ولايت دين کا بنيادي ترين مسئلہ:
دين کا بنيادي ترين مسئلہ،ولايت ہے کيونکہ ولايت توحيد کي نشاني اور اسي کا پرتو ہے ، ولايت يعني حکومت؛ اسلامي معاشرے ميں حکومت ؛اصل ميں خدا کا حق ہے جسے وہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے سپرد کرتا ہے اور پھر پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اسے ولّي مومنين تک پہنچاتا ہے اور وہ لوگ اس نکتے ميں شک و ترديد کا شکار تھے ان کے افکار ميں انحراف و کجي پائي جاتي تھي، اگرچہ وہ لوگ لمبے لمبے سجدے بھي کرتے تھے! مگر حقيقت کونہيں سمجھتے تھے وہي لوگ جو ولايت امیرالمومنين عليہ السلام کو نہيں سمجھ رہے تھے جنگ صفين ميں اميرالمومنين عليہ السلام سے روگرداں ہو کر خراسان اور ديگر علاقوں ميں بحیثیت نگہبان و پاسبان وطن ہو گئے اور جنگ سے کنارہ کشي اختيار کر لي يہ لوگ پوري پوري رات سجدے کيا کرتے يا کئي گھنٹے سجدہ ريز رہتے تھے مگر اسکا فائدہ کيا تھا جب وہ اميرالمومنين عليہ السلام(حاکم وقت) کو نہ پہچان سکے، صحيح راہ يعني توحيد و ولايت کا راستہ‘‘ نہ سمجھے اور سب کچھ چھوڑ کر سجد وںميں لگ جائے! ايسے سجدہ کي کيا قيمت ہوگي۔
ولايت کے باب ميں جو روايات وارد ہوئيں ہيں اس سے معلوم ہوتا ہے، ايسے لوگ جو ساري عمر عبادتيں کرتے ہيں مگر ولي خدا کو نہيں پہچانتے اور اپني زندگي اس کي انگلي کے اشارے پر نہيں چلاتے اس کے فرمان کے مطابق نہيں عمل کرتے تو تمام عبادتیںبے فائدہ اور بے ارزش ہے! ’’ ولم يعرف ولايۃ ولّي اللہ فيواليہ ويکون جميع اعمالہ برلاللہ‘‘(١) آخر يہ کيسي عبادت ہے؟ اميرالمومنين عليہ السلام کا کچھ اس طرح کے لوگوں سے سروکار تھا۔
جس ہاتھ کو کاٹ دينا چاہيے:
اميرا لمومنين عليہ السلام نے يہ عجيب و غريب جملہ ارشاد فرماياہے ’’ايھاالنّاس ان احقّ الناس بھذا الآمراقواھم عليہ واعلمھم بامراللہ فيہ فان شغب شاغب استعب‘‘(٢)جس راستے کو ميں نے اختيار کيا ہے اگر کوئي شخص اس سے منحرف ہو جائے اورفتنہ و فساد برپا کرے تو ميں پہلے اسے نصيحت کروں گا تا کہ اپنے اس عمل سے رک جائے،ليکن اگر اس نے اس سے انکار کيا تو پھر اس کا فيصلہ ميري تلوار کريگي ’’فان ابي قوتل‘‘(٣)
اسي خطبہ ميں فرماتے ہيں ،’’الا واني اقاتل رجلين‘‘(٤)آگاہ ہو جاو ميں دو قسم کے لوگوں سے جنگ کروںگا ايک تو وہ شخص جو کسي چيز جيسے (مال) حق،مقام وغيرہ،کا حق دار نہيں ہے مگر اسے ہتھيانا چاہتا ہے دوسرے وہ آدمي کہ جو اپني ذمہ داري کو نبھانے ميں ٹال مٹول کرتا ہے مثلاً جہاد کرنا اس کا فرض ہے مگر وہ نہيں کرتا يا کسي کو کسي کا حق يا مال ادا کرنا چاہيے اور وہ ادا نہيں کرتا يا مسلمانوں کے ایسے اجتماعي امور جن ميں شريک ہونا چاہیے اور وہ شريک نہيں ہوتا ’’ اجلاّ ادعي ماليس لہ و اخر منع الذي عليہ‘‘(٥) آپ پوري قوت سے فرما رہے تھے ’’وقد فتح ياب الحرب بينکم و بين اھل القبلۃ ولا يحمل ھذا العلم الا اھل البصر و البصّر‘‘ (٦) ياد رکھو تمہارے اور اھل قبلہ کے درميان جنگ کا دروازہ کھل گيا ہے۔
پيغمبر(ص) کے زمانے ميں کب يہ موقع پيش آيا تھا؟
عمار ياسر جنگ صفين ميں ايک دفعہ متوجہ ہوئے کہ جيسے لشکر ميں کچھ سرگوشیاں ہو رہي ہے جلدي سے خود کو وہاں پہنچا يا معلوم ہواکہ کسي نے آکر سپاہيوں کے درميان يہ وسوسہ کر ديا ہے کہ تم لوگ کن لوگوں کے مقابلہ کے لئے آئے ہو جو نماز پڑھتے ہيں ان کے مقابلے کے ليے، جو خود مسلمانوںہیں ان سے لڑنے آئے ہو! آپ کو ياد ہوگاايران عراق جنگ ميں بھي ايسے نمونے ديکھنے کو ملے ہيں جس وقت ہمارے سپاہي دشمن پر حملہ کر کے انہيں اسير کرکے لاتے تھے تو ان کي جيبوں ميں تسبيح و سجدہ گاہ ہوتي تھي، اس لئے کہ يہ لوگ شيعہ تھے کہ جن کو طاغوت صدام نے اپنے مفاد کے لئے استعمال کيا تھا۔ ياد رکھیں يہ مسلمان اس وقت تک قيمت رکھتا ہے جب تک خدا کے ارادہ سے اسي کے راستہ ميں قدم اٹھائے اگر يہي ہاتھ شيطان کے ارادے سے آگے بڑھے تو پھر اسے کاٹ دينا چاہيے ، اور اميرالمومنين عليہ السلام نے اس چيز کو بہت اچھي طرح تشخيص ديا تھا۔
عمار ياسر فتنوں کو برملہ کرنے والے:
بہرحال معرکہ صفين ميں کئي بار سپاہيوں کے درميان يہي وسوسہ پيدا کيا گيا اور ميرے خيال ميں عمار ياسر تھے جنہوں نے ہر بار اس فتنہ کو برملہ کيا اورعمار کہہ رہے تھے اسطرح خطاب کر کے کہ جھگڑا نہ کرو بلکہ حقيقت کو پہچانو يہ پرچم جو تمہارے سامنے نظر آرہا ہے ميں نے ديکھا ہے يہي پرچم پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے مقابلہ ميں آيا تھا اور جو لوگ اس پرچم تلے اس وقت نظر آرہے ہيں اس وقت بھي يہي لوگ حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے بھي جنگ کرنے آئے تھے اور پھر ’’اميرالمومنين عليہ السلام کے پرچم کي طرف‘‘ اشارہ کرتے ہوئے فرمايا ميںنے ايک اور علم بھي ديکھا ہے جو اس پرچم کے مدمقابل تھا اور اسي کے نيچے پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور وہ شخص يعني اميرالمومنين عليہ السلام کھڑے ہوئے تھے ، تو آخر کيوں پہچاننے ميں غلطي کر رہے ہو؟ کيوں حقيقت کو پہچاننے کي کوشش نہيں کرتے ؟
اس خطاب سے عماّر کي بصيرت کا اندازہ ہوتا ہے، بصيرت ايک نہايت اہم شئي ہے،ميں نے تاريخ کو کھنگالاليکن يہ کردار مجھے فقط عمار ہي کا دکھائي ديا ، عمار جن جن مواقع پر حقائق سے پردہ اٹھانے کے لئے پہنچے ہيں ميں نے اسے کہيں لکھاہے جو اس وقت ميرے ہاتھ ميں نہيں کہ ميں آپکے سامنے پيش کر سکوں۔خداوند کريم نے اس مرد کو زمان پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلمسے اميرالمومنين عليہ السلام کے دور کے لئے ذخيرہ کر کے رکھا تھا کہ وہ اس دوران حقائق کو سب کے سامنے آشکار کريں اور ظلمت کا پردہ چاک کر کے نور کي طرف لوگوں کي رہنمائي کريں۔
|