شہداء کے سر اور اسیروں کی شام کی طرف روانگی
ابن زیاد نے زخر بن قیس(١) کو آواز دی۔ اس کے ہمراہ'' ابو بردہ بن عوف ازدی'' اور '' طارق بن ظبیان ازدی'' بھی تھے۔اس نے ان لوگوں کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے سروں کویزید بن معاویہ کے پاس روانہ کردیا (٢) پھر امام حسین علیہ السلام کی خواتین اور بچوں کو چلنے کا حکم دیا اور علی بن حسین علیہ السلام کے لئے حکم دیا کہ ان کی گردن میں طوق و زنجیر ڈال دی جائے اوران سب کو ''محفز بن ثعلبہ عائذی قرشی'' (٣) اور شمر بن ذی الجوشن کے ہمراہ روانہ کیا۔ یہ دونوں اہل حرم کو لے کر چلے یہاں تک کہ یزیدکے پاس پہنچ گئے۔ (٤)جیسے ہی یہ سر یزید کے سامنے رکھے گئے اس نے کہا :
یفلّقن ھا ماً من رجال أعزّة
علینا وھم کانوا أعق ّ و أظلما (٥) و (٦)
ان مردوں کے سر دو نیم کردئے جو ہمارے لئے تسلی و تشفی کا باعث ہے وہ لوگ عامل جنایت اور ظلم کے خو گر تھے ۔
..............
١۔ زحر بن قیس جعفی کندی کاان لوگوں میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے جناب حجر بن عدی کندی کے خلاف گواہی دی تھی۔ ( طبری ،ج٥، ص ٢٧٠ ) ٦٦ھ میں یہ ابن مطیع کے ہمراہ مختار کے خلاف نبرد آزماتھا ۔ اس کی طرف سے یہ دشت کندہ کی طرف لشکر کا سر براہ بن کر گیاتھا ۔( ج٦، ص ١٨ ) اس نے خوب جنگ کی یہاں تک کہ یہ اور اس کا بیٹا فرات کے پاس کمزور ہو کر گر گئے۔ ( طبری ،ج٦ ، ص ٥١ ) ٦٧ھ میں یہ مصعب بن زبیر کے ہمراہ مختار سے جنگ میں شریک تھا ۔ مصعب نے فوج کا سردار بنا کر اسے دشت ''مراد'' روانہ کیا۔ ( ج ٦،ص ١٠٥ )
٧١ ھمیں عبدالملک نے عراق کے مروانیوں میں سے جن لوگوںکو خط لکھا تھا ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ ان لوگوں نے اس خط کا مثبت جواب دیا اور مصعب کو چھوڑ دیا۔( طبری، ج٦ ،ص ٦٥٦) ٧٤ھمیںخوارج سے جنگ میں یہ قبیلہ مذحج اور اسد کا سر براہ تھا ۔ ( طبری ،ج٦، ص ١٩٧ ) ٧٦ھ میںاس نے حجاج کی طرف رخ کیا اور اس کے ایک ہزار آٹھ سو کے رسالہ میں داخل ہو
گیا جو شبیب خارجی سے لڑنے جارہا تھا ۔ اس نے شبیب سے خوب لڑائی لڑی لیکن آخر میں شبیب نے اسے مجروح کر کے گرادیا اور یہ اسی مجروح حالت میں حجاج کے پاس پلٹ آیا۔( طبری، ج٦،ص ٢٤٢ ) اس لعنة اللہ علیہ کے سلسلے میں یہ آخری خبر ہے اس کے بعد اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
٢۔ ہشام کا بیان ہے : مجھ سے عبداللہ بن یزید بن روح بن زنباغ جذامی نے اپنے باپ کے حوالے سے اور اس نے غاز بن ربیعة جرشی حمیری سے روایت کی ہے کہ وہ کہتا ہے : خدا کی قسم میں دمشق میں یزید بن معاویہ کے پاس موجود تھا کہ اسی اثنا ء میں زخر بن قیس آیا اور یزید بن معاویہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ یزید نے اس سے کہا :وائے ہو تجھ پر تیرے پیچھے کیا ہے ؟اور تیرے پاس کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا: اے امیر المومنین !آپ کے لئے خوشخبری ہے، اللہ نے آپ کو فتح دی اور آپ کی مدد کی۔ حسین بن علی( علیہما السلام)اپنے خاندان کے ١٨ اور اپنے چاہنے والے ٦٠ افراد کے ساتھ ہماری طرف آئے ۔ ہم ان کے پاس گئے اوران سے سوال کیا کہ وہ تسلیم محض ہوجائیں اور امیر عبیداللہ بن زیاد کے حکم کو قبول کرلیں نہیں تو جنگ کے لئے آمادہ ہوجائیں ۔ ان لوگوں نے تسلیم ہونے کے بجائے جنگ کو قبول کیا لہذا ہم نے طلوع خورشید سے ان پر حملہ شروع کیا اور انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ تلواریں ان کے سروں پر چمکنے لگیں اور وہ سب کے سب قتل کر دئے گئے۔ اب وہاں ان کے بے سر جسم برہنہ پڑے ہیں ، ان کے کپڑے خون سے آ غشتہ ، رخسار غبارآلود اور آفتاب کی تپش میں ان کا جسم ہے ، ان پر ہوائیں چل رہی ہیں اور ان کے زائرین عقاب ہیں اوروہ وہیں تپتی ریتی پر پڑے ہیں ۔( طبری ،ج ٥ ، ص ٤٦٠ ، ارشاد ،ص٢٥٤ ،تذکرہ ،ص ٢٦٠)
٣۔ ١٣ھ میں جنگ قادسیہ میں اور اس سے پہلے یہ موجود تھا اور اس سے ان اخبار کی روایت کی جاتی ہے۔( طبری، ج٣،ص ٤٦٥ ۔ ٤٧٧ ، ارشاد ، ص٢٥٤)
٤۔یہ ابو مخنف کی روایت ہے۔ ( طبری ،ج٥،ص ٤٥٩ )
٥۔ یہ حصین بن ھمام مری کے مفضلیات قصائد میں سے ایک قصیدہ کا شعر ہے جیسا کہ دیوان حماسہ میں موجودہے ۔
٦۔ابو مخنف نے کہا: مجھ سے صقعب بن زہیر نے یزید کے غلام قاسم بن عبدالرحمن سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٦٠ ، ارشاد ، ص٢٤٦ ،طبع نجف ، مروج الذہب ،ج٣ ،ص ٧٠ وتذکرة الخواص، ص ٢٦٢ ) سبط بن جوزی نے زہری سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : جب شہداء کے سرآئے تو یزید جیرون کی تماشاگاہ پر موجود تھا ، وہیں پر اس نے یہ اشعار کہے :
لما بدت تلک الحمول وأشرقت
تلک الشموس علی ربی جیرون
نعب ا لغراب فقلت نح اولا تنح
فلقد قضیت من الغریم دیو نی
جب وہ قافلے آشکار ہوئے اور وہ خورشید جیرون کی بلندی پر چمکنے لگے تو کوے نے چیخنا شروع کیا؛ میں نے کہا : اب چاہے تو فریاد کر یا نہ کر؛ میں نے تو اپنے قرض دارسے اپنا حساب چکتا کرلیا ہے۔سبط بن جوزی کا بیان ہے : تمام روایتوں میں یزید
سے یہ مشہور ہے کہ جب سر حسین اس کے سامنے آیا تو سارے اہل شام وہاں جمع تھے اور وہ چوب خیزران سے آپ کے سرکے ساتھ بے ادبی کررہاتھا اور ابن زبعری کے اشعار پڑھ رہا تھا :
لیت أشیاخ ببدر شھدوا
جزع الخزرج من وقع الأسل
قد قتلنا القرن من ساداتھم
و عد لنا ہ ببدر فا عتد ل
اے کاش! ہمارے وہ بزرگان ہوتے جو جنگ بدر میں مارے گئے تووہ شمشیر ونیزہ کے چلنے سے خزرج کی آہ زاری کو مشاہدہ کرتے، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کردیا اور بدر کا حساب بے باق کرلیا۔ سبط بن جوزی کا بیان ہے: شعبی نے اس کا اضافہ کیا ہے :
لعبت ھاشم بالملک فلا
خبر جاء ولا وح نزل
لست من خندف ان لم انتقم
من بن أحمد ما کان فعل
بنی ہاشم نے تو حکومت کے لئے ایک کھیل کھیلا تھا ورنہ نہ تو کوئی خبر آئی اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی تھی ؛فرزندان احمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے جو کام کیا اگرمیں اس کا بدلہ نہ لوں تو خندف کی اولاد نہیں، پھر قاضی بن ابی یعلی نے احمد بن حنبل کے حوالے سے حکایت کی ہے کہ انھوں نے کہا: اگر یہ خبر یزید کے سلسلے میں صحیح ہے تو وہ فاسق تھا اور مجاہد نے کہا: وہ منافق تھا ۔(تذکرہ ،ص ٢٦١)
یہ سن کر یحٰ بن حکم ، مروان بن حکم (١) کے بھائی نے کہا :
لھام بجنب الطّفّ أدنی قرابة
من ابن زیادالعبد ذ الحسب الو غل
سمےة أمسیٰ نسلھا عدداالحصی
وبنت رسول اللّٰہ لیس لھا نسل
شہداء کی زیاد کے بے اصل ونسل بیٹے سے نزدیکی قرابت تھی، سمیہ کی نسل ریگزاروں کے برابرہو گئی اور رسو ل اللہ کی بیٹی کی کوئی نسل باقی نہ بچی۔
یہ سن کر یزید بن معاویہ نے یحٰ بن حکم کے سینے پر ایک ہاتھ مارا اور کہا : چپ رہ!(٢)پھر لوگوں
..............
١۔یہ اپنے بھائی مروان بن حکم کے ہمراہ جنگ جمل میں بصرہ میں موجود تھا اور وہاں مجروح ہوگیا تو شکست کھا کر بھاگا یہاں تک کہ معاویہ سے ٣٧ھ میں ملحق ہوگیا۔ ( طبری، ج٥،ص ٥٣٥) ٧٥ھ میں اپنے بھائی کے لڑکے عبد الملک بن مروان کے زمانے میں مدینہ کا والی بن گیا۔ (طبری، ج٦، ص ٢٠٢) ٧٨ھتک اسی عہدہ پر باقی رہا پھر عبد الملک نے اسے ایک جنگ میں رونہ کیا ۔(ج٦، ص ٣٢١ ) اس کے سلسلے میں آخری خبر یہی ہے۔ ہاں اس نے اپنی بیٹی ام حکم کی شادی ہشام بن عبد الملک سے کردی تھی۔ (طبری ،ج٧،ص ٦٧١)
٢۔ابو مخنف نے کہا: مجھ سے ابو جعفر عبسی نے ابو عمارہ عبسی سے روایت کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤٦٠ ) اغانی میں ابو الفرج نے بھی اس کی روایت کی ہے۔ (ج١٢،ص ٧٤ ، ارشاد ،ص٢٤٦،طبع نجف) سبط بن جوزی نے ص ٢٦٢ پر حسن بصری سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا : یزید نے حسین کے سرپر اس جگہ ضرب لگائی جہاں پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسہ لیا کرتے تھے اور پھر اس شعر سے تمثیل کی:
سمےة أمسی نسلھا عدد الحصی
وبنت رسول اللّٰہ لیس لھا نسل
اے سمیہ تیری نسل توعدد میں سنگریزوں کے مانند ہوگئی لیکن بنت رسول اللہ کی نسل باقی نہ بچی ۔
کو آنے کی اجازت دی گئی۔ لوگ دربار میں داخل ہو گئے ۔اس وقت حسین کا سر یزیدکے سامنے تھا اور یزید کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے وہ آپ کے گلوئے مبارک کو چھیڑ رہاتھا۔
یہ حال دیکھ کر ابو برزہ اسلمی (١) صحابی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا : کیا تو اپنی چھڑی سے حسین کے گلوئے مبارک سے بے ادبی کررہا ہے، خدا کی قسم تیری چھڑی اس گلوئے مبارک اور دہن مبارک سے متصل ہورہی ہے جہاں میں نے بارہا رسول خدۖ اکو بوسہ دیتے دیکھا ہے۔ اے یزید تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ تیرا شفیع ابن زیاد ہوگا اور یہ قیامت کے دن اس حال میں آئیں گے کہ ان کے شفیع محمد صلی اللہ علیہ (وآلہ ) وسلم ہوں گے ۔
پھر ابو برزہ اٹھے اور دربار سے باہر آگئے ۔ ابو برزہ کی یہ گفتار ہند بنت عبد اللہ بن عامر بن کریز(٢) نے سن لی۔ یہ یزید کی بیوی تھی اس نے فوراًچادر اوڑھی اور باہردربار میں نکل آئی اور کہا : اے امیر المومنین !کیا یہ حسین ابن فاطمہ بنت رسول کا سر ہے ؟ یزید نے جواب دیا ہاں! رسول اللہ کے نواسہ اور قریش کی بے نظیر وبرگزیدہ شخصیت پر نالہ وشیون اور سوگواری کرو ابن زیاد نے ان کے سلسلے میںعجلت سے کام لیا اور انھیں قتل کر دیا ، خدا اسے قتل کرے !
..............
١۔ فتح مکہ میں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ عبداللہ بن خطل مرتد کے قتل میں شریک تھے جس کے خون کو رسول خدا نے مباح قرار دے دیا تھا ۔(طبری ،ج٣،ص ٦٠ ) ٢٠ھ میں مصر کی فتح میں یہ عمر وعاص کے ہمراہ تھے۔ (طبری، ج٤، ص ١١) آپ کے اعتراض کی خبر طبری نے ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام کے حوالے سے بھی نقل کی ہے جس کے راوی عمار دہنی ہیں۔ (طبری، ج٥،ص ٣٩٠) مسعودی نے مروج الذہب ج٣،ص ٧١ پر روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا :یزید اپنی چھڑی کو اٹھا لے، خدا کی قسم میں نے بارہا دیکھا ہے کہ رسول خداان لبوں کو بوسہ دیا کرتے تھے۔سبط بن جوزی نے بھی اس کی روایت کی ہے پھر بلا ذری کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ یزید کے سامنے جس نے یہ جملہ کہا وہ انس بن مالک تھے، پھر اس کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ یہ غلط ہے کیونکہ انس کوفہ میں ابن زیاد کے پاس تھے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔( ص ٢٦٢، طبع نجف )
٢۔ عثمان نے انہیں سجستان سے کابل روانہ کیا تھا تو اس نے ٢٤ھ میں اسے فتح کرلیا (طبری، ج٤،ص ٢٤٤) پھر وہاں سے معزول کر کے ٢٩ھ میں ابو موسی اشعری کے بعد بصرہ کا والی بنایا ۔اس و قت اس کی عمر ٢٥ سال تھی۔ یہ عثمان بن عفان کے ماموں زاد بھائی تھا۔(طبری ،ج٤،ص ٢٦٤) اس نے فارس کو فتح کیا ۔(طبری، ج٤،ص ٢٦٥) ٣١ھ میں خراسان کی طرف روانہ
ہوا اور'' ابر شھو'' ،'' طوس'' ، ابیور داور نساکو فتح کیا۔یہاں تک کہ سر خس پہنچ گیا اور اہل'' مرو''سے صلح کی۔ (ج٤،ص ٣٠٠ ) بصرہ میں زیاد بن سمیہ کو اپنا جانشین بنایا۔ (طبری، ج٤،ص ٣٠١) ٢٣ھمیں ابن عامر نے مرو ، طالقا ن، فاریاب ، گرگان اور طنحارستان کو فتح کیا ۔(طبری ،ج٤،ص ٣٠٩)اسی طرح ہراہ اور بادغس کو بھی فتح کیا ۔(طبری، ج٤،ص ٣١٤) ٣٤ ھ میں عثمان نے اس سے ان لوگوں کے سلسلے میں مشورہ لیا جوعثمان سے انتقام لینا چاھتے تھے تو اس نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں کو جنگ میں بھیج دو۔( طبری، ج٤،ص ٣٣٣) ٣٥ھ میں عثمان نے اسے خط لکھا کہ وہ اہل بصرہ کو عثمان کے دفاع کے لئے آمادہ کر ے۔ ابن عامر نے عثمان کے خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا تو لوگ فوراً عثمان کی طرف چل پڑے یہاں تک کہ ربذہ کے مقام پر پہنچے تو انھیں خبر ملی کہ عثمان قتل کردئیے گئے پھر وہ لوگ پلٹ گئے۔ (طبری ،ج٤،ص٣٦٨) ٣٥ھ میں عثمان قتل کئے گئے، اس وقت ابن عامر بصرہ کا حاکم تھا (طبری ،ج٤،ص ٤٢١) اور وہاں سے وہ حجاز آگیا اور طلحہ ، زبیر ، سعید بن عاص ، ولید بن عقبہ اور بقیہ بنی امیہ بھی وہیں تھے؛ ایک طویل گفتگو کے بعد ان کے بزرگوں کی رائے یہ ہوئی کہ بصرہ چلیں لیکن بعض کی رائے یہ تھی کہ شام چلیںلیکن اسے ابن عامر نے رد کردیا اور کہا : شام سے تمہارے لئے وہ شخص کفایت کرے گا جو مستدام اسی کے علاقہ میں ہو۔ ان لوگوں کو طلحہ کی تمنا تھی اور عایشہ وحفصہ کا مثبت جواب ان کاپشت پناہ تھا لیکن عبد اللہ بن عمر نے انھیں منع کر دیا تھا اور اس نے کہا : میرے ساتھ فلاں فلاں ہیں تو سب اس کے ساتھ آمادہ ہوگئے۔ (طبری، ج٤،ص ٤٥١ ) جنگ جمل میں یہ زخمی ہو کر شام کی طرف بھاگ گیا۔ (طبری ،ج٤،ص٥٣٦) اسی کے ہمراہ معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کے پاس صلح کے لئے ایک وفد مدائن روانہ کیا تھا (طبری ،ج٥، ص ١٥٩) پھر معاویہ نے اسے دوبارہ بصرہ کا والی بنادیا (طبری، ج٥،ص ٢١٢) اور اپنی بیٹی ہند بنت معاویہ سے اس کی شادی کردی ۔ اس نے زیاد کے ساتھ معاویہ کی نسبت پر اعتراض کیا تو معاویہ اس پر ناراض ہوگیاپھر یزید نے اس کی سفارش کی۔ (طبری، ج٥،ص ٢١٤) طبری نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ یزید نے کب اس کی بیٹی ہند سے شادی کی لیکن ظاہر یہی ہے کہ جب ابن عامر نے یزید کی بہن ہند سے شادی کی ٹھیک اسی وقت یزید نے اس کی بیٹی سے شادی کی ۔ اس عورت سے یزید کو ایک لڑکا بنام عبد اللہ تھا ۔ اور اس عورت کی کنیت ام کلثوم تھی۔ (طبری ،ج٥،ص ٥٠ ) ٦٤ھ میں یزید کی ہلا کت اور بصرہ سے ابن زیاد کے فرار کے بعد اہل بصرہ کے ایک گروہ نے ابن زبیر کی ولایت سے ایک ماہ قبل اس کے بیٹے عبد الملک بن عبد اللہ بن عامر کو بصرہ کا حاکم بنادیا ۔(طبری، ج٥، ص٥٢٧)
یحٰبن حکم نے کہا: تم نے اپنے اس فعل سے قیامت کے دن اپنے اور محمدۖ کے درمیان پردہ حائل کر دیااورتم لوگ ایک امرپرکبھی بھی یکجا نہیںہو گے اور ان کی شفاعت سے دوررہو گے۔یہ کہہ کر وہ اٹھااور باہرچلاگیا۔(١)دربار کی سجاوٹ کے بعد یزید جب دربار میں بیٹھا تو اس نے اہل شام کے اشراف کو بلایا اور وہ سب کے سب اس کے اطراف میں ادھر ادھر بیٹھ گئے پھر حکم دیا کہ علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام )اور امام حسین (علیہ السلام) کی خواتین اور بچوں کو دربار میںلایا جائے۔ حکم کی
..............
١۔ابو مخنف نے کہا:مجھ سے ابو حمزہ ثمالی نے قاسم بن نجیب کے حوالے سے روایت کی ہے۔( طبری، ج٥،ص ٤٦٥)
تعمیل ہوئی اور خاندان رسالت کو دربار میں اس حال میں وارد کیا گیا کہ سب کے سب آپ لوگوں کو غور سے دیکھ رہے تھے پھر آپ لوگوں کو اس کے سامنے بیٹھا دیا گیا ۔ اس نے خاندان رسالت کو اس بری حالت میں دیکھا تو کہنے لگا ابن مرجانہ کا خدا برا کرے ! اگر تمہارے اور اس کے درمیان کوئی رشتہ داری اور قرابت داری ہوتی تو وہ تم لوگوں کے ساتھ ایسا نہ کرتا اور اس حال میں نہ بھیجتا ۔
پھر یزید نے علی بن الحسین زین ا لعابدین علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا :اے علی ! تمہارے باپ نے میرے ساتھ قطع رحم اور میرے حق کو پامال کیا اور حکومت پر مجھ سے جھگڑا کیا تو اللہ نے ان کے ساتھ وہی کیا جو تم نے دیکھا ۔
یہ سن کے آپ نے یزید کو جواب دیا :'' مَا اَصَابَ مِنْ مّْصِےْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفْسِکْمْ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَبْرَاھَا ...''(١)
جتنی مصیبتیں روئے زمین پر اور خود تم لوگوں پر نازل ہوتی ہیں(وہ سب ) قبل اس کے کہ ہم انھیں پیدا کریں کتاب ( لوح محفوظ ) میںلکھی ہوئی ہیں ۔
یہ سنکر یزید نے جواب دیا :'' وَمَا اَصَابَکُمْ مِنْ مُّصِےْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَےْدِےْکُمْ وَ ےَعْفُوْعَنْ کَثِےْرٍ''(٢) و (٣)
..............
١۔ سورہ حدید آیت ٢٢ ، ابو الفرج نے اس کے بعد ایک آیت کا اور اضافہ کیا ..'' ان ذالک علی اللّہ یسیر لکیلا تاسوا علی مافاتکم ولا تفرحوا بما آتاکم واللّہ لا یحب کل مختال فخور'' (مقاتل الطا لبیین) سبط بن جوزی نے بھی اس کی روایت کی ہے اور پھر کہاہے : علی بن ا لحسین اور ان کی خواتین کورسیوں میں جکڑا گیاتھا تو علی ( امام زین العابدین علیہ السلام ) نے آواز دے کر فرمایا: ''یا یزید ما ظنک برسول اللّٰہ لو رأنا موثقین فی الحبال عرا یا علیٰ أقتاب الجمال'' اے یزید رسول اللہ کے سلسلے میں تیرا کیا گمان ہے اگر وہ ہمیں رسیوں میں جکڑا اونٹوں کی برہنہ پشت پر دیکھیں گے تو ان پر کیا گذرے گی؟ جب امام نے یہ جملہ فرمایا تو سب رونے لگے۔( تذکرہ ،ص ٢٦٢ )
٢۔ سورہ شوریٰ آیت، ٣٠، ابوالفرج نے روایت کی ہے کہ یزید نے پہلے اس آیت کو پڑھا پھر امام علیہ السلام نے سورہ حدید کی آیہ ٢٢ سے اس کا جواب دیا اور یہی زیاد ہ مناسب ہے ۔
٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٦١ و ارشاد ،ص ٢٤٦، طبع نجف )
اور جو مصیبت تم پر پڑتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کا کرتوت ہے اور (اس پر بھی ) وہ بہت کچھ معاف کر دیتا ہے۔
فاطمہ بنت علی (علیہ السلام )(١) سے مروی ہے کہ آپ فرماتی ہیں : جب ہم لوگو ں کو یزید بن معاویہ کے سامنے بیٹھایا گیا تو ایک سرخ پوست شامی جو یزید کے پاس کھڑا تھابولا: اے امیر المومنین ! اسے مجھے ہبہ کردیجئے۔ یہ کہہ کر اس نے میری طرف اشارہ کیا تو میں ڈر کر لرزنے لگی اور ذرا کنار ے ہٹ گئی اور میں نے یہ گمان کیا کہ یہ کام ان کے لئے ممکن ہے اور میں نے اپنی بہن زینب کے کپڑے کو پکڑ لیا جوعمر میں مجھ سے بڑی نیز مجھ سے زیادہ عاقل تھیں۔ انھیں معلوم تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا لہٰذا اس سے کہا : ''کذبت واللّٰہ ولؤ مت ! ماذالک لک ولا لہ!'' خدا کی قسم تو جھوٹا اور قابل ملامت ہے، یہ حق نہ تو تجھے حاصل ہے نہ ہی یزید کو!یہ سن کر یزید غضبناک ہو گیا اور بولا : خدا کی قسم تو جھوٹ بولتی ہے؛ یہ حق مجھ کو حاصل ہے اور اگر میں اسے انجام دینا چاہوں تو انجام دے سکتا ہوں ۔
حضرت زینب سلا م اللہ علیہا : ''کلاّ واللّہ ، ما جعل اللّٰہ ذالک لک الاّ ان تخرج من ملتنا وتدین بغیر دیننا'' نہیں خداکی قسم ہر گز نہیں ، خدا نے تجھے یہ اختیار نہیں دیا ہے مگر یہ کہ تو ہمارے دین سے خارج ہو کر کوئی دوسرا دین اختیار کرلے ۔
یہ سن کر یزید آگ بگو لا ہو گیا پھر بولا : تو مجھے دین کی تلقین کر تی ہے ! دین سے خارج تو تیرے باپ اور بھائی تھے ! حضرت زینب سلام اللہ علیہانے جواب دیا :'' بدین اللّٰہ ودین أب وأخ وجد اھتدیت أنت وأبوک وجدک! ''خدا کے دین نیز میرے آباء و اجداد اور بھائی کے دین سے تو نے اور تیرے باپ داد انے ہدایت پائی ہے ۔
یزید شدید غصہ کی حالت میں بولا: توجھوٹ بولتی ہے اے دشمن خدا!
..............
١۔ طبری کی عبارت یہی ہے لیکن شیخ مفید نے ارشاد،ص ٢٤٦، اور سبط بن جوزی نے تذکرہ کے ،ص ٢٦٤، پر فاطمہ بنت الحسین ذکر کیا ہے۔اس کا مطلب ہوا حضرت زینب پھو پھی تھیں ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے کہا :''أنت أمیر مسلّط تشتم ظالماً تقہر بسلطانک ! ''تجھ سے کیا کہہ سکتی ہوں تو ایک مسلط اورسر پھرابادشاہ ہے جو ظلم وستم کے ساتھ برا بھلا کہہ رہا ہے اور اپنی سلطنت وبادشاہت میں قہر وستم کررہا ہے۔ یہ سن کر ناچار یزید خاموش ہو گیا، پھر اس شامی نے اپنی بات کی تکرار کی : اے امیر المومنین یہ کنیز مجھے بخش دے ! تو غصہ کے عالم میں یزید نے کہا : میرے پاس سے دور ہو جا، خدا تجھے موت دے! (١) پھر حکم دیا کہ عورتوں کے لئے ایک علحٰد ہ گھرقرار دیاجائے اور ان کے ہمراہ علی بن الحسین بھی ہوں اور ان کے ہمراہ زندگی کی ضروریات موجود ہوں۔ اس بنیاد پر سب کے سب اس گھر میں منتقل ہوگئے جوان کے لئے قرار دیا گیا تھا ۔ جب خاندان رسالت کے یہ افراد وہاں پہنچے تو شام کی عورتیں روتی ہوئی ان کے استقبال کو آئیں اور حسین علیہ السلام پر نوحہ وماتم کر نے لگیں اور اس نوحہ وماتم کا سلسلہ تین دنوں تک جاری رہا ۔
جب جناب زینب وزین العابدین علیہما السلام کا قافلہ مدینہ کی طرف جانے لگا تو یزید نے کہا :اے نعمان بن بشیر ! سفر کے تمام اسباب اور ضروریات ان کے ساتھ کردو ، ان کے ہمراہ اہل شام کی ایک امین و صالح شخصیت کو روانہ کرونیز ان کے ہمراہ سواروں اور مددگاروں کوبھی فراہم کرو تاکہ یہ انھیں مدینہ تک پہنچادیں ۔اس طرح خاندان رسالت کا قافلہ عزت و احترام کے ساتھ ان لوگوںکے ہمراہ نکلا۔یہ لوگ ان لوگوں کے ہمراہ رات میں ساتھ ساتھ چلتے اور قافلہ کے آگے آگے اس طرح ہوتے کہ کسی طرح سے کوئی کوتاہی اور غفلت نہ ہو نے پائے۔جہاں بھی یہ قافلہ اترتا تھا نعمان اوراس کے ساتھی ان کے اطراف سے جدا ہوجاتے تھے نیز ان کے نگہبان تمام راستہ میں ان کی ضرورتوں کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے جو ایک انسان کی روز مرہ کی حاجت ہوتی ہے مثلا ً قضا ئے حاجت اور وضو وغیرہ ۔ راستہ بھر یہی سلسلہ جاری رہا اور نعمان بن بشیر راستہ بھر قافلہ رسالت پر ملاطفت کرتا رہا اور ان سے ان کی ضرورتیں پوچھتا رہا ۔(٢)
..............
١۔ اس خبر کو طبری نے عمار دہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلا م سے نقل کیا ہے۔( طبری، ج٥،ص ٣٩٠)
٢۔ حارث بن کعب نے فاطمہ سے نقل کیاہے۔( طبری ،ج٥، ص ٤٦١ ، مقاتل الطالبیین، ص ٨٠ ،تذکرہ ،ص ٦٤ ٢)
محترم قاری پر یہ بات واضح ہے کہ طبری کی نقل کے مطابق ابو مخنف نے نہ تو قید خانہ کا ذکر کیا ہے، نہ ہی قید خانہ میں مدت قیام کو ذکر کیا ہے اورنہ ہی اس میںامام حسین علیہ السلام کی ایک بچی کی شہادت کا تذکرہ موجود ہے ۔ اسی طرح قید سے رہائی اور اس کے اسباب، امام زین العابدین سے یزید کی گفتگو اور پھر راستے میں کر بلا ہو کر مدینہ جانا اور کر بلا میں عزاداری وغیرہ کے واقعات اس تاریخ میں موجود نہیں ہیں لہٰذا ان تاریخی حقائق کی معلومات کے لئے قارئین کو لھوف ، نفس المہموم اور مقتل کی دوسری معتبر کتابوں کے مطالعہ کی دعوت دی جاتی ہے ۔( متر جم )
|