تمام مصارف خود برداشت كرتے ھیں۔ حضرت استاد محترم نے سب سے پہلے ایك ایسے درسِ عقائد كی بنیاد ركھی جس كی روشنی میں آج كی ترقی یافتہ اور متمدن دنیا كو اسلامی عقائد سے روشناس كرایا جاسكے۔ آپ نے بہت ھی نایاب انداز سے ان اعتراضات كا جواب دیا ھے جو آج كی دنیا اسلامی عقائد پر وارد كرتی ھے۔ یہ آپ كا شاھكار ھے كہ آپ نے اسلامی عقائد اور دیگر مذاھب كے عقائد كا تقابلی مطالعہ پیش كیا ھے، جس میں اسلام كی برتری روزِ روشن كی طرح نظر آتی ھے اس درس كے نتیجہ میں متعدد علمی اور فلسفی كتابیں منظر عام پر آئیں، اس كے علاوہ مختلف موضوعات پر متعدد كتابیں تحریر فرمائی ھیں جن میں سے ھر ایك اپنی جگہ مستقل حیثیت كی مالك ھے۔ لاكھوں كی تعداد میں شائع ھونے والا علمی، فلسفی، دینی اور اخلاقی ماھنامہ "مكتب اسلام" آپ ھی كی علمی كاوشوں كا نتیجہ ھے۔ آپ بھی شاہ ایران كی ظالم و جابر حكومت كے ھاتھوں محفوظ نہ رھے، صرف اس لئے كہ آپ لوگوں تك اسلامی تعلیمات نہ پہونچاسكیں اور آپ كا مشن ناكام ھوجائے آپ كو مختلف شھروں میں شھر بدر كیا جاتا رھا، لیكن آپ اپنے عزم و ارادے سے ذرا بھی پیچھے نہ ھٹے بلكہ پہلے سے زیادہ عزم و استقلال كے ساتھ آگے بڑھتے رھے۔ آپ كی زندگی كے حالات كے لئے خود ایك مستقل كتاب كی ضرورت ھے۔ ھم بارگاہ خداوندی میں دست بدعا ھیں كہ محمد وآل محمد علیہم السلام كے تصدق میں موصوف كو ھمیشہ مصائب و مشكلات سے محفوظ ركھے، طویل عمر عنایت فرمائے، آپ كے مقاصد كو دن دونی رات چوگنی ترقی نصیب ھو۔ اور ھم لوگ بھی آپ كی زندگی سے كچھ سبق حاصل كرسكیں۔ آمین یا رب العالمین۔ صاحبان نظر سے استدعا ھے كہ اگر كوئی اشتباہ ھو یا كوئی چیز باقی رہ گئی ھو، تو براہِ كرم حقیر كو مطلع فرمائیں تاكہ اس كا ازالہ ھوسكے۔ انسان كی كمزوریاں صحیح و سالم انتقاد سے دور ھوا كرتی ھیں۔ خدایا! توفیق عطا فرما كہ تیری راہ میں قدم اٹھا سكیں۔ لوگوں تك تیرا پیغام پہونچاسكیں، تو ھی بہترین توفیق دینے والا ھے۔ ناچیز مترجم |