اہل بیت کی مدینہ واپسی
جب امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر اہل مدینہ کو ملی تو عقیل بن ابی طالب کی بیٹی ام لقمان(١) خاندان بنی ہاشم کی خواتین کے ہمراہ باہر نکل آئیں درحالیکہ وہ خود کو اپنے لباس میں لپیٹے ہوئے تھیں اور یہ دلسوز اشعار پڑھے جارہی تھیں :
ما ذاتقولون ان قال النب لکم
ماذا فعلتم وأنتم آخر الُا مم
بعترت وبا ھل بعد مفتقد
منھم اُساری ومنھم ضرجّوابدم (٢)
..............
١۔ شیخ مفید کا بیان ہے : ام لقمان بنت عقیل بن ابی طالب رحمة اللہ علیہم نے جب حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنی تو سرپیٹتے ہوئے باہر نکل آئیں۔ ان کے ہمراہ ان کی بہنیں ام ہانی، اسماء ،رملہ اور زینب بھی تھیں جو عقیل بن ابی طالب رحمةاللہ علیہم کی بیٹیاں تھیں۔ یہ سب کے سب شہد اء کربلا پر نالہ وشیون کرنے لگیں اور'' ام لقمان'' یہ شعر پڑھنے لگیں ...۔( ارشاد، ص ٢٤٨) سبط بن جوزی نے اپنی کتاب تذکرہ میں واقدی سے ان اشعار کو زینب بنت عقیل سے نقل کیا ہے۔( تذکرہ ،ص ٢٦٧)
٢۔ طبری نے ان اشعار کو عمار دہنی کے حوالے سے امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : جب محملوں کو جناب زینب اور زین العابدین علیہماالسلام کے قافلہ کے لئے تیار کردیا گیا اور قافلہ مدینہ تک پہنچ گیا تو جیسے ہی یہ قافلہ مدینہ پہنچا بنی عبد المطلب کی ایک خاتون اپنے بالوں کو پر یشان کئے ، ہاتھوں کو سر پر رکھے اس کوشش میں تھی کہ آ ستینوں سے اپنے چہرہ کو چھپا لے قافلہ سے روتی ہوئی آکر ملی اور یہ اشعار پڑھنے لگی ۔
ماذاتقولون ان قال النبی لکم
ما ذا فعلتم و أنتم آخر الامم
بعترت واہل بعد مفتقد
منھم أساری و منھم ضرجوا بدم
ماکان ھٰذا جزائ اذنصحت لکم
ان تخلفون بسو ء فی ذوی رحمی
اے لوگو ! اس وقت کیا جواب دوگے جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سے کہیں گے کہ تم نے میرے اہل بیت اور میری عترت کے ساتھ کیا سلوک کیا جبکہ تم آخری امت تھے؛ان میں سے بعض کو اسیر بنا دیا اور بعض کو خون میںغلطاں کردیا۔ اگر میں تم لوگوں کو یہ نصیحت کر تا کہ تم لوگ میرے بعد میرے قرا بتداروں کے ساتھ بد سلوکی کرنا تب بھی ان کی پاداش یہ نہ ہوتی۔
اے لوگو ! اگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم لوگوں سے پوچھا کہ تم لوگوں نے میرے بعد میری عترت اور میرے گھر انے کے ساتھ کیاسلوک کیا تو تم کیا جواب دو گے؟جبکہ تم آخری امت تھے؛تم نے ان میں سے بعض کو اسیر تو بعض کو خون میںغلطاں کردیا ۔
جب عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب (١)کو اپنے دونوں فرزند محمد اور عون کی شہادت کی خبر ملی تو لوگ انھیں تعزیت پیش کرنے کے لئے آنے لگے۔ عبداللہ بن جعفر نے ان لوگوں کی طرف رخ کرکے کہا : ''الحمد للّٰہ ۔ عزَّ وجل ۔ علیٰ مصر ع الحسین (علیہ السلا م ) أن لا تکن آست حسینًا یدّ فقد آساہ ولدّ ، واللّٰہ لو شھد تہ لأحببت أن لا أفا رقہ حتی أقتل معہ ! واللّٰہ لما یسخّ بنفس عنھما و یھوّن علی المصاب بھما : انھما أصیبا مع أخ وابن عممواسین لہ، صابرین معہ'' (٢)و (٣)
امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر خدائے عز وجل کی حمد و ثنا ہے، اگر میرے دونوںہاتھ حسین کی مدد ویاری نہ کرسکے تو میرے دونوںبیٹوں نے انکی مدد و نصرت فرمائی ،خدا کی قسم! اگرمیں وہاں ہوتاتومجھے یہی پسند ہوتا کہ میں ان سے جدا نہ ہوں یہاں تک کہ انھیںکے ہمراہ قتل کردیا جاؤں ،خدا کی قسم جو چیز مجھے اپنے دونوں بیٹوں کے سوگ میںاطمینان بخشتی ہے اور ان کی مصیبتوں کو میرے لئے آسان کرتی ہے یہ ہے کہ میرے دونوں فرزند میرے بھائی اور میرے چچا زادبھائی کے ناصر اور ان کے یار و مد دگار تھے اور انکے ہمراہ صبر کرنے والوں میں تھے ۔
..............
١۔ حلیمہ سعد یہ کی خبر کے راوی آپ ہی ہیں۔ (طبری، ج٦، ص ١٥٨ ) جعفر طیار کی شہادت کے بعد جب بقیہ لشکر جنگ موتہ سے پلٹا تو رسو خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو بلا یا اور اپنے ہاتھوں پر آپ کو اٹھا کر نوازش کی ۔(طبری ،ج٣ ،ص ٤٢) آپ ہی نے حضرت علی علیہ السلام کو مشورہ دیا تھا کہ قیس بن سعد کو مصر سے معزول کردیں اور آپ کے مادری بھائی محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر بنادیں۔ (طبری، ج٤،ص ٣٦ ) آپ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ ( طبری، ج٥،ص ٦١ ) آپ امام حسن و امام حسین علیہما السلام کے ہمراہ حضرت علی علیہ السلام کے کفن و دفن میں شریک تھے پھر انھیں لوگوں کے ہمراہ مدینہ لوٹ آئے تھے۔ (طبری ،ج٥، ص ١٦٥ ) جب آپ مکہ سے امام حسین علیہ السلام کے پاس اپنے بیٹوں کے ہمراہ اپنا خط لے کرآئے تھے تو وہاںآپ کے بقیہ حالات گزر چکے ہیں ۔
٢۔ سلیمان بن ابی راشد نے عبدالرحمن بن عبید ابی کنود کے حوالے سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔( طبری ،ج٥،ص ٤٦٦ )
٣۔ہشام کا بیان ہے : مجھ سے عوانہ بن حکم نے روایت کی ہے کہ وہ کہتا ہے : جب عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر حسین بن علی (علیہما السلام ) قتل کر دئیے گئے تو ابن زیاد نے عبدالملک بن ابی حارث سلمی کو بلایا اور اس سے کہا: تم یہاں سے عمرو بن سعید بن عاص کے پاس جاؤ ( واضح رہے کہ عمرو بن سعید ان دنوں مدینہ کا گورنر تھا )اور جا کر اسے حسین علیہ السلام کے قتل کی خوشخبری دے دو ۔ دیکھو تم سے پہلے کوئی دوسرا یہ خبر اس تک نہ پہنچائے۔ اس میں زیادہ دیرنہ لگانااور اگر راستے میں تمہارا اونٹ کسی وجہ سے رک جائے تودوسراخرید لینا ،اسکے دینار تم کو ہم دے دیں گے۔عبدالملک کابیان ہے : میںمدینہ پہنچا اور عمرو بن سعید کے پاس حاضر ہوا تو اس نے پوچھا: تمہارے پیچھے کیا خبر ہے ؟ میں نے جواب دیا : ایسی خبر ہے جو امیر کو مسرور کردے گی، حسین بن علی قتل کر
دئیے گئے تو اس نے کہا : حسین کے قتل کا اعلان کردو ! میں نے ان کے قتل کااعلان عام کردیا۔میں نے ایسی فریاد اور چیخ پکارکبھی نہ سنی تھی جیسی فریادوگریہ و زاری حسین کے قتل کی خبر پر بنی ہاشم کی عورتوں کی سنی لیکن عمرو بن سعید ہنسنے لگا اور بولا :
عجّت نساء بنی زیاد عجة
کعجیج نسوتنا غدا ة الارنب(١)
بنی زیاد کی عورتیں نالہ وشیو ن کررہی ہیںجیسے ہماری عورتیںارنب کی صبح میںگریہ وزاری کررہی تھیں پھر اس نے کہا:یہ نالہ وفریاد عثمان بن عفان کے قتل پر نالہ وفریاد کے بدلہ میں ہے،اس کے بعد وہ منبر پر گیا اور لوگوںکو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی۔شیخ مفید نے ارشاد ص ٢٤٧ ، طبع نجف پر اس کی روایت کی ہے۔ہشام نے عوانہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : عبیداللہ بن زیاد نے عمربن سعد سے کہا: اے عمر ! وہ خط کہاں ہے جس میں میں نے تم کو حسین کے قتل کا حکم دیا تھا ؟ عمربن سعد نے جواب دیا: میں نے تمہارے حکم پرعمل کیا اور خط ضائع ہوگیا ۔
عبیداللہ بن زیاد : تم کو وہ خط لانا پڑے گا ۔
(١)یہ شعر عمربن معدیکرب زبیدی کا ہے۔ ان لوگوں نے بنی زبید کے بدلے میں بنی زیاد سے انتقام لیا تھا تو اس پر یہشعر کہا تھا۔ سبط بن جوزی نے اسے مختصر بیان کیاہے۔( ص٢٦٦ ) اور شعبی کے حوالے سے ذکرکیاہے کہ مروان بن حکم مدینہ میں تھا۔اس نے امام حسین علیہ السلام کے سر کو اپنے سامنے رکھااور آپ کی ناک کے اوپری حصہ سے بے ادبی کرنے لگا (اگر چہ اس روایت کی قوت ثابت نہیں ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کا سر مدینہ نہیں آیا ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ مروان مبارک باد دینے کے لئے مدینہ سے شام گیاہواور وہاں یہ واقعہ پیش آیاہو۔ مترجم بامشورہ محقق) اور بولا :
یا حبذابردک فی الیدین
ولو نک ا لأحمر فی الخدین
اے خوشا کہ تیرا سر د اور مردہ سر میرے دونوں ہاتھ میں ہے اور تیرا سرخ رنگ تیرے رخساروں پر ہے، پھر بولا: خدا کی قسم گویا میں عثمان کا زمانہ دیکھ رہاہوں ۔
ابن ابی الحدیدنے شرح نہج البلاغہ، ج ٤،ص ٧٢ پر حقیقت سے اس طرح پردہ ہٹا یا ہے: صحیح تو یہ ہے کہ عبیداللہ بن زیاد نے عمرو بن سعید بن عاص کو خط لکھا جس میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مژدہ سنایا گیا تھا۔ اس نے اس خط کو منبر سے پڑھا اور اس کے
ساتھ مذکورہ شعر بھی پڑھے ۔
پھررسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا : ''یوم بیوم بدر'' یہ دن روز بدر کا بدلہ ہے ۔ یہ سن کر اصحاب کے ایک گروہ نے اس پر اعتراض کیا۔ اس مطلب کو ابو عبیدہ نے اپنی کتاب ''مثالب ''میں لکھا ہے ۔
عمر بن سعد : وہ ضائع ہوگیا ۔
عبیداللہ بن زیاد : خدا کی قسم تم کو اسے میرے پاس لانا ہوگا۔
عمربن سعد : معذرت کے ساتھ،خدا کی قسم ہم سے جو شقاوت ہوئی ہے اسے مدینہ میں قریش کی بوڑھی عورتیں پڑھ رہی ہیں۔خدا کی قسم میں نے حسین کے سلسلے میں اتنے اخلاص کے ساتھ تم سے گزارش کی تھی کہ اگر اتناا خلاص اپنے باپ سعدبن ابی وقاص کے ساتھ کرتا تو میں ان کا حق ادا کر چکا ہوتا۔
عبیداللہ کے بھائی عثمان بن زیاد نے کہا : خداکی قسم یہ سچ کہہ رہاہے ، میں تو یہ چاہتا تھا کہ خاندان زیاد کی کوئی فرد نہ بچے مگریہ کہ قیامت کے دن اس کے ناک میں ایک نکیل ہو لیکن اس نے حسین کوقتل نہ کیا ہو ۔
ہشام کا بیان ہے: مجھ سے عمرو بن حیزوم کلبی نے اپنے باپ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اس نے سنا ایک منادی ندا دے رہا تھا :
أیھا القاتلون جھلاً حسینا
أبشروا با لعذاب والتنکیل
کل أھل السماء یدعون علیکم
من نبی و ملائک و قبیل
قد لعُنتم علی لسان بن داو
د و موسی و حامل الا نجیل
اے نادان قاتلان حسین تم کو عذاب ورسوائی کی بشارت ہو ،تمام اہل آسمان انبیاء ،فرشتے اور سب کے سب تمہارے لئے بد دعا کر رہے ہیں، داود ، موسی اور صاحب انجیل کی زبان سے تم لوگ موردلعنت ہو ۔ اس خبر کو شیخ مفید نے ارشاد ،ص ٢٤٨ ، اور سبط بن جوزی نے تذکرہ، ،ص ٢٧٠ ،طبع نجف پر لکھا ہے ۔
اہل کوفہ میںسب سے پہلا حسینی زائر
واقعہ عاشورہ کے بعد عبیداللہ بن زیاد نے اہل کوفہ کے سربر آوردہ افراد کو بلایا اور ان کی دل جوئی کرنے لگالیکن حضرت حر کے فرزند عبیداللہ بن حر جعفی پر اس کی نگا ہ نہیں پڑی۔ کچھ دنوںکے بعد عبیداللہ بن حر آیا اور ابن زیاد کے پاس گیا۔ اس نے حر کے بیٹے کو دیکھ کرکہا : فرزند حر ! تم کہاںتھے ؟ اس نے جواب دیا : میں مریض تھا تو ابن زیاد کہنے لگا : روح کے مریض تھے یا بدن کے؟ بیشہء شجاعت کے شیر دل فرزند عبید اللہ بن حر نے جواب دیا :'' أما قلبی فلم یمرض وأما بدنی فقد مَنَّ اللّّٰہ علیّ با لعافیہ''میری روح تو مریض نہیں ہوئی ہے، رہا سوا ل بدن کاتو خدا نے صحت دے کرمجھ پر احسان کیا ہے ۔
یہ سن کر ابن زیاد نے اس سے کہا: تو جھوٹ بولتا ہے تو ہمارے دشمنوںکے ساتھ تھا ۔
عبیداللہ بن حر نے جواب دیا: اگرمیں تمہارے دشمنوں میں ہوتا تو وہاں میرا حضور تم سے پوشیدہ نہیں رہتا ۔
اس گفتگو کے درمیان عبیداللہ بن زیاد کچھ دیر کے لئے فرزند حر کی طرف سے غافل ہوگیا تو وہ فوراً اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر باہر نکل آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ابن زیاد متوجہ ہوا اورابن حر کو نہیںپایا تو پوچھنے لگا : فرزند حر کہاں ہے ؟ حاشیہ نشینوں نے جواب دیا : وہ تو ابھی تھوڑی دیر قبل نکلا ہے ۔
عبیداللہ بن زیادنے کہا: اسے میرے پاس لے آؤ۔
یہ سن کر اس کی پولس کے افراد فوراً باہرآئے اور ابن حر کے پاس پہنچ کر کہا : امیر نے تم کو بلایا ہے ان کے پاس چلولیکن حر کے فرزند نے آنے کے بجائے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور کہا : تم لوگ اس تک میرا پیغام پہنچادوکہ خدا کی قسم میں کبھی بھی فرمانبردار ہو کر اس کے پاس نہیں آؤں گا۔
پھر وہ وہاںسے نکل گیا اور اپنے گھوڑے کوسر پٹ دوڑاتا ہوا کربلا پہنچا اوروہاں یہ اشعار پڑھے :
یقول أمیر غادر وابن غادر
ألا کنت قاتلت الشھید ابن فاطمة
فیاندم أن لاأکون نصرتہ
ألا کل نفس لا تسدّد نادمة
وان لانّ لم اکن من حماتہ
لذو حسرة ماان تفارق لازمة
سق اللّٰہ ارواح الذین تأزّروا
علی نصرہ ، سُقیاً من الغیث دائمة
وقفتُ علی أجداثھم و مجالھم
فکا د الحشاینقضّ والعین ساجمة
لعمری لقد کانوا مصالیت فی الوغی
سراعاًالی الھیجا حماة ضراغمة
فان یقتلوا فکلُّ نفس تقےة
علی الارض قد أضحت لذالک واجمة
وما ان رأی الرّاؤون أفضل منھم
لدی الموت سادات و زُھراً قماقمة
أتقتلھم ظلماًو ترجوا ودادنا
فدع خطة لیست لنا بملائمة
لعمری لقد راغمتمونا بقتلھم
فکم نا قم منّا علیکم و ناقمة
أھْم ّمرارًاان أسیر بجحفل
الی فئة زاغت عن الحق ظالمة
کفّوا والاذدتکم فی کتائب
اشد علیکم من زحوف الدیالمة(١)و(٢)
..............
١۔ عبدالرحمن بن جندب ازدی نے مجھ سے روایت کی ہے۔( طبری، ج٥،ص ٤٦٩)
٢۔ ضرب المثل میں ''دیلمیوں'' کا تذکرہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ'' ساسانیوں ''کے سقوط کے بعد دفاعی جنگ میں انھوں نے بڑا زبردست حملہ کیاتھا۔ واضح رہے کہ ابن حر عثمانی مذہب تھے اور جب عثمان قتل کر دئے گئے تو یہ کوفہ سے نکل کر معاویہ کے پاس گئے اور اسی کے پاس مقیم رہے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام شھید ہوگئے ( طبری، ج٥ ، ص ١٢٨ ) امام کی شہادت کے بعد یہ کوفہ پلٹ آئے۔یہ حجر بن عدی کی گرفتاری کے وقت آرزو مند تھے کہ اگر دس یا پانچ آدمی بھی میری مدد کرتے تو میں حجر اور ان کے ساتھیوں کو نجات دلادیتا۔ ( طبری، ج٥ ، ص ٢٧١ ) امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ساتھ قیام کی دعوت دی تو بہانہ کرکے کہنے لگے کہ خدا کی قسم میں کوفہ سے نہیں چلاتھا مگر یہ کہ مجھے ناپسند تھا کہ میرا آپ سے سامنا ہو تو اما م حسین علیہ السلام نے فرمایا : اگرتم ہماری مدد نہیں کرنا چاہتے ہوتو نہ کرو لیکن اس دن خدا سے خوف کھاؤ جس دن کہیں ان میں سے نہ ہوجاؤ جوہم سے جنگ کریں گے، خدا کی قسم کوئی ایسا نہیں ہے کہ جوہماری فریاد سنے اورہماری مددنہ کرے مگر یہ کہ وہ ہلاک ہوجائے گا ۔(طبری ،ج٥،ص ٤٠٧ ) جب یزید مر گیا
اور ابن زیاد بھاگ گیا۔ ادھر مختار قیام کے لئے اٹھے تویہ سات سو سواروں کے ہمراہ مدائن کی طرف نکلے اور وہاں لوگوں سے مال لینے لگے تو مختار نے کوفہ میں ان کی بیوی کو قیدکر لیا اور کہا : میںاس کے ساتھیوں کو ضرور قتل کروںگا تو یہ مصعب بن زبیر سے ملحق ہو گئے اور مختار سے جنگ شروع کر دی۔( طبری، ج٥،ص ١٠٥ )یہی وہ شخص ہے جس نے مختار کے قتل کے بعد مصعب کو مشورہ دیاکہ مختار کے ساتھیوں میں سے ان موالیوں کو قتل کرد و جو غیر عرب ہیںاور عرب نسل لوگوںکو چھوڑ دولہذا مصعب نے ایسا ہی کیا۔(طبری، ج٥،ص١١٦)اس وقت مصعب خود اپنی زندگی سے اس کے حوالے سے خوف زدہ ہوگیا اور اسے قید کردیا ۔ قبیلۂ مذحج کے ایک گروہ نے اس کی سفارش کی تومصعب نے اسے آزاد کردیاپھراس نے مصعب پر خروج کردیا (طبری، ج ٥،ص ١٣١)اور عبد الملک بن مروا ن سے ملحق ہوگیا۔ اس نے اسے کوفہ کا گورنر بناکر کوفہ لوٹایا۔ وہاں ابن زبیر کا عامل موجود تھا ۔ عبیداللہ بن حر نے اس سے جنگ کی اورقتل کردیا۔یہ ٦٨ھ کا واقعہ ہے۔( طبری، ج٥ ، ص ١٣٥ ) راہ کربلامیں منزل قصر بنی مقاتل کے پاس امام حسین علیہ السلام سے اس کی ملاقات کے ذیل میں اس کے احوال گزر چکے ہیں ۔
پیما ن شکن امیر اور فریب کار بیٹا کہتا ہے کہ فاطمہ کے شہید لال سے جنگ کیوں نہ کی؟! ہائے افسوس کہ میں ان کی نصرت و مدد نہ کرسکا ،حقیقت یہ ہے کہ جس کی فکر صحیح و سالم نہ ہو اسے ندامت ہی اٹھانی پڑتی ہے ، میں اس وجہ سے حسرت و اندوہ میں ہوںکہ میںان کی حمایت نہ کر سکا اور یہ حسرت و ندامت مجھ سے جدا نہیں ہوگی، خدا ان لوگوں کی ا رواح کو اپنی بے پایان رحمتوںکی بارش سے سیراب کرے جنہوںنے ان کی نصرت و مدد کاپورا پورا حق ادا کیا، میں ان کے جسموںاور ان کی آرامگاہ پر اس حال میں کھڑا ہوں کہ میری آنکھوںسے سیل اشک جاری ہے، قریب ہے کہ دل پاش پاش ہوجائے اور میں گر پڑوں،میری جان کی قسم وہ لوگ میدان جنگ میں ایسے بیشہ ٔ شجاعت تھے کہ شیرسے زیادہ سرعت و تیزی کے ساتھ میدان فضل وشرف کی طرف گامزن تھے اور مدافع حق کی حمایت کر نے والے نیزشیر بیشہ ٔ حق تھے ، اگر وہ شہید کر دئے گئے تو اہل زمین کے تمام متقین ان کی شہادت پر اندوہناک ہیں حقیقت نگر اور تاریخ کا مطالعہ کرنے والے افراد جتنی تحقیق کرنا چاہیں کرلیں لیکن موت کے مقابلہ میں ان کے جیسا بہادر و ساونت نہیں پائیں گے، کیا تم ان کو ظلم وستم کے ساتھ قتل کرنے کے بعد ہم سے دوستی کی امید رکھتے ہو ؟ اپنی اس بری سازش کو کنارے رکھو یہ ہمارے افکار سے ساز گار نہیں ہے، میری جان کی قسم ان کو قتل کرنے کے بعد تم لوگوں نے ہم سے دشمنی مول لی ہے، کتنے ہمارے مرد اور کتنی ہماری عورتیں ہیں جنہیںتم لوگوں نے اپنے خلاف بر انگیختہ کیاہے،
ہمیشہ میں اس فکر میں ہوں کہ ایک لشکرجرار کے ہمراہ ان ظالموں کی طرف حرکت کروں جنہوں نے حق سے منہ موڑ کر امام حسین علیہ السلام سے جنگ کی ہے ۔
اب بس کرو اور اپنے ظلم وستم سے ہاتھ کھینچ لو ورنہ تمہارے ظلم وستم کو دور کرنے کے لئے دیلمیوں سے سر سخت اور بہادر سپاہیوں کے ہمراہ تمہارے خلاف نبرد آزمائی کروں گا ۔
خاتمہ
خدائے متعال کی رحمتوں کے صدقے میں امام حسین علیہ السلام کے واقعات سے متعلق روایتیںجو تاریخ طبری میں ہشام کلبی سے منقول ہیںجسے انھوں نے اپنے والد اور انھوں نے ابو مخنف سے اور انھوں نے اپنے راویوں اور محدثین سے نقل کیا ہے، تحقیقات و تعلیقات کے ساتھ تمام ہوئیں۔ یہ توفیق شامل حال رہی کہ تعلیقات کے لئے بھی ہم نے تاریخ طبری ہی کو پہلا منبع قرار دیا مگر یہ کہ اگر ہمیں تاریخ طبری میں کچھ نہیں ملا تو دوسری کتابوں کی طرف رجوع کیا۔ والحمد للہ رب العالمین۔
سخن مترجم
خدا کا شکر کہ کتاب'' وقعة الطف'' کا ترجمہ محمد و آل محمد علیہم السلام کی مدد سے تمام ہوگیا۔ خدا وند عالم سے دست بہ دعا ہوں کہ اس کوشش کو قبول فرما لے اور ہمارا یہ فعل امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خوشنودی اور ان کے ظہور میں تعجیل کا سبب قرار پائے تاکہ وہ آکرتاریخی حقائق سے پردہ ہٹائیں اور ان کی موجودگی میں ہم مصائب محمد وآل محمد علیہم السلام سن کرمثاب ہوں ۔ آمین یا رب العالمین بحق محمد و آلہ الطاہرین
العبد
سید مراد رضا رضوی
٦ رجب المرجب ٢٦ ١٤ ہجری ۔
|