آفتاب عدالت
  356
احاديث كى تحقيق و تجزيہ
ڈاكٹر : ہوشيار صاحب گزشتہ بحث ہى كو آگے بڑھايئے
ہوشيار: گزشتہ جلسہ ميں ، ميں نے مقدمہ كے عنوان سے ايك بحث شروع كى تھى اور چونكہ وہ كچھ طويل اور تھكا دينے والى تھى اس لئے معذرت خواہ ہوں اب ہم قيام و تحريك كى مخالف احاديث كى تحقيق كى بحث شروع كرتے ہيں _ سابقہ جلسہ ميں ، ہم نے آپ كے سامنے يہ بات پيش كى تھى كہ سياسى و اجتماعى احكام اسلام كے بہت بڑے حصہ كو تشكيل ديتے ہيں كہ جس كا تعلق دين كے متن سے ہے _ راہ خدا ميں جہاد اسلام اور مسلمانوں سے دفاع ، ظلم و تعدى سے مبارزہ ، محروم و مستضعفين سے دفاع امر بالمعروف ، نہى عن المنكر اور كلى طور پر اقامہ دين مسلمانوں كے قطعى اور ضرورى فرائض ميں سے ہے ليكن ممكن ہے بعض اشخاص چند احاديث كو ثبوت ميں پيش كركے اس عظيم فريضہ سے سبك دوش ہونا چاہيں اور و ئوء بعض مذہبى مراسم كو انجام دے كر خوش ہوليں _ اسى لئے ضرورى ہے كہ ہم احاديث كى مكمل طور پر تحقيق و تجزيہ كرائيں _ مذكورہ احاديث كو كلى طور پر چند حصوں ميںتقسيم كيا جا سكتا ہے _(1)
--------------
1_ ان احاديث كو وسائل الشيعہ ج 1 ص 35 تا 41 اور بحار الانوار ج 52 ميں ملاحظہ كيا جا سكتا ہے _

357
جن روايات ميں شيعوں كو يہ حكم ديا گيا ہے كہ تم ہر اس قيام كرنے والے كى دعوت كو جو تمہيں مسلح ہو كر خروج كى دعوت ديتا ہے ، آنكھيں بند كركے قبول نہ كرو بلكہ اس كى شخصيت اور اس كے مقصد كو پہنچا نو اور اس كى تحقيق كرو _ اگر اس ميں قيادت كى شرائط مفقود ہوں يا باطل مقصد كيلئے اس نے قيام كيا ہو تو اس كى دعوت كو قبول نہ كرو اگر چہ وہ خاندان رسول ہى سے كيوں نہ ہو _ جيسے يہ حديث ہے :
'' عيسى بن قاسم كہتے ہيں ميں نے امام صادق عليہ السلام سے سنا كہ آپ فرما رہا تھے: تقوى اختيار كرو اور ہميشہ اپنے نفسوں كى حفاظت كرو _ خدا كى قسم اگر كوئي شخص اپنى گوسفند چرانے كيلئے كسى چروا ہے كو منتخب كرتا ہے اور بعد ميں اسے پہلے چروا ہے سے بہتر اور عاقل چرواہا مل جاتا ہے تو وہ پہلے كو معزول كرديتا ہے اور دوسرے سے كام ليتا ہے _ خدا كى قسم تمہارے پاس دو نفس ہوتے كہ پہلے سے تحقق تجربہ حاصل كرتے دوسرا تمہارے پاس باقى رہتا جو پہلے كے تجربہ سے فائدہ اٹھاتا تو كوئي حرج نہ تھا _ ليكن ايسا نہيں ہے ہر انسان كے پاس ايك ہى نفس ہے اگر وہ ہلاك ہوجائے تو پھر توبہ اور بازگشت كا امكان نہيں ہے _ اس بناپر تمہارے لئے ضرورى ہے كہ اچھى طرح غور و فكر كرو اور بہترين راستہ اختيار كرو پس اگر رسو ل كے خاندان سے شخص تمہيں قيام و خروج كى دعوت ديتا ہے تو تم اس كى تحقيق كرو كہ اس نے كس چيز كيلئے قيام كيا ہے اور يہ نہ كہو كہ اس سے قبل زيد بن على نے بھى تو قيام كيا تھا كيونكہ زيد دانشور اور سچے انسان تھے اور تمہيں اپني امامت كى طرف نہيں بلا رہے تھے بلكہ اس انسان كى طرف دعوت دے رہے تھے جس سے اہل بيت (ع) خوش تھے _ اگر وہ كامياب ہوگئے ہوئے تو ضرور اپنا وعدہ پورا كرتے اور حكومت

358
كو اس كہ اہل كے سپرد كرديتے _زيد نے حكومت كے خلاف قيام كيا تا كہ اسے سرنگوں كرے _ ليكن جس ثخص نے اس زمانہ ميں قيام كيا ہے وہ تمہيں كس چيز كى طرف بلا رہا ہے؟ كيا تمہيں اس آدمى كى طرف دعوت ديتا ہے جس پر اہل بيت كا اتفاق ہے ؟ نہيں ، ايسا نہيں ہے ، ہم تمہيں گواہ قرار دے كركہتے ہيں كہ ہم اس قيام سے راضى نہيں ہيں _ اس كے ہاتھ ميں ابھى حكومت نہيں آئي ہے اس كے باوجود وہ ہمارى مخالفت كرتا ہے تو جب اس كے ہاتھ ميں حكومت آجائے گى اور پرچم لہرادے گا تو اس وقت تو بدرجہ اولى وہ ہمارى اطاعت نہيں كرے گا _ تم صرف اس شخص كى دعوت قبول كرو كہ جس كى قيادت پر سارے بنو فاطمہ كا اتفاق ہے وہى تمہارا امام و قائد ہے ، ماہ رجب ميں تم خدا كى نصرت كى طرف بڑھو اور بہتر سمجھو تو شعبان تك تاخير كرو اور اگر پسند ہو تو ماہ رمضان كا روزہ اپنے اہل خانہ كے درميان ركھو شايد يہ تمہارے لئے بہتر ہو _ اگر علامت چاہتے ہو تو سفيانى كا خروج تمہارے لئے كافى ہے _ (1)
اس حديث كى سند صحيح ہے اور اس كے راوى ثقہ ہيں _

حديث كا مفہوم
اس حديث ميں امام صادق (ع) يہ فرماتے ہيں : اپنے نفسوں كے سلسلے ميں محتاط رہوانھيں عبث ہلاكت ميں نہ ڈالو تم ہر قيام كرنے والے اور مدد طلب كرنے والے
-------------
1_ وسائل الشيعہ ج 11 ص 35 ، بحارالانوار ج 52 ص 301_

359
كى آواز پر لبيك نہ كہو _ اگر دعوت دينے والا اپنى امامت و قيادت كا دعويدار ہے جبكہ امت كے درميان اس سے زيادہ با علم و با صلاحيت شخص موجود ہے ، تو اس كى دعوت كو قبول نہ كرو _ جيسا ائمہ معصومين عليہم السلام كى حيات ميں ايسا ہى ہوتا تھا _ خود قيام كرنے والے كى شخصيت اور اس كے مقصد كى تحقيق كرو _ اگر وہ لائق اعتماد نہ ہو يا اس كا مقصد صحيح نہ ہو تو اس كى دعوت قبول نہ كرو اور اس شخص _ بظاہر محمد بن عبد اللہ بن حسن _ كے قيام كا زيد بن على كے قيام سے موازنہ نہ كرو و اور يہ نہ كہو چونكہ زيد نے قيام كيا تھا لہذا اس كا قيام بھى جائز ہے _ كيونكہ زيد امامت كے دعويدار نہيں تھے اور نہ لوگوں كو اپنى طرف دعوت دے رہے تھے _ بلكہ ان كا مقصد باطل حكومت كو سرنگوں كركے اس كے اہل تك پہنچانا تھا يعنى جس شخص كے سلسلے ميں آل محمد كا اتفاق ہے ، اس تك پہنچانا مقصد تھا _ اگر وہ كامياب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ پوركرتے _ زيد عالم اور سچے آدم تھے ، قيادت و قيام كى صلاحيت كے حامل تھے _ ليكن جس شخص نے آج قيام كيا ہے وہ لوگوں كو اپنى طرف دعوت دے رہا ہے اور ابھى سے ہمارى مخالفت كررہا ہے جبكہ حكومت اس كے ہاتھ ميں نہيں آئي ہے اگر وہ اس انقلاب ميں كامياب ہوگيا تو بدرجہ اولى ہمارى اطاعت نہيں كرے گا _ اس حديث سے يہ بات واضح ہوتى ہے كہ اس زمانہ ميں اس شخص نے قيام كيا جو اپنے كو منصب امامت كے لائق سمجھتا تھا اور اس منصب كو حاصل كرنے كيلئے لوگوں سے مددمانگتا تھا _ بظاہر يہ محمد بن عبداللہ بن حسن تھے كہ جنہوں نے مہدى موعود كے نام سے قيام كيا تھا _ ابوالفرج اصفہانى لكھتے ہيں كہ ، محمد كے اہل بيت انھيں مہدى كہتے تھے اور ان كا عقيدہ تھا كہ وہ روايات ميں بيان ہونے والے مہدى ہيں _ (1)
-------------
1_ مقاتل الطالبين / 157_

360
اصفہانى ہى لكھتے ہيں : محمد بن عبداللہ كے مہدى موعود ہونے ميں كسى كو شك نہيں تھا لوگوں ميں يہ بات شہرت پاچكى تھى ، اسى لئے بنى ہاشم آل ابوطالب اور آل عباس ميں سے بعض لوگوں نے ان كى بيعت كرلى تھى _ (1)
اصفہانى ہى لكھتے ہيں : محمد لوگوں سے كہتے تھے : تم مجھے مہدى موعود سمجھتے ہو اور حقيقت بھى يہى ہے _ (2)
محمد بن عبداللہ بن حسن نے امام جعفر صادق (ع) كے زمانہ ميں مہدى موعود كے عنوان سے قيام كيا تھا اور لوگوں كو اپنى طرف آنے كى دعوت ديتے تھے _ صرف اس موقع پر امام صادق (ع) نے عيسى بن قاسم اور تمام شيعوں سے فرمايا تھا كہ : اپنے نفسوں كے سلسلے ميں محتاط رہو عبث ہلاكت ميں نہ ڈالو اور اس شخص كے قيام كا زيد كے قيام سے موازنہ نہ كرو _ كيونكہ زيد امامت كے مدعى نہيں تھے بلكہ لوگوں كو اس شخص كى طرف بلا رہے تھے جس پر آل محمد كا اتفاق ہے _
گزشتہ بيان سے يہ بات بخوبى واضح ہوگئي كہ امام جعفر صادق (ع) نے بطور مطلق قيام سے منع نہيں فرمايا ہے بلكہ قيام كو دو حصوں تقسيم كيا ہے _ ايك باطل انقلابات و قيام ہے جيسے محمد بن عبداللہ بن حسن كا قيام ہے _ چنانچہ مسلمانوں كوايسے لوگوں كى دعوت قبول نہيں كرنا چاہئے اور اپنے نفوس كو ہلاكت سے بچانا چاہئے _ دوسرے صحيح انقلابا ت و قيام ہے جو موازين عقل و شرع كے مطابق ہوتے ہيں جيسے زيد بن علي
--------------
1_ مقاتل الطالبين / 158
2_ مقاتل الطالبين / 163

361
بن حسين (ع) كا قيام كہان كا مقصد بھى صحيح تھا اور ان ميں قيادت كى شرائط بھى موجود تھيں _ امام صادق (ع) نے نہ صرف ايسے قيام كى نفى نہيں كى ہے بظاہر ان كى تائيد كى ہے _ حديث سے واضح ہوتا ہے كہ جو قيام زيد كے قيام كے مانند ہو ائمہ معصومين اس كى تائيد فرماتے ہيں _ زيد كى شخصيت ، ان كے مقاصد اور ان كے قيام كے محركات كے بيان و تحقيق كيلئے طويل بحث دركار ہے ، جس كى اس مختصر ميں گنجائشے نہيں ليكن ايك سرسرى جائزہ پيش كرتے ہيں _
1_ انقلاب كے قائد يعنى زيد عالم و متقى ، صادق اور قيادت كى صلاحيت كے حامل تھے ان سے متعلق امام صادق فرماتے ہيں : ميرے چچا زيد ہمارى دنيا و آخرت كيلئے مفيد تھے _ خدا كى قسم وہ راہ خدا ميں شہيد ہوئے ہيں _ آپ كى مثال ان شہداء كى سى ہے جو رسول (ص) على (ع) ، حسن اور امام حسين (ع) كے ہمراہ شہيد ہوئے تھے _ (1)
حضرت على (ع) نے فرمايا ہے : كوفہ ميںايك عظمت و جلال والا انسان قيام كرے گا جس كا نام زيد ہوگا _ اولين و آخرين ميں اس كى مثال نہيں ہے _ مگر يہ كہ كوئي اس كى سيرت و رفتار پر عمل پيرا ہوجائے _ زيد اور ان كے اصحاب قيامت ميں ايك صحيفہ كے ساتھ ظاہر ہوں گے _ فرشتے ان كے استقبال كو بڑھيں گے اور كہيں گے يہ بہترين باقى رہنے والے اور حق كى طرف دعوت دينے والے ہيں _ رسول خدا بھى ان كا استقبال كريں گے اور فرمائيں گے بيٹا تم نے اپنا فرض پورا كيا اور اب بغير حساب كے جنت ميں داخل _ ہوجاؤ (2)
--------------
1_ عيون الاخبار باب 25_
2_ مقاتل الطالبين ص 88_

362
رسول خدا نے امام حسين (ع) سے فرمايا : تمہارى نسل سے ايك فرزند ہوگا كہ جس كا نام زيد ہوگا وہ اور ان كے اصحاب قيامت ميں حسين و سفيد چہروں كے ساتھ محشور ہوں گے اور جنّت ميں داخل ہوں گے _ (1)
2_ انقلاب ميں زيد كا مقصد صحيح تھا _ وہ امامت كے مدعى نہيں تھے بلكہ وہ طاغوت كى حكومت كا تختہ الٹنا چاہتے تھے اور اسے اس كے حق دار
كے سپرد كرنا چاہتے تھے يعنى اسے معصوم امام كے سپردكرنا چاہتے تھے جس پر آل محمد كا اتفاق تھا اور اگر وہ كامياب ہوگئے ہوتے تو اپنا وعدہ ضرور پورا كرتے ، امام صادق (ع) نے فرمايا ہے ، خدا ميرے چچا زيد پر رحم كرے اگر وہ كامياب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ پورا كرتے _ وہ لوگوں كو اس شخص كى طرف دعوت دے رہے تھے جس پر آل محمد كا اتفاق ہے ، وہ ميں ہوں _ (2)
يحى بن زيد كہتے ہيں : خدا ميرے والد پر رحم كرے _ خدا كى قسم وہ بہت بڑے عابد تھے ، وہ راتوں كو عبادت ميں اور دنوں كو روزہ كى حالت ميں گزارتے تھے _ انہوں نے راہ خدا ميں جہاد كيا ہے _ راوى كہتا ہے : ميں نے يحيى سے پوچھا : فرزند رسول (ص) امام كو ايسا ہى ہونا چاہئے؟ يحيى نے كہا : ميرے والد امام نہيں تھے _ بلكہ وہ بعظمت سادات اور راہ خدا ميں جہاد كرنے والوں ميں سے ايك تھے _ راوى نے كہا : فرزند رسول (ص) آپ كے والد بزرگوار امامت كے مدعى تھے اور راہ خدا ميں جہاد كے لئے انہوں نے قيام كيا تھا با وجوديكہ رسول (ص) سے امامت كے جھوٹے دعويدار ہونے كے بارے ميں
-------------
1_ مقاتل الطالبين / ص 88
2_ بحارالانوار ج 46 ص 199

363
حديث وارد ہوئي ہے _ يحيى نے جواب ديا : خدا كے بند ے ايسى بات نہ كہو 0 بات ميرے والد اس سے بلند تھے كہ وہ اس چيز كا دعوى كريں جوان كا حق نہيں ہے _ بلكہ مير ے والد لوگوں سے كہتے تھے : ميں تمہيں اس شخص كى طرف دعوت ديتا ہوں _ كہ جس پر آل محمد كا اتفاق ہے اور ان كى مراد ميرے چچا جعفر (ع) تھے _ راوى نے كہا پس جعفر بن محمد (ع) امام ہيں ؟
يحيى نے جى ہاں وہ بنى ہاشم كے فقيہ ترين فرد ہيں _(1)
جناب زيد بھى امام جعفر صادق (ع) كے علم و تقوے كے معترف تھے _ ايك جگہ قرماتے ہيں : جو جہاد كرنا چاہتا ہے وہ ميرے ساتھ آجائے اور جو علم حاصل كرنا چاہتا ہے اسے ميرے بھتيجے جعفر كى خدمت ميں جانا چا ہئے _ (2)
زيد كے اصحاب و سپاہى بھى حضرت صادق كى امامت و افضلت كے معترف تھے _ عمار سا با طى كہتے ہيں ; ايك شخص نے سليمان بن خالد ، كہ جس نے زيد كى فوج كے ہمراہ خروج كيا تھا _ سے پو چھا : زيد كے بارے ميں تمہار ا كيا عقيدہ ہے ؟ زيد افضل ہيں يا جعفر بن محمد ؟ سليمان نے جواب ديا ، خدا كى قسم جعفر بن محمد كى ايك دن كى زندگى زيد كى تمام عمر سے زيادہ قيمتى ہے ، اس وقت اس نے سر كو جھٹكا اور زيد كے پاس سے اٹھ گيا اور يہ واقعہ ان سے نقل كيا _ عمار كہتے ہيں : ميں بھى زيد كے پاس گيا اور را نحصيں يہ كہتے ہوئے سنا جعفر بن محمد ہما ر ے حلال و حرام مسائل كے امام ہيں _(3 )
-----------------
1 _ بحارالانوار ج 6 4 ص 199
2_ بحارالانوار ج 6 4 ص 199
3 _ بحار الانوار ج 6 4 ص 196

364
زيد كا انقلاب ايك جذ باتى اتفاقى اور منصو بہ سازى كے بغير نہيں بر پا ہوا تھا بلكہ ہر طريقہ سے سو چا سمجھا تھا _ ان كے انقلاب كا محر ك امر بالمعروف ، نہى عن المنكر اور طا غوت كى حكومت سے مبارزہ تھا _ ان كا ارادہ تھا كہ مسلحانہ جنگ كے ذريعہ غاصبوں كى حكومت كو سرنگوں كرديں اور حكومت اس كے اہل ، يعنى اس شخص كے سپرد كرديں جس پر آل محمد كا اتفاق ہے _ اسى لئے بہت سے لوگوں نے ان كى دعوت كو قبول كيا اور جہاد كيلئے تيار ہوگئے 0 ابو الفرج اصفہانى لكھتے ہيں
: كوفہ سے پندرہ ہزار لوگوں نے زيد كى بيعت كى تھى _ اس كے علاوہ مدائن ، بصرہ ، واسطہ ، موصل ، خراسان اور گرگان كے اہالى نے دعوت قبول كى تھى _1
زيد كا قيام اتنا ہى مستحسن اور ضرورى تھا كہ بہت سے اہل سنّت كے فقہا نے بھى انكى دعوت كو قبول كيا اور آپ كى مدد كى _ يہاں تك كہ اہل سنت كے سب سے بڑ ے امام ابوحنيفہ نے بھى زيد كى تائيد كى _ فضل ابن زبير كہتے ہيں : ابو حنيفہ نے مجھ سے كہا : زيد كى آواز پر كتنے لوگوں نے لبيك كہا ہے ؟ سليمہ بن كہيل ، يزيد بن ابى زياد، ہارون بن سعد ، ہاشم بن بريد ، ابو ہاشم سريانى ، حجاج بن دينار اور چند دو سرے لوگوں نے ان كى دعوت قبول كى ہے ابوحنيفہ نے مجھے كچھ پيسہ ديا اور كہا يہ پيسہ زيدكو ديدينا اور كہنا كہ اس پيسہ كا اسلحہ خريد يں اور مجاہد ين كے او پر خرچ كريں _ ميں نے پيسہ ليا اور زيد كى تحويل ميں ديديا _(2)
-------------
1 _ مقاتل الطالبين ص 91
2 _ مقاتل الطالبين ص 99

365
دلچسپ بات يہ ہے كہ زيد نے اپنے انقلاب كے موضوع كو پہلے ہى امام صادق سے بيان كيا تھا اور امام نے فرمايا تھا : چچاجان اگر اس بات كوپسند كرتے ہيں كہ قتل كئے جائيں اور كوفہ كے كنا سہ ميں آپ كے بدن كو دار پر چڑ ھا يا جا ئے تو اس راہ كو اختيار كريں 1 _ با د جو ديكہ زيد نے امام سے يہ خبر سن لى تھى ليكن آپ كو اپنے فريضہ كى انجام دہى كا اتنا زيادہ احساس تھا كہ شہادت كى خبر بھى انھيں اس عظيم اقدام سے بازنہ ر كھ سكى _ راہ خدا ميں جہاد كيا اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے _
ان كے بارے ميں امام رضا فرما تے ہيں : زيد علما ئے آل محمد ميں سے ايك تھے _ وہ خدا كے لئے غضبناك ہوئے اور دشمنان خدا سے جنگ كى يہاں تك كہ شہادت پائي _(2)
امام جعفر صادق (ع) فرما تے ہيں :
خدا ميرے چچا زيد پر رحمت نازل كرے كہ وہ لوگوں كو اس شخص كى طرف دعوت دتيے تھے جس پر آل محمد كا اتفاق تھا اگر كا مياب ہو جا تے تو ضرور اپناہ وعدہ وفا كرتے _(3)
اب ہم اصل بحث كى طرف پلٹتے ہيں جيسا كہ آپ ملاحظہ فرما چكے ہيں كہ عيسى بن قاسم كى روايت كو اسلامى تحريك اور انقلابات كى مخالف نہيں قرار ديا جا سكتا بلكہ اسے صحيح اسلامى تحريكوں مؤيد قرار ديا جا سكتا ہے _ يہاں تك اس حديث كے
--------------
1_بحارالانوار ج 46 ص 174
2_ بحار الانوار ج 46 ص 174
3_ بحارالانوار ج 46 ص 174

366
ذريعہ دوسرى ان احاديث كى توجيہ كى جاسكتى ہے جو ايسے انقلاب سے منع كرتى ہيں جنكے قائدہ ضرورى شرائط مفقود ہوں يا اسباب ومقدمات كى فراہمى سے قبل انقلاب كا آغاز كرتے ہيں يا غلط مقصد كيلئے قيام كرتے ہيں ليكن صحيح اسلامى اور زيد بن على كے قيام كى مانند قيام سے نہ صرف منع نہيں كرتى ہے بلكہ ائمہ معصوميں نے اس كى تائيد كى ہے اس بيان سے يہ بات بھى واضح ہو جاتى ہے كہ وسائل كے اسى بات كى گيار ہويں حديث كو بھى انقلاب كى مخالف نہيں قرار ديا جا سكتا _ وہ حديث يہ ہے :
احمد بن يحيى المكتب عن محمد بن يحيى الصولى عن محمد بن زيد انحوى عن ابن ابى عبدون عن ابيہ عن الرضا عليہ السلام (فى حديث) انہ قال للمامون : لا تقس اخى زيدا الى زيد بن على فانہ كان من علماء آل محمد صلى اللہ عليہ و آلہ _ غضب للہ فجاھد اعدائيہ حتى قتل فى سبيلہ و لقد حدثنى ابو موسى بن جعفر انہ سمع اباہ جعفر بن محمد يقول : رحم اللہ عمى زيدا انہ دعا الى ال ضا من آل محمد و لو ظفر لو فى بماد عا اليہ _ لقد استشار نى فى خروجہ فقلت ان رضيت ان تكون المقتول المطوب بالكنا سہ فشانك (الى ان قال) فقال الر ضا عليہ السلام ان زيد بن على لم يدع ما ليس لہ بحق و انہ كان تقى للہ من ذالك _ انہ قال : ادعوكم الى الر ضا من آل محمد _
( وسائل الشيعہ ج 11 ص 39)

367
امام رضا (ع) نے مامون سے فرمايا : ميرے بھائي زيد كا زيد بن على سے موازنہ نہ كرو _ زيد بن على علمائے آل محمد ميں سے تھے _ وہ خدا كيلئے غضبناك ہوئے اور خدا كے دشمنوں سے لڑے يہاں تك راہ خدا ميں شہادت پائي _ ميرے والد موسى بن جعفر (ع) نے فرمايا ہے كہ ميں نے اپنے والد جعفر بن محمد سے سنا كہ انہوں نے فرمايا : خدا ميرے چچا زيد پررحمت نازل كرے كہ وہ لوگوں كو اس شخص كى طرف دعوت ديتے تھے جس پر آل محمد كا اتفاق تھا _ اگر كامياب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ وفا كرتے _ نيز فرماتے تھے : زيد نے اپنے انقلاب كے بارے ميں مجھ سے مشورہ كيا تھا ميں نے اس سے كہا تھا : اگر قتل ہونے اور اپنے بدن كو كناسہ كوفہ ميں دار پر چڑھائے جانے پر راضى ہيں تو اقدام كريں _ اس كے بعد امام رضا (ع) نے فرمايا: زيد بن على اس چيز كے مدعى نہ تھے جوان كا حق نہ تھا _ وہ اس سے كہيں بلند تھے كہ ناحق كسى چيز كا دعوى كريں بلكہ آپ لوگوں سے كہتے تھے : ميں تمہيں اس شخص كى طرف دعوت ديتا ہوں كہ جس پر آل محمد كا اتفاق ہے _ ''
مذكورہ حديث سند كے اعتبار سے صحيح نہيں ہے رجال كى كتابوں ميں اس كے راويوں كو مہمل قرار ديا گيا ہے _ اس لحاظسے اس كے مفہوم كو بھى قيام كے مخالف احاديث ميں شما رنہيں كيا جا سكتا _ كيونكہ اس ميں زيد بن على جيسے قيام كى تائيد كى گئي ليكن زيد بن موسى پر تنقيد كى گئي ہے _ زيد بن موسى نے بصرہ ميں خروج كيا تھا اور لوگوں كو اپنى طرف دعوت ديتا اور لوگوں كے گھروں ميں آگ لگا ديتا تھا ، لوگوں كا مال زبردستى لوٹ ليتا تھا ، آخر كار اس كى فوج نے شكست كھائي خود بھى گرفتار ہوا ، مامون نے اسے معاف كرديا

368
اور امام رضا (ع) كى خدمت ميں بھيجديا _ امام نے اسے آزاد كرنے كا حكم ديديا ليكن يہ قسم كھائي كہ كبھى اس سے كلام نہيں كروں گا _ (1)
جيسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمايا: اس حديث ميں زيد بن موسى كے قيام و انقلاب پر تنقيد كى گئي ہے ليكن ہر قيام و تحريك سے ممانعت نہيں كى گئي ہے بلكہ زيد بن على جيسے قيام كى تائيد كى گئي ہے _

دوسرا حصّہ
جن احاديث كى اس بات پردلالت ہے كہ جو انقلاب و قيام بھى امام مہدى كے انقلاب سے قبل رونما ہوجائے ، اسے كچل ديا جائے گا _

حديث اول :
على بن ابراہيم عن ابيہ عن حماد بن عيسى عن ربعى رفعہ عن على بن الحسين عليہ السلام قال: واللہ لا يخرج احد منّا قبل الخروج القائم ا لا كان مثلہ كمل فرخ طار من وكرہ قبل ان يستوى جناحاہ فاخذہ الصبيان فعبثوبہ _ (2)
(مستدرك الوسائل ج 2 ص 248)
امام زين العابدين نے فرمايا: خدا كى قسم انقلاب مہدى سے قبل ہم ميں سے جوبھى قيام كرے گا وہ اس پرندہ كى مانند ہے جو بال و پر نكلے سے پہلے
-------------------
1_ بحارالانوار ج48ص315

369
ہى آشيانہ سے نكل پڑتا ہے جسے بچے پكڑليتے ہيں اور كھلونا بنا ليتے ہيں'' _
مذكورہ حديث كو اہل حديث كى اصطلاح ميں مرفوع كہتے ہيں _ اس ميں چند راويوں كو حذف كرديا گيا ہے جن كے بارے ميں يہ معلوم نہيں ہے كہ وہ كون تھے_ بہر حال يہ قابل قبول نہيں ہے _

حديث دوم:
جابر عن ابى جعفر محمد بن على عليہ السلام قال: مثل خروج القائم منّا كخروج رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آل و مثل من خرج منّا اہل البيت قبل قيام القائم مثل فرخ طار من وكرہ فتلاعب بہ الصبيان _
(مستدرك الوسائل ج 2 ص 348)
امام محمد باقر نے فرمايا: انقلاب مہدى ، رسول (ص) كے قيام كى مانند ہوگا اور ہم اہل بيت ميں انقلاب مہدى سے قبل خروج كرنے والوں كى مثال پرندے كے اس بچہ كى سى ہے جو آشيانہ سے نكل كر بچوں كا كھلونہ بن جاتا ہے ''

حديث سوم:
ابوالجارود قال سمعت ابا جعفر عليہ السلام يقول : ليس منّا اہل البيت احديد فع ضبما ولا يدعوا ا لى حق الاّصرعتہ البلية حتى تقوم عصابة شہدت بدراً ، لا يوارى قتيلہا و لا يداوى جريحہا ، قلت ، من عنى ابوجعفر عليہ السلام؟قال : الملائكة
(مستدرك السوائل ج 2 ص 248)
امام محمد باقر(ع) نے فرمايا : ہم اہل بيت ميں سے جو بھى ظلم كو مٹائے اور احقاق حق

370
كيلئے قيام كرے گا وہ مشكلوں ميں گرفتار اور شكست سے دوچار ہوگا _ اوريہ اس وقت تك ہوگا جب تك ايسے افراد قيام نہ كريں گے جيسے جنگ بدر ميں شريك ہوئے اور مجاہدوں كى مدد كے لئے دوڑ پڑے ، ان ميں سے كوئي شہيد نہيں ہوا كہ دفن كيا جاتا ، كوئي مجرو ح نہيں ہوا جس كا علاج كيا جاتا ، راوى كہتا ہے : اما م كى مراد كون لوگ ہيں ؟ فرمايا: وہ ملائگہ ہيں جو جنگ بدر ميں اسلامى لشكر كى مدد كيلئے نازل ہوئے تھے''_

حديث چہارم:
ابوالجارود عن ابى جعفر عليہ السلام قال قلت لہ اوصنى فقال اوصيك بتقوى اللہ و ان تلزم بيت و تقعد فى دہمك ہؤلاء الناس وايّاك و الخوارج منّا فانہم ليسوا على شيئي (الى ان قال) و اعلم انہ لا تقوم عصابة تدفع ضيماً او تعزّدينا الاّ صرعتہم البلية حتى تقوم عصابة شہدوا بدراً مع رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ لا يوارى قتيلہم و لا يرفع صريعہم و لا يداوى جريحہم ، فقلت : من ہم ؟ قال : الملائكة _
(مستدرك ج 2 ص 248)
ابوجارود كہتے ہيں : ميں نے امام صادق كى خدمت ميں عرض كى : مجھے كچھ وصيت فرمايئے فرمايا : ميں تمہيں خدا كا تقوى اختيار كرنے اوراپنے گھر ميں بيٹھے رہنے كى وصيت كرتا ہوں اور خفيہ طريقے سے ان ہى لوگوں ميں زندگى گزارو اور ہم ميں سے قيام كرنے والوں سے اجتناب كرو _

371
كيونكہ وہ حق پر نہيں ہيں اور ان كا مقصد صحيح نہيں ہے ( يہاں تك كہ فرمايا:) جان لو جو گروہ بھى ظلم مٹانے اور اسلام كى سربلندى اور اقتدار كيلئے قيام كرے گا اسى كو بلائيں اور مصيبتيں گھر ليں گى ، يہاں تك وہ لوگ قيام كريں گے جو كہ جنگ بدر ميں شريك ہوئے تھے _ ان ميں سے كوئي بھى قتل نہيں ہوا تھاكہ دفن كيا جاتا ، زمين پر نہيں گرا تھا كہ اٹھايا جاتا ، مجروح نہيں ہوا تھا كہ علاج كياجاتا ، راوى نے عرض كى يہ كون لوگ ہيں ؟فرمايا : ملائكہ '' _

سند حديث
مذكور ہ تينوں حديثيں سند كے اعتبار سے معتبر نہيں ہيں كيونكہ ان كا راوى ابوالجارود ہے جو كہ زيد ى المسلك تھا اور خود فرقہ جاروديہ كا بانى ہے _ رجال كى كتابوں ميں اسے ضعيف قرار ديا گيا ہے _

احاديث كا مفہوم
ان احاديث ميں امام نے ان شيعوں كو ايك خارجى حقيقت سے خبردار كيا ہے جو كہ قيام كرنے كا اصرار كرتے تھے _ آپ نے فرمايا ہے ہم ائمہ ميں سے جو بھى مہدى موعود كے قيام سے پہلے قيام كرے گا وہ كامياب نہيں ہوگا اور شہيد كرديا جائے گا او راس كى شكست اسلام كے حق ميں نہيں ہے _ ہم اہل بيت ميں سے صرف انقلاب مہدى كامياب ہوگا كہ جن كى مدد كيلئے خدا كے فرشتے نازل ہوں گے _ يہ احاديث ائمہ كے قيام كى خبر دے رہى ہيں اور ان كے قيام نہ كرنے
كى علت بيان كررہى ہيں ، ديگر انقلابات سے ان كا تعلق نہيں ہے _

372
اگر حديث ميں وارد لفظ ''منّا'' سے امام كى مراد علوى سادات ہيں اور يہ فرماتے ہيں كہ جو انقلاب بھى علويوں ميں سے كسى كى قيادت ميں آئے گا وہ پامال ہوگا اور قائد قتل ہوگا تو بھى اس كى دلالت قيام و انقلاب سے ممانعت پر نہيں ہے بالفرض اگر يہى حقيقت ہے _ تو احاديث ايك خارجى حقيقت كو بيان كررہى ہيں اور وہ يہ كہ انقلاب مہدى سے پہلے جو انقلاب رونما ہوں گے وہ مكمل طور پر كامياب نہيں ہوں گے اور اس كا سردار قتل ہوگا ليكن يہ احاديث راہ خدا ميں جہاد جيسے قطعى و مسلم فريضہ ، اسلام اور مسلمانوں سے دفاع امر بالمعروف اور نہى عن المنكر اور ظلم و بيدادگرى اور استكبار سے مبارزہ كو ساقط نہيں كرتى ہيں _ قتل ہوجانے كى خبر اور شيء ہے اور فرض كرنا دوسرى چيز ہے _ امام حسين (ع) كو بھى اپنى شہادت كا علم تھا ليكن اس كے باوجود نظام اسلام سے دفاع كى خاطر يزيد كى طاغوتى حككومت كے خلاف قيام كيا _ اپنا فرض پورا كيا اور جام شہادت نوش فرمايا _ اسى طرح زيدبن على بن الحسين اگر چہ اپنى شہادت كے بارے ميں امام صادق (ع) سے سن چكے تھے ليكن انہوں نے اپنے شرعى فريضہ پر عمل كيا اور اسلام و قرآن سے دفاع كيلئے قيام كيا اور شہادت سے ہمكنار ہوئے _ مسلمانوں پر واجب ہے كہ وہ راہ خدا ميں جہاد ، امر بالمعروف نہى عن المنكر اور محروم و مستضعفين سے دفاع كريں خواہ اس سلسلے ميں ان كے بہت سے آدمى شہيد ہوجائيں _ كيونكہ شہيد ہونا شكست كے مترادف نہيں ہے _ حق تو يہ ہے كہ اسلام نے جو كچھ دنيا ميں ترقى كى ہے اور باقى رہا ہے تو يہ امام حسين اور آپ كے اصحاب اور زيد بن على يحيى بن زيد و حسين شہيد فتح ايسے فداكار انسانوں كى قربانيوں كا نتيجہ ہے كہ جنہوں نے قطعى طور پر اپنى جان كى پروا نہيں كى تھى _ اس بنا پر مذكورہ احاديث مسلمانوں سے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كے شرعى فريضہ كو ساقط

373
نہيں كر سكتى ہيں _
اس پر جلسہ كا اختتام ہوا اور آئندہ شنبہ كى شب ميں فہيمى صاحب كے گھر جلسہ منعقد ہوا _
فہيمى : ہوشيار صاحب اپنى بحث كى تكميل كيجئے _
ہوشيار: تيسرا حصّہ
جو احاديث ظہور امام مہدى كى علامتوں كے ظاہر ہونے سے قبل كسى بھى قيام و انقلاب سے اجتناب كا حكم ديتى ہيں _

حديث اوّل :
عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عثمان بن عيسى عن بكر بن محمد عن سدير قال ، قال ابوعبداللہ عليہ السلام : يا سدير الزم بيتك و كن حلساً من احلاسہ و اسكن ما سكن الليل و النہار فاذا بلغك ان السفيانى قدخرج فارحل الينا و لو على رجلك
(وسائل الشيعہ ج 11 ص 36)
امام صادق (ع) نے سدير سے فرمايا: اپنے گھر ميں بيٹھے رہو اور جب تك شب و روز ساكن ہيں تم بھى جنبش نہ كرو جب يہ سنو كہ سفيانى نے خروج كيا ہے تو اس وقت تم ہمارے پاس آنا خواہ پيادہ ہى آنا پڑے _

سند حديث
مذكورہ حديث سند كے اعتبار سے قطعى قابل اعتماد نہيں ہے _ كيونكہ سند ميں عثمان بن سعيد بھى ہيں جو كہ واقفى ہيں _ امام موسى بن جعفر كى حيات ميں آپ (ص) كے

374
وكيل تھے ليكن آپ كى وفات كے بعد واقفى ہوگئے تھے اورامام رضا (ع) كے پاس سہم امام نہيں بھيجتے تھے اسى وجہ سے امام رضا (ع) ان سے ناراض ہوگئے تھے _ اگر چہ بعد ميں توبہ كرلى اور امام كى خدمت مين اموال بيھيجنے لگے تھے _ اسى طرح سدير بن حكيم صيرفى كا ثقہ ہونا بھى مسلم نہيں ہے _

حديث دوم
احمد عن على بن الحكم عن ابى ايوب الخزاز عن عمر بن حنظلہ قال سمعت ابا عبداللہ عليہ السلام يقول: خمس علامات قبل القيام القائم : الصيحة والسفيانى و الخسف و قتل النفس الزكية و اليمانى ، فقلت جعلت فداك ان خرج احد من اہل بيتك قبل ہذاہ العلامات انخرج معہ؟ قال : لا_
(وسائل الشيعہ ج 11 ص 37)
''امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں _ قائم كے انقلاب و قيام سے قبل پانچ علامتيں ظاہر ہوں گے 1_ آسمانى چيخ 2_ خروج سفيانى 3_ زمين كے ايك حصہ كا دھنس جانا 4_ نفس زكيہ كا قتل 5_ يمانى كا خروج راوى نے عرض كى فرزند رسول (ع) اگر آپ حضرات ميں سے كوئي علائم ظہور سے قبل قيام كرے تو ہم بھى اس كے ساتھ خروج كريں ؟ فرمايا نہيں _

سند حديث
مذكورہ حديث قطعہ قابل اعتبار نہيں ہے كيونكہ عمر بن حنظلہ كى توثيق ثابت نہيں ہے _

375
حديث سوم :
محمد بن الحسن عن الفضل بن شاذان عن الحسن بن محبوب عن عمرو بن ابى المقدام عن جابر عن ابى جعفر عليہ السلام قال : الزم الارض و لا تحرك يداً ولا رجلاً حتى ترى علامات اذكرہا لك وما اراك تدركہا : اختلاف بنى فلان و منا دينادى من السماء و يجيئكم الصوت من ناحية دمشق
(وسائل الشيعہ ج 11 ص 41)
جابر كہتے ہيں كہ : حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمايا: زمين نہ چھوڑو ، اپنے ہاتھ اور پير كو حركت نہ دو يہاں تك وہ علامت ظاہر ہوجائے جو ميں تمہيں بتاتا ہوں شائد تم درك نہيں كروگے : فلان خاندان _ شائد بنى عباس _ كا اختلاف آسمانى منادى كى ندا اور شام كى طرف سے آنے والى آواز ہے _

سند حديث
مذكورہ حديث بھى قابل اعتماد نہيں ہے كيونكہ عمر بن ابى المقدام مجہول ہے _ شيخ الطائف نے فضل بن شاذان سے دو طريقوں سے روايت كى ہے اور دونوں كو ضعيف قرار ديا ہے _

حديث چہارم :
الحسن بن محمد الطوسى عن ابيہ عن المفيد عن احمد بن محمد العلوى عن حيدر بن محمد بن نعيم عن محمد بن عمرالكشى عن حمدويہ عن محمد بن عيسى عن الحسين بن خالد

376
قال: قلت لابى الحسن الرضا عليہ السلام ان عبداللہ بن بكر يروى حديثاً و انا احبّ ان اعرضہ عليك فقال : ماذا لك الحديث ؟ قلت : قال ابن بكير : حدثنى عبيد بن زرارة قال : كنت عند ابى عبداللہ عليہ السلام ايام خرج محمد ( ابراہيم ) بن عبداللہ بن الحسن اذ دخل عليہ رجل من اصحابنا فقال لہ : جعلت فداك ان محمد بن عبداللہ قد خرج فما تقول فى الخروج معہ ؟ فقال : اسكنوا ما سكنت السماء والارض ، فما من قائم و ما من خروج ؟ فقال ابو الحسن عليہ السلام : صدق ابو عبداللہ عليہ السلام و ليس الامر على ما تأوّلہ ابن بكير _ انما عنى ابو عبداللہ عليہ السلام اسكنوا ما سكنت السماء من النداء و الارض من الخسف بالجيش _
(وسائل الشيعہ ج 11 ص 39)
حسين بن خالد كہتے ہيں كہ ميں نے امام رضا (ع) كى خدمت ميں عرض كى : عبداللہ بن بيكر نے مجھے ايك حديث سنائي ہے _ ميں چاہتا ہوں كہ اس كو آپ سے نقل كروں فرمايا : سناؤ كيا ہے ؟ ميں نے عرض كى ابن بكير نے عبيد بن زرارہ سے نقل كيا ہے كہ انہوں نے كہا : جب محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج كيا تھا، اس وقت ميں امام صادق كى خدمت ميں تھا كہ اى صحابى آيا اور عرض كى : قربان جاؤں محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج كيا ہے ان كے خروج كے متعلق آپ كى كيا رائے ہے ؟ فرمايا : جب تك رات دن كى گردش يكسال ہے اس وقت تك تم بھى ساكن و ساكت رہو _ اس ميں نہ

377
كوئي قيام كرے اور نہ خروج _ امام رضا نے فرمايا : امام صادق نے صحيح فرمايا ہے ، ليكن حديث كا يہ مفہوم نہيں ہے جو ابن بكير نے سمجھا ہے بلكہ امام كا مقصد ہے كہ جب تك آس5مان سے ندا نہ آئے اور زمين فوج كہ نہ دھنسائے اس وقت تك تم خاموش رہو'' _

سند حديث
مذكورہ حديث صحيح نہيں ہے كيونكہ رجال كى كتابوں ميں احمد بن محمد علوى كو مہمل قرار ديا گيا ہے _ اسى طرح حسين بن خالد نام كے دو اشخاص ہيں _ ايك ابوالعلاء دوسرے صيرفى اور ان دونوں كو موثق نہيں قرار ديا گيا _

حديث پنجم :
محمد بن ہمام قال حدثنا جعفر بن مالك الفزارى قال حدثنى محمد بن احمد عن على بن اسباط عن بعض اصحابہ عن ابى عبداللہ عليہ السلام انہ قال : كفّوا السنتكم و الزموا بيوتكم فانہ لا يصيبكم امر تخصّون بہ و لا يصيب العامة و لايزال الزيدية و قاء لكم ''
( مستدرك الوسائل ج 2 ص 248)
يعنى امام صادق نے فرمايا : اپنى زبان بندركھو، اور اپنے گھروں ميں بيھٹے رہو كيونكہ تمہيں وہ چيز نہيں ملے گى جو عام لوگوں كو نہيں َلتى اور زيديہ ہميشہ تمہارى لاوں كى سپر رہيں گے _

سند حديث
سند كے اعتبار سے مذكورہ حديث قابل اعتما دنہيں ہے ، كيونكہ على بن اسباط

378
نے بعض ايسے اصحاب سے حديث نقل كى ہے جو مجہول ہيں _ اس كے علاوہ طريق حديث ميں جعفر بن (محمد بن ) مالك ہيں كہ جنھيں علماء رجال كى ايك جماعت نے ضعيف قرار ديا ہے _

حديث ششم :
على بن احمد عن عبيداللہ بن موسى العلوى عن محمد بن الحسين عن محمد بن سنان عن عمار بن مروان عن منخل بن جميل عن جابر بن يزيد عن ابى جعفر الباقرعليہ السلام انہ قال : اسكنوا ما سكنت السموات و لا تخرجوا على احد فانّ امركم ليسبہ خفاء الا انّہا آية من اللہ عزّ و جل ليست من الناس
( مستدرك السوائل ج 2 ص 248)
يعنى امام محمد باقر (ع) نے فرمايا : جب تك آسمان ساكن ہے اس وقت تك تم بھى سال رہو اور كسى كے خلاف خروج نہ كرو _ بے شك تمہارا امر مخفى نہيں ہے مگر خدا كى طرف سے ايك نشان ہے او راس كا اختيار لوگوں كے ہاتھ ميں نہيں ہے ''_

سند حديث
يہ حديث بھى سند كے اعتبار سے معتبر نہيں ہے كيونكہ علم رجال كى كتابوں ميں منخل بن جميل كو ضعيف و فاسد الروايت قرار ديا گيا ہے _

احاديث كا مفہوم
مذكورہ احاديث كا مفہوم كے تجزيہ سے قبل آپ كى توجہ ايك نكتہ كى طرف

379
مبذول كرادينا ضرورى ہے اور وہ يہ كہ شيعہ اور ائمہ اطہار كے اصحاب ہميشہ انقلاب مہدى موعود اور قائم آل محمد كے قيام كے منتظر رہے ہيں كيونكہ پيغمبر اكرم اور ائمہ اطہار (ع) سے سنا تھا كہ جب دنيا ظلم و جور سے بھر جائے گى عدل گستر مہدى ظہور فرمائيں گے اور ظلم و كفر كا قلع و قمع كريں گے _ دنيا ميں اسلام كا بول با لاكريں گے اور اسے عدل و انصاف سے پر كريں گے _ شيعوں نے سنا تھا كہ ايسے انسان كا انقلاب كامياب ہوگا اور تائيد الہى اس كے شامل حال ہوگى _ اسى ل ے صدر اسلام كے بحرانى حالت ميں قيام و قائم شيعوں كے درميان گفتگو كا موضوع تھا _ وہ ائمہ اطہار سے كہتے تھے _ ہر جگہ ظلم و جور كى حكمرانى ہے _ آپ كيوں قيام نہيں كرتے _ كبھى دريافت كرتے تھے _ قائم آل محمد كيسا قيام كريں گے ؟ كبھى قائم آل محمد كے ظہور كى علامت كے بارے ميں پوچھتے تھے _ ايسے حالات ميں بعض علوى سادات موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے اور مہدى موعود قائم آل محمد كے نام سے انقلاب بپاكرتے تھے اور طاغوت كى حكومت كو برباد كرنے كے لئے جنگ كرتے تھے ليكن قليل مدت ميں شكست كھاجاتے تھے _
مذكورہ احاديث اسى زمانہ ميں صادر ہوئي تھيں _ پس اگر امام اپنے اصحاب ميں كسى ايك يا چند اشخاص سے يہ فرماتے ہيں كہ خاموش رہو _ شورش نہ كرو، خروج سفيانى اور آسمانى چيخ كے منتظر رہو، ان چيزوں كا مقصد اس بات كو سمجھانا تھا كہ جس شخص نے اس وقت قيام كيا ہے وہ روايات ميں بيان ہونے والے مہدى موعود نہيں ہيں ، مجھے قائم موعود تصور نہ كرو _ قائم آل محمد كے ظہور تك صبر كرو ، اور ان كے قيام و انقلاب كى كچھ مخصوص علامات ہيں _ پس جو شخص بھى قيام و شورش كرے اور تم سے مدد مانگے تو پہلغ تم ان مخصوص علامتوں كو ان كى دعوت ميں ملا حظہ كرلو اس كے

380
بعد قبول كرلو اگر وہ علامتيں اس كى دعوت ميں آشكار نہيں ہيں تو اس كے فريب ميں نہ آو _ اسكى آواز پر لبيك نہ كہو اور سمجھ لو كہ وہ مہدى موعود نہيں ہے _ مذكورہ احاديث در حقيقت علوى سادات كى حقيقت كو واضح كرتى ہيں جو كہ مہدى موعود اور قائم آل محمد كے نام سے قيام كرتے تھے _ اور اس بات كى وضاحت كرتى ہيں كہ مہدويت كے دعويدار مہدى موعود نہيں ہيں _ ان كے
فريب ميں نہ آجانا _ يہ احاديث مسلمانوں كے حتمى و ضرورى فرائض جيسے وجوب جہاد، اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، امر بالمعروف و نہى عن المنكر ، ظلم و بيدادگرى سے مبارزہ اور محرومين و مستضعفين سے دفاع كو منع نہيں كرتى ہيں _ يہ نہيں كہتى ہيں كہ ظلم و ستم ، فحشا و منكرات ، كفر و الحاد يہاں تك كہ اسلام كو نابود كرنے كے سلسلے ميں جو سازشيں كى گئي ہيں ، ان پر خاموشى اختيا ركرو اور امام مہدى كے ظہور كا انتظاركرو كہ وہى دنيا كو عدل و انصاف سے پر كريں گے _ ايسى ركيك بات كو ائمہ معصومين كى طرف منسوب نہيں كيا جا سكتا _ اگر سكوت واجب تھا تو حضرت على نے اسلام كے دشمنوں سے كيوں جنگ كى ؟ اور اما م حسين نے يزيد كے خلاف كيوں قيام كيا ؟ اور زيد كے خونين انقلاب كى ائمہ نے كيون تائيد كى ؟ اس بناپر مذكورہ احاديث كو قيام و انقلاب كے مخالف نہيں قرارد يا جاسكتا _