157
كيا پانچ سال كا بچہ امام ہوتا ہے؟
جلسہ شروع ہونے كے بعد فہيمى صاحب نے اس طرح سوال اٹھايا :
فھيمى : بالفرض امام حسن عسكرى كے يہاں بيٹا تھا ليكن اس بات كو كيونكر قبول كيا جاسكتا ہے كہ، پانچ سال كا بچہ منصب امامت و ولايت پرمتمكن ہوتاہے ؟ اور احكام خدا كى حفاظت وتحمل كے لئے اس كا انتخاب ہوتا ہے اور كمسنى ميں ہى علم وعمل كى اعتبار سے لوگوں كا امام اور ان پر خدا كى حجت قرار پاتا ہے؟
ھوشيار : آپ نے نبوت اور امامت كو ايك ظاہرى اور معمولى چيز تصوّ ركرليا ہے اور يہ سمجھ ليا ہے كہ اس كے لئے كسى قيد وشرط كى ضرورت نہيں ہے_ جو شخص احكام كے حفظ وتحمل كى صلاحيت ركھتا ہے اسى كو منتخب كر ليا جا تا ہے ، اس كے علاوہ كسى اور چيز كى ضرورت نہيں ہے _ گويا محمد بن عبداللہ(ص) كى جگہ ابوسفيان كا نبوت كے لئے انتخاب ہو سكتا ہے اور على بن ابيطالب كے بجائے طلحہ وزبير امام بن سكتے ہيں ليكن اگر آپ غور كريں گے اور اہل بيت كى احاديث كا مطالعہ فرمائيں گے تو اس بات كى تصديق فرمائيں گے كہ يہ بات اتنى آسان نہيں ہے _ كيونكہ نبوت بہت عظيم مقام ہے اس مقام پر فائز انسان كا خدا سے ارتباط واتصال رہتا ہے اور وہ عالم غيبى كے افاضات سے مستفيد ہوتا ہے خدا كے احكام وقوانين وحى اور الہام كى صورت ميں اس كے قلب پر نازل ہوتے ہيں
158
اور انھيں حاصل كرنے ميں اس سے كوئي اشتباہ و خطا واقع نہيں ہوتى _ اسى طرح امامت بھى ايك عظيم منصب ہے _ اس عہدہ كا حامل خد ا كے احكام اور نبوت كے علوم كو اس طرح حفظ و ضبط كرتا ہے كہ جس ميں خطا و نسيان اور معصيت كا امكان نہيں ہے _ اس كا بھى عالم غيبت سے رابطہ رہتا ہے اور خدا كے افاضات و اشراقات سے بہرہ مند رہتا ہے _ علم و عمل كے سبب لوگوں كا امام اور دين خدا كا نمونہ و مظہر قرار پاتا ہے _
واضح ہے كہ ہر شخص ميں اس منصب پر پہنچنے كى صلاحيت نہيں ہے بلكہ اس كيلئے روح كے اعتبار سے انسانيت كے اعلى درجہ پر فائز ہونا چاہئے تا كہ عوالم غيبى سے ارتباط اور علوم كے حفظ و حصول كى اس ميں لياقت پيدا ہو سكے اور اس كى جسمانى تركيب اور دماغى قوتوں ميں نہايت ہى اعتدال پايا جاتا ہو كہ جس سے عام ہستى كے حقائق اور غيبى افاضات كو بغير كسى خطا و اشتباہ كے الفاظ و معانى كے قالب ميں ڈھال سكے اور لوگوں تك پہنچا سكے _
پس خلقت كے اعتبار سے رسول اور امام ممتاز ہيں اور اسى ذاتى استعداد و امتياز كى بنا پر خداوند عالم انھيں نبوت و امامت كے عظيم و منصب كے لئے منتخب كرتا ہے اگر چہ يہ امتيازات عہد طفوليت ہى سے ان ميں موجود ہوتے ہيں _ ليكن جب صلاح ہوتى ہے ، كوئي مانع نہيں ہوتا اور حالات سازگار ہوتے ہيں تو ان ہى نمايان افراد كا منصب نبوت وامامت كے حامل كے عنوان سے سركارى طور پر تعارف كرايا جاتا ہے اور وہ احكام كے حفظ و تحمل كے لئے مامور ہوتے ہيں _
يہ انتخاب كبھى بلوغ كے بعد يا بزرگى كے زمانہ ميں ہوتا ہے اور كبھى عہد طفوليت ميں ہوتا ہے _ جيسا كہ حضرت عيسى عليہ السلام نے گہوارہ ميں لوگوں سے گفتگو كي
159
اور كہا : ميں نبى ہوں اور كتاب لے كر آيا ہوں _ سورہ مريم ميں خداوند عالم كا ارشاد ہے كہ حضرت عيسى نے فرمايا :'' ميں خدا كا بندہ ہوں مجھے اس نے كتاب اور نبوت عطا كى ہے ، ميں جہاں بھى رہوں با بركت ہوں اور تا حيات مجھے نماز و زكوة كى وصيت كى ہے ''_
اس اور دوسرى آيتوں سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ حضرت عيسى بچينے ہى سے نبى اور صاحب كتاب تھے _
اس لئے ہم كہتے ہيں كہ پانچ سال كے بچہ كا عوالم غيبى سے ارتباط ركھنے اور تبليغ احكام كى ايسى عظيم ذمہ دارى كے لئے منصوب كئے جانے ميں كوئي حرج نہيں ہے كيونكہ وہ اس امانت كى ادائيگى اوراپنى ذمہ دارى كو پورا كرنے كى طاقت ركھتا ہے _
چنانچہ امام على نقى بھى والد كے انتقال كے وقت نو يا سات سال كے تھے اور كم سنى كى بناپر بعض شيعہ ان كى امامت كے بارے ميں مستردد تھے_ اس مسئلہ كے حل كرنے كى غرض سے كچھ شيعہ آپ(ع) كى خدمت ميں شرفياب ہوئے اور آپ(ع) سے سيكڑوں مشكل ترين سوالات معلوم كئے اور مكمل جواب حاصل كئے اور ايسى كرامات كو مشاہدہ كيا كہ جن سے ان كا شك برطرف ہوگيا _ (1)
امام رضا (ع) نے انھيں اپنے جانشين اور امام كے عنوان سے پيش كيا تھا اور مخاطبين كے تعجب پر فرمايا تھا: '' حضرت عيسى بھى بچپنے ميں نبى اور حجت خدا ہوئے تھے ''(2)_
-----------
1_ اثبات الوصيہ ص 126_
2_ اثبات الوصيہ ص 166_
160
حضرت امام على نقى (ع) بھى چھ سال اور پانچ ماہ كى عمر ميں شفقت پدرى سے محروم ہوگئے تھے اور امامت آپ كى طرف منتقل ہوگئي تھي_ (1)
جناب فہيمى صاحب ، انبياء و ائمہ كى خلقت كچھ اس زاويہ سے ہوئي ہے كہ جس كا عام افراد سے موازنہ نہيں كيا جا سكتا _
نابغہ بچّے
كبھى عام بچوں كے درميان بھى نادر افراد مشاہدہ كئے جاتے ہيں جو كہ استعداد او حافظہ كے اعتبار سے اپنے زمانہ كے نابغہ ہوتے ہيں اور ان كے ادراكات و دماغى صلاحيت چاليس سال كے بوڑھوں سے كہيں اچھى ہوتى ہے _
ان ہى ميں سے ايك ابو على سينا بھى ہيں _ ان سے نقل كيا گيا ہے كہ انہوں نے بتا يا : '' جب ميں اچھے برے كو سمجھنے لگا تو مجھے معلم قرآن كے سپرد كيا گيا _ اس كے بعد ادب كے استاد كے حوالے كيا _ ادب كے استاد كو شاگرجو بھى سنا تے تھے اسے ميں حفظ كرليتا تھا _ اس كے علاوہ استاد نے مجھے حكم ديا تھا كہ : تم '' الصفات '' ، ''غريب المصنف ، '' ادب الكاتب'' ، '' اصلاح المنطق'' ، ''العين'' ، ''شعر و حماسہ'' ، ''ديوان ابن رومي'' ، '' تصريف'' ''مازني'' اور سيبويہ كى نحو بھى سنايا كرو _ چنانچہ انھيں بھى ميں نے ايك سال چھ ماہ ميں ختم كڑدالا ، اگر استاد تعويق سے كام نہ ليتے تو اس سے كم مدت ميں تمام كرليتا اور جب دس سال كو ہو ا تو اہل بخارا كو انگشت بدندان كرديا _ اس كے بعد فقہ كى تعليم
-------------------
1_ مناقب ابن شہر آشوب ج 4 ص 401، اثبات الوصيہ ص 174_
161
كا سلسلہ شروع كيا اور بارہ سال كى عمر ميں ابو حنفيہ كى فقہ كے مطابق فتوى دينے لگا تھا اس كے بعد علم طب كى طرف متوجہ ہو اور سولہ سال كى عمر ميں'' قانون'' كى تصنيف كى اور چوبيس سال كى عمر ميں خود كو تمام علوم كا ماہر سمجھتا تھا _ (1)
فاضل ہندى كے بارے ميں منقول ہے كہ تيرہ سال كى عمر سے پہلے ہى انہوں نے تمام معقول و منقول علوم كو مكمل كرليا تھا اور بارہ سال كى عمر ے پہلے ہى كتاب كى تصنيف ميں مشغول ہوئے تھے _(2)
'' ٹوماس ينگ'' كو برطانيہ كے عظيم دانشوروں ميں شمار كرنا چاہئے ، وہ بچپنے ہى سے ايك عجوبہ تھا _ دو سال كى عمر سے پڑھنا جانتا تھا ، آٹھ سال كى عمر ميںخود ہى رياضيات كا مطالعہ شروع كيا ، نو سے چودہ سال كا زمانہ اپنى كلاسوں كے درميان كے مختصر وقفوں ميں فرانسيسى ، اطالوى ، عبرى ، عربى اورفارسى كى تعليم كا دورہ گزارا اور مذكورہ زبانوں كو اچھى طرح سيكھ ليا _ بيس سال كى عمر ميں رويت كى تھيورى پر ايك مقالہ لكھ كر دربارشاہى ميں پيش كيا اور اس ميں اس بات كى تشريح كى كہ آنكھ عينك كے لينز كى خميدگى ميں ردو بدل كے ذريعہ كيسے واضح تصوير ديكھى جا سكتى ہے _ (3)
اگر آپ مشرق و مغرب كى تاريخ كا مطالعہ كريں گے تو ايسے بہت سے نابغہ
-------------------
1_ ہديةالاحباب طبع تہران ص 76_
2_ ہدية الاحباب ص 288_
3_ تاريخ علوم مؤلفہ بى برروسو ترجمہ صفارى طبع سوم ص 432_
162
مليں گے _
جناب فہيمى صاحب ، نابغہ بچے ايسے دماغ اور صلاحيت كے حامل ہوتے ہيں كہ كمسنى ميں ہزاروں قسم كى چيزيں يادكرليتے ہيں اور علوم كى مشكلوں اور كتھيوں كو حل كرتے ہيں ،اور ان كى محيّر العقول صلاحيت لوگوں كو انگشت بدندان كرديتى ہے تو اگر خدا ، حضرت بقيةاللہ ، حجت حق ، علت مبقيہ انسانيت حضرت مہدى كو پانچ سال عمر ميں ولى و امام منصوب كردے اور احكام كى حفاظت و تحمل كو ان كے سپرد كردے تو اس ميں تعجب كى كيا بات ہے ؟ ائمہ اطہار نے بھى آپ كى كمسنى كے بارے ميں پيشين گوئي كى ہے _
حضرت امام باقر عليہ السلام نے فرمايا:
صاحب الامركى عمر مبارك ہم ميں سب سے زيادہ ہوگى اور زيادہ گمنام رہيں گے_
حضرت قائم كے نام پر كھڑا ہونا
جلالى كہ آپ كو معلوم ہے لوگوں كے در ميان يہ رسم ہے كہ وہ لفظ قائم سن كر كھڑے ہوجائے ہيں اس عمل كا كوئي مدرك ہے يا نہيں ؟
ہوشيار: يہ طريقہ دنيا كے تمام شيعوں ميں رائج تھا اور ہے _ منقول ہے كہ خراسان كى ايك مجلس ميں امام رضا(ع) تشريف فرماتھے كہ لفظ قائم زبان پر آيا تو آپ كھڑے ہوئے اپنے دست مبارك كو سر پر ركھا اور فرمايا :
-----------------------
1_ بحارالانوار
163
اللہم عجّل فرجہ و سحّل مخرجہ (1)
امام جعفر صادق (ع) كے زمانہ ميں بھى يہ طريقہ رائج تھا عرض كيا گيا قائم سن كر كھڑے ہونے كى كيا تكليف ہونے كى كيا علّت ہے ؟فرمايا :
صاحب الامر مدت در از تك غيبت ميں رہيں گے اوران كے دوستدار محبت كى شدّت كى بناپر آپ كو قائم كے لفت سے ياد كرتے ہيں جو كہ آپ (ع) كى حكوت و غريب كو بتا تا ہے _
چونكہ اس وقت امام زمانہ ان كى طرف متوجہ ہوتے ہيں لہذا احترام كے لئے كھڑا ہوناچا ہئے اور خدا سے آپ كے لئے تعجيل فرج كى دعا كرنا چاہئے _ ( 2 )
شيعوں كے اس عمل ميں مذہبى اور اظہار ادب كا ايك پہلو موجود ہے اگر چہ اس كا واجب ہونا معلوم نہيں ہے _
----------------------
1_ الزام الناصب ص 81
2_ الزام الناصب ص 81
|