کتاب نامہ:
نام کتاب: عھدسے ظھور تک
تالیف: سید اسد عالم نقوی
ناشر: دار الولایت پبلیکشنز۔کراچی
کمپوزنک: ارتضی
چاپ اول اکتوبر ۲۰۰۳ء۔شعبان ۱۴۲۴ ھ
قیمت: ۸۰ / روپیہ

ملنے کا پتہ
دارالولایت ۔کراچی
P.O.BOX.15565
--------------

انتساب
اس عظیم الشان ماں حضرت نرجس خاتون علیھا السلام کے نام کہ جن کے فرزندکے ظھور سے کائنات جگمگا اٹھے گی!

مقدمہ
(الحمد الله رب العالمین باری الخلائق اجمعین الصلاة والسلام علی نبیہ و حبیبہ مولاناابو القاسم محمد وآلہ الطیبین الطاھرین المعصومین ولاسیما حضرت بقیة اللہ الاعظم روحی وارواح العالمین لہ الفدی واللعنة الدائمة علیٰ اعدائھم اجمعین الی قیام یوم الدین)
امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت ھر مومن اور مومنہ کے لئے واجب عینی ھے ھم فقط اپنے بچوں کو چھاردہ معصومین علیھم السلام کے نام یاد کروا کر یہ سمجھتے ھیں کہ ھماری ذمہ داری پوری ھوگئی لیکن نہ فقط یہ بلکہ اگر اس سے بڑھ کر بھی بتائیں تو ھم حق معرفت امام علیہ السلام ادا نھیں کر سکتے ھیں ھم نے گذشتہ سالوں میں متعدد تبلیغی دوروں کے دوران اس بات کی اھمیت کو بہت نزدیک سے احسا س کیا کہ حضرت ولی عصر (عج) کے حوالے سے لوگوں کی معلومات بہت ھی مجمل ھے بس لوگ یھی جانتے ھیں کہ ھمارے امام (عج) غیبت میں ھیں ۔اور وہ ظھور کریں گے تو پوری دنیا کے مسائل حل ھو جائیں گے و۔۔۔۔۔۔۔اور بس !۔
لیکن اس سے آگے کوئی نھیں سوچتا ھے کہ آیا ھماری بھی امام کے لئے کوئی ذمہ داری بنتی ھے کتنے ھی دن مھینے اور سال گزر جاتے ھیں لیکن ھماری دم میں امام (ع) کا خیال تک نھیں آ تا جب کہ ھم عالم اسلام کی کتب کا جائزہ لیں تو معلوم چلتا ھے کہ یہ مسئلہ اس تمام گفتگو سے کھیں زیادہ اھمیت کا حامل ھے۔
کتنے ھی لوگ قم میں زیارت پر آکر یہ سوال کرتے ھیں کہ”مسجد جمکران کھاں ھے کہ جھاں امام زمان(عج) نماز پڑھاتے ھیں “اور اس ے ملتے جلتے سوالات۔۔۔۔۔۔۔
ھماری منطق اور ذھن کی کندی کا انھیں سوالات کی روشنی میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ھے ۔اگر چہ کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت محدود ھے لیکن سوال یہ ھے کہ یہ محدود تعدادبھی کیوں ایسے سوالات کرتی ھیں ؟
وافر مقدار میں عقلی اور نقلی براھین موجود ھیں کہ جو معرفت اور امام وقت کی شناخت کے واجب ھونے پر دلالت کرتے ھیں ۔
یھاں پر فقط معروف حدیث کہ جسے بارھا آپ نے سنا اور پڑھا ھوگا بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ھیں ۔
حضرت ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)فرماتے ھیں:
(من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیة)
اس روایت کو علماء اھل سنت اور اھل تشیع نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ھے ۔
البتہ بعض روایات تھوڑی کمی یا بیشی کے ساتھ بھی نقل ھوئی ھیں ۔
مانند ”من مات و لم یعرف امام زمانہ فقد مات میتة جاھلیة “
”من مات بغیر امام مات میتة جاھلیة“
”من مات لایعرف امامہ مات میتة جاھلیة “
من مات لیس علیہ امام فمیتة جاھلیة “
من مات لیس علیہ امام فمیتة میتة جاھلیة “
”من مات لیس لہ امام مات میتة جاھلیة
ھم فقط ان احادیث کے حوالے پر ھی اکتفاء کریں گے ۔

کتب علماء اھل تشیع:
الذخیرة فی الکلام ص ۴۹۵،کشف الغمہ ج۳ ص۳۱۸،نفخات الاھوت ص ۳ ۱ ، اربعین شیخ بھائی (رہ)ص۶۰۲،اعلام الوریٰ ص۴۱۵،وسائل الشیعہ ج۱۶ ص۲۴۶، بحارالانوار ج۸ ص۳۶۸،ج۳۲ ص ۳۲۱و۳۳۱،ج۵۱ ص۱۶۰،ج۶۸ ص۳۳۹، مناقب آل ابی طالب ج۱ ص۳۰۴،اختصاس شیخ مفید(رہ) ص۲۶۸،تفسیر عیاشی ج۲ ص۳۰۳، تفسیر کنزالدقائق ج۷ص۴۶۰،محاسن برقی ج۱ ص۲۵۲ح۴۷۵،الامامة والتبصرة ج۱ ص۲۷۷،اصول کافی ج۱ ص۳۷۷،غیبت نعمانی ص۱۳۰،ثواب الاعمال ص۲۰۵،تفسیر برھان ج۱ ص۳۸۶،اختیار رجال کشی ص۴۲۵ ح۷۹۹،الامامة والتبصرةص۲۲۰،کمال الدین ج۲ ص۴۱۲ و ۴۱۳ پیروان معرف امام ص۸،

کتب علماء اھل سنت :
صحیح مسلم ج۲ ص۴۷۵، ج۳ ص۱۴۷۸ح۱۸۵۱،المغنی ج۱ ص۱۱۶،الجمع بین الصحیحین حمیدی ج۲ ص۳۰۶،شرح المقاصد ج۵ ص۲۳۹،الجواھر المضیئة ج۲ ص۵۰۹،ازالة الفین ص۴۲،ینابیع المودة ج۳ص۳۷۲،یریقة المحمودیہ ج۱ ص ۱۱۶،مسند طیالسی ص۲۵۹ ح۱۹۱۳،مسند احمد ج۴ ص۹۶،معجم الکبیر ج۱۹ ص۳۸۸،مجمع الزوائد ج۵ص۲۱۸،کنزالعمال ج۱ ص۱۰۳،ح۴۶۴،،ج۶ص۶۵ ح۱۴۸۶ جممع الزائد ج۵ ص۲۴۴و۲۵۵،کشف الاستار عن زوائد البزار ج۲ص۲۵۲ ح۱۶۳۵،الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج۷ ص۴۹۔
ا س کتاب میں دعا عھد کی شرح بیان کی ھے تاکہ اس کی اھمیت اور عمق معنی کے حاصل ھونے کا اندازہ ھو سکے اگر چہ کہ معصوم کے کلام کی تشریح کا حق فقط معصوم ھی ادا کر سکتا ھے ،ھم تو اپنی ظرفیت کے حساب سے کلام معصوم کو سمجھتے اور بیان کرتے ھیں ۔
اس کتاب کے لکھنے میں ایک شخصیت کا نام ذکر کرنا ضروری سمجھتا ھوں کہ جنھوں نے اپنے ارشادات اور راھنمائی سے حقیر کی اس کتاب کے لکھنے میں بہت مدد فرمائی ،حجة الاسلام والمسلمین جناب آقای شیخ علی اکبر مھدی پور مد ظلہ ۔ خدا وندعالم آپ کی توفیقات میں روز افزون اضافہ فرمائے (الٰھی آمین )
آخر میں تمام مومنین و مومنات کے لئے دعا کرتے ھیں کہ ھم سب کو حق معرفت امام زمانہ عطا فرمائے اور ھم کو اتنا علم عطا فرماتے کہ آپ علیہ السلام کے بیان کردہ کلمات کو سمجھ کر اس پر عمل پیر ا ھو سکیں ۔(الٰھی آمین )

سید اسد عالم نقوی
حوزہ علمیہ قم ، ایران
----------

دعائے عھد
اَللّہُمَّ رَبَّ النُّورِ الْعَظِیمِ وَرَبَّ الْکُرْسِیِّ الرَّفِیعِ وَرَبَّ الْبَحْرِ الْمَسْجُورِ وَمُنْزِلَ التَّوْراةِ وَالاِِْنْجِیلِ وَالزَّبُورِ وَرَبَّ الظِّلِّ وَالْحَرُورِ وَمُنْزِلَ الْقُرْآنِ الْعَظِیمِ وَرَبَّ الْمَلائِکَةِ الْمُقَرَّبِینَ وَالاََْنْبِیاءِ وَالْمُرْسَلِینَ۔
اللّہُمَّ إِنِّی اٴَسْاٴَلُکَ بِاسْمِکَ الْکَرِیمِ وَبِنُورِ وَجْہِکَ الْمُنِیرِ وَمُلْکِکَ الْقَدِیمِ یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ اٴَسْاٴَلُکَ بِاسْمِکَ الَّذِی اٴَشْرَقَتْ بِہِ السَّمَاواتُ وَالاََْرَضُونَ وَبِاسْمِکَ الَّذِی یَصْلَحُ بِہِ الاََْوَّلُونَ وَالاَْخِرُونَ یَا حَیّاً قَبْلَ کُلِّ حَیٍّ وَیَا حَیّاً بَعْدَ کُلِّ حَیٍّ وَیَا حَیّاً حِینَ لاَ حَیَّ یَا مُحْیِیَ الْمَوْتی وَمُمِیتَ الاََْحْیاءِ یَا حَیُّ لاَ إِلہَ إِلاَّ اٴَنْتَ۔
اللّہُمَّ بَلِّغْ مَوْلانَا الاِِْمامَ الْھادِیَ الْمَہْدِیَّ الْقائِمَ بِاٴَمْرِکَ صَلَواتُ اللّہِ عَلَیْہِ وَعَلَی آبائِہِ الطَّاہِرِینَ عَنْ جَمِیعِ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ فِی مَشارِقِ الاََْرْضِ وَمَغارِبِھا سَہْلِھا وَجَبَلِھا وَبَرِّھا وَبَحْرِھا وَعَنِّی وَعَنْ وَالِدَیَّ مِنَ الصَّلَواتِ زِنَةَ عَرْشِ اللّہِ وَمِدادَ کَلِماتِہِ وَمَا اٴَحْصاہُ عِلْمُہُ وَاٴَحاطَ بِہِ کِتابُہُ۔
اللّہُمَّ إِنِّی اٴُجَدِّدُ لَہُ فِی صَبِیحَةِ یَوْمِی ہذَا وَمَا عِشْتُ مِنْ اٴَیَّامِی عَہْداً وَعَقْداً وَبَیْعَةً لَہُ فِی عُنُقِی لاَ اٴَحُولُ عَنْہ وَلاَ اٴَزُولُ اٴَبَداً اللّہُمَّ اجْعَلْنِی مِنْ اٴَنْصارِہِ وَاٴَعْوانِہِ وَالذَّابِّینَ عَنْہُ والْمُسارِعِینَ إِلَیْہِ فِی قَضاءِ حوَائِجِہِ وَا لْمُمْتَثِلِینَ لاََِوامِرِہِ وَالْمُحامِینَ عَنْہُ وَالسَّابِقِینَ إِلی إِرادَتِہِ وَالْمُسْتَشْہَدِینَ بَیْنَ یَدَیْہِ۔
اللّہُمَّ إِنْ حالَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ الْمَوْتُ الَّذِی جَعَلْتَہُ عَلَی عِبادِکَ حَتْماً مَقْضِیّاً فَاٴَخْرِجْنِی مِنْ قَبْرِی مُؤْتَزِراً کَفَنِی شاہِراً سَیْفِی مُجَرِّداً قَناتِی مُلَبِّیاً دَعْوَةَ الدَّاعِی فِی الْحاضِرِ وَالْبادِی اللّہُمَّ اٴَرِنِی الطَّلْعَةَ الرَّشِیدَةَ وَالْغُرَّةَ الْحَمِیدَةَ وَاکْحَُلْ ناظِرِی بِنَظْرَةِ مِنِّی إِلَیْہِ وَعَجِّلْ فَرَجَہُ وَسَہِّلْ مَخْرَجَہُ وَاٴَوْسِعْ مَنْہَجَہُ وَاسْلُکْ بِی مَحَجَّتَہُ وَاٴَنْفِذْ اٴَمْرَہُ وَاشْدُدْ اٴَزْرَہُ وَاعْمُر۔
ِ اللّہُمَّ بِہِ بِلادَکَ وَاٴَحْیِ بِہِ عِبادَکَ فَإِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِی النَّاسِ فَاٴَظْہِرِ اللّہُمَّ لَنا وَلِیَّکَ وَابْنَ بِنْتِ نَبِیِّکَ الْمُسَمَّی بِاسْمِ رَسُولِکَ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَآلِہِ حَتَّی لاَ یَظْفَرَ بِشَیْءٍ مِنَ الْباطِلِ إِلاَّ مَزَّقَ ًھوَیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُحَقِّقَہُ وَاجْعَلْہُ اللّہُمَّ مَفْزَعاً لِمَظْلُومِ عِبادِکَ وَناصِراً لِمَنْ لاَ یَجِدُ لَہُ ناصِراً غَیْرَکَ وَمُجَدِّداً لِمَا عُطِّلَ مِنْ اٴَحْکامِ کِتابِکَ وَمُشَیِّداً لِمَا وَرَدَ مِنْ اٴَعْلامِ دِینِکَ وَسُنَنِ نَبِیِّکَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وآلِہِ وَاجْعَلْہُ اللّہُمَّ مِمَّنْ حَصَّنْتَہُ مِنْ بَاٴْسِ الْمُعْتَدِینَ
اللّہُمَّ وَسُرَّ نَبِیَّکَ مُحَمَّداً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وآلِہِ بِرُؤْیَتِہِ وَمَنْ تَبِعَہُ عَلَی دَعْوَتِہِ وَارْحَمِ اسْتِکانَتَنا بَعْدَہُ اللَّہُمَّ اکْشِفْ ہذِہِ الْغُمَّةَ عَنْ ہذِہِ الاَُْمَّةِ بِحُضُورِہ ِوَعَجِّلْ لَنا ظُہُورَہُ إِنَّہُمْ یَرَوْنَہُ بَعِیداً وَنَرَاہُ قَرِیباً بِرَحْمَتِکَ یَا اٴَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔
الْعَجَلَ الْعَجَلَ یَامَوْلایَ یَا صاحِبَ الزَّمانِ۔

دعائے عھد دعا کی سند:
اس دعا کو مرحوم مجلسی (رہ) نے متعدد واسطوں سے اپنی کتاب بحارالانوار میں مختلف مقامات پر نقل کےا ھے۔ من جملہ سےد ابن طاؤس کی مصباح الزائر اور محمد بن علی جبعی کی مجموعہ جباعی ھے اور اسکے علاوہ بلد الامےن،مصباح کفعمی اور کتاب عتےق سے بھی نقل کےا ھے۔[1]
ھم نمونہ کے طور پر فقط اےک سند کو نقل کرنے پر اکتفاء کرےں گے۔
جلال الدےن ابوالقاسم
اور انھوں نے فخار بن معد بن فخار العلوی الحسےنی الموسوی سے
اور انھوں نے تاج الدےن ابو محمد الحسن بن علی سے
اور انھوں نے ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بحرانی سے
اور انھوں نے ابی محمد الحسن بن علی سے
اور انھوں نے علی بن اسماعیل سے
اور انھوں نے ابو ذکرےا ےحےیٰ بن کثےر سے
اور انھوں نے محمد بن علی القرشی سے
اور انھوں نے احمد بن سعےد سے
اور انھوں نے علی بن حکم سے
اور انھوں نے ربےع بن محمد المسلمی سے
اور انھوں نے ابو عبداللہ بن سلمی سے
اور انھوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کےا ھے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرماےا: ”جو کوئی بھی اس دعا کو چالےس روز تک صبح کے وقت پڑھے گا ھمارے قائم عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ساتھےوں میں سے ھوگا اور اگر حضرت علیہ السلام کے ظھور سے پھلے انتقال کرجائے تو خداوند عالم اسے قبر سے نکالے گا تاکہ حضرت کے ساتھےوں میں شامل ھو جائے اور خدائے متعال دعا کے ھر جملہ کے بدلے اسے ہزار نےکےاں اور کرامت عطاء فرمائے گا اور اسکے ہزار گناہ معاف کردےئے جائیںگے۔

چالےس دنوں کی خصوصےات:
اےک قابل توجہ بات ےہ ھے کہ نہ صرف اس دعا کو پڑھنے کی تاکےد چالےس روز تک ھے بلکہ بہت سے دوسرے مقامات پر ان چالےس دنوں کو خاص اھمےت حاصل ھے۔
جےسا کہ مرحوم کلےنی (رہ) نقل کرتے ھےں
” ما اجمل عبد ذکر اللّٰہ اربعےن صباحاً الّا زَہَّدَہُ فی الدنےا…… واَثْبَتَ الحکمةَ فی قلبہ[2]
ترجمہ: اس سے خوبصورت بندہ کون ھوگا جو خدا کا ذکر چالےس صبح تک کرے اور خدا اسکو زاھد قرار دے اور اسکے قلب میں حکمت راسخ فرمائے ۔
علامہ مجلسی (رہ) جناب قطب راوندی(رہ) کی کتاب لب اللباب سے نقل کرتے ھےں کہ:
من اخلص العبادة لِلّٰہ اربعےن صباحاً ےنابےع الحکمة من قلبہ علی لسانہ[3]
ترجمہ: جو کوئی چالےس روز تک خلوص کے ساتھ خدا کی عبادت انجام دے تو حکمت کا چشمہ اسکے قلب سے پھوٹ کر زبان پر جاری ھوجائے گا۔
معرفت اور عبودےت کے درجات اور منازل کو طے کرنے کے لےئے ضروری ھے کہ اس طرح سے قدم بہ قدم بڑھے تاکہ کسی نتےجہ تک پھنچ سکے اسکے برعکس گناھوں اور معصےت کے بارے میں بےان ھوا ھے ۔
جےسا کہ امام موسی کاظم سے نقل ھوا ھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرماےا:
”من شرب الخمر لم ےحتسب لہ صلا تہ اربعےن ےوماً “[4]
ترجمہ: جو کوئی شراب نوشی کرے تو چالےس دنوں تک اسکی نماز قبول نھےں ھوگی۔
اگرکوئی بھی گناہ انجام نہ دےا جائے فقط شراب پی جائے تو اسکا اثر چالےس روز تک برقرار رہتا ھے اس بارے میں متعدد روایت بےان ھوئی ھےں۔
بھلول نبّاش کا واقعہ بہت مشور ھے اس واقعہ کو مرحوم صدوق (رہ) نے اپنی کتاب امالی میں ذکرکےا ھے” بھلول کاگناہ کبےرہ میں مبتلا ھونے کے بعد حضرت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی خدمت اقدس میں حاضر ھونا پھر اسکا چالےس دنوںتک مدےنہ کے پھاڑوں میںپناہ لےنا اور خداوند کے حضور میںاپنے گناھوں کی معافی طلب کرنا اور مسلسل گرےہ و زاری میں مشغول رھنا، اس واقعہ کے بعد ےہ آیت نازل ھوئی :
<ےا اےھا الذےن امنواتوبوا الی اللّٰہ توبةً نصوحاً>[5]
ترجمہ: اے اےمان والو ! خلوص دل کے ساتھ توبہ کرو۔
اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ ھوا کہ انھوں نے کتاب خدا اور احکامات الٰھی کے حصول کے لےئے چالےس دنوں تک کھانا پےنا ترک کےا ۔[6]
ان تمام روایت کو مدنظر رکھتے ھوئے ےہ نتےجہ نکلتا ھے کہ کسی مقصد کے حصول کے
لئے چالےس دن تک کوئی عمل انجام دےنا خاص اھمےت رکھتا ھے۔جس طرح دعاؤں کا اثرچالےس دنوں بعد ظاھر ھوتا ھے اسی طرح گناھوں کا اثربھی چالےس دنوں تک باقی رہتا ھے ۔
< الَّلھُمَّ ربِّ النُّورِ الْعَظِےْم >
(اے اللہ ! اے نور عظےم کے پروردگار)
ممکن ھے کہ اس نور عظےم سے مراد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا نور ھو کےونکہ اولےن اور آخرےن میں ان سے بڑا کوئی نھےں جےسا کہ بعض روایت کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو نور سے تعبےر کےا گےا ھے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ راوی نے سوال کےا مثل نورہ سے کون لوگ مراد ھےں ؟
تو امام علیہ السلام نے جواب میں فرماےا:
” محمد (ص)“[7] اور ممکن ھے کہ اس نور سے مراد مطلق (ھر قسم کا)نور ھو جےسے ان آیت میں ذکر ھوا ھے۔
<ےا اےھا الناس قد جائکم برھان من
ربکم و انزلنا الےکم نوراً مبےنا> [8]
ترجمہ: اے انسانو! تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی طرف سے برھان آچکا ھے اور ھم نے تمھاری طرف روشن نور بھی نازل کردےا ھے۔
<فآمنوا باللّٰہ و رسولہ والنور الذی انزلنا >[9]
ترجمہ: لہٰذا خدا اور رسول اور اس نور پر اےمان لے آؤ جسے ھم نے نازل کےا ھے۔
جو نور بھی خداوند کی جانب سے خلق ھواوہ نور عظےم ھے اگرچہ اس بارے میں اور بہت سے احتمالات دےئے جاسکتے ھےں جےسا کہ نور فاطمہ زھرا سلام اللہ علےھا یانور آئمہ معصومین علیهم السلام.
لےکن اےک بات حتمی ھے اور وہ ےہ کہ ےھاں خداوند عالم سے جو درخواست کی جارھی ھے وہ ایک بہت بڑی خواہش ھے ےعنی حضرت بقےة الله روحی و ارواح العالمےن لہ الفدیٰ کے ظھور کی خواہش ھے اسی لئے واسطہ بھی کوئی عظےم اور بڑا ھونا چاھےے۔
حتی کہ ےہ بھی ممکن ھے کہ اس نور عظےم سے مراد خود حضرت حجت عج اللہ فرجہ شرےف کی ذات اقدس ھو، اس سے بہتر بات کےا ھوسکتی ھے کہ ھم آپ کے ظھور کے لئے خود حضرت کوواسطہ قرار دےں۔
< و ربّ الکرسی الرفےع >
اے بلند کرسی والے پروردگار۔
عام طور پر کرسی سے وہ مقام مراد لےا جاتا ھے جو عرش سے نچلے درجے پر ھو جسکے بارے میں روایت میں بھی اشارہ ھوا ھے ےعنی فضےلت اور مقام میں عرش کے بعد والے مرحلہ کو کرسی سے تعبےر کےا گےا ھے۔
قال رسول اللہ (ص):
” ےا اباذر ما السماوات السبع فی الکرسی الّا کحلقة ملقاة فی ارض فلاة[10]
اے ابوذر ! کرسی میں سات آسمان نھےں ھےں مگر جےسے بےابان میں دائرے ھوں۔
ےعنی تمام آسمانوں کی حےثےت کرسی کے سامنے اےک دائرے سے زےادہ نھےں بس ےھیں سے کرسی کی عظمت کاپتہ چلتا ھے۔
اوراگرکرسی سے مراد علم خداوند لےا جائے جےسا کہ آیت شرےفہ میں ھے :
<وسع کرسےہ السموات و الارض>[11]
اس کی کرسی علم و اقتدار زمےن و آسمان سے وسےع تر ھے۔
تو پھر اس کرسی کی وسعت میں اور بھی اضافہ ھوجائے گا۔
ساٴلت ابا عبداللّٰہ علیہ السلام عن قول اللّٰہ عزّ و جلّ وسع کرسےّہ السموات والارض قال علیہ السلام علمہ[12]
امام جعفر صادق علیہ السلام سے ”وسع کرسےّہ السموات والارض “ کے بارے میں سوال کےا گےا کہ اس سے کےا مراد ھے تو امام علیہ السلام نے جواب میں فرماےا: ”خداوند عالم کا علم“
اللہ تعالیٰ کے علم کی کوئی قےد نھےں علم خدا سے وسےع کےا چےز ھوسکتی ھے؟ جوخود اسکی ذات کا حصہ ھے البتہ ےہ عرض کرتے چلےں کہ ذات کا حصہ ھونے سے ےہ مراد نھےں کہ پھلے ذات پھر علم بلکہ ےھاں مسامحہ کے خاطر اےسی عبارات کو مطلب سمجھنے کے لئے لاےا جاتا ھے۔
ےہ بھی ممکن ھے کہ اس سے مراد وھی کرسی ھو جو مقام و منزلت میں عرش کے بعد آتی ھے پھر بھی ےہ عظےم خلق ھے کہ جس کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھےں:
”الشمس جزء من سبعےن جزء من نور الکرسی والکرسی جزء من سبعےن جزء من نور العرش[13]
سورج کرسی کے نور کا سترّواں حصّہ ھے اور کرسی نور عرش کا سترّواں حصّہ ھے۔
<ربّ البحر المسجور >
اے مارتی ھوئی موجوں سے بھرے ھوئے سمندر کے ربّ۔
مناسب تو ےہ ھے کہ اس بحر مسجور سے مراد امام علیہ السلام ھوں کےونکہ وھی حجت اور مظھرخداوند ھےں کہ جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے تمام مخلوقات کے اوپر احاطہ کےئے ھوئے ھےں اور جو کچھ بھی اس دنےا میں ھے و ہ انھیں کے دم سے ھے ےھاں تک کہ زندگی کا تصور ان کے بغےر ناممکن ھے، ےہ نا ممکن ھونا محالات عقلےہ میں سے ھے نہ کہ عادتاً ممکن نہ ھو۔
اگرچہ بعض روایت میں بحر مسجور سے مراد وہ سمندر ھے کہ جو آسمان اور زمےن کے--- درمےان پاےا جاتا ھے، جےسے مولائے کائنات امےر الموٴمنےن علیہ السلام سے روایت ھے کہ:
” البحر المسجور بحر فی السماء تحت العرش [14]
بحر مسجور وہ سمندر ھے جو آسمانوں پر عرش کے نےچے ھے۔
بعض روایت میں اس کو انسان کی منی سے تشبےہ دی گئی ھے کہ جو قےامت کے وقت آسمان سے بارش کی صورت میں نازل ھوگی کہ جس کے سبب مرنے والوں میں(جو مٹی کی صورت میں ھےں)دوبارہ زندگی نمودار ھوجائے گی اورسب اٹھ کھڑے ھونگے۔ منی سے تشبےہ دےنے کی وجہ بھی ےھی ھے کہ وہ مردہ مخلوقات کے لےئے حےات لےکر نازل ھوگی جےسے اےک مفصّل روایت میں بےان ھوا ھے :
” والبحر المسجور و ھی من منی کمنی الرجل فےمطر ذلک علی الارض فےلقی الماء المنی مع السموات البالےہ فےنبتون من الارض و ےحےون[15]
بحر مسجور منی سے ھے اور انسان کی منی کی طرح ھے زمےن پر بارش کی صورت میںبرسے گی اور مردوں کی مٹی میں مل جائے گی پھر وہ زمےن سے زندہ ھو کر کھڑے ھوجائیں گے۔
اسی طرح بعض مقامات پر اس کو بحر الحےوان سے تعبےر کےا گےا ھے جےسے:
و ھو بحر معروف فی السماء ےسمّی بحر الحےوان[16]
اور وہ بحر معروف ھے جو آسمان پر ھے اور جسے بحر الحےوان کے نام سے ےاد کرتے ھےں۔
<منزل التوارےٰة والانجےل و الزّبور>
اے تورات، انجےل اور زبور کے نازل کرنے والے۔
ےھاں پر واسطہ ان آسمانی کتابوں کا دےا جارھا ھے جو عالم بشرےت کے لےئے رحمت بن کر نازل ھوئےں لوگوں کو مقصد حےات بتانے آئےں اور موٴمنےن کے لےئے جنت کی بشارت اور کفار کے لےئے عذاب کا وعدہ دےنے آئےں۔
تورات حضرت موسی علیہ السلام پر انجےل حضرت عےسی علیہ السلام پر اور زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ھوئی۔
اے خداوند تجھے ان آسمانی صحائف کاواسطہ کہ اپنی کتاب ناطق صاحب العصر و الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو اپنے بے ےارومددگار اور صالحےن کے لئے ظھور فرما۔
<رب الظل والحرور>
اے ساےہ اور گرمی کے پروردگار
واضح ھے کہ ساےہ ٹھنڈاھوتا ھے اور گرمی گرم ھوتی ھے ےہ دونوں لفظ اےک دوسرے کی ضد ھےں لہٰذا ممکن ھے کہ ساےہ سے مراد نےک لوگ ھوں جنکے قلوب امےد رحمت پروردگار سے ٹھنڈے ھےں جبکہ کفار و منافقےن عذاب جھنم کے خوف سے اپنے سےنوں میں آگ کی تپش لےئے گھوم رھے ھےں۔
اگرچہ ممکن ھے کہ ےھاں پر ظاھری معنیٰ ےعنی ساےہ اور حرارت ھی مراد ھو خداوند متعال نے عالم ھستی کو نظم کے ساتھ خلق کےا اور انسان کے لےئے رات اور دن خلق کئے رات کو لوگوں کے آرام اور آسائش کے لئے قرار دےا جبکہ دن کو حرارت کی صورت میں کام کرنے کے لےئے مقرر کےا۔
< اٴلم ےرو انا جعلنا اللےل لےسکنوا فےہ و النھار مبصراً >[17]
کےا ان لوگوں نے نھےں دےکھا کہ ھم نے رات کو سکون حاصل کرنے کے لےئے خلق کےا اوردن کو روشنی کا ذرےعہ بناےا۔
<منزل القرآن العظےم>
اے قرآن عظےم کو نازل کرنے والے۔
ےھاں پر خداوند عالم کو اس کی اکمل اور اتم کتاب کا واسطہ دےا جارھا ھے کہ جسکے بارے میںخود باری تعالی کا ارشاد ھے کہ۔
<ما فرّطنا فی الکتاب من شیٴ>[18]
ھم نے کتاب میں کسی شےٴ کے بےان میں کوئی کمی نھےں کی۔
<ولا رطب و لا ےابس الّا فی کتاب مبےن >[19]
نہ کوئی خشک اور نہ ھی کوئی تر اےسا ھے جو کتاب میں محفوظ نہ ھو۔
<و کلّ شیٴ احصےناہ فی اما م مبےن>[20]
ھم نے ھر شئے کے شمارکو اےک روشن امام کے
حصار میں رکھا ھے۔
<تبےاناً لکل شیٴ>[21]
ھر چیز کی وضاحت اس (کتاب) میں موجود ھے۔
<تنزِّل من القرآن ما ھو شفاء و رحمة للموٴمنےن>[22]
اور ھم نے قرآن میں وہ سب کچھ نازل کےاجو صاحبان اےمان کے لےئے شفاء اور رحمت ھے۔
پس معلوم ھوگےا کہ کوئی چےز اےسی نھےں جو اس کتاب مقدس میں بےان نہ کی گئی ھو اور ےہ بےان پورے عالم بشرےت کے لئے حجت ھے اور ےھی موٴمنےن کے لےئے نجات کی صورت میں رحمت ھے جبکہ کفار کے لےئے عذاب کی شکل میں نازل ھوا۔
ارشاد رب العزت ھے :۔
<ولاےزےد الظالمےن الا خساراً>[23]
اور ظالمےن کے لےئے خسارے میں اضافہ کے علاوہ کچھ نھےں ھوگا۔
اور ےہ وھی کتاب ھے جو حضرت کے ظھور کے سبب مقام عمل میں آئے گی آپ کے ظھور کے بعد دنےا میں صرف دو گروہ رہ جائےں گے اےک وہ جو آپ کی صدا پر لبےک کھے گا اور دوسرا وہ جو آپ کی اطاعت کرنے سے انکار کرے گا چاھے وہ حربی ھوں ےا فقط حق کا انکار کر نے والے۔ سب برابر ھوں گے اور خسارا انھیں لوگوں کے لےئے بےان کےا گےا ھے۔
< و رب الملائکة المقربےن و الانبےاء و المرسلےن >
اے مقربےن ملائکہ اور انبےاء اور رسولوں کے پروردگار !
ےھاں پر ان تمام مقدس ھستےوں کا واسطہ دےنے کی وجہ شاےد ےہ ھو کہ جےسے قےامت کبریٰ کے دن لوگوں کے اعمال کا حساب ھوگا انسانوں کو موٴمن اور کافر کی صورت میں پےش کےا جائے گا اور ان کو جنت ےا جھنم میں بھےجا جائے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ھوتا ھے :
<ھل ےنظرون الانسان ےاتےھم اللّٰہ فی ظلل من العمام والملائکة>[24]
(۵) بقرہ آیت ۲۱۰۔
ترجمہ:کیاانسان اس بات کا انتظار کررھاھے کہ ابر کے ساےہ کے پےچھے عذاب خدا ےا ملائکہ آجائےں۔
جاء ربک والملک صفاً صفاً (۱)
ترجمہ: ادھرتمھارے پروردگار عالم کا حکم ھوا اورادھر فرشتے صفیں باندھے ھوئے صف در صف آجائےں گے۔
<فاذا جاء امر اللّٰہ قُضی بےنھم بالحق و خسر ھنا لک المبطلون>[25]
پھر جب حکم خدا آگےا تو حق کے ساتھ فےصلہ کردےا گےا اور اس وقت اھل باطل ھی خسارے میں رھے۔
<و جےیٴ بالنبےن و الشھداء >[26]
اور انبےاء اور شھدا کو لاےا جائے گا۔
حضرت کا ظھور مےدان عمل میں قےامت صغری کی صورت میں ےھی عمل پےش کرے گا جےسا کہ پھلے بھی اشارہ ھوچکا ھے اور آپ اس مقصد اور مشن کو پورا کرےں گے جو انبےاء اور ملائکہ لے کر آئے تھے۔
< اللھم انّی اساٴلک بوجھک الکرےم و بنور وجھک المنےر >
اے خدا ! بے شک میں سوال کرتا ھوں تےری کرےم اور روشن ذات کے صدقے میں۔
نور اور وجہ میں اےسا ھی فرق ھے جےسا ذات اور مظھر ذات میںفرق ھوتا ھے۔
ےھاں پر ممکن ھے کہ وجہ سے مراد ذات پروردگار ھو جےسا کہ آیت شرےفہ میں وارد ھوا ھے :
<کل شیٴ ھالکٌ الّا وجھہ >
اسکی ذات کے سوا ھر چےز ھلاک ھونے والی ھے[27]
اس سے مراد وجہ اللہ ےعنی ذات خداوند عالم ھے[28]۔اور ممکن ھے کہ اس ”وجہ“ سے مراد آئمہ علیھم لسلام ھوں۔
جےساکہ امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ھےں:
نحن حجة اللّٰہ نحن باب اللّٰہ نحن لسان اللّٰہ نحن وجہ اللّٰہ[29]
ھم خدا کی حجت ھےں۔ ھم خدا کے دروازے ھےں ۔ھم خدا کی زبان ھےں اور ھم وجہ اللہ ھےں۔
اب چاھے اس سے مراد ذات پروردگار ھو ےا خود آئمہ علیھم السلام ھوں جو مظھر ذات ھےں مطلب واضح اور روشن ھے۔ کہ اےک عظےم چےز کے لےئے دعا مانگتے وقت واسطہ بھی عظےم ھی ھونا چاہئے۔
<وَمُلْکِکَ القَدےمُ>
اور تجھے تےری قدےم مملکت کا واسطہ ھے
ےہ واضح رھے کہ ملک اور مملکت افعال ِخداوند کے مظھر ھےں ےہ پوری کائنات آئمہ / کے صدقہ میں خلق ھوئی ھے اسی قدےم اور نا قابل تغےر بادشاھیت کا واسطہ،اُس بادشاھیت کا جو تےری ذات کی طرح قدےم اور جس کی تجھ سے جدائی غیر ممکن ھے۔
< ےا حیّ ےا قےّوم >
اے زندہ جاودان کہ جس کا مرنا محال ھے اور اے ھمےشہ رھنے والے کہ جس کا زوال ممکن نھےں ھے۔
ےہ اسماء حسنیٰ خداوند میں سے ھےں یعنی اللہ تبارک و تعالی نہ فقط زندہ تھا اور رھے گا بلکہ اس کی موت محال ھے وھی حےات دےنے والا بھی ھے اور وھی ھے جو عدم سے وجود میں لےکر آتا ھے۔ مردہ کو زندہ کرتا ھے اور بعض مخلوقات تو بار بار موت و زندگی کا مزا چکھتی ھےں جےسے کہ آیت شرےفہ میں بےان ھوا ھے۔
<اذ قال ابراھےم ربّی ےحی و ےمےت>[30]
جب ابراھےم نے ےہ کھا کہ مےرا پروردگار زندہ بھی کرتا ھے اور مارتا بھی ھے۔
<واللّٰہ ےحی و ےمےت واللّٰہ بما تعملون بصےر>[31]
اور اللہ ھی زندگی اور موت کا اختےار رکھتا ھے اور وہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ھے۔
<ھو ےحی و ےمےت و الےہ ترجعون>[32]
(اللہ) ھی ھے جو زندگی اور موت عطا کرتا ھے اور سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ھے۔
<ےخرج ا لمےت من الحیّ و ےحي الارض بعد موتھا>[33]
زندگی سے موت کی جانب لے جاتا ھے اور زمےن کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرتا ھے۔
حیّ کی طرح قےوم بھی اےسی صفت ھے جوصرف خداوند متعال کے لےئے مخصوص ھے اور اس کی قےوّمےّت میں کوئی شرےک نھےں ھوسکتا۔لفظ ِقےوم قرآن مجےد میں تےن مرتبہ استعمال ھوا ھے اور تےنوں مرتبہ صفت حیّ کے ساتھ وارد ھوا ھے جےسا کہ:
< اللّہ لا الہ الّا ھو الحیّ القےوّم >[34]
اللہ جس کے علاوہ کوئی خدا نھےں ھے اور وہ ھمےشہ زندہ ھے اور ھر شیٴ اس کے طفےل قائم ھے۔
<وعنت الوجوہ للحیّ القےوّم>[35]
اور اس دن سارے چھرے خدائے حیّ اور قےوّم کے سامنے جھکے ھونگے۔
شاےد ےھی وجہ ھے کہ اس دعا ئے شرےفہ میں بھی لفظ قےوّم حیّ کے ساتھ آےا ھے اور خداوند عالم کو ان دو اسماء اعظم کا واسطہ دےا جارھا ھے۔
<اساٴلُکَ بِاسْمِکَ الَذّی اَشّرَقْتَ بِہِ السَمٰواتِ والاٴَرْضُونَ>
سوال کرتا ھوں تےرے اس نام کے صدقے میں کہ جو آسمانوں اور زمےنوں کو منور کرتا ھے۔
ممکن ھے اس نام سے مراد باعث خلقت عالم نور پاک حضرت رسوال خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)ھوں جےسا کہ حدےث ”لولاک“ میں بےان ھوا ھے۔ خداوند متعال فرماتا ھے:
ےا احمدُ لَوْلاکَ لَما خَلَقْتَ الا فلاک
و لولا علی لما خلقتک ولولا فاطمہ لما خلقتکما[36]
اے احمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اگر آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نہ ھوتے توھر گز اس کائنات کو خلق نہ کرتا اور اگر علی علیہ السلام نہ ھوتے توھر گز آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو خلق نہ کرتا اور اگر فاطمہ سلام اللہ علےھا نہ ھوتےں توھرگز آپ دونوں کو خلق نہ کرتا۔
ممکن ھے اس سے مراد نور حضرت بقےة اللہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ھو جےسے کلام مجےد میں ارشاد ھوتا ھے:
<اشرقت الارض بنور ربھا >[37]
زمےن اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔
اس آیت شرےفہ کے ذےل میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ:
اذ ا قام قائمنا اشرقت الارض بنور ربّھاو استغنی العباد عن ضوء الشمس ونور القمر [38]
جس وقت ھمارے قائم = قےام کرےں گے تو زمےن پروردگار عالم کے نور سے روشن ھوجائے گی اور لوگ سورج اور چاند کی روشنی سے بے نےاز ھوجائےں گے۔
<و باسمک الذّی ےصلح بہ الاوّلون ولآخرون>
اور تےرے اس نام کا واسطہ جس سے اگلوں اور پچھلوں نے بھلائی پائی۔
بات واضح ھے کہ ےھاں پر خداوند متعال کی ثناء کے ساتھ ساتھ اسی نام کو بھی واسطہ قرار دےا جارھا ھے ممکن ھے ےھاں خداوند کے ھم مثال نہ ھونے کو اشارے کے طور پر بےان کےا جارھا ھو۔
جب کوئی اس کا ھم نام اور ھم صفت اگلے اور پچھلوں میںنہ مل سکتا ھو تو ےہ کےسے ممکن ھے کوئی اس کا ھم مثال ھو جےسے قرآن مجےد میں ارشاد ربّ العزت ھوتا ھے:
<لےس کمثلہ شیٴ و ھو السمےع البصےر>[39]
اس جےسا کوئی نھےں ھے اور وہ سب کی سننے اور ھر چےز کا دےکھنے والا ھے۔
شناخت خدا کی بحث میں ےہ مسئلہ اےک بنےادی حےثےت رکھتا ھے اور ےھی مقام ھے کہ جھاں پرانسان بھٹک کر خدائے حقےقی لاےزال سے دور چلاجاتا ھے اور مادّےات میں سے خدا بنا بےٹھتا ھے جبکہ آےہ شرےفہ میںواضح طور پربےان ھوا ھے کہ کوئی بھی شیٴ اس جےسی نھےں ھوسکتی جسکی مثال دی جاسکے۔ ےہ کس طرح ممکن ھے کہ ھمارے محدود۔ ذھنوں میں اےک لامحدود ذات کو تصوےری شکل دی جاسکے شاےد اسی لےئے کھا جاتا ھے کہ عقل سالم کے لئے اصل وجود خدا کو درک کرنا اےک بدےھی ،آسان ا ور فطری بات ھے لےکن خدا کی صفات کے بارے میںجاننا انتھائی مشکل ھے خلاصہ ےہ کہ وہ اےک اےسا وجود ھے جو ھر جہت سے لامحدود اور مطلق ھے۔
< ےا حیّ قبل کلِّ حی ّ>
اے وہ زندہ جو ھر زندہ سے پھلے موجودتھا۔
جےسا کہ ذکرکیا جاچکا ھے کہ ذات باری تعالی قدےم ھے، جب وہ قدےم اور لامحدود ھے تو اسکے علاوہ ھر شیٴ اسکے بعد وجود میں آئی چاھے وہ مخلوق، جمادات میںسے ھویا مادےات میں سے یا انسانوں میںسے ھویا جنوں میں سے ھو۔
جےسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے:
<و ان من شیٴ الّا ےسبّح بحمدہ و لکن لا تفھمون تسبّحھم >[40]
اور کوئی شیٴ اےسی نھےں ھے جو اس کی تسبےح نہ کرتی ھو لیکن ےہ اور بات ھے کہ تم ان کی تسبےح کو نھےں سمجھتے۔
ےعنی تمام مخلوقات عالم چاھے وہ کسی بھی جنس ےا نوع میں سے ھوں جو کچھ بھی غےراز خدا ھے، وہ خداوند عالم کی تسبےح اور عبادت میں مشغول ھے۔
< ےا حیّ بعد کل حیّ >
اے ھر زندہ کے بعد زندہ رھنے والے۔
ےعنی اےک وقت اےسا بھی آئے گا کہ جب صرف خدا ھوگا اور کچھ نھےں ھوگا جےسا کہ خداوند کی توصےف میں بےان کرچکے ھےں کہ وہ واجب الوجودِ لازوال ھے جبکہ فنا اور نابودی تو فقط زوال پذےر اشےاء کے لےئے تصور کی جاسکتی ھے۔
< ےا حیّ حےن لاحیّ >
اے زندہ کہ جب کوئی زندہ نہ تھا ۔
ممکن ھے ےہ جملہ گذشتہ دو جملوں کو دوسرے الفاظ میں بےان کررھا ھو جس میں بےان کیا گےا کہ ھر شیٴ سے پھلے اور بعد میں فقط خدا ھے ےھاں پر پھلے اور بعد کی قےد ہٹا کر کلی طور پر بےان کےا جارھا ھے اور ےہ بھی ممکن ھے کہ ےھاں پر بےان کےا جارھا ھو کہ خدا متعال کا وجود ایک اےسا وجود ھے جو اُس وقت بھی موجود ھے کہ جب کوئی نہ ھو جبکہ گذشتہ دو جملوں کا مطلب خداوند کا ھر شیٴ سے مقدّم اور موٴخّر ھونا منظور ھو۔
< ےا محی الموتی و ممےت الاحےاء >
اے مردوں کو زندہ اور زندہ کو موت دےنے والے۔
اگرچہ اس بارے میں لفظ حیّ کی تفسےر میں بھی اشارہ ھوچکا ھے لےکن پھر بھی چند مزےد آیت کو ذکر کرنا ضروری سمجھتے ھےں:
<و ھو الذی احےاکم ثم ےمےتکم ثم ےحےکم>[41]
”وھی خدا ھے جس نے تم کو حےات دی ھے اور پھر موت دے گا اور پھر زندہ کرے گا۔“
<اللّٰہ الذی خلقکم ثم رزقکم ثم ےمےتکم ثم ےحےکم>[42]
”اللہ وھی ھے جس نے تم سب کو خلق کےا ھے پھر روزی دی ھے پھر موت دےتا ھے پھر زندہ کرتا ھے“
<کےف تکفرون باللّٰہ و کنتم امواتاً فاحےاکم>[43]
”آخر تم لوگ کس طرح کفر اختےار کرتے ھو جبکہ تم بے جان تھے اور خدا نے تمھیں زندگی بخشی ھے“
آخری آیت میں خداوند متعال اپنے وجود کی دلےل پےش کررھا ھے کہ میں تو وہ ھوں جو تمھےں عدم سے وجود اور نےستی سے ھستی میں لےکر آےا اور اس کے باوجودبھی تم مےرے وجود کا انکار کررھے ھو۔
< ےا حیّ لا الہ الا انت >
اے زندہ کہ تےرے سوا کوئی معبود نھےں ھے
ےھاں گذشتہ جملات کو مذےد تاکےد کے ساتھ بےان کےا جارھا ھے اب جبکہ تو اےسا حیّ ھے تو بھلا کون تےرے علاوہ معبود ھوسکتا ھے فقط تو ھی ھمارا معبود ھے اور ھم فقط تجھ ھی کو سجدہ کرےں گے اور تجھ ھی سے مدد مانگےں گے“۔
ضمناً ےہ بےان کرتے چلےں کہ ” لا الہ “ مادّہ ”حیّ“ کے ساتھ قرآن مجےد میں متعدد مقامات پر بےان کیا گیا ھے مثلاً:
<لا الہ الا ھو ےحی و ےمےت ربّکم و ربّ آبائکم الاوّلےن >[44]
”اس کے علاوہ کوئی خدا نھےں ھے وھی حےات عطاکرنے والا ھے اور وھی موت دےنے والا ھے
وھی تمھارا بھی پروردگار ھے اور تمھارے گذشتہ آباوٴ اجداد کا بھی پروردگار ھے“
<لا الہ الا ھو ےحی و ےمےت فاٰمنوا باللّٰہ و رسولہ > [45]
”اس کے علاوہ کوئی خدا نھےں ھے وھی حےات دےتا ھے اور وھی موت دےتا ھے لہٰذا اللہ اور اس کے پےغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر اےمان لے آؤ“
<اللّٰہ لا الہ الّا ھو الحیّ القےوم > [46]
”وہ اللہ جس کے علاوہ کوئی خدا نھےں ھے اور وہ ھمےشہ سے زندہ ھے اور ھر شیٴ اس کے طفےل میں قائم ھے“
<الم۔ اللّٰہ لا الہ الّا ھو الحیّ القےوم>[47]
”الم۔ وہ اللہ جس کے علاوہ کوئی خدا نھےں اور وہ ھمےشہ سے زندہ ھے اور ھر شیٴ اس کے طفےل میںقائم ھے“
<ھو الحیّ لا الہ الّا ھو فادعوہ >[48]
”وہ ھمےشہ زندہ جاوید رھنے والا ھے اوراسکے علاوہ کوئی دو سراخدا نھےں پس اسی کی عبادت کرو “
مذکورہ آیت کرےمہ کی روشنی میں معلوم ھوتا ھے کہ حےات باری تعالیٰ اور اس کے معبود ھونے میں کوئی خاص رابطہ ھے، معبود صرف حیّ ھوسکتا ھے مردہ اور زوال پذےر چےز کی کوئی وقعت نھےں ھے۔
< اللھمّ بلغّ مولانا الامام الھادی المھدی القائم بامرک صلوات اللّٰہ علےہ و علی آبائہ الطاھرےن>
اے خداوند ! ھمارے آقا امام زمان عجل اللہ تعالیٰ
فرجہ الشریف کو بھےج، جو ھماری ھداےت کرنے والے اور خود ھداےت شدہ ھےں اور تےرے امر کو انجام دےنے کے لےئے تےار ھےں ،خدا کا درود ھو ان پر اور ان کے اجداد طاھرےن پر۔
”مولا“ مشترک لفظ ھے کبھی کنےزا ور غلام کے مالک کومولا کھا جاتا ھے اور کبھی کسی بزرگ ےا عالم دےن کو مولانا (ھمارے مولا)کہتے ھیں ،جب کہ کبھی اپنے حقےقی اور مکمل معنی میں جو کہ صاحب اختےار کے ھےں استعمال ھوتا ھے جوکہ فقط پروردگار عالم کی ذات اقدس کے لئے مخصوص ھے جبکہ کبھی اےسی شخصےات کے لےئے بھی استعمال ھوتا ھے جو خداوند عالم کی جانب سے ھمارے دنےاوی اور اخروی امور کے مالک ھوں ھمارے دےن اور دنےا میں تصرف کا حق رکھتے ھوں خلاصہ ےہ کہ ھم سراپا ان کے اختےار میں ھوں ےقےنا ھر زمانے کی حجت صاحب اختےار اور مولا ھےں لہٰذا ھمارے زمانے کے مولیٰ حضرت بقےة اللہ الاعظم روحی و ارواح العالمےن لہ الفدیٰ ھےں۔
لفظ ” امام“کے معنی رھبر اور آگے چلنے والے کے ھےں امام ملّت ےعنی قوم کے رھبر ےا پےش امام جن کی اقتداء میں نماز پڑھی جائے جو وقت ادائے فرےضہ نماز میں سب سے آگے کھڑے ھوتے ھےں۔
ےھاں پرامام اپنے حقےقی اور وسےع معنی میں استعمال ھوا ھے ےعنی پوری امت کے رھبر جےسا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لےئے رب العزت کا ارشاد ھے:
<و ما ارسالناک الّا رحمة للعالمےن>[49]
”اور ھم نے آپ کو عالمےن کے لےئے صرف رحمت بنا کر بھےجا ھے“
فقط موٴمنےن ےا انسانوں تک بات محدود نھےں بلکہ عالمےن کے لےئے رحمت ھےں،آپ کے کاندھوں پر دو عالم کی رھبری کی ذمّہ داری ھے لہٰذا جو بھی انکا نائب حقےقی ھوگا وہ بھی عالمےن کے لےئے امام اور رحمت ھوگاپس اسی طرح امام معصوم (ع) عالمےن کے امام اور رحمت ھےں۔
لفظ ” ھادی“ ےھاں اپنے حقےقی معنی میں استعمال ھوا ھے ےعنی وہ لوگوں کی ھداےت کرےں گے ،گمراھی اور ضلالت سے نکال کر صراط مستقےم کی جانب رھنمائی فرمائےں گے جےسا کہ آدم علیہ السلام سے لےکر سارے اولےاء اور اوصےاء کا ےھی ھدف اور مقصد رھاھے اورسب کا ایک ھی نعرہ رھا ھے ” لوگوں کی حق مطلق کی طرف ھداےت“ آپ کے ظھور سے وہ دعا جو ھم دن میں حد اقل دس مرتبہ اپنی نمازوں میں دھراتے ھےں:
<اھدنا الصراط المستقےم > [50]
”ھمیں سےدھے راستے کی ھداےت فرما‘ اپنے انجام کو پھنچے گی۔
لفظ ”مھدی“ (عج) حضرت کے لئے متعدد روایت میں وارد ھوا ھے آپ کے اسماء گرامی میں ےہ نام سب سے زےادہ شھرت کا حامل ھے اھل سنت اور اھل تشےع کے منابع میں ےہ نام ےکساں طور پر پہچانا جاتا ھے۔
جےسے کا امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ:
انما سمّی القائم مھدےّا لاَنّہ ےھدی الیٰ امر مضلول عنہ[51]
” بے شک حضرت قائم کو مھدی اس لئے کھا جاتا ھے کےونکہ وہ اےک گمشدہ اور ترک شدہ امر کی جانب ھداےت کرےں گے،
اےک اور مقام پر امام صادق علیہ السلام فرماتے ھےں:
لاَنّہ ےھدی الی کل امر خفیّ[52]
”کےونکہ وہ ھر پوشےدہ امر کی جانب ھداےت فرمائےں گے“۔
اےک اور مقام پر امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ھوتا ھے :
فانّما سمّی المھدی لانّہ ےھدی لامر خفیّ [53]
” بے شک حضرت کو مھدی(عج) کھنے کی وجہ ےہ ھے کہ وہ پوشےدہ امر کی طرف ھداےت کرےں گے۔
تمام مذکورہ روایت میں گمشدہ امر سے مراد دےن مبےن اسلام ھے جس کو ےا تو بھلاےا جاچکا ھے ےا پھر ابھی تک بہت سے اےسے احکامات ھےں کہ جس کو ھم سمجھنے سے قاصر ھےں۔
لفظ ”قائم“ کا اطلاق بھی فقط آپ ھی کے لئے مخصوص ھے ،حضرت ابو حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ھے کہ میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کےا کہ :
”ےا ابن رسول اللّٰہ اٴلستم کلکم قائمےن بالحق“آےا آپ سارے آئمہ قائم بر حق نھےں ھےں۔
امام علیہ السلام نے جواب میں فرماےا: ھاں (کےوں نھےں ؟)
ابوحمزہ ۻ نے پوچھا: تو پھر حضرت بقےة اللہ الاعظم کا نام قائم کےوں رکھا گےا ھے ؟
جس کے جواب میں امام علیہ السلام نے فرماےا: لمّا قتل جدّی الحسےن علیہ السلام ضجّت الملائکة الیٰ اللّٰہ عزّ و جلّ بالبکاء والنجےب و قالوا الھنا و سےدنا اَ تفعل عمّن قتل صفوتک و ابن صفوتک من خلقک فاوحیٰ اللّٰہ عزّ و جلّ الےھم قرّوا ملائکتی فوعزّتی وجلالی لاٴنتقمنَّ منھم و لو بعد حےن ثم کشف اللّٰہ عزّ و جلّ عن الائمة من ولد الحسےن علیہ السلام للملائکة فسّرت الملائکة بذلک فاذا احدھم قائم ےصلّی فقال اللّٰہ عزّ و جلّ بذلک القائم انتقم منھم [54]
ترجمہ:”جس وقت مےرے جدّ حضرت امام حسےن علیہ السلام شھےد ھوئے تھے تو ملائکہ نے گرےہ وزاری شروع کردی اور خداوند عالم سے کھنے لگے اے خدا آےا تو اپنے برگزےدہ اور پےامبر گرامی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے فرزند کے قتل کو نظر انداز کردے گا جو تےری بہترےن مخلوق کا فرزند ھےں۔
پھر خداوند عالم نے ملائکہ کے لئے وحی فرمائی: اے مےرے ملائکہ ! صبر کرو ،مےری عزت اور جلال کی قسم بے شک ان لوگوں سے انتقام لوں گا چاھے کتنا عرصہ بھی کےوں نہ گزر جائے ،پھر خداوند عالم نے پردہ ہٹاکر فرشتوں کو امام حسےن علیہ السلام کی اولاد میں سے آئمہ علیھم السلام کی زےارت کروائی جس پر فرشتے خوش ھوگئے انھوں نے انوار آئمہ علیھم السلام میں سے اےک کو دےکھا جو ان کے درمےان کھڑے ھوکر نماز میں مشغول تھے۔
پھر خداوند عالم نے فرماےا: میںاس قائم (عج)کے ذرےعہ انتقام لوں گا“ جےسا کہ ھم دعائے شریف ندبہ میںپڑھتے ھےں ”اےن الطالب بدم المقتول بکربلا (دعائے ندبہ)کھاں ھے کربلا میں شھےد ھونے والے کے خون کا بدلہ لےنے والے۔
اسی لفظ ”قائم“ کے بارے میں مزےد روایت میں ےوں وارد ھوا ھے:
امام جواد علیہ السلام سے جب سوال ھوا کہ حضرت (ع) کو قائم کےوں کھا جاتا ھے تو امام علیہ السلام نے فرماےا:
لاَنّہ ےقوم بعد موت ذکرہ و ارتداد اکثر القائلےن بامامتہ[55]
کےونکہ وہ اس وقت ظھور فرمائےں گے کہ جب ان کا ذکر ختم ھوچکا ھوگا او راکثر لوگ جو انکی امامت کے قائل ھوں گے وہ مرتد ھوچکے ھونگے۔
اور ےہ واضح رھے کہ ےہ قےام پروردگار عالم کے امر سے ھوگا اور حضرت (عج) خداوند عالم کے احکامات کو لوگوں تک پھنچائےںگے شاےد مراد وہ امر ھو کہ جسکی اطاعت کا قرآن مجےد میں ذکر ھوا ھے:
< اطےعوا اللّٰہ و اطےعوا الرسول و اولی الامر منکم[56]
”اللہ کی اطاعت کرواور اسکے رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی اطاعت کرو جو اولی الامر ھوں“
اگرچہ مسلمانوں کے درمےان اولی الامر کے معنی میں بہت زیادہ اختلاف پاےا جاتا ھے بعض مفسرےن کا کھنا ھے کہ اولی الامر سے مراد حکومت کی سب سے بڑی اور اعلیٰ شخصےت ھے اور بعض کا کھنا ھے کہ اس سے مراد علماء اور لوگوں کا نمائندہ ھے۔ بعض افراد کے مطابق روحانی اور معنوی قائدےن ھےں ےعنی فقط عادل علماء جو قرآن و سنت کو مکمل طور پر جانتے ھوں جبکہ بعض علماء اھل سنت کا اس بات پر اصرار ھے کہ اس سے مراد اجماع ھے ےعنی لوگوں کی اکثرےت جس بات پر قائل ھوجائے وھی حجت ھے۔
جبکہ اھل تشےع کے سارے علماء اور مفسرےن اس بات پر متفق ھےں کہ اس آیت شرےفہ میں اولی الامر سے مراد آئمہ معصومےن علیھم السلام ھےں۔
آےہ شرےفہ میں اطاعت کا حکم مطلق آےا ھے، جسکا مطلب ےہ ھے کہ بغےر کسی خدشہ اور خوف کے ان کی اطاعت کی جائے ،اس سے ےہ بات سمجھ میں آتی ھے کہ جس کی اطاعت کا حکم بغےر کسی خطا ء کے خوف سے ھو اسے ےقےنا ”معصوم“ ھونا چاھےے کےونکہ ھرگز غےر معصوم کی مطلق اطاعت معقول نھےں کےونکہ اس کے ھر فعل و قول میں غلطی اور اشتباہ کا احتمال ھوتا ھے جبکہ فقط معصوم علیم السلام کی ھی ذات اےسی ھوتی ھے جس میں غلطی اور بھولنے کا کوئی امکان نھےں ھوتا۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھےں تو گذشتہ تمام احتمالات خود بخود ختم ھوجائےں گے۔ حکومتی رئےسوں کی اطاعت کسی طور پر جائز نھےں ھوسکتی کےونکہ حکومت کے بڑے عھدے پر فائز ھو نے کا ھرگز ےہ لازمہ نھےں کہ وہ خطاؤں سے پاک ھو جس کا مشاھدہ مسلمانوں کے درمےان ھونے والے واقعات میں کثرت کے ساتھ کےا جاسکتا ھے۔
بغےر کسی تردےد کے بنی امےہ اور بنی عباس کے خلفاء اسکی بہت روشن مثال ھےں اسی طرح موجودہ زمانے تک مشاھدہ کرتے چلے آئےں کس مسلمان حکومت کے حاکم صدر ےا وزےر اعظم پر اندھا اعتماد کےا جاسکتا ھے ؟اگر اپنے ضمےر سے جواب طلب کرےں تو بغےر کسی شک کے جواب منفی ھوگا۔
جن لوگوں کا کھنا ھے کہ” وہ عادل علماء جو قرآن و سنت سے آگاہ ھوں“ مراد ھےں تو پھر سوال ےہ پےدا ھوگا کہ اس بات کا فےصلہ کون کرے گا کہ کونسا عالم عادل ھے اور قرآن و سنت سے پوری طرح آگاہ ھے۔ عوام میں تو اس بات کی صلاحےت نھےں ھوتی ھے لہٰذا اھل خُبراء ےعنی مفتی اور مجتھدےن ھی اس بات کا فےصلہ کرسکتے ھےں جسکا مطلب ےہ ھوا کہ مفتی اور مجتھدےن حضرات جس کے حق میں فےصلہ کرےں وہ ھی واجب الاطاعت ھوگاجس کا نتےجہ ےہ ھوگا کہ دراصل مفتی اور مجتھدےن ھی واجب الاطاعت ھونگے کےونکہ اصل فےصلہ تو انکا ھوگا نہ کہ اس عالم کاجو منتخب ھوا ھے، اورےہ بات قطعاً آےہ مبارکہ کے خلاف ھے۔
اگر اس سے مراد اجماع ھے تو عرض کرتے چلےں کہ اس بات کا وجود میں آنا کہ ساری امت متفق ھوجائے ےہ غےر ممکن ھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حےات طےّبہ کے بعد سے آج تک مسلمان رھبری اور امامت جےسے اھم مسئلہ پر متفق نھےں ھوسکے ھےں اگر پھلی اور دوسری صدی کی تارےخ کو ھی مد نظر رکھےں تو حکومت اور سےاسی نوک جھوک میں کتنے ھی قتل و غارت اور جنگےں نظر سے گزرےں گی حتی حکومت کے حصول کے لےئے بچے اور عورتوں کا تو کےا اپنے خاندان کے افراد کو بھی ذبح کرنے سے درےغ نھےں کےا گےا۔ ےہ ساری سےاسی چالےں اور مکارےاں آج بھی تارےخ میں درج ھےں۔
دوسری بات ےہ ھے کہ جب ےہ ثابت ھوچکا ھے کہ امت کو کوئی بھی شخص معصوم نھےں ھے ےعنی اگر سب کو الگ الگ کرکے حساب کےا جائے تو کوئی بھی گناھوں اور خطاؤں کی لپےٹ سے آزاد نھےں ملے گا اےسی صورت حال میں ان کی حےثےت صفر کی ھے اب ےہ صفر چاھے لاکھوں اور کڑوڑوں میں بھی تبدےل ھوجائےں صفر ھی رھےں گے ان کی حےثےت میں کوئی تبدےلی واقع نھےں ھوگی۔
اگرچہ اھل تشےع میں کسی بھی اجماع کی اگر وہ معصوم (ع) کے بغےر ھو کوئی حےثےت نھےں ھے۔ اگر کھےں اجماع کو دلےل مانا بھی جاتا ھے تو وہ وجود مقدس معصوم (ع) کی وجہ سے ھے۔ معصوم (ع) کے وجود سے خالی اجماع ھرگز قابل قبول نھےں ھے۔
اس بات کا اعتراف کہ اطاعت مطلق کے واجب ھونے کا مطلب ےہ ھے کہ جس کی اطاعت کی جارھی ھو وہ معصوم ھو اھل سنت کے عظےم مفسر فخر رازی نے اس طرح کےا ھے کہ ” خدا جس کی اطاعت کا حکم قطعی طور پر اور بغےر کسی چون وچرا کے دےتا ھے وہ ےقےنا معصوم (ع) ھونا چاھےے کےونکہ اگر خطاء سے محفوظ نہ ھو اور خداوند عالم نے اس کی اطاعت کا حکم دے رکھا ھو تو ےہ اےک قسم کا کلام خدا میں تضاد ھے کےونکہ اےک جانب سے اس کا حکم ماننا ممنوع ھے اور دوسری طرف سے اطاعت کا حکم دےا جارھا ھو کہ جو اےک ھی فعل میں امر و نھی کے جمع ھونے کا سبب بنے گا جو محال ھے لہذا اس بات سے ثابت ھوجاتا ھے کہ خداوند عالم نے جو قطعی طور پر مطلق اطاعت کا حکم دےا ھے اس کا لازمہ ےہ ھے کہ ےہ اولی الامر معصوم (ع) ھو“[57]
لہٰذا اب جو احتمال باقی بچتا ھے کہ جس پر کوئی اعتراض ممکن نھےں ھے وہ ےھی ھے کہ جو علمائے اھل تشےع کہتے ھےں۔اس آیت مبارکہ شرےفہ میںاولی الامر سے مراد آئمہ معصومےن علیھم السلام ھےں۔
اس بات کی تائےد میں منابع اھل تشےع میں متعدد روایت بھی وارد ھوئی ھےں ھم فقط منابع اھل سنت سے نمونہ کے طور پر چند اےک روایت کو نقل کرتے ھےں۔
ابو حےان اندلسی نے لکھا ھے کہ ےہ آیت علی علیہ السلام کے حق میں نازل ھوئی ھے۔[58]
علامہ ابوبکر بن مومن شےرازی اپنے ”رسالة الاعتقاد “ میں لکھتے ھےں۔(طبق مناقب الکاشی) ابن عباس سے روایت ھے کہ ےہ آیت مبارکہ علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ھوئی ھے[59]
شےخ سلےمان حنفی قندوزی لکھتے ھےں کہ اےک دن اےک آدمی حضرت امےرالموٴمنےن علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں آےا اور سوال کےا کہ سب سے معمولی چےز کون سی ھے کہ جس کی وجہ سے انسان موٴمن بن جاتا ھے ؟ اور سب سے کم چےز کون سی ھے کہ جس کے سبب انسان کافر ےا گمراہ ھوجاتا ھے؟
حضرت امےر الموٴمنےن علیہ السلام نے جواب میں فرماےا: ” سب سے کم چےز کی جس کے سبب انسان گمراہ ھوجاتا ھے وہ ےہ ھے کہ انسان حجّت خدا کہ جس کی اطاعت لازم ھو اس کو نہ پہچانے“
اس آدمی نے سوال کےا :” ےا امےر الموٴمنےن علیہ السلام وہ لوگ کون ھےں مجھے بتلائےں “
امام علیہ السلام نے فرماےا: وھی لوگ جو آیت شرےفہ :< ےا اےھا الذےن آمنوا اطےعوا اللّٰہ و اطےعوا الرسول و اولی الامر منکم>[60] میں ذکر ھےں۔
اس شخص نے پھر سوال کےا ” مےری جان آپ پر قربان ھو کچھ وضاحت کے ساتھ فرمائےں۔
امام عالی مقام علیہ السلام نے جواب میں فرماےا: وھی لوگ کہ جن کے بارے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے آخری خطبہ میںذکر کےا تھا ” انی ترکت فےکم امرےن لن تضلوا بعدی ان تمسکتم بھما کتاب اللہ و عترتی اھل بےتی “[61]
” میں تمھارے درمےان دو ےادگار چےزےں چھوڑ کر جارھا ھوں اگر ان کے ساتھ رھو گے تو ھر گز مےرے بعد گمراہ نھےں ھوگے خدا کی کتاب قرآن اور مےرے اھل بےت علیھم السلام ۔“
ےہ بات تو مقدمہ میں بےان ھوچکی ھے کہ اگر کوئی منصب ےا فضےلت کسی اےک معصوم (ع)کے لےئے ثابت ھوجائے تو سب میں ےکساں طور پر پائی جاتی ھے ےھی وجہ ھے کہ ھم حضرت بقےة اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف کو ”صاحب امر“ ارواحنا فدا بھی کہتے ھےں۔
محمد و آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر درود بھےجنے کے بارے میں ارشاد رب العزت ھے کہ :
< ان اللّٰہ و ملائکتہ و ےصلون علی النبی ےا اےھا الذےن آمنوا صلّوا علےہ و سلّموا تسلےماً>
”بے شک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلوات بھےجتے ھےں تو اے صاحبان اےمان تم بھی ان پر صلوات بھےجتے رھو اور سلام کرتے رھو[62]
البتہ ےہ بات واضح رھے کہ جب صلوات کو خداو ند متعال سے نسبت دی جائے تو رحمت کے نزول کے معنی میں آتا ھے اور جس وقت فرشتوں او مومنےن سے نسبت دی جائے تو طلب رحمت کے لئے استعمال ھوتا ھے۔
دوسری بات کہ جسکا جاننا ضروری ھے وہ ےہ ھے کہ ” صلوات اور سلام “ میں فرق ھے ۔صلّوا طلب رحمت اور پےامبر گرامی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر درود بھےجنے کے لئے آتا ھے لےکن سلّموا کے بارے میں دو احتمال ھےں ” اےک تو ےہ کہ حضرت ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانے میں اور احکامات کے سامنے سر تسلےم خم ھونا ھے جےسے اےک اور مقام پر خالق کائنات کا ارشاد ھوتا ھے کہ :
< ثم لا ےجدوا فی انفسھم حرجا جامعا قضےت و ےسلموا تسلےماً> [63]
ترجمہ: ”اور پھر جب آپ فےصلہ کردےں تو اپنے دل میں کسی طرح تنگی کا احساس نہ کرےں اور آپ کے فےصلہ کے سامنے سراپا تسلےم ھوجائےں“۔
جےسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ حضرت ابو بصےر رضی اللہ عنہ نے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی نسبت کے معنی کے بارے میں سوال کےا تو حضرت علیہ السلام نے فرماےا :
ھو التسلےم لہ فی الامور [64]
ھر کام میں پےامبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے سامنے تسلےم رھنا ھے۔دوسرا معنی آپ پر سلام بھےجنے کے لےئے ھے جےسے ” السلام علےک ےا رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)“
ابو حمزہ ثمالی ۻ سے روایت ھے کہ جب آیت مذکورہ نازل ھوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے صحابی کعب نے پوچھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر سلام کرنے کو تو ھم سمجھ گئے ھےں لےکن صلوات کےسے بھےجی جائے تو حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے جواب میں فرماےا کھو:
اللھم صلی علی محمد وآل محمدکماصلےت علی ابراھےم انک حمےد مجےدو با ر ک علی محمد و آل محمد کما بارکت علی ابراھےم و آل ابراھےم انک حمےد مجےد[65]
اگرچہ ظاھری طور پر ےہ دونوں معنیٰ اےک دوسرے سے مختلف نظر آتے ھےں لےکن حقےقت میں اس کا نتےجہ اےک ھی نکلتا ھے اور وہ ےہ ھے کہ جو شخص آپ (ص)پر سلام بھےج رھا ھے اور خدای متعال سے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی سلامتی کا طلب گار ھے ےقےنا وہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے دوستوں اور محبت کرنے والوں میں سے ھے جبکہ محبت کرنے والا صرف اسی کو کھا جائے گا کہ جو مطلق طور پر آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے فرمان اور احکامات کے سامنے تسلےم ھو۔
اھل سنت کے بزرگ مفسر امام جلال الدےن سےوطی اپنی تفسےر در المنثور میں اس آیت شرےفہ کے ذےل میں بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ،ابن ماجہ اور ابن مردوےہ سے متعدد
متعدد روایت نقل کرتے ھےں[66]ھم صرف اےک روایت کو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ھےں۔
اےک شخص حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی خدمت میں حاضر ھوا اور سوال کےا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر سلام بھےجنے کو تو ھم سمجھ گئے لےکن صلوات کےسے بھےجی ۔
جائے حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے جواب میں فرماےا کھو: ”اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد کما صلےت علی ابراھےم انّک حمےد مجےد اللھم بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراھےم و آل ابراھےم انّک حمےد مجےد“
اسی مضمون کی تفسےر میں ۱۸ روایت نقل ھوئی ھےں البتہ ےاد رھے کہ اھل سنت اور اھل تشےع کے منابع میں متعدد روایت میں کلمہ ”علی“ کے بغےر صلوات نقل ھوئی ھے جےسے : اللھم صلی علی محمد و آل محمد۔
اھل تشےع کے تمام فقھاء اور مجتھدےن کا اس بات پر اتفاق رائے ھے کہ نماز کے دونوں تشھدوں میں صلوات بھےجنا واجب ھے اور اگر کوئی بغےر صلوات کے نماز پڑھے گا تو اس کی نماز صحےح نھےں ھے۔
<عَنْ جَمِیعِ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ فِی مَشارِقِ الاََْرْضِ
وَمَغارِبِھا سَہْلِھا وَجَبَلِھا وَبَرِّھا وَبَحْرِھا >
(تما م موٴمنےن اور مومنات کی جانب سے چاھے وہ کرہٴ ارض کے شرق میں ھوں ےا غرب میں،صحراء میں ھوں ےا پھاڑوں میں خشکی میں ھوں ےا سمندر میں)
تمام خلائق عالم کی جانب سے اُن پر اور اُن کے اجداد پر صلوات ھو دنےا کی ھر مخلوق اُن کے انتظار میں سرگرداں ھے۔حضرت عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظھور سے ھر چےز کو قرار آجائے گا۔اسی لےئے ھماری دعا ھے کہ ھماری اور تمام مخلوقات کی جانب سے حضرت کو درود اور سلام پھنچے۔
<وَعَنِّی وَعَنْ وَالِدَیَّ مِنَ الصَّلَواتِ >
(اور مےری طرف سے اور مےرے والدےن کی طرف سے درود ھو)
ےھاں پر ادبی لحاظ سے عطف خاص، عام کے بعد ذکر ھواھے ےعنی مطلب ےہ ھوا کہ جب موٴمنےن اور مومنات کھا جاچکا تو پھر (میں اور مےرے والدےن) بھی انھی موٴمنےن میں شامل ھےں لےکن اھمےت اور خصوصےت کو بےان کرنے کے لےئے ےہ عطف خاص ، عام کے بعد لانا معمول کے مطابق ھے۔
< زِنَةَ عَرْشِ اللّہِ وَمِدادَ کَلِماتِہ وَمَا اٴَحْصاہُ عِلْمُہُ وَاٴَحاطَ بِہِ کِتابُہُ>
(جو عرش خدا کا ھم وزن ھوخدا کے کلمات کی طرح پھےلاؤ کا حامل ھو اور اس کے علم نے جس جس شیٴ کا احاطہ کےا ھے اور جس جس شیٴ کا اس کتاب میں ذکر ھے اتنا ھی وسےع اور گستردہ ھو)
ظاھری طور پر سارے کلمات دعا کی اھمےت اور خصوصےت کو بےان کررھے ھےں کےونکہ جب کسی عظےم چےز کو مانگا جائے تو واسطہ بھی اس کے شاےان شان ھونا چاھےے۔ عرش خدا کا وزن باوجود اسکے کہ وہ بھی مخلوق خداوند ھے لےکن ممکن نھےں کہ خداوند اور اسکے خاص بندوں کے علاوہ کوئی بھی اسکے بارے میں علم رکھتا ھو۔
کلمات خداوند کی مقدار بھی اسی طرح سے ھے کہ جس طرح سے خود ارشاد خداوند رب العزت ھے کہ:
<قل لو کان البحر مداداً لکلمات ربّی لنفذ البحرُ قَبْلَ ان تنفذ کلمات ربّی و لو جئنا بمثلہ مداداً>[67]
”آپ کہہ دےجئے کہ اگر پروردگار کے کلمات کے لےےء سمندر بھی روشنائی بن جائے تو کلمات رب ختم ھونے سے پھلے ھی سارے سمندر ختم ھوجائےں گے چاھےں ان کی مدد کے لےئے ھم وےسے ھی سمندر اور بھی لے آئےں“
علم اور کتاب خداوند عالم لا محدود ھے اس لامحدود علم اور کتاب کو واسطہ قرار دےا جارھا ھے جےسا کہ کتاب خداوند کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے ۔
<ما فّرطنا فی الکتاب من شیٴ >
(ھم نے کتاب میں کسی چےز کے بےان میں کوئی کمی نھےں کی ھے)[68]
<و لا رطب و لا ےابس الّا فی کتاب مبےن>
(ا ور کوئی خشک وتر اےسا نھےں ھے جوکتاب مبےن کے اندر محفوظ نہ ھو)[69]
<تبےاناً لکلّ شیٴ>
(اس (کتاب ) میں ھر چےز کی وضاحت موجود ھے)[70]
اس کتاب خدا کا اےک ظاھر ھے اور اےک باطن ھے۔ ظاھر تو معلوم ھے کہ شرےعت ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور باطن وہ علم ھے کہ جو خداوند کی طرف سے حضرت خاتم الانبےاء (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور ان کے جانشےن کو عطا ھواھے۔
جےسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)فرماتے ھےں:
”انا مدےنة العلم و علی بابھا فمن اراد العلم فلےات باب المدےنة“
میں علم کا شھر ھوں اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ھےں لہذا جو کوئی علم کے حصول کا ارادہ رکھتا ھے وہ دروازے سے آئے۔[71]
اسی طرح امےر الموٴمنےن حضرت علی ابن ابی طالب علےھما السلام نے فرماےا:
اعلم ان جمےع اسرار الکتب السماوےہ فی القرآن وجمےع ما فی القرآن فی الفاتحة و جمےع مافی الفاتحة فی البسملہ وجمےع مافی البسملہ فی باء البسملہ و جمےع ما فی باء البسملہ فی النقطة التی ھی تحت الباء قال الامام علیہ السلام انا نقطة التی تحت اللباء [72]
ترجمہ:”جان جاوٴ بے شک ساری آسمانی کتابوں کا علم قرآن میں ھے اور جو کچھ قرآن میں ھے وہ سورہ فاتحہ میں ھے اور کچھ سورہ فاتحہ میں ھے ۔۔۔میںھے وہ بسم اللہ میں ھے اور جو کچھ بسم اللہ میں ھے وہ اس کے حرف باء میں ھے اور جو کچھ حرف باء میں ھے وہ اس کے نقطہ میں ھے امام علی علیہ السلام نے فرماےا: اور میں وہ نقطہ ھوں جو باء کے نےچے ھے۔“
اسی طرح جب جنگ صفےن میں شامےوں نے قرآن کو نےزوں پر اٹھاےا اور اس کو حَکَم بنانا چاھا تو حضرت امےر الموٴمنےن علی ابن ابی طالب علےہ السلام نے فرماےا:
”انا القرآن الناطق“[73]
ترجمہ: میں قرآن ناطق ھوں۔
جب دعا قرآن ناطق اور باء بسم اللہ کے ظھور کی ھو تو واسطہ بھی اس کی حےثےت کے مطابق ھونا چاھےے۔
حال حاضر میں خلائق کائنات میں حضرت (عج)سے زےادہ افضل و اعلم کوئی ذات وجود نھےں رکھتی وہ وارث علم انبےاء اور اوصےاء سلام اللہ علےھم اجمعےن ھےں لہٰذا ان کی حےثےت کے مطابق وسےع و عرےض چےزوں کے واسطہ دےئے جارھے ھےں۔
< اللّہُمَّ إِنِّی اٴُجَدِّدُ لَہُ فِی صَبِیحَةِ یَوْمِی ہذَا وَمَا عِشْتُ مِنْ اٴَیَّامِی عَہْداً وَعَقْداً وَبَیْعَةً لَہُ فِی عُنُقِی لاَ اٴَحُولُ عَنْہ وَلاَ اٴَزُولُ اٴَبَداً >
(اے خدا ! بے شک میں آج کی صبح کا آغازا ور جب تک زندھرھوں گا ےہ عھد اور پےمان اور ان کی بےعت جو مےری گردن پر ھے اس کو نہ بدلوں گا اور نہ کبھی ترک کروں گا۔)
ےہ بات صرف اس صبح اور باقی ماندہ زندگی کے لےئے نھےں ھے بلکہ ھمےشہ ھمےشہ کے لےئے عھد وعقداور بےعت کرتا ھوں واضح رھے کہ ”عھد“ اےک عملی مظاھرہ ھے کہ جو معاھدہ کے بعد کا مرحلہ ھے جبکہ ”عقد“ اعتقاد قلبی اور اس پر اےمان کا نام ھے اسی طرح ”بےعت“ ملکی معاملات میں تسلےم ھونے کانام ھے۔ مےرا پواراخلاص مےرااےمان مےرا عقےدہ مےرا ظاھر مےرا باطن سب حضرت بقےة اللہ کے لےئے ھے اس طرح سے کہ ان امور میں سے کچھ بھی کمی نہ ھونے پائے۔
ےھاں پر امامت اور ولاےت کے تابع ھونے کا ثبوت دےا جارھا ھے اور ےہ عقےدہ ھمےشہ ھمےشہ کے لےئے ھے اس میں کچھ تبدےلی نہ آنے پائے۔
ےہ ھر صبح پڑھنے کے لےئے ھے حدّ اقل چالےس صبح کو ضرور پڑھے کےونکہ چالےس دنوں میں جاکر ممکن ھے کہ انسان کا عھد،عقد اور بےعت مکمل ھو جےسے کہ چالےس سال میں پھنچ کر انسان کامل ھوتا ھے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ: اذا بلغ اربعےن سنة فقد بلغ منتھا [74]
جب انسان چالےس سال کا ھوتا ھے تو پھر جاکر مکمل ھوتا ھے۔
لہٰذا جب تک چالےس عدد پورے نہ ھوجائےں اس کو پڑھا جائے ےھاں تک کہ اےمان کامل ھوجائے اور اس کے بعد اس لئے پڑھتا رھے کہ اےمان باقی رکھ سکے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھےں: ما اخلص عبد الاےمان با للّٰہ اربعےن ےوماً الّا زھدہ اللّٰہ فی الدنےا و بصّرہ دائھا و دوائھا و اثبت الحکمة فی قلبہ [75]
کسی بندہ کا اےمان خداوند کے اوپر خالص نھےں ھوتا مگر ےہ کہ خداوند ا س کو چالےس روز دنےا سے بے رغبت کردےتا ھے اور اس کے درداور دواء کی نشاندھی کردےتا ھے اور حکمت کو اس کے قلب پر ثابت کردےتا ھے۔
اب جبکہ چالےس دنوں میں اےمان خالص،بےعت و عھد و عقد خالص ھوجائے تو ھرگز میں اپنے مقام سے تنزل نہ کروں اور صبح کی تاکےد بھی اسی لےئے ھے کہ جب اس دعا کے نتےجہ کا وقت ھوگا ےعنی جب دعا کا ثمرہ ظھور کی صورت میں نصےب ھوگا تو میں شروع سے ان کے ساتھ رھوں خدانخواستہ کھےں اےسا نہ ھو کہ ظھور کے وقت مےرے اےمان میں کمی آجائے مجھے شروع سے ان کے ساتھ رھنا چاھےے نہ ےہ کہ وسط ےا آخری دور میں جاکر ملوں۔ میں اپنی شروعات انھےں کے ساتھ کرنا چاہتا ھوں جےسے اپنے دن کی شروعات اس عقد و عھد کے ذرےعہ کررھا ھوں۔
اور پھر جب عھد و پےمان ھوگےا اور بےعت کرلی گئی تو پھر کھا جائے گا:
< اللّہُمَّ اجْعَلْنِی مِنْ اٴَنْصارِہِ وَاٴَعْوانِہِ وَالذَّابِّینَ عَنْہُ والْمُسارِعِینَ إِلَیْہِ فِی قَضاءِ حوَائِجِہِ وَا لْمُمْتَثِلِینَ لاََِوامِرِہِ وَالْمُحامِینَ عَنْہُ وَالسَّابِقِینَ إِلی إِرادَتِہِ وَالْمُسْتَشْہَدِینَ بَیْنَ یَدَیْہِ>
(اے خدا! مجھے ان کے انصار اور اعوان میں سے قرار دے اور ان کا دفاع کرنے والوں میں سے اور انکی حاجت روائی کرنے والوں میں انکی طرف بڑھنے والوں میں سے اور انکے حکم پر چلنے والوں میں سے اور انکی جانب لوگوں کو بلانے والوں میںسے اور انکے ارادوں کو پھلے پورا کرنے والوں میںسے اور انکے سامنے شھےد ھونے والوں میں سے قرار دے)۔
اس مقام پر آکر بندہ اپنے خالق سے توفےق طلب کررھا ھے کہ مجھے اُن کے انصار و اعوان میں سے قرار دے۔ تمام نےکےوں اور خوبےوں کا منشاء اور منبع خداوند متعال ھے اسی لےئے ھمےشہ انسان کو طالب توفےق ھونا چاھےے کہ خداوند عالم انسان کوراہ مستقےم پر لاکر اس پر باقی رکھے ھر شخص کو چاھےے کہ صدق دل سے دعاکرے کےونکہ خداوند متعال اس کے دل کے حال سے آگاہ ھے اور وہ سب کچھ جانتا ھے۔
ارشاد رب العزت ھے:
<عالم الغےب و الشھادة و ھو الحکےم الخبےر >[76]
”وہ غائب اور حاضر سب کا جاننے والا صاحب حکمت اور ھر شیٴ سے باخبر ھے“
<و للّٰہ غےب السموات والارض >[77]
”اور آسمان اور زمےن کا سارا غےب اللہ ھی کے لےئے ھے“
<ان اللّٰہ ےعلم غےب السموات و الارض واللّٰہ بصےر بما تعملون >[78]
”بے شک اللہ آسمان اور زمےن کے ھر غےب کا جاننے والا ھے اور وہ تمھارے اعمال کا بھی دےکھنے والا ھے“
اسی لئے زےارت سےد الشھداء امام حسےن علیہ السلام میں بھی ھم پڑہتے ھےں:
ےا لےتنی کنتُ معکم فافوز فوزاً عظےماً ۔
”اے کاش میں بھی (کربلا میں) آپ کے ساتھ ھوتا تاکہ آپ علیھم السلام
کے اوپر اپنی جان نثار کرکے اس مقام ِشھادت پر فائز ھوسکتا“۔
اگر واقعاً ےہ خواہش ھو اور صدق دل کے ساتھ مانگا جائے ےقےنا درگاہ پروردگار میں قبول ھوگئی جس کے بارے میں متعدد روایت وارد ھوئی ھےں مانند:
حضرت ابو بصےر ۻ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ھےں کہ امام علیہ السلام نے فرماےا:
بے شک عبد مومن فقےر ےہ کھے: ےا ربّ ارزقنی حتّی افعل کذا کذا من البرّ و وجوہ الخےر فاذا علم اللہ عز و جلّ ذلک منہ بصدق نےةٍ کتب اللّٰہ لہ من الاجر مثل ما ےکتب لہ عملہ ان اللّٰہ واسع علےم[79]
”پروردگار مجھے رزق عطا فرما تاکہ میں نےکی اور بھلائی وغےرہ کرسکوں پھر جب خداوند عالم اس کی نےّت کی سچائی کو دےکھے گا تو اس کے لئے وھی اجر لکھ دے گا کہ جو اس پر عمل کرنے سے لکھا جا تا بے شک خداوند عالم واسع اور سب چےزوں کو جاننے والا ھے۔“
ابوھاشم امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ھےں کہ امام علیہ السلام نے فرماےا: انّما خلّد اھل النار فی النار لاٴنّ نےّاتھم کانت فی الدنےا ان لو خلدوا فےھا ان ےعصو اللّہ ابداً و انّما خلّد اھل الجنة فی الجنة نےّا تھم کانت فی الدنےا ان لو بقوا فےھا ان ےطےعوا اللّٰہ ابداً فبا لنےّات خلّد ھولاء و ھو لاء ثم تلا قولہ تعالیٰ:
قل کل ےعمل علی شاکلة [80]
”آپ کہہ دےجئے کہ ھر اےک اپنے طرےقہ پر عمل کرتا ھے“
قال علی علیہ السلام : علی نےتہ[81]
”بے شک اھل جھنم ھمےشہ جھنم میں رھےں گے کےونکہ دنےا میں ان کی نےت ےہ تھی کہ اگر ھمےشہ کے لئے دنےا میں رہ جائےں تو خدا کی نافرمانی کرتے رھےں گے اور اھل جنت ھمےشہ جنت میں رھےں گے کےونکہ دنےا میں ان کی نےت ےہ تھی کہ اگر دنےا میں ھمےشہ کے لےئے بھی رہ جائےں تو پھر بھی خداوند کی فرمانبردای کرتے رھےں گے لہٰذا نےتوں پر ھے۔
جس کی جےسی نےت ھے وہ وےسا ھی رھے گا پھر امام علیہ السلام نے اس آیت شرےفہ کی تلاوت فرمائی:
<” (اے رسول(ص))کہہ دو ھر شخص اپنی ذات اور طبےعت کے مطابق عمل انجام دے گا“>
امام علیہ السلام نے فرماےا: ”اس سے مراد ان کی نےت ھے“
ےھاں پر ھماری نےّتوں پر منحصر ھے کہ ھم کس چےز کی خواہش رکھتے ھےں۔ اگر ھماری دعا میں خلوص شامل ھے تو ےقےنا ھمیں ےہ درجہ عطا کےا جائے گا کہ جس کی ھم خواہش رکھتے ھےں۔
لفظ انصار اور اعوان کا مطلب تقرےباً ملتا جلتا ھے۔البتہ عون کادرجہ نصرت سے زرا زےادہ ھے ےعنی اگر کوئی زبانی حماےت بھی کرے تو ناصر کھلائے گا مگر عون اس وقت بنے گا جب عملی طور پر حماےت کرے ممکن ھے کہ ےہ سوال پےدا ھو کہ غیبت کے زمانے میں عملی طور پر کس طرح کام کےا جاسکتا ھے؟ توا س کے جواب میں عرض کرتے چلےں کہ فرائض اور واجبات ھر دو رکی مناسبت سے مختلف ھوتے ھےں۔ زمان ظھور میں جو فرائض ھوں گے وہ خود ھی حضرت(عج) آکر معےن فرمائےں گے لےکن زمان غیبت میں ھمارے کچھ فرائض ھےں ےہ فرائض تکالےف اور احکامات شرعی کے علاوہ ھےں کہ جن پر عمل کرنا ھر مسلمان کے لےئے ضروری ھے۔ خود امام زمان(عج) کی نسبت سے بھی مخصوص فرائض ھےں جےسے حضرت(عج) کے ظھور کے لئے دعا کی جائے۔
کہ جس کی روایت میں بہت تاکےد کی گئی ھے ےھاں تک کہ افضل الاعمال میں سے قرار دےا گےا ھے۔آپ کے ذکر کو زندہ رکھا جائے۔ بچوں کی تربےت کرتے وقت شروع ھی سے آپ کے لئے وقف کےا جائے وغےرہ۔
شروع ھی سے بچوں کے ذھن میںڈالا جائے کہ ھم اور ھمارے پاس جو کچھ ھے اس کے اصل مالک خدا کے بعد آج کے دور میں حضرت ولی عصر (عج) ھےں۔
”زابےن عنہ“سے مراد ےہ ھرگز نھےں ھے کہ حضرت کو دشمنوں کے شرّ سے بچائےں کیونکہ حضرت کو کسی کی محتاجگی نھےںھے۔
بلکہ ےھاں احتےاج تو ھماری طرف سے ھے ھمیں ان کی ضرورت ھے نہ ےہ کہ اُن کو ھماری ضرورت ھو۔اس سے مراد اپنے خلوص کو ظاھر کرنا ھے اور ےہ اےک طرح کا مومنےن کا حضرت سے اظھار محبت ھے۔
”المسار عےن الےہ“سے بھی مراد ےہ ھے کہ حضرت کی خدمت میں رہ کر ان کی غلامی کی جائے خداوند عالم کے بعد وہ ھمارے امور کے مالک ھےں جس طرح اےک غلام اپنے مالک کے فرمان کو بجالانے کے لئے ھر دم تےار رہتا ھے۔ ےھی نسبت ھماری حضرت کے ساتھ ھو کہ جس کو باقی جملوں ”الممتثلےن لاوامرہ“ اور ”والمحامےن عنہ“ میں بےان کےا جارھا ھے۔
ھمارا پورا وجود حضرت(عج) کے اختےار میں ھو اس طرح سے کہ کوئی فکر و سوچ ھماری اپنی نہ رھے بلکہ جیسے حضرت(عج) مستقل طور پر ھر وقت اپنے پروردگار اور خالق کائنات سے رابطہ میں رہتے ھےں اور کسی لمحہ بھی اپنے خدا سے غافل نھےں ھوتے اس طرح ھمارا وجود اور فکر حضرت (عج)کے اختےار میں رھے اور لمحہ بھر کے لےئے بھی حضرت(عج) سے غافل نہ ھونے پائے۔
جملہ ” السابقےن الیٰ ارادتہ “ میں بےان کےا گےا ھے کہ ھمیں حضرت (عج) کے پاس پھلے جانے والوں میں قرار دےا جائے کےونکہ جس کا اےمان زےادہ محکم ھوگا وہ پھلے حضرت(عج) کی خدمت میں پھنچے گا ھمارے اےمان کو اس درجہ پر لے جاکہ حضرت (عج)کی نصرت میں پھل کرنے والوں میں سے ھوں۔
جتنے پرانے اصحاب ھوں گے اتنا ھی حضرت(عج) کے مورد عناےت قرار پائےں گے جےسے کہ آیت شرےفہ میں بھی اس بات کی جانب اشارہ ملتا ھے:
<والسابقون السابقون اولئک المقربون >
”اور سبقت کرنے والے تو سبقت کرنے والے ھی ھےں، وھی اللہ کی بارگاہ کے مقرّب ھونگے“[82]
”المستشھدےن بےن ےدےہ “ میں بھی موٴمن کی جانب سے شھادت کی تمنّا کا اظھار کےا جارھا ھے ےعنی امام علیہ السلام کی رکاب میں شھادت نصےب ھو۔ جبکہ بہترےن موت اور فضےلت تو صرف شھادت میں ھے اور جو مقام شھےدوں کا ھے وہ کسی کو نصےب نھےں ھوسکتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ھے:
<ولا تحسبنّ الذےن قتلوا فی سبےل اللّٰہ امواتا بل احےاء عند ربھم ےرزقون>
ترجمہ: اور خبردار راہ خدا میں قتل ھونے والوں کو مردہ خےال نہ کرو وہ زندہ ھےں اور اپنے پروردگار کے ےھاں رزق پارھے ھےں[83]
ےہ عام شےعوں کا مقام ھے اور جب امام علیہ السلام کی رکاب میں شھادت نصےب ھوگی تو اس کامقام اور فضےلت کےا ھوگی ؟ واللہ عالم۔
<اللّہُمَّ إِنْ حالَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ الْمَوْتُ الَّذِی جَعَلْتَہُ عَلَی عِبادِکَ حَتْماً مَقْضِیّاً فَاٴَخْرِجْنِی مِنْ قَبْرِی مُؤْتَزِراً کَفَنِی شاہِراً سَیْفِی مُجَرِّداً قَناتِی مُلَبِّیاً دَعْوَةَ الدَّاعِی فِی الْحاضِرِ وَالْبادِی>
(اے خدا ! اگر مےرے اور مےرے آقا امام زمان(عج) کے درمےان موت حائل ھوجائے جو تو نے اپنے بندوں کے لےئے قرار دی ھے تو پھر مجھے مےری قبر سے اس طرح نکالنا کہ میں نے کفن پھنا ھوا ھو ننگی تلوار اےک ھاتھ میں ھو جبکہ دوسرے ھاتھ میں نےزہ اٹھاےا ھو اور آپکی آواز پر لبےک کہہ رھا ھوں چاھے شھر میں ھو ںےا بےابان میں)۔
ےھاں پر موٴمن اپنے خلوص کی انتھاء کو پھنچ کر حضرت حجت(عج) سے اپنی محبت اور عشق کا اظھار کررھا ھے حضرت (عج)کی زےارت اور ھمراھی ھونے کا شدت کے ساتھ اےسے بےان کےا جارھا ھے کہ اگر حضرت (عج)کے ظھور سے پھلے مےری اجل اور موت کا وقت آپھنچے تو پھر بھی مجھے قبر سے اٹھالےا جائے جےسا کہ بعض آئمہ علیھم السلام کے اصحاب کے لےئے بھی کھا جاتا ھے کہ ظھور کے وقت اپنی قبروں سے اٹھائے جائےں گے ےھاں تک کہ اصحاب کہف وغےرہ کے لےئے بھی یوں ھی بےان ھوتا ھے۔
ےقےنا اےسا ھی ھوگا کہ جو دنےا میں اور اپنی زندگی میں حضرت(عج) کی نصرت کی تمنا رکھتا ھو ےقےنا ظھور کے وقت قبروں سے اٹھاےا جائے گا۔ جبکہ ھم جانتے ھےں کہ ھر شخص کے لےئے موت حتمی ھے جےساکہ آےہ شرےفہ میں بےان ھوا ھے:
<کل نفس ذائقة الموت ثم الےنا ترجعون>
ھر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ھے اس کے بعد تم سب ھماری بارگاہ میں پلٹا کر لائے جاؤ گے۔[84]
موت اور زندگی تو کسی کے اختےار میں نھےں ھے لےکن اس موت کے بعد زندگی جو حضرت (عج)کی خدمت میںگذرے اس کی تمنا کا اختےار ھے۔
کفن پوش ھوکر قبر سے نکلنے کی خواہش کی کئی وجوھات ھوسکتی ھےں۔ممکن ھے کہ اس سے مراد ےہ ھو کہ جس طرح انسان دنےاوی بناوٹوں اور رنگا رنگ لباس کو چھوڑ کر اےک سادہ کپڑے میں لپٹ کر قبر میں جاتا ھے مجھے اسی سادگی کے ساتھ اٹھا اور مےرے پاس سوائے ننگی تلوار اور نےزہ کے کچھ نہ ھو۔
ممکن ھے مراد ےہ ھو کہ جےسے انسان قبر میں فقط اپنے اعمال لے کر جاتا ھے اور انھی اعمال کے ساتھ قبر سے اٹھالےا جائے گا۔اگر اعمال اچھے ھوں گے تو صحےح ھے ورنہ
سب کے سامنے بے آبرو ھوجائے گا اور سب کے اعمال اےک دوسرے پر ظاھر ھوجائےں گے۔ےہ اس بات سے کناےہ ھے کہ مجھے برھنہ نہ اٹھانا بلکہ مےرے نےک اعمال کے ھمراہ با لباس اٹھانا اور ےہ لباس وھی عقےدہ امامت و ولاےت ھو کہ جس پر میں دنےا میں اےمان رکھتا تھا جےسا کہ کلام مجےد میں اےسے لباس کی جانب اشارہ کےا گےا ھے کہ سب سے بہتر لباس کونسا ھے ؟ ارشاد باری تعالیٰ ھے:
<ےابنی آدم قد انزلنا علےکم لباساً ےواری سوٴاتکم و رےشا! ولباس التقوی ذلک خےرٌ>
”اے اولاد آدم ھم نے تمھارے لےئے لباس نازل کےا ھے جس سے اپنی شرمگاھوں کا پردہ کرو اور زےنت کا لباس بھی دےا ھے لےکن تقوی کا لباس سب سے بہتر ھے۔“[85]
اس کے بعد اسی گذشتہ بات کی تاکےد کی جارھی ھے کہ میںجس حالت میں بھی ھوں چاھے سفر میں رھوں ےا اپنے وطن میں ھمےشہ حضرت (عج)کو لبےک کھنے کے لےئے تےار ھوں ممکن ھے ےھاں پر اشارہ اس خدشہ کی جانب ھو جو تارےخ میں انبےاء علیھم السلام ےا معصوم علیھم السلام کے ساتھ پیش آتا رھا ھے جب انھوں نے کسی ضرورت کے وقت ےا کسی
جنگ کے موقع پر لوگوں کو طلب کرنا چاھا تو سب کو بھانے سوجھنے لگتے تھے کسی کو بےوی بچوں کا بھانہ تو کسی کو والدےن کا، کسی کو سےاسی خوف تو کسی کو اقتصادی مسائل ھر شخص اپنی مشکل کو لے کر بےٹھ جاتا تھا اور عذر تراشی کرنے لگتا اےسے موقع پر فقط خالص اےمان والے ھی ساتھ ھوسکتے ھےں۔
اگر کوئی اپنی دنےوی مشکلات کو اھمےت دے گا توےقےنا وہ فضےلت کے قافلہ سے پےچھے رہ جائے گا لہذا ھر وقت ےھی دعا کرےں کہ ھمےشہ سراپا حضرت (عج) کی آواز پر لبےک کھنے کے لےئے تےار رھےں اور ھمیں اےمان کے اس درجہ سے نےچے نہ گرنے دےا جائے جوامام(ع) کی نصرت کے لےئے ھونا ضروری ھے دنےا کی کوئی بھی طاقت اور کشش ھمارے اور حضرت کے درمےان حائل نہ ھو پائے۔
< اللّہُمَّ اٴَرِنِی الطَّلْعَةَ الرَّشِیدَةَ وَالْغُرَّةَ الْحَمِیدَةَ وَاکْحَُلْ ناظِرِی بِنَظْرَةِ مِنِّی إِلَیْہِ >
(اے خدا! مجھے حضرت (عج)کا چمکتا ھوا چھرہ دکھا اور درخشاں پےشانی کو اور ان کے دےدار کو مےری آنکھوں کا سرما بنادے)۔
”الطلعة الرشےدہ “ سے مراد خود حضرت (عج)ھےں کےونکہ قرآن اور روایت میں حضرت (عج)کو آفتاب سے تشبےہ دی گئی ھے۔
ارشاد رب العزت ھے:
<اشرقت الارض بنور ربّھا>
(زمےن اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی)[86]
اس آیت کے ذےل میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ جب ھمارے قائم قےام کرےں گے تو زمےن آپ کو خدا کی طرف سے عطا کئے گئے نور سے بھر جائے گی[87]
اسی طرح خود حضرت (عج) بھی اپنی غیبت کے بارے میں بےان کرتے ھوئے فرماتے ھےں کہ مجھ سے زمانہ غیبت میں کسی طرح استفادہ کےا جاسکتا ھے۔
اما وجہ الانتفاع فی غیبتی فکالانتفاع بالشمس اذا غےّبھا عن الابصار السحاب[88]
”مجھ سے غیبت کے زمانہ میں اس طرح فائدہ اٹھاےا جاسکتا ھے جےسے بادلوں میں سورج کے چھپ جانے سے فائدہ پھنچتا ھے۔“
”الغرة الحمےدة“ کا مطلب سفےد پےشانی ھے جو کناےہ ھے خوشبختی اور خوش قسمتی سے،مراد وہ نور ھے جس سے دنےا روشن ھوجائے۔ اس علامت خوشبختی کو جو موٴمنےن کے
لئے باعث مسرت ھو مجھ پر ظاھر فرما اور حضرت (عج) کے دےدار کو مےری آنکھوں کے لئے ٹھنڈک قراردے۔ مےرے غم اور درد کا علاج خود حضرت (عج) ھےں۔
جےسے انسان اپنی پسند کی چےزکو دےکھ کر کہتا ھے کہ مےری آنکھوں میں ٹھنڈک پڑ گئی ےہ اسی مناسبت سے ھے کےونکہ ا س کا دےدار موٴمنےن کے لئے باعث مسرت اور فرح ھوگا۔
اےسے دےدار چاھے عالم روےا اور خواب میں بھی کےوں نہ ھوں انسان پوری زندگی اس پر فخر محسوس کرتا رھے اور خواب میں بھی ےھی تمنا رھے گی کہ خداےا ےہ خواب کبھی ختم نہ ھونے پائے۔
البتہ اےک بات قابل ذکر رھے کہ دےدار فقط موٴمنےن کے لےئے باعث مسرت ھوگا کےونکہ موٴمن کی دعا فقط آنکھوں سے زےارت کرنا نھےں بلکہ آنکھوں کے ذرےعہ اپنے دل کو زےارت سے منور کرنا ھے۔ اےمان اور عقےدہ کے اس درجہ کے حصول کے لےئے جو محبت اور ولاےت اھل بےت علیھم السلام کے لئے مطلوب ھے۔
ےوں تو بہت سے لوگوں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زےارت کی اور مسلسل زےارت کرتے رھے مگر ےہ محبت ان کے لےئے فائدہ مند نہ رھی کےونکہ ان کے قلوب گناھوں کی مےل سے ڈھک چکے تھے ےھاں تک کہ نہ انھےں حق سمجھ میں آےا اور نہ ھی اپنی عاقبت سنوار سکے۔
ارشاد رب العزت ھے:
<ختم اللّٰہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشاوة ولھم عذاب عظےم> [89]
”خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر گوےا مھر لگادی ھے کہ نہ کچھ سنتے ھےں اور نہ سمجھتے ھےں اور آنکھوں پر بھی پردے پڑ گئے ھےں“
پھر جب ےہ لوگ گمراھی اور ضلالت کے سمندر میں غرق ھونے لگتے ھےں تو پھر خداوند عالم فرماتا ھے:
<فی قلوبھم مرض فزادھم اللّٰہ مرضا و لھم عذاب الےم بما کانوا ےکذبون >
”ان کے دلوں میں بےماری ھے اور خدا نے نفاق کی بنا پر اسے اور بڑھا دےا ھے اب اس جھوٹ کے نتےجے میں انھےں دردناک عذاب ملے گا۔“[90]
لہٰذا ھماری دعا ھے کہ ھمیں وہ زےارت نصےب عطا فرما جےسے کہ زےارت کرنے کا حق ھے ھمارا وجود اےمان میں غرق ھوا ور قلب کی دھڑکنوں سے آواز آرھی ھو لبےک مےرے امام (عج)خداوند ھمارے قلوب کو دنےاوی غلاظتوں کے مےل سے پاک کردے تاکہ نور اےمان و ھداےت ھمارے دل میں اتر سکے۔
< وَعَجِّلْ فَرَجَہُ وَسَہِّلْ مَخْرَجَہُ
وَاٴَوْسِعْ مَنْہَجَہُ وَاسْلُکْ بِی مَحَجَّتَہُ وَاٴَنْفِذْ اٴَمْرَہُ وَاشْدُدْ اٴَزْرَہُ>
(حضرت (عج) کے ظھور میں تعجےل فرما اور اُن کے خروج کو آسان فرما اور ان کے راستہ کو وسےع فرما اور مجھے ان کی راہ میں قرار دے اور ان کے امر کو نافذ فرما اور ان کی پشت کو مضبوط و محکم فرما)۔
ےا تو ممکن ھے کہ فرج سے مراد حضرت (عج)کا ظھور ےا پھر ےہ کہ وہ چےزےں ھوں جو آپ (عج)کے ظھور کے اثرات میں سے ھوں جےسے فتح و نصرت اور دشمنان خدا پر غلبہ حاصل کرنا۔
دوسری بات زےادہ بہتر لگتی ھے جبکہ پھلی بات بھی قاعدہ عقلی سے دور نھےں کےونکہ اس سے بڑھ کر کےا مصےبت اور بلا ھوگی کہ ھمارے امام (عج) ھم سے دور اور ھماری آنکھوں سے اوجھل ھوں۔
کےونکہ ےہ سب باتےںلوگوں کے لےئے طغےان اور نافرمانی کے اسباب فراھم کرتی ھےں اور پھر اےسے موقع سے فائدہ اٹھا کر شےطان بہت آسانی سے خداوند متعال کے راستہ سے لوگوں کو شکار کر کے اپنا قےدی بنالےتا ھے۔
حضرت موسی علیہ السلام کی مثال جو صرف چالےس روز کے لےئے اپنی امت سے دور ھوگئے تو ادھر بنی اسرائےل خدائے وحدہ لا شرےک کو چھوڑ کر اےک بچھےا کی پرستش کرنے لگے۔
ارشاد باری تعالیٰ ھے:
<و اذ وعدنا موسیٰ اربعےن لےلة ثم اتّخذ تم العجل من بعدہ و انتم ظالمون>
”اور ھم نے موسیٰ سے چالےس راتوں کا وعدہ لےاتو تم نے ان کے بعد گوسالہ تےار کرلےا کہ تم بڑے ظالم ھو”[91]
”ان کے خروج کو آسان فرما “سے مراد ےہ ھے کہ اےسے اسباب پےدا کر جو حضرت(عج) کے ظھور میں مددگار بن سکےں۔سب سے پھلے تو خود لوگوں کو اتنی صلاحےت اور قوت اےمان دے کہ حضرت(عج) کو پہچان سکےں۔حضرت(عج) کی خدمت اور غلامی کے لئے دنےا کے کونے کونے سے آپ کے ےاروں اور ناصروں کو آمادہ کر اور سب سے بڑھ کر اے خدای متعال توخود ظھور کی اجازت دے اور موٴمنےن کے مرجھائے ھوئے دلوں کو بھار ظھور کی نسےم و شبنم سے طراوت فرما۔
ان کے راستے کو وسےع کرنے سے مراد ان کے ظھور کے موانع کو ختم کردے کسی بھی مورد میں آپ کو کوئی وقت نہ پےش آئے مجھے ان کے راستہ میں قرار دے ےعنی مےرے
لئے ان کو قبول کرنے میں آسانی فرما مجھے ان کی معرفت عطا فرما اور مےرے اےمان کو اتنا محکم بنا کہ مجھے حضرت(عج) کو پہچاننے میں کوئی دشواری نہ ھو۔
ان کے امر کو نافذ کروانے سے بھی ےھی مراد ھے کہ لوگوں کو حضرت (عج)کی اتنی معرفت ھو کہ فوراً آپ(عج) کی بات کو سمجھ کر اس پر عمل پےرا ھوسکےں۔
اےسا نہ ھو کہ جےسے انبےاء علیھم السلام کے ساتھ ھوتا رھا ھے کہ ان کی قومیں نہ فقط ےہ کہ ان کی بات اور حجتوں کو سمجھ نھےں پائی تھےں بلکہ بات بات پر شک میں مبتلا ھوجاتی تھےں لاتعداد واقعات تارےخ میں ھمیں اس مطلب کی طرف توجہ دلاتے ھےں۔
حضرت بقےة اللہ (عج)کی پشت کو محکم کرنے سے مراد ممکن ھے کہ آپ(عج) کے لئے اےسے احباب اور ناصر مھےا کرے کہ جو آپ(عج) کی پشت پناھی کرسکےں ےہ سنت انبےاء ھے کہ جو چلی آرھی ھے۔
قرآن کرےم میں حضرت موسی علیہ السلام دعا فرماتے ھوئے نظر آتے ھےں:
<قال ربّ اشرح لی صدری و ےسّر لی امری واحلُلْ عقدة ً من لسانی ےفقھوا قولی واجعل لی وزےراً من اھلی ھٰرون اخی واشدد بہ ازری واٴشرکہ فی امری>[92]
”موسی (ع)نے عرض کی پروردگار مےرے سےنے کو کشادہ فرما ، مےرے کام کو آسان کردے اور مےری زبان کی گرہ کھول دے کہ ےہ لوگ مےری بات سمجھ سکےں اور مےرے اھل میں سے مےرا وزےر قرار دےدے۔ ھارون جو مےرا بھائی ھے اس سے مےری پشت کو مضبوط فرما اسے مےرے کام میں شرےک بنادے“
اس طرح معروف روایت کہ جو اھل سنت اور اھل تشےع کے ےھاں ےکساں طور پر مقبول ھے۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرماےا: ”انت منی بمنزلة ھٰرون من موسیٰ الّا انہ لا نبی بعدی … ‘[93]
”تمھارا مےری نسبت وھی مرتبہ ھے جو ھارون کا موسی علیہ السلام کی نسبت تھا مگر ےہ کہ مےرے بعد کوئی نبی نھےں ھے۔“
امےرالموٴمنےن علیہ السلام اول بعثت سے آخر رحلت تک حضرت ختمی مرتبت(ص) کی خدمت میں رھے اور ھمےشہ ان کے ےاروناصر رھے۔
ےہ بھی ممکن ھے کہ اس سے مراد ےہ ھو کہ اےسے دلائل اور براھےن حضرت(عج) کے ساتھ بھےجے جس کے سبب آپ کو حق کی حقانےّت ثابت کرنے میں کم سے کم دشواری پےش آئے اور جلد سے جلد لوگوں پر اتمام حجّت ھوسکے ےہ دلائل سبب بنےں کہ لوگ جلد از جلد آپ(عج) کی حماےت اور نصرت کے لےئے تےار ھوجائےں۔
< وَاعْمُرِ اللّہُمَّ بِہِ بِلادَکَ وَاٴَحْیِ بِہِ عِبادَکَ فَإِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِی النَّاسِ>
(پروردگار اپنے شھروں کو حضرت(عج) کے توسط سے آباد فرما اور اپنے بندوں کو زندہ فرما بے شک تو نے کھا ھے اور تےرا کھا حق ھے کہ خشکی اور سمندر میں فساد ظاھر ھوجائے گا جو لوگوں کے اپنے اعمال کے ھاتھوں سے ھوگا)
ممکن ھے شھروں کو آباد کرنے سے مراد ےہ ھو کہ حضرت بقےة اللہ کا شھروں پر غلبہ حاصل ھوجائے اور وھاں پر خدا کی حکومت قائم ھوجائے اگرچہ خدا کی حکومت ھمےشہ سے ھے اور ھمےشہ رھے گی مراد ےہ ھے کہ لوگوں کی اصلاح ھوجائے اور سب لوگ خدا کی بندگی میں آجائےں۔
لوگوں کو زندہ کرنے سے بھی ےھی مراد ھے کہ مردہ قلوب جو گمراہ ھوچکے ھےں نور اےمان سے زندہ ھوجائےں اور ان کے دلوں میں فقط خدا کی حکومت ھو ۔اس بات پردعا کے بعد والا جملہ جو آیت ھے قرےنہ ھے۔
<ظھر الفساد فی البرّ و البحر بما کَسَبَتْ اےدی الناس لےذےقھم بعض الذی عملوا لعلّھم ےرجعون>
”لوگوں کے ھاتھوں کی کمائی(اعمال) کی وجہ سے خشکی اور تری ھر جگہ فساد غالب آگےا ھے تاکہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھادے تو شاےد ےہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائےں“[94]
اس آیت شرےفہ کے ذےل میں بھی ےھی بےان کےا جاتا ھے کہ جو بھی تباھی اور بربادی ھمیں دنےا میں نظر آتی ھے اس کا سبب خود وھاں کے لوگ ھوتے ھےں اور ےھاں لو گو ں
کو ھوشےار کےا جارھا ھے جو فساد اور نقصان ھوگا اس کے اصل ذمہ دار تم لوگ خود ھوگے۔
لہٰذا اس سے مراد زمےن میں فساد اور عمومی بلائےں ھےں جو جھان میں نمودار ھونگےں وھاں کے لوگوں کو تباہ و برباد کردےں گےں چاھے وہ قحط کی صورت میں ھو ےا مرض کی، چاھے زلزلہ کی صورت میں ھو ےا معاشرے میں بدامنی کی وجہ سے ھو۔
جو بھی چےز نظام معاشرت اور زندگی میں خلل پےدا کرے گی اس کا سبب لوگوں کا اپنا عمل ھوگا۔
جےسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھےں:
” حےات دواب البحر بالمطر فاذا کف المطر ظھر الفساد فی البحر و البر و ذلک اذا کثرت الذنوب والمعاصی“[95]
”سمندری حےوانات کی حےات بارشوں پر منحصر ھے اور جب بارشےں نہ ھوں تو سمندر اور خشکی پر تباھی آجاتی ھے اور ےہ اس وقت ھوتا ھے جب گناہ اور نافرمانی حد سے زےادہ ھوجائے۔“
اس کے برعکس مطلب کی طرف قرآن مجےد نے اشارہ کےا ھے کہ:
<ولو ان اھل القری آمنوا واتّقوا لفتحنا علےھم برکات من السماء والارض>
”اور اگر اھل قرےہ اےمان لے آتے اور تقوی اختےار کرلےتے تو ھم ان کے لےئے زمےن اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دےتے“[96]
انسان اگر عبودےت اختےار کرلے اور خدا کا ھو کر رہ جائے تو زمےن و آسمان اس کے لےئے خزانے اگلنے لگےں اور چاروں طرف سے نعمتوں کا نزول شروع ھوجائے گا۔
< فَاٴَظْہِرِ اللّہُمَّ لَنا وَلِیَّکَ وَابْنَ بِنْتِ نَبِیِّکَ الْمُسَمَّی بِاسْمِ رَسُولِکَ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَآلِہِ >
( پروردگار ! ھمارے لےئے اپنے ولی او راپنے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی بےٹی کے فرزند کو کو ظاھر فرما جو تےرے رسول (ص)کا ھم نام ھے)
ےھاں پر حضرت بقےة اللہ کو خدا کے ولی ھونے سے نسبت دی گئی ھے جس سے ےہ ثابت ھوتا کہ وہ صاحب اور مالک ھےں ےعنی خداوند عالم کی جانب سے ےہ مالکےت ان کو عطا کی گئی ھے جےسا کہ آیت مبارکہ میں حضرت (عج)کے جد بزرگوار مولائے کائنات
حضرت علی بن ابی طالب علےھما السلام کے لئے نازل ھوا۔
<انّما ولےکم اللّٰہ و رسولہ والذےن آمنوا و ےقےمون الصلوة و ےوتون الزکاة و ھم راکعون>
”بس تمھارا ولی، اللہ ھے اور اس کا رسول(ص) اور وہ صاحبان اےمان جو نماز قائم کرتے ھےں اور حالت رکوع میں زکوة دےتے ھےں“[97]
اھل تشےع [98] کے نزدےک اور اھل تسنن[99] کے نزدےک اتفاق ھے کہ ےہ آیت حضرت امےرالموٴمنےن علی علیہ السلام کے لےئے نازل ھوئی ھے۔
اس بات میں کوئی شک نھےں کہ ےھاں لفظ ” ولی “ دوست ےا ناصر کے معنی میں نھےں آےا کےونکہ ےا رو دوستی کرنے کا حکم فقط ان لوگوں کے لئے نھےں جو نماز قائم کرتے ھےں اور حالت رکوع میں زکات دےتے ھےں بلکہ اےک کلی اور عام حکم ھے حتی ان لوگوں کے لئے بھی ےھی حکم ھے جن پر زکات اور صدقہ دےنا واجب ھی نھےں بلکہ خود فقےر ھےں لیکن پھر بھی مسلمانوں میں آپس کے بھائی چارے کا حکم ان کے بھی شامل حال ھے۔
ےھاں سے معلوم ھوتا ھے کہ آیت مبارکہ میں”ولی“ ولاےت کے معنی میں ھے جس کا لازمہ سرپرستی کرنا اور مادی و معنوی امور میں تصرف کا حق رکھنے کے ھے مخصوصاً جب اس ولاےت کی بات اللہ اور رسول (ص)کی ولاےت کے ساتھ کی جارھی ھو اور ےہ پورا جملہ اےک ھی سےاق میں بےان ھوا ھے۔
ےہ بات تو ذکر ھوچکی ھے کہ اگر کسی بھی معصوم (ع)کے لئے کوئی فضےلت ثابت ھوجاتی ھے تو تمام معصوم (ع)اس میں شرےک ھوتے ھےں جےسا کہ معروف روایت میں ذکر ھوا ھے کہ:
اولنا محمد و آخرنا محمد و اوسطنا محمد [100]
”ھمارا پھلا بھی محمد اور ھمارا آخری بھی محمد اور ھمارے اوسط بھی محمد ھےں“
ےھاں پر حضرت زھرا سلام اللہ علےھا سے نسبت دےنے کا مقصد اےک تو ےہ ھوسکتا ھے کہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زرےت حضرت زھرا سلام اللہ علیھا سے ھے۔
قال رسول اللہ (ص): کل نبی اُمّ ےنتمنون الی عصبتھم الا ولد فاطمہ فانی انا ابوھم و عصبتھم[101]
” ھر ماں سے پےدا ھونے والے بچے کو اس کے باپ کے اجداد سے نسبت دی جائے گی سوائے اولاد فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھابے شک میں ان کا باپ ھوں اور میں ھی ان کا جد ھوں۔“
اور ےہ بھی ممکن ھے کہ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا اھل آسمان میںبہت معروف ھےں لہذا ان کی شھرت کو مدنظر رکھتے ھوئے ان سے نسبت دی گئی ھے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ آپ کے صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ۻنے سوال کےا کہ:
”حضرت فاطمہ کو زھرا کےوں کھا جاتا ھے “
تو امام علیہ السلام نے جواب میں فرماےا: ”لاٴن اللّٰہ عزّ و جلّ خلقھما من نور عظمتہ فلمّا اشرقت اضائت السموات والارض بنورےھا و غشےت ابصار الملائکة و خرّت الملائکة للّٰہ ساجدےن، قالوا الھنا و سےدنا ما ھذا النور ؟ فاوحیٰ اللّہ الےھم ھذا نور من نوری [102]
”کےوں کہ جب خداوند عالم نے حضرت زھرا سلام اللہ علیھاکواپنے نور سے خلق کےا اور جب اس نور نے پوری کائنات کو اپنی آغوش میں لے لےا تو ملائکہ نے سوال کےا پروردگار ! ےہ کونسا نور ھے ؟ جس کے جواب میں خداوند نے فرماےا:
” ےہ مےرے نور میں سے ھے“
ےھی وجہ ھے کہ حضرت زھرا سلام اللہ علیھاکی بڑی فضیلت ھے کیونکہ بقاء دین حضرت زھرا(س)کے توسط سے ممکن ھوا ھے، اسلام اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے نام کو زندہ رکھنے والے یھی لوگ ھےں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی مرضی کے مطابق حضرت بقےة اللہ اس دنےا کو عدل اور انصاف سے بھر دےں گے جےسے ظلم و جور سے بھری ھوئی ھے۔
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ھمنام ھونے کی جانب جو اشارہ ھوا ھے در اصل ان روایت کی روشنی میں ھے جن کے مطابق حضرت حجت(عج) کی کنےت اور نام اپنے جد بزرگوار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)والا ھوگا۔
<حَتَّی لاَ یَظْفَرَ بِشَیْءٍ مِنَ الْباطِلِ إِلاَّ مَزَّقَہ ُوَیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُحَقِّقَہ>
(ےھاں تک کہ باطل کامےاب نہ ھونے پائے مگر ےہ کہ وہ متفرق ھوجائےں اور حق پائےدار اور اپنے مقام پر ثابت ھوجائے)
ےہ بات تو روایت علامات ظھور میں بےان ھوچکی ھے کہ حضرت ولی عصر(عج) باطل پر غلبہ پاجائےں گے اور کوئی نا حق اس دنےا میں باقی نھےں رھے گا جےسا کہ پھلے بھی اس چےز کی جانب اشارہ کرچکے ھےں۔اس زمانے میں فقط دو گروہ رہ جائےں گے اےک وہ جو حضرت(عج) کے ساتھ ھونگے اور آپ کے حامی و ناصر ھونگے اور دوسرا و ہ گروہ ھے جو حضرت (عج)کے مخالف ھونگے چاھے وہ بے طرفی اور کسی کے ساتھ نہ ھونے کا بھی اقرار کرلےں ےہ سب لوگ اےک حساب میں شمار کئے جائےں گے۔
ےہ معلوم رھے کہ حق جو حقےقت اور واقعےت ھے اےک وقت میں اےک سے زےادہ نھےں ھوسکتا جبکہ باطل ممکن ھے کہ متعدد گروھوں کی شکل میں ھو۔اب جبکہ حق صرف اےک ھی ھوسکتا ھے توآپ(عج) پوری دنےا میں حق کی حکومت قائم کرےں گے اور حق کو وہ مقام دلائےں گے جو اس کا حق ھے ۔جےسا کہ عدالت کی تعرےف میں بےان کےا جاتا ھے کہ: ”وضع شیٴ علی موضعہ “
ےعنی ”عدالت ےہ ھے کہ ھر چےز کواس کے مقام پر رکھ دےا جائے“ نتےجہ کے طور پر ےہ وہ زمانہ ھوگا جب اھل کو منصب ملے گا اور نااھلوں کو ہٹادےا جائے گا ےہ زمانہ عدالت اور انصاف کا زمانہ ھوگا۔
گرھم دےکھےں کہ جس معاشرے میں نظم و ضبط نہ رھے اور وہ تباھی کی جانب تنزل کرتا نظر آئے تو اس کی اصل وجہ ےہ ھوتی ھے کہ نااھل آگے آجاتے ھےں جبکہ حقدار کا کوئی پرسان حال نھےں ھوتا۔
جبکہ وہ زمانہ حق کا باطل پر چھا جانے کا زمانہ ھوگا جھاں عزت اور شرافت کا معےار آیت مبارکہ کے مطابق ھوگا جےسے:
<انَّ اکرمکم عند اللّٰہ اٴتقٰکم >[103]
” تم میں سے خدا کے نزدےک زےادہ محترم وھی ھے جو زےادہ پرھےزگار ھے“
شرافت و عزت کا معیارکسی عھدے ےا مال و دولت کی وجہ سے نھیں ھوگا موجودہ زمانہ میںکےونکہ باطل کا بول بالا ھے حتی اےک گوےّے اور ناچنے والے کو عزت کی نگاہ سے
دےکھا جاتا ھے جبکہ معاشرے میں دےندار طبقہ کو حقارت کے سوا کچھ حاصل نھےں ھوتا ےہ وہ بے عدالتی اور حق تلفی ھے کہ جس کو آپ(عج) مٹانے کے لےئے ظھور فرمائےں گے۔
<وَاجْعَلْہُ اللّہُمَّ مَفْزَعاً لِمَظْلُومِ عِبادِکَ وَناصِراً لِمَنْ لاَ یَجِدُ لَہُ ناصِراً غَیْرَکَ وَمُجَدِّداً لِمَا عُطِّلَ مِنْ اٴَحْکامِکِتابِکَ وَمُشَیِّداً لِمَا وَرَدَ مِنْ اٴَعْلامِ دِینِکَ وَسُنَنِ نَبِیِّکَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وآلِہ>
(پروردگارا ! ان کو اپنے مظلوم بندوں کے لئے پناہ گاہ اور جن کا کوئی تےرے سوا ”ےاور“ نہ ھو ” ےاور“ قرار دے اور اپنی کتاب(قرآن) کے متروک قوانےن کو زندہ فرما اور اپنے دےن کی علامتوں اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی سنت کو مضبوط فرما درود ھو ان پر اور انکی آل پر۔)
ےھاں پر گذشتہ کلمات کی تفسےر کی جارھی ھے کہ صرف آپ(عج) ھی مظلوموں کے لئے سھارا ھونگے اور آپ(عج) ظالموں سے مظلوموں کاحق واپس دلوائےں گے ۔ جےسا کہ بےان کرچکے ھےں ۔وہ زمانہ حق کی بالادستی کا زمانہ ھوگا لہذا کوئی مظلوم باقی نہ رھے گا مگر ےہ کہ اس کا حق اسکو مل جائے۔ اور اسی طرح بے سھارا لوگ جوصرف خداوند متعال کے آسرے پر ھوتے ھےں جن کو کوئی پناہ دےنے والا نھےں ھوتا ۔آپ(عج) آکر انکی مدد فرمائےں گے۔ان لوگوں کو اس حالت میں آکر نجات دےنگے جب کوئی انکا پوچھنے والا نھےں رہ جائے گا۔
کتاب خدا کے احکامات کو زندہ کرنے سے مراد ممکن ھے ےہ ھو کہ زمان غیبت کے طولانی ھونے کے سبب جو لوگ تعلےمات قرآنی سے دور ھوچکے ھےں اور قرآن پر عمل نھےں کرتے آپ آکر اس قرآن کو احےاء کرےں گے اس صورت میں کہ اس کے احکامات کو دنےا میں رائج کرےں گے۔
اور ےہ بھی ممکن ھے کہ قرآن کو ھر فرقہ اور گروہ نے اپنی نظر اور عقےدے کے مطابق بےان کےا ھے اور اپنے ذھن کے مطابق اسکی تفسےر اور تاٴوےل کرتے پھرتے ھےں جب کہ آپ(عج) کے آنے کے بعد وہ باتےں جو ابھی تک قرآن میں مخفی تھےں ظاھر ھوجائےں گی اور آپ(عج) ھی کے توسط سے ان کو بےان کےا جائےگا۔
البتہ اس کا ےہ مطلب نھےں ھے کہ قرآن میں کچھ کمی ھے اور کچھ باتےں بےان نھےں ھوئےں بلکہ قرآن کامل ھے اور اس میں ھر چےز بےان ھوچکی ھے جےسا کہ خداوند عالم نے ارشاد فرماےا:
<ما فرّطنا فی الکتاب من شیٴ>
” ھم نے اس (کتاب) میں کسی چےز کی وضاحت کرنے میں کوئی کسر نھےں چھوڑی“[104]
دےن اور سنت ِرسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو مضبوط کرنے سے مراد دےن اسلام کی نصرت کرنا ھے اور صرف ےھی دےن خداوند عالم کے نزدےک مقبول ھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ھے:
<ان الدےن عند اللّٰہ الاسلام >
” بے شک ! خداوند عالم کے نزدےک صرف اسلام ھی دےن ھے“[105]
اعلام دےن سے مراد احکام اسلام ھےں کہ جن کا پےروان مذھب اسلام پر بجا لانا واجب ھے جس سے ظاھر ھوتا ھے کہ لوگ جو احکامات بجا نھےں لاتے ۔اور محرمات علنی طور پر مرکتب ھوتے ھیں ۔حضرت (عج) ان کو احکام پر عمل کروائیں گے۔ سادہ زبان میں ےوں عرض کرےں کہ واجبات پر عمل کروانے اور محرمات سے روکنے کا فرےضہ بھی آپ(عج) ھی کے کاندھوں پر ھوگا۔ اور ےھی حال سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا ھے جو کافی حد تک لوگوں کے درمےان سے ختم ھوچکی ھوگی اس کے احےاء کے فرائض انجام دےں گے۔
البتہ اےک بات قابل ذکر ھے کہ ےھاں پر مضبوط کرنے کی بات کی گئی ھے تو اس سے ظاھر ھوتا ھے کہ اگرچہ کم ھی کےوں نہ ھوں لےکن موٴمنےن ھونگے اور وہ احکامات خدا وند
اور سنتِ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر قائم ھونگے ۔ےقےنا اےسے ھی موٴمنےن سب سے پھلے ندائے امام (ع)پر لبےک کھےں گے اور ےھی لوگ:
< والسابقون السابقون اولئک المقربون >
ترجمہ: ”اور سبقت کرنے والے تو سبقت کرنے والے ھی ھےں، وھی اللہ کی بارگاہ کے مقرّب ھےں“[106]کے مصداق بنےں گے۔
< وَاجْعَلْہُ اللّہُمَّ مِمَّنْ حَصَّنْتَہُ مِنْ بَاٴْسِ الْمُعْتَدِینَ >
(پروردگارا ! ان کو قرار دے ان لوگوں میںسے جنکی تو محافظت کرے گا باغےوں کے شرّ سے)
یہ ایک طبعی رد عمل ھوتا ھے یہ مسئلہ ھمیشہ سے انبیاء (ع)اور اولیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ چلا آرھا ھے۔ ھر زمانے میں باغی اور طغیان کرنے والے ھوتے ھیں اور اگر کوئی بات ان کی مرضی کے مطابق نہ ھو تو ھر گز اس کو نھیں مانتے اور اگر کوئی ان سے اصرار کرے
تو دشمنی اور قتل غارت گری پر اتر آتے ھیں ۔
جب حضرت بقیتہ اللہ اوراحنا فدا ظھور کریں گے تو بہت بڑی تعداد بلکہ اکثر بڑی قوتیں چاھے وہ علاقائی سطح پر ھوں یا عالمی سطح پر آپ (عج) کے وجود کو برداشت نھیں کریں گی اور آپ(عج) کو نقصان پہچانے کاکوئی موقعہ ھاتھ سے نھیں جانے دیں گی جس کے سبب بات جنگ وجدال تک جا پھنچے گی ۔
یقینا اسی صورت حال میں آپ(عج) کو نقصان پھنچنے کا اندیشہ ھے ۔اسی لئے یہ دعا کی جارھی ھے جیسے خدا وند متعال نے حضر ت عیسی مسیح علیہ السلام اور اصحاب کہف و غیرہ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا اور خود حضرت (عج) کو بھی ایک طویل عرصہ تک غیبت میں رکھ کر ھر نقصان سے بچایا اسی طرح ظھور کے بعد بھی محافظت فرما ۔اور یقینا خدا وند عالم محافظت فرمائے گا کیونکہ زمین کبھی حجت خدا سے خالی نھیں رہ سکتی کہ جو عقلاً و نقلا ً ثابت شدہ بات ھے۔
<ُ اللّہُمّ و سر نبیک محمد اً صلی اللہ علیہ و آلہ برویتہ ومن تبعہ علیہ دعوتہ>
(پروردگارا!اپنے پیغمبر(ص) اور ان کی دعوت پر پیروی کرنے والوں کو آپ (ع)کے دیدار سے خوشحال کر۔)
ےھاں پر خداوندعالم سے ظھور کی درخواست کہ جارھی ھے جوآپ کا ظاھر ھونا موٴمنےن کے لئے خوشحالی کا باعث ھوگا اس سے بڑھ کر خود ذات مقدس رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے بھی باعث مسرت ھوگا ےہ وہ موقع ھوگا جب صدر اسلام سے لےکر ظھور تک جن لوگوں نے محمد و آل محمد صلوات اللہ علےھم اجمعےن کی حق تلفی کی ھوگی چاھے وہ جنگ و جدال کی صورت میں ھو چاھے ان کی پےروی نہ کرنے کی وجہ سے ھو سب سے بدلہ لےا جائے گا۔
جےسا کہ ھم دعا میں پڑھتے ھےں: ” ےا ربّ الحسےن بحق الحسےن اشفع صدر الحسےن بظھور الحجة “
”اے حسےن علیہ السلام کے پروردگار تجھے حسےن علیہ السلام کا واسطہ، حضرت حجت کو ظاھر کر کے حسےن علیہ السلام کے سےنے کو شفا (قلب کو خوشحال فرمادے )بخش دے۔“
اوراسی طرح دعاء شریف ندبہ میں پڑھتے ھیں ”این الطالب بدم المقتول بکربلا“
”کربلا میں شھید ھونے والے کے خون کا بدلہ لینے والا کھاں ھے۔“
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی شفاعت سے لےکر جناب زھرا سلام اللہ علیھا کی کمر شکنی اور محسن علیہ السلام کے قتل کا بدلہ لےا جائے گا۔مسجد کوفہ کی محراب کو خون سے رنگےن کرنے کا حساب لےا جائے گا۔حسن علیہ السلام کے جگر کے ٹکڑے ٹکڑے ھونے کا جواب طلب کےا جائے گا پھر جو کچھ مظالم کربلا اور شام میںگزرے ےھاں تک کہ بغداد اور شام کے زندانوں میں رونما ھونے والے واقعات کا بھی حساب ھوگا۔
خلاصہ ےوں کھےں کہ محمدو آل محمد صلوات اللہ علےھم اجمعےن کے خون سے لکھی گئی تارےخ کا حساب ھوگا اور بات فقط اھل بےت علیھم السلام پر آکر نھےں رکتی بلکہ ان کے تابعےن اور محبت کرنے والوں کے خون کے قطرہ قطرہ کا حساب ھوگا۔
تو اس حال میں محمد و آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کےوں نہ خوشحال ھوں جب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے دشمنوں سے حساب چکاےا جارھا ھوگا اس وقت نفاق اور اےمان ظاھر ھوچکے ھونگے اور منافق کا وجود باقی نھےں رھے گا۔
< وَارْحَمِ اسْتِکانَتَنا بَعْدَہُ >
(اے پروردگار ! آپ کے ظھور کے بعد ھم پر رحم فرما اور ھمیں اس غم سے نجات دے)
ےھاں پر دو احتمال دےئے جاسکتے ھےں ممکن ھے اس سے مراد ےہ ھو کہ وہ مصےبتےں جو کفار کی طرف سے ظھور کے بعد موٴمنےن پر پڑےں گی ھمیں ان سے نجات دے اور ھمارے اےمان کو محفوظ فرما۔
اور دوسری بات ممکن ھے ےہ ھو کہ اے خدارا اب جب کہ گرےہ و زاری کے ساتھ تجھ سے اپنی حاجت بےان کرچکے ھےں۔ھمارے غم کے آنسووٴں کو آپ(عج) کے ظھور سے خوشی کے آنسووٴں میں بدل دے اور ھماری دعا کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔
اگرچہ سےاق جملہ سے دوسری بات بہتر لگتی ھے کےونکہ اس کے بعد ھم پڑھتے ھےں:
<اللَّہُمَّ اکْشِفْ ہذِہِ الْغُمَّةَ عَنْ ہذِہِ الاَُْمَّةِ بِحُضُورہِ وَعَجِّلْ لَنا ظُہُورَہُ>
(پروردگارا ! آپ(عج) کے ظاھر کرنے کے سبب اس امت کے غم کو دور فرما اور ھمارے لئے ان کے ظھور میں تعجےل فرما)
ےھاں پر بھی پچھلے مطالب کی وضاحت کی جارھی ھے کہ ھم کو آپ(عج)کے ظھورکے سبب غم سے باھر نکال دے ےھی ھماری دعا ھے اور ےھی تمنّا۔خداےا اس امت پر بہت ظلم ھوچکے ھےں ھمارے شانے جنازوں کے بوجھ سے خم ھوچکے ھےں۔
<إِنَّہُمْ یَرَوْنَہُ بَعِیداً وَنَرَاہُ قَرِیباً >
(بے شک دشمنان خدا اور اسلام آپ(عج) کے ظھور کو دور اور ھم نزدےک دےکھ رھے ھےں)
خدارا ھم کبھی بھی تےری رحمت سے ماےوس نھےں ھوتے ھےں خدارا ھماری حےات میں حضرت حجت (عج)کو ظاھر فرما ھمیں تجھ سے امےد ھے اور بس۔تو ھی ھمارا مالک ھے تو ھی نے ھم کو اس دنےا میں پےدا کےا تو ھی نے محمد و آل محمد صلوات اللہ علےھم اجمعےن سے محبت کرنے کا حکم دےا۔اے خدا ھم تےرے ناچےز بندے تےری بارگاہ میں سوالی ھےں ھم ھر سال ھر ماہ اور ھر دن کو اسی امےد سے شروع کرتے ھےں کہ شاےد آج خانہ کعبہ کی دےوار کے پاس سے آواز آجائے۔ھمارے آنسووٴں کو آپ(عج) کے دےدار سے خشک فرما۔
< بِرَحْمَتِکَ یَا اٴَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔ >
(اے ارحم الراحمےن تجھے تےری رحمت کی قسم)
پروردگارا تجھ کو تےری رحمت کا واسطہ تجھے تےری رحمت کی قسم، تو جو رحم کرنے والوں میں سب سے برتر ھے ھماری حالت زار پر رحم فرما ھماری دعا کو مستجاب کردے۔
اس کے بعد حکم ھوا ھے کہ تےن مرتبہ اپنی دائےں ران پر ھاتھ مار کر کھےں:
< الْعَجَلَ الْعَجَلَ یَامَوْلایَ یَا صاحِبَ الزَّمانِ>
(جلدی آئےے ، جلدی آےئے ، اے مےرے مولیٰ اے اس زمانہ کے امام (ع))
ےھاں موالی انتھائی عاجزی اور بے بسی کا اظھار کرتے ھوئے کہتا ھے اے مےرے مولیٰ آپ جلدی کےوں نھےں آتے ؟ جلدی سے آئےں آپ کے غلام قدم بوسی کے لےئے آمادہ ھےں انھےں اپنی زےارت کا شرف بخشےں۔
اے خدا ھماری اس دعا کو قبول فرما ھمیں ،ھمارے والدےن،ھمارے اجداد اور ھماری اولاد کو اصحاب اور اعوان حضرت بقےة اللہ میں سے قرار دے۔
الٰھی آمےن ثم آمےن۔

زمانہ غیبت میں حضرت (عج)کا کردار
اےک سوال جو بہت زےادہ کےا جاتا ھے وہ ےہ ھے کہ حضرت بقےة اللہ (عج) زمانہ غیبت میں کس طرح استفادہ کرےں ؟ جبکہ غیبت کے زمانہ میں امام علیہ السلام تک کسی کی رسائی بھی نھےں ھے تو وہ کون سا طرےقہ ھے ےا سادہ الفاظ میں ےوں بےان کرےں کہ وجود مقدس بقےة اللہ (عج)کا ھماری زندگی میں کےا کردار ھے ؟
ےہ ھماری خوش قسمتی ھے کہ ےہ سوال آئمہ علیھم السلام کے زمانہ میں بھی کےا جاچکا ھے اور متعدد روایت میں ھمیں اس کا جواب ملتا ھے ھم نمونہ کے طور پر چند اےک روایت کو بےان کرتے ھےں۔

پھلی روایت:
حضرت جابر بن عبداللہ انصاریۻ نے حضرت پےغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے سوال کےا کہ ” آےا زمانہ غیبت میں شےعہ حضرت قائم آل محمد علیہ السلام سے استفادہ کرسکےںگے۔
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرماےا:
”ای والذی بعثنی بالنبوة انھم لےستضےوٴن بنورہ و ےنتفعون بولاےتہِ فی غیبتہ کانتفاع بالشمس و واٴن تجلَّھَا سحاب“
ھاں اس خدا کی قسم جس نے مجھے پےغمبری کے لےئے منتخب کےا ان سے شےعہ ان سے اور انکے نور ولاےت سے اسی طرح فائدہ اٹھائےں گے جس طرح سورج جب بادلوں میں چھپ جائے تو اس سے فائدہ اٹھاےا جاتا ھے۔[107]

دوسری روایت:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرماےا” جب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو خلق کےا ھے اور روز قےامت تک ےہ زمےن نہ حجّت خدا سے خالی رھی ھے اور نہ رھے گی“
راوی نے سوال کےا: ”پھر غائب امام علیہ السلام سے کس طرح استفادہ کےا جاسکتا ھے؟
امام علیہ السلام نے فرماےا:
”کما ےنتفعون بالشمس اذا سترھا السحاب “ جےسا کہ بادلوں میں چھپنے کے بعد سورج سے استفادہ کےا جاتا ھے[108]

تےسری روایت:
حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف خود اپنی توقےع میں جو اپنے دوسرے نائب
خاص حضرت محمدبن عثمان کے ذرےعہ اسحاق بن ےعقوب (رہ) کے نام بھےجتے ھےں، فرماےا :
اماوجہ الإنتفاع بی فی غیبتی فکالإنتفاع بالشمس اذا غیبتھا عن الابصار السحاب [109]
”اور لوگ مجھ سے غیبت میں اس طرح مستفےض ھونگے جےسے سورج کے بادلوں میں چھپ جانے کے بعد مستفےض ھوتے ھےں۔“

حدےث ” من مات ولم یعرف۔۔۔۔۔“ کی توضےح اور تشرےح:
البتہ بہت سے مخالفوں نے ےہ سوال اٹھاےا ھے کہ جب ھم امام علیہ السلام کو دےکھ نھےں سکتے اور ان کی بات کو سن نھےں سکتے تو ھم کس طرح اس متفقہ حدےث پر عمل کرسکتے ھےں ۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرماےا:
”من مات و لم ےعرف امام زمانہ مات مےتة جاھلےة“
(جو بھی اس حالت میں مرے کہ اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانتا ھو تو وہ جاھلےت کے زمانہ کے کافر کی موت مرے گا)
جےسا کہ ذکر ھوچکا ھے اس حدےث کا صادر ھونا تواتر[110]سے ثابت ھوچکا ھے اسی وجہ سے بعض علماء اھل سنت نے سوال اٹھاےا تو پھر زمانہ غیبت میں ھم کےونکر امام علیہ السلام کو پہچان سکتے ھےں ؟ اور کےسے فائدہ اٹھا سکتے ھےں ؟
علمائے شےعہ نے جواب د ےا کہ پھلی بات ےہ ھے کہ فائدہ فقط اس بات پر منحصر نھےں ھے کہ امام علیہ السلام کی زےارت کی جائے ۔
خود حضرت(عج) کے وصی ھونے کی تصدےق کرنا کےونکہ منصب خدا کی طرف سے عطاء شدہ ھے اور دراصل ےہ خدا کی تصدےق ھے ےہ بھی ذاتاً مطلوب ھے ۔اور ےہ بات ارکان دےن میں سے ھے جےسا کہ حضرت پےغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ میں تھا۔
فقط حضرت پےغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زےارت کرنے والوں کو مسلمان نھےں کھا جاتا تھا۔بلکہ زےارت کرنا ےا نہ کرنا تو کبھی بھی معےار نھےں رھا۔ معےار تو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی نبی اللہ کی حےثےت سے تصدےق اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر اےمان لانا تھا۔
دوسری بات ےہ ھے کہ جو لوگ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد دنےا میں آئے انھوں نے تو حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زےارت نھےں کی جبکہ آج تک کےا بلکہ قےامت تک کسی کے مسلمان ھونے کی بنےادی شرط ےہ ھے کہ خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر اےمان لاےا جائے۔
اسی اعتراض کی بنا پر بعض علماء مخالف نے حدےث شرےف میں معرفت امام کا مطلب کتاب خدا کی معرفت جانا ھے۔[111]
جس کے جواب میں عرض کرتے چلےں کہ روایت میں امام کا ساتھ زمانہ کا اضافہ ھے ےعنی ”زمانہ کے امام“ اس کا مطلب ےہ ھے کہ ھر زمانہ میں امام مختلف ھوگا ےا دوسرے الفاظ میں ےوں کھےں کہ ےہ تو امام کے تبدےل ھونے کا ثبوت ھے جبکہ قرآن تو ھر زمانے میں اےک ھی رھا ھے اور رھے گا اور اس کتاب خدا کے بدلنے کا کوئی سوال ھی پےدا نھےں ھوتا اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ھے۔
اگر ےھی بات ھوتی تو کہہ دےا جاتا کہ کتاب خدا کی معرفت حاصل کرو نہ ےہ کہ زمانہ کی کتاب کی معرفت حاصل کرو۔

حدےث شرےف میں حضرت کی سورج سے تشبےہ:
اس حدےث شرےف کو سمجھنے کے لےئے جس میں حضرت بقےة اللہ الاعظم (عج) کوسورج سے تشبےہ دی گئی ھے ضروری ھے کہ سورج کے کردار پر اےک نظر ڈالی جائے۔
ھمارا منظومہ شمسی(سولر سےسٹم) اگرچہ کائنات میں اےک ناچےز حےثےت رکھتا ھے ابھی تک کی تحقےق کے مطابق ۰۰۰،۳۰ سے زےادہ منظومہ کا انکشاف ھوچکا ھے جبکہ ےہ جستجو اور تحقےق ھمےشہ جاری رھے گی با وجود اسکے کہ اس عظےم خلقت خداوند متعال کو دےکھ کرھمارے منظومہ شمسی کی کوئی حےثےت باقی نھےں رہ جاتی لےکن کےونکہ ھم اسی منظومہ سے زےادہ ماٴنوس ھےں لہذا اسی کو معےار گفتگو قرار دےں گے۔
سورج کے گرد متعدد سےارے مسلسل گردش میںھےں جس میں سے تےسرا نمبر ھماری زمےن کا آتا ھے ھماری ےہ زمےن ۵۹۵۵ بلےن ٹن وزن کے ساتھ چار ہزار ملےن سال سے ۱۰۶۲۰۰ کےلومےٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رھی ھے اس کے باوجود کبھی بھی اپنے مدار سے خارج نھےں ھوتی ھے اس کی وجہ وہ جاذبہ اور کشش ھے کہ جو سورج میںپاےا جاتا ھے۔جو زمےن کو اپنی جانب کھےنچتا ھے اور دوسری طرف سے زمےن میں وہ قدرت ھے کہ جو مسلسل اپنے مرکز(سورج) سے دور ھونے کے اوپر صرف کررھی ھے۔انھی دونوں قوتوں اور کشش کا نتےجہ ھے کہ زمےن اپنے مدار میں باقی ھے۔
اگر اےک لمحہ کے لئے بھی سورج اپنی کشش کو روک لے تو ےہ زمےن اپنے مدار سے خارج ھونے کے بعد دوسرے سےاروں سے ٹکرا کر رےزہ رےزہ ھوجائے گی اسی طرح سے اگر زمےن اپنی قوت دافعہ کو اےک لمحہ کے لئے بھی ختم کرلے تو سورج سے جا ٹکرائے گی ےہ سورج جو ۳،ملےن اور ۳۳۰ ہزار زمےن کے برابر وزن رکھتا ھے جس کی وجہ سے زمےن کا نام و نشان باقی نھےں رھے گا۔
حےات اور بقاء زمےن اس پر متوقف ھے کہ زمےن اور سورج مسلسل اپنی قوت دافعہ اور جاذبہ کو برقرار رکھےں اگر ےہ رابطہ لمحہ بھر کے لئے بھی منقطع ھوجائے تو اسی وقت زمےن کا وجود عدم میں بدل جائے گا۔سورج کا کردار زمےن اور منظومہ شمسی کے دوسرے سےّاروں کی بقاء کے لےئے بنےادی حےثےت رکھتا ھے۔
اسی طرح کائنات میں جھان ھستی کی نسبت سے مرکزی کردار امام زمانہ(عج) کا ھے ےہ جھان ھستی اپنے محور اور مرکز حضرت حجّت(عج)کے گرد گردِش میں ھے میں ھے اگر اےک لمحہ کے لئے بھی رابطہ منقطع ھوجائے تو سب کے سب فوراً ھلاک ھوجائےں گے۔حجّت خدا کا صرف موجود ھونا ھی بقاء زندگی کے لئے کافی ھے اگر ےہ حجّت نہ رھے تو کائنات فنا ھوجائے گی۔
اس بات کی تائےد میں متعدد روایت نقل ھوئی ھےں ھم نمونہ کے طورپر چند اےک روایت کو نقل کرتے ھےں۔

پھلی روایت:
حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حضرت علی ابن ابی طالب علےھماالسلام سے فرماتے ھےں :
” انی و احد عشر من ولدی و انت ےا علیّ زرُّ الارض بنا اوتد اللہ الارض ان تسیخ باھلھا فاذا ذھب الاثنا عشر فی ولدی ساخت الارض باھلھا و لم ےنظروا “[112]
”میں اور مےرے اولادوں میں سے گےارہ آدمی اور تم اے علی زمےن کے لنگر ھےں ھمارے توسط سے خداوند عالم نے زمےن کو بچا رکھا ھے وہ اپنے اوپر رھنے والوں کو نگل نہ سکے پھر جب ھمارا بارھواں اس زمےن سے چلا جائے گا تو زمےن اپنے اوپر رھنے والوں کو نگل لے گی اور انھےں مھلت نہ دی جائے گی۔“

دوسری روایت:
اےک اور مقام پرپےغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اپنی زندگی کے آخری اےّام کے خطبہ میں فرماتے ھےں :
”معاشر النّاس کاٴنی اُدعی فاجےب وانّی تارک فےکم الثقلےن کتاب اللّٰہ و عترتی اھل بےتی ما إن تمسّکتُم بھما لن تضلّوا فتعلّموا منھم و لا تعلِّمُوھم فانھم اٴعلم منکم لاتخلوالارض منھم و لو خَلَتْ اذاً لساخت باٴھلھا“ [113]
”اے لوگوں وقت نزدےک آگےا ھے کہ مجھے بلاےا جائے اور دعوت حق کو لبےک کھوں ۔میں تمھارے درمےان دو قےمتی چےزےں چھوڑ کر جارھا ھوں خدا کی کتاب اور مےری آل اگر ان دونوں سے منسلک رھو گے تو گمراہ نھےں ھوگے ان سے سےکھو اُن کو پڑھانے کی کوشش مت کرنا کےونکہ وہ تم سے زےادہ جانتے ھےں۔کبھی بھی زمےن ان سے خالی نھےں رھے گی اور اگر خالی ھوگئی تو ےہ زمےن اپنے اھل کو نگل لے گی۔“

تیسری روایت:
ارشاد رب العزت ھے:
<انما انت منذرٌ و لکل قوم ھادٍ >[114]
آیت مبارکہ کے ذےل میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)فرماتے ھےں:
بے شک منذر میں ھوں، آےا جانتے ھو کہ ھداےت کرنے والا کون ھے ؟ لوگوں نے جواب دےا: نھےں ےا رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حضرت ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی ابن ابی طالب علےھما السلام کی جانب اشارہ کےا اور پھر امےر الموٴمنےن علیہ السلام کے کچھ فضائل بےان کےئے اور پھر فرماےا:
” ھو الامام ابو الائمّة الزُھَر “
”وہ امام ھےں اور نور باٹنے والے اماموں کے والد ھےں۔“
لوگوں نے سوال کےا : ” ےا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)آپ کے بعد کتنے امام آئےں گے ؟
حضرت (ص)نے جواب میں فرماےا:
” اثنا عشر عدد نقباء بنی اسرائےل و منّا مھدی ھذہ الامة ےَمْلَاُ اللّٰہ بہ الارض قسطاً و عدلاً کما مُلِئَتْ جوراً و ظلماً و لا ےخلو الارض منھم الّا ساٰخَت باٴھلھا“[115]
بارہ عدد بنی اسرائےل کے خلفاء کے جتنے۔ امت کا مھدی بھی ھم میں سے ھے خداوند عالم ان کے توسط سے زمےن کو عدل سے بھردے گا جےسے کہ ظلم وجور سے بھری ھوگی۔زمےن ان سے خالی نھےں ھوگی مگر ےہ کہ اھل زمےن کو نگل لے گی۔

چوتھی روایت:
امام زےن العابدےن علیہ السلام فرماتے ھےں:
”بنا ےمسک الارض ان تمےد باٴھلھا و بنا ےُنَزِّلُ الغےث و بنا ےنشرُ الرحمة و ےخرجُ برکاتِ الارضِ و لولا ما فی الارض منّا لساخت باٴھلھا“[116]
”ھمارے توسط سے زمےن اپنے اوپر رھنے والوں کو تنگ نھےں کرتی ھے اور ھماری وجہ سے بارشےں ھوتی ھےں اور ھماری وجہ سے زمےن اپنے اوپر خزانے اگل دےتی ھے اگر ھم میں سے کوئی اےک بھی نہ ھو تو زمےن اپنے اھل کو نگل لے گی۔“

پانچویں روایت:
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھےں:
”لو اَنَّ الامامَ رُفِعَ من الارض ساعةً لماٰ جَتْ باٴھلھا کما ےموجُ البحر باٴھلہ“[117]
اگر اےک لمحہ کے لئے بھی امام زمےن سے اٹھا لئے جائےں تو زمےن اپنے رھنے والوں کو اس طرح غرق کردے گی جےسے طوفان سمندر میں رھنے والوں کو اپنی لپےٹ میں لے لےتا ھے۔

چٹھی روایت:
امام محمد باقر علیہ السلام اےک اور مقام پر فرماتے ھےں:
” لو بقےت الارض ےوماً بلا امام منّا لساخَتْ باٴھلھا“ [118]
اگر اےک دن بھی ھم میں سے کوئی امام زمےن پر نہ رھے تو زمےن اپنے رھنے والوں کو نگل لے گی۔

ساتوےں روایت:
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھےں:
” و لولا مَن علی الارض مِن حجج اللّٰہ لنفضتِ الارض ما فےھا و اٴلْقَتْ ما علےھا انّ الارضَ لا تخلوا ساعةً من الحجة“[119]
اگر زمےن پر خدا کی حجت نہ رھے تو جو کچھ اس کے اندر ھے باھر اگل دے گی اور جو کوئی اس پر رھنے والے ھےں دور پھےنک دے گی بے شک زمےن اےک لمحہ کے لےئے بھی حجت خدا سے خالی نھےں رہ سکتی۔

آٹھوےں روایت:
حضرت ابوحمزہ ثمالی (رہ) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھو کر فرماتے ھےں:
” آےا ممکن ھے کہ زمےن حجت سے خالی رہ جائے“
امام علیہ السلام نے فرماےا:
” لو بقےت الارض بغےر امام لساخت“[120]
”اگر زمےن امام سے خالی ھوجائے تو سب کچھ تباہ ھوجائے گا۔“

نوےں روایت:
امام جعفر صادق علیہ السلام اےک طوےک حدےث کے ضمن میں فرماتے ھےں:
”لوخَلَتِ الارض ساعة واحدةً من حجّةٍ للّٰہ لساخت باٴھلھا“[121]
”اگر زمےن اےک لمحہ کے لےئے بھی حجت خدا سے خالی ھوجائے تو اپنے رھنے والوں کو نگل لے گی۔“
مذکورہ روایت کو مدنظر رکھنے سے معلوم ھوتا ھے کہ جس طرح سورج بادلوں میں چھپ کر اور اھل زمےن سے بظاھر رابطہ منقطع کرنے کے باوجود پورے نظام شمسی کو تباھی اور بربادی سے بچائے رکھتا ھے اور سورج ھی کی وجہ سے پورا نظام اپنی جگہ پر قائم اور دائم رہتا ھے بالکل اسی طرح خودحضرت(عج) انسانوں سے بظاھر دوری اور غیبت میں رہ کر بھی ان کو حےات بخشے ھوئے ھےں اور اگر ےہ رابطہ منقطع ھوجائے توحےات انسانی وجود سے عدم میں بدل جائے گی اور سب کچھ نابود ھوجائے گا انھی کے وجود کی برکت
سے اھل زمےن،آسمان اور زمےن سے فےوضات حاصل کرتے رہتے ھےں۔
زمےن اپنے خزانے اگلتی رھے گی اور آسمان سے عنصر حےات جس پر انسانی زندگی کا انحصار ھے باران رحمت نازل ھوتی رھے گی جس طرح مادی زندگی میں انسان آپ(عج) سے فیضیاب ھوتا رہتا ھے اسی طرح سے معنوی زندگی میں بھی آپ (عج) کا کردار بنےادی حےثےت رکھتا ھے۔آپ(عج) کا ذکر لوگوں کو خدا کی جانب ھداےت کرتا ھے۔آپ(عج) کے انتظار میںلوگ خدا سے گڑگڑاکر انتھائی عاجزی کی حالت میں ظھور کی دعائےں کرتے ھےں خود ےہ عمل انسان کو عبودےت کی منزل کی جانب دھکےلتا ھے۔
آپ (عج)کی معرفت فرض کی گئی ھے جےسا کہ معروف روایت میں ارشاد ھوتا ھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرماےا:
” من مات و لم ےعرف امام زمانہ مات مےتةً جاھلےةً “
جوکوئی بھی اس حالت میں مرے کہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کو نہ پہچانتا ھو تو وہ جاھلےت کی موت مرے گا۔
آپ(عج)سے دوری انسان کو زمانہ جاھلےت میں پلٹا دےتی ھے آپ (عج)کی معرفت نہ رکھنا اس کا مترادف ھے کہ انسان بے دےن ھے اور وہ زمانہ قبل از اسلام کی طرح گمراہ ھوچکا ۔

کچھ امام زمانہ (ع) کی والدہ معظمہ کے بارے میں
یہ بھی معجزات ِ الٰھی میں سے ھے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے لیے زوجہ کا انتخاب کھاں سے کیا گیا ھے حضرت نرجس کا تعلق سلسلہ بادشاہت روم سے ھے جس کا دارلخلافہ بیزانس کہ جو مو جو ہ دور میںاستنبول کے نام سے معروف ھے ۔حضرت نرجس خاتون کے والد یشوعا قیصر روم کے بیٹے تھے جنکا سلسلہ نسب حضرت عیسیٰ علیٰ نبّینا و علیہ السلام کے اصحاب سے ملتا ھے اور والدہ کی طرف سے شمعون علیہ السلام کی نسل سے ھیں جو حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے وصی تھے۔

اسماء شریفہ:
حضرت نرجس خاتون علیھا السلام کے نو(۹) نام نقل ھو ئے ھیں:
جو ملیکہ، حکیمہ ، سبیکہ، نرجس، سوسن ،مریم ،ریحانہ ،خمط اورصقیلھیں۔
(۱)نرجس: ایک پھول کا نام ھے جسے اردو زبان میں نرگس کا پھول کہتے ھیں ۔[122]
(۲)سوسن : موسمی پھول کا نام ھے اور مختلف رنگوں میں ھوتا ھے ۔ یہ اصل میں یورپ،امریکہ اور ھمالیہ میں پایا جاتا ھے۔[123]
(۳)سبیکہ : خالص سو نے کو کہتے ھیں۔اورخالص چاندی کے لیے بھی استعما ل ھو تاھے ۔[124]
(۴(حکیمہ : اسکالر خاتون کو کھا جا تاھے ۔ آپ نے علم وحکمت کوبیزانس میں ایک خصوصی عربی زبان استانی سے سیکھا تھا۔[125] جبکہ اسلامی تعلیمات کو امام علی نقی علیہ السلام کی بیٹی حکیمہ خاتون سے سیکھا۔[126]
(۵) ملیکہ -: ملکہ کے معنٰی میں استعمال ھو تا ھے اور حق بھی یھی ھے کہ وہ پوری دنیا پر حکومت کرنے والے فرزند ارجمند کی والدہ ماجدہ ھیں
(۶) مریم : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام ھے اورعلماء اھل تشیع اور اھل سنت اس بات پر متفق ھیںکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت بقیّة اللہ کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے ۔[127]
(۷) ریحانہ: ھرخوشبو والے پودے کو کھا جاتا ھے ۔[128] اور یقینا ایسا ھی ھے کہ جنکے فرزند کی خوشبو سے پورا جھان معّطر ھوگا اور نور ولایت ھر جگہ چھا جائے گا ۔
(۸) خمط : پھلدار درخت کا نام ھے اور ھرتازہ اور خوشبووالی چیز کو کہتے ھیں ۔[129]
(۹) صقیل : ھر نورانی چیز کو کہتے ھیں ۔شیخ صدوق (رہ)اورشیخ طوسی (رہ) کا کھنا ھے کہ حضرت نرجس خاتون کے حاملہ ھونے کے بعد آپکو صقیل کانام دیا گیا تھا۔[130]

دو خاندانوں کاملاپ :
اب دیکھتے ھیں کہ یہ قیصر روم کی خوشبو خاندان نبّوت و عصمت تک کیسے پھنچ گئی۔ اس قصّہ کو علماء اکرام نے اپنی کتابوں میں تفصیل سے لکھا ھے مانند شیخ صدوق(رہ) نے کمال الدین میں ، شیخ طوسی(رہ) نے غیبت میں ، طبری(رہ) نے دلائل الامامة میں ،ابن شھر آشوب (رہ)نے مناقب میں ، لیلیٰ(رہ) نے منتخب میں ، ابن فتّال نیشاپوری(رہ) نے روضہ میں ، شیخ حرّعاملی(رہ) نے اثبات الھداة میں ،سید ھاشم بحرانی(رہ) نے حلیّةالابرار میں اور علامہ مجلسی(رہ) نے بحار الانوار میں نقل کیا ھے ،ھم اس واقعہ کو تلخیص کے ساتھ پیش کریں گے ۔

بشربن سلیمان نخّاس :
بشر کا تعلق رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے صحابی حضرت ابوایوب انصاری (رہ) کی نسل سے ھے
ھے بشر حضرت امام ھادی علیہ السلام اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے صحابیوں میںسے تھے پیشہ کے اعتبار سے بشر بن سلیمان غلام اور کنیز وغیرہ کی خریدوفروش کا کام کیا کرتے تھے ۔

بشر بن سلیمان کا بلا وا :
ایک رات سامرہ میں بشر بن سلیمان اپنے گھر میں بیٹھے تھے کہ دروازہ پر دستک ھوئی تو پتہ چلا کہ امام ھادی علیہ السلام کا خادم کافور آیا ھے اور کہتا ھے کہ فوراً چلو! حضرت امام علیہ السلام نے بلایا ھے ۔ بشر بن سلیمان بھی جلدی سے تیار ھو کر حضرت امام علیہ السلام کی خدمت میں پہچے ۔ انھوں نے دیکھا کے امام ھادی علیہ السلام اپنے فرزند ارجمند امام حسن عسکری علیہ السلام سے گفتگو میں مشغول ھیں۔
امام ھادی علیہ السلام نے بشربن سلیما ن سے فرمایا :
” اے بشر تم انصاری کی نسل سے ھو ۔ھماری محبت ھمیشہ سے تمھارے دلوں میں رہتی آرھی ھے تمھاری ھر نسل نے ھماری محبت کو ارث میں حاصل کیااور اب میں چاہتا ھوں کہ ایک راز تم پر آشکار کروں اور تمھیں ایک اھم کام کی ذمہ داری سو نپوں ۔یہ کام تمھارے لیے با عث فضیلت ھو گا اس طرح سے کہ تم سارے شیعوں میں اس فضیلت میں پھل کروگے۔ “
اسکے بعد امام ھادی علیہ السلام نے رومی زبان میں ایک خط لکھا اور اپنی مھر مبارک لگا کر بشر کو دیا اور اس کے ساتھ ایک بٹوا بھی دیا ۔ جس میں دوسو بیس(۲۲۰)دینار تھے ۔یہ دونوں چیز تھمانے کے بعد فرمایا !” یہ دونوں چیزیں لیکر بغداد کی جانب روانہ ھوجاؤ فلاں دن ظھرسے پھلے فرات کے راستے میں پھنچ جاؤ ۔ جب غلاموں اور کنیزوں کی کشتیاںوھاں پھنچیں اس جگہ پر بہت سے لوگ خریداری کی غرض سے آ ئے ھوئے ھوں گے کچھ لوگ عباسی عھداروں کی طرف سے ھونگے جبکہ تھوڑے بہت جوانان عرب بھی دکھائی دینگے تم اس دن دور سے دیکھتے رھنا اور ایک کنیز وغلام بیچنے والا بنام عمربن یزید کے پاس جانا اور تم دیکھو گے کہ اسکے پاس ایک کنیز ھوگی جس نے رنگین ریشمی کپڑے پھنے ھوئے ھونگے ۔اور جب کوئی اسکی بولی لگائے گا تو وہ کسی کے لیے بھی اپنا نقاب نھیں اٹھائے گی ۔
اسی دوران خریداروں کے ہجوم میںایک سےاہ شخص آگے بڑھ کر تین سو(۳۰۰) دینار میںاس کنیزکو خریدنا چاھے گا ۔جس پر یہ کنیز اس شخص کی غلامی میں جانے سے انکار کر دے گی اور کھے گی کہ:
”اگر مجھے کوئی رئیس زادہ بھی آکرکیوںنہ خریدنے کی کوشش کرے مجھے اس سے کوئی دلچسپی نھیں ھو گی لہٰذا تم اپنا پیسہ ضائع مت کرو “
اس موقع تم اٹھکر عمروبن یزید سے کھنا ! میرے پاس اشراف عرب میں سے ایک کا خط ھے جو رومی زبان میں لکھا ھوا ھے یہ اس کنیز کو دےدواگر یہ راضی ھو جائے تو مجھے اپنے موکّل کی طرف سے اجازت ھے کہ ان کے لیے کنیز خریدلوں کنیزنے خط لیکر پڑھا اور عمروبن یزید سے کھا کہ مجھے اس خط کے لکھنے والے کے لیے بیچو ورنہ میں اپنے آپ کو ھلاک کر لوں گی اس موقع پر بشربن سلیمان اور عمروبن یزید میں مزاکرہ شروع ھوا اور یہ سودا دوسوبیس(۲۲۰)دینار پر آکر ختم ھوا ۔
پھر بشربن سلیمان کنیز کو لےکر گھر آیا تو دیکھا کہ وہ خط کوھاتھ میں لیکر چومتی جارھی ھے ۔بشربن سلیمان نے حیرت سے سوال کیا کہ ! تم ایسے خط کو چوم رھی ھو جس کے لکھنے والے کو جانتی تک نھیں ھو ۔جس پر اس خاتون نے جواب دیا :غور سے سنو !میںملےکہ بنت یشوعا بن قیصر رو م ھوں میری ماں کا نسب شمعون علیہ السلام سے ملتا ھے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وصی تھے اب میں تمھیں بہت حیرت انگیزواقعہ سنانے جارھی ھوں ۔

خاتون علیھاالسلام کی کھانی ان کی اپنی زبانی :
جب میری عمرتیرہ سال کی ھوئی تو میرے دادا قیصر روم نے اپنے بھتیجے سے میری شادی کرنے کا فیصلہ کیا ۔محفل منعقد کی گئی تین سو راھب اور سات سوپادری وھاں موجود تھے نیز چارہزار فوجی سردار ،شرفاء اور معززین بھی اس محفل میںشریک تھے ۔تخت وتاج شھنشاھی کو جواھرات سے سجایاھواتھا جیسے ھی میرے دادا کا بھتیجا تخت پر بیٹھا اور صلیب کواسکے گرد گھما یا جانے لگا سب تعظیم میں کھڑے ھوگئے اور انجیل کے صفحات کو کھولا گیا۔

محفل درھم برھم ھوگئی :
جس وقت شادی کی رسم شروع کی جانے لگی ایک مرتبہ ساری صلیبیں الٹ کر گرگئیں ۔تخت وتاج لرزنے لگے وہ جوان جو شادی کی غرض سے آیا تھا بیھوش ھو کر گر پڑا سب کے چھروں سے رنگ اڑ گیا راھبو ں کے بزرگ نے میرے داداسے کھا ! اس نحوست والے عمل کو چھو ڑدو کہ جس کی وجہ سے مسیحیت نابودھوتی ھوئی نظر آرھی ھے ۔ میرے داداقیصرروم نے جواب میںکھا کہ صلیبوںکو اپنی جگہ نصب کرو ۔ ساری چیزوںکو اسکی جگہ پر رکھو پھر اپنے دوسرے نمبر کے بھتیجے کو بلایا تا کہ میری شادی اس سے کر دی جائے دوبارہ سے دربار کو سجایا گیا اور محفل جمائی گئی جیسے ھی رسم شادی شروع کرنے کی بات کی گئی دو بارہ وھی حادثہ پیش آیا اور سب کچھ درھم برھم ھوگیا میرے دادا افسردہ ھوکر اپنے حر م سرا میں چلے گئے۔

پھلا خواب :
میں نے اس رات ایک خواب دیکھاکہ جس نے مجھے بدل کر رکھ دیا ۔میں نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام ، شمعون اور حواریوں کا ایک گروہ میر ے دادا کے محل میں جمع ھے اور ایک نور سے بناھوامنبر عین اسی مقام پر نصب ھے کہ جھان میرے دادا کا تخت ھوتا ھے ۔اسی وقت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اپنے وصی اور دامادامیرالمومنین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام اور ان کی اولادمیں سے ایک گروہ کے ھمراہ تشریف لائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آگے بڑھ کر حضرت محمد (ص)کو اپنی آغوش میں لے لیا ۔ اس وقت حضرت محمد (ص)نے حضرت عیسیٰ سے فرمایا !میں تمھارے وصی شمعون کی بیٹی ملیکہ کا رشتہ اپنے بیٹے ابومحمد علیہ السلام کے لیے ما نگنے آیا ھوں ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حضرت شمعون علیہ السلام کو مخاطب کرکے فر مایا! اے شمعون علیہ السلام تمھاری قسمت جاگ اٹھی ھے شر افت اور فضیلت تمھیں نصیب ھو رھی ھے اپنے خاندان کا آل محمدعلیھم السلام کے خاندان سے رشتہ جوڑ لو ۔
شمعون نے جواب دیا !اطاعت ھوگی ۔اس وقت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)منبر پر تشریف لائے اور خطبہ نکاح پڑھکر میرا ابومحمد سے عقد کر دیا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، انکے حواری اور آل محمدعلیھم السلام ھمارے نکاح کے گواہ ھیں ۔
جب اس سنھرے خواب سے میری آنکھ کھلی تو میں ڈر گئی کہ اگر اس خواب کو اپنے دادا کو سنایا تو وہ مجھے قتل کردیں گے لہٰذا اس خواب کو ایک راز کی طرح اپنے سینے میں رکھا لیکن اس خواب نے مجھے اتنا بدل دیا تھا کہ ھر وقت ابو محمد علیہ السلام کی محبت کے بارے میں سوچتی رہتی تھی اور کھانے پینے کی طرف سے بالکل توجہ ہٹ گئی تھی یھاں تک کہ میں مریض ھوگئی ۔
پوری مملکت روم میں کوئی ایسا طبیب نہ تھا جس نے میرا علاج نہ کیا ھو مگر سب کا سب بے فائدہ رھا میرے دادا نے مایوس ھوکر مجھ سے سوال کیا ! میری بیٹی ! کیا تمھارے دل میں کوئی خواہش ھے کہ جو اس دنیا میں تمھارے لئے پوری کروں۔
میں نے جواب دیا ! داداجان اگر آپ حکم کریں کہ جتنے بھی مسلمان آپکی قید میں ھیں انکی زنجیروں کو کھول دیا جائے اور انکو اذیت کرنا بند کردیا جائے اور ان پر احسان کرکے ان کو آزاد کردیا جائے تو مجھے امید ھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انکی والدہ حضرت مریم علیھا السلام میرے لیے سلامتی اور رحمت کے دروازے کھول دیں ۔
کیوںکہ میرے دادا نے میری خواہش پوری کردی تھی میں بھی کوشش میں لگی رھی کہ اپنے آپ کو صحتمند دکھاؤں لہٰذا تھوڑا بہت کھانا پینا شروع کردیا میرے دادا نے خوش ھو کر اسیروں کو مزید رعایت دیدی ۔

دوسرا خواب :
پھلے خواب کے چودہ روز بعد دوبارہ خواب دیکھا کہ خاتون جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاتشریف لائی ھیں اور حضرت مریم سلام اللہ علیھابھی انکے ھمراہ ھیں جبکہ ایک ہزار کنیزیں بھی انکے ھمراہ ھیں حضرت مریم سلام اللہ علیھانے مجھ سے مخاطب ھوکرفرمایا ! یہ خاتون جنت سلام اللہ علیھا اور تمھارے شوھر ابو محمد علیہ السلام کی والدہ ھیں ۔ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دامن میں سر رکھ کر رونے لگی اور ابو محمد علیہ السلام کے میرے پاس نہ آنے کا شکوہ کیا ۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا ! جب تک تم مشرک رھو گی ابو محمد علیہ السلام تمھارا دیدار کر نے نھیں آئیں گے یہ میری بھن مریم بنت عمران ھیںکہ جو بارگاہ الٰھی میں تمھارے دین سے اظھار برائت اور دوری کرتی ھیںاب اگر تم خدا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت مریم سلام اللہ علیھاکی خوشنودی چاہتی ھو اور ابو محمد علیہ السلام سے ملنے کی خواہش بھی رکھتی ھو تو بو لو:
اشھد ان لا الہ ا لّا اللّہ واشھد انّ محمد اًرسول اللّہ ۔
جیسے ھی میں نے کلمہ شھادتیں اپنی زبان پر جاری کیا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھانے مجھے سینے سے لگا کر فرمایا:
اب ابومحمد علیہ السلام کے انتظار میںرھنا تمھاری جلدی ھی ان سے ملاقات ھو جائے گی۔
نیند سے اٹھکر ابو محمد علیہ السلام کے دیدار کے لئے لمحہ شماری کرتی رھی اس کے بعد والی رات کو خواب میں ابومحمد علیہ السلام کی زیارت کی اور اس کے بعد سے آج تک ھر رات ان کو خوا ب میں دیکھتی آرھی ھوں ۔

حضرت نرجس خاتون کی اسیری :
بشر بن سلیمان نے سوال کیا کہ: پھر اسیر کس طرح ھوئیں ؟
جناب نرجس خاتون علیھا السلام نے جواب دیا :ایک رات ابو محمد علیہ السلام کو خواب میں دیکھا تو انھوں نے فرمایا ! ابھی کچھ دنوں میں تمھارے دادا مسلمانوں سے جنگ کرنے کی غرض سے ایک لشکر لے کر چلیں گے تم بھی نوکرانیوں کے لباس میں چھپ کر انکے ساتھ مل جانامیں نے ان کے فرمان کی اطاعت کی اور یھی ھوا کہ مسلمانوں نے حملہ کیا اور میں اسیر ھو گئی اور ابھی تک کسی کو معلوم نھیں کہ میں روم کے بادشاہ کی پوتی ھوں بشربن سلیمان نے سوال کیا کہ یہ فصیح و بلیغ عربی کھاں سے سیکھی ؟ تو خاتون علیھا السلام نے جواب دیا کہ میرے داداکو پڑھنے پڑھانے کا بہت شوق ھے اوران کی خواہش تھی کہ میںمختلف قوموں کی زبان اوران کے ادب وآداب سیکھوں اسی بنا پر انھوں نے ایک خاتون کو حکم دیا کہ وہ مجھے صبح وشام عربی سکھائے ۔
اور یہ پورا قصّہ تھاکہ اس طرح سے حضرت نرجس خاتون علیھا السلام روم سے سامراء پھنچیں ۔اس کے بعد حضرت امام ھادی علیہ السلام نے اپنی بھن حکیمہ علیھا السلام کو بلا کر میری جانب اشارہ کرکے فرمایا یہ وھی خاتون ھیں کہ جن کا انتظار تھا اور ان سے کھا کہ مجھے احکام دین اور اسلامی آداب سیکھائیں۔[131]
--------------------------------------------------------------------------------
[1] بحار الانوار ج۵۳،ص۹۵ اور ج۸۶،ص۲۸۴ اور ج۹۴،ص۴۲ اور ج۱۰۲،ص۱۱۱۔
[2] کافی ج۲،ص۱۲،باب اخلاص ج۶
[3] بحار الانوار ج۵۳،ص۳۲۶۔
[4] کافی ج۶،ص۴۰۶۔
[5] سورہٴ تحرےم آیت ۸ ۔
[6] بحارالانوار ج۵۳، ص۳۲۶ ۔
[7] سفےنة البحار ج۲،ص۶۱۲،مادہٴ نور، بحار الانوار ج۲۳،ص۳۰۶۔
[8] سورہٴ نساء آیت ۱۷۴۔
[9] تغابن آیت ۸۔
[10] بحارالانوار ج۵۸،ص۵۔
[11] بقرہ آیت ۲۵۵۔
[12] بحارالانوار ج۵۸،ص۲۸۔
[13] بحار الانوار ج۵۸،ص۲۸۔
[14] بحارالانوار ج۵۸،ص۱۰۷۔
[15] بحارالانوار ج۱۳،ص۲۷۳۔
[16] بحارالانوار ج۶۰،ص۲۷۔
[17] سورہٴ نمل آیت ۸۶ ۔
[18] سورہٴ انعام آیت ۳۸۔
[19] سورئہ انعام آیت ۵۹۔
[20] یس آیت ۱۲۔
[21] نمل آیت ۸۹۔
[22] اسراء آیت ۸۲۔
[23] اسراء آیت ۸۲۔
[24] فجر آیت ۲۲۔
[25] غافر آیت ۷۸۔
[26] زمر آیت ۶۹۔
[27] قصص آیت ۸۸۔
[28] مجمع البےان ج۷،ص۴۲۱۔
[29] البرھان ج۳،ص۲۴۱۔
[30] بقرہ آیت ۲۵۸۔
[31] آل عمران آیت ۱۵۶۔
[32] ےونس آیت ۵۶۔
[33] روم آیت ۱۹۔
[34] آل عمران آیت ۲،بقرہ آیت ۲۵۵۔
[35] طہ آیت ۱۱۱۔
[36] عوالم العلوم ج۱۱،ص۲۶، مستدرک سفےنة البحار ج۳،ص۳۳۴۔
[37] زمر آیت ۶۹۔
[38] تفسےر صافی ج۴،ص۳۳۱، نور الثقلےن ج۴،ص۵۰۴۔
[39] شوریٰ آیت ۱۱۔
[40] اسراء۔۴۴۔
[41] حج۔۶۶ ۔
[42] روم۔۴۰ ۔
[43] بقرہ ۔۲۸
[44] دخان۔۸۔
[45] اعراف۔۱۵۸۔
[46] بقرہ۔۲۵۵۔
[47] ٓل عمران ۔۲۔
[48] غافر۔۶۵۔
[49] انبےاء ۔۱۰۷ ۔
[50] حمد ۔۶ ۔
[51] بحار الانوار ج۵۱،ص۳۰،ح۷ ۔
[52] بحار الانوار ج۵۱،ص۳۰،ح۶۔
[53] بحار الانوار ج۵۱،ص۲۹،ح۲ ۔
[54] بحارالانوار ج۵۱،ص۲۸،ح۱۔
[55] بحارالانوار ج۵۱،ص۳۰،ح۴ ۔
[56] نساء ۵۹ ۔
[57] تفسیر الکبیر ج۱۰ ص۱۴۴۔
[58] تفسےر البحر المحےط ج۳، ص۲۷۸ ۔
[59] احقاق الحق ج۳،ص۴۲۵۔
[60] نساء آیت ۵۹۔
[61] ےنابےع المودہ ص۱۱۶۔
[62] احزاب آیت ۵۶ ۔
[63] نساء آیت ۶۵۔
[64] مجمع البےان ج۸،ص۵۷۹۔
[65] مجمع البےان ج۸،ص۵۷۹۔
[66] تفسےر در المنثور ج۶ص۶۴۶۔۶۵۶۔
[67] کہف، آیت ۱۰۹ ۔
[68] انعام ،آیت ۳۸۔
[69] انعام ،آیت ۵۹ ۔
[70] نحل ، آیت ۸۹،
[71] اسد الغابة ج۴،ص۱۰۸،مختصر تارےخ دمشق ج۱۷،ص۳۵۳
[72] ےنابےع المودہ ص۶۹۔
[73] ےنابےع المودہ۔ ص۶۹۔
[74] سفےنة البحار ج۱،ص۵۰۴ کلمہ ربع۔
[75] سفےنة البحار ج۱،ص۵۰۴،کلمہ ربع۔
[76] انعام آیت ۷۳۔
[77] نمل آیت ۷۷۔
[78] حجرات آیت ۱۸ ۔
[79] بحار الانوار ج۷۰، ص۱۹۹ ح۴۔
[80] اسراء آیت ۸۴۔
[81] بحارالانوار ج۷۰،ص۲۰۱،ح۵۔
[82] واقعہ آیت ۱۱۔
[83] آل عمران ۱۶۹۔
[84] عنکبوت ،آیت۵۷۔
[85] اعراف، آیت۲۶۔
[86] زمر ،آیت ۶۹۔
[87] بحارالانوار ج۵۳،ص۱۸۰۔
[88] تفسےر صافی ج۴،ص۳۳۱،نور الثقلےن ج۴،ص۵۰۴۔
[89] بقرہ ،آیت۷۔
[90] بقرہ، آیت ۱۰۔
[91] بقرہ ،آیت ۵۱۔
[92] طہ ،آیت ۲۵۔۳۲
[93] ےہ حدےث مختلف کتابوں میں ذکر ھوئی ھے حوالہ کے طور پر بحار الانوار ج۳۳، ص۱۷۶،باب ۱۷ ۔اصول کافی ج۸،ص۱۰۷،روایت۸۰،باب۸ اور المستدرک الوسائل ج۱۸،باب ۲۰، ص۳۶۷ روایت ۲۲۹۷۱ میںرجوع کرےں۔
[94] روم،آیت ۴۱۔
[95] تفسےر المےزان ج۱۶، ص۲۰۰ ۔
[96] اعراف ،آیت ۹۶۔ ۳۔
[97] مائدہ،آیت ۵۵۔
[98] احقاق الحق ج۲،ص۳۹۹ سے ۴۱۰ تک،مجمع البےان ج۳،ص۳۲۴، نورالثقلےن ج۱ ، ص۶۴۷ ، تفسےر المےزان ج۶،ص۵۔
[99] تفسیر در المنثور ج۳ ص۱۰۵،تفسیر کشاف ج۱ ص۳۴۷،تفسیر فتح القدیر ج۲ ص۶۶۔
[100] بحارالانوار ج۲۵،ص۳۶۳،ج۳۶،ص۴۰۰۔
[101] عوالم العلوم ج۱۱،ص۵۴۰۔
[102] عوالم العلوم ج۱۱،ص۶۱،باب ۳،ح۲۔
[103] حجرات،آیت ۱۳۔
[104] انعام،آیت ۳۸۔
[105] آل عمران، آیت ۱۹۔
[106] واقعہ ،آیت ۱۰۔۱۱۔
[107] کمال الدےن ج۱،ص۲۵۳،بحارالانوار ج۳۶،ص۲۵۰ ،مراٴة العقول ج۴،ص۲۷۔
[108] امالی صدوق ص۱۵۷،کمال الدےن ص۲۰۷، بحارالانوار ج۵۲،ص۹۲، فرائد السمطےن ج۱،ص۴۶، ےنابےع المودة ج۱،ص۷۶،ج۳،ص۳۶۱۔
[109] بحار الانوار ج۵۳ ص۱۸۱،کمال الد ین ج۲ ص۴۸۵،غیبت شیخ طوسی(رہ)ص۱۷۷،احتجاج طبر سی (رہ)ص۴۷۱،اعلام الوری ص۴۲۴،کشف الغمہ ج۳ص۳۲۲،النوادر فیض کاشانی ص۱۶۴،کلمہ الامام مھدی ص۲۲۵،المختارمن کلمات الامام المھدی ج۱ص۲۹۴۔
[110] تواتر اسے کہتے ھےں کہ اےک روایت اتنی تعداد میں مختلف رواےوں اور واسطوں سے اےسے نقل کی جائے کہ اس کے جھوٹ ھونے کا احتمال بھی باقی نہ رھے۔
[111] مراٴة العقول،ج۴،ص۲۸۔
[112] غیبت شےخ طوسی ص۱۳۹ ، بحارالا نوارج۳۶ص۲۵۹، اثبات الھداة ج۱ص۴۶۰ تقرےب المعارف ص۱۷۵۵۔
[113] کفاےة الاثر ص۱۶۳، بحارالانوار ج۳۶،ص ۲۳۸، محےنة البلاغہ ج۱،ص۱۷۰،ینا بیع المودة ج۱ ص۷۴۔
[114] سورہٴ رعد آیت ۷۔
[115] کفاےة الاثر ،ص۸۹،بحارالانوار ج۳،ص۳۱۶۔
[116] فرائد المسمطےن ج۱،ص۴۶،ےنابےع المودة ج۱،ص۷۵،ج۳ص۳۶۰۔ امالی شےخ صدوق ص۱۷۵،کمال الدےن ج۱،ص۲۰۷۔
[117] کمال الدےن ج۱ص۲۰۲،بحارالانوار ج۲۳ص۳۴۔
[118] کمال الدےن ج۱،ص۲۰۴، بحارالانوار ج۲۳،ص۳۷۔
[119] کمال الدےن ج۱ص۲۰۲، بحارالانوار ج۲۳،ص۲۴۔
[120] غیبت نعمانی ص۱۳۸،علل الشرایع ص۱۹۸،بصائر الدرجات ص۵۰۸۔
[121] غیبت نعمانی ص۱۶۱۔،بحار الانوار ج۵۱ص۱۱۳۔
[122] فرھنگ معےن ج۴،ص۴۷۰۲۔
[123] فرھنگ معین ج۲ ص۱۹۵۴۔
[124] لسان العرب ج۶ ص۱۶۳۔
[125] غیبت شیخ طوسی(رہ) ص۱۲۸،کمال الدین ج ۲ص۲۳ ۴۔
[126] دلائل الامامة ص ۲۶۷،بحارالانوار ج۵۱ ص۱۰۔
[127] مصنف ابن ابی شیبہ ج۱۵ ص۱۹۸ ح۱۹۴۹۵
[128] فرھنگ معین ج۲ ص۱۷۰۲۔
[129] لسان العرب ج۴ص۲۲۰۔
[130] غیبت طوسی(رہ) ص۲۴۱،کمال الدین ج۲س۴۳۲۔
[131] غیبت طوسی ص۱۲۴،۱۲۸، کمال الدےن صدوق ج۲،ص۴۱۷،۴۲۳ دلائل الامامة ص۲۶۳،۲۶۷، مناقب ابن شھر آشوب ج۴،ص۴۴۰،۴۴۱ ،روضة الواعظےن ج۱،ص۲۵۲،۲۵۵، اثبات الھداة ج۳، ص۳۶۔ ۳۶۵ اور ص ۰۸ ۴ ۔ ۴۰۹، بحارالانوار ج۵۱،ص۶۔۱۰،حلےة الابرار ج۶،ص۵۱۵۔