133
امام زمانہ (عج) كو بچپنے ميں ديكھا گيا ہے
ڈاكٹر : يہ كيسے ممكن ہے كہ كسى كے يہاں بيٹا پيدا ہو اور كسى كو اس كى اطلاع نہ ہو؟
پانچ سال گزرجائيں اور كوئي اسے پہچانتا نہ ہو ؟ كيا امام حسن عسكرى كى سامرہ ميں بودوباش نہيں تھي؟ كيا ان كے گھر كسى كى بھى آمد و رفت نہيں تھى ؟ كيا صرف عثمان بن سعيد كے كہنے سے اس چيز كو قبول كيا جا سكتا ہے ؟
ہوشيار: اگر چہ يہ طے تھا كہ امام حسن عسكرى (ع) كے بيٹے كو كوئي نہ ديكھنے پائے ليكن پھر بھى بعض قريبى اور قابل اعتماد اشخاص نے انھيں بچپن ميں ديكھا ہے اور ان كے وجود كى گواہى دى ہے مثلاً:
1_ حكيمہ خاتون بنت امام محمد نقى امام حسن عسكرى كى پھوپھى ، صاحب الامر كى ولادت كے وقت وہاں موجود تھيں اور انہوں نے اس واقعہ كو تفصيل كے ساتھ بيان كيا ہے _ اس كا خلاصہ يہ ہے : حكيمہ خاتون كہتى ہيں : پندرہ شعبان (225) كى شب ، ميں امام حسن عسكرى كے گھر تھى _ جب ميں اپنے گھر واپس آنا چاہتى تھى اس وقت امام حسن عسكرى نے فرمايا: پھوپھى جان آج كى رات آپ ہمارے ہى گھر ٹھر جايئےيونكہ آج كى رات ولى خدا اور ميرا جانشين پيدا ہوگا _ ميں نے دريافت كيا كس كنيز سے ؟ فرمايا : سوسن سے _
134
ميں نے سوسن كو اچھى طرح سے ديكھا ليكن مجھے حمل كے آثار نظر نہ آئے _ نماز اور افطار كے بعد سوسن كے ساتھ ميں ايك كمرے ميں سوگئي _ تھوڑى دير بعد بيدار ہوئي تو امام حسن عسكرى كى باتوں كے متعلق سوچنے لگى _ پھر نماز شب ميں مشغول ہوئي _ سوسن نے بھى نماز شب ادا كى _ صبح صادق كا وقت قريب آگيا _ لكن وضع حمل كے آثار ظاہر ہوئے مجھے امام حسن عسكرى كى باتوں ميں شك ہونے لگا تو دوسرے كمرہ سے امام حسن عسكرى (ع) نے فرمايا : پھوپھى جان شك نہ كيجئے ميرے بيٹے كى ولادت كا وقت قريب ہے _
اچانك سوسن كى حالت بدل گئي ميں نے پوچھا : كيا بات ہے _ فرمايا : شديد درد محسوس ہورہا ہے _ ميں وضع حمل كے وسائل فراہم كرنے ميں مشغول ہوگئي اور دايہ كے فرائض كى ذمہ دارى اپنے ذمہ لے لى _
كچھ دير نہ گزرى تھى كہ ولى خدا پاك و پاكيزہ پيدا ہوئے اور اسى وقت امام حسن عسكرى نے فرمايا : پھوپھى جان ميرے بيٹے كو لايئے ميں بچہ كو ان كے پاس لے گئي انہوں نے بچہ كو ليا اور اپنى زبان مبارك اس كى آنكھوں پر پھرائي تو بچہ نے آنكھين كھولديں اس كے بعد نوزاد كے دہان اور كان پر زبان پھرائي اور سر پر ہاتھ پھيراتو بچہ گويا ہوا اور تلاوت قرآن كرنے ميں مشغول ہوگيا _ اس كے بعد بچہ مجھے ديديا اور فرمايا : '' اس كى ماں كے پاس لے جايئے' حكيمہ خاتو ن كہتى ہيں:ميں نے بچہ كو اس كى ماں كو ديديا اور اپنے گھرلوٹ آئي _ تيسرے دن ميں پھر امام حسن عسكرى كے گھر گئي اور پہلے بچہ كو ديكھنے كى غرض سے سوسن كے كمرہ ميں داخل ہوئي ليكن بچہ وہاں نہيں تھا _ اس كے بعد امام حسن عسكرى كى خدمت ميں پہنچى _ ليكن بچہ كے بارے ميں استفسار كرتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہورہى تھى ، كہ امام حسن عسكرى نے فرمايا: پھوپھى جان ميرا بيٹا خدا
135
كى پناہ ميں غائب ہوگيا ہے _ جب ميں دنيا سے چلا جاؤں گا اور ہمارے شيعہ ہمارے جانشين كے بارے ميں اختلاف كرنے لگيں تو آپ قابل اعتماد شيعوں سے ميرے بيٹے كى داستان ولادت بيان كرديجئے گا ليكن اس قضيہ كو مخفى ركھنا چاہئے كيونكہ ميرا بيٹا غائب ہوجائے گا _ (1)
2_ امام حسن عسكرى كى خدمت گار نسيم و ماريہ نے روايت كى ہے كہ : جب صاحب الامر نے ولادت پائي تو پہلے وہ دو زانو بيٹھے اور اپنى انگشت شہادت كو آسمان كى طرف بلند كيا _ اس كے بعد چھينك آئي تو فرمايا : '' الحمد للہ ربّ العالمين'' (2)
3_ ابوغانم خادم كہتا ہے : امام حسن عسكرى (ع) كے يہاں ايك بيٹا پيدا ہوا جس كا نام محمد ركھا ، تيسرے دن اس بچہ كو آپ نے اپنے اصحاب كو دكھايا اور فرمايا : '' يہ ميرا بيٹا ميرے بعدتمہارا امام و مولى ہے اور يہى وہ قائم ہے جس كا تم انتظار كروگے اور اس وقت ظہور كرے گا جب زمين ظلم و ستم سے بھر جائے گى اور اسے عدل و انصاف سے پر كرے گا '' (3)
4_ ابو على خيزرانى اس كنيز سے نقل كرتے ہيں جو كہ اما م حسن عسكرى نے انھيں بخش دى تھى كہ اس نے كہا : '' صاحب الامر كى ولادت كے وقت ميں موجود تھى ، ان كى والدہ كا نام صيقل ہے '' (4)
------------
1_ غيبت شيخ ص 141 و 142_
2_ اثبات الہداة ج 7 ص 292 ، اثبات الوصيہ ص 197_
3_ اثبات الہداة ج 6 ص 431_
4_ منتخب الاثر ص 343_
136
5_ حسن بن حسين علوى كہتے ہيں :'' ميں سامرہ ميں امام حسن عسكرى كى خدمت ميں شرفياب ہوا اور آپ كے فرزند كى ولادت كى مبارك بادپيش كى _ (1)
6_ عبداللہ بن عباس علوى كہتے ہيں :'' ميں سامرہ ميں امام حسن عسكرى كى خدمت ميں شرفياب ہوا اور آپ كے فرزند كى ولادت كى مبارك باد پيش كى _ (2)
7_ حسن بن منذر كہتے ہيں :'' ايك دن حمزہ بن ابى الفتح ميرے پاس آئے اور كہا : مبارك ہو كل رات خدا نے امام حسن عسكرى كو فرزند عطا كيا ہے _ ليكن ہميں اس خبر كے مخفى ركھنے كاحكم ديا ہے _ ميں نے نام پوچھا تو فرمايا : ان كا نام محمد ہے _ (3)
8_ احمد بن اسحاق كہتے ہيں : ايك روز ميں امام حسن عسكرى كى خدمت ميں شرفياب ہوا _ ميرا قصد تھا كہ آپ كے جانشين كے بارے ميں كچھ دريافت كروں _ ليكن آپ (ع) ہى نے گفتگور كا آغاز كيا اور فرمايا : اے احمد بن اسحاق خداوند عالم نے حضرت آدم كى خلقت سے قيامت تك ، زمين كو اپنى حجت سے خالى نہيں ركھا ہے ، اور نہ ركھے گا _ اس كے وجود كى بركت سے زمين سے بلائيں دور ہوتى ہيں ، بارش برستى ہے اور زمين كى بركتيں ظاہر ہوتى ہيں _ ميں نے عرض كى اے فرزند رسول (ص) آپ (ع) كا جانشين كون ہے ؟ امام گھر ميں داخل ہوئے اور ايك تين سالہ بچہ كو لائے جو كہ چو دھويں كے چاند كى مانند تھا اور فرمايا : اے احمد اگر تم خدا اور ائمہ كے نزديك معزز نہ ہوتے تو ميں تمہيں
-------------
1_ اثبات الہداة ج 7 ص 433_
2_ اثبات الہداة ج 7 ص 720_
3_ اثبات الہداة ج 6 ص 434_
137
اپنا بيٹا نہ دكھاتا _ جان لو يہ بچہ رسول كا ہمنام اور ہم كنيت ہے _ يہى زمين كو عدل و انصاف سے پر كرے گا _ (1)
9_ معاويہ بن حكيم ، محمد بن ايوب اور محمد بن عثمان عمرى نے روايت كى ہے كہ ہم چاليس آدمى امام حسن عسكرى (ع) كے گھر ميں جمع تھے كہ آپ اپنے بيٹے كو لائے اور فرمايا : يہ تمہارا امام اور جانشين ہے _ ميرے بعد تمہيں اس كى اطاعت كرنا چاہئے اور اختلاف نہ كرنا ورنہ ہلاك ہوجاؤگے _ واضح رہے كہ ميرے بعد تم اسے نہ ديكھوگے '' _ (2)
10 _ جعفر بن محمد بن مالك نے شيعوں كى ايك جماعت منجملہ على بن بلال ، احمد بن ہلال ، محمد بن معاويہ بن حكيم اور حسن بن ايوب سے روايت كى ہے كہ انہوں نے كہا : ہم لوگ امام حسن عسكرى (ع) كے گھر ميں اس لئے جمع ہوئے تھے تا كہ آپ كے جانشين كے بارے ميں معلوم كريں _ اس مجلس ميں چاليس اشخاص موجود تھے كہ عثمان بن سعيد اٹھے اور عرض كى : يابن رسول اللہ ہم ايك سوال كى غرض سے آئے ہيں _ آپ (ع) نے فرمايا: بيٹھ جاؤ، اس كے بعد فرمايا كوئي شخص مجلس سے باہر نہ جائے ، يہ كہہ كر آپ (ع) تشريف لے گئے اور ايك گنھٹے كے بعد واپس تشريف لائے ، چاند سا بچہ اپنے ساتھ لائے اور فرمايا : يہ تمہارا امام ہے _ اس كى اطاعت كرو _ ليكن اس كے بعد اسے نہ ديكھو گے _ (3)
11_ ابوہارون كہتے ہيں : ميں نے صاحب الزمان كو ديكھا ہے جبكہ آپ كا چہرہ
-----------
1_ بحار الانوار ج 52 ص 23_
2_ بحار الانوار ج 52 ص 25_
3_ اثبات الہداة ج 6 ص 311_
138
چودھويں كے چاند كى مانند چمك رہا تھا _ (1)
12_ يعقوب كہتے ہيں : ايك روز ميں امام حسن عسكرى (ع) كے گھر ميں داخل ہوا تو ديكھا كہ آپ (ع) كے داہنى طرف پردہ پڑا ہوا ہے _ ميں نے عرض كى : مولا صاحب الامر كون ہے ؟ فرمايا : پردہ اٹھاؤ، جب ميں نے پردہ اٹھايا تو ايك بچہ ظاہر ہوا جو آپ (ع) كے زانو پر آكر بيٹھ گيا ، امام نے فرمايا يہى تمہارا امام ہے _ (2)
13_ عمرو اہوازى كہتے ہيں : امام عسكرى نے مجھے اپنا بيٹا دكھايا اور فرمايا : ميرے بعد ميرا بيٹا تمہارا امام ہے _ (3)
14_ خادم فارسى كہتے ہيں : ميں امام حسن عسكرى (ع) كے دروازے پر تھا كہ گھر سے ايك كنيز نكلى جبكہ اس كے پاس كوئي چيز تھى جس پر كپڑا پڑا تھا امام نے فرمايا: اس سے كپڑا ہٹاؤ، تو كنيز نے ايك حسين و جميل بچہ دكھايا _ امام نے مجھ سے فرمايا : يہ تمہارا اما م ہے _ خادم فارسى كہتے ہيں : اس كے بعد ميں نے اس بچہ كو ہيں ديكھا _ (4)
15_ ابو نصر خادم كہتے ہيں : ميں نے صاحب الزمان كو گہوارہ ميں ديكھا ہے _ (5)
16_ ابو على بن مطہر كہتے ہيں : ميں نے حسن عسكرى كے فرزند كو ديكھا ہے _ (6)
---------------
1_ اثبات الہداة ج 7 ص 20_
2_ اثبات الہداة ج 6 ص 425_
3_ اثبات الہداة ج 7 ص 16_
4_ ينابيع المودة باب 82_
5_ اثبات الہداة جلد 7 ص 344، اثبات الوصيہ ص 198_
6_ ينابيع المودہ باب 82_
139
17_ كامل بن ابرايہم كہتے ہيں :'' ميں نے صاحب الامر كو امام حسن عسكرى كے گھڑ ميں ديكھا ہے : چار سال كے تھے اور چہرہ چاند كى مانند چمك رہا تھا ، ميرى مشكلوں كو ميرے سوال كرنے سے پہلے ہى حل كيا تھا _ (1)
18_ سعد بن عبداللہ كہتے ہيں : ميں نے صاحب الامر كو ديكھا ہے آپ كا چہرہ چاند كے ٹكڑے كى مانند تھا _(2)
19_ حمزہ بن نصير ، غلام ابى الحسن (ع) نے اپنے والد سے نقل كيا ہے كہ انہوں نے كہا : جب صاحب الامر پيدا ہوئے تو آپ كے گھر ميں رہنے والے افراد نے ايك دوسرے كو مبارك باد دى _ جب كچھ بڑے ہوئے تو مجھے حكم ملا كہ روزانہ نلى كى ہڈى گوشت سميت خريد كر لاؤ اور فرمايا يہ تمہارے چھوٹے مولا كے لئے ہے _ (3)
20_ ابراہيم بن محمد كہتے ہيں : ايك روز ميں حاكم كے دڑسے فرار كرنا چاہتا تھا لہذا وداع كى غرض سے امام حسن عسكرى كے گھر گيا تو آپ كے پاس ايك حسين بچہ كو ديكھا ، عرض كى فرزند رسول يہ كس كا بچہ ہے ؟ فرمايا: يہ ميرا بيٹا اور جانشين ہے _ (4)
يہ لوگ امام حسن عسكرى كے معتمد ثقہ اور اصحاب و خدام ہيں كہ جنہوں نے بچپنے
------------
1_ اثبات الہداة ج 7 ص 323 ، ينابيع المودہ باب 82_
2_ بحار الانوار ج 52 ص 78 و ص 82_
3_ اثبات الہداة ج 7 ص 18 ، اثبات الوصيہ ص 197_
4_ اثبات الہداة ج 7 ص 356_ ولادت صاحب الامر كے سلسلہ ميں تفصيل كے شائقين ، علامہ محقق سيد ہاشم بحرانى كى كتاب، تبصرة الولى فيمن را ى المہدى اور بحار الانوار ج 51 باب 1 ج 52 باب 17 و 19 ملاحظہ فرمائيں _
140
ميں آپ كے لخت جگر كو ديكھا ہے اور اس كے وجود كى گواہى دى ہے _ جب ہم اس گواہى كے ساتھ پيغمبر اور ائمہ كى احاديث كو ضميمہ كرتے ہيں تو امام حسن عسكرى كے بيٹے كے وجود كا يقين حاصل ہوجاتا ہے _
وصيت ميں ذكر كيوں نہيں ہے ؟
انجينئر : كہتے ہيں كہ امام حسن عسكرى نے مرتے دم اپنى مادر گرامى كو اپنا وصى قرار ديا تھا تا كہ ان كے امور كى نگرانى كريں اور يہ بات قضات وقت كے نزديك ثابت ہوچكى ہے ليكن آ پ(ع) نے كسى بيٹے كا نام نہيں ليا ہے اور انتقال كے بعد آپ كا مال آپ كى والد ہ اور بھائي كے درميان تقسيم ہوا _ (1) اگر كوئي بيٹا ہوتا تو اپنى وصيت كے ضمن ميں اس كا نام بھى درج كرتے تا كہ ميراث سے محروم نہ رہے _
ہوشيار: امام حسن عسكرى نے عمداً وصيت ميں اپنے بيٹے كا نام ذكر نہيں كيا تھا تا كہ بادشاہ وقت كى طرف سے يقينى خطرات سے انھيں نجات دلائيں _ اس سلسے ميں آپ بہت زيادہ محتاط رہے اور اپنے بيٹے كى ولادت كى خبركے طشت از بام ہونے سے اس قدر خوف زدہ رہتے كہ كبھى تو اپنے خاص اصحاب سے بھى اسے چھپاتے اور اس موضوع كو مبہم بناديتے تھے_
ابراہيم ابن ادريس كہتے ہيں :
'' امام حسن عسكرى (ع) نے ميرے پاس ايك گوسفند بھيجى اور كہلوايا : اس گوسفند
----------------
1_ اصول كافى باب مولا ابى محمد الحسن بن على _
141
سے ميرے بيٹے كا عقيقہ كردو اور اپنے خاندان كے ساتھ كھاؤ_ ميں نے حكم كى تعميل كى ليكن جب ميں آپ (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوا تو فرمايا ہمارا بچہ دنيا سے چلا گيا _ ايك مرتبہ پھر دو گوسفند كے ساتھ ايك خط ارسال كيا جس كا مضمون يہ تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحيم _ ان دو گوسفندوں سے اپنے مولا كا عقيقہ كرو اور اپنے عزيزوں كے ساتھ كھاؤ، ميں نے حكم تعميل كى _ ليكن جب ميں حاضر خدمت ہوا تو مجھ سے كچھ نہ فرمايا '' _ (1)
حضرت امام جعفر صادق (ع) نے بھى اپنى وصيت ميں بہت احتياط سے كام ليا تھا _ آپ نے پانچ اشخاص ، خليفہ وقت منصور عباسى ، محمد بن سليمان مدينہ كے گور نر كا بيٹا ، اپنے دو بيٹے عبداللہ و موسى (ع) اور موسى (ع) كى مادرگرامى حميدہ كو اپنا وصى مقرر كيا تھا _ (3)
امام صادق (ع) نے اپنے اس عمل سے اپنے فرزند موسى كو يقينى خطر ے سے نجات عطا كى _ كيونكہ آپ جانتے تھے كہ اگر موسى كاظم كى امامت و وصايت خليفہ پر ثابت ہوگئي تو وہ ان كے قتل كے درپے ہوجائے _ چنانچہ امام كا خيال صحيح ثابت ہوا اور خليفہ نے اپنے كارندوں كو حكم ديا كہ اگر امام صادق كا كوئي معين وصى ہے تو اسے قتل كردو_
دوسرے كيوں خبر دار نہ ہوئے ؟
فہيمى : اگر كسى كے يہاں بچہ پيدا ہوتا ہے تو اس كے عزيز و اقارب اور دوست و
---------------
1_ بحار الانوار ج 51 ص 222 اثبات الہداة ج 7 ص 78 اثبات الوصيہ ص 198
2_ اصول كافى باب الاشارہ و النص على ابى الحسن موسى
142
ہمسايوں كو اس كى اطلاع ضرورى ہوتى ہے اور ولادت كے موضوع ميںكوئي اختلاف نہيں ہوتا _ يہ بات كيونكر قبول كى جا سكتى ہے كہ امام حسن عسكرى ، جو كہ شيعوں كے نزيدك معزز تھے ، كے يہاں بيٹا پيدا ہوا ليكن لوگ اسى سے اتنے ہى بے خبر رہے كہ اصل موضوع ہى ميں شك و اختلاف ميں پڑگئے :
ہوشيار: عام طور پر ايسا ہى ہوتا ہے جيسا كہ آپ نے فرمايا ہے ليكن معمول كے خلاف امام حسن عسكرے نے پہلے ہے اپنے بيٹے كى ولادت كو مخفى ركھنے كا ارادہ كرليا تھا ، بلكہ پيغمبر اور ائمہ اطہار كے زمانہ سے يہى مقدر تھا كہ امام مہدى كى ولادت كو مخفى ركھا جائے چنانچہ آپ (ع) كى خفيہ ولادت كو آپ كى علامت شمار كيا جاتا تھا مثلاً _
حضرت امام زين العابدين نے فرمايا:
'' ہمارے قائم كى ولادت لوگوں سے پوشيدہ رہے گى ، يہاں تك كہ لوگ يہ كہنے لگيں گے كہ _ پيدا ہى نہيں ہوئے ہيں ، اور يہ اس لئے ہے كہ جب آپ (ع) ظہور فرمائيں اس وقت آپ كى گردن پر كسى كى بيعت نہ ہو '' (1)
عبداللہ بن عطا كہتے ہيں : ميں نے امام محمد(ع) باقر كى خدمت ميں عرض كى عراق ميں آپ كے شيعہ بہت ہيں خدا كى قسم آپ جيسى حيثيت كسى كى نہيں ہے آپ خروج كيوں نہيں كرتے ؟ فرمايا:
'' عبداللہ تم فضول باتوں ميں آگئے ہو خدا كى قسم ميں صاحب الامر نہيں ہوں جس كا روايات ميں ذكر ہے''_ ميں نے عرض كى : صاحب الامر كون ہے ؟
-------------
1_ بحار الانوار ج 51 ص 135_
143
فرمايا:
'' ايسے شخص كے انتظار ميں زندگى بسر كرو جس كى ولادت مخفى رہے گى _ وہى تمہارا مولا ہے ''_(1)
فہيمى : امام حسن عسكر ى (ع) نے اپنے بيٹے كو ولادت كو لوگوں سے اس لئے مخفى ركھا تا كہ لوگ شك و حيرت ميں مبتلا رہيں اور گمراہ ہوجائيں ؟
ہوشيار : جيسا كہ ميں پہلے بھى بيان كر چكا ہوں ، مہدى موعود كى داستان صدر اسلام ہى سے مسلمانوں كے پيش نظر رہى ہے _ پيغمبر (ص) كى جو احاديث اس سلسلے ميں وارد ہوئي ہيں اور وہ تائيديں جو ائمہ اطہار نے كيں ہيں وہ مسلمانوں كے درميان مشہور تھيں _ بادشاہان وقت بھى ان سے بے خبر نہيں تھے _ انہوں نے بھى سنا تھا كہ مہدى موعود نسل فاطمہ (ع) اور اولاد حسين (ع) سے ہوگا، ظالموں كى حكومتوں كو برباد كرے گا اور مشرق و مغرب پراس كى حكومت ہوگى _ ظالموں كو تہ تيغ كرے گا _ اس لئے وہ مہدى موعود كى و لادت سے خوف زدہ تھے _ وہ اپنى سلطنت سے احتمال خطرہ كو دفع كرنا چاہتے تھے _ اسى وجہ سے وہ بنى ہاشم خصوصاً امام حسن عسكرى (ع) كے گھر پر كڑى نظر ركھتے تھے اور خفيہ و ظاہرى افراد كو تعينات ركھتے تھے _
معتمد عباسى نے چند قابلہ عورتوں كو مخفى طور پر اس كام پر معين كيا تھا وہ گاہ بگاہ بنى ہاشم خصوصاً امام حسن عسكرى كے گھر جائيں اور حالات كى رپورٹ پيش كريں _ جب اس كو امام حسن عسكرى كى بيمارى كى اطلاع ملى تو اس نے اپنے خاص افراد كو اس كام پر __
----------------
1_ بحار الانوار ج 51 ص 34_
144
مامور كيا كہ وہ رات دن امام كے گھر پر نظر ركھيں _ اور جب امام كى وفات كى خبر سنى تو ايك جماعت كو امام (ع) كے فرزند كو تلاش كرنے پر مامور كيا اور آپ كے گھر كى تلاشى كا حكم ديا _ اسى پر اكتفا نہ كى بلكہ ماہر دائيوں كو بھيجا تا كہ امام كى كنيزوں كا معائينہ كريں اور اگر ان ميں سے كسى كو حاملہ پائيں تو اسى قيد كرليں _
ان عورتوں كو ايك كنيز پر شك ہوگيا ، انہوں نے اس كى رپورٹ دى خليفہ نے كنيز كو ايك حجرے ميں قيد كرديا اور نحرير خادم كو اس كى نگرانى پر مامور كرديا اور جب تك اس كے حمل سے مايوس نہيں ہوا ، اس وقت تك آزاد نہيںكيا _ صرف امام حسن عسكرى كى خانہ تلاشى پر اكتفا كى بلكہ جب دفن سے فارغ ہوا تو حكم ديا كہ شہر كے تمام گھروں كى تلاشى لى جائے _ (1)
اب تو اس بات كى تصديق فرمائيں كہ ان خطرناك حالات ميں امام حسن عسكرى كے پاس اس كے علاوہ كوئي چارہ نہيں تھا كہ اپنے بيٹے كى ولادت كو لوگوں سے مخفى ركھيں تا كہ وہ دشمنوں كے شہر سے محفوظ رہيں _ پيغمبر اكرم اور ائمہ اطہار نے بھى ايسى حالات كے بارے ميں خبر دى تھى ولادت كے مخفى رہنے والے موضوع كو وہ پہلے سے جانتے تھے _
پھر يہ عجيب و غريب داستان ايسى نہيں ہے كہ جس كا تاريخ ميں سابقہ ہى نہ ہو _ تاريخ ميں ايسى مثاليں موجود ہيں _ مثلاً جب فرعون كو يہ خبر ہوئي كہ بنى اسرائيل ميں ايك بچہ پيدا ہوگا اور وہ اس كى حكومت كو تباہ كرے گا تو فرعون نے خطرہ كو رفع
-----------------
1_ اصول كافى باب مولاابى الحسن بن على ، ارشاد مفيد ، اعلا م الورى طبرسى ، كشف الغمہ باب الامام الھادى عشر
145
كرنے كيلئے كچھ جاسوس مقرر كئے كہ وہ حاملہ عورتوں پر نظر ركھيں اگر لڑكا پيدا ہوتو اسے قتل كرديں اور لڑكى ہو تو اسے قيد خانے ميں ڈال ديں _ چنانچہ اپنے مقصد ميں كاميابى حاصل كرنے كى غرض سے فرعون نے سيكڑويں معصوم بچوں كو قتل كراديا _ ليكن ان مظالم كے باوجود اپنے مقصد ميں كامياب نہ ہو سكا ، خدا نے موسى كے حمل اور ولادت كو پوشيدہ ركھا تا كہ اپنے ارادہ كو پورا كردے _
امام حسن عسكرى نے خطرناك حالات كے باوجود لوگوں كى ہدايت كے لئے اپنے بعض معتمد اصحاب كو اپنا بيٹا دكھا بيٹا دكھا ديا تھا اور ثقہ افراد كو اپنے بيٹے كى ولادت كى خبر دى تھى ليكن اس بات كى بھى تاكيد كى تھى كہ اس موضوع كو دشمنوں سے مخفى ركھنا يہاں تك ان كا نام بھى نہ لينا _
|