طول عمر سے متعلق تحقيقات
ميں نے ايك عربى مجلہ ميں ، ايك مقالہ پڑھاہے چونكہ ہمارى بحث سے مربوط ہے _ اس لئے آپ كى خدمت ميں اس كا ترجمہ پيش كرتاہوں _
قابل اعتماد سائنسدانوں كا كہنا ہے كہ حيوان كے بدن كے اعضاء رئيسہ ميں سے ہر ايك ميں لا محدود مدت تك زندہ رہنے كى صلاحيت موجود ہے _ اگر انسان كے سامنے ايسے عوارض و حوادث پيش نہ آئيں جو كہ اس كى حيا ت كا سلسلہ منقطع كرديں تو وہ ہزاروں سال تك زندہ رہ سكتا ہے _ ان سائنس دانوں كا قول كوئي خيال و تخمينہ نہيں ہے بلكہ ان كے تجربوں كا نتيجہ ہے _
ايك جرّاح ايك جاندار كے كٹے ہوئے جز كو اس حيوان كى معمولى زندگى سے زيادہ دنوں تك زندہ ركھنے ميں كامياب ہوگيا ہے اور اس نتيجہ پر پہنچا ہے كہ كٹے ہوئے جز كى حيات كا دارومدار اس كے لئے فراہم كى جانے والى غذا سے پر ہے جب تك اسے كافى غذا ملتى رہے گى اس وقت وہ زندہ رہے گا _
اس جراح كا نام ڈاكٹر '' الكسيس كارل'' تھا جو كہ راكفلر كے علمى ادارہ نيويارك ميں ملازم تھا _ يہ تجربہ اس نے ايك چوزہ كے كٹّے ہوئے جز پر كيا تھا ، يہ مقطوع جز آٹھ سال سے زائد زندہ رہا اور رشد كرتا رہا _ موصوف اور ديگرا افراد نے يہى تجربہ انسان كے مقطوع اجزاء جيسے عضلات قلب اور پھپڑے پر بھى كيا اور اس نتيجہ پر پہنچے تھے كہ جب تك اجزاء كو ضرورى غذا ملتى رہے گى اس وقت تك وہ اپنى حيات و نمو كا
247
سلسلہ جارى ركھيں گے _ يہاں تك كو جونس ہبكس يونيورسٹى كے پروفيسر ''ريمونڈ'' اور ''برل'' كہتے ہيں انسان كے جسم كے اعضاء رئيسہ ميں دائمى قابليت و استعداد موجود ہے _ يہ بات تجربات سے ثابت ہوچكى ہے كم از كم احتمال كو ترجيح ہے كيونكہ اجزاء كى حيات كے سلسلہ ميں ابھى تك تجربات ہورہے ہيں _ مذكورہ نظريہ نہايت ہى واضح اور اہم اور علمى غور و فكر كے بعد صادر ہوا ہے _
جسم حيوان كے اجزاء پر بظاہر مذكورہ تجربہ سب سے پہلے ڈاكٹر ''جاك لوب'' نے كہا تھا وہ بھى علمى ادارہ راكفلر ميں ملازم تھا ، جس وقت وہ مينڈك كو تلقيح نہ شدہ تخم سے پيدا كرنے والے موضوع پر تحقيق ميں مشغول تھا اس وقت اچانك اس بات كى طرف متوجہ ہوا كہ بعض انڈوں كو مدت دراز تك زندہ ركھا جا سكتا ہے اس كے برعكس بہت سے كم عمر ميں مرجاتے ہيں _ يہ قضيہ باعث ہوا كہ وہ مينڈك كے جسم كے اجزاء پر تجربہ كرے چنانچہ اس تجربہ ميں انھيں مدت دراز تك زندہ ركھنے ميں كامياب ہوا _ اس كے بعد ڈاكٹر ''ورن لويس'' نے اپنى زوجہ كے تعاون سے يہ ثابت كيا كہ : پرندے كے جنين كے اجزاء كو نمكين پانى ميں زندہ ركھا جا سكتا ہے ، اس طرح كہ جب بھى اس ميں آبى مواد كا ضميمہ كيا جائے گا اسى وقت ان كے رشد و نمو كى تجديد ہوگى _ ايسے تجربہ مسلسل ہوتے رہے اور اس بات كو ثابت كرتے رہے كہ حيوان كے زندہ خليے ايسى سيّال چيز ميں اپنى حيات كے سلسلہ كو جارى ركھ سكتے ہيں كہ جس ميں ضرورى غذائي مواد موجود ہوتا ہے _ ليكن اسى وقت تك ان كے پاس ايسى كوئي نہيں تھى جس سے وہ موت كى نفى كرتے _
ڈاكٹر كارل نے اپنے پے درپے تجربوں سے يہ ثابت كرديا ہے كہ وہ اجزاء ضعيف نہيں ہوتے جن پر تجربہ كيا جاتا ہے اور پھر جو انوں كى زندگى بھى طويل ہوتى ہے _
248
اس نے جنورى 1912 ء ميں اپنے كام آغاز كيا ، اس سلسلے ميں مشكلات پيش آئے ، ليكن اس اور اس كے عملہ نے ان پر غلبہ پاليا اور درج ذيل موضوعات كا انكشاف كيا _
الف: جب تك تجربہ كئے جانے والے زندہ خليوں پر كوئي ايسا عارضہ نہ ہو جو ان كى موت كا باعث ہو ، جيسے جراثيم كا داخل ہونا يا غذائي مواد كا كم ہونا ، تو وہ زندہ رہيں گے _
ب : مذكورہ اجزاء صرف حيات ہى نہيں ركھتے بلكہ ان ميں رشد و كثرت بھى پائي جاتى ہے _ بالكل ايسے ہى جيسے يہ اس وقت رشد و كثرت اختيار كرتے جب حيوان كے بدن كا جز ہوتے _
ج: ان كے نمو اور تكاثر كا ان كے لئے فراہم كى جانے والى غذا سے موازنہ كيا جاسكتا ہے اور اندازہ لگايا جا سكتا ہے _
د: ان پرمرور زمان كا اثر نہيں ہوتا ہے ، ضعيف و بوڑھے نہيں ہوتے بلكہ ان ميں ضعيفى كا معمولى اثر بھى مشاہدہ نہيں كيا جاتا _ وہ ہر سال ٹھيك گزشتہ سال كى نمو پاتے اور بڑھتے ہيں _ ان موضوعات سے اندازہ لگايا جا سكتا ہے كہ جب تجربہ كرنے والے ان اجزاء كى ديكھ بھال كريں گے ، انھيں ضرورى و كافى غذا ديں گے اس وقت وہ اپنى حيات اور رشد كو جارى ركھيں گے _
يہاں سے اس بات كا اندازہ لگايا جا سكتا ہے كہ بڑھاپا علت نہيں ہے بلكہ معلول و نتيجہ ہے _ پھر انسان كيوں مرتا ہے ؟ اس كى حيات كى مدت محدود كيوں ہے ، معدود افراد كى عمر ہى سو سال سے آگے كيوں بڑھتى ہے اور عام طور پر اس كى عمر ستّر يا اسى سال ہوتى ہے؟ ان سوالوں كا جواب يہ ہے كہ حيوان كے جسم كے اعضائ
249
زيادہ اور مختلف ہيں اوران كے در ميان كمال كا ارتباط و اتصال ہے _ ان ميں سے بعض كى حيات دوسرے كى زندگى پر موقوف ہے _ اگر ان ميں سے كوئي كسى وجہ سے نا تواں ہو جائے اور مرجائے تو اس كى موت كى وجہ سے دوسرے اعضاء كى بھى موت آجاتى ہے ، اس كے ثبوت كے لئے وہ موت كافى ہے جو كہ جراثيم كے حملہ سے اچانك واقع ہوجاتى ہے ، يہى چيز اس بات كا سبب ہوئي كہ عمر كا اوسط ستر ، اسى سال سے بھى كم قرار پائے بہت سے بچپنے ہى مرجا تے ہيں _
يہ ثابت ہو چكا ہے كہ ستر ، اسى سويا اس سے زيادہ سال كى عمر ، موت كى علت نہيں ہے بلكہ اس كى اصلى علت : اعضا ہيں سے كسى ايك پر عوارض ، امراض كا حملہ كر كے اسے بيكار بنانا ہے چنانچہ اعضاء كى موت واقع ہو جاتى ہے _پس جب علم عوارض كا علاج تلاش كرنے يا ان كے اثر كو بيكار بنا نے ميں كا مياب ہوجائے گا تو پھر سيكڑوں سالہ زندگى كے لئے كوئي چيز مانع ہوگى _ جيسا كہ بعض درختوں كى بہت طولانى عمر ہے ، ليكن اس بات كى توقع نہيں ہے كہ علم طب و حفظان صحت اتنى جلد اس عالى مقصد تك پہنچ جائيں گے _ ليكن اس مقصد سے نزديك ہونے اور موجود عمر كى بہ نسبت دويا تيں گنا عمر تك پہنچنا بعيد نہيں ہے _ 1_
پھر طول عمر
بر طانيہ كے ايك ڈاكٹر نے اپنے تفصيلى مقالہ كے ضمن ميں لكھا ہے : بعض
--------------------
1 _ المہدى تاليف آيت اللہ صدر منقول از مجلہ ء المقتطف شمارہ 3
250
سائنسداں ميوہ جات كے كيٹروں كى عمركو اس نوع كے ديگر كيٹروں كى طبيعى عمر سے نو سو گنا بنا نے ميں كا مياب ہوگئے ہيں _ يہ كا ميابى انھيں اس لئے ميسر آئي ہے كے انہوں نے اس جاندار كو ز ہر اور دشمنوں سے محفوظ ركھا اور اس كے لئے مناسب ما حول فراہم كيا تھا_1_
انجينئر : ميں نے بھى اپنے مطالعات كے در ميان چند علمى اور دلچسپ مقا لے ديكھے ہيں كہ جن ميں سائنسد انوں نے طول عمر كے راز ، ضعيفى و موت كے علل اور ان سے مبارزہ كے متعلق بحث كى ہے _ ليكن وقت ختم ہوگيا ہے اس لئے بہتر ہے كہ ان كا تجزيہ آيندہ جلسہ پر موقوف كيا جائے _
ہفتہ كى شب ميں جناب فہيمى صاحب كے گھر جلسہ منعقد ہوا ، ہوشيار صاحب نے انجينئر صاحب سے خواہش كى كہ اپنے مطالب بيان كريں _
انجينئر : بہتر ہے كہ ان مقالات كامتن ہى آپ حضرات كے سامنے پيش كروں شايد مشكل حل ہو سكے _
طول عمر كے بارے ميں
موت كے كارشناس و ماہر پروفسير متالينكف لكتھے ہيں : انسان كا بدن تيس ٹر يلين مختلف خليوں سے تشكيل پايا ہے وہ سب يكبار گى نہيں مر سكتے_ اس بنا پر موت موت اس وقت مسلّم ہوگى جب انسان كے مغز ميں ايسے كيميائي تغيرات واقع
----------------
1 _ منتخب الاثر ص 278 منقول از مجلہ الھلال _
251
ہوجائيں كہ جن كى مرمت ممكن نہ ہو 30 اگست 1959ء كو ڈاكٹر ہانس سيلى نے كنيڈا كے شہر مونٹرال ميں اخبارى نمائندوں كو ايك خليئےى ساخت و بافت دكھائي اور بتا يا كہ يہ زندہ خليہ حركت ميں ہے اور ہر گز نہيں مرے گا _ موصوف نے مزيد دعوى كيا كہ يہ خليہ ازلى ہے اور كہا : اگر انسان كے بافت خليہ بھى اسى شكل ميں لے آئيں تو انسان ايك ہزار سال تك زندہ رہے گا _
پر وفيسر سيلى كا خيال ہے كہ موت تھيورى كے نقطہ نگاہ سے ايك تدريجى بيمارى ہے _موصوف ہى كا نظريہ ہے كہ كوئي شخص بڑھا پے كى وجہ سے نہيں مرتا ہے كيونكہ اگر كوئي شخص ضعيفى كى وجہ سے مرے تو اس كے بدن كے خليوں كو فرسودہ اور بيكار ہوجانا چاہئے جبكہ ايسا نہيں ہے بلكہ بہت سے بوڑھوں كے مختلف اعضاء اور ان كے بدن كے خلئے سالم رہتے ہيں ان ميں كوئي نقص واقع نہيں ہوتا _ بعض لوگوں كا انتقال اس لئے اچانك ہوجاتا ہے كہ يك بيك ان كے بدن كا كوئي عضو بيكار ہوجاتا ہے اور چونكہ بدن كے تمام اعضاء ايك مشين كے پرزوں كى طرح مربوط و متصل ہيں اس لئے ايك كے بے كار ہوجانے سے سارے بيكار ہوجاتے ہيں _ پروفيسر سيلى نے اعلان كيا علم طب و ميڈيكل سائنس ايك دن اتنى ترقى كرے گا كہ فرسودہ خلئے كى جگہ انجكشن كے ذريعہ نيا خليہ انسان كے بدن ميں ركھديا جائے گا اور اس طرح انسان جب تك چاہے گا زندہ رہے گا _ (1)
اى اى مچنيكف كے نقطہ نظر سے فيزيولوجى بڑھاپے جو كہ طبيعى پيش رفت كا
--------------------
1_ مجلہ دانشمند شمارہ 7
252
نتيجہ ہے اور اس ضعيفى كو جو كہ ارگانزم كى اساس پر مختلف تاثيرات _ زہر ، امراض اور دوسرے مخصوص عوامل _ كا نتيجہ ہے ، كو معين كر سكتا ہے _ اس كے نظريات كى بنياد يہ ہے كہ انسان كا بڑھا پا ايك بيمارى ہے لہذا تمام بيماريوں كى طرح اس كا بھى علاج ہونا چاہئے اس كا نظريہ تھا كہ انسان كى زندگى موجودہ زندگى سے زيادہ ہوسكتى ہے اور مزيد آگے بڑھ سكتى ہے _ انسان كى زندگى درميان را ہ گم ہوتى ہے ، اپنى اصل منزل تك نہيں پہنچتى ، ليكن ميرے لحاظ سے تمام كوشش كرنا چاہئے تا كہ بشر بڑھاپے ، انحطاط كے بغير اپنى فيزيولوجى كى عادى ضعيفى تك پہنچ جائے _ (1)
طول عمر
پروفيسر سليہ اور اس كا عملہ ايك طويل تجربہ كے بعد اس نتيجہ پر پہنچا ہے كہ كيلشم( calcium) كا نقل و انتقال ضعيفى اور اس كى تغيرات كا عامل ہے _ كيا بڑھا پے كے عوارض كے علاج كے لئے كوئي چيز ايجاد ہوتى ہے يا نہيں؟ سليہ نے مكرر تجربوں كے بعد ، ايرون ڈكٹر ان كے مادہ كا انكشاف كيا ہے جو كيليشيم كو اجزاء تركيبى سے روكتا ہے _ اس بناپر كہاجاتا ہے كہ ضعيفى كى علامتيں اور عوارض حيوانات پر كئے جانے والے تجربوں كے ذريعہ انسان كى دست رس ميں آچكے ہيں اور اس سے تحفظ كا وسيلہ مل گيا ہے _ پروفيسر سليہ كا نظريہ ہے كہ اس بات كا تو احتمال بھى نہيں ديا جا سكتا كہ نوے سالہ انسان كو ساٹھ سالہ انسان كى زندگى كى حالت كى طرف پلٹا يا جا سكتا ہے ليكن ساٹھ
-----------------
1_ مجلہ دانشمند شمارہ 5 1342 ھ ش _
253
سالہ انسان كى زندگى كو عوارض سے بچا كر نوے سالہ عمر ميں بھى ساٹھ سالہ عمر كى حالت ميں ركھا جا سكتا ہے _ (1)
پروفيسر اتينگر نے اپنى ايك تقرير كے دوران كہا:'' جوان نسل ايك دن انسان كى جاويدانى اور ابدى حيات كو اسى طرح قبول كرے گى جيسا كہ آج لوگوں نے فضائل سفر كو تسليم كر ليا ہے _ ميرا نظريہ ہے كہ ٹيكنالوجى كى ترقى اور اس تحقيق سے جس كا ہم نے آغاز كيا ہے كم از كم آئندہ صدى كا انسان ہزاروں سال كى زندگى بسر كرے گا _ (2)
ايك روسى كتاب كا خلاصہ
روس كا مشہور سائنسدان مچنيكوف طويل العمرى كو انسان كى قديم ترين اميدوں ميں سے اسك كہتا ہے _ ليكن ابھى تك عمر ميں اضافہ كے لئے كوئي عملى طريقہ كشف نہيں ہوسكا ہے _ واضح ہے كہ طبيعى زندگى كے خاتمہ كا نام موت ہے اور كسى جاندار كو اس سے مضر نہيں ہے _
1_ ضعيفى كى علّت
انسان كا بدن تقريباً ساٹھ تريلين خليوں سے تشكيل پايا ہے _ يہ خلئے ايك منزل پر پہنچ كربوڑھے ہوجاتے ہيں اور اس صورت ميں اپنى زندگى كى ضرورت كو بڑى مشكل سے پورا كرتے ہيں _ ان كى توليد مثل ميں اختلاف پيدا ہوجاتا ہے اور اس كے بعد انسان مرجاتا
---------------
1_ دانشمند شمارہ5 3421 ہ ش
2_ دانشمند شمارہ 6 سال ششم
254
ہے _ عصبى خلئے اور مرجانے والے عضلات كى تعداد رفتہ رفتہ بڑھ جاتى ہے اور ايك كپڑے كى شكل ميں سخت ہوجاتے ہيں _ اس سخت ہونے سے ماہيچے اور اعصاب ، مرجانے اور بڑھنے والے خليوں ، جن كو اسكلروز soclerose كہتے ہيں جيسے قلب كے اسكلروز ، رگوں كے اسكلروز ، اعصاب كے اسكلروز و غيرہ _
روس كے مشہور ڈاكٹر اور فيزيولوجسٹ ايليا مچنيكوف كا خيال تھا كہ يہ وقوعہ ٹركشين كے زہر كى وجہ سے پيدا ہوتا ہے _ حيوان كے بدن ميں جراثيم جاگزين ہوجاتے ہيں اور اس زہر كو انسان اندرونى اعضا ميں پيدا كرتے ہيں اور رفتہ رفتہ زندہ خليوں كے تعمير كو مسموم كرديتے ہيں _ پالوف كا نظريہ تھا كہ اعصاب كا سلسلہ خصوصاً مغز كا خارجى دباؤ ضعيفى ميں بنيادى اثر ركھتا ہے ، نفسياتى تاثرات ، غصہ ، دل تنگى ، ياس اور وحشت سے بدن كے امراض پيدا ہوتے ہيں كہ جس سے بڑھا پا اور اس كے بعد موت آجاتى ہے _ دائمى زندگى كا خواب ايك سے زيادہ حيثيت كا حامل نہيں ہے _ ليكن انسان كى عمر بڑھانا اور ضعيفى پر غلبہ پاناممكن عمل ہے _
2_ ضعيفى شناسى اور موت شناسي
تقريباً تين سو سال قبل علم الحيات كى ايك نئي شاخ ضعيفى شناسى (cetmotologei) وجود ميں آئي _ اس علم كا مقصد بڑھا پے پر غلبہ پانے كيلئے عملى قوانين كى معرفت و شناخت ہے _ اس اور موت شناسى كے علم كے درميان لطيف رابطہ ہے ، موت سے مربوط قوانين كا مطالعہ اور ممكن حد تك اسے پيچھے ہٹانا اس علم كے مسائل ہيں جو كہ اسى لم كے قلم روكا جز ہيں ، سائنسدانوں كے نقطہ نظر كے مطابق موت ہميشہ اختلال كى وجہ سے آتى ہے جبكہ زندگى كے خاتمہ پر آنے والى موت كو فيزيالوجى كہتے ہيں_
255
اب سائنسدان عمر بڑھانے كيلئے كوئي منطقى اور طبيعى راہ كى تلاش ميں منہمك ہيں زندگى كى حد كے سلسلے ميں دانشوروں كے درميان اختلاف ہے _ پاؤلوف انسان كى طبيعى حيات كى حد سو سال قرار ديتا تھا _مچنيكوف نے يك سو چاليس سے ايك سو پچاس تك تحرير كى ہے _ جرمنى كے مشہور سائنسدان گو فلانڈ كا خيال تھا كہ انسان كى عام عمر 200 سال ہے _ انيسويں صدى كے مشہور فيزيولوجسٹ فلوگرنے 600 سال اور برطانوى ورد جربيكن نے 1000 سال تحرير كى ہے _ ليكن كوئي سائنسدان بھى اپنے مدعا پر اطمينان بخش دليل پيش نہيں كرسكا _
3_فرانسوى بوفوںكا فريضہ
فرانس كے مشہور طبيعى داں بوفون كا نظريہ تھا كہ ہر جاندار كى مدت عمر اس كے رشد كے زمانہ كے پانچ گناہوتى ہے _مثلاً شتر مرغ كے نمو كى عمر آٹھ سال ہے تو اس كى عمر كا اوسط چاليس سال ہے _ گھوڑے كے رشد كا زمانہ 3 سال ہے تو اس كى عمر 15_ 20 سال ہوتى ہے _ بوفون نے اس طرخ نتيجہ نكالا ہے كہ انسان كے نمو كى مدت 20 سال ہے لہذا اس كى عمر كا اوسط 100 سال ہے _ ليكن بوفون كے فارمولہ ميں بے پناہ استثنائي موارد ہيں اسى لئے اسے اہميت نہيں دى گئي ہے كيونكہ گوسفند كے رشد كى عمر پانچ سال ہے اور اس كى كل عمر 10_ 15 سال ہوتى ہے _ طوطے كى رشد كا زمانہ 12 سال ہے ليكن سو سال تك زندہ رہتا ہے _ با وجوديكہ شتر مرغ كے رشد كى عمر تين سال ميں ختم ہوجاتى ہے ليكن 30_40 سال تك زندہ رہتا ہے _ سائنسدان ابھى انسان كى طبيعى زندگى كى يقينى سر حد معين نہيںكر سكے ہيں _ ليكن ان ميں سے اكثر كا نظريہ ہے كہ عمر گھٹا نے والے اختلال اور بيماريوں كو رفع كركے انسان كى عمر كو 200 سال تك بڑھايا
256
جا سكتا ہے _ يہ نظريہ بھى ابھى تك تھيورى ہى كى صورت ميں موجود ہے مگر اسے موہوم اور غير حقيقى نہيںقرار ديا جا سكتا _
4_ انسان كى متوسط عمر
قديم يونان ميں انسان كى متوسط عمر 29 سال اور قديم روم ميں اسے كچھ زيادہ تھى سولھويں صدى ميں يورپ ميں انسان كى عمر 21 سال ، ستر ہويں صدى ميں 26 سال اور انيسويں صدى ميں متوسط عمر 34 سال تھى _ ليكن بيسويں صدى كى ابتداء ميں يہ شرح يكبارگى 45_50 تك پہنچ گئي _ مذكورہ شرح يورپ سے متعلق ہے _ آج كے دنيا ميں طويل العمرى اور موت كے كم ہونے كى بہترين دليل بچے ہيں _ ليكن پسماندہ اور ترقى يافتہ ممالك ميں اس سلسلے ميں بہت زيادہ اختلاف ہے _ مثلاً روس ميں متوسط عمر 71 سال اور ہندوستان ميں 30 سا ل ہے _
حيوانات كے درميان انسان كى عمر اوسط كوئي زيادہ نہيں ہے انسان كى عمر كے نسبى اوسط (60_80) كا ذيل ميں موازنہ ملاحظہ فرمائيں:
بطخ 300سال گول مچھلى 150سال
كچھوا 170سال مينڈك 16سال
چھپكلي 36سال طوطا 90 سال
كوّا 70سال جنگلى مرغى 80 سال
شتر مرغ 40 - 35 سال جالاقان 118سال
عقاب 104 سال شاہين 162 سال
گھوڑا گائے 25 - 30 سال گوسفند 14_12 سال
257
بكرى 27_18 سال كتّا 22_16 سال بلّى 12_ 10 سال
5_ روسى سائنسدان مچنيكوف كا نظريہ
اگر ايليا مچنيكوف كے نظريہ ميں غور كيا جائے تو انسان كے نسبى سن كا چند جانوروں سے اختلاف واضح ہوجائے گا _ مچنيكوف مرگ مفاجات اور بڑھاپے كى علت خليوں كى مسموميت اور بيكيڑيا كے جسم كے اندر زہر پھيلانے كو قرار ديتا ہے _ يا درہے بدن كے ديگر حصّوں سے زيادہ : Rotrotic، بيكٹيريا كا محبوب حصّہ ہے _
تخمينہ كے طور پر كہا جا سكتا ہے كہ يہاں روزانہ 130 ٹريلين جراثيم پيدا ہوتے ہيں Rotrotic كے بہت سے جراثيم بدن كو نقصان نہيں پہنچاتے ليكن ان ميں سے بعض زہريلے ہوتے ہيں _ يہ بدن كو اندر سے اپنے زہر كے وسيلہ سے قتل كى طرح مسموم كرتے ہيں _ احتمال ہے كہ بدن كے خلئے اور اس كا نظام ( بافتہا) اس زہر كى وجہ سے جلد بوڑھا ہوجاتا ہے _ مذكورہ جدول سے َعلوم ہوتا ہے كہ پيٹ كے بل چلنے والى مچھلياں اور پرندے پستان دار جانوروں سے زيادہ زندہ رہتے ہيں _ كيونكہ ان جانوروں كے اندر فراخ Rotrotic نہيں ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو ايسى ميں رشد بہت كم ہوتا ہے _ پرندوں ميں صرف شتر مرغ فراخ Rotrotic ہوتا ہے ، اور جيسا كہ جدول سے سمجھ ميں آتا ہے اس كى عمر بھى 30_ 40 سے زيادہ نہيں ہوتى ہے _ ان حيوانات ميں كچھ جگالى كرنے والے ہيں كہ انكى زندگى سب سے كم ہوتى ہے _ اس كى وجہ شايد ان كے اندر فراخ كى نمو ہے _ جمگادڑ كے اندر بھى ايك چھوٹا Rotrotic ہوتا ہے چنانچہ حشرہ خوار جانوروں ميں چمگاڈر كے ہم بدن سے زيادہ اس كى عمر ہوتى ہے _ خيال كيا جاتا ہے كہ انسان كى زندگى ميں rotrotic كے فراخ و طويل ہونا بھى دخيل ہے _ ليكن اسے زيادہ اہميت نہيں ہے كہ جس كا مچنيك نے اظہار كيا ہے _ بعض افراد نے آپريشن كے ذريعہ فراخ Rotrotic كو انكلواديا تو
258
مدتوں زندہ رہے _ يہ بات مسلّم ہے كہ بدن كيلئے اس عضو كا وجود ضرورى نہيں ہے ليكن ايسے افراد بھى موجود ہيں جنہوں نے فراخ Rotrotic كے باوجود طويل عمر بسر كى ہے _ ضعيفى شناسى كے دانشوروں نے ايسے افراد كى تحقيقى كى ہے _
6_ مستقبل كا انسان طويل عمر پائے گا
جن لوگوں نے دنيا ميں ايك سو پچاس سال سے زيادہ زندگى گزارى ہے وہ انگشت شمار ہيں ، ان ميں سے جن كے نام كتابوں ميں مرقوم ہيں وہ درج ذيل ہيں:
سنہ 1724 ء ميں ايك دہقان مجار 185 سال كى عمر ميں مرا ، جو كہ اپنى آخرى عمر تك جوانوں كى طرح كام كرتا تھا _
ايك اور شخص جان راول كيعمر مرتے دم 170 سال تھى اور اس كى زوجہ كى 164 سال تھى _ 130 سال انہوں نے ازدواجى زندگى بسر كى _
ايك آلبانوى باشندہ ، خودہ 170 سال تك زندہ رہا _ مرتے دم اس كے پوتے ، پوتيوں نواسے نواسيوں اور ان كى اولاد كى تعداد 200 تھى _
چند سال قبل اخباروں ميں شائع ہوا تھا كہ جنوبى امريكہ ميں ايك شخص مرا ہے جس كى عمر 207 سال تھى _
روس ميں ايسے تيس ہزار افراد ہيں جو كہ اپنى زندگى كى دوسرى صدى گزار رہے ہيں _ اب روس كے سائنسدان بڑھاپے كى علت اور طول عمر كے راز كے انكشاف كرنے ميں مشغول ہيں _ يقينا مستقبل ميں علم انسان ضعيفى پر قابو پالے گا اور نتيجہ ميں انسان اپنے آبا و اجداد سے زيادہ عمر پائے گا _ (1)
-----------------------
1_ مجلہ دانشمند شمارہ 1 ، سال ششم
259
موت كى علّت كے سلسلہ ميں غير معروف فرضيہ
اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ بدن سے روح كے جدا ہونے كا نام موت ہے ، ليكن يہ بات موضوع بحث ہے كہ كيا روح كى مفارقت كى علت بدن اور اس كے عوارض ہيں؟كيا جسم ہى موت كے اسباب فراہم كرتا ہے؟
اكثر علماء اور اطبّاء نے پہلے نظريہ كو تسليم كيا ہے وہ كہتے ہيں: جب بدن كى غريزى حرارت ختم ہوجاتى ہے تو بدن كا عام نظام درہم و برہم ہوجاتا ہے اور اس كے آلات و قوا بيكار ہوجاتے ہيں ، بدن كے اعضاء رئيسہ فرسودہ ہوجاتے ہيں ، بقا كى صلاحيت سے ہاتھ دھو بيٹھتے ہيں اور چونكہ روح اس فرسودہ جسم كى حيات كو جارى ركھنے اور اسے چلانے سے عاجز ہوجاتى ہے اس لئے اس سے جدا ہوجاتى ہے اور موت واقع ہوتى ہے _
ليكن اس گروہ كے مقابل ميں بڑے اسلامى فلاسفر مرحوم ملاّ صدرا دوسرے نظريہ كو تسليم كرتے ہيں ،وہ اپنى كتاب ''اسفار'' ميں لكھتى ہيں :'' جسم كى حفاظت اور اسے چلانے كى ذمہ دارى روح پر ہے _ جب تك اسے بدن كى زيادہ ضرورت رہتى ہے اس وقت تك وہ بدن كى حفاظت و نگہبانى ميں كوشاں رہتى ہے ، ہر طرح سے اس كا تحفظ كرتى ہے _ ليكن جب وہ مستقل اور بدن سے مستغنى ہوجاتى ہے تو پھر بدن كى طرف توجہ نہيں ديتى جس كے نتيجہ ميں ضعف ، سستى اور اختلال پيدا ہونے لگتا ہے اور فرسودگى و ضعيفى آجاتى ہے يہاں تك كہ روح بدن كے امور كو بالكل نظر انداز كرديتى ہے اور طبيعى موت واقع ہوجاتى ہے ''_
احباب جانتے ہيں كہ اگر دوسرا نظريہ ثابت ہوجائے اور موت كا اختيار روح كے ہاتھ ميں ہوتو صاحب الامر كى طول عمر كے موضوع كى راہ ہموار ہوجائے گى _ يہ كہا
260
جا سكتا ہے كہ : چونكہ آپ (ع) كى روح كو دنيائے انسانيت اور عالم كى اصلاح كے لئے آپ كے وجود كى ضرورت ہے _ اس لئے بدن كى حفاظت و نگہبانى ميں مستقل كوشش كرتے ہے اور اپنى جوانى و شادابى كو محفوظ ركھتى ہے _
آخر ميں اس بات كى وضاحت كردينا بھى ضرورى ہے كہ ميں اس وقت اس مدعا كى صحت كو ثابت نہيں كرنا چاہتا ہوں اور نہ اس سے دفاع كى خواہش ہے _ سردست ميں نے دوستوں كے سامنے غير معروف فرضيہ كے عنوان سے پيش كيا ہے _ مجھے اس با ت كا اعتراف ہے كہ يہ غير مانوس اور نئي بات ہے ليكن بغير غور و فكر كے اسے باطل نہيں سمجھنا چاہئے _ قطعى فيصلہ اس وقت كيا جا سكتا ہے جب حقيقت نفس ، بدن پر اسكى تاثير كى مقدار اور اس كى ارتباط كى كيفيت و تاثير بخوبى پہچان لى جائے اور يہ بہت دشوار ہے كہ اس ميں فلسفى و نفسياتى اور بيالوجى كے ايك طويل سلسلہ كے تجربہ كى ضرورت ہے _ ابھى انسان كا علم اس حد تك نہيں پہنچاہے كہ حقيقت نفس اور اس كے بدن سے ارتباط كے بارے ميں فيصلہ كرلے بلكہ ابھى وہ اپنے نفس و نفسيات كے ابتدائي مراحل طے كررہا ہے _ اگر علم آدمى كى روح و تن كى طرف متوجہ ہوگيا ہوتا تو يقينا ہمارى دنيا كى حالت كچھ اور ہى ہوتى _
ڈاكٹر اكلسيس كارل اپنى كتاب '' انسان موجود ناشناختہ ، ميں لكھتا ہے ، ہميں بھى اپنى وجودى تعمير كے بارے ميں كافى علم حاصل نہيں ہوا ہے ،اگر نيوٹن ، گاليلہ اور لاوازيہ اپنى فكرى صلاحيت انسان كے بدن و نفسيات كے مطالعہ پر صرف كرتے تو ہمارى دنيا كى حالت ہى بدل گئي ہوتى _
261
نتيجہ
ہوشيار: مذكورہ مطالب سے چند چيز يں سمجھ ميں آتى ہيں:
1_ انسا ن كى عمر كوئي حد معين نہيں ہے كہ جس سے تجاوزنا ممكن ہو _ كسى بھى سائنسدان نے ابھى تك يہ نہيں كہا ہے كہ انسان كى عمر كا فلاں سال اس كے كاردان حيات كى آخرى منزل ہے اس پر قدم ركھتے ہى موت آجائے گى _ بلكہ مشرق و مغرب كے جدى و قديم سائنسدانوں كے ايك گروہ نے تصريح كى ہے كہ انسا ن كى عمر كى كوئي حد نہيں ہے _ ممكن ہے انسان آئندہ موت پر قابو پالے يا اسے كافى حد تك پيچھے ہٹادے كہ جس سے طولانے عمر پائے _ اس علمى اميد كى كاميابى نے سائنسدانوں كو شب و روز كى كوشش اور تحقيق و تجربہ پر مجبور كيا ہے چنانچہ ابھى تك اس سلسلہ ميں جو تجربات ہوئے ہيں وہ كامياب رہے ہيں _
ان تجربات نے يہ ثابت كرديا كے موت بھى تمام بيماريوں كى طرح كچھ طبيعى علل و عوامل كا نتيجہ ہے اگر ان عوامل كو پہنچان ليا جائے اور ان كے اثرات كو روك ديا جائے تو موت كو پيچھے ہٹا يا جا سكتا ہے اور انسان كو اس خوفناك ہيولے سے نجات دلائي جا سكتى ہے _ جس طرح علم نے آج تك بہت سى بيماريوں كے علل و عوامل كو كشف كرليا ہے اوراس كى تاثير كا سد باب كرديا ہے _ اسى طرح مستقبل قريب ميں موت كے اسباب و علل كو پہچاننے اور اس كے اثرات كو ناكام بنانے ميں كامياب ہوجائے گا _
2_ نباتات ، حيوانات اور انسانوں كے درميان ايسے افراد موجود ہيں كو جو اپنى نوع كے ديگر افراد سے ممتاز ہيں اور ان سے زيادہ طويل عمر پائي ہے _ ايسے استثنائي افراد كا وجود اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ اس نوع كے افراد كى عمر كى ايسى كوئي حد نہيں ہے كہ جس سے آگے بڑھنا محال ہو _ يہ صحيح ہے كہ اكثر انسان سو سال
262
كى عمر سے پہلے ہى مرجاتے ہيں ليكن عمر كى اس مقدار سے مانوس ہونا اس بات كى دليل نہيں ہے كہ سوسال سے زيادہ عمر كا امكان ہى نہيں ہے _ كيونكہ ايسے بہت سے افراد گزرے ہيں جنہوں نے سو سال سے زيادہ عمر بسر كى ہے _ ايك سو پچاس سالہ ، ايك سو اسى سالہ اور دو سو پچاس سالہ انسان كاوجود اس بات كى واضح دليل ہے كہ عمر انسان كى كوئي حد معين نہيں ہے _ دو سو پچاس سال اور دو ہزار سال زندگى گزارنے ميں كوئي فرق نہيں ہے دونوں غير مانوس ہيں _
3_ ضعيفى كوئي ايسا عارضہ نہيں ہے كہ جس كا كوئي علاج نہ ہو بلكہ يہ قابل علاج بيمارى ہے جيسا كہ علم طب نے آج تك بہت سى بيماريوں كے علل و اسباب كشف كرلئے ہيں اور انسان كو ان كے علاج كا طريقہ بتاديا ہے اسى طرح مستقبل ميں ضعيفى و بڑھاپے كے عوامل كشف كرنے ميں بھى كامياب ہوجائے گا اور ان كا علاج انسان كے اختيار ميں ديدے گا _ سائنسدانوں كا ايك گروہ اكسير جوانى كى تلاش ميں ہے اور انتھك كوشش و تحقيق اور تجربات ميں مشغول ہے ، ان كے تجربات كامياب رہے ہيں كہ جن كو ملحوظ ركھتے ہوئے يہ كہا جا سكتا ہے كہ مستقبل قريب ميں انسان ضعيفى اور فرسودگى كے عوامل پر قابو پاليگا اور ان عام بيماريوں كے علاج كا طريقہ تلاش كرے گا _ اس صورت ميں انسان عرصہ دراز تك اپنى جوانى و شادابى كو ملحوظ ركھے گا _
مذكورہ مطالب اور سائنسدانوں كى تصديق كى مدنظر ركھتے ہوئے آپ ہى فيصلہ كيجئے كہ اگر كوئي انسان جسمانى ساخت و تركيب كے لحاظ سے نہايت ہى معتدل ہو ، اس كے اعضاء رئيسہ ، قلب ، اعصاب ، پھيپھڑے ، جگر ، مغز اور معدہ سب قوى اور سالم ہوں _ وہ حفظان صحت كے تمام اصولوں سے واقف ہو اور ان پر
263
كاربند ہو _ مشروبات و ماكولات كے خواص و فوائد جانتا ہو ، ان ميں سے مفيد كو استعمال اور مضر سے پرہيز كرتا ہو ، جراثيم اور ان كى پيدا دار كے عوامل كو پہچانتا ہو ، امراض اور خصوصاً ضعيفى كے علاج سے آگاہ ہو _ زہر و مہلكات سے باخبر ہو ، ان سے اجتناب كرتا ہو ، بدن كى ضرورى احتياج كو غذا اور وٹامن و غيرہ سے پورا كرتا ہو ، والدين اور اجداد سے كوئي بيمارى ميراث ميں نہ پائي ہو ، برے اخلاق ، پريشان خيالى ، جو كہ اعصاب و مغز كى فرسودگى اور ديگر بيماريوں كا باعث ہوتى ہے ، سے محفوظ ہو ، اس ميں ايسے تمام نيك اخلاق موجود ہوں جو روح و جسم كے سكون كا باعث ہيں اور ان تمام چيزوں كے علاوہ اس كے جسم كا حاكم و مدير انسانى كمال كے اعلى درجہ پر ہو تو ايسے انسان ميں ہزاروں سال زندگى گزارنے كى صلاحيت ہوگى _ ايسى طويل عمر كو عمل و دانش نہ صرف يہ محال قرار نہيں ديتے بلكہ اس كے امكان كا اثبات كرتے ہيں _
اس بناپر امام زمانہ كى طويل عمر كو محال اور لا ينحل مشكل نہيں قراردينا چاہئے _ كہ علم بہت طويل عمر كو جوانى و شادابى كى طاقت كى حفاظت كے ساتھ ممكن قرارديتا ہے _ اگر كسى شخص كا وجود عالم كيلئے ضرورى ہو اور طويل عمر در كار ہو تو قادر مطلق خدا دنيا كے علل و معلولات اور خلقت كى مشينرى كو اس طرح منظم كرے گا كہ جو ايسا كامل انسان پيدا كرے گى جو ضرورى علم و اطلاعات كاحامل ہوگا _
ڈاكٹر:مذكورہ مطالب صرف ايسے ممتاز انسان كے وجود كو ثابت كرتے ہيں ليكن يہ بات كہاں سے ثابت ہوئي كہ ايسا انسان موجود بھى ہے؟
ہوشيار: عقلى و نقلى دليلوں سے يہ ثابت ہوچكا ہے كہ نوع كى بقا كيلئے
264
امام كا وجود ضرورى ہے اور بہت سى احاديث كا اقتضا ہے كہ امام صرف بارہ ہوں گے اور يہ بھى ثابت ہوچكا ہے كہ بارہويں امام ،امام حسن عسكرى كے بلا فصل فرزند مہدى موعود ہيں جو كہ پيدا ہوچكے ہيں اور اب پردہ غيب ميں ہيں _ اس سلسلہ ميں سيكڑوں حديثيں نقل ہوئي ہيں _ مذكورہ مطالب اور دانشوروں كى تائيد كے بعد ہم نے ايسے غيرمتعارف عمر كے امكان كو ثابت كيا ہے _
تاريخ كے درازعمر
انجينئر : يہ كيسے ممكن ہے كہ خلقت كى مشنرى نے صرف امام زمانہ ہى كو اتنى طويل عمر عطا كى ہے جسكى مثال نہيں ملتى ؟
ہوشيار: دنيا ميں ايسے افراد كمياب تھے اور ہيں _ منجملہ ان كے حضرت نوح (ع) ہيں _ بعض مورخين نے آپ(ع) كى عمر 2500 سال تحرير كى ہے _ توريت ميں 950 سال مرقوم ہے _
قرآن مجيد صريح طور پر كہتا ہے كہ حضرت نوح (ع) نے 950 سال تك اپنى قوم كو تبليغ كى چنانچہ سورہ عنكبوت ميں ارشاد ہے كہ :
اور ہم نے نوح كو ان كى قوم كى طرف بھيجا اور وہ ان كے درميان نو سو پچاس سال رہے پھر قوم كو طوفان نے اپنى گرفت ميں لے ليا كہ وہ ظالم لوگ تھے _(1)
----------------
1_ عنكبوت/14_
265
اگر ہم مورخين كے قول كى تكذيب بھى كرديں تو قرآن مجيد ميں كسى قسم كے شك گنجائشے ہى نہيں ہے كہ جس نے حضرت نوح كى تبليغ كا زمانہ 950 سال بتا يا ہے جبكہ يہى عمر غير معمولى ہے _
انجينئر : ميں نے سنا ہے كہ يہ آيت متشابہات ميں سے ہے؟
ہوشيار : متشابہات ميں سے سے كيسے ہوسكتى ہے _ كيا مفہوم و معنى كے لحاظ سے مجمل و مبہم ہے ؟ عربى زبان سے جو شخص معمولى شد و بد بھى ركھتا ہے وہ اس آيت كے معنى كو بخوبى سمجھ سكتا ہے _ اگر يہ آيت متشابہات ميں سے ہے تو قرآن ميں كوئي محكم آيت نہيں ملے گى ميں ايسے افراد كى بات كے بے معنى سمجھتا ہوں يا انھيں قرآن كا منكر كہا جائے كہ جن كے اظہار كى جرات نہيں ركھتے تھے _
مسعودى نے اپنى كتاب ميں كچھ طويل العمر لوگوں كے نام مع ان كى عمروں كے درج كئے ہيں ، منجملہ ان كے يہ ہيں :
حضرت آدم كى عمر : 930 سال ، حضرت شيث : 912 سال ، انوشّ : 960 سال قينان : 920 سال _ مہلائل : 700 سال ، لوط : 732 سال ، ادريس : 300 سال
متو شلخ : 960 سال ، لمك : 790 سال ، نوح : 950 سال ، ابراہيم : 195 سال كيو مرث : 1000 سال ، جمشيد : 600 يا 900 سال ، عمربن عامر : 800 سال عاد : 1200 سال _ 1
اگر آپ تاريخ وحديث اور توريت كا مطالعہ فرمائيں گے تو ايسے بہت سے
----------------
1_ مروج الذہب ج 1 و 2
266
لوگ ميلں گے _ ليكن واضح رہے كہ ان عمروں كا مدارك توريت يا اس كى تواريخ ہيں اور اہل تحقيق پر ان كى حالت پوشيدہ نہيں ہے يا خبر واحد مدرك ہے جس سے يقين حاصل نہيں ہوتا يا غير معتبر تواريخ مدرك ہيں _ بہر حال مبالغہ سے خالى نہيں ہيں اور چونكہ ان كى صحت مجھ پر واضح نہيں ہے اس لئے ان سے استدلال و بحث سے چشم پوشى كرتا ہوں اور صرف حضرت نوح كى طويل العمرى ہى كو ثبوت ميں پيش كرنے پر اكتفا كرتا ہمں اگر تفصيل چاہتے ہيں تو المعمروں و الوصايا مولفہ ابى حاتم سجتانى اور ابوريحان بيرونى كى الآ ثار الباقيہ اور تاريخ كى كتابوں كا مطالعہ فرمائيں _
|