171
غيبت صغرى وكبري
جلالى : غيبت صغرى و كبرى كے كيا معنى ہيں ؟
ہوشيار : بارہويں امام دو مرتبہ لوگوں كى آنكھوں سے پوشيدہ ہوئے ہيں _پہلى مرتبہ اپنى پيدا ئشے كے سال 255 يا 256 يا اپنے والد كے انتقال كے سال سے 329 ھ تك اس زمانہ ہيں آ پ اگر چہ عام لوگوں كى نگاہوں سے پوشيدہ تھے ليكن رابطہ با لكل منقظع نہيں ہوا تھا بلكہ آپ كے نا ئب آپ كى خدمت ميں پہنچتے اور لوگوں كى ضرور توں كو پورا كرتے تھے غيبت كے اس 69 يا 74 سالہ زمانہ كو غيبت صغرى كہتے ہيں _
دوسرى غيبت 329 ھ سے شروع ہوئي اس ميں نواب كا سلسلہ بھى ختم ہوگيا اور ظہور تك جارى رہے گى _ اس كو غيبت كبرى كہتے ہيں پيغمبر اكرم اور ائمہ پہلے ہى دونوں غيبتوں كى خبر دے چكے تھے ، مثلا :
اسحاق بن عمار كہتے ہيں : ميں نے امام جعفرى صادق سے سنا كہ آپ نے فرمايا :
'' قائم كى دو غيبتيں ہوں گى ، ايك طولانى دوسرى چھوٹى غيبت صغرى ميں خاص شيعوں كو ان كى قيام گاہ كا علم ہوگا _ ليكن دوسرى ميں آپكے مخصوص دينى دوستوں كے علاوہ آپ كى قيام گاہ كا كسى كو
172
پتہ نہيں ہوگا (1)
آپ ہى كا ارشاد ہے :
صاحب الامر كى دوغيبتيں ہيں : ايك ان ميں سے اتنى طويل ہوگى كہ ايك گروہ كہے گا : مر گئے ہيں ، دوسر ا كہے گا : قتل كرد يئےئے ،تيسرا كہے گا : چلے گئے _ معدود افراد ايسے ہوں گے جو آپ كے وجود كے معتقد رہيں گے اور انہى كا ايمان ثابت و استوار ہے _ اس زمانہ ميں آپ كى قيام گاہ كا كسى كو پتہ نہ ہوگا ، ہاں ان كے مخصوص خدمت گار جانتے ہوں گے _ (2) آ ئھ حديثيں اور ہيں
غيبت صغرى اور شيعوں كا ارتباط
فہيمى: ميں نے سنا ہے كہ : غيبت صغرى كے شروع ہونے كے بعد بعض فريب كاروں نے سادہ لوح لوگوں سے غلط فائدہ اٹھا يا اور يہ دعوى كر كے كہ ہم امام غائب كے نائب ہيں لوگوں كو فريب ديا اور اس طرح اپنى حيثيت بنالى اور لوگوں كے مال سے اپنے گھر بھر لئے _ جناب عالى اس بات كى وضاحت فرمائيں يہ نواب كون تھے ؟ اور امام زمانہ سے لوگوں كے زمانہ ميں عام لوگ صاحب الامر كى ملاقات سے محروم تھے _ ليكن رابط با لكل منقطع نہيں ہوا تھا _ چنانچہ وہ ان افراد كے ذريعہ
------------------
1_ اثبات الھداة ج 7 ص 69 ، بحارالانوار ج 52 ص155
2 _ بحارالانوار ج 52 ص 153
173
جنھيں نائب ، وكيل اور باب كہا جاتا تھا امام سھ رابطہ قائم كرتے ، اپنى دينى مشكلوں كوحل كرتے اور ديگر ضرور توں كو پورا كرتے تھے ، اپنے اموال سے سہم امام نكال كرانھيں كے ذريعہ بھيج دتيے تھے _ كبھى آپ سے مادى مدد ما نگتے تھے _ كبھى حج اور دوسرے سفر كے لئے اجازت ليتے تھے كبھى مريض كى شفا اور بيٹے كى پيدائشے كيلئے دعا كراتے تھے امام ہى كى طرف سے بعض لوگوں كيلئے پيسہ ، لباس اور كفن بھيجا جاتا تھا_ ان امور ميں مخصوص و معين افراد و اسطہ تھے _ حاجتيں خطوط كے ذريعہ ارسال كى جاتى تھيں چنانچہ آپ بھى خط ہى كى صورت ميں جواب ارسال فرماتے تھے _ اصطلاح ميں آپ كے خطوط كو تو قيع كہتے ہيں _
كيا توقيعات خود امام كى تحرير تھيں ؟
جلالى : توقيعات كو خود امام تحرير فرما تے تھے يا كوئي اور ؟
ہوشيار : ہم كہہ چكے ہيں كہ توقيعات كے كاتب خود امام ہيں _ يہاں تك خواص او رعلمائے وقت كے در ميان آپ كا خط ( تحرير ) مشہور تھا چنانچہ وہ اسے اچھى طرح پہچا نتے تھے _ اس كے ثبوت بھى موجود ہيں _
محمد بن عثمان عمرى كہتے ہيں : امام كى طرف سے صادر ہونے والى توقيع كو ميں ببخوبى پہچا نتا تھا (1)
اسحاق بن يعقوب كہتے ہيں : محمد بن عثمان كے ذريعہ ميں نے اپنے مشكل مسائل امام كى خدمت ميں ارسال كئے اور جواب امام زمانہ كے دستخط كے ساتھ موصول ہوا _ ( 2 )
--------------
1_ بحارالانوار ج 51 ص 33
2 _ بحارالانوار ج 51 ص 349 ، اثبات الھداة ج ، ص 460
174
شيخ ابو عمرعامرى كہتے ہيں : شيعوں كى ايك جماعت سے ابو غانم قزوينى نے ايك موضوع كے بارے ميں اختلاف و نزاع كى _ شيعوں نے جھگڑا ختم كرنے كے لئے ايك خط ميں صورت حال لكھ كر ارسال كرديا اور جواب امام كى دستخط كے ساتھ موصول ہوا '' (1) صدوق فرماتے ہيں : '' جو توقيع امام زمانہ نے اپنے دست مبارك سے ميرے والد كيلئے رقم كى تھى وہ ميرے پاس ابھى تك موجود ہے '' (2)
مذكورہ افرادنے اس بات كى تو گواہى دى ہے كہ وہ خطوط امام زمانہ كى تحريرہوتے تھے ليكن اس سے يہ معلوم نہ ہو سكا كہ وہ كس طريقہ سے امام زمانہ كا خط پہچانتے تھے كيونكہ غيبت كے زمانہ ميں مشاہدہ كا امكان نہيں تھا اس كے علاوہ بعض اشخاص نے اس كے برخلاف كہا ہے _ مثلاً ابو نصر ہبة اللہ نے روايت كى ہے كہ صاحب الامر كى توقيعات وہ جو كہ عثمان بن سعيد اور محمد بن عثمان كے ذريعہ شيعوں تك پہنچتى تھيں ان كا وہى خط ہے جو امام حسن عسكرى كے زمانہ كى توقيعات كا تھا _ (3)
پھر ابو نصر ہى كہتے ہيں : 304 ھ ميں ابوجعفر عمرى كا انتقال ہوا_ تقريباً وہ پچاس سال تك امام زمانہ كے وكيل رہے _ ان كے پاس لوگ اپنے اموال لاتے تھے اور وہ بھى شيعوں كو اسى خط ميں امام كى توقيعات ديتے تھے جس ميں امام حسن عسكرى كے زمانہ ميں لكھى جاتى تھيں (4)_
-----------------
1_ بحار الانوار ج 53 ص 178_
2_ انوار نعمانيہ طبع تبريز ج 2 ص 22_
3_ بحارالانوار ج 51 ص 346_
4_ بحارالانوار ج 51 ص 352_
175
دوسرى جگہ كہتے ہيں : امام زمانہ كى توقيعات محمد بن عثمان اسى خط ميں لكھتے تھے جس ميں امام حسن عسكرى (ع) كے زمانہ ميں ان كے باپ عثمان بن سعيد لكھتے تھے _ (1)
عبداللہ بن جعفر حميرى كہتے ہيں : عثمان بن سعيد كے انتقال كے بعد صاحب الامر كى توقيعات اسى خط ميں صادرہوتى تھيں جس ميں ہم سے پہلے خط و كتابت ہوتى تھى _ (2)
ان روايات سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ جو توقيعات عثمان بن سعيد او ر ان كے بعد محمد بن عثمان كے توسط سے لوگوں تك پہنچى ہيں ان كا خط بالكل وہى تھا كہ جس ميں امام حسن عسكرى كے زمانہ ميں توقيعات صادر ہوتى تھيں _ يہاں سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ توقيعات امام كے خط ميں نہيں تھيں بلكہ يہ كہا جائے كہ امام حسن عسكرى (ع) نے توقيعات اور خط و كتابت كيلئے ايك مخصوص محرّر مقرر كرركھا تھا جو كہ عثمان بن سعيد اور محمد بن عثمان كے زمانہ تك زندہ رہا _ يہ بھى كہا جا سكتا ہے كہ بعض توقيعات خود امام نے اور كچھ دوسروں نے تحرير كى ہيں _ ليكن يادرہے كہ زمانہ غيبت صغرى كے علماء اور شيعوں كے حالات اور توقيعات كے متن كے مطالعہ سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ ان خطوط كى عبارت شيعوں كے نزديك موثق اور قابل اعتماد تھى اور وہ انھيں امام ہى كى طرف سے سمجھتے اور قبول كرتے تھے_
اختلافات كے سلسلے ميں مكاتبہ كرتے اور جواب كے بعد سراپا تسليم ہوجاتے تھے ، يہاں تك اگر كبھى كسى توقيع كے بارے ميں شك ہوجاتاتھا تو بھى مكاتبہ ہى كے ذريعہ حل كرتے تھے _ (3)
----------------
1_ بحار الانوار ج 51 ص 350_
2_ بحارالانوار ج 51 ص 349_
3_ بحار الانوار ج 53 ص 150_
176
على بن حسين بابويہ نے امام زمانہ كى خدمت ميں عريضہ ارسال كيا اور بيٹے كى پيدائشے كے لئے دعا كا تقاضا كيا اور اس كا جواب بھى ملا _ (1)
جن علا نے غيبت صغرى اور نواب كا زمانہ درك كيا ہے ان ميں سے ايك محمد بن ابراہيم بن جعفر نعمانى ہيں _ انہون نے اپنى كتاب '' غيبت'' ميں نوّاب كى نيابت اور سفارت كى تائيد كى ہے چنانچہ غيبت سے متعلق احاديث نقل كرنے كے بعد لكھتے ہيں : غيبت صغرى كے زمانہ ميں امام اور لوگوں كے درميان معين و مشہور افراد واسطہ تھے ، ان كے توسط سے بيمار شفا پاتے اور شيعوں كى مشكلوں كے حل صادر ہوتے تھے ليكن اب غيبت صغرى كا زمانہ ختم ہوچكا ہے اور غيبت كبرى كا زمانہ آگيا ہے _ (2)
معلوم ہوتا ہے كہ توقيعات كے ساتھ كچھ سچے قرائن و شواہد ہوتے تھے كہ جن كى بناپر علمائے وقت اور شيعہ انھيں تسليم كرتے تھے _ شيخ حر عاملى لكھتے ہيں : ابن ابى غانم قزوينى شيعوں سے بحث كرتا اور كہتا تھا : امام حسن عسكري(ع) كے يہاں كوئي بيٹا ہى نہيں تھا _ شيعوں نے امام كى خدمت ميں خط ارسال كيا ، وہ بغير روشنائي كے قلم سے سفيد كاغذ پر لكھا جاتا تھا تا كہ علامت و معجزہ بن جائے چنانچہ امام (ع) نے ان كے خط جواب ديا _ (3)
----------------
1_ بحار الانوار ج 51 ص 306_
2_ كتاب ''غيبت'' /91_
3_ اثبات الہداة ج 7 ص 260_
177
نوّاب كى تعداد
نوّاب كى تعداد ميں اختلاف ہے _ سيد بن طاؤس نے اپنى كتاب '' ربيع الشيعہ '' ميں جو نام ذكر كئے ہيں وہ يہ ہيں : ابو ہاشم داؤد بن القاسم ، محمد بن على بن بلال ، عثمان بن سعيد ، محمد بن عثمان ، عمر اہوازى ، احمد بن اسحاق ، ابو محمد الو جناى ، ابراہيم بن مہزيار ، محمد بن ابراہيم (1)_
شيخ طوسى نے وكلاء كے نام اسى طرح نقل كئے ہيں : بغداد سے عمرى ، ان كا بيٹا ، حاجز ، بلالى اور عطار ، كوفہ سے عاصمى ، اہواز سے محمد بن ابراہيم بن مہزيار ، قم سے احمد بن اسحاق ، ہمدان سغ محمد بن صالح ، رَى سے شامى واسدى ، آذربائجان سے قاسم بن العلاء اور نيشاپور سے محمد بن شاذان _ (2)
ليكن شيعوں كے درميان چار اشخاص كى وكالت مشہور ہے : ا_ عثمان بن سعيد 2_ محمد بن عثمان 3_ حسين بن روح 4_ على بن محمد سمرى _ ان ميں سے ہر ايك نے مختلف شہروں ميں نمائندے مقرر كرركھے تھے _(3)
عثمان بن سعيد
عثمان بن سعيد امام حسن عسكرى (ع) كے موثق و بزرگ صحابہ ميں سے تھے _ ان كے متعلق
-----------------
1_ رجال ابو على طبع سنہ 1102 ھ ص 312_
2_ رجال مامقانى طبع نجف ج 1 ص 200 ، اثبات الہداة ج 7 ص 294_
3_ بحارالانوار ج 51 ص 362_
178
بوعلى لكھتے ہيں : '' عثمان بن سعيد موثق و جليل القدر تھے ، ان كى توصيف كرنا سورج كو چراغ دكھانا ہے '' (1) علامّہ بہبہانى لكھتے ہيں :'' عثمان بن سعيد ثقہ اور جليل القدر ہيں (2) _ امام على نقى اور امام حسن عسكرى نے آپ كى توثيق كى ہے _
احمد بن اسحاق كہتے ہيں :'' ميں نے امام على نقى كى خدمت ميں عرض كى ہيں كس كے ساتھ معاشرت كروں اور احكام دين كس سے دريافت كروں اور كس كى بات قبول كروں ؟ فرمايا: سعيد بن عثمان ہمارے معتمد ہيں _ اگر وہ تم سغ كوئي بات كہيں تو صحيح ہے _ انكى بات سنو، اور اطاعت كرو كيونكہ مجھے ان پر اعتماد ہے ''_
ابوعلى نقل كرتے ہيں كہ: امام حسن عسكرى سے بھى ايسا ہى سوال كيا گيا تو آپ (ع) نے فرمايا: عثمان بن سعيد اور ان كے بيٹے پرمجھے اعتماد ہے _ تمہارے سامنے وہ جو روايت بھى بيان كريں وہ صحيح ہے _ ان كى بات سنو، اور اطاعت كرو كيونكہ مجھے ان پر اعتماد ہے _ اصحاب كے درميان يہ حديث اس قدر مشہور تھى كہ ابو العباس حميرى كہتے ہيں : ''ہم لوگوں كے درميان بہت زيادہ مذاكرہ ہوتا تھا اور اس ميں عثمان بن سعيد كى ستائشے كرتے تھے '' (3)_
محمد بن اسمعيل و على بن عبداللہ كہتے ہيں :'' سامرہ ميں ہم لوگ حضرت امام حسن عسكرى كى خدمت ميں شرف ياب ہوئے اس وقت شيعوں كى ايك جماعت بھى موجود تھى ناگہان
---------------
1_ رجال بوعلى ص 200_
2_ منہج البلاغ مؤلف علامہ بہبہانى ص 219_
3_ بحارالانوار ج 51 ص 348_
179
بدر خادم آيا اور عرض كى ايك پريشان بال جماعت آئي ہے ، داخل ہونے كى اجازت چاہتى ہے _ آپ (ع) نے فرمايا : وہ يمن كے شيعہ ہيں اس كے بعد آپنے بدر خادم سے فرمايا: عثمان بن سعيد كو بلاؤ_ عثمان آئے ، امام نے فرمايا : تم ہمارے موثق وكيل ہو يہ جماعت جو مال خدا ليكر آئي ہے _ اسے تحويل ميں لے لو _ راوى كہتا ہے : ميں نے عرض كى : ہم تو يہ جانتے تھى كہ عثمان بہترين شيعہ ہيں ليكن آپ(ع) نے اس عمل سے ان كا مرتبہ بڑھا ديا اور ان كے ثقہ اور وكيل ہونے كا اثبات كرديا ہے _ آپ (ع) نے فرمايا : حقيقت يہى ہے جان لو كہ عثمان بن سعيد ميرے وكيل ہيں اور ان كا بيٹا ميرے بيٹے مہدى كا وكيل ہوگا _ (1)
امام حسن عسكر ي(ع) نے اپنے بيٹے كے بارے ميں چاليس افراد ، منجملہ ان كے على بن بلال ، احمد بن ہلال ، محمد بن معاويہ اور حسن بن محبوب ، كے سامنے فرمايا: '' يہ ميرا جانشين اور تمہارا امام ہے اس كى اطاعت كرو ،واضح رہے آج كے بعد مدتوں تك تم اسے نہيں ديكھ سكوگے ، عثمان بن سعيد كى باتوں كو تسليم كرو اور ان كے حكم كے مطابق چلو كيونكہ وہ تمہارے امام كا جانشين ہے اور شيعوں كے امور كے حل و فصل اسى كے ہاتھ ميں ہيں _ (2)
ان كى كرامات
ان تمام باتوں كے علاوہ ان كى طرف كچھ كرامات بھى منسوب ہيں جس سے
-----------
1_ بحار الانوار ج 51 ص 345_
2_ بحار الانوار ج 51 ص 346_
180
ان كى صداقت ثابت ہوتى ہے _ ان ميں سے كچھ ملاحظہ فرمائيں _
شيخ طوسى نے اپنى كتاب ، غيبت ميں بنى نوبخت كيايك جماعت منجملہ اس كے ابوالحسن كثيرى سے روايت كى ہے كہ : قم اور اس كے مضافات سے عثمان بن سعيد كے پاس كچھ مال بھيجا گيا پہنچا نے والا جب واپس لوٹنے لگا تو عثمان بن سعيد نے كہا : ايك اور امانت تمہارے سپردكى گئي تھى وہ تم نے تحويل ميں كيوں نہيں دى ؟ اس نے عرض كى : ميرے پاس اور كوئي چيز باقى نہيں ہے _ عثمان بن سعيد نے كہا : واپس جاؤ اور اسے تلاش كرو _ چند دن تلاش كرنے كے بعد وہ شخص پھر آيا اور كہا : مجھے تو كوئي چيز دستياب نہيں ہوئي _ فلاں بن فلاں نے ہمارے لئے سردانى كے دوپارچے تمہارے سپردكئے تھے وہ كيا ہوئے ؟ عرض كى : خدا كى قسم آپ كى بات سچ ہے ليكن ميں بھول گيا اب نہيں معلوم كہ وہ كہاں ہيں _ اس كے بعد وہ دوبارہ اپنے گھر لوٹ آيا اور بہت تلاش كيا ليكن ناكام رہا _ پھر عثمان بن سعيد كے پا گيا ، اور پورا واقعہ بيان كيا تو انہوں نے كہا : فلان بن فلاں روئي بيچنے والے كے پاس جاؤ_ روئي كى دو تھيلے تم اس كے پاس لے گئے تھے ، جس تھيلے پر يہ تحرير ہو اسے كھول كر ديكھو وہ امانت تمہيں اس ميں ملے گى اس نے حكم كى تعميل كى پارچہ اس ميں ملا تو ان كى خدمت ميں پہنچا ديا (1) _
محمد بن على اسود كہتے ہيں : ايك عورت نے مجھے ايك كپڑا ديا تھا كہ اسے عثمان بن سعيد كے پاس پہنچا دينا _ دوسرے كپڑوں كے ساتھ اسے ميں ان كى خدمت ميں لے گيا _ انہوں نے كہا : محمد بن عباس قمى كى تحويل ميں ديدو _ ميں نے حكم كى تعميل كي
-------------------
1_ بحار الانوار ج 51 ص 316_
181
اس كے بعد عثمان بن سعيد نے پيغام بھيجا كہ فلاںعورت كا كپڑا تم نے كيوں نہيں ديا ؟ پس اس عورت كے كپڑے كى بات مجھے ياد آگئي تلاش بسيار كے بعد وہ ملاتو ميں تحويل ميں دے ديا _ (1)
شيخ صدوق نے اپنى كتاب '' اكمال الدين'' ميں لكھا ہے :'' ايك شخص عراق سے عثمان بن سعيد كے پاس سہم امام لے كر گيا _ عثمان نے مال واپس كرديا اور كہا: اس ميں سے چار سو درہم اپنے چچا زاد بھائيوں كا حق نكال دو _ عراقى كو بڑا تعجّب ہوا _ جب اس نے حساب كيا تو معلوم ہوا كہ ابھى تك اس كے چچا زاد بھائيوں كى كاشتكارى كى كچھ زميں اس كے پاس ہے _ جب صحيح طريقہ سے آنے پائي كا حساب كيا تو ان كے چار سو ہى درہم نكلے _ لہذا اس نے مبلغ مذكور كو اموال سے نكال ديا اور بقيہ كو عثمان بن سعيد كے پاس لے گيا ، چنانچہ قبول كر ليا گيا _(2)
اب احباب انصاف فرمائيں ، كيا عثمان بن سعيد كے بارے ميں وارد ہونے والى احاديث ، امام حسن عسكرى كے نزديك ان كى قدرومنزلت اور امام حسن عسكرى كے خاص اصحاب كا ان كے سامنے سراپا تسليم ہونے اور ان كے عادل ہونے پر شيعوں كے اتفاق كے با وجود كيا ان كے وعد ے ميں شك كيا جا سكتا ہے كيا يہ احتمال ديا جا سكتا ہے كہ انہوں نے لوگوں كو فريب دينے كى وجہ سے ايسا كيا؟
----------------
1_ بحار الانوار ج 51 ص 335_
2_ بحار الانوار ج 51 ص 326، اثبات اهداةج7 ص 302
182
محمّد بن عثمان
عثمان بن سعيد كے انتقال كے بعد ان كے بيٹے محمد بن عثمان اپنے باپ كے جانشين ہوئے اور امام كے وكيل منصوب ہوئے _
شيخ طوسى ان كے بارے ميں لكھتے ہيں : محمد بن عثمان اور ان كے والد دونوں صاحب الزمان كے وكيل تھے اور امام كى نظر ميں معزز تھے _ (1)
مامقانى نے لكھا ہے : محمد بن عثمان كى عظمت و جلالت اماميہ كے نزديك مسلم ہے _ كسى دليل و بيان كى محتاج نہيں ہے _ شيعوں كا اس بات پر اتفاق ہے كہ وہ اپنے والد كى حيات ميں امام حسن عسكرى كے بھى وكيل تھے اور حضرت حجّت كے بھى سفير تھے _ (2)
عثمان بن سعيد نے تصريح كى ہے كہ : ميرے بعد ميرا بيٹا ميرا جانشين اور نائب امام ہے _ (3)
يعقوب بن اسحاق كہتے ہيں : ميں نے محمد بن عثمان كے توسط سے امام زمانہ (ع) كى خدمت ميں خط ارسال كيا اور كچھ دينى مسائل معلوم كئے _ امام كى تحرير ميں جواب موصول ہوا آپ نے تحرير فرمايا تھا: محمد بن عثمان عمرى موثق ہيں اور ان كے خطوط ميرے ہى خط ہيں _ (4)
---------------
1_ منہج المقال ص 305 ، رجال مامقانى ج 3 ص 149_
2_ رجال مامقانى ج 3 ص 149_
3_ رجال مامقانى ج 1 ص 200_
4_ بحار الانوار ج 51 ص 349_
183
انكى كرامات
محمد بن شاذان كہتے ہيں كہ : ميرے پاس سہم امام كے چار سو اسى درہم جمع ہوگئے تھے _ چونكہ ميں پانچ سو سے كم امام كى خدمت ميں نہيں بھيجنا چاہتا تھا اس لئے بيس اپنى طرف سے شامل كر كے محمد بن عثمان كے توسط امام كى خدمت ميں ارسال كرديئےيكن اس اضافہ كى تفصيل نہ لكھى _ امام كى طرف سے اس كى وصول يابى كى رسيد اس تحرير كے ساتھ موصول ہوئي : '' پانچ سو درہم تمہارے بيس درہم كے ساتھ موصول ہوئے '' (1)_
جعفر بن متيل كہتے ہيں : محمد بن عثمان نے مجھے طلب كيا ، چند كپڑے اور ايك تھيلى ميں كچھ درہم ديئےور فرمايا: '' واسطہ جاؤ اور وہاں پہلا جو شخص ملے يہ كپڑے اور درہم اس كے حوالہ كردو ''_ ميں واسطہ كے لئے روانہ ہوا اور پہلے جس شخص سے ميرى ملاقات ہوئي وہ حسن بن محمد بن قطاة تھے _ ميں نے انھيں اپنا تعارف كرايا ، معانقہ كيا اور كہا :'' محمد بن عثمان نے آپ كو سلام كہلايا ہے اور آپ كے لئے يہ امانت ارسال كى ہے '' _ يہ بات سن كر انہوں نے خدا كا شكر ادا كيا اور كہا : محمد بن عبداللہ عامرى كا انتقال ہوگيا ہے _ اب ميں ان كا كفن لينے كے لئے نكلا ہوں _ جب ہم نے اس امانت كو كو كھولا تو ديكھا كہ اس ميں ايك مردہ كے دفن كى تمام چيزيں موجود ہيں _ جنازہ اٹھانے والوں اور گوركن كيلئے كچھ پيسے بھى تھے ، اس كے بعد تشييع جنازہ كے بعد انہيں دفن كرديا '' (2) _
--------------
1_ بحارالانوار ج 51 ص 337_
2_ بحار الانوار ج 51 ص 351_
184
محمد بن على بن الاسود قمى كہتے ہيں :'' محمد بن عثمان نے اپنى قبر تيار كرائي تو ميں نے وجہ دريافت كى ، كہا ، مجھے امام نے حكم ديا ہے كہ :'' اپنے امور كو سميٹ لو'' چنانچہ اس واقعہ كے دو ماہ بعد ان كا انتقال ہوا _ (1)
محمد بن عثمان تقريباً پچاس سال تك نائب امام رہے اور 304 ھ ميں انتقال كيا _ (2)
حسين بن روح
امام زمانہ كے تيسرے نائب حسين بن روح ہيں _ وہ اپنے زمانہ كے عقلمند ترين انسان تھے _ محمد بن عثمان نے انھيں امام زمانہ كا نائب منصوب كيا تھا _
بحار ميں مجلسى لكھتے ہيں : جب محمد بن عثمان كا مرض شديد ہو گيا تو شيعوں كے سر برآوردہ اور معروف افراد ، جيسے ابو على بن ہمام ، ابو عبداللہ بن محمد كاتب ، ابو عبداللہ باقطانى ، ابو سہل اسماعيل بن على نوبختى اور ابو عبداللہ بن وجنا ان كے پاس گئے اور ان كے جانشين كے بارے ميں سوال كيا تو انہوں نے فرمايا : '' حسين بن روح ميرے جانشين اور صاحب الامر كے وكيل و معتمد ہيں _ اپنے امور ميں ان سے رجوع كرنا _ مجھے امام نے حكم ديا ہے كہ حسين بن روح كو اپنا نائب مقرر كردو '' (3)
----------------
1_ بحار الانوار ج 51 ص 352_
2_ بحارالانوار ج 51 ص 352_
3_ بحارالانوار ج 51 ص 355_
185
جعفر بن محمد مدائينى كہتے ہيں : امام زمانہ كے اموال كو ميں محمد بن عثمان كے پاس لے جاتا تھا_ ايك روز چار سودرہم ان كى خدمت ميں پيش كيئےو فرمايا : اس پيسہ كو حسين بن روح كے پاس لے جاؤ _ ميں نے عرض كى ميرى خواہش ہے كہ آپ ہى قبول فرمائيں فرمايا: حسين بن روح كے پاس لے جاؤ، معلوم ہونا چاہئے كہ ميں نے انھيں اپنا جانشين قرار ديا ہے _ ميں نے دريافت كيا ، كيا امام زمانہ كے حكم سے آپ نے يہ كام انجام ديا ہے ؟ فرمايا: '' بے شك '' _ پس ميں اسے حسين بن روح كے پاس لے گيا _ اس كے بعد سہم امام كو ہميشہ انہيں كے پاس لے جاتا تھا _ (1)
محمد بن عثمان كے اصحاب و خواص كے درميان بہت سے افراد تھے جو كہ مراتب ميں حسين بن روح سے بلند تھے _ مثلاً جعفر بن احمد متيل كے بارے ميں سب كو يقين تھا كہ منصب نيابت ان كے سپرد كيا جائے گا _ ليكن ان كى توقع كے خلاف اس منصب كيلئے حسين بن روح كو منتخب كيا گيا _ اور تمام اصحاب يہاں تك جعفر بن احمد بن متيل بھى ان كے سامنے سراپا تسليم ہوگئے _ (2)
ابو سہل نوبختى سے لوگوں نے دريافت كيا : حسين بن روح كيسے نائب بن گئے جبكہ آپ اس منصب كے لئے زيادہ سزاوار تھے؟ انہوں نے كہا : امام بہتر جانتے ہيں كہ اس منصب كے لئے كس كا انتخاب كيا جائے _ چونكہ ميں ہميشہ مخالفوں سے مناظرہ كرتا ہوں _ اگر مجھے وكيل بنايا جاتا تو ممكن تھا كہ بحث كے دوران اپنے مدعا كے اثبات
-----------
1_ بحار الانوار ج 51 ص 352_
2_ بحار الانوار ج 51 ص 353_
186
كيلئے امام كا پتہ بتا ديتا _ ليكن حسن بن روح مجھ جيسے نہيں ہيں ، يہاں تك كہ اگر امام اس كے لباس ميں چھپے ہوں اور لوگ قيچى سے پارہ پارہ كريں تو بھى وہ اپنا دامن نہيں كھوليں گے كہ امام نظر آجائيں _ (1)
صدوق لكھتے ہيں : محمد بن على اسود نے نقل كيا ہے كہ على بن حسين بن بابويہ نے ميرے ذريعہ حسين بن روح كو پيغام ديا كہ صاحب الامر(ع) سے ميرے لئے دعا كراديں شايد خدا مجھے بيٹے عطا كرے _ ميں نے ان كا پيغام حسين بن روح كى خدمت ميں پہنچا ديا تين روز كے بعد انہوں نے اطلاع دى كہ امام نے ان كے لئے دعا كردى ہے عنقريب خدا انہيں ايسا بيٹا عطا كرے گا كہ جس سے لوگوں كو فيض پہنچے گا _ اسى سال ان كے يہاں محمد كى ولادت ہوئي _ اس كے اور بيٹے بھى پيدا ہوئے _ اس كے بعد صدوق لكھتے ہيں جب محمد بن على جب بھى مجھے ديكھتے تھے كہ محمد بن حسن بن احمد كے درس ميں آمدورفت ركھتا ہوں اور علمى كتابوں كے پڑھنے اور حفظ كرنے كا بہت زيادہ شوق ہے ، تو كہتے تھے : اس سلسلے ميں برابر بھى تعجب نہ كرو كہ تحصيل علم سے تمہيں اتنا شغف ہے كيونكہ تم امام زمانہ كى دعا سے پيدا ہوئے ہو _ (2)
ايك شخص كو حسين بن روح كى نيابت پر شك تھا _ پس اس نے موضوع كى تحقيق كے لئے بغير روشنائي كے قلم سے ايك خط لكھا اور امام زمانہ كى خدمت ميں ارسال كيا چند روز كے بعد امام نے حسين بن روح كے ذريعہ اس كا جواب ارسال فرمايا_ (3) _
---------------
1_ بحار الانوار ج 51 ص 359_
2_ كمال الدين ج 2 ص 180_
3_ اثبات الہداة ج 7 ص 340_
187
326 ھ ، ماہ شعبان ميں حسين بن روح نے وفات پائي _ (1)
چوتھے نائب
امام زمانہ كو چوتھے نائب شيخ ابوالحسن على بن محمد سمرى تھے _ ان كے بارے ميں ابن طاؤس لكھتے ہيں :'' انہوں نے امام على نقى اور امام حسن عسكرى كى خدمت كى اور ان دونوں امامو ں كا ان سے مكاتبہ تھا اور ان كے لئے بہت سى توقيعات مرقوم فرمائي ہيں _ وہ نمايان اور ثقہ شيعوں ميں سے ايك تھے _ (2)
احمد بن محمد صفوانى كہتے ہيں : حسين بن روح نے على بن محمد سمرى كو اپنا جانشين مقرر كيا تا كہ وہ ان كے امور انجام ديں _ ليكن جب على بن محمد سمرى كا وقت قريب آيا تو لوگ ان كى خدمت ميںآئے تا كہ ان كے جانشين كے بارے ميں سوال كريں _ انہون نے فرمايا : مجھے اپنا نائب بنانے كا حكم نہيں ملا ہے _ (3)
احمد بن ابراہيم بن مخلد كہتے ہيں : ايك دن على بن محمد سمرى نے بغير كسى تمہيد كے فرمايا : خدا على بن بابويہ قمى پر رحم كرے _ حاضرين نے اس جملہ كى تاريخ لكھ لى بعد ميں معلوم ہوا كہ اسى دن على بن بابويہ كا انتقال ہوا تھا _ سمرى نے بھى 329 ھ ميں وفات پائي _ (4)
----------------
1_ رجال مامقانى ج 1 ص 200_
2_ رجال مامقانى ج 2 ص 302_
3_ بحاراالانوار ج 51 ص 360_
4_ بحارالانوار ج 51 ص 360_
188
حسين بن احمد كہتے ہيں : على بن محمد سمرى كى وفات سے چند روز قبل ميں ان كى خدمت ميں تھا كہ امام زمانہ كى طرف سے صادر ہونے والے خط كو انہوں نے لوگوں كے سامنے پڑھا _ اس كا مضمون يہ تھا : '' على بن محمد سمري، خدا تمہارے انتقال پر تمہارے بھائيوں كو صبر جميل عطا كرے _ چھ روز كے بعد تمہارے اجل آجائے گى _ اپنے كاموں كو سميٹ لو اور اب كسى كو اپنا نائب مقرر نہ كرنا كيونكہ اس كے بعد غيبت كبرى كا سلسلہ شروع ہوگا _ ميں اس وقت تك ظاہر نہ ہونگا جب تك خدا كا حكم نہ ہوگا طويل مدت ، دلوں ميں قساوت اور زمين ظلم و جور سے نہ بھر جائے گى _ تمہارے در ميان ايسے افراد پيدا ہوں گے جو ظہور كا دعوى كريں گے _ ليكن يادر ہے ، سفيانى كے خروج اور آسمانى چيخ سے پہلے جو شخص ظہور كا دعوى كرے گا وہ جھوٹا ہے _ (1)
شيعوں كا درميان چار اشخاص كى نيابت مشہور ہے _ كچھ لوگوں نے انپے مہدى ہونے كا جھوٹا دعوى كيا ہے ليكن دليل نہ ہونے كى بناپر ان كا جھوٹ آشكار ہوا اور ذليل ہوئے _ جيسا كا حسن شرعى ، محمد بن نصير نميرى ، احمد بن ہلال كرخى ، محمد بن على بن ہلال ، محمد بن على شلمغانى اورابوبكر بغدادى نے كيا تھا _ يہ تھى نوّاب كے بارے ميں ميرى معلومات _ ان مدارك سے ان كے دعوے كے صحيح ہونے كا اطمينان حاصل ہوجاتاہے _
ڈاكٹر: اس سلسلے ميں ميرے ذہن ميں كچھ سوالات تھے ليكن آج كى رات ہمارى بحث بہت طويل ہوگئي اسلئے آئندہ جلسہ ميں پيش كرونگا _
-------------------
1_ بحار الانوار ج 51 ص 361_
|