واقعۂ کربلا
 

اہل حرم کی کوفہ کی طرف روانگی
* امام علیہ السلام کا سر ابن زیاد کے پاس
* دربار ابن زیاد میں اسیروں کی آمد
* عبداللہ بن عفیف کا جہاد

اہل حرم کی کوفہ کی طرف روانگی
روز عاشورااور اس کی دوسری صبح تک عمر بن سعد نے کربلا میں قیام کیا (١)اور حکم دیا کہ بقیہ شہداء کے بھی سر وتن میں جدائی کردی جائے۔حکم کی تعمیل ہوئی اور بہتر سروں کو (٢) شمر بن ذی الجوشن، قیس بن اشعث ، عمرو بن حجاج اور عزرہ بن قیس کے ہاتھوں کوفہ کی طرف روانہ کیا ۔ یہ سب کے سب وہاں سے چلے اور ان مقدس سروں کے ہمراہ عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔
پھر اس نے حمید بن بکیر احمری (٣) کو حکم دیا کہ لوگوں کے درمیان اعلان کرے کہ کوفہ کی طرف کوچ کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں۔وہ اپنے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی بیٹیوں،بہنوں، بچوں اور مریض و ناتواں علی بن حسین ( علیہ السلام ) کو بھی لے کرچلا۔(٤)
..............
١۔ارشاد میں یہی مرقوم ہے۔( ص٢٤٣)
٢۔ ارشاد، ص ٢٤٣لیکن سبط بن جوزی کا بیان ہے کہ ٩٢ سر تھے( ص ٢٥٦)شاید سبعین اور تسعین میں تصحیف ہو گئی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خود سبط بن جوزی کابیان ہے:'' کانت زیادہ علی سبعین رأساً'' سروںکی تعداد ستر (٧٠) سروں سے زیادہ تھی۔( ص ٢٥٩ ،طبع نجف)
٣۔ یہ شخص ابن زیاد کے محافظوں میں تھا۔ اسی کو ابن زیاد نے قاضی شریح کے ہمراہ اس وقت نگاہ رکھنے کے لئے روانہ کیا جب وہ ہانی کو دیکھنے گیا تھا اور ان کے قبیلے کو باخبرکرنے کے لئے روانہ ہواتھا کہ ہانی صحیح و سالم ہیں ۔شریح یہ کہا کرتا تھاخدا کی قسم اگر وہ میرے ساتھ نہ ہوتا تو میں ہانی کے قبیلے والوں کووہ با تیں بتادیتا جس کا حکم ہانی نے مجھے دیا تھا۔(طبری ،ج٥، ص ٢٦٨)
٤۔طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٣۔ ٤٥٥ ،مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔
قرّہ بن قیس تمیمی کا بیان ہے کہ میں زینب بنت علی کو اس وقت فراموش نہیں کرسکتا جب وہ اپنے بھائی کے خون آلودہ جسم کے پاس سے گزررہی تھیںاور یہ فریاد کر رہی تھیں:'' یا محمد اہ ! یا محمداہ صلی علیک ملائکة السماء ، ھذاالحسین بالعراء مرمَّل بالدماء مقطع الأعضاء ، یا محمدا ہ! و بناتک سبایا ، و ذریتک مقتلة تسغ علیھا الصبا! ''
اے (نانا) محمد اے (نانا ) محمد ! آپ پر تو آسمان کے فرشتوںنے نماز پڑھی ، لیکن یہ حسین ہیں جو اس دشت میں خون میں غلطاں ہیں ، جسم کا ہر ہرعضو ٹکڑے ٹکڑے ہے ۔ ( اے جد بزرگوار ) اے محمد ! ( ذرا دیکھئے تو ) آپ کی بیٹیاں اسیر ہیں اور آپ کی پاک نسل اپنے خون میں نہائے سورہی ہے جن پر باد صبا چل رہی ہے۔ خدا کی قسم زینب نے ہر دوست ودشمن کو رلا دیا (١)اور مخدرات عصمت آہ و فریاد کرنے لگیں اور اپنے چہروں پر طما نچے لگا نے لگیں۔ (٢) حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شہادت کے ایک دن(٣) بعد محلہ غاضر یہ میں رہنے والے بنی اسد نے آپ لوگوںکے جسم کو سپردلحد کیا ۔(٤)

امام حسین علیہ السلام کا سر ابن زیاد کے دربار میں
حمید بن مسلم کا بیان ہے : عمر بن سعد نے مجھے بلا یا اور اپنے گھر والوں کے پاس مجھے روانہ کیا تا کہ میں ان لوگوں کو خو ش خبری دوںکہ اللہ نے اسے سلا متی کے ساتھ فتحیاب کیا ۔ میں آیا اور اس کے گھر والوں کو اس سے باخبر کیا ۔ پھر میں پلٹ کر محل آیا تو دیکھا کہ ابن زیاد بیٹھا ہے اور اس وقت وہ لوگ جو سروں
..............
١۔ سبط بن جوزی نے اس کی روایت کی ہے۔( ص ٢٥٦ )
٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو زہیر عبسی نے قرہ بن قیس تمیمی سے روایت کی ہے۔( طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٥ )
٣۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٣، ٤٥٥)
٤۔ شیخ مفید نے ارشاد ،ص ٢٤٣ و ص ٢٤٩ پر اسی طرح مسعودی نے مروج الذہب، ج٣، ص ٧٢ پر لکھا ہے : مشہور یہ ہے کہ شہادت کے تین دن بعد دفن کئے گئے اور یہ دفن کی انجام دہی امام سجاد علیہ السلا م کی موجود گی میں ہوئی ہے جیسا کہ امام رضا علیہ السلام کے ہمراہ علی بن حمزہ کا مناظرہ اس پر گواہ ہے ۔مقتل الحسین مقرم ،ص ٤١٥ کی طرف رجوع کریں ۔
کو لے کر کر بلا سے چلے تھے گروہ گروہ اس کے پاس آرہے ہیں ۔ قبیلہ ٔ کندہ ٣١ سروں کے ہمراہ آیا جس کا سر براہ قیس بن اشعث تھا۔ ہوازن ٢٠ سروں کے ہمراہ آئے جن کا سر براہ شمر بن ذی الجوشن تھا۔ قبیلۂ تمیم ١٧ سروں کے ساتھ وارد ہوا ، بنی اسد ٦ سروں کے ہمراہ ، مذحج ٧ سراور بقیہ ٧ ٧ سر لے کر وا رد ہوئے۔ اس طرح ستر (٧٠) سر ہو گئے۔ وہ سب کے سب عبید اللہ کے پاس آئے اور عام لوگوں کو بھی دربار میں آنے کی اجازت ملی تو داخل ہونے والوں کے ساتھ میں بھی داخل ہوا۔میں نے دیکھا امام حسین علیہ السلام کا سر اس کے سا منے رکھا ہے اور وہ چھڑی سے دونوں دانتوں کے درمیان آپ کے لبوں سے بے ادبی کر رہا ہے۔جب زید بن ارقم (١) نے اسے دیکھا اور غور کیا کہ وہ اپنی شقاوتوں سے باز نہیں آرہا ہے اور چھڑی سے دندان مبارک کو چھیڑ ے جا رہا ہے تو انھوں نے ابن زیاد سے کہا :'' اُعل بھٰذا القضیب عن ھا تین الشفتین فوالذ لا الہ غیرہ لقد رأیت شفت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم علی ھا تین الشفتین یقبلھما !''اس چھڑی کو ان دونوں لبوں سے ہٹالے، قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ،میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود دیکھا ہے کہ آپ اپنے دونوں لبوں سے ان لبوں کو بوسہ دیا کر تے تھے۔
پھر وہ ضعیف العمر صحابی ٔرسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چیخ مار کر رونے لگا تو ابن زیاد نے کہا : خدا تمہاری آنکھوں کو گریاں رکھے!اگر بڑھاپے کی وجہ سے تیری عقل فاسد اور تو بے عقل و بے خرد نہ ہو گیا ہوتا تو میں تیری گردن اڑادیتا ۔ یہ سن کر زید بن ار قم وہاں سے اٹھے اور فوراً باہر نکل گئے۔ (٢)
..............
١۔ اہل کوفہ سے مخاطب ہوکر روز عاشورا امام حسین علیہ السلام کے خطبہ کے ذیل میں ان کے احوال گزر چکے ہیں۔سبط بن جوزی نے بخاری سے اور انھوں نے ابن سیر ین سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں : جب حسین کا سر ابن زیاد کے سامنے طشت میں رکھا گیا تو اس نے آپ کے لبوں پر چھڑی مار نا شروع کیا ۔اس وقت وہاں پر انس بن مالک موجود تھے، وہ رونے لگے اور کہا : یہ رسول خدا سے سب سے زیاد مشابہ تھے۔( ص ٢٥٧)
٢۔شیخ مفید نے ارشاد ، ص ٢٤٣ پر اس کی روایت کی ہے ۔
نکلتے وقت و ہ یہی کہے جارہے تھے :''ملّک عبد عبداً فاتخذھم تلداً ! أنتم یا معشر العرب العبید بعد الیوم قتلتم ابن فا طمہ و أمّر تم بن مرجانة ! فھو یقتل خیارکم ویستعبد شرارکم فرضیتم بالذل ! فبعد ًالمن رض بالذل !'' (١) ایک غلام نے د وسرے غلام کو تخت حکومت پربٹھا یا اور ان لوگوں نے تمامچیزوںکو اپنا بنالیا . اے گروہ عرب آج کے بعد تم لوگ غلام ہو کیونکہ تم نے فرزند فاطمہ کو قتل کردیا اور مرجانہ کے بیٹے کو اپنا امیر بنالیا ۔وہ تمہارے اچھوں کو قتل کرے گا اورتمہارے بروں کو غلام بنالے گا، تم لوگ اپنی ذلت و رسوائی پرراضی و خوشنود ہو، برا ہو اس کا جو رسوائی پر راضی ہوجائے۔راوی کا بیان ہے کہ جب زید بن ارقم باہر نکلے اور لوگوں نے ان کی گفتار سنی تو کہنے لگے : خدا کی قسم زید بن ارقم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر ابن زیا د اسے سن لے تو انھیں قتل کردے گا۔
..............
١۔ سبط بن جوزی نے ص ٢٥٧ پر اس کی روایت کی ہے اور وہاںاضافہ کیا ہے کہ زید بن ارقم نے کہا : اے ابن زیاد ! میںاس حدیث سے زیادہ سنگین حدیث تجھ سے بیان کررہا ہوںکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو اس حال میںدیکھا کہ حسن کو اپنے داہنے زانوپرا ور حسین کو اپنے بائیں زانو پر بٹھا ئے ہوئے تھے اور اپنے ہاتھ کوان کے سر پر رکھ کر فرمارہے تھے:'' اللّٰھم انی استودعک ایاھما و صالح المومنین'' خدا یا! میں ان دونوں کو اور ان کے باپ صالح المومنین کو تیری امانت میں سپرد کررہاہوں'' فکیف کان ودیعہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عندک یابن زیاد ؟'' اے ابن زیاد ! پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ امانت تیرے پاس کس طرح موجود ہے ؟ سبط بن جوزی نے پھربیان کیا کہ ہشام بن محمد کابیان ہے : جب ابن زیاد کے سامنے حسین علیہ السلام کا سر رکھا گیا تو کاہن اور پیشنگوئی کرنے والوں نے اس سے کہا: اٹھو اور اپنے قدم ان کے منہ پر رکھو، وہ اٹھا اور اس نے اپنے قدم آپ کے دہن مبارک پررکھ دیا، پھر زید بن ارقم سے کہا: تم کیسا دیکھ رہے ہو ؟ تو زید بن ارقم نے کہا : خدا کی قسم میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں اپنے لب رکھتے دیکھا ہے جہاں تو نے قدم رکھاہے۔ سبط بن جوزی کا پھر بیان ہے کہ شبعی نے کہا: ابن زیاد کے پاس قیس بن عباد موجود تھا ؛ابن زیاد نے اس سے کہا میرے اور حسین علیہ السلام کے بارے میں تمہارا نظریہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا : قیامت کے دن ان کے جد ، والد اور ان کی والدہ آکر ان کی شفاعت کریں گے اورتمہارا دادا ، باپ اور تمہاری ماںآکر تمہاری سفارش کریں گی ۔یہ سن کر ابن زیاد غضب ناک ہوگیا اور اسے دربار سے اٹھا دیا۔سبط بن جوزی ہی نے طبقات ابن سعد سے روایت کی ہے کہ صاحب طبقات بن سعد کا بیان ہے : ابن زیاد کی ماں مرجانہ نے اپنے بیٹے سے کہا: اے خبیث تو نے فرزند رسول اللہ کو قتل کیا ہے؛ خدا کی قسم تو کبھی بھی جنت نہیں دیکھ پائے گا۔ (تذکرہ ، ص ٢٥٩ والکامل فی التاریخ، ج٤، ص ٢٦٥)

دربار ابن زیاد میں اسیروں کی آمد
جب امام حسین علیہ السلام کی بہنیں ، خواتین اور بچے عبیداللہ بن زیاد کے دربار میںپہنچے تو زینب بنت فاطمہ بہت ہی معمولی لباس پہنے ہوئے تھیں اور غیر معروف انداز میں دربار میںوارد ہوئیں۔ کنیزیں اور خواتین آپ کو چاروں طرف سے اپنی جھرمٹ میں لئے تھیں تاکہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکے پھر آپ انھیں کے درمیان بیٹھ گئیں۔عبیداللہ بن زیاد نے پوچھا : یہ بیٹھی ہوئی خاتون کون ہے ؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا توا س نے تین بار اس سوال کی تکرار کی اور تینوں بار آپ نے اس سے تکلم نہیںکیاپھر آپ کی بعض کنیزوں نے کہاکہ یہ زینب بنت فاطمہ ہیں ۔یہ سن کر اس نے کہا :'' الحمد للّٰہ الذی فضحکم و قتلکم وأکذب أحدوثتکم !''شکر ہے اس خدا کا جس نے تم لوگوں کو ذلیل کیا ، قتل کیا اور تمہاری باتوں کو جھوٹاثابت کیا! زینب کبریٰ نے جواب دیا :'' الحمد للّٰہ الذی أکرمنا بمحمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم و طھّرنا تطھیراًلاکما تقول أنت انما یفتضح الفاسق و یکذب الفاجر''شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے عزت وکرامت عطافرمائی اور ہمیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھا جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق تھا؛ ایسا نہیں ہے جیسا تو کہہ رہا ہے ،بے شک ذلیل فاسق ہے اور جھوٹ فاجر کا ثابت ہوتا ہے۔
ابن زیادنے کہا :'' کیف رأیت صنع اللّٰہ بأ ھل بیتک ؟'' اپنے اہل بیت کے سلسلے میں اللہ کے سلوک کو کیسا محسوس کیا؟
زینب( علیہا السلام ) نے جواب دیا:'' کتب علیھم القتل فبرزوا الی مضا جعھم ، و سیجمع اللّٰہ بینک و بینھم فتحاجون الیہ و تخا صمون عندہ'' (١)خدا وند عالم نے اپنی راہ میں افتخار شہادت ان کے لئے مقرر کر دیا تھا تو ان لوگوں نے راہ حق میں اپنی جان نثار کردی ، اور عنقریب خدا تجھے اور ان کو یکجا اور تمہیں ان کے مد مقابل لا کر کھڑا کرے گا تو وہاں تم اس کے پاس دلیل پیش کرنا اور اس کے نزدیک مخاصمہ کرنا ۔
..............
١۔ شیخ مفید نے ارشاد ص ٢٤٣ پر یہ روایت بیان کی ہے۔اسی طرح سبط ابن جوزی نے تذکرہ ، ص ٢٥٨ ۔ ٢٥٩،طبع نجف میں یہ روایت بیان کی ہے۔
ابن زیاد رسوا ہو چکا تھا اور اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا لہٰذا وہ غضبناک اور ہیجان زدہ ہوکر بولا:'' قد أشفی اللّہ نفس من طاغیتک والعصاة المردہ من أھل بیتک ! ''خدا نے تمہارے طغیان گر بھائی اور تمہارے خاندان کے سر کش باغیوں کو قتل کر کے میرے دل کو ٹھنڈا کر دیا ۔
یہ سن کر فاطمہ کی لخت جگر رونے لگیں پھر فرمایا :'' لعمری لقد قتلت کھل وأبرت اھل وقطعت فرع واجتثثت أصل ! فان یشفیک ھٰذافقد اشتفیت! ''قسم ہے میری جان کی تو نے ہمارے خاندان کے بزرگ کو قتل کیا ہے ، ہمارے عزیزوں کے خو ن کو زمین پر بہایا، ہماری شاخوں کو کاٹ ڈالا اور ہماری بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کی کوشش کی ، اگر اس سے تجھے خوشی ملی ہے تو خوش ہولے۔
عبیداللہ بن زیاداحساس شکست کرتے ہوئے بولا: یہ تو بڑی قافیہ باز عورت ہے۔ (١)میری جان کی قسم تیرا باپ بھی قافیہ باز شاعر تھا ۔
اس کے جواب میںزینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا : عورت کو قافیہ بازی سے کیا مطلب! ہمیںاس کی فرصت ہی کہاں ہے لیکن یہ دل کادرد اور اندوہ ہے جو زبان پر جاری ہو گیا۔
پھر ابن زیاد نے علی بن حسین علیہاالسلام کی طرف نگاہ کی اور آپ سے بولا : تمہارا نام کیاے ؟(٢) امام علی بن الحسین ( زین العابدین ) نے جواب دیا : ''أنا علی بن الحسین'' میں علی فرزند حسین ہوں۔
ابن زیادنے کہا : کیا اللہ نے حسین کے بیٹے علی کو قتل نہیں کیا ؟
یہ سن کر آپ خاموش ہوگئے تو ابن زیاد نے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ہے، بولتے کیوں نہیں ؟
علی بن الحسین نے فرمایا : میرے ایک بھائی تھے ان کا نا م بھی علی تھا جنہیں دشمنوں نے قتل کردیا ۔
ابن زیادنے کہا: اسے اللہ ہی نے قتل کیا ہے . یہ سن کر پھرآپ خاموش ہوگئے تو ابن زیاد نے کہا: تمہیں کیا ہو گیا ہے بولتے کیوں نہیں ؟
..............
١۔ طبری میں کلمئہ شجاعة و شجاعاآیا ہے یعنی بڑی بہادر خاتون ہے لیکن شیخ مفید نے ارشاد میں وہی لکھاہے جو ہم نے یہا ں ذکر کیا ہے۔( ص ٢٤٢ ،طبع نجف) اور گفتگو کے سیاق و سباق سے یہی مناسب بھی ہے ۔
٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ ( طبری ،ج٥،ص ٤٥٦۔ ٤٥٧ )
علی بن الحسین نے فرمایا: ''اللّٰہ یتوفی الانفس حین موتھا (١)وما کان لنفس أن تموت الا باذن اللّٰہ'' (٢) خدا وند متعال لوگوں کے مرتے وقت ان کی روحیں (اپنی طرف ) کھینچ لیتا ہے اور بغیر حکم خدا کے تو کوئی شخص مر ہی نہیں سکتا ۔
ابن زیادخجل ہو کر بولا : خدا کی قسم تو بھی انھیں میں کا ایک ہے، پھر اپنے دربار کے ایک جلاد مری بن معاذ احمری سے کہا: وائے ہو تجھ پر اس کو قتل کردے ، یہ سنتے ہی آپ کی پھوپھی زینب آپ سے لپٹ گئیں اور فرمایا :'' یابن زیاد ! حسبک منّا أما رویت من دمائنا ؟ وھل أبقیت منا أحداً و اعتنقتہ وقالت : أسالک باللّٰہ ۔ ان کنت مومنا ۔ ان قتلتہ لمّا قتلتن معہ ! '' اے ابن زیاد !کیا ہمارے خاندان کی اس قدر تاراجی تیرے لئے کافی نہیںہے؟ کیا تو ہمارے خون سے ابھی تک سیراب نہیں ہوا ؟ کیا تو نے ہم میں سے کسی ایک کو بھی باقی رکھا ہے، پھرآپ نے اپنے بھتیجے کو گلے سے لگا لیا اور فرمایا: تجھ کو خدا کا واسطہ دیتی ہوں اگر تجھ میں ایمان کی بو باس ہے اور اگر تو انھیں قتل کرنا چاہتا ہے تو مجھے بھی ان کے ساتھ قتل کردے۔
علی بن الحسین علیہ السلام نے آواز دی: ''ان کانت بینک و بینھن قرابة فابعث معھن ّ رجلاً تقیا یصحَبَھُنَّ بصحبة الاسلام '' اگر تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے تو اگر تیرے اور ان کے درمیان کوئی قرابت باقی ہے تو انھیںکسی متقی مرد کے ساتھ مدینہ روانہ کردے ۔
پھر ابن زیاد نے جناب زینب اور امام سجاد کی طرف بڑے غور سے دیکھا اور بولا: تعجب ہے اس رشتہ داری اور قرابتداری پر ،خدا کی قسم یہ چاہتی ہے کہ اگر میں اسے قتل کروں تو اس کے ساتھ اس کو بھی قتل کردوں !اس جوان کو چھوڑ دو ۔(٣) و (٤)
پھر ابن زیاد نے امام حسین علیہ السلام کے سر کو نیزہ پر نصب کردیا اور کوفہ میں اسے گھمایا جانے لگا ۔(٥)
..............
١۔ سورۂ زمر، آیت ٤٢
٢۔سورۂ آل عمران، آ یت ١٤٥
٣۔ ابو مخنف کہتے ہیں:سلیمان بن ابی راشد نے مجھ سے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت بیان کی ہے۔( طبری، ج٥ ، ص ٤٥٧)
٤۔ طبری نے ذیل المذیل میں بیان کیا ہے : علی بن الحسین جو ( کربلامیں شہید ہونے والے علی بن الحسین سے ) چھوٹے تھے نے فرمایا:جب مجھے ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا تو اس نے کہا : تمہارا نام کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا: : علی بن الحسین تو اس نے کہا : کیا علی بن الحسین کو اللہ نے قتل نہیں کیا ؟ میں نے جواب دیا : میرے ایک بھائی تھے جو مجھ سے بڑے تھے، دشمنو ںنے انھیں قتل کردیا ۔ اس نے کہا: نہیں بلکہ اللہ نے اسے قتل کیا ! میں نے کہا: '' اللّٰہ یتوفی الأنفس حین موتھا '' یہ سن کر اس نے میرے قتل کا حکم نافذ کردیا تو زینب بنت علی علیھما السلام نے کہا : اے ابن زیاد ! ہمارے خاندان کا اتنا ہی خون تیرے لئے کافی ہے ! میں تجھے خدا کا واسطہ دیتی ہوں کہ اگر انھیںقتل کرنا ہی چاہتا ہے تو ان کے ساتھ مجھے بھی قتل کردے ! یہ سن کر اس نے یہ ارادہ ترک کردیا ۔ طبری نے ابن سعد (صاحب طبقات) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے مالک بن اسماعیل سے روایت کی ہے اور انھوں نے اپنے باپ شعیب سے اور انھوں نے منہال بن عمرو سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں : میں علی بن الحسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : آپ نے صبح کس حال میں کی؛خدا آپ کو صحیح و سالم رکھے! انھوں نے جواب دیا : میں نے اس شہر میں تجھ جیسا بوڑھا اور بزرگ نہیں دیکھا جسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہماری صبح کیسی ہوئی! اب جب کہ تمہیں کچھ نہیں معلوم ہے تو میں بتائے دیتا ہوں کہ ہم نے اپنی قوم میں اسی طرح صبح کی جس طرح فرعون کے زمانے آل فرعون کے درمیان بنی اسرائیل نے صبح کی۔ وہ ان کے لڑکوں کو قتل کردیتا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ ہمارے بزرگ اورسید و سردار علی بن ابیطالب نے اس حال میں صبح کی کہ لوگ ہمارے دشمن کے دربار میں مقرب بارگاہ ہونے کے لئے منبروں سے ان پر سب وشتم کررہے تھے ۔ (اے منہال ) قریش نے اس حال میں صبح کی کہ سارے عرب پر وہ صاحب فضیلت شمار ہورہے تھے کیونکہ محمدۖ ان میں سے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس فضیلت کی کوئی چیز نہ تھی اور سارے عرب اس فضیلت کے معترف تھے اور سارے عرب تمام غیر عرب سے صاحب فضیلت شمار کئے جانے لگے کیونکہ محمدۖ عربی ان میں سے تھے ؛اس کے علاوہ ان کے پاس فضیلت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور سارے عجم ان کی اس فضیلت کے معترف تھے۔اب اگر عرب سچ بولتے ہیں کہ انھیں عجم پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ محمدۖ ان میں سے تھے اور اگر قریش سچے ہیں کہ انھیں عرب پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ محمدۖ ان میں سے ہیں تو اس اعتبار سے ہم اہل بیت ہیں اور ہمیں قریش پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ محمدۖ ہمارے ہیںلیکن ہم لوگوں نے اس حال میں صبح کی کہ ہمارے حق کو چھین لیاگیا اور ہمارے حقوق کی کوئی رعایت نہ کی گئی۔ یہ ہمارا روزگار اور ہماری زندگی ہے، اگر تم نہیں جانتے ہو کہ ہم نے کیسے صبح کی تو ہم نے اس حال میں صبح کی ۔
ابن سعد کا بیان ہے : مجھے عبدالرحمن بن یونس نے سفیان سے اور اس نے جعفر بن محمد علیہ السلام سے خبر نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : علی بن الحسین ( علیہ السلام) نے٥٨سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ علی بن الحسین کربلا میں اپنے باپ کے ہمراہ ٢٣یا ٢٤ سال کے تھے۔ لہٰذا کہنے والے کا یہ قول صحیح نہیں ہے کہ وہ بچہ تھے اور ابھی ان کے چہرے پر ڈاڑھی بھی نہیںآئی تھی ؛ لیکن وہ اس دن مریض تھے لہٰذا جنگ میں شرکت نہیں کی۔ کیسے ممکن ہے کہ ان کو ڈاڑھی تک نہ آئی ہو جب کہ ان کے فرزند ابو جعفر محمد بن علی (علیھما السلام ) دنیا میں آچکے تھے۔ ( ذیل المذیل ،ص ٦٣٠ ،طبع دار المعارف بحوالہ طبقات ابن سعد ،ج ٥ ص ٢١١ ۔ ٢١٨وارشاد ، ص ٢٤٤ ) سبط بن جوزی نے اصل خبر کو بطور مختصر بیان کیا ہے۔( ص ٢٥٨ ،طبع نجف )
٥۔ ابو مخنف نے اس طرح روایت کی ہے۔ (طبری ، ج٥ ، ص ٤٥٩ )

عبداللہ بن عفیف کا جہاد
مسجد میں نماز جماعت کا اعلان ہوالوگ آہستہ آہستہ مسجد آعظم میں جمع ہونے لگے۔ ابن زیاد منبر پر گیا اور بولا :'' الحمد للّٰہ الذ أظھرالحق و أھلہ و نصر أمیر المومنین یزید بن معاویہ و حزبہ و قتل الکذّاب ابن الکذّاب الحسین بن عل و شیعتہ''حمد و ثنا اس خدا کی جس نے حق اور اس کے اہل کو آشکار کیا اور امیر المومنین یزید بن معاویہ اور ان کے گروہ کی مدد و نصرت فرمائی اور کذاب بن کذاب حسین بن علی اور اس کے پیروؤں کو قتل کیا ۔
ابھی ابن زیاد اپنی بات تمام بھی نہ کرپایا تھا کہ عبداللہ بن عفیف ازدی غامدی اس کی طرف بڑھے۔ آپ علی کرم اللہ وجھہ کے پیرو ؤں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ رات تک مسجد سے جدا نہیں ہوتے تھے بلکہ وہیں عبادتوں میں مشغول رہتے تھے۔ (١)جب آپ نے ابن زیاد کی بات سنی تو فرمایا :'' ان الکذّاب وابن الکذّاب أنت و أبوک ، والّذی ولّاک وابوہ یابن مرجانة (٢) أتقتلون أبناء النبیین و تتکلمون بکلام الصدیقین ! ''جھوٹا اور جھوٹے کا بیٹا تو اور تیراباپ ہے اور وہ جس نے تجھ کو والی بنایااور اس کا باپ ہے، اے مرجانہ کے بیٹے ! کیا تم لوگ انبیاء کے فرزندوں کو قتل کرکے راست بازوں جیسی بات کرتے ہو !
یہ سن کر ابن زیاد پکارا : اسے میرے پاس لاؤ ! یہ سنتے ہی اس کے اوباش سپاہی آپ پر جھپٹ پڑے اور آپ کو پکڑلیا۔ یہ دیکھ کر آپ نے قبیلہ'' ازد ''کو آواز دی :'' یا مبرور'' اے نیکو کار!یہ سن کر قبیلہ
..............
١۔ جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ نبرد آزمائی میں آپ کی بائیں آنکھ جاتی رہی۔ جنگ صفین میں کسی نے آپ کے سر پر ایک وار کیا اورپھر دوسرا وارآپ کی ابرؤں پر کیا جس سے آپ کی دوسری آنکھ بھی جاتی رہی۔( طبری ،ج ٥، ص ٤٥٨، ارشاد ، ص ٢٤٤)اور سبط بن جوزی نے اس خبر کو بطور مختصر ذکرکیا ہے۔ (ص ٢٥٩ )
٢۔ مرجانہ فارسی کے'' مہرگانہ'' سے معرب ہے۔ یہ ابن زیاد کی ماں ہے۔ یہ ایک قسم کی گالی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایران کے شہر خوزستان کی رہنے والی تھی ۔
''ازد'' کے جوان آگے بڑھے اور آپ کو ان لوگوں کے چنگل سے نکالا اور آپ کے گھر پہنچادیا ۔(١)
ماحول ٹھنڈا ہو گیا تو ابن زیاد نے پھر آپ کی گرفتاری کا حکم صادر کیا اور جب آپ کو گرفتار کر لیا تو قتل کرکے آپ کوکوفہ کے مقام سبخہ پر لٹکا نے کا حکم دیا لہٰذا آپ کی لاش وہیں پر لٹکی رہی۔(٢)
..............
١۔اس وقت عبدالرحمن بن مخنف ازدی وہیں بیٹھا تھا۔ اس نے کہا : وائے ہو ! تو نے خود کو بھی ہلاکت میں ڈالا اور اپنی قوم کو بھی ہلاکت میں مبتلا کردیا۔( طبری، ج٥، ص ٤٥٩) یہ ابو مخنف کے باپ کے چچا ہیں کیونکہ ان کے بھائی سعید ابو مخنف کے دادا ہیں۔ اس سے پہلے انھوں نے صفین میں شرکت کی ہے اور معاویہ کی غارت گریوں کا مقابلہ کیا ہے جیسا کہ طبری نے ج٥، ص١٣٣ پر ذکر کیا ہے ۔
٦٦ھ میں مختار کے قیام کے وقت یہ عبداللہ بن مطیع عدوی کے ہمراہ تھے جو ابن زبیر کی جانب سے کوفہ کاوالی تھا ۔عبداللہ بن مطیع نے ان کو ایک لشکر کے ساتھ جبانة الصائدین تک روانہ کیا ۔( طبری، ج٦،ص ٩١٨ )یہ ان مشیروں میں سے ہیں جو اسے مشورہ دیا کرتے تھے کہ کوفہ سے حجاز چلاجائے۔ (ج ٦ ،ص ٣١) یہ مختار پر خروج کو ناپسند کر تے تھے لیکن جب اصرار ہوا توخروج کرنے والوں کے ساتھ نکل پڑے( طبری، ج٦،ص٤٤)تو وہاں فرات پر جنگ کی یہاں تک کہ ناتواں ہوگئے تو لوگ انہیں اٹھالے گئے ( طبری، ج٦،ص ٥١) پھر بصرہ میںیہ ان لوگوں کے ہمراہ جو اشراف کوفہ میں سے نکلے تھے مصعب بن زبیر سے ملحق ہو گئے ۔ ( ج ٦،ص ٥٩)مصعب نے انہیں کوفہ روانہ کردیا ۔یہ ٦٧ھ کی بات ہے۔ مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ابن زبیر کی بیعت کے لئے مدعو کریں اور لوگوں کو مصعب کی طرف لے جائیں۔( ج٦،ص ٩٦ ) مختار سے جنگ میں یہ مصعب کے ساتھ تھے۔ ( ج ٦،ص ١٠٤) ٧٤ھ میں عبدالملک بن مروان کے زمانے میں والی بصرہ بشر بن مروان کی طرف سے'' ازارقہ'' کے خوارج سے جنگ کی تھی ( ج٦ ،ص ١٩٧) اور انھیں کازرون تک بھگادیا تھا ۔ ان لوگوں نے خوب مقابلہ کیا یہاں تک کہ کچھ لوگوں کے علاوہ ان کے سب ساتھی بھاگ کھڑے ہوئے پس یہ لڑتے رہے یہاں تک کہ ٧٥ھ میں قتل کردئے گئے۔ (ج ٦ ،ص ٢١٢)
٢۔یہ حمید بن مسلم کا بیان ہے۔( طبری ، ج٥،ص ٤٥٨ )