آفتاب عدالت
حضرت بقية اللہ الاعظم امام زمانہ روحى فداہ ،

كتاب كانام: آفتاب عدالت
مؤلف : آيت اللہ ابراہيم اميني
ترجمه : نثار احمد زينپوري
ناشر : انصاريان پبليكيشنز قم ايران
نظرثاني : حجة الاسلام مولانا نثار احمد صاحب
كتابت : سيد قلبي حسين رضوي كشميري
سال طبع : ذي الحجة الحرام سه 1415 ھ
تعداد : 3000
پريس كانام بهمن قم

بسم اللہ الرحمن الرحيم
اللہمّ كن لوليّك الحجة
بن الحسن صواتك عليہ
و على آبائہ فى ہذہ الساعة و
فى كل ساعة ولياً و حافظاً
و قاعداً و ناصراً و دليلاً و عينا
حتى تسكنہ ارضك طوعاً
و تمتعہ فيہا طويلاً


15
پيش گفتار
زندہ اور غائب امام حضرت مہدى موعود كے وجود كا عقيدہ اسلامى عقيدہ ہے جو كہ اماميہ مذہب كے اركان ميں شمار ہوتا ہے _ يہ عقيدہ متواتر اور قطعى الصدور احاديث سے ثابت ہوچكا ہے _ اس ميں شك كى گنجائشے نہيں ہے _ ليكن اس سلسلے ميں بہت سے مسائل تحقيق كے محتاج ہيں _ جيسے : طول عمر ، طولانى غيبت ، غيبت كى وجہ ، زمانہ غيبت ميں امام زمانہ كے فوائد ، غيبت كے زمانہ ميں مسلمانوں كے فرائض ، ظہور كى علا متيں ، حضرت مہدى كا عالمى انقلاب ، آپ(ع) كى كاميابى كى كيفيت ، حضرت مہدى كى فوج كا اسلحہ ، ان كے علاوہ اور دسيوں مسئلے ہيں ، كيونكہ مخالفين جوانوں اور تعليم يافتہ طبقہ كے در ميان كتابوں اور تقارير كى صورت ميں ان ہى باتوں كو اعتراضات كا نشانہ بنا تے ہيں _ ان كا جواب دينا ضرورى ہے _ با وجوديكہ امام زمانہ روحى فداہ كے بارے ميں بہت سى كتا بيں لكھى جا چكى ہيں مگر افسوس كہ لكھنے والے ان اعتراضات كى طرف متوجہ نہيں تھے _ لہذا ان كا جواب بھى نہيں ديا _ مؤلف ان اعتراضات سے واقف تھے چنانچہ ان كا جواب دينے كى غرض سے كتاب لكھنے كا فيصلہ كيا تا كہ امام زمانہ(ع) سے متعلق ايسے صحيح مطالب قارئين كى خدمت ميں پيش كئے جائيں جو كہ ان كى ضرورت كو پو را كرسكيں خدا كى توفيق شامل حال ہوئي اور 1346 ق ش ميں يہ كتاب طبع ہوكر شائفين كے ہاتھوں ميں پہنچ گئي _ ليكن مؤلف ہميشہ اس كى تكميل كى فكر ميں رہے اور ہيں _ چنانچہ 1347 ق ش ميں نظر ثانى اور اضافات كے ساتھ دوسرے ايڈيشن طبع ہو كر شائفيں تك پہنچ گيا ، اس كے بعد

16
اگر چہ آج تك يہ كتاب مستقل چھپتى رہى ليكن تجديد نظر كے لئے فرصت نہ مل سكى _ يہاں تك كہ اس زمانہ ميں توفيق نصيب ہوئي اور نئے مطالب جمع ہوگئے _ لہذا نظر ثانى اور سودمند اضافات كے ساتھ شائقين كى خدمت ميں حاضر ہے _ واضح رہے ہميشہ كى طرح كتاب ہذا كى فائل كھلى رہے گى _ قارئين سے گزارش ہے كہ وہ اپنى تحقيقات اور مشور وں سے نوازيں شكريہ

ابراھيم اميني قم _ مارچ 1995ئ

17
مقدمہ
دنيا كے آشفتہ اور افسوس ناك حالات نے لوگوں كو خوف زدہ كر ركھا ہے ، اسلحہ كى دوڑ ، سردو گرم جنگ اور مشرق و مغرب كے درميان صف آرائي اور وحشت ناك بحرانوں نے دنيا والوں كے دل و دماغ كو فرسودہ كرديا ہے _ جنگى اسلحہ كى پيدا وار اور بہتا ت، نسل آدم كو تہديد كررہى ہے ، عالمى دہشت گردوں اور خودسروں نے پسماندہ قوموں كو زندگى كے حق سے بھى محروم كرديا ہے ، پسماندہ طبقے كى روز افزوں محروميت ، دنيا كے بيماروں اور بھوكے لوگوں كا استغاثہ و امداد طلبى اوربڑھتى ہوئي بيكارى نے حساس و زندہ دل و خيرانديش اشخاص كو پريشانى ميں مبتلا كرديا ہے_ اخلاقى تنزل ،دينى امور سے بے پروائي ، احكام الہى سے روگردانى ، مادہ پرستى اور شہوت رانى ميں افراط نے دنيا كے روشن خيال افراد كو مضطرب كرديا ہے _
يہ اور ايسے ہى سيكڑوں حالات نے عاقبت انديشى اور بشر كے خيرخواہ و اصلاح طلب افراد كو تشويش ميں مبتلا كرديا ہے اور انسانيت كى تباہى و پستى كے انديشے كى گھنٹياں ان كے كانوں ميں بج رہى ہيں_ وہ انسان كى مشكليں حل كرنے اور عالمى بحران كو دفع كرنے كى كوشش كرتے ہيں اور اس لئے ہر در پردستك ديتے ہيں ليكن جتنى كوششيں كرتے ہيں اتنى ہى مايوسى سے دوچار ہوتے ہيں _ كبھى اس حد تك مايوس ہوجاتے ہيں كہ انسان كى اصلاح كى قابليت ہى كا انكار كرديتے ہيں اور دنيا كے مستقبل كے بارے ميں بد ظن ہوجاتے ہيں اور اس كے بھيانك نتائج سے لرزہ بر اندام رہتے ہيں اور دنيائے انسانيت كى مشكليں حل

18
كرنے كے سلسلے ميں عاجزى كا اظہار كرتے ہيں _ اس سے بڑھ كر ، كبھى غيظ و غضب كى شدت كى بناپر انسانيت كے ارتقاء كے بھى منكر ہوجاتے ہيں اور اس كے علم و صنعت كو تنقيد كا نشانہ بناتے ہيں جبكہ كبھى عام حالات ميں اس بات كا اعتراف كرتے ہيں كہ علم و صنعت كى كوئي غلطى نہيں ہے بلكہ سركش اور خودخواہ انسان اس سے غلط فائدہ اٹھاتا ہے اور اصلاح كى بجائي اس سے فساد كى طرف لے جاتا ہے _

دنيا كا مستقبل شيعوں كى نظر ميں
ليكن شيعوں نے يأس و نااميدى كے ديو كو كبھى اپنے پاس نہيں آنے ديا ہے وہ انسان كى عاقبت اور سرنوشت كے بارے ميں نيك توقع ركھتے ہيں _ دنيا كے نيك و شريف انسانوں كو كاميباب تصوّر كرتے ہيں _ وہ كہتے ہيں ( اس بات كو ثابت بھى كرديا ہے) كہ يہ مختلف قسم كے پروگرام اور بشر كے خود ساختہ دل فريب مسلك انسان كو بدبختى كے گرداب سے نہيں نكال سكتے اور عالمى خطرناك بحران كا علاج نہيں كر سكتے ہيں بلكہ وہ صالح بشر كى كاميابى و سعادت كيلئے صرف اسلام كے متين و جامع قوانين ، جن كا سرچشمہ منبع وحى ہے ، كو كافى سمجتھے ہيں _
وہ ايك روشن مستقبل كى پيشين گوئي كرتے ہيں _ جس زمانہ ميں انسان حد كمال كو پہنچ جائے گا اور دنيا كى حكومت كى زمام ايسے معصوم امام كے ہاتھ ميں ہوگى جو كہ غلطى و اشتباہ اور خود غرضى و خودخواہى سے پاك ہوگا _ كلى طور پر شيعہ اميدوار بنانے والے عطيات كے حال ہيں ، انہوں نے اس تاريك زمانہ ميں بھى اپنے ذہن ميں حكومت الہى كا نقشہ بنا ركھا ہے اور اس كے انتظار ميں زندگى گزاررہے ہيں اور اس عالمى انقلاب كيلئے

19
تيارہيں _

انتظار فرج اور ظہور ميں تاخير كى وجہ
شيعوں كے دشمن جن چيزوں پر اعتراض كرتے ہيں ان ميں سے ايك مہدى موعود پر ايمان اور انتظار فرج ہے _ وہ كہتے ہيں كہ : شيعوں كى پسماندگى كا ايك سبب مصلح غيبى پر ايمان ركھنا ہے _ اس عقيدہ نے شيعوں كو بے پروا اور كاہل بناديا ہے ، اجتماعى كوشش سے بازر كھا ہے اور ان سے علمى ترقيات و فكرى اصلاحات كى صلاحيت سلب كرلى ہے _ چنانچہ وہ دوسروں كے مقابلہ ميں ذليل و رسوا ہيں اور اب اپنے امور كى اصلاح كيلئے امام مہدى كے ظہور كے منتظر ہيں
ہمارے پاس اتنا وقت نہيں ہے كہ ہم شيعہ اور مسلمانوں كے انحطاط كے اسباب كى تحقيق كريں ليكن اجمالى طور پر يہ بات مسلّم ہے كہ اسلام كے احكام و عقائد مسلمانوں كے انحطاط و پستى كا باعث نہيں بنے ہيں بلكہ خارجى اسباب و علل نے دنيائے اسلام كو پستى ميں ڈھكيلا ہے ، يہ بات يقين كے ساتھ كہى جا سكتى ہے كہ آسمانى مذاہب ميں سے اسلام سے زيادہ كسى نے بھى ملت كى ترقى و عظمت اور اس كے اجتماعى امور كى تاكيد نہيں كى ہے _ اسلام نے اپنے ماننے والوں كيلئے ظلم و فساد سے جنگ اور نہى عن المنكر كو لازمى قرار ديا ہے اور اجتماعى و سماجى اصلاحات ، عدل پرستى اور امر بالمعروف كو دين كے واجبات ميں شامل كيا ہے _ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كيلئے اتنا ہى كافى ہے كہ يہ سارے مسلمانوں پر واجب ہيں تا كہ ايك گروہ خود آمادہ كرے _
''تم ميں سے ايك گروہ كو ايسا ہونا چاہئے كہ جو خبركى دعوت دے ، نيكيوں كاحكم دے برائيوں سے منع كرے اور ايسے ہى لوگ

20
نجات يافتہ ہيں ''_ (1)
بلكہ ان دو فريضوں كو مسلمانوں كے افتخارات ميں شمار كرتا ہے اور فرماتا ہے :
'' تم دنيا ميں بہترين امت ہو كيونكہ تم امربالمعروف اور نہى عن المنكر كرتے ہو'' (2)
پيغمبر (ص) مسلمانوں كے امور كى اصلاح كى كوشش كو اسلام كا ركن اور مسلمان ہونے كى علامت قرارديتے ہوئے فرماتے ہيں :'' جو بھى دنيائے اسلام كى طرف سے بے پروائي كرے ، كوشش نہ كرے ، اہميت نہ دے ، وہ مسلمان نہيں ہے '' _
قرآن مجيد دشمنوں كے مقابلہ ميں مسلمانوں كو مسلح اور تيار رہنے كا حكم ديتا ہے : ''جہاں تك ہوسكے دشمنوں كے مقابلہ ميں خود كو مسلح و آمادہ كرو اور انھيں دہشت زدہ كرنے كيلئے جنگى توانائي كو مضبوط بناؤ'' (3)
اب ہم آپ ہى سے پوچھتے ہيں : ان آيتوں اور اس سلسلے ميں وارد ہونے والى سيكڑوں احاديث كے باوجود اسلام نے مسلمانوں سے يہ كب كہا ہے كہ وہ دنيا كى علمى ترقى و صنعت سے آنكھيں بند ركھيں اور اسلام كيلئے جو خطرات ہيں انھيں اہميت نہ ديں اور ہاتھ پر ہاتھ ركھ كر اسلام اور مسلمانوں كى حمايت كيلئے ظہور امام مہدى (ع) كے منتظر رہيں؟ اور دنيائے اسلام پر ہونے والے حملوں كے سلسلے ميں خاموش رہيں اور ايك مختصر جملہ _ '' اے اللہ: ظہور مہدى ميں تعجيل فرما'' كہكر ميدان چھوڑديں
ہم نے اپنى كتاب ميں يہ بات تحرير كى ہے كہ انتظار فرج بجائے خود كاميابى كا راز ہے _ چنانچہ جب كسى قوم و ملت كے دل ميں چراغ اميد خاموش ہوجاتا ہے اور يأس
--------------------
1_ آل عمران / 104
2_ آل عمران /110
3_ انفال / 60
21
و نااميدى كا ديواس كے خانہ دل ميں جايگزيں ہوجاتا ہے توہ كبھى كاميابى و سعادت كا منھ نہيں ديكھ سكتى ہے جو لوگ اپنى كاميابى كے انتظار ميں ہيں انھيں اپنے آخرى سانس تك كوشاں رہنا چاہئے اور اپنے مقصد تك پہنچنے كے لئے راستہ ہموار كرنا چاہئے اور مقصد سے بہرہ مند ہونے كيلئے خود كو آمادہ كرنا چاہئے _
امام جعفر صادق (ع) كا ارشاد ہے كہ : '' ضرور آل محمد (ص) كى حكومت قائم ہوگى لہذا جو شخص امام زمانہ كے انصار ميں شامل ہوناچاہتا ہے اسے بھر پور طريقہ سے متقى و پرہيزگار بننا اور نيك اخلاق سے آراستہ ہونا چاہئے اور اس كے بعد قائم آل محمد (ص) كے ظہور كا انتظار كرنا چاہئے _ جو بھى اس طرح ہمارے قائم كے ظہور كا انتظار كرے اور اس كى حيات ميں مہدى (ع) كا ظہور نہ ہو بلكہ ظہور سے قبل ہى مرجائے تو اسے زمانہ كے انصار كے برابر اجر و ثواب ملے گا'' _ اس كے بعد آپ نے فرمايا:'' كوشش و جانفشانى سے كام لو اور كاميابى كے منتظر رہو ، اس معاشرہ كو كاميابى مبارك ہو جس پر خدا كى عنايات ہيں ''_(1)
اسلام نے مسلمانوں كى تيارى كو بہت اہميت دى ہے، اس كيلئے اتنا ہى كافى ہے كہ امام صادق نے فرمايا:'' ظہور قائم كے لئے تم خود كو تيار ركھو اگر چہ ايك تير ہى ذخيرہ كرنے كے برابر ہو '' _ (2)
خدا نے مقرر كرديا كہ دنيا كے پراگندہ امور كى مسلمانوں كے ذريعہ اصلاح ہو اور ظلم و ستم كا جنازہ نكل جائے اور كفر و الحاد كى جڑيں كٹ جائيں ، پورى دنيا پر اسلام كا پرچم لہرائے كوئي سوجھ بوجھ ركھنے والا اس ميں شك نہيں كرستا كہ ايسا
-----------------
1_ غيبت نعمانى ص 106_
2_ بحار الانوار ج 52 ص 366_
22
عالمى انقلاب مقدمات اور وسائل كى فراہمى كى بغير ممكن نہيں ہے _
قرآن مجيد نے بھى اس بات كى تصديق كى ہے كہ روئے زمين پرحكومت كيلئے شائستگى ضرورى ہے _ خداوند عالم كا ارشاد ہے :'' ہم نے لكھديا ہے كہ زمين كے وارث ہمارے صالح بندے ہوں گے '' (1) مذكورہ مطالب كے پيش نظر كيا يہ كہا جا سكتا ہے كہ جس انقلاب كا علم بردار مسلمانوں كو ہونا چاہئے وہ اس كے مقدمات و اسباب فراہم نہ كريں اور اس سلسلے ميں ان كى كوئي ذمہ دارى نہيں ہے ؟ ميں نہيں سمجھتا ہوں كہ كوئي عقلمند اس بات كو تسليم كرے گا _

ايك پيغام
غيرت دار مسلمانو غفلت كا زمانہ ختم ہوچكا ہے ، خواب غفلت سے اٹھو اختلافات سے چشم پوشى كرلو ، پرچم توحيد كے نيچے جمع ہوجاؤ ، اپنى زمام مشرق و مغرب كے ہاتھ ميں نہ دو ، ہرجگہ تہذيب و تمدن انسانيت كے طلايہ دار بن جاؤ_ اپنى عظمت و استقلال اور تہذيب و تمدن كے محل كو اسلام كے محكم پايوں پر استوار كرو _ روح قرآن سے الہام حاصل كرو ، اسلام كى عزّت و سربلندى كى راہ پر چل كھڑے ہو ، مشرق و مغرب كے غلط اورزہريلے افكار كو لگام چڑھادو بشرى تمدن كے قافلے كى قيادت اپنے ہاتھوں ميں لے لو ، اپنى عظمت و حريت حاصل كرو ، جہالت و نادانى اورفكرى جمود و خرافات سے جنگ كرو _ جوانو اسلام كے حقائق سے واقفيت پيدا كرو تا كہ استعمارى ديو تم سے مايوس ہوجائے اور تمہارے مرزوبوم (سرزمين) سے فرار كرجائے _
------------------
1_ انبيائ/105_
23
پيارے مسلمانو عزت و اقتدار شائستہ اور صالح لوگوں سے مخصوص ہے ، تم نے اپنى شائستگى كو ثابت كرديا ہے _ قرآن كے اجتماعى ، اقتصادى اور اخلاقى علوم كے گراں بہا منابع كو حاصل كرو ، دنيا والوں كے سامنے اسلام كے تئيں اصلاحى پروگرام كو پيش كرو اور اپنے عمل سے يہ ثابت كردو كہ اسلام صرف عبادت گا ہوں ميں گوشہ نشينى كى تلقين نہيں كرتا ہے بلكہ وہ بشر كى ترقى و سرفرازى كے اسباب فراہم كرتا ہے _ تم دنيا كے خير انديش افراد كى اميد بندھا دو اور اس مقدس جہاد ميں انھيں بھى مدد كرنے كى دعوت دو اور دنيائے انسانيت كے قافلہ تمدن و خيرخواہى كى قيادت كرو _
اے جوانان اسلام اس مقدس جہاد اور انسانيت كے عظيم مقصد و ذمہ دارى كو پورا كرنے ميں تمہارا بہت بڑا حصہ ہے _ تمہيں عظمت اسلام، مسلمانوں كى ترقى اور امام زمانہ (عج) كے مقصد كى تكميل ميں بھرپور طريقہ سے كوشش كرنا چاہئے _ تمہيں آفتاب عدالت حضرت مہدى (ع) كے اصحاب ميں شامل ہونا چاہئے كہ جن كے بارے ميں امير المؤمنين(ع) فرمايا ہے:'' مہدى موعود كے سارے اصحاب وانصار جوان ہوں گے ، ان ميں بوڑھے كمياب ہوں گے '' _(1)

و من اللہ التوفيق
ابراہيم اميني
حوزہ علميہ قم _ ايران
فروردين 1374 (مارچ 1995ء)
-----------------
1بحارالانوارج52ص333