آفتاب عدالت
 
چوتھا حصہ
جو احاديث اس بات سے منع كرتى ہيں كہ انقلاب و تحريك ميں عجلت سے كام نہ لو _

حديث اول
عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد عن محمدبن

381
على عن حفص بن عاصم عن سيف التمار عن ابى المرہف عن ابى جعفر عليہ السلام قال : الغبرة على من اثارہا ، ہلك المحاضير قلت : جلعت فداك ، و ماالمحاضير؟ قال المستعجلون اما انہم لن يريدوا الاّ من يعرض عليہم ( الى ان قال) يا ابا المرہف اترى قوماً جسو انفسہم على اللہ لا يجعف اللہ لہم فرجاً؟ بلى واللہ ليجعلن اللہ لہم فرجاً _
( وسائل الشيعہ ج 11 ص 36)
امام محمد باقر نے فرمايا: گردو غبار اس كى آنكھوں ميں پڑتا ہے جواڑاتا ہے _ جلد باز ہلاك ہوتے ہيں حكومتيں ان لوگوں كو كچلتى ہيں جوان سے ٹكراتے ہيں _ اے ابو مرہف كيا تم يہ سمجھتے ہو كہ جو لوگ راہ خدا ميں اپنى حفاظت كرتے ہيں _ خدا انھيں فراخى نہيںعطا كرے گا ؟ كيوں خدا كى قسم خدا انھيں ضرور كشائشے عطا كرے گا _

سند حديث
سند كے اعتبار سے حديث صحيح نہيں ہے كيون كہ محمد بن على كوفى ( محمد بن على بن ابراہيم ) كو رجال كى كتابوں ميں ضعيف شمار كيا گيا ہے جبكہ ابومرہف بھى مجہول ہے _

مفہوم حديث
مذكورہ حديث سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ اس زمانہ ميں ايك گروہ نے خليفہ وقت كے خلاف خروج كيا تھا اور اس كى شورش كو كچل ديا گيا تھا _ اسى لئي راوي

382
حديث بھى خوف زدہ اور پريشان تھا كہ كہيں شيعوں پر بھى حرف نہ آئے _ اسى لئے اما م نے اسے تسلى دى كہ تم نہ ڈرو ان لوگوں كى چھان بين كى جائے گى جنہوں نے خروج كيا تھا _ تم پر آنچ نہيں آئے گى _ تم ظہور كے وقت تك خاموش رہو _ اس حديث كو بھى قيام كے مخالف نہيں كيا جا سكتا _

حديث دوم
'' الحسن بن محمد الطوسى عن ابيہ عن المفيد عن ابن قولويہ عن ابيہ عن احمد بن على بن اسباط عن عمّہ يعقوب بن سالم عن ابى الحسن العبيدى عن الصادق عليہ السلام قال : ما كان عبد ليحبس نفسہ على اللہ الا دخلہ الجنة '' _
( وسائل الشيعہ ج 11 ص 29)
اما م صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے : جو شخص بھى خدا كيلئے صبر و پائيدارى سے كام ليتا ہے خدا اسے جنت ميں جگہ عطا فرمائے گا _

سند حديث
مذكورہ حديث سند كے اعتبار سے صحيح ہے اس كے راويوں كو موثق قرار ديا گيا ہے _

مفہوم حديث
اس حديث ميں امام صادق نے نفس پر قابو ركھنے اور پائيدارى سے كام لينے كا حكم ديا ہے _ ليكن سكوت و صبر كا لازمہ يہ نہيں ہے كہ قيام نہ كيا جائے قيام كے ساتھ صبر و پائيدارى زيادہ مناسب ہے _

383
حديث سوم :
قال امير المؤمين عليہ السلام : الزموا الارض واصبروا على البلاء و لا تحركوا بايديكم و سيوفكم فى ہوى السنتكم ولا تستعجلوا بما لم يعجل اللہ لكم فانہ من مات منكم على فراشہ و ہو على معرفة حق ربّہ و حق رسولہ و اہل بيتہ مات شہيدا ووقع اجرہ على اللہ و استوجب ثواب ما نوى من صالح عملہ وقامت النية مقام اصلاتہ بسيفہ فان لكل شيئي مدة واجلا
(وسائل الشيعہ ج 11 ص 40)
حضرت امير المومنين كا ارشاد ہے : زمين پكڑ كر بيٹھے رہو ، بلاؤں پر صبر كرو اور اپنى زبان كى بناپر تلوار اور ہاتھوں كو حركت نہ دو ، جس كام ميں خدا نے عجلت نہين كى ہے تم بھى اس ميںتعجيل نہ كرو، بے شك جو بھى تم ميں سے اس حال ميں اپنے بستر پر مرے گا كہ خدا و رسول اور اہل بيت كى معرفت سے اس كا قلب سرشار ہو تو وہ شہيد كى موت مرے گا اور اس كا اجر خدا پرہے _ او راسے اس نيت عمل كا بھى ثواب ملے گا _ جس كى نيت كى تھى تلوار چلانے كى نيت كا بھى ثواب مليگا _ بے شك ہر چيز كا ايك مخصوص وقت ہے _

سند حديث
مذكورہ حديث نہج البلاغہ سے منقول ہے ، معتبر ہے _

حديث چہارم :

384
محمد بن يحيى عن محمد بن الحسين عن عبدالرحمن بن ابى ہاشم عن الفضل الكاتب قال كنت عند ابى عبداللہ عليہ السلام فاتاہ كتاب ابى مسلم فقال : ليس لكتابك و جواب اخرج عنا ( الى ان قال ) قلت : فما العلامة فيما بيننا و بين جعلت فداك؟ قال لا تبرح الارضہ يا ف ضيل حتى يخرج السفيانى ، فاذا خرج السفيانى فاجيبوا الينا ، يقولہا ثلاثاً ، و ہو من المحتوم '' _
(وسائل الشيعہ ج 11 ص 37)
فضل كہتے ہيں : ميں امام صادق (ع) كى خدمت ميں تھا كہ ابو مسلم خراسانى كا خط آپ (ع) كے پاس پہنچا _ اما م نے حامل رقعہ سے فرمايا: تمہارا خط اس لائق نہيں ہے كہ اس كا جواب ديا جائے ، جاؤ ، خدا بندوں كى جلد بازى سے تعجيل نہيں كرتا ہے _ بے شك پہاڑ كو اپنى جگہ سے اكھاڑكر پھينكنا آسان ہے ليكن اس حكومت كا تختہ پلٹنا آسان نہيں ہے جس كا وقت نہ آيا ہو _ راوى نے عرض كى : پس ہمارے اور آپ (ع) كے درميان كيا علامت ہے ؟ فرمايا : سفيانى كے خروج تك اپنى جگہ سے حركت نہ كرو ، اس وقت ہمارے پاس آنا ، اس بات كو آپ (ع) نے تين مرتبہ دھرايا چنانچہ سفيانى كا خروج حتمى علامت ہے _

سند حديث
مذكورہ حديث سند كے لحاظ سے صحيح ہے _

حديث پنجم :
محمد بن على بن الحسين باسنادہ عن حماد بن عمرو و انس

385
بن محمد عن ابيہ عن جعفر بن محمد عن آبا ئ ہ عليہم السلام ( فى وصية النى صلى اللہ عليہ و آلہ لعى عليہ السلام ) قال : يا على ازالة الجبال الرواسى اہون من ازالة ملك لم تنقض ايامہ ''
( وسائل الشيعہ ج11 ص 38)
رسو ل خدا نے حضرت على سے فرمايا : پہاڑوں كو اكھاڑنا آسان ہے ليكن ان حكومتوں كا تختہ پلٹنا آسان نہيں ہے جن كا وقت نہ آيا ہو _

سند حديث
يہ حديث سند كے اعتبار سے صحيح نہيں ہے كيونكہ حماد بن عمرو مجہول ہے چنانچہ انس بن محمد مہمل ہے اور اس كے والد محمد كو رجال كى كتابوں ميں اہميت نہيں دى گئي ہے _

حديث ششم
حميد بن زياد عن عبيد اللہ بن احمد الدہقان عن على بن الحسن الطاہرى عن محمد بن زياد عن ابان عن صباح بن سيّابنہ ع المعلى بن خنيس قال ذہبت بكتاب عبد السلام بن نعيم و سدير و كتب غير واحد الى ابيعبدللہ عليہ السلام حين ظہر المسودة قبل ان يظہر ولد العباس : انّا قدّرنا ان يؤل ہذا الامر اليك فما ترى ؟ قال : فضرب بالكتب الارض ، قال : اف اف ما انا لہؤلاء بامام ، اما يعلمون انہ انما يقتل السفيانى '' _
( وسائل الشيعہ ج 11 ص 37)
معلّى كہتے ہيں : ميں عبد السلام سدير اور دوسرے چند افراد كے خطوط

386
ليكر امام صادق كى خدمت ميں حاضر ہوا ، بنى عباس كے آشكار ہونے سے قبل كالے لباس والے ظاہر ہوئے _ خطوط كا مضمون يہ تھا _ ہم نے يہ ارادہ كرليا ہے كہ حكومت و قيادت آپ كى دست اختيا ر ميں دى جائے آپ (ع) كيا فرماتے ہيں ؟ امام (ع) نے خطوط كو زمين پر دے مارا اور فرمايا : افسوس ، افسوس ، ميں ان كاامام نہيں ہوں _ كيا انھيں يہ معلوم نہيں ہے كہ مہدى موعود وہ ہے جو سفيانى كو قتل كريں گے _

سند حديث
سند كے اعتبار سے اس حديث پر بھى اعتماد نہين كيا جا سكتا كيونكہ صباح بن سيّابہ مجہول ہے _

مفہوم حديث
احاديث كے مفہوم كے تجزيہ سے قبل درج ذيل نكات كو مد نظر ركھئے :
1_ ائمہ كے زمانہ ميں شيعہ ہميشہ حضرت مہدى كے ظہور و انقلاب كے منتظر رہتے تھے كہ اس كى خبر انہوں نے رسول سے سنى تھى _
2_ اس زمانہ ميں شيعہ بڑى مشكلوں ميں مبتلا تھے ، خلفائے جور كى ان پر سخت نگاہ رہتى تھى _ قيد ميں ڈال ديئےاتے ، جلا وطن كرديئےاتے يا قتل كرديئےاتے تھے _
3_ ہر چند علوى سادات ميں سے ہر ايك ظالم حكومتوں كے خلافت قيام كرتا تھا اور وہ لوگ بھى ان كى مدد كرتے تھے جو زندگى سے عاجز آجاتے اور قيام كرنے والے

387
كو مہدى موعود اور منجى بشريت سمجھتے تھے ليكن زيادن دن نہيں گزرتے تھے كہ قتل ہوجاتے تھے _
4_ خلفائے وقت انقلاب اور قائم كے سلسلہ ميں بہت زيادہ حساس تھے ، وہ ہميشہ خوف و ہارس ميں مبتلا اور حالات كے سلسلے ميں پريشان رہتے تھے ، وہ علوى سادات خصوصاً ان كے سربرآوردہ افراد پر نظر ركھتے تھے _ مذكورہ احاديث ايسے ہى حالات ميں صادر ہوئي ہيں _ جو شيعہ مختلف قسم كى بلاؤں ميںمبتلا تھے وہ ائمہ سے قيام كرنے اور مسلمانوں كو غاصب حكومتوں سے نجات دلانے كے سلسلہ ميں اصرار كرتے تھے يا علوى سادات ميں سے ان لوگوں كى مدد كرنے كى اجازت مانگتے تھے جو مہدى موعود كے نام سے خروج كرتے تھے _ ائمہ اطہار (ع) فرماتے تھے : مہدى موعود كے قيام كے سلسلے ميں عجلت نہ كرو كہ ابھى اس كاوقت نہيں آيا ہے _ خروج كرنے والوں نے مہدى موعود اور قائم آل محمد كے نام سے خروج كيا ہے جب كہ وہ مہدى موعود ہيں ہيں _ مہدى موعود كے ظہور و قيام كى مخصوص علامات ہيں جو كہ ابھى تك آشكار نہيں ہوئي ہيں _ پھر قيام كرنے والوں نے ہمارى امامت كے استحكام كيلئے قيام نہيں كيا ہے _ ان كا انقلاب بھى كامياب ہونے والا نہيں ہے _ كيونكہ غاصب حكومتوں كى تباہى كے اسباب فراہم نہيں ہوئے ہيں _ حكومت كا تختہ پلٹنا بہت دشوار ہے _ فرماتے تھے : كشائشے حاصل ہونے تك صبر كرو_ اور قيام مہدى كے سلسلہ ميں جلد نہ كرو كہ ہلاك ہوجاؤگے _ اور چونكہ تمہارى نيت اصلاح و قيام كى ہے اور اس كے مقدمات فراہم كرنا چاہئے ہو اس لئے تمہيں اس كا ثواب مليگا _ بہر حال مذكورہ احاديث تعجيل كرنے اور كمزور تحريك سے منع كرتى ہيں _ يہ نہيں كہتى ہيں كہ مكمل تحريك كے مقدمات فراہم كرنے كيلئے ظلم و ستم

388
اور كفر و بے دينى سے مبارزہ نہ كرو ان احاديث كا مفہوم يہ نہيں ہے كہ جہاد، دفاع امر بالمعروف ، نہى عن المنكر كا فريضہ امام زمانہ كى غيبت ميں ساقط ہے _ اس زمانہ ميں لوگوں كو فساد كا تماشہ ديكھنا چاہئے صرف تعجيل ظہور امام زمانہ كيلئے دعا كريں _ چنانچہ ان احاديث كو انقلاب و تحريك كے مخالف نہيں قرار ديا جا سكتا ہے _

پانچواں حصّہ
جو روايات حضرت قائم قائم كے ظہور سے قبل ہر پرچم كے بلند كرنے والے كو طاغوت قرارديتى ہيں _

حديث اول :
محمد بن يحيى عن احمد بن محمد عن الحسين بن سعيد عن حماد بن عيسى عن الحسين بن المختار عن ابى بصير عن ابيعبداللہ عليہ السلام قال : كل راية ترفع قبل قيام القائم فصابحہا طاغوت يعبد من دون اللہ _
( وسائل الشيعہ ج ... ص 37)
امام صادق (ع) كا ارشادہے : جو پرچم بھى قائم كے قيام سے قبل بلند كيا جائے گا اس كابلند كرنے والا شيطان ہے ، جو كہ خدا كے علاوہ اپنى عبادت كراتا ہے _

سند حديث
مذكورہ حديث سند كے لحاظ سے صحيح ہے _ اس كے راويوں كو موثق قرار ديا گيا ہے _

389
حديث دوم :
محمد بن ابراہيم النعمانى عن عبد الواحد بن عبداللہ قال حدثنا احمد بن محمد بن رياح الزہرى قال حدثنا محمد بن العباس عن عيسى الحسينى عن الحسن بن على بن ابى حمزة عن ابيہ عن مالك بن اعين الجہنى عن ابى جعفر عليہ السام انہ قال كل راية ترفع قبل راية القائم فصاحبہا طاغوت
( مستدر ك الوسائل ج 2 ص 248)
امام محمد باقر عليہ السام كا ارشاد ہے : جو پرچم بھى مہدى كے پرچم سے پہلے بلند كيا جائے گا ، اس كا بلند كرنے والا شيطان ہے _

سند حديث
روايت كے معنى پرچم كے ہيں اور پرچم بلند كرنا كنايہ ہے حكومت كے خلاف اعلان جنگ كرنے سے اور صاحب پرچم عبارت ہے ہراس تحريك كے قائد سے جو كہ موجودہ حكومت كا تختہ پلٹنے كيلئے لوگوں سے مدد مانگتا ہے _ طاغوت يعنى ظالم و جابر شخص جو حريم الہى پر تجاوز كرے اور خدا كى حاكميت كے مقابلہ ميں لوگوں كو اپنى حاكميت قبول كرنے پر مجبور كرے _ جملہ يعبد من دون اللہ اس بات كا بہترين ثبوت ہے كہ صاحب پرچم حكومت خدا كے مقابلہ ميں ايك حكومت بنانا چاہتا ہے اور دينى تمنّا پورى كرنا چاہتا ہے ايسے پرچم كے حامل كو طاغوت و شيطان كہا گيا ہے _ اس بناپر گزشتہ احاديث كے معنى يہ ہوں گے كہ جو پرچم بھى قيام مہدى سے قبل بلند كيا جائيگا اور اس كا حامل لوگوں كو اپنى طرف بلائے گا تو ايسے پرچم كا حامل شيطان ہے كہ جس نے

390
حريم الہى پر تجاوز كيا ہے اور لوگوں كو اپنى اطاعت كى دعوت دى ہے _ اس حديث كا مفہوم يہ ہے كہ غير اسلامى تحريكيں قابل قبول نہيں ہيں _ ليكن اگر كوئي تحريك دين حاكميت اور قرآن كے قوانين سے دفاع كے عنوان سے وجود ميں آتى ہے تو وہ قابل قبول ہے _ كيونكہ يہاں پرچم دين كے مقابلہ ميں علم بلند نہيں كيا گيا ہے چنانچہ ايسى تحريك كا قائد بھى طاغوت نہيں ہے بلكہ وہ طاغوت كا مخالف ہے _ ايسا قائد ورہبر لوگوں كو اپنى اطاعت كى دعوت نہيں ديتا ہے بلكہ رب العالمين كى عبادت كى دعوت ديتا ہے _ ايسا پرچم قائم آل محمد كےعلم كے مقابلہ ميں بلند ہيں كيا جاتا ہے بلكہ امام زمانہ كى عالمى حكومت كيلئے زمين ہموار كرے گا _ كيا يہ بات كہى جا سكتى ہے كہ ظہور امام زمانہ سے قبل ہر بلند كئے جانے والے پرچم كا حامل شيطان ہے ؟ كيا معاويہ كى طاغوتى حكومت كے خلاف على (ع) نے قيام نہيں كيا تھا؟ كيا امام حسن (ع) نے معاويہ سے اعلان جنگ نہيں كيا تھا ؟ كيا امام حسين (ع) نے اسلام سے دفاع كى خاطر يزيد (لعن) سے جنگ نہيں كى تھى ؟ كيا زيد بن على (ع) بن حسين نے قرآن سے دفاع كيلئے ظلم و ستم كے خلاف انقلاب برپا نہيں كيا تھا؟

خلاصہ
جيسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمايا اس حصہ كى اكثر احاديث ضعيف اور ناقابل اعتماد ہيں ان سے تمسك نہيں كيا جا سكتا _ مذكورہ احاديث كا لب لباب يہ ہے _
1_ جو شخص بھى قيام كرے اور تم سے مدد طلب كرے تو تم سوچے سمجھے بغير اس كى آواز پر لبيك نہ كہو بلكہ آواز دينے والے اور اس كے مقصد كى تحقيق كرو _ اگر اس نے مہدى موعود كے عنوان سے قيام كيا ہے يا اس كا مقصد باطل ہے تو اس كى آواز

391
پر لبيك نہ كہو _ كيونكہ امام زمانہ كے ظہور اور قيام كا وقت نہيں آيا ہے _
2_ يہ احاديث ان شيعوں كو جو كہ ائمہ سے قيام كرنے كااصرار كرتے تھے ، اس خارجى حقيقت كى خبر ديتى ہے كہ قائم آل محمد كے قيام سے قبل ہم ائمہ ميں سے جو بھى قيام كرے گا اس كا قيام ناكام ہوگا اور شہيد كرديا جائے گا _ كيونكہ حضرت مہدى كے عالمى انقلاب كے مقدمات فراہم نہيں ہوئے ہيں _
3_ حضرت مہدى كے ظہور كے مخصوص علامات ہيں چنانچہ ان علائم كے ظاہر ہونے سے قبل جو شخص بھى مہدى موعود كے عنوان سے قيام كرے اس كى دعوت قبول نہ كرو _
4_ كسى بھى حكومت كا تختہ پلٹنے كيلئے اسباب و مقدمات كى فراہمى كى ضرورت ہوتى ہے مقدمات و اسباب كى فراہمى سے قبل تحريك و انقلاب ميں عجلت سے كام نہ لو ورنہ ناكام ہوگا _
5_ قائم آل محمد كے قيام سے قبل حاكميت خدا كے مقابلہ ميں جو پرچم بلند ہوگا اس كا حاكم شيطان ہے كہ جس نے عظمت خدا كو چينج كيا ہے لہذا اس كى آواز پر لبيك نہين كہنا چاہئے _
مذكورہ احاديث صرف ان انقلابات كى ترديد كرتى ہيں كہ جن كا رہبر مہدويت كا مدعى ہو اور قائم آل محمد كے نام سے قيام كرے يا باطل اس كا مقصدہو يا ضرورى اسباب كے فراہم ہونے سے قبل قيام كرے _ ليكن اگر انقلاب كا رہبر مہدويت كے عنوان سے قيام نہ كرے ، اور حاكميت خدا كے مقابلہ ميں حكومت كى تشكيل كيلئے انقلاب برپا نہ كرے بلكہ اس كا مقصد اسلام و قرآ ن سے دفاع، ظلم و استكبار سے جنگ ، حكومت الہى كى تشكيل اور آسمانى قوانين كا نفاذ ہو اور اس كے اسباب فراہم كر ليئےوں اور ان تمام چيزوں كے بعد وہ لوگوں سے مدد طلب كرلے تو مذكورہ روايات ايسے انقلاب و قيام

392
كى مخالفت نہيں كرتى ہيں _ ايسى تحريك كا پرچم شيطان كا پرچم نہيں ہے بلكہ يہ علم طاغوت كے خلاف ہے _ ايسى حكومت كى تشكيل خدا كى حكومت كے مقابلہ ميں نہيں ہے بلكہ يہ تو حاكميت خدا اور امام مہدى كى عالمى حكومت كيلئے زمين ساز ہے _ اس بناپر مذكورہ احاديث ايسے انقلاب و تحريك كى مخالفت نہيں كرتى ہيں _

نتيجہ بحث
چونكہ ہمارى بحث بہت طويل ہوگئي ہے اس لئے دو حصوں كے خلاصہ كو بھى اشارتاً بيان كرنا ضرورى ہے _ اس كے بعد نتيجہ بيان كريں گے _ پہلے حصہ ميں درج ذيل مطالب كا اثبات ہوا ہے :
1_ قوانين اور سياسى و اجتماعى منصوبے اسلام كے بہت بڑے حصہ كو تشكيل ديتے ہيں جيسے ، جہاد ، دفاع ، ظلم و بيدادگرى سے جنگ ، عدل و انصاف كى ترويج ،جزاء و سزا كے قوانين ، شہرى حقوق ، امر بالمعروف ، نہى عن المنكر اور مسلمانوں كے آپسى و كفار سے روابط و غيرہ _
2_ اسلام كے احكام و قوانين نفاذ و اجراء كيلئے آئے نہ كہ پڑھنے اور لكھنے كے لئے _
3_ اسلام كے قوانين كامكمل اجراء حكومت كى تأسيس اور ادارى تشكيلات كا محتاج ہے مسلمانوں كے درميان ہميشہ ايسے افراد كا وجود ضرورى ہے كہ جو آسمانى قوانين كے اجراء كى ذمہ دارى قبول كريں اور اس طرح مسلمانوں كے معاشر ہ كو چلائيں _ اس بناپر حكومت متن اسلام ميں شامل ہے اور اس كے بغير كامل طور پر اسلام كانفاذ ممكن نہيں ہے _
4_ مسلمانوں كے امور كى زمام اور قوانين اسلام كے اجراء كى ذمہ دارى عملى طور پر

393
پيغمبر اسلام كے دست مبارك ميں تھى _
5_ اسلام كے سياسى و اجتماعى قوانين كا مكمل اجراء رسول خدا كے زمانہ ہى ميں واجب نہيں تھا بلكہ تا قيامت واجب رہے گا _
6_ جب پيغمبر اكرم بقيد حيات ہوں يا مسلمانوں كى معصوم امام تك رسائي ہو تو اس زمانہ ميں مسلمانوں پر واجب ہے كہ وہ حكومت كى تأسيس اور پيغمبر يا امام كى طاقت كے استحكام كى كوشش كريں اور اس كے فرمان كى اطاعت كى اطاعت كريں _ اوراگر مسلمانوں كے درميان ميں ايسا كوئي معصوم نہ ہو تو بھى مسلمانوں كا فريضہ ہے كہ وہ پرہيزگار فقيہ كو اپنا مدار الہام بنائيں اور اس كى ولايت و حكومت كے استحكام كى كوشش كريں اور اس كے فرمان كى اطاعت كريں _ يعنى ايسي
حكومت تشكيل ديں جو اسلام كے پروگراموں كو نافذ كرسكے اور اسلامى حكومت كے يہى معنى ہيں _
اس بحث كے دوسرے حصہ ميں آپ نے مخالف احاديث اور ان كے مفہوم كو ملاحظہ فرمايا ہے _
اب آپ ہى فيصلہ فرمائيں كہ مذكورہ احاديث اپنى سند و دلالت كے باوجود مسلمانوں سے ايسى قطعى و حتمى فريضہ ، يعنى قوانين اسلام كے نفاذ ، كو ساقط كرسكتى ہيں؟
كيا ان احاديث كو ان آيات و روايات كے مقابل ميں لاياجا سكتاہے جو كہ جہاد دفاع امر بالمعروف ، نہى عن المنكر ، ظلم و ستم سے جنگ اور مستضعفين سے دفاع كو واجب قرار ديتى ہيں ؟ كيا غيبت امام زمانہ ميں اس فرضہ كو مسلمانوں سے ساقط كياجا سكتا ہے ؟ كيا ايسى احاديث كے پيش نظر يہ كہا جا سكتا ہے كہ شارع اسلا م نے اس زمانہ ميں اپنے سياسى و اجتماعى احكام سے ہاتھ كھينچ ليا ہے اور ان كے اجراء كو امام مہدى كے زمانہ پر موقوف

394
كرديا ہے ؟ كيا ايسى احاديث كے پيش نظر يہ كہا جا سكتا ہے كہ اسلام سے دفاع كرنا واجب نہيں ہے حتى اس كى اساس ہى كيوں نہ خطرہ ميں ہو ؟ كيا يہ كہا جا سكتا ہے كہ مسلمانوں پر خاموش رہنا واجب ہے خواہ كفار و مشركين ان كى تمام چيزوں پر قابض ہوجائيں ، ان كے جان و مال اور ناموس پر مسلط ہوجائيں ، انھيں ظہور امام تك صبر كرنا چاہئے ؟ كيا مذكورہ احاديث اس سند و مفہوم كے باوجود درج ذيل آيات كے مقابل ميں آسكتى ہيں؟
فقاتلوا ائمة الكفر انہم لا ايمان لہم ( توبہ/ 12)
كفر كے سر غناؤ سے جنگ كرو كہ ان كى كسى قسم كا اعتبا رنہيں ہے _
و قاتلوا المشركين كافة كما يقاتلونكم كافة (توبہ / 36)
اور مشركين سے تم سب ہى جنگ كرو جيسا كہ وہ تم سے جنگ كرتے ہيں _
و قاتلوہم حتى لا تكون فتنة و يكون الدين كلہ للہ ( انفال/ 29)
اور ان سے جنگ كرتے رہو يہاں تك كہ فتنہ ختم ہوجائے اور دين خدا ہى باقى رہے
و ما لكم لا تقاتلون فى سبيل اللہ والمستضعين ( نسائ/ 75)
اور تمہيں كيا ہوگيا ہے كہ راہ خدا اور مستضعفين كى نجات كيلئے جہاد نہيں كرتے؟
فقاتلوا اولياء الشيطان ان كيد الشيطان كا ن ضعيفا ( نساء / 75)
پس شيطان كااتباع كرنے والوں سے جنگ كرو بے شك شيطان كا مكر بہت ہى كمزور ہے _
و جاہد فى اللہ حق جہادہ ( حج / 78)
اور راہ خدا ميں اس طرح جہاد كرو جو اس كاحق ہے _
و قاتلوا فى سبيل اللہ الذين يقاتلونكم و لاتعتدوا ( بقرہ / 190)
اور راہ خدا ميں ان لوگوں سے جنگ كرو جو تم سے جنگ كرتے ہيں پس حد سے نہ گزر جاؤ _

395
و لتكن منكم امة يدعون الى الخير و يأمرون بالمعروف و ينہون عن المنكر _ (آل عمران / 104)
اور تم ميں سے كچھ لوگوں كو ايسا ہونا چاہئے جو نيكيوں كى طرف دعوت ديں اور امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كريں _
يا ايہا الذين آمنوا كونوا قوامين بالقسط شہداء للہ ( نسائ/ 135)
ايمان لانے والو عدل و انصاف كے ساتھ قيام كرو اور اللہ كيلئے گواہ بنو_
واعدّوا لہم مااستعطتم من قوة و من رباط الخيل ترہبون بہ عدواللہ و عدوكم ( انفال / 60)
او ر تم جہاں تك ہوسكے طاقت اور گھوڑوں كى صف بندى كا انتظام كرو كہ جس سے تم اپنے دشمن اور اللہ كے دشمنوں كو ڈرا سكو _
ايسى ہى دسيوں آيت اور سيكڑوں احاديث ہيں _ مذكورہ احاديث ہرگز مسلمانوں سے اسلام كے قطعى و حتمى فريضہ كو ساقط نہيں كرسكتى ہيں بلكہ مسلمانوں پر واجب ہے كہ وہ دين كى اشاعت ، اسلام ومسلمانوں سے دفاع اور قرآن كے حيات بخش پروگراموں كے اجراء ميں كوشش كريں خواہ اس سلسلہ ميں سب كو جہاد كرنا پڑے _
اس اہم امر كو انجام دينے كے سلسلہ ميں فقہائے اسلام اور علمائے دين كى سخت ذمہ ارى ہے _ كيونكہ وہ انبياء كے وارث ، دين كے نگہبان اور لوگوں كى پناہ گاہ ہيں _ كيا علما و فقہا كو يہ حق حا صل ہے كہ وہ انكفار مستكبرين اور طاغوت كے مقابلہ ميں خاموش رہيں كہ جنہوں نے ملت اسلاميہ كو بدبخت بنا ديا ہے ؟ اور مستضعفين و محرومين كو ايك عظيم انقلاب كى تشويق نہ دلائيں ؟ كيا حضرت امير المؤمنين (ع) نے نہيں

396
فرمايا؟
'' قسم اس خدا كى جس نے دانہ كو شگافتہ كيا اور انسانوں كو پيدا كيا ، اگر ميرى بيعت كيلئے اتنا مجمع نہ آتا اور اس طرح مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئي ہوتى اگر خدا نے على سے يہ عہد نہ ليا ہو تا كہ وہ ظالم كى شكم پرى اور مظلوم كى گرسنگى پر خاموش نہيں بيٹھيں گے تو ميں شنر خلافت كى رسى كو اس كى پشت پر ڈالديتا كہ وہ جہاں چاہے چلا جائے ''_ (1)
كيا امام حسين (ع) نے پيغمبر اكرم (ص) سے يہ نقل نہيں كيا ہے ؟:
من را ى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم ناكثاً لعہد اللہ مخالفاًلسنة رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ يعمل فى عباداللہ بالاثم و العدوان فلم يغيّر عليہ بفعل و لا قول كان حقاً على اللہ ان يدخلہ مدخلہ '' (2)
'' جو شخص ظالم بادشاہ كو ديكھے كہ اس نے حرام خدا كو حلال كرديا ہے اور حدود خدا كو توڑديا ہے ، پيغمبر (ص) كى سنت كو پامال كررہا اور خدا كے بندوں كے درميان گناہوں كا مرتكب ہوتا ہے اس كے باوجود (ديكھنے والا) اپنے قول و عمل سے اس كى مخالفت نہ كرے تو خدا كو حق ہے كہ اسے ظالم كے ساتھ جہنّم ميں ڈالد ے '' _
----------------
1_ نہج البلاغہ خطبہ /2_
2_ الكامل فى التاريخ ج 4 ص 48 چھاپ بيروت _

397
دوسرى جگہ امام حسين (ع) فرماتے ہيں :
ذالك بان مجارى الامور والاحكام على ايدى العلماء باللہ الامناء على حلالہ و حرامہ ، فانتم المسلموبوت تلك المنزلة و ما سلبتم ذالك الاّ بتفرقكم ع الحق و اختلافكم فى السنة بعد البيّنة الواضعة و لو صبرتم على الاذى و تحملتم المؤونة فى ذات اللہ كانت امور اللہ عليكم تردو عنكم تصدر واليكم ترجع و لكنكم مكنتم الظلمة من منزلتكم و استسلمتم امور اللہ فى ايديہم يعمولن بالشبہات و يسيرون فى الشہوات سلّطہم على ذالك فراركم من الموت و اعجابكم بالحياة التى ہى مفارقتكم فاسلمتم الضعفاء فى ايديہم فمن بين مستعبد مقہور و بين مستضعف على معيشتہم مغلوب ، يتقلبون فى الملك بآرائہم و يستشعرون الخز ى باہوائہم اقتداء ً بالاشرار و جراة على الجبار _ (1)
يہ اس لئے ہے كہ امور و احكام علماء كے ہاتھ ميں ہيں وہ خدا كے حلال و حرام ميں اس كے امين ہيں اور تم نے اس عظمت و منزلت كو گنواديا ہے اور يہ عظمت تم سے اس لئے سلب ہوئي ہے كہ تم نے حق كے سلسلہ ميںافتراق كيا اور واضح دليلوں كے باوجود سنت پيغمبر كے بارے ميں اختلاف
--------------
1_ تحف العقول ص 242_

398
كيا _ اگر تم نے صبر كيا ہوتا اور راہ خدا ميں سختياں برداشت كى ہوتيں تو امور خدا تم پر وارد ہوتے اور تم ہى سے صادر ہوتے اور تم ہى سے رجوع كيا جاتا ليكن تم نے اپنے فريضہ كى انجام وہى ميں كوتاہى كركے اپنى جگہ پر دشمن كو بٹھاديا ہے اور امور خدا كو اس كے سپردكرديا تا كہ وہ جيسا چاہيں كريں _ تمہارے موت سے فرار كرنے اور دنيا سے دل لگانے كى وجہ سے وہ تم پر مسلط ہوگئے كمزور و محروم لوگوں كو تم ہى نے ظالموں كے ہاتھ ميں ديا ہ تا كہ وہ ان ميں سے بعض كو غلام بناليں اور بعض كونان شبينہ كا محتاج بناديں اور ظلم اپنى خواہش كے مطابق حكومت كريں اور اپنى ملت كو ذلت و رسوائي ميں مبتلا كريں اور اس ميں وہ اشرار كى پيروى كريں اور خدا كى مخالفت ميں جرى ہوجائيں _
علماء و فقہا پر اسلام ميں اتنى ہى سنگين ذمہ دارى ہے _ اگر وہ اس اہم ذمہ دارى كى ادائيگى ميں كوتاہى كريں گے تو قيامت ميں ان سے بازپرس ہوگى _ صرف درس دينا بحث و مباحثہ ، تقريرات نويسى ، نماز پڑھنا اور مسائل بيان كرنا ہى نہيں ہے بكلہ ان كا سب سے بڑا فريضہ دين اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، كفر و الحاد سے جنگ اور اسلام كے احكام و قوانين كے اجراء ميں كوشش كرنا ہے _ اگر اس سلسلے ميں كوتاہى كريں گے تو خدا كے سامنے وہ كوئي عذر پيش نہيں كر سكيں گے اوراس اہم ذمہ دارى كو چند ضعيف حديثوں سے تمسك كركے وہ سبكدوش نہيں ہوسكتے ہيں _
كيا خدا و رسول (ص) ہميں اس بات كى اجازت ديتے ہيں كہ ہم دشمنوں كى خطرناك سازشوں اور اسلامى ممالك سے ان كى افسوس ناك رقابت پر خاموش رہيں اور ماضى كى طرح بحث و مباحث اور اقامہ نماز پر اكتفا كريں؟ ہرگز نہيں _