106
عالم ہورقليا اور امام زمانہ
جلالى صاحب كے گھر پر جلسہ منعقد ہوا اور موصوف نے ہى گفتگو كا آغاز كيا _
جلالى : مسلمانوں كى ايك جماعت كہتى ہے كہ امام زمانہ اما م حسن عسكرى كے فرزند ہيں جو كہ 256 ھ ميں پيدا ہوئے اور اس دنيا سے عالم ہورقليا منتقل ہوگئے اور جب انسانيت درجہ كمال پر پہنچ جائے گى اور دنيا كى كدورتوں سے پاك ہوجائے گى اور امام زمانہ كے ديدار كى صلاحيت پيدا كرے گى تو اس وقت آپ كا ديدار كرے گى _
اسى جماعت كے ايك بزرگ اپنى كتاب ميں لكھتے ہيں : يہ عالم زمين كہ تہہ ميں تھا آدم كے زمانہ ميں اسے كہا گيا : اوپر آؤجبكہ وہ اوپر كى طرف ہى محو سفر تھا وہ گردو غبار اور كثافتوں سے نكل كر صاف فضا ميں نہيں پہنچا ہے _ پس يہ ايك تاريك جگہ ہے جہاں وہ دين كو تلاش كرتا ہے ، عمل كرتا ہے اعتقاد پيدا كرتا ہے اور جب غبار سے گزركر صاف ہوا ميں داخل ہوگا تو مہدى كے روئے منور كو ديكھے گا اور ان كے نور كو مشاہدہ صاف ہوا ميں داخل ہوگا تو مہدى كے روئے منور كو ديكھے گا او ران كے نور كو مشاہدہ كرے گا اور كھلم كھلا ان سے استفادہ كرے گا _ احكام بدل جائيں گے دنيا كى كچھ اور ہى حالت ہوگى ، دين كى كيفيت بھى بدل جائے گى _
پس ہميں وہاں جانا چاہئے جہاں ولى ظاہر و آشكار ہيں نہ كہ ولى ہمارے پاس آئے اگر ولى ہمارے پاس آجائے اور ہم ميں صلاحيت وليقات نہ ہو تو ان سے مستفيد نہ
107
ہو سكيں گے ، اگر وہ آجائے اور اسى حالت پر باقى رہيں گے تو انھيں ديكھ سكيں گے اور نہ مستفيض ہوسكيں گے اور اگر ہمارى قابليت ميں اضافہ ہوجائے اور اچھے بن جائيں تو واضح ہے كہ ہم نے ترقى كى كچھ منزليں طے كرلى ہيں لہذا ہميں ترقى كركے اوپر جانا چاہئے تا كہ اس مقام تك پہنچ جائيں جس كو فلسفہ كى اصطلاح ميں ، ہورقليا كہتے ہيں _ جب دنيا ترقى كركے ہورقليا تك پہنچ جائے گى تو وہاں اپنے امام كى حكومت و حق كو مشاہدہ كريگى اور ظلم ختم ہوجائے گا _ (1)
ہوشيار: مؤلف كا مقصد واضح نہيں ہے _ اگر وہ يہ ثابت كرنا چاہتے ہيں كہ امام زمانہ نے اپنے مادى جسم كو چھوڑ كر جسم مثالى اختيار كرليا ہے اور اب زمين كے موجودات ميں ان كا شمار نہيں ہوتا اور مادّہ كے آثار سے برى ہيں ، تو يہ بات نامعقول اور امامت كى عقلى و نقلى دليلوں كے منافى ہے كيونكہ اندليلوں كامقتضييہ ہے كہ ہميشہ لوگوں كے درميان ايك ايسے كامل نسان كا وجود ضرورى ہے كہ جس ميں انسانيت كے سارے كمالات جمع ہوں ، صراط مستقيم پر گامز ن ہو اورلوگوں كے امور كى زمام اپنے ہاتھ ركھتا ہوتا كہ نوع انسان حيران و سرگردان نہ رہے اور خدا كے احكام ان كے درميان محفوظ رہيں اور خدا كے بندوں پر حجت تمام ہوجائے _ بہ عبارت ديگ: جہاں انسان كمال اور مقصد انسانيت كى طرف رواں دواں ہيں وہيں رہبر كا وجود بھى ناگزيرہے _
اگر مؤلف كى مراد عالم ہورقليا سے اسى دنيا كا كوئي نقطہ مراد ہے تو يہ بات ہمارے عقيدے كے منافى نہيں ہے ليكن ان كلام سے يہ بات سمجھ ميں نہيں آتى لہذا نامعقول ہے _
-----------
1_ ارشاد العوام مولفہ محمد كريم خان ج 3 ص 401_
108
كيا مہدى آخرى زمانہ ميں پيدا ہونگے ؟
ہم آپ كى بت كو اس حدتك تو تسليم كرتے ہيَ كہ مہدى كا وجود اسلام كے مسلم موضوعات ہيں سے ہے كہ پيغمبر اكرم(ع) نے بھى ان كے ظہور كى خبردى ہے _ ليكن اس بات ميں كيا حرج ہے كہ مہدى ابھى پيدا نہيں ہوئے ہيں جب دنيا كے حالات سازندگار ہوجا ئيں گے اس وقت خداوند عالم پيغمبر اكرم (ع) كى اولاميں سے ايك شخص كو بھيجے گا جو كہ عدل وانصاف كے پھيلانے ،ظلم كے مٹا نے اور خدا پرستى كے فروغ كے لئے قيام كرے گا اور كامياب ہوگا؟
ہوشيار: اول تو ہم نے عقلى و نقلى دليلوں سے يہ بات ثابت كردى ہے كہ امام كے وجود سے كوئي زمانہ خالى نہيں ہے چنانچہ امام نہ ہوں گے تو يہ دنيا بھى نہ ہوگي، اس بناپر ہمارے زمانہ ميں بھى امام موجود ہيں _
دوسرے ہم نے پيغمبر اور ان كے اہل بيت كى احاديث سے امام مہدى كے وجود كو ثابت كيا ہے _ پس ان كے اوصاف و تعارف كو بھى احاديث ہى سے ثابت كرنا چاہئے خوش قسمتى سے امام مہدى كى تمام علامتيں اور صفات احاديث ميں موجود ہيں اور اس ميں كسى قسم كا ابہام نہيں ہے ليكن چونكہ ان حاديث كے بيا ن كيلئے كئي جلسے دركار ہيں اس لئے آپ كے سامنے انكى فہرست پيش كرتا ہوں اگر تفصيل چاہتے ہيں تو احاديث كى كتب كا مطالعہ فرمائيں _
مہدى كى تعريف
امام بارہ ہيں ان ميں پہلے على بن ابيطالب اور آخرى مہدى ہيں 91 حديث
109
امام بارہ ہيں اور آخرى مہد ى ہيں
94 حديث
امام بارہ ہيں ان ميں سے نو امام حسين (ع) كى نسل سے ہوں گے اور نواں قائم ہے
107 حديث
مہدى (عج) عترت رسول (ص) سے ہيں
389 حديث
مہدى (عج) اولاد على (ع) سے ہيں
214 حديث
مہدى (عج)اولاد فاطمہ (ع) سے ہيں
192 حديث
مہدى (عج)اولاد حسين (ع) سے ہيں
185حديث
مہدى (عج)حسين (ع) كى نويں پشت ميں ہيں
148 حديث
مہدى (عج)امام زين العابدين (ع) كى اولاد سے ہيں
185 حديث
مہدى (عج)امام محمد باقر (ع) كى اولاد سے ہيں
103 حديث
مہدى (عج)امام جعفر صادق (ع) كى اولاد سے ہيں
103 حديث
مہدى (عج)امام جعفر صادق (ع) كى چھٹى پشت ميں ہيں
99 حديث
مہدى (عج)امام موسى كاظم (ع) كى اولاد ميں ہيں
101 حديث
مہدى (عج)امام موسى كاظم (ع) كى پانچويں پشت ميں ہيں
98 حديث
مہدى (عج)امام رضا (ع) كى اولاد سے ہيں
95 حديث
مہدى (عج)امام محمد تقى (ع) كى تيسرى پشت ميں ہيں
90 حديث
مہدى (عج)امام على نقى (ع) كى اولاد سے ہيں
90 حديث
مہدى (عج)امام حسن عسكرى (ع) كے فرزند ہيں
145 حديث
مہدى (عج)كے والد كا نام حسن ہے
148 حديث
مہدى (عج)رسول (ص) كے ہم نام و ہم كنيت ہيں
47 حديث (1)
------------------------
1_ يہ احاديث منتخب الاثر ، مولف آيت اللہ صافى ، سے نقل كى گئي ہيں _
110
رسول خدا (ص) كا ارشاد ہے : مہدى (عج) ميرى اولاد سے ہے وہ ميرا ہم نام و ہم كنيت ہوگا ، اخلاق و خلق ميں تمام لوگوں كى بہ نسبت وہ مجھ سے مشابہ ہے ، اس كى غيبت كے دوران لوگ سرگردان اور گمرا ہ ہوں گے _ اس كے بعد وہ چمكتے ہوئے ستارے كى مانند ظاہر ہوگا اور زمين كو اسى طرح عدل و انصاف سے پركرے گا جيسا كہ وہ ظلم و جور سے بھرچكى ہوگى _(1)
ملاحظہ فرمايا آپ نے كہ ان احاديث ميں جس طرح مہدى كى تعريف و توصيف كى گئي ہے اس سے كسى قسم كے شك كى گنجائشے باقى نہيں رہتى _
يہاں يہ بات عرض كردينا ضرورى ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) نے بعض احاديث ميں ايك ہى شخص ميں اپنے نام اور اپنى كنيت كوجمع كرنے سے منع فرمايا ہے _
ابوہريرہ نے روايت كى ہے كہ رسول اكرم نے فرمايا : ميرے نام اور كنيت كو ايك شخص ميں جمع نہ كرو _ (2)
چنانچہ اسى ممانعت كى بناپر جب حضرت على بن ابيطالب نے اپنے بيٹے محمد بن حنفيہ كا نام محمد اور كنيت ابوالقاسم ركھى تو بعض صحابہ نے اعتراض كيا ليكن حضرت على بن ابى طالب نے فرمايا : ميں نے اس سلسلے ميں رسول خدا سے خصوصى اجازت لى ہے _ صحابہ كى ايك جماعت نے بھى حضرت على (ع) كى بات كى تائيد كى _ اگر اس بات كو ان احاديث كے ساتھ ضميمہ كرليا جائے كہ جن ميں مہدى كو رسول خدا كا ہم نام و ہم كنيت قرارديا گيا ہے تو يہ بات واضح ہوجائے گى كہ رسول خدا (ص) نام محمد اور ابوالقاسم كنيت كے اجتماع كو مہدى كى علامت
-------------
1_ بحارالانوار جلد 51 ص 72_
2_ الطبقات الكبرى طبع لندن جلد 1 ص 67_
111
بنانا اور اسے دوسروں كيلئے ممنوع قرار دينا چاہتے تھے _ اسى بنياد پر محمد بن حنفيہ نے اپنے مہدى ہونے كے سلسلہ ميں اپنے نام اور كنيت كى طرف اشارہ كركے كہا تھا : ميں مہدى ہوں ميرا نام رسول(ص) كا نام ہے اور ميرى كنيت رسول (ص) خدا كى كنيت ہے _ (1)
مہدى امام حسين (ع) كى اولاد سے ہيں
فہيمي: ہمارے علماء تو مہدى كو حسن (ع) كى اولاد سے بتاتے ہيں اور ان كا مدرك وہ حديث ہے جو سنن ابى داؤد ميںنقل ہوئي ہے _
ابواسحاق كہتے ہيں : على (ع) نے اپنے بيٹے حسن (ع) كو ديكھ كر فرمايا: ميرا بيٹا سيد ہے كہ رسول (ص) نے انھيں سيد كہا ہے ان كى نسل سے ايك سيد ظاہر ہوگا كہ جس كا نام رسول كا نام ہوگا _ اخلاق ميں رسول (ص) سے مشابہہ ہوگا ليكن صورت ميں ان جيسا نہ ہوگا _ (2)
ہوشيار: اولاًممكن ہے كتابت و طباعت ميں غلطى كى وجہ سے حديث ميں اشتباہ ہواہو اور حسين كے بجائے حسن چھپ گيا ہو كيونكہ بالكل يہى حديث اسى متن و سند كے ساتھ دوسرى كتابوں ميں موجودہے اور اس ميں حسن كے بجائے حسين مرقوم ہے _ (3)
ثانياً : اس حديث كا ان احاديث كے مقابل كوئي اعتبار نہيں ہے جو كہ شيعہ ، سنّى كتابوں ميں نقل ہوئي ہيں اور ان ميں مہدى كو اولاد حسين سے بتايا گيا ہے _ مثال كے
-------------
1_ الطبقات الكبرى ج 5 ص 66_
2_ سنن ابى داؤد ج 2 ص 208_
3_ اثبات الہداة ج 2 ص 208_
112
طور پر اہل سنّت كى كتابوں سے يہاں چند حديثيں پيش كى جاتى ہيں :
حذيفہ كہتے ہيں كہ پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا :
'' اگر دنيا كا ايك ہى دن باقى رہے گا تو بھى خدا اس دن كو اتنا طولانى بنادے گا كہ ميرى اولاد سے ميرا ہمنام ايك شخص قيام كرے گا _ سلمان نے عرض كى : اے اللہ كى رسول (ص) وہ آپ كے كس بيٹے كى نسل سے ہوگا؟ رسول اكرم (ص) نے اپنا ہاتھ حسين(ع) كى پشت پر ركھا اورفرمايا : اس سے '' (1)
ابوسعيد خدرى نے روايت كى ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمايا :
'' اس امت كا مہدى ، كہ جن كى اقتداء ميں جناب عيسى نماز پڑھيں گے ، ہم سے ہوگا _ اس كے بعد آپ (ص) نے اپنا دست مبارك حسين (ع) كے شانہ پر ركھا اور فرمايا : اس امت كا مہدى ميرے اس بيٹے كى نسل سے ہوگا ''_ (2)
سلمان فارسى كہتے ہيں كہ ميں رسول خدا كى خدمت ميں شرفياب ہواتو حسين (ع) آنحضرت (ص) كے زانو پر بيٹھے ہوئے تھے ، آپ (ص) ان كے ہاتھ اور رخسار كو چوم رہے تھے اور فرمارہے تھے:
''تم سيد ، سيد كے بيٹے ، سيد كے بھائي ، امام كے بيٹے ، امام كے بھائي ، حجّت ، حجت كے بيٹے اور حجت كے بھائي ہو ، تم نو حجت خدا كے باپ ہو كہ جن ميں نواں قائم ہوگا _ (3)
--------------
1_ ذخائر العقبى ص 136_
2_ كتاب البيان فى اخبار صاحب الزمان باب 9_
3_ ينابيع المودة ج1 ص 145_
113
ان احاديث كا اقتضا جو كہ مہدى كے اولاد حسين(ع) سے ہونے پر دلالت كررہى ہيں ، يہ ہے كہ اس حديث كى پروا نہيں كرنا چاہئے ، جو كہ مہدى كو نسل حسن (ع) سے قرارديتى ہے _ اگر متن و سند كے اعتبار سے يہ حديث صحيح بھى ہو تو پہلى حديث كے ساتھ جمع كيا جا سكتا ہے _ كيونكہ امام حسن (ع) و امام حسين (ع) دونوں ہى امام زمانہ كے جد ہيں 7 اس لئے امام محمد باقر كى مادر گرامى امام حسن كى بيٹى تھيں ، درج ذيل حديث سے بھى اس بات كى تائيد ہوتى ہے ، پيغمبر اكرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) زہرا سے فرمايا:
'' اس امت كے دو سبط مجھ سے ہوں گے اور وہ تمہارے بيٹے حسن (ع) و حسين (ع) ہيں جو كہ جوانان جنت كے سردار ہيں _ خدا كى قسم ان كے باپ ان سے افضل ہيں _ اس خدا كى قسم جس نے مجھے حق كے ساتھ مبعوث كيا ہے اس امت كا مہدى تمہارے ان ہى دونوں بيٹوں كى اولاد سے ہوگا جب دنيا شورش ہنگاموں ميں مبتلا ہوگى '' (2)
--------------
1_ اثبات الہداة ج 7 ص 183_
114
اگر مہدى مشہور ہوتے ؟
جلالى : اگر مہدى موعود كى شخصيت اتنى ہى مشہور ہوتى اور صدر اسلام كے مسلمان ائمہ اور اصحاب نے مذكورہ تعريض سنى ہوتيں تو اصولى طور پر اشتباہ اور كج فہمى كا سد باب ہوجانا چاہئے تھا اور اصحاب و ائمہ اور علماء سے اشتباہ نہ ہوتا جبكہ ديكھنے ميں تو يہ بھى آتا ہے كہ ائمہ اطہا ركى بعض اولاد كو بھى اس كى خبر نہ تھى ، پس جعلى و جھوٹے مہدى جو كہ صدر اسلام ميں پيدا ہوئے انہوں نے خود كو اسلام كے مہدى كا قالب ميں ڈھال كر لوگوں كو فريب ديتے ہيں ، نے كيسے كاميابى حاصل كى ؟ اگر مسلمان مہدى كے نام ، كنيت ، ان كے ماں ، باپ كے نام ، ان كے بارہويں امام ہونے اور دوسرى علامتوں كے باوجود لوگ كيسے دھوكہ كھا گئے او رمحمد بن حنفيہ ، محمد بن عبداللہ بن حسن يا حضرت جعفر صادق و موسى كا ظم (ع) كو كيسے مہدى سمجھ ليا ؟
ہوشيار: جيسا كہ ميں پہلے بھى عرض كر چكا ہوں كہ صدر اسلام ميں مہدى كے وجود كا عقيدہ مسلمانوں كے درميان مسلم تھا ، ان كے وجود ميں كسى كو شك نہيں تھا _ پيغمبر اكرم وجود مہدي، اجمالى صفات ، توحيد و عدالت كى حكومت كى تشكيل ، ظلم و ستم كى بيخ كنى ، دين اسلام كا تسلط اور ان كے ذريعہ كائنات كى اصلاح كے بارے ميں مسلمانوں كو خبر ديا كرتے تھے اور ايسے خوشخبريوں كے ذريعہ ان كے حوصلہ بڑھاتے تھے_ ليكن مہدى كى حقيقى خصوصيات اور علامتوں كو بيان نہيں كرتے تھے بلكہ يہ كہنا چاہئے كہ اس موضوع كو كسى حد تك راز ميں ركھتے او راسرار نبوت كے حاملين اور قابل اعتماد افراد ہى سے بيان كرتے تھے _
115
رسول اسلام نے مہدى كى حقيقى علامتوں كو على بن ابيطالب (ع) ، فاطمہ زہرا (ع) اور اپنے بعض راز دار صحابہ سے بيان كرتے تھے ليكن عام صحابہ سے اسے سربستہ اور اجمالى طور پر بيان كرتے تھے _ ائمہ اطہار بھى اس سلسلے ميں پيغمبر (ص) كى سيرت پر عمل كرتے اور عام مسلمانوں كے سامنے اسے مجمل طريقہ سے بيان كرتے تھے _ ليكن ايك امام دوسرے سے مہدى كى حقيقى و مشخص علامتيں بيان كرتا تھا اور راز دار قابل اعتماد اصحاب سے بيان كرتا تھا _ ليكن عام مسلمان يہاں تك ائمہ كى بعض اولاد بھى اس كى تفصيل نہيں جانتى تھى _
اس اجمالى گوئي سے پيغمبر اور ائمہ اطہار كے دو مقصد تھے ، ايك يہ كہ اس طريقہ سے حكومت توحيد كے دشمن ظالموں اور ستمگروں كو حيرت ميں ڈالنا تھا تا كہ وہ مہدى موعود كو نہ پہچان سكيں چنانچہ اسى طريقہ سے انہوں نے مہدى كو نجات دى ہے _ پيغمبر اكرم اور ائمہ اطہا رجانتے تھے كہ اگر ظالم اور بر سر اقتدار حكومت و قت اور حلفاء مہدى كو نام ، كنيت اور ان كے ماں باپ و ديگر خصوصيات كے ذريعہ پہچان ليں گے تو يقينى طور پر انكے آبا و اجداد كو قتل كركے ان كى ولادت ميںمانع ہوں گے _ اپنى حكومت كو بچانے كے لئے بنى اميہ و بنى عباس ہر احتمالى خطرہ سے نمٹنے كيلئے تمام تھكنڈے استعمال كرتے تھے اور اس سلسلے ميں قتل و غارت گرى سے بھى درگزر نہيں كرتے تھے جس شخص كے متعلق وہ يہ سوج ليتے تھے كہ وہ ان كى حكومت كے لئے خطرہ بن سكتا ہے اسى كے قتل كے درپے ہوجاتے تھے خواہ متہم شخص ان كا عزيز، خدمت گارہى ہوتا ، اپنى كرسى كو بچان كيلئے وہ اپنے بھائي اور بيٹے كے قتل سے بھى دريغ نہيں كرتے تھے _ بنى اميہ اور بنى عباس كو مہدى كى علامتوں اور خصوصيات كى كامل اطلاع نہيں تھى اس كے باوجود انہوں نے احتمالى خطرہ كے سد باب كے لئے اولاد فاطمہ اور علويوں ميں سے ہزاروں افراد كو
116
تہ تيغ كرڈالا ، صرف اس لئے تاكہ مہدى قتل ہوجائے يا وہ قتل ہوجائے كہ جس سے آپ (ع) پيدا ہونے والے ہيں _ امام جعفر صادق (ع) نے ايك حديث ميں مفضل و ابو بصير اور ابان بن تغلب سے فرمايا:
'' بنى اميہ و بنى عباس نے جب سے يہ سنا ہے كہ ہمارے قائم ستمگروں كى حكومت كا خاتمہ كريں گے اسى وقت سے وہ ہمارى دشمنى پر اتر آئے ہيں اور اولاد پيغمبر كے قتل كيلئے تلوار كيھنچ لى اور اس اميد پر كہ وہ مہدى كے قتل ميں كامياب ہوجائيں _ نسل رسول (ص) كو مٹانے ميں كوئي كسر نہيں چھوڑى ہے ليكن خدا نے اپنے مقصد كى تكميل كے لئے ستمگروں كو حقيقى واقعات كى اطلاع ہى نہ ہونے دى ''_ (1)
ائمہ اطہار(ع) مہدى كى خصوصيات كے شہرت پا جانے كے سلسلے ميں اتنے خوفزدہ رہتے تھے كہ اپنے اصحاب اور بعض علويوں سے بھى حقائق پوشيدہ ركھتے تھے _
ابوخالد كابلى كہتے ہيں كہ : ميں نے امام محمد باقر(ع) سے عرض كى مجھے قائم كا نام بتاديجئے تا كہ ميں صحيح طريقہ سے پہچان لوں _ امام نے فرمايا:
'' اے ابوخالد تم نے ايسى چيز كے بارے ميں سوال كيا ہے كہ اگر اولاد فاطمہ سن ليں تو مہدى كو ٹكڑے ٹكڑے كرڈاليں گے '' _(2)
اس اجمال گوئي كا دوسرا مقصد يہ تھا كہ كمزور ايمان والے دين كے تسلط سے مايوس نہ ہوجائيں كيونكہ صدر اسلام سے انہوں نے پيغمبر اكرم اور حضرت على (ع) پاكيزہ
------------
1_ كمال الدين جلد 2 ص 23_
2_ غيبت شيخ ص 302_
117
زندگى اور ان كى عدالت كا مشاہدہ كيا تھ ا اور دين حق كے غلبہ پانے كى بشارتيں سنى تھيں ، ظلم و ستم سے عاجز آچكے تھے_ ہزاروں اميدوں كے ساتھ اسلام ميں داخل ہوئے تھے اور چونكہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ان كے كفر كا زمانہ قريب تھا ، ابھى ان كے دلوں ميں ايمان راسخ نہيں ہوا تھا اور تاريخ كے ناگورا حوادث سے جلد متاثر ہوجاتے تھے _ دوسرى طرف بنى اميہ و بنى عباس كے كردار كا مشاہد كررہے تھے اور اسلامى معاشرہ كى زبوں حالى كو اپنى آنكھوں سے ديكھ رہے تھے _ ان ناگوار حوادث اور شورشوں نے انہيں حيرت زدہ كرركھا تھا _ اس بات كا خوف تھا كہ كہيں كمزور ايمان والے دين اور حق كے غلبہ پانے سے مايوس ہوكر اسلام سے نہ پھر جائيں جن موضوعات نے مسلمانوں كے ايمان كى حفاظت كرنے ، ان كى اميد بندھانے اور ان كے دلوں كو شاداب كرنے ميں كسى حد تك مثبت كردار ادا كيا ہے ان ميں سے ايك يہى مہدى موعود كا انتظار تھا _ لوگ ہرروز اس انتظار ميں رہتے تھے كہ مہدى موعود قيام كريں اور اسلام و مسلمانوں كے ناگفتہ بہ حالات كى اصلاح كريں ظلم و ستم كا قلع و قمع كريں اور قانون اسلام كو عالمى سطح پر رائج كريں _ ظاہر ہے اس كا نتيجہ اسى وقت برآمد ہوسكتا تھا كہ جب مہدى كى حقيقى علامتوں اور خصوصيات كہ لوگوں كو واضح طور پر نہ بتا يا جاتا ورنہ اگر مكمل طريقہ سے ظہور كا وقت اور علامتيں بتادى جاتيں اور انھيں يہ معلوم ہوجاتا كہ مہدى كس كے بيٹے ہيں اور كب قيام كريں گے _ مثلاً ظہور ميں كئي ہزار سال باقى ہيں تو اس كا مطلوبہ نتيجہ كبھى حاصل نہ ہوتا _ اسى اجمال گوئي نے صدر اسلام كے كمزور ايمان والے افراد كے اميد بندھائي چنانچہ انہوں نے تمام مصائب و آلام كو برداشت كيا _
يقطين نے اپنے بيٹے على بن يقطين سے كہا : ہمارے بارے ميں جو پيشين گوئياں
118
ہوئي ہيں وہ تو پورى ہوتى ہيں ليكن تمہارے مذہب كے بارے ميں جو پيشين گوئي ہوئي ہيں وہ پورى نہيں ہورہى ہيں؟ على بن يقطين نے جواب ديا : ہمارے اور آپ كے بارے ميں جو احاديث وارد ہوئي ہيں ان كا سرچشمہ ايك ہى ہے ليكن چونكہ آپ كى حكومت كا زمانہ آگيا ہے لہذا آپ سے متعلق پيشين گوئياں يكے بعد ديگرے پورى ہورہى ہيں _ ليكن آل محمد (ص) كى حكومت كا زمانہ ابھى نہيں آيا ہے اس لئے ہميں مسرت بخش اميدوں كا سہارا دے كر خوش ركھا گيا ہے _ اگر ہم سے بتاديا جاتا كہ آل محمد (ص) كى حكومت دو سو يا تين سو سال تك قائم نہيں ہوگى تو لوگ مايوس ہوجاتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے ليكن يہ قضيہ ہمارے لئے اس طرح بيان ہوا ہے كہ ہمارا ہر دن آل محمد (ص) كى حكومت كى تشكيل كے انتظار ميں گزرتا ہے _ (1)
-------------
1_ غيبت شيخ طبع دوم ص 207_
|