|
273
جزيرہ خضراء
مقررہ وقت پر ہوشيار صاحب كے گھر جلسہ كى كاروائي شروع ہوئي _
جلالى : گزشتہ جلسہ ميں شايد فہيمى صاحب نے جزيرہ خضراء كے بارے ميں كوئي سوال اٹھايا تھا
فہيمي: ميں نے سنا بلكہ امام زمانہ اور آپ كى اولاد جزيرہ خضراء ميں زندگى بسر كرتے ہيں اس سلسلہ ميں آپ كا نظريہ كيا ہے؟
ہوشيار: جزيرہ خضراء كى داستان كى حيثيت بھى افسانہ سے زيادہ نہيں ہے مرحوم مجلسى نے بحار الانوار ميں اس داستان كو تفصيل سے نقل كيا ہے _ اجمال يہ ہے : ميں نے نجف اشرف ميں امير المومنين (ع) كے كتب خانہ ميں ،ايك رسالہ ديكھا تھا كہ نام جزيرہ خضراء كى داستان تھا _ اس قلمى رسالہ كے مؤلف فضل بن يحيى طبيبى ہيں _ انہوں نے تحرير كيا ہے كہ جزيرہ خضراء كى داستان ميں نے 15 / شعبان سنہ 699 ھ كو اباعبداللہ عليہ السلام كے حرم ميں شيخ شمس الدين اور شيخ جلال الدين سے سنى تھى _ انہوں نے زين الدين على بن فاضل مازندرانى سے داستان نقل كى تھى _ مجھے شوق پيدا ہوا كہ خود ان سے داستان سنوں _
خوش قسمتى سے اسى سال شوال كے اوائل ميں زين الدين شہر حلّہ تشريف لائے تو ميں نے سيد فخر الدين كے گھر ان سے ملاقات كى _ ميں نے ان سے خواہش كى كہ جو داستا ن آپ نے شيخ شمس الدين و شيخ جلال الدين كو سنائي تھى وہ مجھے بھى سنا ديجئے انہوں نے فرمايا: ميں دمشق ميں شيخ عبد الرحيم حنفى اور شيخ زين الدين على اندلسي
274
سے تعليم حاصل كرتا تھا _ شيخ زين الدين خوش طبع شيعہ اور علمائے اماميہ كے بارے ميں اچھے خيالات ركھتا اوران كا احترام كرتا تھا_ ايك مدت تك ميں نے ان سے علم حاصل كيا اتفاقاً وہ مصر تشريف لے جانے كيلئے تيار ہوئے چونكہ ہميں ايك دوسرے سے بہت زيادہ عقيدت و محبت تھى اس لئے انہوں نے مجھے بھى اپنى ہمراہ مصر لے جانے كا فيصلہ كيا _ ہم دونوں مصر پہنچے اور قاہرہ ميں اقامت گزينى كا قصد كيا _ تقريباً نو ماہ تك ہم نے وہاں بہترين زندگى گزارى _ ايك روز انھيں ان كے والد كا خط موصول ہوا ، خط ميں تحرير تھا: ميں شديد بيمارہوں ، ميرا دل چاہتا ہے كہ مرنے سے قبل تمہيں ديكھ لوں _ استا د خط پڑھ كر رونے لگے اور اندلس كے سفر كا ارادہ كرليا _ ميں بھى اس سفر ميں ان كے ساتھ تھا _ جب ہم جزيرہ كے اولين قريہ ميں پہنچے تو مجھے شديد بيمارى لا حق ہوگئي ، يہاں تك كہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگيا _ ميرى كيفيت سے استاد بھى رنجيدہ تھے ،انہوں نے مجھے اس قريہ كے پيش نماز كے سپرد كيا تا كہ ميرى ديكھ بھال كرے اور خود اپنے وطن چلے گئے _ تين روز كى بيمارى كے بعد ميرى حالت ٹھيك ہوگئي _ چنانچہ ميں گھر سے نكل كر ديہات كى گليوں ميں ٹہلنے لگا _ وہاں ميں نے كوہستان سے آئے ہوئے ايك قافلہ كو ديكھا جو كہ كچھ چيزيں لائے تھے _ ميں نے ان كے بارے ميں معلومات فراہم كيں تو معلوم ہوا كہ يہ بربر كى سرزمين سے آئے ہيں جو كہ رافضيوں كے جزيرہ سے قريب ہے ، جب ميں نے رافضيوں كے جزيرہ كا نام سنا تو اسے ديكھنے كا شوق پيدا ہوا ، انہوں نے بتايا كہ يہاں سے پچيس روز كے فاصلے پر واقع ہے _ جس ميں دو روز كى مسافت ميں كہيں آبادى اور پانى نہيں ہے _ اس دو دن كى مسافت كو طے كرنے كے لئے ميں نے گدھا كرايہ پر ليا اور اپنے سفر كا آغاز كيا يہاں تك كہ رافضيوں كے جزيرہ
275
تك پہنچ گيا ، جزيرہ كے چاروں طرف ديواريں تھيں اور محكم و بلند گنبد بنے ہوئے تھے مسجد ميں داخل ہوا _ مسجد بہت بڑى تھي، موذن كى آواز سنى ، اس نے شيعون كى اذان دى اور اس كے بعد امام زمانہ كے تعجيل كيلئے دعا كى _ خوشى سے ميرے آنسو جارى ہوگئے _ لوگ مسجد ميں آئے _ شيعوں كے طريقہ سے وضو كيا اور فقہ شيعہ كے مطابق نماز جماعت قائم ہوئي _ نماز اور تعقيبات كے بعد لوگوں نے مزاج و احوال پرسى كى _ ميں نے اپنى روداد سنائي اور بتايا كہ ميں عراقى الاصل ہوں _ جب انھيں يہ معلوم ہوا كہ ميں شيعہ ہوں تو ميرا بہت احترام كيا اور ميرے قيام كے لئے مسجد كا حجرہ معين كيا _ پيش نماز صاحب بھى ميرا احترام كرتے تھے اور شب و روز ميرے پاس رہتے تھے _ ايك دن ميں نے ان سے پوچھا اہل شہر كى ضرورت كى چيزيں اور خوراك كہاں سے آتى ہيں؟ مجھے يہاں كاشتكارى كى زمين نظر نہيں آتى ہے _ اس نے كہا: ان كا كھانا جزيرہ سے آتا ہے ، يہ جزيرہ بحرا بيض كے بيچ واقع ہے _ ان كے كھانے كى اشياء سال ميں دو مرتبہ جزيرہ سے كشتيوں كے ذريعہ آتى ہيں _ ميں نے پوچھا كشتى آنے ميں كتنا وقت باقى ہے؟ اس نے كہا : چارماہ _ طويل مدت كى وجہ سے مجھے افسوس ہوا ليكن خوش قسمتى سے چاليس دن كے بدن كشتياں آگئيں اور يكے بعد ديگرے سات كشتياں وارد ہوئيں _ ايك كشتى سے ايك وجيہہ آدمى اترا ، مسجد ميں آيا ، فقہ شيعہ كے مطابق وضو كيا اور نماز ظہر و عصر ادا كى _ نماز كے بعد ميرى طرف متوجہ ہوا ، سلام كيا اور گفتگو كے دوران ميرے اور ميرے والدين كا نام ليا _ اس سے مجھے تعجب ہوا _ كيا آپ شام سے مصر اور مصر سے اندلس تك كے سفر ميں ميرے نام سے واقف ہوئے ہيں ؟ كہا: نہيں ، بلكہ تمہارا اور تمہارے والدين كے نام ، شكل و صورت اور صفات مجھ تك پہنچے ہيں _
276
ميں تمھيں اپنے ساتھ جزيرہ خضراء لے جاؤنگا _ ايك ہفتہ انہوں نے وہيں قيام كيا اور ضرورى امور كى انجام دہى كے بعد سفر كا آغاز كيا _ سولہ دن سمندر كا سفر طے كرنے كے بعد مجھے بحرا بيض نظر آيا _ اس شيخ نے كہ جس كا نام محمد تھا ، مجھ سے پوچھا كس چيز كا نظارہ كررہے ہو؟ اس علاقہ كے پانى كا دوسرا رنگ ہے _ اس نے كہا: يہ بحرا بيض ہے اور يہ جزيرہ خضراء ہے ، پانى نے اسے ديواروں كى طرح چاروں طرف سے گھير ركھا ہے اور خدا كى حكمت ہے كہ جب ہمارے دشمنوں كى كشتياں ادھر آنا چاہتى ہيں تو وہ صاحب الزمان كى بركت سے غرق ہوجاتى ہيں _ اس علاقہ كہ ميں نے تھوڑا ساپانى پيا ، فرات كے پانى كى طرح شيرين و خوشگوارتھا _ بحرا بيض كا كچھ سفر طے كرنے كے بعد جزيرہ خضراء پہنچے كشتى سے اتر كر شہر ميں داخل ہوئے _شہر بارونق تھا ، اس ميں ميوہ سے لدے ہوئے درخت اور چيزوں سے بھرے ہوئے بازار بہت زيادہ تھے اور اہل شہر بہترين زندگى گزار رہے تھے _ اس پر كيف منظر سے ميرا دل باغ باغ ہوگيا _ ميرا دوست محمد اپنے گھر لے گيا _ كچھ دير آرام كرنے كے بعد جامع مسجد گئے _ مسجد ميں بہت سى جماعتيں تھيں اور ان كے درميان ايك شخص تھا كہ جس كے جلال و عظمت كو ميں بيان نہيں كرسكتا _ اس كا نام سيد شمس الدين محمد تھا _ وہ لوگوں كو عربى ، قرآن ، فقہ اوراصول دين كى تعليم ديتا تھا _ ميں ان كى خدمت ميں پہنچا تو انہوں نے مجھے خوش آمديد كہا: اپنے پاس بٹھايا ، مزاج پرستى كى اور كہا ميں نے شيخ محمد كو تمہارے پاس بھيجا تھا _ اس كے بعد انہوں نے ميرے قيام كے لئے مسجد كا ايك كمرہ معين كرنے كا حكم ديا _ ہم آرام كرتے اور شمس الدين اور ان كے اصحاب كے ساتھ كھانا كھاتے تھے _ اسى طرح اٹھارہ روز گزر گئے جب ميں وہاں پہلے جمعہ ميں حاضر ہوا تو ديكھا كہ
277
سيد شمس الدين نے نماز جمعہ واجب كى نيت سے ادا كى _ ميں نے كہا : كيا امام زمانہ حاضر ہيں كہ واجب كى نيت سے نماز پڑھى ؟ كہا : امام حاضر نہيں ہيں ليكن ميں ان كا خاص نائب ہوں ، ميں نے كہا : كيا كبھى آپ نے امام زمانہ كو ديكھا ہے ؟ نہيں ، ليكن والد صاحب كہتے تھے كہ وہ امام كى آواز سنتے تھے مگر ديكھتے نہيں تھے ، ہاں دادا آواز بھى سنتے تھے اور ديكھتے بھى تھے_ ميں نے كہا: ميرے سيد و سردار : كيا وجہ ہے كہ امام (ع) كو بعض لوگ ديكھتے ہيں اور بعض نہيں ؟ فرمايا: يہ بعض بندوں پر خدا كا لطف ہے _
اس كے بعد سيد نے ميرا ہاتھ پكڑا اور شہر سے باہر لے گئے _ وہاں ميں نے ايسے باغات ، چمن زاروں ، نہروں اور بہت سے درختوں كا مشاہدہ كيا كہ جن كى نظير عراق ميں نہيں تھى _ واپسى كى وقت ايك حسين و جميل آدمى سے ہمارى ملاقات ہوئي _ ميں نے سيد سے پوچھا كہ يہ شخص كو ن تھا ؟ كہا: كيا اس بلند پہاڑ كو ديكھ رہے ہو؟ ميں نے كہا: جى ہاں ، كہا: اس پہاڑ كے درمياں ايك خوبصورت جگہ ہے اور درختوں كے نيچے ايك خوشگوار پانى كا سرچشمہ ہے وہاں اينٹوں كا بنا ہوا ايك گنبد ہے يہ شخص اس قبہ كا نگہبان و خدمت گار ہے _ ميں ہر جمعہ كى صبح كو وہاں جاتا ہوں اور امام زمانہ كى زيارت كرتاہوں اور دو ركعت نماز پڑھنے كے بعد ايك كاغذ ملتا ہے كہ جس ميں ميرى ضرورت كے تمام مسائل مرقوم ہوتے ہيں _ تمہارے لئے بھى ضرورى ہے وہاں جاؤ اور اس قبہ ميں امام زمانہ كى زيارت كرو _
ميں اس پہاڑ كى جانب روانہ ہوا _ قبہ كو ميں نے ايسا ہى پايا جيسا كہ مجھے بتايا گيا تھا _ وہاں وہ خادم بھى ملا _ ميں نے ان سے امام زمانہ سے ملاقات كى خواہش كى انہوں نے كہا: ناممكن ہے اور ہميں اس كى اجازت نہيں ہے _ ميں نے كہاميرے لئے دعا كرو ،
278
انہوں نے ميرے لئے دعا كى ، اس كے بعد ميں پہاڑ سے اتر آيا اور سيد شمس الدين كے گھر كى طرف روانہ ہوا ان سے راستہ ميں كہيں ملاقات نہ ہوئي _ ميں اپنى كشتى كے ساتھ شيخ محمد كے گھر پہنچا اور پہاڑ كا ماجرا انھيں سنايا اور بتايا كہ ان خادموں نے مجھے ملاقات كى اجازت نہيں دى ہے _ شيخ محمد نے بتايا كہ وہاں سيد شمس الدين كے علاوہ كسى كو جانے كى اجازت نہيں ہے _ وہ امام زمانہ كى اولاد سے ہيں _ ان كے اور امام زمانہ كے درميان پانچ پشتيں ہيں وہ امام زمانہ كے خاص نائب ہيں _
اس كے بعد ميں نے سيد شمس الدين سے خواہس كى كہ ميں اپنى بعض دينى مشكليں آپ سے بيان كرنا چاہتا ہوں اور آپ كے سامنے قرآن مجيد پڑھنا چاہتا ہوں كہ آپ مجھے صحيح قرائت بتاديں _ فرمايا: كوئي حرج نہيں _ پہلے ميں نے قرآن شروع كيا _ تلاوت كے درميان قاريوں كا اختلاف بيان كيا تو سيد نے كہا : ہم ان قرائتوں كو نہيں جانتے ہمارى قرائت تو حضرت على بن ابى طالب عليہ السلام كے قرآن كے مطابق ہے _ اس وقت انہوں نے حضرت على (ع) كے جمع كردہ قرآن كا واقعہ بيان كيا اور بتايا كہ ابوبكر نے اسے قبول نہيں كيا تھا _ بعد ميں ابوبكر كے حكم سے قرآن جمع كيا گيا اور اس سے بعض چيزيں حذف كردى گئي ہيں _ چنانچہ آپ نے ديكھا ہوگا كہ آيت كے قبل و بعد ميں ربط نہيں ہے _ سيد كى اجازت كے بعد تقريباً ميں نے نوے مسائل ان سے نقل كئے خاص كے علاوہ كسى كو ان كے نقل كى اجازت نہيں ديتا ہوں _
اس كے بعد اپنى مشاہدہ كردہ دوسرى داستان نقل كرتے ہيں اور كہتے ہيں : ميں نے سيد سے عرض كى : امام زمانہ سے ہمارے پاس كچھ احاديث پہنچى ہيں جن كا مفہوم يہ ہے كہ جو شخص زمانہ غيبت ميں رويت كا دعوى كرے وہ جھوٹا ہے _ جبكہ آپ
279
كہتے ہيں ہم سے بعض كى امام سے ملاقات ہوتى ہے ، اس حديث اور آپ كے بيان ميں كيسے توافق ہوسكتا ہے ؟ فرمايا: يہ احاديث صحيح ہيں ، ليكن اس وقت كے لئے تھيں جب بنى عباس ميں سے آپ(ع) كے بہت سے دشمن تھے _ مگر اس زمانہ ميں دشمن آپ سے مايوس ہوچكے ہيں اور ہمارے شہر بھى ان سے دور ہيں كسى كى دست رسى اس ميں نہيں ہے ، لہذا اب ملاقات ميں كوئي خطرہ نہيں ہے _
ميں نے كہا: سيد شيعہ امام سے كچھ احاديث نقل كرتے ہيں كہ خمس آپ نے شيعوں كے لئے مباح كياہے _ كيا آپ نے اما م سے يہ حديث سنى ہے كہ امام نے خمس كو شيعوں كيلئے مباح كيا ہے _ اس كے بعد وہ سيد سے كچھ اور مسائل نقل كرتے ہيں اور كہتے ہيں : سيد نے مجھ سے كہا: تم نے بھى ابھى تك امام كو دو مرتبہ ديكھا ہے ليكن پہچان نہيں سكے _
خاتمہ ميں كہتے ہيں : سيد نے مجھ سے كہا: مغربى ممالك ميں قيام نہ كرو، جتنى جلد ہوسكے عراق پلٹ جاؤ_ چنانچہ ميں نے ان كے حكم كے مطابق عمل كيا _
ہوشيار: جزيرہ خضراء كى داستان ايسى ہى ہے جيسا كہ ميں نے اس كا خلاصہ آپ كے سامنے بيان كيا ہے _ آخر ميں اس بات كى وضاحت كردينا ضرورى ہے كہ مذكورہ داستان كا كوئي اعتبار نہيں ہے بلكہ افسانہ كى حيثيت ہے كيونكہ :
اولاً: اس كى سند معتبر و قابل اعتماد نہيں ہے _ يہ داستان ايك مجہول قلمى نسخے سے نقل كى گئي ہے چنانچہ اس كے متعلق خود مجلسي لكھتے ہيں : چونكہ مجھے يہ داستان معتبر كتابوں ميں نہيں ملى ہے اس لئے ميں نے اس كو الگ باب ميں نقل كيا ہے ( تا كہ كتاب كے مطالب سے مخلوط نہ ہوجائے )
ثانياً: داستان كے مطالب كے درميان تناقض پاياجاتا ہے جيسا كہ آپ نے
280
ملاحظہ فرمايا: سيد شمس الدين ايك جگہ داستان كے راوى سے كہتے ہيں : '' ميں امام زمانہ كا خاص نائب ہوں اور ابھى تك امام زمانہ كو نہيں ديكھا ہے _ ميرے والد نے بھى نہيں ديكھا تھا ليكن ان كى آواز سنتے تھے جبكہ ميرے دادا ديكھتے اور آواز سنتے تھے '' _ ليكن يہى سيد شمس الدين دوسرى جگہ داستان كے راوى سے كہتے ہيں :'' ميں ہر جمعہ كى صبح كو امام كى زيارت كے لئے جاتا ہوں ، بہتر ہے تم بھى جاؤ'' ، داستان كے راوى سے شيخ محمد نے بھى يہى كہا تھا كہ صرف سيد شمس الدين اور انہى جيسے لوگ امام كى خدمت ميں مشرف ہو سكتے ہيں _ ملاحظہ فرمايا آپ نے كہ فرما رہے ہيں كہ ان مطالب ميں كتنا تناقض ہے _ قابل توجہ بات يہ ہے كہ سيد شمس الدين جانتے تھے كہ اپنے علاوہ كسى كو زيارت كے لئے نہيں لے جاتے تو پھر داستان كے راوى سے يہ تجويز كيسے پيش كى كہ ملاقات كے لئے پہاڑ پر جاؤ_
ثالثاً : مذكورہ داستان ميں تحريف قرآن كى تصريح ہوئي ہے جو كہ قابل قبول نہيں ہے اور علمائے اسلام شدت كے ساتھ اس كا انكار كرتے ہيں _
رابعاً: خمس كے مباح ہونے والا موضوع بھى كہ جس كى تائيد كى گئي ہے فقہا كى نظر ميں صحيح نہيں ہے _
بہر حال داستان رومانٹك انداز ميں بنائي گئي ہے ، لہذا بہت ہى عجيب و غريب معلوم ہوتى ہے _ زين الدين نامى ايك شخص عراق سے تحصيل علم كے لئے شام جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد كے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہى كے ہمراہ اندلس جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد كے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہى كے ہمراہ اندلس جاتاہے ، طويل سفر طے كرتا
281
ہے _ وہاں بيمار پڑتا ہے _ اس كا استاد اسے چھوڑديتا ہے _ افاقہ كے بعد ، رافضيوں كے جزيرہ كا نام سن كر اس جزيرہ كو ديكھنے كا ايسا اشتياق پيدا ہوتا ہے كہ اپنے استاد كو بھول جاتا ہے _ خطرناك اور طويل سفر طے كركے رافضيوں كے جزيرہ پہنچتا ہے _ جزيرہ ميں زراعت نہيں ہوتى لہذا پوچھتا ہے كہ يہاں كے لوگوں كى غذ ا كہاں سے آتى ہے ؟ جواب ملتا ہے كہ ان كى غذا جزيرہ خضراء سے آتى ہے ، باوجوديكہ لوگوں نے بتا يا تھا كہ چار ماہ كے بعد كشتياں آئيں گى ليكن اچانك چاليس ہى دن كے بعد آجاتى ہيں ، ساحل پر لنگر انداز ہوتى ہيں اور ايك ہفتہ كے بعد اسے (راوى كو) اپنے ساتھ لے جاتے ہيں _ بحر ابيض كے وسط ميں سفيد پانى ديكھتا ہے جو كہ شيرين و گوارا بھى ہے اس كے بعد ناقابل عبور جگہ سے گزر كر جزيرہ خضراء ميں داخل ہوتا ہے ...
دلچسپ بات يہ ہے كہ ايك عراقى طويل سفر طے كرنے كے بعد مختلف ممالك كے لوگوں سے گفتگو كرتا ہے اور ان سب كى زبان جانتا ہے ، كيا اندلس كے باشندے بھى عربى بولتے تھے؟
دوسرى قابل توجہ بات بحر ابيض كى داستان ہے _ آپ جانتے ہيں كہ بحر ابيض روس كى جمہورياؤں كے شمال ميں واقع ہے _ وہاں يہ واقعہ نہيں پيش آسكتا تھا _ البتہ بحر متوسط كو بھى بحر ابيض كہتے ہيں _ ممكن ہے يہ داستان وہاں كى ہو ليكن اس پورے سمندر كو بحر ابيض كہا جا تا ہے نہ كہ اس مخصوص علاقہ كو جسے داستان كے راوى نے سفيد محسوس كيا تھا _ اگر كوئي مذكورہ داستان ميں مزيد غور كرے گا تو اس كا جعلى ہونا واضح ہوجائے گا _
خاتمہ پر اس بات كا ذكر كردينا ضرورى ہے _ جيسا كہ اس سے قبل آپ
282
ملاحظہ فرما چكے ہيں _ ہمارى احاديث ميں بيان ہوا ہے كہ امام زمانہ اجنبى كى طرح لوگوں كے درمياں رہتے ہيں _ عام مجموع اور حج ميں شركت كرتے ہيں اور بعض مشكلات كے حل ميں لوگوں كى مدد كرتے ہيں _
اس مطلب كے پيش نظر امام زمانہ ، مستضعفين اور حاجت مندوں كى اميد كا دور افتادہ علاقہ ، سمندر كے بيچ ميں اقامت گزيں ہونا نہايت ہى نا انصافى ہے _ آخر ميں معذرت خواہ ہوں كہ ايسى غير معتبر داستان كى تشريح كيلئے آپ كا قيمتى وقت ليا _
جلالى : امام زمانہ كى اولا ہيں يا نہيں ؟
ہوشيار: ايسى كوئي دليل نہيں ہے كہ جو شادى اور اولاد كا قطعى و يقينى طور پر اثبات و نفى كرتى ہو _ البتہ ممكن ہے خفيہ طور پر شادى كى ہو اور ايسے ہى اولا د كا بھى كسى كو علم نہ ہو اور جيسے مناسب سمجھتے ہوں عمل كرتے ہوں اگر چہ بعض دعاؤں كى دلالت اس بات پر ہے كہ امام زمانہ كى اولاد ہے يااس كے بعد پيدا ہوگى _ (1)
---------------
1_ بحار الانوار ج 52 ص 317_
|
|