|
267
امام زمانہ عج كا مسكن
فھيمى : زمانہء غيب ميں امام زمانہ كا مسكن كہاں ہے ؟
ہوشيار : آپ (ع) كے مسكن كى تعين نہيں ہوئي ہے _ شايد كوئي مخصوص نہ ہو بلكہ اجنبى كى طرح لوگوں كے در ميان زندگى بسر كرتے ہوں اور يہ بھى ممكن ہے دور افتادہ علاقوں كورہا ئشے كيلئے منتخب كيا ہو _ احاديث ميں دارد ہوا ہے كہ حج كے زمانہ ميں آپ تشريف لاتے اور اعمال و مناسك حج ميں شريك ہوتے ہيں لوگوں كوپہچانتے ہيں ليكن لوگ انھيں نہيں پہنچان پاتے _ (1)
فہيمي: ميں نے سنا ہے كہ شيعوں كا عقيدہ ہے كہ امام زمانہ اسى سرداب ميں ،جو كہ آپ سے منسوب ہے اور زيارت گاہ بنا ہوا ہے ، غائب ہوئے ہيں _ اس ميں زندگى گزارتے ہيں اور وہيں سے ظہور فرمائيں گے _ اگر اس سرداب ميں موجود ہيں تو دكھائي كيوں نہيں ديتے ؟ ان كيلئے كھانا پانى كون لے جاتاہے ؟ وہاں سے نكلتے كيوں نہيں؟ عرب كے شاعر نے اس مضمون پر مشتمل كچھ اشعار كہے ہيں جن كا مفہوم يہ ہے : كيا ابھى وہ وقت نہيں آيا كہ جس ميں سرداب اس شخص كو
---------------
1_ بحارالانوارج2ص152
268
باہرنكالے جسم تم انسان كہتے ہو؟ تمہارى عقلوں پر پتھر پڑگئے ہيں كہ عنقا اور خيالى چڑيا كے علاوہ ايك تيسرا موجود بھى ايجاد كرليا _
ہوشيار: يہ محض جھوٹ ہے اور عناد كى بناپر اس كى نسبت ہمارى طرف دى گئي ہے _ شيعوں كا يہ عقيدہ نہيں ہے _ كسى روايت ميں بيان نہيں ہوا كہ بارہويں امام سرداب ميں زندگى گزاتے ہيں اور وہيں سے ظاہر ہوں گے _ كسى شيعہ دانشور نے بھى ايسى بات نہيں كى ہے _ بلكہ احاديت ميں تو يہ ہے كہ امام زمانہ (ع) لوگوں كے درميان ہى زندگى گزارتے ہيں اور ان كے درميان آمد ورفت ركھتے ہيں _
سدير صيرفى نے امام جعفر صادق سے روايت كى ہے آپ(ع) نے فرمايا:
''صاحب الامر اس لحاظ سے حضرت يوسف سے مشابہہ ہيں كہ برادران يوسف بھى آپ (ع) كو نہيں پہچان سكے تھے جبكہ عاقل بھى تھے اور يوسف كے ساتھ زندگى بھى گزارچكے تھے _ ليكن جب يوسف (ع) كے پاس پہنچے تو جب تك يوسف (ع) نے خود اپنا تعارف نہيں كرايا اس وقت تك آپ كو نہيں پہچان سكے اور باوجوديكہ يوسف حضرت يعقوب سے اٹھارہ روز كے فاصلہ پر تھے ليكن يعقوب كو آپ كى كوئي اطلاع نہيں تھى _ خدا حضرت حجّت كيلئے بھى ايسا ہى كرے گا _ لوگوں كو اس كا انكار نہيں كرنا چاہئے _ آپ (عج) لوگوں كے درميان آتے جاتے ہيں ان كے بازار ميں تشريف لے جاتے ہيں ، ان كے فرش پر قدم رنجا ہوتے ہيں ليكن انھيں نہيں پہچان پاتا _ اسى طرح زندگى گزارتے رہيں گے _ يہاں تك خدا ظہور كاحكم فرمائے گا _ (1)
-------------
1_ بحارالانوار ج 52 ص 154_
269
اما م كى اولاد كے ممالك
جلالى : ميں نے سنا ہے كہ امام زمانہ كى بہت سے فرزندہيں جو كہ وسيع و عريض ممالك ظاہرہ ، رائقہ ، صافيہ ، ظلوم اور عناطيس ميں زندگى گزارتے ہيں اور آپ كى اولاد ميں سے لائق و شائستہ پانچ افراد ، طاہر ، قاسم ، ابراہيم ، عبدالرحمن اور ہاشم ان ممالك پر حكومت كرتے ہيں _ ان ملكو ں كے بارے ميں كہا گيا ہے كہ وہاں كى آب و ہوا اور نعمتيں بہشت برين كا نمونہ ہيں _ وہاں مكمل امن و امان ہے ، بھيڑيا اور بكرى ايك جگہ رہتے ہيں _
درندے انسانوں كو كچھ نہيں كہتے _ ان ممالك كے باشندے مكتب امام كے تربيت يافتہ شيعہ اور صالح افراد ہيں ، فتنہ و فساد كا وہاں گزر نہيں ہے _ كبھى كبھى امام زمانہ بھى ان نمونہ ممالك كے معائنہ كے لئے تشريف لاتے ہيں ، ايسى ہى اور سيكڑوں دلچسپ باتيں ہيں
ہوشيار : ان مجہول ممالك كى داستان كى حيثيت افسانہ سے زيادہ نہيں ہے _ ان كا مدرك وہ حكايت ہے جو حديقة الشيعہ ، انور نعمانيہ اور جنة الماوى ميں نقل ہوئي ہے مدعا كى وضاحت كى لئے ہم اس كے سند بيان كرتے ہيں :
داستان اس طرح نقل ہوئي ہے : على بن فتح اللہ كاشانى كہتے ہيں : محمد بن حسين علوى نے اپنى كتاب ميں سيعد بن احمد سے نقل كياہے كہ انہوں نے كہا : حمزہ بن مسيّب نے شعبان كى 8 تاريخ سنہ 544 ھ ميں مجھ سے بيان كيا كہ عثمان بن عبدالباقى نے جمادى الثانى كى 7 تاريخ سنہ 543 ھ ميں مجھ سے حكايت كى كہ احمد بن محمد بن يحيى انبارى نے دس رمضان سنہ 543 ھ ميں بتايا كہ : ميں اور دوسرے چند اشخاص عون الدين يحيى بن ہبيرہ وزير
270
كى خدمت ميں پہنچے _ اسى مجلس ميں ايك محترم اور اجنبى شخص بھى موجود تھا _ اس اجنبى نے كہا : چند سال قبل ميں نے كشتى كا سفر كيا تھا ، اتفاقاً ملاح راستہ بھٹك گيا اور ہميں ايك سربستہ راز جزيرہ پر پہنچا ديا كہ جس كے بارے ميں ہميں كوئي علم و اطلاع نہيں تھى _ ناچار كشتى سے اترے اور اس سرزمين ميں داخل ہوئے _ يہاں احمد بن محمد ان ممالك كى حيرت انگيز داستان اس اجنبى سے تفصيلا نقل كرتے ہيں اور داستان شروع كرتے ہيں _ اس داستان كو سننے كے بعد وزير مخصوص كمرہ ميں داخل ہوا اور اس كے بعد ہم سب كو بلايا اور كہا: جب تك ميں زندہ ہوں اس وقت تك تمہيں كسى سے يہ داستان نقل كرنے كى اجازت نہيں ہے _ جب تك وزير زندہ تھا ہم نے كسى سے بھى يہ داستان بيان نہ كى _ (1)
اجمالى طور پر داستان كى سند بيان كردى ہے تا كہ قارئين داستان كے ضعف كا اندازہ لگاليں تفصيل كے شائقين مذكورہ كتابوں كا مطالعہ فرمائيں _
دانشوروں پر يہ بات پوشيدہ نہيں ہے كہ ايسى حكايتوں سے ايسے ممالك كا وجود ثابت نہيں كيا جا سكتا _ اول تو اس داستان كا راوى ايك مجہول آدمى ہے كہ جس كى باتوں كا كوئي اعتبارنہيں ہے _ ثانياً يہ ممكن نہيں ہے كہ روئے زمين پر ايسے ممالك آباد ہوں اور ان كى كسى كو خبر نہ ہو خصوصاً دور حاضر ميں كہ تمام زمين كى نقشہ كشى كردى گئي ہے جو دانشوروں كى توجہ كا مركز ہے اس كے باوجود بعض لوگوں نے اس داستان سے ايسے خم ٹھوك كر دفاع كيا ہے جيسے اسلام كے مسلم اركان سے كرتے ہيں _
----------------
1_ انوار نعمانيہ طبع تبريز ج 3 ص 58_
271
كہتے ہيں : ممكن ہے وہ ممالك ابھى تك موجود ہوں اور خدا اغيار و نامحرموں سے پوشيدہ ركھے ہوئے ہو _ ليكن ميرے نقطہ نظر سے اس كے جواب كى ضرورت نہيں ہے _ ميں نہيں جانتا كہ انھيں ايسے بے مدرك اور ضعيف موضوع كو ثابت كرنے كيلئے كس چيز نے مجبور كيا ہے كہتے ہيں بالفرض ايسے ممالك آج اگر موجود نہ ہوں تو بھى كہا جا سكتا ہے كہ وہ گزشتہ زمانوں ميں تھے بعد ميں نيست و نابود ہوگئے اور ان كے باشندے متفرق ہوگئے ہيں _ يہ احتمال بھى بے بنياد ہے _ كيونكہ اگر ايسے وسيع اور شيعہ نشين ممالك آباد ہو تے تو بہت سے لوگون كو ان كى اطلاع ہوتى اور ان كے حالات و كوائف اجمالى طور پر سہى تاريخ ميں ثبت ہوتے _ يہ بات محال معلوم ہوتى ہے كہ چند بڑے ممالك موجود ہوں اور كسى كو ان كى خبر نہ ہو اور يہ سعادت صرف ايك مجہول شخص كو نصيب ہونے كے بعد ان كے آثار صفحہ روزگار سے اس طرح مٹا ديئے جائيں كہ تاريخ اور آثار قديمہ كى تحقيق ميں بھى ان كا نام و نشان نہ ملے _
علامہ ، محقق شيخ آقا بزرگ تہرانى مذكورہ داستان كو صحيح نہيں سمجھتے بلكہ اسے شك كى نگاہ سے ديكھتے اور لكھتے ہيں _ يہ داستان محمد بن على علوى كى كتاب تغازى كے آر ميں نقل ہوئي ہے _ اس سے على بن فتح اللہ كاشانى يہ سمجھ بيٹھے كہ مرقومہ داستان كتاب ہى كا جز ہے _ جبكہ يہ اشتباہ ہے _ ممكن نہيں ہے كہ داستان كتاب كا جز ہوكيونكہ يحيى بن ہبير كہ جس كے گھر يہ قضيہ پيش آيا وہ سنہ560 ھ ميں مر چكا تھا اور كتاب تغازى كے مولف اس سے دوسو سال پہلے گزرے ہيں _ اس كے علاوہ داستان كے متن ميں بھى تناقض ہے كيونكہ داستان كے ناقل احمد بن محمد بن يحيى انبارى كہتے ہيں كہ وزير نے ہم سے عہد ليا كہ مذكورہ داستان كو تم ميں سے كوئي بيان نہ كرے اور ہم نے
272
اپنے عہد كو پورا كيا چنانچہ جب تك وہ زندہ رہا اس وقت تك كسى سے بيان نہيں كى _ اس بناپر اس داستان كى حكايت وزير كى تاريخ وفات 560 كے بعد ہوئي جبكہ داستان كے متن ميں عثمان بن عبد الباقى كہتے ہيں : احمد بن محمد بن يحيى انبارى كہتے ہيں كہ يہ داستان سنہ 543 ھ ميں مجھ سے نقل كى گئي _(1)
دوسرى جگہ كہتے ہيں : عثمان بن عبد الباقى نے سات جمادى الثانى سنہ 543 ھ ميں مجھ سے حكايت كى كہ احمد بن محمد نے دس رمضان سنہ 543 ھ ميں مجھ سے بتايا : آپ جانتے ہيں كہ جمادى الثانى كے دو ماہ بعدرمضان ہے يہ كيسے ممكن ہے كہ حادثہ كے رونما ہونے سے دو ماہ قبل ہے يعنى جمادى الثانى ميں اسے كسى سے بيان كيا جائے _
ہم امام زمانہ كے محل سكونت كے موضوع ميں مجبور نہيں ہيں كہ زبر دستى پوچ دليلوں سے ''جزائر خضرائ'' جابلقا اور جابرصا كو ثابت كريں يا كہيں : آپ(ع) نے اپنى سكونت كيلئے اقليم ثامن كا انتخاب كيا ہے _
فہيمى : تو جزيرہ خضراء كى داستان كيا ہے ؟
ہوشيار : چونكہ وقت ختم ہونے والا ہے اس لئے بقيہ مطالب آئندہ جلسہ ميں بيان كروں گا اور احباب رضامندہوں تو آئندہ ميرے غريب خانہ ہى پر جلسہ منعقد ہوجائے _
-----------------
1_ الذريعہ ج 5 ص 106_
|
|