آفتاب عدالت
  195
امام زمانہ اگر ظاہر ہوتے تو كيا حرج تھا ؟
انجينئر : اگر امام زمانہ لوگوں كے درميان آشكار طور پر رہتے ، دنيا كے كسى بھى شہر ميں زندگى بسر كرتے ، مسلمانوں كى دينى قيادت كى زمام اپنے ہاتھوں ميں ركھتے اور شمشير كے ساتھ قيام اور كفر كاخاتمہ كرنے كيلئے حالات سازگار ہونے تك ايسے ہى زندگى گزارتے تو كيا حرج تھا؟
ہوشيار : اچھا مفروضہ ہے ليكن اس كا تجزيہ كرنا چاہئے كہ اس سے كيا نتائج بر آمد ہوئے _ ميں حسب عادت موضوع كى تشريح كرتا ہوں _
پيغمبر اكرم (ص) اور ائمہ اطہار نے بارہا يہ بات لوگوں كے گوش گزار كى تھى كہ ظلم وستم كى حكومتيں مہدى موعود كے ہاتھوں تباہ ہوں گى اور بيداد گرى كا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے لوگوں كے دو گروہ ہميشہ امام زمانہ كے وجود مقدس كے منتظر رہے _ ايك مظلوم و ستم رسيدہ لوگوں كا گروہ جو كہ ہميشہ اكثريت ميں رہا ہے _ وہ حمايت و دفاع كے قصد سے امام زمانہ كے پاس جمع ہوئے اور انقلاب و دفاع كا تقاضا كرتے تھے _ يہ ہميشہ ہوتا تھا كہ ايك بڑا گر وہ آپ كا احاطہ كئے رہتا اور انقلاب كا تقاضا كرتا تھا _
دوسرا اگر وہ خونخوار ستمگروں كارہا ہے جس كا پسماندہ اور محروم قوموں پر تسلط رہا ہے يہ ذاتى مفاد كے حصول اور اپنے منصب كے تحفظ ميں كسى بھى برے سے برے

196
كام كو انجام دينے سے پرہيز نہيں كرتا تھا اور پورى قوم كو اپنے مفاد پر قربان كرنے كيلئے تيار رہتا تھا_ يہ گروہ امام زمانہ كے وجودكو اپنے شوم مقاصد كى راہ ميں مانع سمجھتا اور اپنى فرمان روائي كو خطرہ ميں ديكھتا تھا تو آپ كا خاتمہ كركے اس عظيم خطرہ سے نجات حاصل كرنا چاہتا تھا _ اس منصوبہ ميں وہ سب متحد ہوگئے تا كہ عدالت و دادخواہى كى جڑيں اس طرح كاٹ ديں كہ پھر سر سبز نہ ہو سكيں _

موت سے دڑ
جلالى : امام زمانہ اگر معاشرہ كى اصلاح ، دين كى ترويج اور مظلوموں سے دفاع كرتے ہوئے قتل ہوجاتے تو اس ميں كيا حرج تھا؟ كيا ان خون ان كے آباء و اجداد كے خون سے زيادہ عزيز ہے ؟ موت سے كيوں دڑتے تھے؟
ہوشيار : دين و حق كى راہ ميں قتل ہونے سے امام زمانہ اپنے آبا ء و اجداد كى طرح نہ ڈرتے تھے اور نہ ڈرتے ہيں _ ليكن ان كے قتل ہونے ميں معاشرہ اور دين كى صلاح نہيں ہے _ كيونكہ ہر شہيد ہونے والے امام كے بعد دوسرا امام اس كا جانشين ہوا ہے ليكن اگر امام زمانہ قتل ہوجائيں تو پھر كوئي جانشين نہيں ہے _ اور زمين حجّت خدا كے وجود سے خالى ہوجائے گى _ جبكہ يہ مقدر ہوچكا ہے كہ آخر كار حق باطل پر غالب ہوگا اور امام زمانہ كے ذريعہ دنيا كى زمام حق پرستوں كے ہاتھوں ميں آئے گى _

كيا امام كى حفاظت كرنے پر خدا قادر نہيں ہے؟
جلالى : كيا خدا امام زمانہ كو دشمنوں كے شرسے بچانے اور ان كى حفاظت پر قادر

197
نہيں ہے؟
ہوشيار : باوجوديكہ خدا كى قدرت لا محدود ہے ليكن اپنے امور كو وہ اسباب و عادات كے مطابق انجام ديتا ہے _ ايسا نہيں ہے كہ وہ انبياء و ائمہ كى حفاظت اور دين كى ترويج ميں عام اسباب و علل سے دست بردار ہوجائے اور عادت كے خلاف عمل كرے اور اگر ايسا كرے گا تو دنيا اختيار و امتحان كى جگہ نہ رہے گى _

ستمگران كے سامنے سراپا تسليم ہوجاتے
جلالى : اگر امام زمانہ ظاہر ہوتے اور كفار و ستمگر آپ كو ديكھتے ، آپ كى برحق باتيں سنتے تو ممكن تھا كہ وہ آپ كو قتل نہ كرتے بلكہ آپ كے ہاتھوں پر ايمان لاتے اور اپنى روش بدل ديتے _
ہوشيار: ہر شخص حق كے سامنے سراپا تسليم نہيں ہوتا ہے بلكہ ابتداء سے آج تك لوگوں كے درميان ايك گروہ حق و صحت كا دشمن رہا ہے اور اسے پا مال كرنے كيلئے اپنى پورى طاقت صرف كى ہے _ كيا انبياء و ائمہ اطہار حق نہيں كہتے تھے؟ كيا ان كى برحق باتيں اور معجزات ستمگروں كى دست رس ميں نہيں تھے؟ اس كے باوجود انہوں نے چراغ ہدايت كو خاموش كرنے كے سلسلے ميں كسى كام سے دريغ نہ كيا _ صاحب الامر بھى اگر خوف كے مارے غائب نہ ہوئے ہوتے تو ان كے ہاتھوں اسير ہوجاتے _

خاموش رہو تا كہ محفوظ رہو
ڈاكٹر : ميرے نقطہ نظر سے اگر امام زمانہ كلى طور پر سياست سے عليحدہ رہتے

198
اور كفار و ستمگروں سے كوئي سروكار نہ ركھتے ، ان كے اعمال كے مقابل سكوت اختيار كرتے اور اپنى دينى و اخلاقى راہنمائي ميں مشغول رہتے تو دشمنوں كے شر سے محفوظ رہتے _
ہوشيار : چونكہ ستمگروں نے يہ بات سن ركھى تھى كہ مہدى موعود ان كے دشمن ہيں اور ان كے ہاتھوں ظلم كا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے وہ آپ كے سكوت پر اكتفا نہ كرتے _ اس كے علاوہ جب مومنين يہ ديكھتے كہ آپ ظلم و ستم كو خاموشى سے ديكھ رہے ہيں ، ايك دو سال سے نہيں بلكہ سيكڑوں سال سے اس كا مشاہدہ كررہے ہيں كہ امام كسى رد عمل كا اظہار نہيں كرتے تو وہ بھى آہستہ آہستہ دنيا كى اصلاح اور حق كى كاميابى سے مايوس ہوجاتے اور پيغمبر اكرم و قرآن مجيد كى بشارتوں ميں شك كرنے لگتے _ ان تمام چيزوں كے علاوہ مظلوم لوگ آپ كو سكوت كى اجازت نہ ديتے _

عدم تعرض كا معاہدہ
انجينئر : وقت كے ستمگروں سے عدم تعرض كا معاہدہ كرنے كا امكان تھا وہ اس طرح كہ آ پ(ع) ان كے كسى كام ميں مداخلت نہيں كريں گے اور چونكہ آپ كى امانت دارى و نيك منشى مشہور تھى اس لئے آپ كے معاہدے محترم اور اطمينان بخش ہوتے اور ستمگروں كو بھى آپ سے سروكار نہ ہوتا _
ہوشيار: مہدى موعود كا پروگرام تمام ائمہ اطہار كے پروگرام سے مختلف ہے _ ائمہ كو تا حد امكان ترويج دين اور امر بالمعروف و نہى از منكر كيلئے مامور كيا گيا تھا ، جنگ كے لئے نہيں _ ليكن ابتداء ہى سے يہ مقدر تھا كہ مہدى كى سيرت و رفتار ان سے مختلف ہوگى ، وہ ظلم اور باطل كے مقابلہ ميں سكوت نہيں كريں گے اور

199
جنگ و جہاد كے ذريعہ ظلم و جور كى بيخ كنى كريں گے اور ستمگروں كے خودسرى كى محلوں كو منہدم كريں گے _
ايسى سيرت و رفتار مہدى كى علامتيں اور خصوصيات شمار كى جاتى تھيں_ ہر امام سے كہا جاتاتھا كہ ستمگروں كے خلاف قيام كيوں نہيں كرتے؟ فرماتے تھے : مہدى تلوار سے جنگ كريں گے ، قيام كريں گے جبكہ ميرے اندر يہ خصوصيات نہيں ہيں اور ان كى طاقت بةى نہيں ہے _ بعض سے دريافت كيا جاتا تھا: كيا آپ(ع) ہى قائم ہيں؟ فرماتے تھے : ميں قائم بر حق ہوں ليكن و ہ قائم نہيں ہوں جو زمين كو خدا كے دشمنوں سے پاك كريں گے _ بعض كى خدمت عرض كيا جاتا تھا: ہميں اميد ہے كہ آپ ہى قائم ہيں _فرماتے تھے: ميں قائم ہوں ليكن جو قائم زميں كو كفر و ظلم سے پاك كريں گے وہ اور ہيں _ دنيا كى پريشان حالى ، ابترى ، ظالموں كى ڈكٹيڑى اور مومنين كى محروميت كى شكايت كى جاتى تھى تو فرماتے تھے: مہدى كا انقلاب مسلّم ہے _ اسى وقت دنيا كى اصلاح ہوگى اور ظالموں سے انتقام ليا جائے گا _ مومنين كى قلّت اور كافروں كى كثرت و طاقت كى اعتنا كى جاتى تو ائمہ شيعوں كى ڈھارس بندھاتے اور فرماتے تھے: آل محمد كى حكومت حتمى اور حق پرستى كى كاميابى يقينى ہے _ صبر كرو اور فرج آل محمد (ص) كے منتظر رہو اور دعا كرو، مومنين اور شيعہ ان خوش خبريوں سے مسرور ہوتے اور ہر قسم كے رنج و غم كو برداشت كرنے كيلئے تيار ہوجاتے تھے ''_
اب آپ ہى فيصلہ فرمائيں كہ مومنين بلكہ بشريت كو جو مہدى سے توقعات ہيں ان كے باوجود آپ وقت كے ستمگروں سے پيمان مودت و دوستى باندھ سكتے تھے؟ اگر آپ ايسا كرتے تو كيا مومنين پر ياس و نااميدى غالب نہ آجاتى _ كيا وہ آپ پر

200
يہ تہمت نہ لگاتے كہ آپ نے ظالموں سے ساز باز كرلى ہے اور آپ كا مقصد اصلاح نہيں ہے ؟
ميرے نقطہ نظر سے تو اس كا امكان ہى نہيں تھا او راگر ايسا ہوگيا ہوتا تو مومنين كى قليل تعداد مايوس و بد ظن ہوكر دين سے خارج اور طريقہ كفر پر گامزن ہوجاتى _
اس كے علاوہ اگر آپ ستمگروں سے عدم تعرّض اور دوستى كا معاہدہ كرليتے تو مجبوراً اپنے عہد كى پابندى كرنے ، نتيجہ ميں كبھى جنگ كا اقدام نہ كرتے ، كيونكہ اسلام نے عہدو پيمان كو محترم قرار ديا ہے اور اس پر عمل كو ضرورى جانا ہے _ (1)
اس وجہ سے احاديث ميں تصريح ہوتى ہے ك صاحب الامر كى ولادت كے مخفى ركھنے اور غيبت كا ايك راز يہ ہے كہ ظالموں سے بيعت نہ كر سكيں تا كہ جب چاہيں قيام كريں اور كسى كى بيعت ميں نہ ہوں _ چند نمونہ ملاحظہ فرمائيں :
حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں:
'' صاحب الامر كى ولادت كو مخفى ركھا جائے گا تا كہ ظہور كے وقت آپ كسى پيمان كے پابند نہ ہوں ، خدا ايك رات ميں ان كے لئے زمين ہموار كريگا '' (2)_
ان تمام چيزوں كے علاوہ جب خودخواہ ستمگر و زمامدار اپنے مفاد و منافع كيلئے خطرہ محسوس كرتے تو وہ اس پيمان سے مطمئن نہ ہوتے اور آپ كے قتل كا منصوبہ بتاتے اور زمين كو حجت خدا كے وجود سے خالى كرديتے _
---------------
1_ مائدہ /1 و اسراء / 34 و مومنوں/8
2_ بحار الانوار ج 52 ص 96

201
مخصوص نواب كيوں معين نہ كئے ؟
جلالي: ہم اصل لزوم غيبت كو قبول كرتے ہيں ليكن غيبت كبرى ميں آپ نے اپنے شعيوں كے لئے غيبت صغرى كى مانند نواب كيوں معين نہيں كئے شيعہ ان كے ذريعہ آپ سے رابطہ قائم كر تے اور اپنے مشكلات حل كرتے ؟
ہوشيار : دشمنوں نے نواب حضرت كو بھى اذ يتيں پہنچائي ہيں '، شكنجے ديئےيں تا كہ وہ امام كى قيام گاہ كاپتہ بتاديں انھيں آزاد نہيں چھوڑ اگيا تھا _ _
جلالى : يہ بھى ممكن تھا كہ معين اشخاص كو وكيل منصوب كرتے _ خود كبھى كبھى بعض مومنين كے پاس تشريف لاتے اور شعيوں كے لئے انھيں احكام و پيغام ديتے _
ہوشيار : اس ميں بھى صلاح نہيں تھى بلكہ ممكن نہيں تھا كيونكہ وہى لوگ دشمنوں كو امام كے مكان كا پتہ بتاد يتے اور آپ كى اسيرى و قتل كے اسباب فراہم كرديتے _
جلالى : خطرہ كا احتمال اس صورت ميں تھا كہ جب آپ مجہول الحال شخص كے لئے ظاہر ہوتے ليكن اگر آپ صرف علما اور موثق و معتمد مومنين كے ليے ظہور فرماتے تو خطرہ كا با لكل احتمال نہ ہوتا _
ہوشيار : اس مفروضہ كے بھى كئي جواب ديئےاسكتے ميں :
ا_ جس شخص كے لئے بھى ظہور فرماتے اس سے اپنا تعارف كرانے اور اپنے دعوے كے ثبوت ميں ناچار معجزہ دكھا ناپڑ تا بلكہ ان لوگون كے لئے تو كئي معجزے دكھا نے پڑتے جو آسانى سے كسى بات كو قبول نہيں كرتے _ اسى اثناء ميں فريب كار

202
اور جادو گر بھى پيدا ہوجاتے جو كہ لوگوں كو فريب ديتے ، امامت كا دعوى كرتے اور سحر و جادو دكھا كر عوام كو گمراہ كرتے اور معجزہ و جادو ميں فرق كرنا ہر ايك كے قبضہ كى بات نہيں ہے ، اس قضسہ سے بھى لوگوں كے لئے بہت سے مفاسد و اشكالات پيدا ہوجا تے _
2 _ فريب كار بھى اس سے غلط فائدہ اٹھاتے ، جاہل لوگوں كے در ميان جاكر امام سے ملاقات كا دعوى كرتے اور اپنے مقصد تك پہنچا نے كيلئے آپ كى طرف خلافت شرع احكام كى نسبت ديتے ، جو چاہتا خلاف شرع عمل كرتا اور اپنے كام كى ترقى تصيح كے لئے كہتا _ ميں امام زمانہ كى خدمت ميں حاضر ہواتھا _ كل رات غريب خانہ ہى پر تشريف لائے تھے مجھ سے فرمايا ہے _ فلاں كام انجام دو ، فلاں كام كيلئے ميرى تائيد كى سے ، اس ميں جو خر ابى اور مفاسد ميں وہ كسى پر پوشيدہ نہيں ہيں _
3 _ اس بات پر كوئي دليل نہيں ہے كہ امام زمانہ كسى بھى شخص ، يہاں تك صالح لوگوں بھى ملاقات نہيں كرتے بلكہ ممكن ہے كہ بہت سے صالحين و اولياء خدا آپ كى خدمت ميں شرفياب ہوتے ہوں ليكن انہيں يہ بات بيان كرنے كى اجازات نہ ہو ، ہر شخص اپنى ہى كيفيت سے واقف ہے اسے دوسروں كے بارے ميں فيصلہ كرنے كا حق نہيں ہے _