علامات ظھور
علامات ظھور کا موضوع ایک دلچسپ موضوع ھے ۔اکثر لوگ اس کو ایک پیشن گوئی کی نظر سے دیکھتے ھیں ،اگر کوئی بات ان کو پوری ھوتی ھوئی نظرآتی ھے تو اس پر خوش ھوکر رہ جاتے ھیں ۔جبکہ یہ علامات نہ پیشن گوئی ھے نہ کوئی علم نجوم اور نہ ھی کوئی ھاتھ کی لکیروں سے نکالاھوا نتیجہ ھے ،بلکہ ایک واقعیت ھے کہ جو واقع ھورھی ھے یارونما ھوگی، یھی وہ مقام ھے کہ جھاں انسان کو متوجہ ھوجانا چاہئے اور ھر مومن کو اپنی کمر کس لینی چاہئے ۔
البتہ کچھ علامات قطعی نھیں ھیں بلکہ کسی د وسرے واقع یا شئے پر مشروط ھیں جبکہ بعض علامات قطعی ھیں اور ان کے پورا ھونے میں کوئی شک و شبہ نھیں کیا جاسکتا ۔
اوران کے بارے میں متعدد روایات موجود ھیں جس طرح کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ھے:
”من المحتوم الذی لابد منہ ان یکون قبل القائم :خروج السفیانی وخسف بالبیداء وقتل النفس الذکیہ والمنادی من السماء وخروج الیمانی۔“ [132]
ترجمہ:وہ نشانیاں جوکہ بغیر کسی شک و شبہ اور حضرت (عج) کے ظھور سے پھلے حتماً رونما ھونگیں :(۱)خروج السفیانی (۲) سورج کو گھن لگنا(۳) نفس ذکیہ کاقتل (۴) آسمان سے نداکا آ نا (۵) شخص یمانی کاخروج کرنااور اس کے علاوہ۔ایک اور مقام پر معصوم علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں :
”النداء من المحتوم والسفیانی من المحتوم وقتل النفس الذکیہ من المحتوم وکفّ یطلع من السماء من المحتو م ۔“ [133]
ترجمہ: آسمانی نداآنا حتمی ھے ۔سفیانی کاخروج بھی حتمی ھے ۔نفس ذکیہ کا قتل بھی حتمی ھے ۔اور ھاتھ کی ہتھیلی جو کہ آسمان پر ظاھر ھوگی وہ بھی حتمی ھے ۔
پھر دوسری جگہ آپ فرماتے ھیں :
”خمس قبل قیام القائم من العلامات الصحیحة والیمانی و الخسف بالبیداء و خروج السفیانی و قتل النفس الذکیہ ۔‘[134]
ترجمہ:پانچ نشایناں حضرت(عج)کے ظھور سے قبل حتمی ھیں۔خروج یمانی ،سورج گھن ،خروج سفیانی اورقتل نفس ذکیہ ۔
ایک طویل روایت میں حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیھما السلام بیان فرماتے ھیں :
)”یخرج اذا خفّت الحقائق ولحق اللاحق وثقلت الظھور وتتابعت الامور ،واختلفت العرب واشتدّالطلب،وذھب العفاف واستحوذالشیطان و حکمت النسوان وفدحت الحوادث ونفثت النوافث وھجم الواثب و عبس العبوس و اجلب الناسوس ویفتحون العراق ویحمعون الشقاق بدم یراق“[135]
ترجمہ:وہ اس وقت ظاھر ھونگے جب حقیقت کی کوئی وقعت نہ رھے گی۔ دنیااحمقوں کے پیچھے چلے گی ،کمریں وزنی ھوجائیں گی ،ایک کے بعد دوسرا حادثہ رونما ھوتارھے گا ،عربوں میں پھوٹ پڑجائے گی ،کسی مصلح کے ظھور کی تمنا بڑھ چکی ھوگی ،رشتہ داریاں ختم ھوچکی ھونگیں ،شیطان سب پر حاوی ھوچکا ھوگا ، عورتیں حکومت کیا کریں گی ، کمرتوڑ حادثات رونما ھونگے ،چیڑنے والے چیڑتے ھوئے اور آگے بڑھ جائیں گے ، تیز پرواز کرنے والے پرندے حملہ آور ھونگے ،دنیا کی لذتیں کھٹی ھو جائیں گی ، راز دان لوگ خیانت کرکے راز فاش کریں گے ، عراق کو دوسرے فتح کرلیں گے اورھر قسم کے اختلاف کا جواب خونریزی سے دیا جانے لگے گا ۔
”اذا خفت الحقائق“
-- جب حق کی کوئی وقعت نہ رھے گی ۔
ظاھر ھے جب زمانہ گمراھی اور ضلالت کی طرف بڑھ رھا ھوگا تو اس گمراھی کے سیلاب میں حق کی پہچان مٹ جائے گی اور اگر کوئی حق کہتا نظر بھی آیاتواس کو حق کھنے کے
جرم میں سزاوار ٹھرایا جائے گا ۔ اس طرح سے حق گو لوگ خود بخود گوشہ نشینی کاشکار ھوجائیںگے ۔
اور یھی وہ علامات ھیں جو ھم آجکل اپنے چاروں طرف دیکھ رھے ھیں ۔مشرق سے مغرب تک ظلم کا بازار گرم ھے ۔ھر طاقتور اپنے سے کمزور پر حاوی ھوناچاہتا ھے ۔اس حصول قدرت اور طاقت کی کشمکش میں دنیا ظلم سے بھر تی جارھی ھے۔
”لحق الاحق“
پیروی کرنے والے احمقو ں کے پیچھے چل نکلیں گے :
آج اکثریت کا یھی حال ھے کہ دنیا اندھی تقلید کا شکار ھو رھی ھے ۔انسان جب کسی کی پیروی کرنے پر آتا ھے توایسا اندھا ھوجاتا ھے کہ وہ حق و نا حق کی پہچان کھو بیٹھتا ھے اورنہ فقط یہ کہ حق کو نھیں پہچان پاتا بلکہ وہ اس ظلمت کے بھاوٴ میں خود اپنے آپ کوبھی کھو بیٹھتا ھے ۔ دنیا میں ھر طرف افراط اور تفریط کے شکار ھوئے لوگ نظرآرھے ھیں ۔ چاھے وہ مذھبی ھوں یا سیاسی اور یہ افراط یا تفریط ھونا پورے معاشرے کے نظام کو درھم برھم کئے ھوئے ھے۔
”وثقلت الظھور“
پشت وکمر بھاری ھوجائے گی :
اگر اس سے مراد انسانی کمر ھے تو مطلب بہت واضح ھو جائے گا ۔ا س کی وجہ یہ ھے کہ انسانوں کے اوپر کام کا بوجھ اتنا زیادہ ھو جائے گا کہ جو اس کی طاقت سے باھر ھوگا۔بظاھر تو انسانی زندگی ایک آرام دہ اور پر آسائش کی طرف جارھی ھے اور وہ اس کے پیچھے کتنی زحمتیںاٹھارھا ھے اس طرف بالکل توجہ نھیں کرتا ۔اگر اپنے اس زمانہ سے ذراماضی کی طرف چلے جائیں تو بہت سے کام جو کہ آج کی دنیا میں ھورھے ھیں وہ ناممکن تصور کئے جاتے تھے۔
ایک طرف تو انسان نے الیکٹرونکس کے میدان میں اتنی ترقی کہ ستاروں پر کمندیں ڈال رھا ھے ۔لیکن دوسری طرف اپنے اس آسائش کے حصول کے خاطر اپنے دین اور ایمان سے بھی ھاتھ دھوبیٹھا ھے ۔یھی آسائش اور وقتی لذّتیں انسانی زندگی کا ھدف بن کر رہ گئی ھیں ۔چاھے ان چیزوں کے حصول کے لئے کوئی بھی راستہ اپناناپڑے انسان اسے انجام دینے سے گریز نھیں کرتا ھے۔ یھی سبب ھے کہ انسا ن کو آسائشیں تو میسر ھوتی جارھی ھیں لیکن ساتھ ھی ساتھ سکون بھی ختم ھوتا جارھا ھے ۔ھر شخص پریشانی اور مایوسی میں مبتلاھے آما ر کے لحاظ سے چالیس کے سن سال سے اوپر کے لو گوں میں ۸۰ فیصد لوگ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلاء ھوجاتے ھیں ۔اور یہ حساب چالیس سال سے بھی کمسن لوگوں میں تیزی سے بڑھ رھی ھے۔
اگر ان لوگوں سے ان کی زندگی کے بارے میں سوال کیا جائے ۔تو ان میں سے شاید ھی کوئی انسان اپنی زندگی سے مطمئن نظر آئے گا ۔ انسان نے اپنے آپ کو خود سے ھی ایک ختم نہ ھونے والی دوڑمیں شامل کرلیا ھے جس کی کوئی انتھا نظر نھیں آتی ھے۔
”تتابعت الامور“
ایک کے بعد دوسرا حادثہ ھوتا نظر آرھا ھے :
یہ بات اب آج کی دنیا میں بہت واضح ھے کہ ھرروز کسی نہ کسی جگہ پرکوئی بڑا حادثہ ھوتا نظر آتا ھے اور اس شدت کے ساتھ ھوتا ھے کہ انسان پچھلے واقع کو بھلا دیتا ھے ۔اب تو حال یہ ھوچکا ھے کہ ایسے حوادث پر لوگوں کا رد عمل ختم ھوتا جارھا ھے ۔ ا ب بڑے سے بڑے واقعہ کو وہ اپنے لئے ایک معمولی سی بات تصور کرتے ھیں۔اب تو دنیا کے بڑے شھروں کے بارے میںبڑی آسانی سے یہ بات کہہ دی جاسکتی ھے کہ وھاںایک دن میں۱۵یا۲۰آدمی کا قتل ھونا ایک معمولی سی بات ھے ۔ اسی وجہ سے معصوم علیہ السلام سے یہ بھی منقول ھوا ھے کہ:
”توقَّعواآیات کنظم الخَرَز“
ایسے حادثات کے منتظر رھو کہ جوتسبیح کے دانہ کی طرح یکے بعد دیگرے رونما ھوں ۔[136]
اور یھی ھورھا ھے کہ بہت تیزی اور بغیر کسی وقفہ کے واقعات رونما ھو رھے ھیں ۔
”واختلف العرَب“
عربوںمیں اختلافات شروع ھو جائیں گے :
یہ بات بھی بہت پھلے سے ظاھر ھوچکی ھے ۔ اور ھرروز اس کی شدت میںاضافہ ھوتا جارھا ھے۔
”واشتدَّ الطّلب“
کسی مصلح کے ظھور کی تمنا بڑھ چکی ھوگی :
اب یہ بات سرعام پر آرھی ھے کہ دنیا میںھرطرف لوگ کسی ایسی شخصیت کے
منتظر ھیں جوانھیں دلدل سے نکالے۔مومنین کی آنکھیں میںانتظاراور مایوسی نظرآرھی ھے اور چشم براہ ھیں کہ وہ نجات دینے والا منجی عالم بشریت کب ظھور کرے؟اورطوفان ظلم وستم کب ختم ھواورمومنین کایہ امتحان کب اپنے انجام کوپھنچے ۔؟
نہ فقط مومنین ومسلمین بلکہ ملحد اوربے دین بھی اپنی طرف سے اسی کوشش میں مصروف نظر آنے لگے ھیںکہ ھم کس طرح اس جھان انسانیت کو عدالت اورحق جوئی کی جانب گھسیٹ کرلائیں اورظلم کے سیلاب پرقابوحاصل کریں۔
”ذَہَبَ الْعفافُ“
رشتہ داریاں ختم ھوجائیںگے:
لوگ اپنے خونی رشتوں کو بھلا بیٹھیںگے۔ ایک دوسرے کے تعلقات ان کی مصلحت اندیشی پر منحصر ھونے لیںگے۔خونی رشتوں کی اھمیت ختم ھوجائے گی ۔ اس دوڑ میںایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے لوگ فقط مصلحت اندیشی پر اتر آئیں گے جدھر سے فائدہ نظر آئے گاادھر ھی سے رشتہ بھی باقی رکھیں گے ۔
نوبت تو یھاں تک آگئی ھے کہ صلہ رحمی کو حماقت اور وقت ضایع کرنے کانام دیا جانے لگا ھے ۔ اگرکوئی شخص صلہ رحمی کی غرض سے کسی کے گھر جائے تو لوگ اس کو ایک بے کار آدمی سمجھنے لگتے ھیں۔ کیونکہ آج کے دورمیںمصروفیت ایک بہت بڑا فیشن بن گیا ھے اور یہ سمجھا جاتا ھے کہ جوشخص جتنا زیادہ مصروف ھوتا ھے اتنا ھی اھم اوربڑا آدمی ھوگا۔
”واستحوذالشیطان “
شیطان سب پرحاوی ھوجائے گا :
ھرشخص کسی نہ کسی طریقہ سے شیطان کے چنگل میںپھنسا ھوا ھے۔
اگرچہ یہ حق ھے کہ ”العصمة لاھلھا“ عصمت اورگناھوں سے پاکیزگی ان لئے ھے جو اس کی اھلیت (معصومین(ع)) رکھتے ھیں ۔ اس دنیا میںبہت سے ایسے لوگ بھی گذرے ھیں جومعصوم نھیںتھے اس کے باوجود کمال کے اعلیٰ درجات پر فائز تھے ۔ اورھرزمانہ میںایسے لوگ موجود رھے ھیں ۔ جس طرح معصوم (ع)حجت ھیںاورھرزمانہ میںکسی نہ کسی معصوم (ع) کا ھونا لازمی ھے اسی طرح سے ایسے افراد بھی ھرزمانے میںرھے ھیں اورقیامت تک باقی رھیںگے اگرچہ ایسے لوگ انگشت شمار ھی کیوں نہ ھوں ۔ صدر اسلام کے دور سے لیکر آج تک ایسے لوگوں کی فھرست بنائی جائے تو کئی کتابیںان کے اوپر لکھی جاسکتی ھےں ۔حتی آج بھی قم مقدس میںکچھ شخصیات ایسی ھیںجن کے بارے میںیہ تصور بھی محال نظر آتا ھے کہ انھوں نے کبھی جھوٹ بھی بولاھوگا یاوہ کبھی بول سکتے ھےں ۔غیبت تھمت تو بہت دور کی بات ھے ۔” استغفر الله من کل الذنوب “نہ فقط قم میںایسی شخصیات ھیںبلکہ دنیا میں کھیں ھی ایسے لوگ مل سکتے ھیں ۔
نقل کرتے ھیںکہ ایک شخص نے خواب میںشیطان کو دیکھا کہ وہ لوگوں کو اپنے جال میںپھنسانے کے لئے زنجیر یںبنا رھاھے یہ زنجیریں بہت مختلف سائز کی ھیںاور کوئی تو بہت بڑی اور موٹی توکوئی دھاگے کی طرح باریک ۔خواب دیکھنے والے شخص نے شیطان سے سوال کرنا شروع کیا یہ سب سے موٹی زنجیر کس کے لئے بنارھا ھے تو شیطان نے اس زمانہ کے کسی جید عالم ِدین کانام لیا کہ ان کو اس زنجیر سے باندھنے کی کوشش کروں گا۔
اس سے پتلی زنجیر کے بارے میںسوال کیا تو شیطان نے کسی عارف کانام بتایا، یہ شخص سوال کرتا رھا اور شیطان جواب دیتا رھا ھے یہ زنجیر فلان فلان شخص کے لئے ھے۔ آخر میںاس شخص نے شیطان سے سوال کیا کہ : میرے لئے کونسی زنجیر ھے ۔ ؟تو شیطان نے مسکراکرجواب دیا تمھارے لئے کسی زنجیر کی ضرورت نھیں ھے کیونکہ تم بغیر زنجیر کے میرے قبضہ میںھو۔
اب یھی حال اکثریت کا ھے اس زمانہ میںشیطان کا کام بہت آسان ھوکررہ گیا ھے ۔ بہت ھی کم لوگوں کےلئے اسے زنجیر بنانے کی ضرورت پڑے گی ۔ ھرشخص کسی نہ کسی روحی بیماری میں مبتلاء نظر آرھا ھے لوگوں کودین اور حق کے راستہ پرلانا فساد اور گمراھی کے راستہ پرلانے سے کھیںزیادہ مشکل ھوچکاھے ۔ کوئی شخص دین اور آخرت کی بات سننے کو تیار نھیںھوتا ۔ حتی اگر کوئی کسی محفل میںخدا اور رسول(ص) کا ذکر کربیٹھے تو اسے مسخرہ آمیز القاب سے نواز کرنہ فقط اس کی بات ختم کردی جاتی ھے بلکہ اس شخص کی اپنی اھمیت اورشخصیت کوبھی سخت گذندپھنچتی ھے ۔
”حکمت النسوان “
عورتیں حکومت کریںگی :
یقینا اس حکومت سے صرف ملکی سطح کی حکومت مراد نھیںبلکہ زندگی کے ھرشعبہ میںعورتیںحکومت کرتی نظر آئیںگی ۔اگر کسی ملک کی حکومت کی بات کی جارھی ھو تو یہ بات کافی عرصہ پھلے سے رونما ھوچکی ھے ۔اب تو یہ بات عادی ھوچکی ھے ۔حق تو یہ ھے کہ لوگوں میںغیرت ختم ھوچکی ھے ۔آزادی کے نام پر عورتوں کی لگامیںٹوٹ چکیں ھیں ۔
البتہ اس سے مراد یہ نھیںھے کہ عورتیںخدا کی کوئی پست مخلوق ھے العیاذ باللہ بلکہ اسلام میںجتنا احترام عورتوں کو دیا ھے کسی اور مذھب یا دین نے نھیں دیا ھے ۔یہ جاھلیت کی بات ھے کہ عورتیں گھر میں بندھو کررہ جائیں ۔یہ اسلام طالبان تو ھوسکتا ھے کہ جو خود اسلامی تعلیمات سے بے بھرہ ھیںلیکن دین حق اور مذھب حقہ سے اس کاکوئی واسطہ نھیںھے ۔اسلام نے ھرشخص اور مخلوق کو اس کا مقام عطا کرنے کے ساتھ اس کے کاموں کا دائرہ کار بھی معین کیا ھے ۔
عورت اگر ماں کے روپ میں ھوتو اس کے قدموں کے نیچے جنت قرار دی ھے ۔اگر بیوی ھو تو قابل احترام ھونے کے ساتھ ساتھ اس کی تمام ضروریات زندگی کواس کے شوھر پر لازم قرار دیا ھے ۔ اگر بھن کی صورت میں ھوتو بھائی کو اس کا وقار قرار دیا ھے اگر بیٹی کے روپ میںھوتو باپ پر اس کے لئے شفقت اور محبت لازم کی ھے ۔
لیکن اس کایہ مطلب نھیں ھے کہ عورت اور مرد کے حقوق برابر ھونے کا نعرہ بلند کرکے مغالطہ میں مبتلا کرنے کے بعد اس کی شرم وحیا کو اس سے لے لیا جائے ۔آیا مرد اور عورت کے برابر ھونے کا لازمہ یہ ھے عورت بے حیا ھوجائے ۔؟آیا مرد اور عورت کے برابر ھونے کا لازمہ یہ ھے کہ عورت کی ھر بات حق ھوجائے ۔؟آیا مرد اور عورت کے برابر ھونے کا لازمہ یہ ھے کہ عورت کو گھر سے بغیر کسی وجہ کے باھر نکال دیا جائے ۔آیا مرد اور عورت کے برابر ھونے کا لازمہ یہ ھے کہ عورتیںحکم خدا سے تجاوز کرجائیں ۔؟
آیا مرد اور عورت کے برابر ھونے کا لازمہ یہ ھے کہ عورتیںسیرت حضرت فاطمہ (ع) اور زینب کبری (ع) کو بھلا بیٹھیں۔؟آیا مرد اور عورت کے برابر ھونے کا لازمہ یہ ھے کہ عورتیں اپنے سروں سے چادریںاتار دیں۔
نھیں!ھرگزاےسانھیں ھے ۔ اسلام نے کسی کے حقوق معین کرتے وقت ھرگز کسی دوسرے کی حق تلفی نھیںکی ھے ۔ ھرشخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق حقوق عطا کئے ھیں اور یھی وجہ ھے کہ آج مغرب میں برابری کے نام سے بے لگام آزادی کا نعرہ ھے وھاں ایک شریف اور باعزت عورت کی کوئی وقعت باقی نھیں رھی ھے اگر بات یھیں تک ھوتی تو صبر آجاتا مگر اب وھی آزادعورتیںیہ کھنے پر مجبور پرگئی ھے کہ ھماری حفاظت کی جائے ، اور اب وہ اس مقام پر پھنچ چکی ھےںکہ وہ لوگ اپنی حفاظت کرنے سے ناچار ھوچکی ھےں، اب اس غلط راہ پرنکلنے کا نتیجہ نظر آنے لگا ھے یہ توایک جانب سے عورتوں کا کردار تھا ۔
دوسرا کردار عورتوں کا وہ ھے کہ جووہ خاندانی سیاستوں میںادا کرتی ھےں۔ ایک خونی رشتہ کو دوسرے خونی رشتہ سے الگ کرانے سے بڑے بڑے جھگڑوں کے پےچھے انھیںکا کردار ھوتا ھے ۔ افسوس ھے ایسے مردوں کی عقل پر کہ جو اس طرح سے عورتوں کی تقلید کرتے ھیں ۔گھروں اور خاندانوں کے بڑے بڑے فیصلوں میںعورتوں کی سیاست چلاکرتی ھے ۔ اوریہ مرد اپنی عقلوں پہ تالہ باندھ کر کونے میںرکھ دیتے ھیں۔یھاں تک کہ کسی گھر میںدین داری اور بے دینی کا دارو مدار عورتوں کے اختیار میں ھے اگر باپ چاھے جتنا بھی متقی یا پرھیزگار کیوں نہ ھو اگر اس کی بیوی مذھبی نھیںھے تو ساری اولاد پر وہ اپناھی رنگ چڑھا دیتی ھے ۔اگرچہ عورتوں کاکردار بے اثر نھیںھوتا لیکن اس حدتک کہ مرد کو اپنے گٹھنے ٹیکنے پڑجائیں۔
اس کے برعکس اس بات کی جانب بھی اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ھوں کہ وہ حق تلفیاں جو ھمارے ملک پاکستان میں مختلف مقامات پر عورتوں کے ساتھ ھوتی ھیں ۔مجھے یہ دیکھ کر بہت تعجب ھو ا کہ اس دور میںکہ جب دنیا اکیسویں صدی میں داخل ھوچکی ھے ، ایسے بھی لوگ رہتے ھیںکہ جو عورتوں کو ایک جانور کی حیثیت سے رکھتے ھیں ۔ شادی کا تصور ان کے نزدیک یہ ھے کہ ایک عورت بچہ دینے کے ساتھ ساتھ گھر میں کام بھی کرے گی ۔حتی بعض علاقوں میں ھم سے یہ سوال کیا کہ آیا عورت رنگین کپڑے بھی پھن سکتی ھے؟ تو بڑا تعجب ھوا۔معلوم کرنے اور دیکھنے پر پتہ چلا کہ وھاں عورتوں کو سفید کپڑے پھنائے جاتیں ھیں۔ اور گاڑی کے پرانے ٹائر سے بنے ھوئے جوتے پھنائے جاتے ھیں ،آج بھی مسلمانوں میںایک طرح سے خرید وفروخت ھورھی ھے کہ جوکوئی بھی ھو جس عمر کابھی ھو اگر زیادہ پیسے لائے گا تو اس کو لڑکی دیدی جائے گی حتی خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ھے کہ ستر سالہ شخص کی شادی ایک ۱۰/سالہ لڑکی سے کردی گئی ۔ اور یہ بات ان کے نزدیک بہت عام ھے گاؤں دیھاتوں میں عام دیکھنے کو مل جاتا ھے کہ اگر بیوی سے کوئی روٹی جل جائے کہ جسے اس نے گھنٹوں محنت کرکے لکڑے کے چولھے پر پکایا ھواھوتا ھے تو اس کی پٹائی ھوجاتی ھے ۔
ایسی باتوں پر مرد بڑا فخر کرتے ھیںکہ میں اپنی گھر والی کو مارکرآیا ھوں بات یھاں پر ختم نھیںھوتی بعض علاقوں میںتو اپنے جرم کو چھپانے کے لئے کارا کاری کا چکر بناکر عورتوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نھیںکیا جاتا ۔ ابھی بھی پاکستان میںایسے مقامات ھیں کہ جھاں شاید ھی کوئی خاندان یا گھر ایسا ھوکہ جو کارا کاری کا شکار نہ ھو چکاھو اس طرح عورتوں کو علم کے حصول سے محروم رکھ کر اپنے باغیرت ھونے کا ثبوت دیا جاتا ھے ۔
واضح ھے کہ اسلام کا ان تمام چیزوں سے کوئی واسطہ نھیںھے یہ ساری چیزیں اسلامی تعلیمات سے دور ھونے کے سبب پیدا ھوتی ھیںاسی جاھلیت کی وجہ سے ھم افراط اور تفریط کا شکار ھوچکے ھیں ۔
”وفدحتِ الحوادث“
کمر شکن حادثات رونما ھونگے :
ظاھر ھے کہ جب پوری دنیا میں لوگ افراد وتفریط کا شکار ھوجائیں گے حتی یہ کہ حکومتوں میں حصول قدرت اورطاقت کی دوڑ اپنے عروج پر ھوگی تو اس کے نتیجہ میں ایسے واقعات پیش آئیں گے کہ جو جبران ناپزیر ھوں۔ یھاں تک کہ کوئی بھی قوم یا حکومت ایسی باقی نھیںرھے گی کہ جن کے بارے میںیہ کھا جاسکے گا کہ یہ امن اور سکون کی زندگی بسر کررھے ھیں۔
”نفثت النوافث و ہَجَمَ الواثب“
چیر کر آگے بڑھنے والے آگے بڑھ جائیں گے اور تیزپرواز کرنے والے حملہ آور ھونگے :
نہ فقط موجودہ زمانے کے لوگ بلکہ گذشتہ صدی کے لوگ اس چیزکا خوب مشاھدہ کرچکے ھیں کہ یہ جنگی طیارے ھرروز بروز ایک سے بڑھ کر ایک جدّت کے ساتھ دنیا میں ایجاد ھورھے ھیں کہ جن کے ذریعہ حکومتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے روی زمین پر رھنے والوں کو آگ اور خون میں غلطان کرتی رہتی ھیں۔ اب تو اس دنیا سے بڑھ کر سیاروں کی جنگ کی باتیں ھو رھی ھیںاگرچہ کہ ابھی تک یہ ایک مفروضہ کی حد تک ھی محدود ھے ۔
”وعبس العبوس “
دنیا کی لزتیں کھٹی ھوجائیں گی :
تما م گذشتہ باتوں کا نتیجہ یھی نکلتا ھے کہ جب دنیا میںھرطرف آشوب اور ھنگامہ آرائی بڑھ جائے گی تو کوئی بھی شخص سکو ن کی زندگی بسر نھیں کرسکے گا۔جب سکون ھی باقی نھیں رھے گا تو پھر زندگی میں مزا کھاں سے آئے گا ۔یھی وجہ ھے کہ دنیا میں جس طرف توجہ کرکے دیکھیں لوگ ایک سے بڑھ کر ایک اشتعال انگیز قدم اٹھا رھے ھیں خود کشی کرنے والوں کا تناسب پوری دنیا میںدن بدن بڑھتا جارھا ھے ۔ یہ سب نتائج اسی لئے نکل رھے ھیںکیوں کہ دنیا میں ان لوگوں کے لئے کوئی کشش باقی نھیں رہ گئی ھے اور وہ اپنی زندگی سے مایوس ھوکر یا تو خود کشی کربیٹھتے ھیںیا پھر انتقامی جذبہ کے پیش نظر اشتعال انگیز اقدامات کرنے سے گریز نھیںکرتے ۔
ایک اور روایت کے ذیل میں مولیٰ متقیان حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام فرماتے ھیں:
”وانجر العیص واٴراع َالقنیص و اکثر القمیصُ “
جس وقت جنگلات خشک ھو کر ختم ھوجائیں گے شکار کرنے والے سب کو وحشت زدہ کرتے رہتے ھوں گے اور نفرتیں اورہجرتیں زیادہ ھوجائیں گی۔[137]
”انجر العیص“
جس وقت جنگلات خشک ھو کر ختم ھوجائیں گے:
پوری دنیا میںھرطرف اس بات کا رونا ھے کہ جنگلات ختم ھورھے ھیں ۔ اس کی کیا وجوھات ھوسکتی ھیں ایک تو حکومتیں یاپھر کچھ لوگ اپنے مقاصد کے لئے جنگلات ختم کرتے ھیں یاپھر بارشیں کم یا بعض مقامات پر نہ ھونے کے سبب جنگلات ختم ھوتے جارھے ھیں یا پھر بعض موقع پر اشتعال انگیز کاروایوں کے نتیجہ میںبھی یہ خداداد نعمت روبہ زوال ھوتی جارھی ھے ۔
آج پوری دنیا میں سیمینار منعقد کئے جارھے ھیںکہ کسی طرح سے ان قدرتی وسائل کو ضائع ھونے سے روکا جائے ۔ قحط سالی روز بروز شدت اختیا کرتی جارھی ھے حکومتوں کے درمیان پانی کے مسئلہ پر اختلافات بڑھتے جارھے ھےں اور عنقریب عین ممکن ھے کہ حصول آب کے لئے حکومتوں کے درمیان جنگیں چھڑ جائیں ۔
” واٴراع َالقنیص “
شکار کرنے والے سب کو وحشت زدہ کریں گے:
کسی زمانے میںجب شکار کرنے والوں کاذکر آتاتھاتو اس سے یہ تصور کیا جاتا تھا جانورں کے شکار کرنے والے ۔ لیکن اب بات اس سے آگے بڑھ چکی ھے ۔ اغوا برائے تاوان یا سیاسی مقاصد کے لئے انسانوں کا اغوا بہت عام سی بات ھوکررہ گئی کسی بھی ملک یا قوم میں اس قسم کی خبریں روزانہ کا معمول بن کررہ گئی ھیں۔ یاتو لوگ پیسہ کی خاطر سرمایہ دار لوگوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کرتے ھیںیاپھر سیاسی مقاصد کے تحت بھی ایسے اقدامات کئے جاتے ھیںمشرق سے لے کر مغرب تک ایسے واقعات روزانہ کا معمول بن گئے ھیں ۔
”کثر القمیصُ “
اضطراب اورہجرت زیادہ ھوجائے گی:
ہجرت کرنے والے افراد بیشتر اس سبب کے تحت کرتے ھیں :کہ کچھ لوگ خشک سالی کی خاطر ہجرت کرتے ھیںجبکہ بعض لوگ امن وامان اور حفظ جان کے لئے بھی ہجرت کرتے ھیںجن ملکوں کے لوگ بیشتر ہجرت کرتے ھیںان کے اپنے وطن کے حالات معمول پر نھیںھوتے ۔ ان کاملک اقتصادی، اجتماعی ،معاشرتی یاپھر امن وامان کے مسائل کا شکار ھوتا ھے ۔
آج لوگ ایک ایک کرکے یا پھرگروہ کی صورت میں نھیں بلکہ پوری کی پوری قوم ملکر ہجرت کرتی ھے حتی بعض ممالک میںتو حشریہ ھے کہ اس ملک کے مقیم حضرات کی تعداد وھاں سے ہجرت کرنے والوں سے کم ھوتی ھے ۔ دنیا میںبرے پیمانے پر ہجرتیں ھورھی ھےں ،یہ مھاجرین عام طور سے اپنے ملک کے ھمسایہ ملکوں میں یا پھر اپنے مال ووسائل کے مد نظر مغربی دنیا کا رخ کرتے ھیں ۔اپنے ھمسایہ ملک افغانستان کی مثال آپ کے سامنے ھے اسی طرح عراق ،فلسطین اور بعض پورپی ممالک کی مثال آپ کے سامنے ھے ۔
اس طرح سے لوگ اقتصادی مسائل یا پھر نقص امن سے بچنے کے لئے بھی دنیا بھر میں ہجرت کرتے جارھے ھیں ۔ مھاجرین کی تعداد پوری دنیا میں اتنی زیادہ ھوچکی ھے کہ بعض ممالک نے اپنے وطن میں قانون بنادیا ھے کہ ھمارے ملک میں کوئی مھاجر نھیںآسکتا ۔ جن ممالک میں مھاجرت کی جاتی ھے وھاں پر ان مھاجرین کی وجہ سے اقتصادی مسائل پیدا ھونے کے ساتھ اس ملک کے مقیم اصل باشندوں کو نوکریوں کا مسئلہ ھوجاتا ھے اسی طرح ھمسایہ ممالک اس کے ضمن میںکئی ایک مسائل کا شکار ھوکررہ جاتے ھیںکہ جوایک طرح کاقوموں میں اضطراب اور نفرت کا سبب بھی بنتا ھے ۔
ایک اور مقام پر حضرت علی ابن ابی طالبں فرماتے ھیں:
”اذا صاحَ الناقوس وَکَبَسَ الکابوس وتَکلَّمَ الجاموس فعند ذالک عجائبٌوایُّ عجائب“[138]
جس وقت ناقوس سے صدا بلند ھوگی کابوس کا منحوس سایہ ھرجگہ پر پھیل چکا ھوگا ،اور جاموس بولنے لگے گا اور اس زمانے میں حیرت انگیز واقعات رونماھونگے اورکیا عجیب وغریب واقعات پیش آئنگے ۔
ناقوس کا معنی ھوشیار کرنے والی آواز یا خطرے کی گھنٹی وغیرہ ھے۔ یھاں پر اس سے مراد حضرت جبرئےلں کی آواز ھے کہ جو پوری دنیا میں سنی جائے گی۔
کابوسخوفزدہ اور وحشت آور خواب کو کہتے ھیںکہ جو پوری دنیا پر حاکم ھوگا ھرجانب سے لوگ خوف وھراس کا شکار ھونگے ۔
جاموسھرجامد چیز کو کہتے ھیں۔مراد یہ ھے کہ جامد چیزیں بولنے لگیں گی یہ بات جب اس زمانے میںکہ جب یہ گفتگو بیان کی جارھی تھی تو ایک بہت ھی عجیب اور
تقریبا محال بات نظر آتی تھی لیکن آج اس کی بے شمار مثالیں موجود ھیں جیسے ریڈیو ،ٹی و ی ٹیلی فون، ٹیپ ریکاڈر،کمپیوٹر اور اسی طرح کی سیکڑوں اور چیزیں ۔
آج کی دنیا میں دن بہ دن عجیب و غریب واقعات رونما ھونے لگے ھیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک چیز ایجاد ھورھی ھے کہ جن کو دیکھ کر انسانی عقل مبھوت ھو کررہ جاتی ھے۔ ترقی کی رفتار اتنی تیز ھے کہ مھینوں کے حساب سے جدت آرھی ھے ۔
حضرت علی ابن ابی طالبں فرماتے ھیں:
”ولذلک علامات وکشفُ الھکل وخفْقُ آیاتٍ ثلاثٍ حولَ المسجد الاکبر تہتزُّ یُشبھن َ بالمھدی ۔۔۔وقتلٌ سریعٌ وموت زریعٌ“[139]
اس کام (ظھور حضرت (ع))کے لئے کئی نشانیاں ھیں۔ ان میں سے ھیکل کا ملنا،تین پرچموں کا بلند ھونا کہ جو تینوں کے تینوں حضرت مھدی (ع) کے پرچم سے ملتے جلتے ھونگے امان نہ دینے والے قتل اور اچانک موت و ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھیکل سے مراد وہ عظیم الشان معبد گاہ ھے کہ جو حضرت سلیمان (ع) نے تعمیر کروائی تھی وہ معبد گاہ بیت المقدس میں تھی۔اس کے تین سو ساٹھ(۳۶۰) ستون تھے،وہ عظیم الشان عمارت مختلف قیمتی پتھروں سے بنی ھوئی تھی۔اس کی زمین پر شیشے کے مانند پتھر نصب تھے کہ جس کے نیچے سے پانی بھا کرتا تھا کہ جس کودیکھ کربلقیس نے اپنے پائنچے
اوپر اٹھا لئے تھے یہ سمجھ کر کہ یہ پانی ھے اور میرے پائنچے بھیگ جائیں گے ۔اس کے علاوہ اور بھی بے تحاشہ حیرت انگیزاشیاء اس محل میں موجود تھیں۔
ھمارے زمانے میں یھودیوں کی پوری کوشش یہ ھے کہ اس ھیکل کو زمین کے اندر سے نکالا جائے کہ جس کا کچھ حصہ مسجد اقصیٰ اور دوسرا حصہ قیامت کے چرچ کے نیچے ھے۔اس وقت اس ھیکل کا تھوڑا بہت حصہ دریافت ھو چکا ھے لیکن ابھی تک اسرائیلی حکومت مکمل طور پر اس ھیکل تک نھیں پھونچ سکی ھے۔ اگرچہ اس کی پوری کوشش ھے کہ اس عمارت کو جلد سے جلد کھود کر دریافت کیا جائے۔ تین ملتے جلتے پرچموں سے مراد یہ ھے کہ تین گروہ جو کہ اپنے آپ کو حق پر کہتے ھونگے اسلام کے نام پر جھاد کرنے کو نکل کھڑے ھونگے جب کہ ان میں سے کوئی بھی حق پر نھیں ھوگا۔
آج کی دنیا میں ھر طرف حق کے نام پرقتل و غارت و جھاد کے نام سے جنگیں ھو رھی ھیں۔آیا یہ سارے گروہ واقعاً دین اسلام پر عمل پیرا ھیں یا نھیں؟یہ تو خود انکے اعمال اور گفتار سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ھے،ھر حق کا دعویدار حقدار نھیں ھوتا ھے۔
آخری زمانے کے لوگوں کی خصوصیات:
اس سے پھلے کہ ھم آخری زمانے کے لوگوں کے بارے میں کچھ بیان کریں ایک نکتہ کی طرف توجہ بہت ضروری ھے اور وہ یہ ھے کہ آج کی دنیا کے لوگ اپنے آپ کو بہت زیادہ متمدن(ماڈرن اور ترقی یافتہ )سمجھتے ھیں۔لیکن حقیقت میں وہ انسانیت کے دائرے سے کتنا دور جا چکے ھیں،اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے ھمیں معصومین (ع) کے اقوال کے تحت شعاع آنا ھوگا۔جب کھیں جاکر ھم اپنی حقیقت کو سمجھ سکتے ھیں۔اس سے پھلے کہ خصوصیات بیان کی جائےں،ھم اپنی گفتگو کا آغاز رسول خدا(ص) کے اس بیان سے کرتے ھیں کہ جھاں پر انھوں نے زمانہ کے بارے میں کچھ یوں بیان کیا ھے:
”لا یاٴتی علیکم زمان الّا الّذی بعدہ شرّ منہ!“[140]
”کوئی زمانہ نھیں آئے گا مگر یہ کہ اس کے بعد والا زمانہ اس سے برا ھوگا“۔
یہ ایک واضح بات ھے کہ جوپوری دنیا میں قابل مشاھدہ ھے ۔اگر تاریخ کا سھارا لیا جائے تو پھر اور بھی وضاحت کے ساتھ یہ بات روشن ھو جائے گی اگراپنی زندگی کو بھی نظر میںرکھیں تو معلوم ھو جائے گا کہ وہ زمانہ کہ جو ھمارے بچپن کا تھا جوانی سے بہتر اور جوانی کا زمانہ بڑھاپے سے بہتر ھے ۔ آج جس زمانے میںھم زندگی بسر کررھے ھیں کل ھماری اولاد کو اس سے برا اور زیادہ سخت زمانے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
رسول اکرم(ص) کا ارشاد ھے :
یاتی علی النّاس زمانٌ ھمّھم بطونھم وشرَفھم متاعُہُم وقبلتھم نساوٴھم ودینھم دَراھمھم ودنانیرھم اولٰٓئک شرُّ الخلق لاخلاق لَہُم عنداللّہ ۔[141]
”لوگوں کے لئے ایک زمانہ ایساآئے گا کہ جب ان کا ھم وغم ان کا پیٹ ھوگا۔ ان کی شرافت کا اندازہ ان کے رھن سھن اور دنیا داری سے ھوگا ۔ ان کا قبلہ ان کی بیویاں ھوںگیں۔ان کا دین ان کامال ودولت ھوگا ۔وہ لوگ بدترین لوگ ھونگے اور خداوند متعال کے نزدیک ان کے لئے کوئی مقام نھیں ھوگا۔“
یہ ایسی صفات ھیں کہ جو روز روشن کی طرح عیاں ھیں۔ ھرشخص دنیا داری اور پیٹ بھرنے کے لئے دوڑرھاھے ھر شخص اپنے معیار زندگی کو اوپر سے اوپر لے جانے کی کوشش میں لگا ھواھے ۔ لوگو ں کا ملنا جلنا ان کی بیویوںکے ملنے جلنے پر منحصر ھوگیا ھے ۔ اگر بیوی کے تعلقات کسی نزدیکی رشتہ دار سے خراب ھوجائیں تو ان کے شوھر اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی قطعہ تعلق کرکے بیٹھ جاتے ھیں جس طرف ان کا قبلہ (ان کی بیگمات) گھو میںگی اسی طرح سے وہ خود بھی گھومتے چلے جاتے ھیں ۔ اُن کا دین ان کی دولت ھے ۔ اگر دولت کے حصول کے لئے دین کوبھی روندنا پڑجائے تو وہ اس کام کو بھی آسانی سے کرگزرتے ھیں۔ یھی ھے آج کی دنیا اور دنیا والوں کا رواج!۔
”وعندھا یظھرالربا ویتعاملون بالرُّشیٰ ویوضع الدین وترفعُ الدنیا“[142]
”اور سود عام ھوچکا ھوگا اور معاملات زندگی رشوت سے طے ھونگے دین کم اھمیت اور دنیا باارزش ھوچکی ھوگی ۔“
اسی رشوت کے بارے میںاور مقام پر ارشاد ھوتا ھے :
لیاتینَّ علی النّاس زمانٌ لایبقی احَدٌ الَّااٴکل الرِّبٰافاٴِنْ لم یاْکُلْہُ اصابَہُ غُبارُہُ[143]
” لوگوں کے لئے ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ جس زمانے میںکوئی بھی ایسا شخص نھیںملے گا کہ جوسود نہ کھا چکاھو ۔ اگر مستقیمابھی سود نہ کھایا ھو لیکن اس کی گرد وغبار ضرور چکھی ھوگی ۔“
یعنی سود اتنا عام ھوچکا ھوگا کہ ھر شخص اس برائی سے آلودہ ھو چکا ھوگا ۔ اور آج بھی یھی حال ھے کہ پوری دنیا کے اقتصاد کا دار ومدار سود پر ھے حتی اسلامی ممالک جو کہ اس بات کا ادعا کرتے ھیںکہ اسلام کے قوانین پرعمل پیراھیںلیکن ان ممالک کے بینک کے چلنے کا دارومدار بھی اسی سود آور معاملوں پر ھے اگر آج یہ سود دینا یا لینا بند کردیں تو ان کی بینک کاری کانظام بیٹھ جائے گا ۔
اسی طرح سے رشوت بھی پوری دنیا میںاپنی جڑیںبچھا چکی ھے اس زمانے میںرشوت کے متعدد نام ھیںمٹھائی ،چائے اورپانی کاخرچہ تحفہ ،ھدیہ وغیرہ ،مختلف عناوین سے رشوت لی اور دی جارھی ھے ۔انسان کو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے بھی اسی کاسھارا لینا پڑتا ھے ورنہ وہ اپنے حق سے دستبردار ھوجائے ۔اور ظاھر ھے جھاں سودورشوت عام ھوچکی ھو اورلوگوں کے پیٹ میںیہ حرام لقمہ جارھا ھو تو وھاں خود بخود دین کی اھمیت ختم ھوجائے گی اور صرف دنیا ودنیاداری باقی رہ جائے گی ۔
اس حرام لقمہ کا انسانی زندگی، اسکی سوچ اور اس کے رھن سھن پر بہت اثر ھوتا ھے ۔ اگر کوئی باپ یہ تصور کرے کہ میںحرام لقمہ کھلاکر اپنے پیچھے کوئی صالح فرزند چھوڑ کرجاؤںتو وہ خام خیالی کا شکار ھے ۔ کبھی بھی حرام کے لقمہ سے پلنے پھولنے والے لوگ نیکی اور اچھائی کاراستہ نھیںاختیار کرسکتے مگر یہ کہ اپنے جسم سے اس حرام لقمہ کے اثر کوزائل کردیں ۔
معصوم (ع) فرماتے ھیںکہ :
”یکون اٴسعد الناس بالدنیا لکعٍ ابن لکعٍ لایٴومنُ بااللّہ ورسولہِ“[144]
”دنیا میں خوش بخت ترین لوگ وہ ھوں گے جو بالکل ذلیل ھواور جو خدا اور اس کے رسول(ص) پر ایمان نہ رکھتے ھوں۔“
حقیقت بھی یھی ھے کہ آج دنیا میںخوشحالی انھیںکے پاس زیادہ نظر آتی ھے کہ جو کسی چیز کے پابند نھیںھیںنہ خدا کومانتے ھیں اور نہ ھی کسی رسول(ص) پرایمان رکھتے ھیں۔ دنیاکی خوشحالی ان ھی بے دینوں کے پاس نظر آتی ھے اکثر دین دار لوگ اپنی مشکلات کے شکار رہتے ھیں۔
”یصبح الرّجل مومناویمسی کافراًویمسی مومناًویصبح کافراًیَبیعُ اَحَدُکم دینہ بِعرضٍ من الدنیا قلیلٍ“[145]
”انسان ایمان کی حالت میں صبح کرے گا۔ اور کفر کی حالت میںشام کرے گا اور کفر کی حالت میںbبح کرے ۔ اپنے دین کو بہت معمولی سی چیز کے بدلے میںبیچ دے گا ۔“
اس بارے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
”بین یدی الساعة فتنٌ کقطع اللیل المظلم یصبح الرّجل منکم موٴ مناً ویصبح الرّجل مومناًویمسی کافراًویمسی مومناًویصبح کافراًیَبیعُ اقوامٌ دینھم بِعرضِ الدنیا“
”ظھور سے پھلے رات کی تاریکی کی طرح فتنے پھیل چکے ھونگے انسان صبح کے وقت مومن اور دن کے آخری حصہ میںکافر اور رات کے پھلے حصہ میںمومن اور رات ھی کے آخری حصہ میںکافر ھوچکا ھوگا ۔ قومیں اپنے دین کو بہت معمولی سے مال دنیاکے بدلے میںبیچ دیا کریں گے ۔“
اس بارے میں متعدد معصومین (ع) سے روایتیں وارد ھوئی ھیں، اور آج بھی یھی صورت حال ھے کہ انسان اپنے دین کو ہتھیلی پر رکھے گھوم رھا ھے ، اس سیاست اور فتنہ کے دور میںچھوٹی چھوٹی چیزوں کو جو بہت جلد ختم ھونے والی ھیں اپنے دین کو بیچ دیتا ھے، یھی وجہ ھے کہ آج کے دور میںدیندار افرادنایاب ھوتے جار ھے ھیں ،ایسے وقت کے لئے امام جوادںراہ حل بھی پیش کرتے ھیں۔
”وقبل ذالک فتْنَةٌ شرٍیُمسی الرّجُلُ مٴومناً ویصبح کافراویصبح مومناًویمسی کافراًفمن ادرک ذالک الزمان فلیتقِ اللّہ ولیکن من احلاس بیتہ “[146]
”روز موعود (ظھور ) سے پھلے بہت بڑا فتنہ ھوگا کہ انسان ایمان کی حالت میںشام کرے گا اور کفر کی حالت میںصبح اور ایمان کی حالت میںصبح اور کفر کی حالت میں
میںشام کرے گا ،اورجوکوئی بھی اس زمانہ کودرک کرے تو وہ اپنے گھر کے بچھونوں میں سے ایک بچھونابن جائے۔ “
یعنی اس زمانہ میںانسان اپنے گھر سے باھر نکلنے سے پرھیز کرے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ کوشش یھی رھے کہ اپنے گھر میںوقت گزارے کیونکہ یھی ایک واحد راستہ ھے کہ جس کے ذریعے انسان اپنے آپ کو دنیا کی آلودگی سے بچا سکتا ھے ۔ جتنا انسان دنیا کے لوگوں میںگھلے ملے گااتنا ھی اس کے گناہ میںپڑنے کااحتمال زیادہ ھوگا۔
حضرت امام صادق(ع) بھی یھی فرماتے ھیں:
”اذا کان ذالک فکونوا احلاس بیوتکم حتی یظھر الطاھر المطہّرِ“[147]
”جب وہ وقت آئے تو اپنے گھر کے بچھونوں میںسے بچھونا بن جائے یھاں تک کہ طاھر ومطھر امام غائب (عج) ظھور کرجائے ۔
امام صادق(ع) ایک اور مقام پر فرماتے ھیں:
”کُفُّوا الْسِنَتُکُمْ والْزَمُوْا بُیُوتَکُمْ فَاٴِنَّہ لا یصیبکم امرٌ تُخَصِّوْنَ بِہ ابداً“[148]
”اپنی زبانوں کو قابو میںرکھو اور اپنے گھروں سے باھر نہ نکلو بے شک تمھارے لئے کوئی ایسا حادثہ پیش نھیںآئے گا کہ جو تم سے مخصوص ھو ۔“
زبان کو قابو میںرکھنا بھی ایک بہت مسئلہ ھے اسی زبان کی وجہ سے بعض اوقات بہت بڑے فتنہ رونما ھوجاتے ھیں۔ کبھی انسان بے خیالی میںبھی کوئی ایسی بات کرجاتا ھے کہ جس کانتیجہ بہت بھانک ثابت ھوتا ھے یہ زبان انسان کودنیا و آخرت دونوں میں نقصان پھنچانے میںایک موثر کردار ادا کرتی ھے ۔ یعنی نہ فقط دنیا میں بلکہ آخرت میںبھی اس زبان کے بے جاھلانے کا حساب کتاب ھوگا ۔یھی وجہ ھے کہ اپنی زبان کوقابو میںرکھنے کے لئے متعدد رویات میںتاکید کی گئی ھے ۔
”یتجاھرُ النَّاس بالمنکرات …فَیُنْفِقُ المالُ للغنٰاءِ“[149]
”لوگ منکرات کو علناًانجام دیںگے اورکثرت سے اپنے مال ودولت کو گانے نجانے پر خرچ کریںگے ۔“
آج کے دور میںبھی یھی ھے کہ لوگ بڑے فخر سے اپنے اور اپنی اولاد کے گناہ کبیرہ کو لوگو ں کے سامنے پیش کرتے ھیں۔ ناچ گانے کی بڑی بڑی محفلیں ھوتی ھےں، کہ جس پر بے تحاشہ مال دولت صرف کیا جاتا ھے مثال کے طور پر صرف شادی بیاہ کی تقاریب ھی کو دیکھ لےں اگر کسی شادی میںناچ گانا نہ ھوتو اسے بہت بے رونق اور فضول تقریب سمجھا جاتا ھے اس کے برعکس اگر اس تقریب میںناچنے والے اوروالیاں بلائی جائےںرات پھر مھندی کی رسم کے نام پر رقص ھو بڑے بڑے میوزیکل گروپ کو دعوت دی جائے ،ایسی محافل کو بہت بارونق اور یادگار شادیوں میںشمار کیا جاتا ھے ،حتی آج کل بعض لوگ علماء کے اعتراض سے بچنے کے لئے نکاح وغیرہ کی رسم کو گھر پر مختصرلوگوں کی
موجودگی میں انجام دے دیتے ھےںتاکہ مھمانوں کے سامنے کسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
حضرت امیرالمٴومنین ںفرماتے ھےں:
”یُصبح الآمر بالمعروف ذلیلاً والفاسق فیمالاًیحبُّ اللّٰہ محموداً“[150]
”امر بالمعروف (لوگوں کو واجبات کی تلقین) کرنے والا ذلیل اور گناہ کرنے والا لوگوں کے نزدیک مورد احترام ھوگا ۔
”لیاتینَّ علی الناس زمانٌ یَطرَّفُ فیہ الفاجر و یُقَرَّبُ فیہ الماجن ویُضعف فیہ المنصف“[151]
”لوگوں کے لئے ایک زمانہ آئے گا کہ جب فاجر اور فاسق کا احترام ھوگا اور مداری (ناچنے گانے والے) لوگوں کے نزدیک محبوب ھونگے اور انصاف کرنے والا ضعیف ھو کررہ جائے گا ۔“
آج کی دنیا کی یھی حقیقت ھے ۔ اور کوئی شخص دیندار ی کی بات کرے تو لوگ اسے زھنی مریض اور نجانے کن کن القاب سے پکارنے لگتے ھیںاس کے برعکس اگر کوئی شخص کسی محفل میںفسق و فجور کی بات کرے تو سب بڑی توجہ کے ساتھ سنتے ھیںاور ایسے ھی لوگوں کا احترام بھی کرتے ھیں۔
اور بھی بہت سی علامتیں ھے کہ جواس زمانہ کے لوگوں میںپائی جائیںگی ھم نے اختصار سے کام لیتے ھوئے فقط چند ایک پر انحصار کیا ھے ۔ خداوند ھمیںاور ھماری اولاد کو ان تما م صفات رزیلہ سے محفوظ فرمائے (الھی آمین)
آخری زمانے کے مرد
حضرت محمد (ص)فرماتے ھیں:
”ماترک بعدی فتنة ٌاٴخر علی الرَّجال من النساء“ [152]
”میرے بعد کے لوگوں کے لئے سب سے برا فتنہ وہ ھوگا کہ عورتوں کی جانب سے آئے گا ۔“
بعد والی حدیث میںاس طرح سے بیان ھوا کہ :
”ھلکت الرِّجال حین الطاعت النساء “[153]
”وہ لوگ ھلاک ھوجائیں گے کہ جوعورتوں کی اطاعت کریںگے ۔ “
یعنی عورتوں کے پیچھے چلنے والے لوگ اپنی دنیا اور آخرت کو برباد کربیٹھیںگے ۔
ایک نکتہ کی وضاحت کرتے چلیں کہ یھاں پر مراد ھرعورت نھیںھے ۔ کیونکہ متدین اور مومنات خواتین اس گفتگو سے خارج ھیں۔ ھماری گفتگو ان عورتوں کے بارے میںھے کہ جونہ خود خدا اوررسول(ص) پہ ایمان رکھتی ھیں اور ساتھ میںاپنی اولاد اور شوھر
کو بھی گمراھی کے کنوئیں میںڈھکیلتی ھےں یہ وہ عورتیںھےں کہ جو اپنے شوھر وں کو غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ھےں۔
ایک اور مقام پر ارشاد ھوتاھے :
”لعن اللّہ الرجل لبس لبسة المراٴة والمراٴة لبسة الرجل “[154]
”خداوند لعنت کرے ایسے مرد پر کہ جو عورتوں کا لباس پھنے اوران عورتوں پر کہ جو مردوں کا لباس پھنے ۔“
یہ بات بھی واضح ھے کہ جو آج کل کے جوان اور نوجوانوں میںفیشن کے نام پر ھورھا ھے ھردیکھنے والے کی آنکھوں کے سامنے ھے ۔ ایک اور اھم مسئلہ کہ جوآج کی دنیا میںایک رائج اوربہت سے ممالک میںرسمی حیثیت بھی اختیار کرچکا ھے وہ ھم آمیزی کا مسئلہ کہ مردمرد سے اور عورت عورت سے شادیاں کررھے ھیں۔ اسی کے بارے میں متعدد روایات چودہ سو برس پھلے ھمارے معصومین علیھم السلام سے وارد ھوئی ھےں۔
مانند:
”اذا رکب الذکور الذکور والاناث الاناث “[155]
”جب مرد مردوں کے ساتھ اور عورتیں عورتوں کے ساتھ ھم بستری کریں“۔
”اذا اکتفی الرجال بالرجال والنساء باالنساء “[156]
”جب مردوں کے لئے مرد اورعورتوں کے لئے عورتیںکفایت کریں۔ “
اور بھی بہت سی روایات اس بارے میں وارد ھوئی ھیں لیکن ھم اسی پر اکتفاء کرتے ھیں ۔!
”تکون معیشة الرَّجل من دبرہ ومعیشة المراٴة من فرجھا“[157]
”مردوعورت ذریعہ معاش اپنی شرمگاھوں کو بنائیںگے ۔“
یہ بات نہ فقط دنیا غرب میںبلکہ دنیا اسلام میں بھی عام ھوچکی ھے ۔ اورھر خاص و عام کے لئے روز روشن کی طرح واضح ھے۔ اسی کے بارے میںمولائے متقیان علیہ السلام فرماتے ھیں:
”ویری الرجل من زوجتہ القبیح فلا ینعاھا ولایردُّ ھاعنہ ویاٴ خُذُ ماتَاٴْتِیْ مِنْ کدِّ فرجھا وَمِنْ مُفْسِدِ حِذرھاحتی لونُکِحَتْ طولاً وعرضاً لم ینہھا ولایَسْمَع مَاوقع فَذاکَ ھوالدَّیُّوْثَ“[158]
”مرداپنی عورت سے انحراف جنسی دےکھے گا لیکن اسے منع نھیں کرے گا ۔ اور جواس عورت نے جسم فروشی سے کماھویااسے لیکر کھائے گا۔ اور اگر یہ برائی اس عورت کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میںلے لے پھربھی منع نھیںکرے گااورجوکچھ انجام دیا جارھا ھواور اس کے بارے میں کوئی بات کرے تو سننے کو تیار نھیںھوگا اور یھی شخص دیوث (بے غیرت )ھے۔“
ھاں آج کے زمانے میں ایسی بھی بہت سی مثالیںمل جائیں گی حتی مسلمانوں کے درمیان بھی ایسے کئی واقعات آئے دن عدالتوں کی فائلوں میںاپنے وجود کی سیاھی سے قلم زن ھوتے رہتے ھیں۔
امام صادق(ع) اس طویل روایت میںفرماتے ھیں:
”وَراٴیت الفِسْقَ قَدْ ظَہَرَواکتفی الرجال بالرجال والنساء باالنساء وَرَاٴیْتَ الرِّجال یَتَسمَنَّونَ للرجال والنِّساءَ وَرَاٴیْتَ الرِّجل معیشة من دبرہ ومعیشة المراٴة من فرجھاوَاعطَوالرجالَ الاموال علی فروجھم وتُنُوفِسَ فی الرَّجل وتغایرعلیہ الرجال … وَرَاٴیْت الرجل یُعَبَّرُعلی اتیان النساء … وَرَاٴیْت العقوق قد ظَہَرَ واستُحِفَّ بالوالدین وکانا من اٴسوَاٴالناس حالاًعندالولدوَرَاٴیْت اعلامَ الحَقِّ قد درسَتْ فَکن علی حَذَرٍ واطلُبْ الی اللّہ النجاة واعلم انّ الناس فی سُخْط ِاللّہِ عَزَّوجلَّ واِنَّما یُمْہِلُہُمْ لاٴَمرٍیُرَادُ بِھم فَکُنْ مُترَقِّباًواجتھد اٴنْ یراک اللّہُ عزَّوَجَلَّ فی خلافِ ماھم علیہ “[159]
”اوردیکھوگے کہ گناہ عام ھوچکے ھوں ،مرد مردوں سے اور عورت کو عورتیںپسند کریںمرد مردوں کےلئے آرائش کرےں اور عورت عورتوں کے لئے بناوسنگھار کریں۔ مردوں اورعورتوں کا ذریعہ معاش ان کا اپنا وجود بن جائے ،مرد جنسی مسائل کےلئے
اپنا مال ودولت دل کھول کرخرچ کریں۔ مردوں کےلئے عورتوں کی طرح غیرت اور حسادت پیدا ھوگی (مردوں کے اوپر مرد جان جھڑکیںگے ) مردوں کا جنس مخالف سے ھمبستری پر مذاق اڑے گا ۔ عاق والدین عام ھوجائے گا ۔والدین اپنی اولاد کے سامنے ذلیل اور رسوا ھوجائیں گے اور ھرکوئی دوسرا شخص والدین سے زیادہ اھمیت کا حامل ھوگا ۔ حق کی نشانیا ںختم چکی ھونگیںاس زمانے میںخدا کے غضب سے ڈرو اورخداوند سے نجات طلب کرو ۔ جان جاؤکہ لوگ موردغضب الٰھی ھےںاورخداوند بعض چیزوں کی وجہ سے ان کومھلت دیتا ھے ۔ کوشش کروکہ خداوند تم کو ان کی حالت سے مختلف حالت میںدیکھے۔اورکتنے کم لوگ ھیںکہ جواپنے آپ کو ان برائیوںسے بچانے کی کوشش کرتے ھیں۔“
آخرزمانے کی عورتیں
عورت کہ جو اسلام میںایک بلند مرتبہ کی حامل ھے ۔اس کو ماں،بیٹی ،بھن اوربیوی جیسے مقدس رشتوں سے نوازا ھے اگر وہ اپنی قدر نہ کرے تو نہ فقط وہ بلکہ اپنے ساتھ اورچاروں طرف رھنے والو ں کو جھنم کی آگ میںڈھکیل کرلے جاتی ھے ۔ وہ اپنا مقام بھلا بیٹھی ھے کہ جس کے پاؤں کے نیچے جنت قراردی گئی ھے۔ تعالیم اسلام اورقرآن سے دور ھونے کانتیجہ یھی نکلتا ھے کہ نہ فقط خودگمراہ ھوتی ھے بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی گمراہ کرڈالتی ھے اور اس کے برعکس ایسی مومنہ خواتین کی مثالیں بھی بہت ھیںکہ جو اپنے گمراہ شوھر اور گھروالوں کو اپنے دین اور ایمان کی طاقت کے ذریعے راہ راست پہ لے آتی ھےں،یہ عورت ھے کہ جو معاشرے میںصحیح اور سالم فرزند مھیا کرتی ھے ، یہ عورت گھر کی چاردیواری میںرہ کر وہ عظیم ذمہ داری ادا کرتی ھے کہ جو مرد میدان جنگ میںادا نھیں کرسکتے یھی ایک شریف اور باسعادت انسان کی تربیت کرتی ھے ۔
ھاں اگریھی گوھر اپنی قیمت بھول کر گمراہ ھوجائے توپورے معاشرے کو گندا کردیتی ھے کہ جس کی گندکی بدبو کئی نسلوں تک آتی رہتی ھے ۔
آخر زمانہ میں عورتوں کا فساد پھیلانے میںبہت بڑا کردار ھے ۔
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں :
”کیف بِکم اذا فسدت’نسائکم وفَسَقَ شَبابُکم ولم تاٴمروا بالمعروف بل امرتم بالمنکر ونھیتم عن المعروف واذا راٴ یْتُم المعروفَ مُنْکِراً والمنکرَ معروفاً فقیل لہ:ویکون ُ ذالک یارسول(ص) اللّہ؟فقال(ص) :نَعَمْ ،وشَرٌ مِنْ ذالک“[160]
”کیا ھوگا کہ تمھاری عورتیںفاسد ھوجائیں اور تمھارے جوان فسق وفجور کرنے لگیںاورتم بھی امر باالمعروف کی جگہ امر باالمنکر اور معروف سے نھی کروگے ۔ معروف کو منکر جانواور منکر کو معروف سمجھو۔لوگوں نے سوال کیا : آیا ایسا بھی کبھی ھوگا ؟ آپ(ص) نے جواب دیا: ھاں اور اس سے بھی زیادہ برا ھوگا۔“
”اذا شارکَت النِساءُ ازواجَہُنَّ فی التجارة حرصاً علی الدنیا“[161]
”جس وقت عورتیںدنیا کی حوس میںاپنے شوھروں کے ساتھ تجارتی معاملات میںشریک ھوجائیں۔“
آج کل توبات اس سے آگے بڑھ چکی ھے کہ اب تو خواتین مستقل طور پر سب سے علیحدہ ھوکراپنے لئے تجارت کرنے لگی ھیں اور یہ ایک عام سی بات بن چکی ھے ۔
”ویَتَشَبَّہُ الرجالُ النساء والنساء بالرجال“[162]
”مرد خود کو عورتوں کی صورت میںاور عورتیںاپنے آپ کو مرد وں کی شکل میںظاھر کریں۔“
ایک اور مقام پرفرماتے ھیں:
”سیکون فی آخرِاُمَّتِیْ رجالٌیرکب نسائُھم علی سروج کاشباہ الرِّجال یَرْکبون علی المیاثر حتی یاتوا ابوابَ المساجدِنسائُہُمْ کاسیاتُ عاریاتٌ علی رُوٴُوسِہِنَّ کاٴَسنِحَةِ البُخْتِ العجافِ لایَجِدْنَ رِیْحَ الْجَنَّة فالعَنُوْھنَّ فانہُنَّ ملعوناتٌ“[163]
”آخر زمانے میںکتنے ایسے مرد ھونگے کہ جن کی عورتیں مردوں کی طرح زینوں پر (گھوڑے کی زین سے مراد آجکل کی مرسوم سواریاں ھیں)سوار ھونگی تشک کے اوپر بیٹھیں گی اور مسجد تک آئیں گی ان کی عورتیںلباس پھننے کے باوجود عریاں نظر آئیں گی ان کے سر اونٹ کے کوھان کی طرح ھونگے وہ لوگ جنت کی خوشبو بھی نھیں پا سکیں گی
ان پر لعنت بھیجو کیونکہ وہ سب ملعون ھیں۔“
بات بالکل واضح ھے کہ آج کل کی عورتیںجس طرح مردوں سے برابری کے نام پر سڑکوں پر نکل آتی ھیں۔ ھرقدم پہ مردوں کے ساتھ رھنے کےلئے اپنے آپ کو ایک متمدن (اپنی دانست میں) بنا کرپیش کرتی ھیں ایک طرف سے تو مردوں کی نقل میںانھی کارنگ اورڈھنگ اپنا لیتی ھےں، مثال کے طور پرایک ھی مورد لے لےجئے کہ بعض عورتوں نے اپنے بال اس طرح سے کٹوائی ھیںکہ پیچھے سے دیکھنے والا شک میںپڑ جاتا ھے کہ کوئی عورت ھے یا مرد اوراسی طرح سے بعض مرد بھی اپنے بال اتنے لمبے رکھنے لگے ھیںکہ کچھ لمحہ کوعقل مبھوت ھوجاتی ھے کہ مرد ھے یاعورت اور ایسی بے تحاشہ مثالیںاس بارے میںموجود ھیں۔
روایت میں زین اور تشک سے مراد آج کی مرسوم سوریاں ھیںکہ جو موٹر سائیکل اور کار وغیرہ کی صورت میںھے ۔ اور کپڑے بھی ایسے ھی پھنے جانے لگے ھیںکہ جس سے پورا جسم عریان نظر آتا ھے ۔ اوریہ سب باتیںسرعام ھیںشاید ھی کوئی شخص ایسا ھوکہ جو حال حاضر میںان تمام چیزوں کی موجودگی کا انکار کرے ۔انھی کپڑوں کے بارے میں ایک اور مقام پر فرماتے ھیں:
”لاتقوم الساعة حتی تظھر ثیابٌ تلبسھا نساءٌ کاسٰاتٌ عاریاتٌ وتعلو التَّحوت الوُعُولَ “[164]
”قیامت برپا نھیںھوگی مگر اس وقت کہ جب ایسے لباس بنائے جائیں گے کہ
جن کوپھن کرعورتیںعریاں ھی رھیںگی اور اوباش لوگ شرفاء پر برتری حاصل کر لیںگے۔ “
ھاں!یہ انھی کپڑوں کی بات ھورھی ھے کہ جو سرعام بازاروں میںبک رھے ھیں۔ حتی خاندانی لوگ اورشرفاء کے درمیان میں بھی اس لباس کو بہت زیادہ مقبولیت ھے، ھرایک اس کو پھن کراپنے آپ کا زمانے کے ساتھ چلنے کا ثبوت دے رھا ھے ۔
”واذا راٴیت المراٴة تصانع زوجھا علی نکاح الرجال ۔۔۔ و راٴیت خیربیتٍ یساعد النساء علی فِسْقِہِنَّ“[165]
”جب دیکھو کہ عورت جانتے ھوئے کہ اس کاشوھر ھم جنسی کررھا ھے لیکن کچھ ظاھر نہ کرے ۔ اور دیکھو کہ اچھے اچھے گھروں میںعورت کو فاسقہ اور فاجرہ ھونے پر داد مل رھی ھو۔“
ھاں آجکل آزادی کے نام ھرشخص (بیوی اور شوھر) ایک دوسرے کے عیوب سے آگاہ ھوتے ھوئے بھی کوئی قدم نھیں اٹھاتے ھیںتاکہ ھرایک اپنی اپنی حیوانی خواہشات پر بغیر کسی رکاوٹ کے عمل کرسکیں ۔ خداپرتوایمان چھوڑ ھی چکے ھیںدنیا کی رکاوٹوں کو آزادی کا نعرہ لگا کرراستہ سے ہٹا دیا ھے ۔
”اذا رفعوا البنیان وشاوروا النسوانَ ویکثُرُ الاختلاط“[166]
”جب اونچی اونچی عمارتیںبننے لگیں، عورتوں سے مثورہ لیا جانے لگے عورتوں
اور مردوں کا محافل میں اختلاط بڑھ جائے۔“
عمارتیں بھی سبھی دیکھ رھے ھیں۔ عورتوں کے حقوق (women Rigth ) کے نام پرھرجگہ عورتوں کو لایا جارھا ھے ۔ زندگی کے ھرشعبہ میںخواتین کو شامل کر لیا ھے صرف یہ ظاھر کرنے کے لئے کہ عورت اور مرد مساوی ھےں۔لیکن اس حقیقت اور واقعیت سے چشم پوشی کرلی ھے کہ عورت اور مرد کی ساخت میںکچھ بنیادی فرق رکھا گیا ھے ۔ عورت کوخداوند متعال نے خاص نزاکت اور عفت کے ساتھ خلق کیا ھے اس کااصل حسن ھی اس کی حیا اور عفت ھے اور اگر اس حیا اورعفت کو اس سے چھین لیاجائے تو پھر وہ اپنے اس مقدس مقام سے گر پڑتی ھے کہ جس کےلئے اسے خلق کیا گیا ھے ۔ جیسا کہ پھلے بھی عرض کیا ھے کہ اس کو اتنے مقدس رشتہ عطاھوئے ھیں مانند ماں،بھن،بیوی…
حتی اس کی مثال ایسے لے لیںکہ جومرد بھی ان حیوانی شھوات کاشکار ھوں اورآئے دن مختلف عورتوں سے ان کے تعلقات رہتے ھوں لیکن وھی مرد کبھی بھی ایسی عورتوں کو اپنی بیوی اوراپنے بچوں کی ماں بنانا پسند نھیںکریںگے کیونکہ یہ عورت کہ جس کی زینت اس کی حیااورعفت میںتھی اب کھوچکی ھے ۔
”اذا راٴیت المراٴة تقہُرُ زوجَھاویعمل مالایشتھی و تنفق علیہ مِنْ کسبھافیرض بالدنیءِ من الطعام والشراب !“[167]
”جب دیکھو کہ بیویاں اپنے شوھروں کے ساتھ بدزبانی کریںاور ان کی مرضی کے خلاف عمل کریں اپنے کمائی ھوئے پیسوں میں ان کو بخشیں اور ان کے شوھر بہت ھی معمولی سے مال ودولت کی وجہ سے ان کی بری عادتوں کو برداشت کرےں۔“
اب یھی زمانہ ھے حتی وہ خواتین کہ جوصحیح راستہ سے بھی نوکریاں کرتی ھیں۔ مختلف دفتروں میں کام کرتی ھیںعام طور پر ان کا اخلاق اپنے شوھروں کے ساتھ حاکمانہ ھوتا ھے صرف اس وجہ سے کہ وہ بھی پیسہ کماکرلارھی ھےںاور ان کے شوھربھی اسی بات پر چپ ھوجاتے ھےں کہ چلوکچھ بھی سھی کماتو رھی ھے ۔
ایک اور اھم مسئلہ کہ جو ھمارے معاشرے میںعام ھے اور وہ ھے خواتین کاحکومت کرنا۔ اکثر محافل میںیہ بحث رہتی ھے کہ آیا کوئی عورت صدر یاوزیر اعظم بن سکتی ھے یا نھیں ؟ مغربی ممالک تو کیا مشرقی اور اسلامی ممالک میں بھی عورتوں کی حکومت رہتی چلی آرھی ھے ۔ کبھی کسی خطہ میںکبھی کسی ملک پر ۔ اس بارے میں ختمی مرتبت(ص) فرماتے ھیں:
”لنْ یُفْلِحُ قَوْمٌ ولَّوا اٴمرَھم اٴِمراٴةٌ“[168]
”وہ قوم کبھی بھی فلاح نھیںپاسکتی کہ جس کی رھبری کسی عورت کے ھاتھ میں ھو۔“
ایک اور مقام پر فرمایا:
”لایُقَدِّس اللّہ اُمَّةًقادتْہُمْ اٴِمراٴة“[169]
”خداوند کبھی اس قوم کو تقدس نھیں بخشے گا کہ جس کی رھبری کسی عورت کے پاس ھو۔“
یہ دنیاوی سیاستیںکہ جو چند سال اور چند ماہ سے زیادہ نھیںھوتیں،دنیا والے کیا کیا قربانیاں نھیںدیتے اس حکومت کے لئے ۔،انسان اپنے مطلب کی خاطر اور کرسی کی محبت میںھرکام کرگزرتا ھے آج اگر ھمارے مفاد میںھوجائے کہ کسی عورت کی رھبری قبول کرنی پڑے تو وہ بھی کرلیںگے ،اگر ھمارے مفاد میںھوجائے کہ کسی کافر کو آکر اپنے سروں کاتاج بنائےںتو وقت کی ضرورت کا نام لیکر وہ بھی انجام دے لیںگے ، غرض یہ کہ یہ تمام چیزیںھمارے مفاد کے گرد گھومتی ھیں تو پھر نتیجہ واضح ھے کہ معاشرہ اور عوام کی فلاح کیسے ممکن ھو سکتی ھے کہ جب انسانی معیارات ختم ھوجائیں ”انسانیت کے حقو ق“ ایک نعرہ بن کررہ جائیں اور ھرطرف لوٹ مار کابازار گرم ھو،ھرشخص اپنی جیب گرم کرنے میںمصروف ھوجائے ۔ ھرایک کی یہ کوشش ھے کہ اس آتے ھوئے وقت سے پوری طرح سے فائدہ اٹھایاجائے تو چلو ھم بھی بہتی گنگا میںھاتھ دھولیں۔ کاش کہ بات خالی ھاتھ دھونے کی ھوتی تو صبر آجاتا یھاں تو کئی مرتبہ پوراغوطہ لگانے کے باوجود بھی طبیعت سیرھوتی نظر نھیںآرھی ھے ۔
اسی بارے میں مولائے متقیان حضرت علی ں فرماتے ھیں:
”اذا غلبتِ النساء علی الملکِ وغلَبْنَ کل امرءٍ فلایوتی الَّا مالَہُنَّ فیہ ھوی“[170]
”جب عورتیںحکومت پر غالب آجائیں اورھرمرد سے برتری لے جائیں اورسوائے ان کی مرضی کے کوئی کام نہ ھو۔“
ظاھر ھے وہ عورت کہ جو اگر گھر پہ غالب آجائے تو کسی کو اپنی مرضی کے بغیر ھلنے نھیںدیتی ھے تو وہ حکومت کی کرسی پر بیٹھ کر کیسے کسی کو برداشت کرے گی ۔ اگرچہ یہ بات فقط خواتین سے مخصوص نھیںھے جو کوئی بھی خداوند سے دور ھوگا اس سے ایسی ھی توقعات کی جاسکتی ھےں۔اورعورتوں کو کہ جنھیں خاص مقدس اور محترم مقاصد کے لئے خلق کیا گیا ھے اپنے کمال کے راستہ کو چھوڑ کرجھنم پر چل نکلتی ھیںاور آخر میںاسی طرح سے گمراھی کے دلدل میںپھنس کر رہ جاتی ھےں۔ایسی ھی عورتوں کے بارے میںامیر الموٴمنین علیہ السلام فرماتے ھیں:
”تکون النسوةُ کاشفاتٍ عاریاتٍ متبرجاتٍ من الدین خارجاتٍ والی الفتن مائلاتٍ والی الشھواتِ واللذاتِ مسرعاتٍ للمحرماتِ مستحلاتٍ وفی جھنَّم خالداتٍ“[171]
”عورتیں عریاں ظاھر ھونگی ،اپنی زینتوں کو سب پر ظاھرکریںگی، دین سے خارج ھوجائیںگی ،شھوات اوردنیاوی لذتوں کے پیچھے جایا کریںگی اور حرام چیزوں کو اپنے اوپر حلال کریںگی اورھمیشہ ھمیشہ کےلئے جھنم کی آگ کا ایندھن بن جائیںگی۔“
آج یہ ساری باتیںعمل کی صورت میںظاھر ھوچکی ھےں۔صرف ایک چیز کہ جو ابھی تک ظاھر نھیں ھوسکی ھے وہ ان کاجھنم میںرھنا ھے ۔ اگر چہ کہ ایسے لوگوں کی جھنم کا آغاز ان کی دنیا ھی سے ھوجاتا ھے ۔ یہ لوگ اپنی زندگی ھی میںایسی مشکلات کا شکا ر ھوجاتے ھیںکہ جس کے سبب ان کازندہ رھنا عذاب بن کر رہ جاتا ھے ،ان عورتوں پر
ایک ایساوقت آتا ھے کہ کوئی ان سے بات کرنے کو تیا نھیںرہتا ۔ یھی کتنا بڑا غذاب ھے ایسی عورت کے لئے کہ جوکل تک ھر محفل کی ز ینت بنا کرتی تھی آج کسی سے بات کرنے کے قابل نہ رہ پائے ۔
اس کے برعکس وہ لوگ کہ جو خداوند متعال کے عبادت گزارھوں جس قدر ان کی عمر میں اضافہ ھوتا رہتا ھے ان کی عزت و احترام لوگوں کے درمیان بڑھتا رہتا ھے چاھے یہ کہ ان کی دینداری کی وجہ سے انھیں ناپسند بھی کیا جاتا ھو مگر برے وقتوں میں انھیںکے پاس پناہ لی جاتی ھے، ھاں ایسے موقع پر اگر یہ عورتیں پلٹ کرآنا چاھیں تو ممکن ھے انھیں بھی وھی جواب ملے کہ جو دریا میں غرق ھوتے وقت فرعون کو ملاتھا ۔
”اٴلئٰن وقد عصیت قبلُ وکنتَ من المفسدین۔“[172]
”اب جبکہ تم اس سے پھلے نافرمانی کرتے تھے اور فساد پھیلانے والوں میںسے تھے ۔“
آخر کار ایسی عورتیںوھاں جاپھنچیںگی کہ جس کی اطلاع ھمیںیوں دے دی گئی ھے ۔ ارشاد رب العزت ھے :
”اذا راٴتھم من مکان بعید سمعوا لھا تغیُّظاً وزفیراً واذا القُوا منھا مکاناً ضیِّقاً مقرَّبین دَعَوا ھنا لک ثبوراً“[173]
ترجمہ:”جب جھنم ان لوگوں کو دور سے دیکھے گی تو(جوش کھائے گی اور)یہ لوگ اس کے جوش وخروش کی آواز سنیں گے اور جب یہ لوگ زنجیر وں سے جکڑ کر اس کی تنگ جگہ میں جھونک دئے جائیں گے تو اس وقت موت کو پکاریں گے۔“
آخری زمانے کے علماء اور رھبر ان قوم کی خصوصیات
حضو اکرم (ص)کا فرمان ھے :
”صنفان من الناس اذا صلحا صلح الناس واذا فسد ا فسد الناس : العلماء والامراء “[174]
”لوگوں میںسے دو صنفیں اےسی ھیںکہ اگر وہ اصلاح ھوجائیں تو لوگ بھی اصلاح ھوجائیں گے اور اگر فساد کرنے والے ھوجائیں تو لوگ بھی فساد کرنے والے ھوجائیں گے ایک عالم اور دوسرے رھبران قوم ۔“
ایک اور مقام پر ختمی مرتبت (ص)فرماتے ھیں :
”اذا کانت امراوٴکم اشرار کم واغنیائکم بُخلائکم وامورکم الیٰ نسائکم فبطن الارض خیرٌ من ظھرھا۔“[175]
”جب تھارے رھبران تم میںسے بدترین لوگ ھوں اور تمھارے مالدار لوگ تم میں بخیل بن جائیںاور تمھارے کاموں کو تمھاری عورتیںچلائیں تو اس وقت زمین کے اندر رھنا اس کے اوپر رھنے سے بہتر ھے ۔ “
مراد واضح ھے کہ ایسی صورت میںمرجانا ھی بہتر ھے کیونکہ اس وقت کسی سے کسی نیکی کی امید نھیںکی جاسکتی ھے ۔ ایسی صورتحال میںپورے معاشرے کا حساب و کتاب درھم برھم ھو کررہ جائے گا۔
پیغمبراسلام (ص)فرماتے ھیں:
”ستکون علیکم ائمة یملکون علیکم ارزاقکم یحدثونکم فیکذبونکم لا یرضون منکم حتی تحسنوا قبیحھم وتصدِّقوا کِذْبَہُمْ۔“[176]
”تم پر ایسے حکومت کرنے والے مسلط ھوجائیںگے کہ جن کے ھاتھ میں تمھاری روزی ھوگی تم سے جھوٹ بولا کریںگے ۔ تم سے راضی نھیںھوں گے سوائے اس صورت میں کہ تم ان کے غلط کاموں کی تعریف کرو اور ان کی جھوٹی باتوں کی تصدیق کرو۔“
ظاھر ھے کہ جب معاشرے میں نااھل لوگ حکومت کریں گے تو چاپلوسی کا بازار گرم ھوجائے گا اورلوگ حقیقی معیار کو چھوڑ کرظاھری شان وشوکت سے مرعوب ھوکر ان ھی کے پےچھے چل پڑیں گے ۔
اسی طرح سے امام محمد باقر علیہ السلام نااھل اور جاھل علماء کے بارے میںبیان کرتے ھیں: ”من افتی الناس بغیر علم ولاھدی من اللّہ لعنة ملائکة الرحمة وملائکة العذاب ولحقہ وِزرُ من عمل بِفتیاہ “[177]
”جوکوئی بھی بغیر جانتے ھوئے فتوی دے تو رحمت اور عذاب کے فرشتے اس پر لعنت بھجیں گے ۔ اور ان کے فتوا پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی خود انھی کی گردن پر ھوگا ۔ “
اب ھوشیار رھنے کاوقت ھے کہ ھمیںعلماء اھل علم اورجاھل علماء کے درمیان فرق رکھنا ھوگا ۔ کھیں ایسا نہ ھوکہ ھم خود بھی اسی گناہ میں مبتلا ھوجائیں اورلوگوں کے درمیان غلط معیار بتلاکر مستحق عذاب بن جائیں۔
اس سلسلے میں اس سے زیادہ گفتگو کو جاری نھیںرکھنا ھے کیونکہ یہ ایک واضح سی بات ھے آج ھم مسلمان پورے دنیا میںاتنی بڑی تعداد میں ھوتے ھوئے بھی کفار غرب وشرق کے غلام بنے ھوئے ھیںوہ جیسے چاہتے ھیںھمیں چلاتے ھیں اسلامی مما لک کے مال ودولت کو لوٹتے ھیںمگر ھم زرہ برابر بھی کچھ نھیںکرپاتے کیونکہ ھماری حکومتیںانھی ظالموں اور کافروں سے وابستہ ھیں۔ اورجب تک یہ وابستگی اور خیانت جاری رھے گی مسلمان قومیں ذلیل ھوتی رھیں گی۔ اس سلسلے میں ایک آخری حدیث امیر المومنین علی ںسے نقل کرکے اپنی گفتگو کو تمام کرتے ھیں:
”اذا خرج القائم ینتقم من اھل الفتوی بما لایعلمون فتعسالھم ولاٴتباعھم اوکان الدین ناقصاًفتمَّمُوہ ام کان بہ عِوَ ج فقوموہ ام ھم
النَّاس بالخلاف فاطاعوہ ام امر ھم بالصواب فعصوہ ام ھمَّ المختار فیما اوحِیَ الیہ فذِّکرہ ام الدین لم یکتمل علی عھدہ فکمَّلوہ ام جاء نبی ُ بعدہ فاتبعوہُ“ [178]
”جس وقت ھمارے قائم(عج) کاظھور ھوگا جو لوگ بغیر جانتے ھوئے (بغیر علم کے ) فتوی دیتے ھونگے ان سے انتقام لیںگے ۔ وای ھو ان پر اور ان کے پیرکاروں پر۔ آیا دین خدا ناقص تھا جوانھوں نے آکر کامل کیا؟ آیا دین خدا میںانحراف تھا جوانھوں نے آکرصحیح کیا؟ یا لوگ انحراف کی طرف جارھے تھے کہ جوان کی پیروی کی گئی ؟یالوگوں کو سچے راستے کی جانب رھنمائی کی گئی لیکن لوگوں نے مخالفت کی ؟ آیا رسول(ص) پرجووحی نازل ھوئی تھی وہ اس میںسے کچھ چھوڑ چکے تھے جوتم نے آکر یاد کرایا؟ یا رسول(ص) کے زمانے میں دین کامل نھیں ھوا تھا جو تم نے آکر مکمل کیا ؟آیا آپ(ص)کے بعد کوئی اور بھی پیغمبر آیا ھے کہ جس کی تم نے پیروی کی ھے ۔؟“
اس بیان امیر الموٴمنین ںسے شک وشبھات رفع ھوجاتے ھیں۔ اگرچہ بظاھر امیرالموٴمنین ں اپنے زمانے کے حالات کو نظر میں رکھ کرفرمارھے ھیںمگر یہ معصوم(ع) کا قول قیامت تک ھمارے لئے مشعل راہ ھے اورھمیںاس بات سے روکنا ھے کہ دین خدا وند متعال میںکسی بھی قسم کی جدیت اورردوبدل کی گنجائش نھیںھے ۔
عمومی علامات ظھور
نا گھانی موت اور ویرانی و بربادی
اس سلسلے میں اگرچہ روایات بہت کثرت کے ساتھ بیان ھوئی ھیں لیکن ھم کوشش کریں گے کہ اختصار سے کام لیتے ھوئے اکثر علامات کو بیان کردیں۔
حضرت ختمی مرتبت (ص)فرماتے ھیں:
”اِنَّ عمران بیت المقدس خراب یثرب وخراب یثرب خروج الملحمة وخروج الملحمة فتح القسطنطنیہ وفتح القسطنطنیہ خروج الدَّجال۔“[179]
”بیت المقدس کے آباد ھوتے ھی مدینہ (یثرب) ویران ھوجائے گا اورمدینہ کے برباد ھونے سے جنگ شروع ھوجائے گی اس کے بعد قسطنطنیہ فتح ھوجائے گا پھر دجال کا ظھورھوگا۔“
بےت المقدس کی آبادی تو اسرائیل کے ھاتھوں شروع ھوچکی ھے کہ جس کے بعد مدینہ کی بربادی اور پھر سفیان کا خروج کرنا ھے ۔
ایک اور مقام پر ارشاد ھوتا ھے :
”تکثرالبواسیر وموت الفجاةولجذام“ [180]
”(جس وقت)بواسیراور اچانک موت اورجذام زیادہ ھوجائے۔“
”واماالزوراء فتخرب من الوقایع والفتن واما واسط فیطغیٰ علیھاالماء وآذربیجان یھلک اھلھا بالطاعون وامالموصل فیھلک
اھلھا من الجوع والفلاء واما الحلب فتخرب من الصواعق و تخرب دمشق من شدةالقتل وامابیت المقدس فانہ محفوظة لان فیہ آثارالانبیاء“[181]
”شھرزورا( فتنہ وفساد کی وجہ سے برباد ھوجائے گا شھر واسط (عراق)سیلاب میں بھرجائے گا آذربائیجان کے لوگ طاعون کی وجہ سے ھلاک ھوجائیںگے ،موصل (عراق) کے لوگ بھوک اورمھنگائی سے مرجائیںگے ، حلب(سوریہ)صاعقہ (آسمانی بلاوٴوں ) کے سبب بر باد ھو جائے گا (دمشق )کشت وکشتار کی وجہ سے ویران ھوجائے گا ۔ لیکن بیت المقدس (یورشیلم ) پیغمبروں (ع) کی نشانیوں کے سبب امان میں رھے گا۔“
اس کے علاوہ اور بھی روایات میں ”صاعقہ“استعمال ھوا ھے ۔ یعنی آسمان سے گرنے والی بجلی ۔آج کی دنیا میںاس کی بہت سی مثالیں ھیںجیسے طرح طرح کے میزائیل وغیرہ دور تک مارنے والی توپیں اورجنگی جھاز وغیرہ ۔ان میںسے ھرایک سوائے تباھی اوربربادی کے کچھ نھیںکرتا آج پوری دنیا میںھم اس کی مثالیں اپنے چاروں طرف دیکھ سکتے ھیںاوران تمام ہتھیاروں میں دن بدن جدت آتی جارھی ھے ۔ اگر اپنے اطرف کے سیاسی حالات اورواقعات کونظر میں رکھیںتو یہ دن کوئی دور نھیں کہ جب ھمیں یہ واقعات رونما و ھوتے ھوئے نظر ائیں۔
مصر کے بارے میں روایات میں ملتا ھے :
”لایخرج اھل مصرمن مصرھم عدولھم ولکن یخرجھم نیلھم
ہذا یغورفلاتبقیٰ منہ قطرة“[182]
”مصر کے لوگوں کو ان کے ملک سے کوئی بیرونی دشمن نھیںباھر نکالے گا بلکہ خود دریائے نیل ان کو باھر نکالے گا۔ اس کاپانی بالکل خشک ھوجائے گا اورحتی ایک قطرہ بھی اس میں باقی نھیں رھے گا۔“
رسول گرامی (ص)فرماتے ھیں:
”وخراب مصر من جفاف النیل “[183]
”مصر دریائے نیل کے خشک ھونے سے برباد ھوجائے گا۔“
کوفہ کے بارے میں روایات میں ملتا ھے:
”وینبثق الفرات حتی یدخل اٴذقة الکوفة وعقدالجسرممایلی اکرخ بمدینة بغداد۔“[184]
”فرات کے پانی میںطغیانی آجائے گی اور کوفہ کے گلی کوچوں میں پانی بھرجائے گا ۔ کرخ کے سامنے بغداد میں پل تعمیر کیا جائے گا ۔ “
یہ پانی کا طغیان کرنا ظاھراً ابھی تک واقع نھیں ھوا ھے لیکن بغداد میں کرخ کے سامنے پل تعمیر ھوچکا ھے ۔
آگ وآتش کاتباھی مچانا
حضور اکرم (ص)فرماتے ھیں:
”یکون نار و دخان فی المشرق اربعین لیلة“[185]
”آتش اوردھواں مشرق سے چالیس دنوں تک نکلتا رھے گا ۔“
امام صادق ں فرماتے ھیں:
”لاتقوم الساعة حتی تسیل وادمن اودیة الحجاز“[186]
”قیامت نھیںآئے گی مگر یہ کہ حجاز کی کسی ایک وادی سے آگ بھڑکے گی ۔“
سید الشھداء امام حسینں فرماتے ھیں:
”اذا رائتم ناراًمن المشرق ثلاثة ایام اوسبعة فتوقعوا فرج آل محمد ان شاء اللّہ“[187]
”جس وقت مشرق میںتین دن تک آگ دیکھو تو حضرت آل محمد(ص) کے فرج کے منتظر رھو انشاء اللہ ۔“
سورج اورچاند گھن
امام محمد باقرں فرماتے ھےں :
”آیتان تکونان قبل قیام القائم لم یکونا مُنْذُ ھبط آدم علیہ
السلام علی الارض تنکسفُ الشمس فی النصف من رمضان والقمر فی آخرہ ۔“[188]
”حضرت(عج) کے قیام سے پھلے دونشانیاں ظاھر ھونگی کہ جو حضرت آدم(ع) سے لے کر اب تک ظاھر نھیں ھوئی ھونگیں۔ رمضان کے درمیان میںسورج اورآخر رمضان میںچاند کا گرھن لگنا ۔“
اس بارے میںاور بہت سی روایات ھیںاگرچہ کہ بعض روایات میںسورج اور چاند گرھن کی تاریخ میںاختلاف پایا جاتا ھے لیکن ان تمام روایات کو اگر مجموعی طور پر دیکھیںتو ایک بات ثابت ھوجاتی ھے کہ ایک ھی رمضان میںچاند اور سورج گرھن دونوں کو گرھن لگنا اگرچہ کہ خلاف عادت ھے لیکن اس کا واقع ھونا حتمی ھے ۔
زلزلے
رسول اکرم (ص)فرماتے ھیں:
”وتکثرالزلازل“ [189]
”بہت زیادہ زلزلہ آنے لگ جائیں۔“
اورایک مقام پر ارشاد فرماتے ھیں:
” ثم رجفة بالشام یھلک فیھامئة الف یجعلھا اللّہ رحمة
للمومنین و عذاباً علی الکافرین ۔“[190]
”سرزمین شام میںزلزلہ آئے گا کہ جس کی وجہ سے ایک لاکھ آدمی مارے جائیںگے خداوند متعال اس زلزلے کو مومنین کے لئے رحمت اورکافروں کے لئے عذاب قرار دے گا ۔ “
البتہ واضح رھے کہ شام سے مراد فقط شھر دمشق مراد نھیںھے بلکہ اس کے اطراف میںلبنان وغیرہ کا علاقہ بھی شامل ھوتا ھے ۔
آسمانی ندا
حضرت ختمی مرتبت (ص)فرماتے ھیں:
”وینادی منادٍمن السماء اِنَّ امیرُکم فلانٌ وذلک ھو المھدی“[191]
”منادی آسمان سے آواز لگائے گا ۔ تمھارا سردار فلان ھے اور وہ مھدی آخرالزمان (عج) ھونگے ۔“
امیر المومنین علی بن ابی طالب ں فرماتے ھیں:
”اذانادی منادٍمن السماء اِنَّ الحق فی آل محمد فعند ذلک یظھر المھدی علی افواہ الناس ویشربون حبَّہ ولایکون لھم ذکرٌغیرہ “ [192]
”جس وقت منادی آسمان سے آواز دے گا کہ حق آل محمد(ص) کے ساتھ ھے ۔ حضرت مھدی (عج) کا نام لوگوں کی زبان پر جاری ھوجائے گا ۔ اور ان کی محبت دلوں میں اجاگر ھوجائے گی اور ان کی یاد کے علاوہ کوئی کام باقی نھیںرھے گا ۔“
اگرچہ اس بارے میںبہت زیادہ روایات نقل ھوئی ھیں۔ اوریہ ایک مسلم بات ھے کہ آپ(عج) کے ظھور کے وقت ندا لگائی جائے گی اورپوری دنیا میںیہ آواز سنی جائے گی ےھاں تک کہ کوئی بھی شخص اس دنیا میںایسا باقی نھیں رھے گاکہ جواس آواز کو نہ سن سکے اور پوری کائنات کے لوگوں پر اس وقت اتمام حجت ھوجائے گی اوریہ وہ وقت ھوگا کہ جب دنیا میںصرف دوگروہ رہ جائیں گے ایک حق اور دوسرا باطل پر ھوگا۔ جو کوئی بھی حضرت ( عج ) کے ھم رکاب ھوگا وہ حق پر ھوگا ۔ اورجوآپ (عج)کی امامت اورولایت کو قبول نھیںکرے گا وہ باطل پر ھوگا کہ جس کی سزا سوائے عبرت ناک موت کے کچھ نہ ھوگی ۔
جنگیں اور فسادات
اس بارے میں رسول اکرم (ص)فرماتے ھیں:
”ینزَّل علی امتی بلاءٌ لم یسمع ببلاءٍ اشد منہ فی تضیق بھم الارض الرّحبةّ“َ[193]
”میری امت پرایسی بلاء نازل ھوگی کہ جو اس سے پھلے نھیںسنی گئی ھوگی ۔ حتی اتنی بڑی دنیا بھی امتیوں کے لئے تنگ ھوکر رہ جائی گی ۔“
آج ھم دیکھ رھے ھیںکہ حق ایسا ھی ھے ۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا بازار گرم ھے اور ھرطرف سے انکو تعصب کی عینک سے دیکھا جارھا ھے حتی آج مسلمان کو اپنے ملکوں میںبھی امان نھیں ھے ان کو مختلف بھانوں سے دربدری اٹھانی پڑرھی ھے ۔حتی اسلامی حکومتیںبھی استعمار کے چنگل سے آزاد نھیں ھے۔ اورآج وھی ھورھا ھے کہ جو دنیا کی استعماری اور طاغوتی طاقتیں چاہ رھی ھیں۔ جنگ بھی ان کے ھاتھ میں ھے اور امن بھی، وہ جس طرح سے چاہتے ھیں عمل کرتے اور کرواتے ھیں۔
انھیں طاقتوں کے بارے میں ارشاد ختمی مرتبت (ص)ھے کہ:
” یکون قوم فی آخرالزمان یخضبون بہذا لسواد کحواصل ِالطیور لا یریحون ریح الجنة۔“[194]
”آخر زمانے میںایک ایسی قوم آئے گی کہ جو اس زمین کو خون سے رنگین کردے گی ،ماؤں کے پیٹ کو مرغی کے پیٹ کی طرح کاٹا کرے گی ۔ ایسی قوم ھرگز جنت کی خوشبو بھی حاصل نھیںکرسکتی ۔“
ایک اورمقام پر فرماتے ھیں:
”ویومئذٍیکون اختلاف کثیر فی الارض وفتن ویصبح الزمان مکلحاًمفصحاً یشتدّ فیہ البلاد وینقطع فیہ الرجاء۔“[195]
”اور اس وقت اختلافات اورفتنہ گری بہت بڑھ چکی ھوگی مشکلات اور قحط ھر طرف چھا چکاھوگا۔ شھروں پر مصبتیں ٹوٹ رھی ھونگی اور امیدیں ختم ھوچکی ھونگیں۔“
اسی سلسلے میںپیغمبر (ص)ایک طویل حدیث میںفرماتے ھیں:
”لتاٴتینکم بعدی اربع فتن ٍ الاولیٰ تستحل فیھا الدماء والثانیہ تستحل فیھاالدماء والاموال والثالثة تستحل فیھا الدماء والاموال والفروج الرابعة صمَّاء عمیاء مطبقة تحور مور السفینة فی البحر حتی لایجد احدٌ من الناس مسلما ً تطیر بالشام وتعشٰی العراق وتخبط الجزیرة یدھا ورجلھا یعرک الانام البلاء فیھا عَرْک الادیم لایستطیعُ احد ان یقول فیھا مہ مہ ! لاترفعونھا ناحیة الَّا انفتقت من ناحیةٍ اخری“[196]
”میرے بعد چار فتنہ برپا ھونگے ۔پھلے میںخون بھانہ مباح ھوجائے گا ۔ دوسرے میںخون اورمال مباح ھوجائے گا اورتیسرے میںخون اورمال اورعصمت مباح ھوجائے گی ، اور چوتھے میںایسا اندھا آشوب بپا ھوگا کہ جو پوری دنیا کو اس طرح مضطرب کردے گاجیسے کوئی بہت بڑا بحری جھاز اپنے چاروں طرف کے پانی کو مضطرب کردیتا ھے ۔ یہ فتنہ شام پر چھاجائے گا اور عراق کواپنی لپیٹ میںلے لیگا اورجزیرة العرب (حجاز) میں ھاتھ پاؤں چلائے گا۔لوگ ان حادثات کی تلخی کو اس طرح احساس کریں گے جیسے دباغی کرتے جسم پر فشارپڑتا ھے ۔ کسی میں بھی ایک جملہ بات کرنے کی بھی جراٴت نہ ھوگی یہ فتنہ ابھی ایک جگہ ختم نھیں ھوگا مگر یہ کہ کسی دوسرے مقام پر برپا ھوجائے ۔“
ان تمام فتنوں کے آثار ھم پوری دنیا پر دیکھ رھے ھیںجو کوئی بھی ھے اپنی طاقت سے زور آزمائی میںلگا ھواھے ۔ طاغوتی قوتیںاپنی طاقت کا استعمال کرتی ھیںجھاں چاہتے ھیں روندتے ھوئے چلے جاتے ھیں۔
اسی بارے میں امیر المومنین علی بن ابی طالبں فرماتے ھیں:
”تخرب سمرقندوجاح وخوارزم والبصرة وبلخ من العراق والھند من تبَّت وتبَّت من الصین وکرمان وبعض الشام لبنابک الخیل والتقل والیمن من الجراد والسلطان وسجستان وبعض الشام بالزنج وشامان بالطاعون ومرو بالرمل وھراة بالحےَّات و مصر من انقطاع النیل وآذربیجان لبنانک الخیل والصواعق و البخاریٰ بالغرق والجوع وبغداد یصیرعالیھا سافلہ“[197]
”سمرقند ،جاح خوارزم ، بصرہ اور بلخ سیلاب کی وجہ سے ویران ھوجائیںگے ھند تبّتیوں کے ھاتھوں اور تبت چین کی وجہ سے نابود ھوجائے گا ۔ کرمان اورشام کاکچھ حصہ گھوڑوں کی ٹاپوںاورقتل وغارت کی وجہ سے برباد ھوجائے گا ۔ یمن ٹڈوں اور بادشاھوں کے ظلم کی وجہ سے نابود ھوجائے گا ۔ سجستان اور شام کا بعض حصہ زنجیوں کے ھاتھوں ،شام طاعون کے سبب ، مرو(مشھد) طوفان کی وجہ سے ھرات سانپوں کے ذریعہ، مصر دریائے نیل کے خشک ھوجانے کے سبب،آذربائیجان گھوڑوں کی ٹانپوں اور صاعقہ (گولہ باری ) کی وجہ سے برباد ھوجائے گا ۔ بخارا میںبھوک اور سیلاب سے تباھی
سے تباھی آئے گی اور بغداد الٹ پلٹ ھوکررہ جائے گا۔“
قتل وغارت کے سبب قتل ھونے والوں کی تعداد کے بارے میں امیر الموٴمنین (ع)علیہ السلام فرماتے ھیں:
”لایقوم حتی یقتل الثلث ویموت الثلث ویبقی الثلث“[198]
”اما م(عج) قیام نھیںکرےںگے یھاں تک کہ دوتھائی لوگ مارے جاچکے ھوں اور فقط ایک تھائی لوگ بچے ھوئے ھوں ۔“
امام محمد باقر ںاس بارے میں فرماتے ھیں:
”لایکون ہذا الامر حتی یذھب ثلثاً الناس فقال:اصحابہ من یبقی فقال اما ترضون ان تکونوا من ثلث الباقی ؟“[199]
”یہ امر(ظھور) انجام نھیںپائے گا مگر اس وقت کہ دوتھائی لوگ مرچکے ھوں گے ، اصحاب نے عرض کیا :پھر کون لوگ باقی بچیں گے ۔ آپ (ع) نے فرمایا:آیا تم لوگ نھیں چاہتے کہ تم لوگ باقی ایک تھائی میںسے ھو؟۔“
جھوٹے دعویداروں کے بارے میں امام جعفر صادق ںفرماتے ھیں:
”کل راٴ یة ترفع قبل قیام القائم فصاحبھا طاغوت یعبد من دون اللّہ عزوجلّ“َ[200]
”جوپرچم بھی حضرت (عج) کے قیام سے پھلے بلند ھوگا اس کا بلند کرنے والاطاغوت ھوگا کہ جوخداوند کے علاوہ کسی اورکی پرستش کرتا ھوگا ۔“
اس بارے میں ایک اورمقام پر فرماتے ھیں:
”کل بیعة قبل ظھور القائم فبیعة کفر ونفاق وحذیعةٍ“[201]
”جو بیعت بھی حضرت(عج) کے قیام سے پھلے لی جائے گی وہ کفر ونفاق اور دھوکہ بازی کی بیعت ھوگی ۔“
رسول (ص)خدا فرماتے ھیں:
” خروج الثلاثة السفیانی والخراسانی والیمانی فی سنة واحدة فی شھر واحد فی یوم واحد ولیس فیھا من راٴیة اھدیٰ من راٴیة الیمانی لانہ ید عو ا الی الحق۔“[202]
”تین پرچم ایک سال ایک مھنے اورایک دن قیام کریںگے سفیانی ، خراسانی اور یمانی اور ان سب میںسب سے زیادہ خالص پرچم یمانی کا ھوگا کہ جوحق کی طرف دعوت دے گا ۔“
امام صادق ں اس یمنی شخص کے نسب کے بارے میںفرماتے ھیں:
”خروج رجل من ولدٍ عمی زید بالیمن “[203]
”ایک آدمی ھمارے چچا زید کی اولاد میں سے یمن سے قیام کرے گا۔“
رسول خدا (ص)اس لشکر یمانی کی تعریف میںفرماتے ھیں:
” الیمانی یتولیٰ علیاً الیمانی والسفیانی کفرسی رھان“[204]
”یمانی علی بن ابی طالبں کے شیعوں میںسے ھوگا ۔ یمانی اور سفیانی کا قیام دوریس کے گھوڑوں کی مانند ھوگا ۔“
رسول خدا (ص)سید ھاشمی کے خروج کے بارے میںفرماتے ھیں:
”یخرج بقزوین رجل اسمہ اسم نبی یسرع الناس الی طاعتہ المشرک والمومن یملاالجبال خوفاً“[205]
”ایک شخص قزوین سے قیام کرے گا کہ جوکسی پیغمبر کے ھمنام ھوگا مشرک اور مومن اس کی اطاعت کریںگے پھاڑوں اور چٹانوں کو اپنے رعب سے وحشت زدہ کردے گا۔“
نفس ذکیہ کے قتل کے بارے میںرسول خدا (ص)فرماتے ھیں:
”انَّ المھدی لایخرج حتی تقتل النفس الذکیہ فاذا قتلت النفس الذکیہ غضب علیھم من فی السماء ومن فی الارض فاٴتیٰ الناس المھدی فرفوَّہ کماتذف العروس الی زوجھا لیلة عُرسھا“[206]
”امام مھدی (عج ) قیام نھیں کرےں گے حتی یہ کہ نفس زکیہ کو مارا جائے اورجب نفس زکیہ کو ماردیا جائے گاتو اس وقت زمین اور آسمان پررھنے والے غضبناک ھوجائیں گے اور پھر امام مھدی (عج)کا قیام شروع ھوگا ۔ اور لوگ حضرت ولی عصر(عج) کے گرد اس طرح سے جمع ھوجائیں گے جیسے شادی کی رات دلھن کے گرد لوگ جمع ھوجاتے ھیں۔“
امام محمد باقرں اس بارے میں فرماتے ھیں:
”وقتل غلام من آل محمد بین الرکن والمقام اسمہ محمد بن الحسن النفس الزکیہ“ [207]
”آل محمد(ص) سے ایک جوان رکن اورمقام کے درمیان مارا جائے گا اس کانام محمد حسن نفس زکیہ ھوگا۔“
اماصادق ںفرماتے ھیں:
”لیس بین القائم وقتل النفس الزکیہ سوی خمس عشرة لیلة“[208]
”حضرت حجت(عج) اورنفس زکیہ کے قتل میں صرف پندرہ (۱۵) دنوں کا فاصلہ ھے۔“
بھرحال ھم نے کوشش کی ھے کہ اختصار سے کام لیتے ھوئے اکثر مشھور روایات کہ جن میں حتمی نشانیاں بیان ھوئی ھیں۔ حضرت حجت(عج) کے ظھور کی آپ کی خدمت میں پیش کی جائیں۔ آخر میںحضرت حجت (عج) کے ظھور کی دعا کو ان الفاظ میںکرکے اپنی گفتگو کو تمام کرتے ھیں:
”اللّھم اجعلنا من اصحاب مولانا صاحب العصر والزمان الامان الامان من فتنة الزمان اللّھم صلی علی محمد وآل محمد وعجل فرجھم الشریف۔“
منابع :
(۱)الائمة الاثنا عشر :شمس الدین محمد بن طولون،طبع ۱۹۵۸ قاھرہ
(۲)اثبات الھداة:شیخ حر عاملی(رہ) ،طبع ۱۳۹۹ ھ۔ قم
(۳)اثبات الوصیة:علی بن حسین مسعودی طبع نجف اشرف
(۴)احتجاج طبرسی :ابو منصور احمد بن علی طبرسی(رہ) ،طبع ۱۴۰۱ ھ بیروت
(۵)احقا ق الحق:قاضی نور اللہ شو شتری(رہ) ،طبع قم
(۶) اختصاص :شیخ مفید (رہ) ، طبع قم
(۷) اختیار معرفة الرجال : شیخ طوسی (رہ) ،طبع مشھد یونیور سیٹی
(۸)اربعین : شیخ بھائی ،۱۳۵۷ ھ ش ،طبع تبریز
(۹)ارشاد : شیخ مفید (رہ) محمد بن محمد بن نعمان ،طبع ۱۳۹۹ قم
(۱۰)ازالة الغین: حیدر علی فیض آبادی ،طبع دھلی
(۱۱)اسعاف الراغبین : محمد بن صبان مصری شافعی ،حاشیہ نور الابصار
(۱۲)اصول کافی: محمد بن یعقوب کلینی (رہ)،طبع بیروت
(۱۳) الاعلام : خیر الدین زرکلی ،طبع ۱۹۸۰ بیروت
(۱۴)اعلام الوریٰ : امین الاسلام ابو علی فضل بن حسن طبرسی،طبع ۱۳۹۹ ھ بیرو ت
(۱۵)اعیان الشیعہ : سید محسن جبل عاملی (رہ) ،طبع لبنان
(۱۶)الایضاح : شیخ مفید(رہ) ،طبع تھران
(۱۷)الزام الناصب :شیخ علی یزدی ،طبع بیروت
(۱۸)الامالی : شیخ صدوق (رہ)،طبع ۱۴۰۰ھ بیروت
(۱۹)الامامة والتبصرة:علی بن حسین بابویہ قمی(رہ) ،طبع ۱۴۰۷ ھ بیروت
(۲۰)الایضاح : فضل بن شاذان،طبع ۱۳۶۳ ھ ش تھران
(۲۱)بحار الانوار: علامہ مجلسی (رہ) ،طبع تھران
(۲۲)البرھان : سید ھاشم بحرانی ،طبع تھران
(۲۳)البیان فی اخبار صاحب الزمان : محمد بن یوسف گنجی شافعی،طبع ۱۳۹۹ھ بیروت
(۲۴)تاریخ الخلفاء :جلال الدین سیوطی ،طبع قاھرہ
(۲۵)تذکرة الخواص : سبط ابن جوزی،طبع ۱۳۸۳ طبع نجف اشرف
(۲۶)تفسیر صافی : فیض کاشانی ،طبع ۱۳۹۹ ھ بیروت
(۲۷)تفسیر عیاشی : محمد بن مسعود بن عیاش سلمی ،طبع ۱۳۸۰ ھ تھران
(۲۸)تفسیر قمی : علی بن ابراھیم ،طبع ۱۴۰۴ ھ قم
(۲۹)تنقح المقال: شیخ عبدا۔۔۔مامقانی،طبع نجف اشرف
(۳۰)الثاقب فی المناقب :،طبع ۱۴۱۲قم
(۳۱)ثواب الاعمال : شیخ صدوق (رہ) ،طبع ۱۳۶۴ھ ش قم
(۳۲)جوھر الکلام : محمود بن وھیب قراغلی بغدادی حنفی
(۳۳)حیلة الابرار : سید ھاشم بحرانی ،طبع سنگی
(۳۴)الدر المنثور : سیوطی ،طبع ۱۴ ۱۳ ھ قاھرہ
(۳۵)دلائل الامامة : ابو جعفر محمد بن جریر طبری
(۳۶)الذخیرہ فی الکلام : سید مر تضی علم الھدیٰ ،طبع ۱۴۱۱ ھ قم
(۳۷)الذریعہ الی تصانیف الشیعہ : شیخ آغا بزرگ تھرانی ،طبع بیروت
(۳۸)روح المعانی : سید محمود آلوسی ، طبع بیروت
(۳۹)روز گار رھائی،کامل سلیمان :ترجمہ علی اکبر مھدی پور ،طبع سوم تھران
(۴۰)روضةالواعظین : ابن قتال نیشا پوری ،طبع سنگی ۱۳۰۳ ھ تھران
(۴۱)سفینة البحا ر : شیخ عباس قمی ،طبع ۱۵ ۱۴ ھ قم
(۴۲) سنن ابن ماجہ :حافظ ابو عبد اللہ محمد بن یزید قزوینی ،طبع ۱۳۹۵ ھ بیروت
(۴۳)سنن ترمذی : ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ ،طبع بیروت
(۴۴)شرح نہج البلاغہ :ابن ابی الحدید ،طبع قاھرہ
(۴۵)شواھد التنزیل :عبیداللہ بن عبد اللہ حسکانی ،طبع ۹۳ ۱۳ ھ بیروت
(۴۶)صحیح بخاری :ابو عبد اللہ محمدبن اسماعیل بن ابراھیم ،طبع مصر
(۴۷)صحیح مسلم :مسلم بن حجاج نیشاپوری ،طبع بیروت
(۴۸)الصواعق المحرقہ: احمد بن حجر ھیشمی مکی ،طبع ۱۳۱۴ ،طبع قاھرہ
(۴۹)الطبقات الکبریٰ :محمد بن سعد کاتب واقدی ،طبع ۱۴۰۵ ھ بیروت
(۵۰)علل الشرائع :شیخ صدوق (رہ) ،طبع ۱۳۸۵ ھ نجف اشرف
(۵۱)عھدین :طبع انجمن پخش کتب مقدسہ ۱۹۶۹ لندن
(۵۲)عیون الاخبار :شیخ صدوق(رہ) ،طبع ۱۳۹۰ ھ نجف اشرف
(۵۳)الغدیر: علامہ امینی (رہ) طبع کویت
(۵۴)غیبت شیخ طوسی(رہ) :طبع نجف اشرف،و طبع جدید قم
(۵۵)غیبت نعمانی:طبع ۱۳۹۷ ھ تھران
(۵۶)فرائدالسمطین :ابراھیم بن محمد بن مویّد جوینی ،طبع ۱۳۹۸ ھ بیروت
(۵۷)فرھنگ معین :محمد معین ،طبع تھران
(۵۸)الفصول المھمہ :ابن صباغ مالکی ،طبع نجف اشرف
(۵۹)فھرست شیخ طوسی (رہ) :طبع ۱۴۰۳ ھ بیروت
(۶۰)قاموس الرجال :شیخ محمد تقی شوشتری
(۶۱)الکامل فی التاریخ :ابن ابی اثیر شیبانی ،طبع بیروت
(۶۲)کشف الغمہ :علی بن عیسیٰ اربلی طبع بیروت
(۶۳)کفایة الاثر : علی بن محمد بن علی خرّازی،طبع ۱۴۰۱ ھ۔قم
(۶۴)کمال الدین : شیخ صدوق (رہ)،طبع ۱۳۹۵ ھ تھران
(۶۵)کنز الدقائق :محمد رضا مشھدی ،طبع ۱۰ ۱۴ ھ تھران
(۶۶)کنزل العمال :متقی ھندی ،طبع ۱۳۹۹ ھ طبع سنگی تبریز
(۶۷)لسان العرب :ابن منظور،طبع ۱۴۰۸ ھ بیروت
(۶۸)مستدرک صحیحین : حاکم نیشاپوری ،طبع بیروت
(۶۹)مستدرک وسائل : میرزا حسین نوری ،طبع قم
(۷۰)مسند احمد حنبل : ،طبع ۱۳۱۳ ھ قاھرہ
(۷۱)مناقب آل ابی طالب :ابن شھر آشوب، طبع بیروت
(۷۲)منتخب الاثر : حاج شیخ لطف اللہ صافی ،طبع قم
(۷۳)نجم الثاقب :میرزا حسین نوری ،طبع تھران
(۷۴)نہج البلاغہ : سید رضی تحقیق صبحی صالحی، طبع بیروت
(۷۵)وسائل الشیعہ : شیخ حر عاملی(رہ) ،طبع ۳۰ جلدی قم
(۷۶)ینابیع المودة : سلیمان بن ابراھیم قندوزی حنفی
(۷۷)الیواقیت والجواھر : عبد الوھاب شعرانی ،طبع قاھرہ
(۷۸)تحف العقول عن آل الرسول (ع):حسن بن علی حرانی، طبع بیروت ۱۹۶۹ ھ
(۷۹)جامع احادیث شیعہ:طباطبائی بروجردی ،طبع تھران ۱۳۸۰ ھ
(۸۰)مجمع البحرین : ،طبع ۸۱ ۱۳ھ نجف اشرف
(۸۱)کتاب الفتن: سلسلی ،طبع ۱۹۶۳ھ نجف اشرف
(۸۲)المحجة البیضاء :محمد بن مرتضیٰ کاشانی
(۸۳)المھدی: سید صدر الدین صدر ،طبع ۵۸ ۱۳ھ ایران
(۸۴)نہج الفصاحہ: ،طبع ۱۳۴۱ ھ ایران
(۸۵)نوائب الدھور فی علائم الظھور:محمد بن حسن مھاجری جر قوئی ،طبع ۱۳۸۳ھ تھرا ن
(۸۶)ترجمہ قرآن : مرحوم علامہ ذیشان حیدر جوادی(رہ)
۸۷۔او خواھد آمد :علی اکبر مھدی پور، طبع انتشارات رسالت ۲۰۰۰ قم
(۸۸)تقریب المعارف:ابوالکلام تقی حلبی ،طبع ۱۷ ۱۴ھ قم
--------------------------------------------------
[132] ارشاد مفیدص۳۳۶ منتخب الاثرص ۴۵۵بحارج۵۲ ص۲۰۶الزام الناصب ص۱۸۱
[133] اعلام الوری ص۴۲۶،ارشادمفید ص۳۳۶،منتخب الاثرص۴۵۵،بحار ج۵۲ص۲۰۶۔
[134] بحارج ۵۲ ص۲۰۴،۲۰۹،۳۰۴،ا علام الوری ص۴۲۶،بشارةالاسلام۱۴۰،ارشادمفید ص ۶ ۳۳ ، منتخب الاثرص۴۵۲،۴۵۸۔
[135] بشارةالاسلام ص۷۴،الزام الناصب ص۱۹۴،۲۰۳،۲۰۹۔
[136] الملاحم والفتن ص۱۰۲۔
[137] الزام لناصب ص ۱۹۴،۲۰۴،۲۰۹و۲۱۳۔
[138] الزام الناصب ص۲۱۳۔
[139] بشارةالاسلام ص ۵۸،۶۷،۷۳؛الزام الناصب ص۱۷۶؛بحار الانوار ج۲ ۵ ص ۳ ۷ ۲ ، ج ۵۳ ص۸۲۔
[140] صحیح بخاری ج ۳ ص ۴۹۔
[141] منتخب الاثرص ۴۳۸۔
[142] نہج الفصاحة ج۲ص۵۰۰۔
[143] بشارة الاسلام ص۲۶
[144] نہج الفصاحة ج۲ص۵۰۰و۵۱۷ ۔
[145] نہج الفصاحة ج۱ص۲۱۶،ج۲ص۵۱۰
[146] الحاوی للفتاوی ج۲ص۱۵۹/منتخب الاثرص ۴۳۷
[147] بشارة الاسلام ص۷۶الزام الناصب ص۱۲۱و۱۹۵۔
[148] بحار الانوار ج ۵۲ص۱۳۹۔
[149] بحار الانوار ج۵۲ص۲۶۴
[150] منتخب الاثر ص۲۹۳بحار الانوار ج ۵۲ص۲۵۶،۲۶۴۔
[151] بحار الانوار ج ۵۲/ص۲۶۵۔
[152] نہج الفصاحةج۲ص۵۳۳۔
[153] نہج الفصاحةج۲ص۶۳۸۔
[154] نہج الفصاحةج۲ص۴۷۳بشارة الاسلام ص/۲۳۔
[155] کشف الغمة ج ۳ص۳۲۴منتخب الاثرص۴۳۵
[156] منتخب الاثر ص۴۲بحار ج ۵ص۷۰، ج۵۲ص۱۹۲،۲۲۸۔
[157] بحار الانوار ج ۵۲ص۲۵۷۔
[158] الزام الناصب ص۱۹۵بشارة الاسلام ص۷۷۔
[159] بحار لانوارج ۵۱ص۷۰، ج۵۲ص۷۰،ج ۵۲ ص ۲۵۶منتخب الاثر ص۴۲۰الزام الناصب ص۱۸۳۔
[160] منتخب الاثر ص۴۲۶الزام الناصب ۱۸۰ تحف العقول ص۴۱۔
[161] منتخب الاثر ص۴۲۸الزام الناصب ۱۸۲۔
[162] منتخب الاثر ص۲۹۲،المحجةالبیضاء ج۳ص۳۴۲،اعلام الوری ص۴۳۳،المھدی ص۱۹۹۔
[163] صحیح مسلم ج ۶ص۱۶۸۔
[164] منتخب الاثر ص۴۲۶۔
[165] بحار ج ۵۲ص۲۵۷منتخب الاثرص۴۲۹۔
[166] بحارالانوارج۵۲ ص۲۶۳الزام الناصب ص۱۸۱المھدی ص۱۹۹۔
[167] بحار ج ۵۲ص۲۵۷،منتخب الاثر ص۴۳۰،الزام الناصب ص۱۸۳،بشارة الاسلام ص۱۳۳۔
[168] صحیح بخاری ج ۹ص ۵۵/تحف العقول ص۳۰۔
[169] صحیح بخاری ج ۹ص ۵۵ت/تحف العقول ص۳۰۔
[170] بحار لانوارج ۵ص۲۵۹،بشارة الاسلام ص۱۳۴،الزام الناصب ص۱۸۴۔
[171] منتخب الاثر ص۴۲۶
[172] سورةیونس آیت /۹۱۔
[173] سورةفرقان/ ۱۲،۱۳۔
[174] نہج الفصاحة ج ۲ ص۳۹۳ تحف العقول ص۴۲۔
[175] نہج الفصاحة ج ۱ص۴۵۔
[176] بحارالانوار ج ۵۲ص۲۱۲۔
[177] وسائل الشیعہ ج ۱۸ص۹۔
[178] الزام الناصب ص۱۰۸۔
[179] البیان والتبین ج ۳ص۳۲۔
[180] بحاالانوار ج ۵۲ص۲۶۹۔
[181] الزام الناصب ص۱۷۶،بشارةالاسلام ص۵۸۔
[182] الملاحم والفتن ص۱۴۶۔
[183] بشارة الاسلام ص۲۸۔
[184] بحارالانوار ج۵۳ص۸۵،ارشادمفیدص۳۳۶،بشارة الاسلام ص۱۷۶۔
[185] الملاحم والفتن ص۷۱۔
[186] الملاحم والفتن ص۱۳۰۔
[187] المجةالبیضاء ج۴ص۳۴۳۔
[188] الامام المھدی ص۲۲۷۔
[189] بشارة الاسلام ص۳۲۔
[190] غیبت شیخ طوسی(رہ) ص۲۷۷۔
[191] بشارة الاسلام ص۱۷۷۔
[192] کشف الغمہ ج۳ص۳۲۴،منتخب الاثر ص۱۶۳۔
[193] المھدی (عج) ص۲۲۱۔
[194] صحیح مسلم ج ۸ص۱۷۲۔
[195] بشارةالاسلام ص۱۷۵،الزام الناصب ص۱۸۵۔
[196] الملاحم والفتن ص۱۷۔
[197] بشارة الاسلام ص۴۳۔
[198] منتخب الاثر ص۴۵۳۔
[199] بحارالانوار ج۵۲ص۱۱۳۔
[200] بحارالانوار ج ۵۲ص۱۴۳،غیبت نعمانی ص۵۶،وسائل الشیعہ ج ۱۱ص۳۷۔
[201] بشارة الاسلام ص۲۶۸۔
[202] ارشاد مفیدص۳۳۹،بحارالانوار ج۵۲ص۲۱۰۔
[203] نورالابصارص۱۷۲،بشارة الاسلام ص۱۷۵۔
[204] غیبت نعمانی ص۱۲۳،بحارالانوار ج۵۲ص۲۷۵۔
[205] بحارالانوار ج۵۲ص۲۱۳۔
[206] بشارة الاسلام ص۱۸۳،الملاحم والفتن ص۱۱۳۔
[207] بشارة الاسلام ص۴۹۔
[208] منتخب الاثر ص۴۳۹،بحار الانوار ج ۵۲ ص۲۰۳،اعلام الوری ص۴۲۷۔
تمت بالخیر
|