واقعۂ کربلا
 

امام حسین علیہ السلام کی شہادت
سر کا رسید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے جب فقط تین یاچار ساتھی رہ گئے تو آپ نے اپنا یمنی لباس منگوا یا جو مضبوط بناوٹ کا صاف وشفاف کپڑا تھا اسے آپ نے جا بجا سے پھاڑدیا اور الٹ دیا تاکہ اسے کوئی غارت نہ کرے ۔(١)ا ور(٢)
اس بھری دوپہر میں آپ کافی دیر تک اپنی جگہ پرٹھہرے رہے۔ دشمنوں کی فوج کا جو شخص بھی آپ تک آتا تھا وہ پلٹ جاتا تھا کیونکہ کوئی بھی آپ کے قتل کی ذمہ داری اوریہ عظیم گناہ اپنے سر پر لینا پسند نہیں کررہا تھا۔ آخر کار مالک بن نسیربدّی کندی (٣) آنحضرت کے قریب آیا اور تلوار سے آپ کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ برنس (ایک قسم کی ٹوپی جو آغاز اسلام میں پہنی جا تی تھی ) جو آپ کے سر پر تھی شگافتہ ہوگئی اور ضرب کا اثر آپ کے سر تک پہنچا اور آپ کے سر سے خون جاری ہوگیا ، برنس خون آلود ہوگئی ، تو حسین علیہ السلام نے اس سے کہا : ''لا أکلت بھا ولا شربت وحشرک اللّٰہ مع الظالمین'' تجھے کھانا ، پینا نصیب نہ ہو،اور اللہ تجھے ظالموں کے ساتھ محشور کرے ۔
..............
١۔ آپ کے اصحاب نے آپ سے کہا : اگر آپ اس کے نیچے ایک چھوٹا سا کپڑاپہن لیتے تو بہتر ہوتا۔ آپ نے جواب دیا:'' ثوب مذلہ ولا ینبغی لی أن البسہ '' یہ ذلت ورسوائی کا لباس ہے اور میرے لئے مناسب نہیں ہے کہ میں اسے پہنوں۔ جب آپ شہید ہوگئے تو بحر بن کعب وہ یمنی لباس لوٹ کے لے گیا ۔(طبری ،ج٥،ص٤٥١) ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمروبن شعیب نے محمد بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ بحر بن کعب کے دونوں ہاتھوں سے سردی میں پانی ٹپکتا تھا اور گرمی وہ بالکل سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہوجاتا تھا۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٥١)
٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم سے یہ روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٥١وارشاد، ص ٢٤١)
٣۔ یہ وہی شخص ہے جو راستے میں حر کے پاس ابن زیاد کا خط لے کر آیا تھا جس میں یہ لکھاتھا کہ حسین( علیہ السلام) کو بے آب وگیاہ صحرا میں اتارلو ؛امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے اس صحرا میں وارد ہونے کے ذیل میں اس کے احوال گزرچکے ہیں ۔
پھر آپ نے اس برنس کوالگ کیا اور ایک دوسری ٹوپی منگوا کر اسے پہنا اور اس پر عمامہ باندھا۔(١)اسی طرح سیاہ ریشمی ٹوپی پر آپ نے عمامہ باندھا۔ آپ کے جسم پر ایک قمیص(٢) یاایک ریشمی جبہ تھا ،آپ کی ڈاڑھی خضاب سے ر نگین تھی، اس حال میںآ پ میدان جنگ میںآئے اورشیربیشۂ
..............
١۔ وہ برنس ریشمی تھا ۔ مالک بن نسیر کندی آیا اور اسے اٹھا لے گیا، پھر جب اس کے بعد وہ اپنے گھر آیا تو اس برنس سے خون کو دھونا شروع کیا۔ اس کی بیوی نے اسے دیکھ لیا اور وہ سمجھ گئی تو بولی : نواسئہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامان لوٹ کر لا تا ہے اور میرے گھر میں داخل ہوتا ہے ! میرے پاس سے اسے فوراً نکال لے جا! اس کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ فقیر رہا یہاں تک کہ مر گیا۔ ( طبری، ج٥،ص ٤٤٨، ارشاد ،ص ٢٤١) ارشاد میں شیخ مفید نے مالک بن یسر لکھا ہے۔ ہشام اپنے باپ محمد بن سائب سے اور وہ قاسم بن اصبغ بن نباتہ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جو اپنے لشکر میں حسین علیہ السلام کی جنگ کا گواہ ہے وہ کہتا ہے : جب حسین کے سارے سپاہی شہید کردیئے گئے تو آپ نے گھوڑے پر سوار ہو کر فرات کا رخ کیا اور اپنے گھوڑے کو ایک ضرب لگائی ۔یہ دیکھ کر قبیلہ بنی آبان بن دارم کے ایک شخص نے کہا : وائے ہو تم پر ان کے اور پانی کے درمیان حائل ہو جاؤ توان لوگوں نے اس کے حکم کی پیروی کی اور ان کے اور فرات کے درمیان حائل ہوگئے . اور'' اباتی'' نے ایک تیر چلا یا جو آپ کی ٹھڈی میں پیوست ہوگیا ۔امام حسین علیہ السلام نے اس تیر کو کھینچا اور اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلا دیں تو وہ خون سے بھر گئیںپھر آپ نے فرمایا :'' اللّٰھم ان أشکو الیک ما یفعل بابن بنت نبیک،اللّٰھم اظمہ''خدا یا! میں تیری بارگاہ میں اس چیز کی شکایت کر تا ہوں جو تیرے نبی کے نواسہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ خدا یا! اسے ہمیشہ پیاسا رکھ۔ قاسم بن اصبغ کا بیان ہے : میں نے اسے اس حال میں دیکھا کہ اس کے پاس دودھ سے بھرے بڑے بڑے برتن اور کوزوں میں ٹھنڈے ٹھنڈے شربت رکھے ہوئے تھے لیکن وہ کہہ رہا تھا : وائے ہو تم لوگوں پر مجھے پانی پلا ؤ ،پیاس مجھے مارے ڈال رہی ہے پھر بڑا برتن اور کوزہ لا یا جاتا اور وہ سب پی جاتا اور جب سب پی جاتا تو پھر تھوڑی ہی دیر میں فریاد کرنے لگتا اور پھر کہنے لگتا : وائے ہو تم لوگوں پر ! مجھے پانی پلا ؤ پیاس مجھے مارے ڈال رہی ہے، خدا کی قسم تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کا پیٹ اونٹ کے پیٹ کی طرح پھٹ گیا۔ ابو الفرج نے اسے ابو مخنف کے حوالہ سے لکھا ہے۔(ص ٧٨، طبع نجف)
ہشام کا بیان ہے : مجھ سے عمروبن شمر نے جابر جعفی کے حوالے سے روایت کی ہے کہ ان کا بیان ہے : حسین کی پیاس شدید سے شدید تر ہو رہی تھی لہٰذاآپ فرات کے نزدیک پانی کی غرض سے آئے لیکن ادھر سے حصین بن تمیم نے ایک تیر چلا یا جو آپ کے دہن مبارک پر لگا ، آپ نے اپنے دہن سے اس خون کو ہاتھ میں لیا اور آسمان کی طرف پھینک دیا اور فرمایا :'' اللّٰھم أحصھم عدداً واقتلھم بدداً ولا تذرعلی الارض منھم أحداً''(طبری ،ج ٥،ص٤٤٩و٠ ٤٥) خدا یا!ان کی تعدادکو کم کردے ،انھیںنابود کردے اور ان میں سے کسی ایک کوروئے زمین پرباقی نہ رکھ ۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٤٧و ٤٤٨ )
٢۔ابو مخنف نے کہا:مجھ سے صقعب بن زہیرنے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٥٢)
شجاعت جیساقتال شر وع کیا،دشمنو ں کے ہر تیر سے خود کوماہرانہ اندازمیں بچا رہے تھے ، دشمن کی ہر کمی اورضعف سے فائدہ اٹھارہے تھے اور اسے غنیمت و فرصت شمار کررتے ہوئے اور دشمن پر بڑازبردست حملہ کررہے تھے۔ (١)
اسی دوران شمراہل کوفہ کے دس پیدلوں کے ساتھ حسین علیہ السلام کے خیموںکی طرف بڑھنے لگا جن میں آپ کے اثاثہ اور گھر والے تھے۔ آپ ان لوگوں کی طرف بڑھے تو ان لوگوں نے آپ اورآپ کے گھر والوں کے درمیان فاصلہ پیدا کردیا۔یہ وہ موقع تھا جب آپ نے فرمایا:'' ویلکم !ان لم یکن لکم دین ،وکنتم لاتخافون یوم المعادفکونواف أمردنیاکم أحراراًذوی أحساب ! امنعوارحلی وأھل من طغامکم وجھالکم !''
وائے ہو تم پر !اگر تمہارے پاس دین نہیںہے اورتمہیںقیامت کا خوف نہیں ہے توکم ازکم دنیاوی امور میں تو اپنی شرافت اور خاندانی آبرو کا لحاظ رکھو ؛ ان اراذل واوباشوں کو ہمارے خیموں اور گھر والوںسے دور کرو۔ یہ سن کرشمر بن ذی الجوشن بولا : اے فرزندفاطمہ یہ تمہاراحق ہے ! یہ کہہ کر اس نے آپ پر حملہ کردیا، حسین (علیہ السلام) نے بھی ان لوگوں پر زبر دست حملہ کیاتووہ لوگ ذلیل ورسواہوکر وہاںسے پیچھے ہٹ گئے۔ (٢)عبداللہ بن عمار بارقی(٣) کابیا ن ہے : پھر پیدلو ں کی فوج پر چپ وراست سے آپ نے زبردست حملہ کیا ؛پہلے آپ ان پر حملہ آور ہوئے جوداہنی طرف سے یلغار کررہے تھے اورایسی تلوار چلا ئی کہ وہ خوف زدہ ہوکر بھاگ گھڑے ہوئے پھر بائیں جانب حملہ کیا یہاںتک وہ بھی خوف زدہ ہوکر بھاگ گئے۔خداکی قسم میں نے کبھی ایسا ٹوٹاہوا انسان نہیںدیکھا جس کے سارے اہل بیت، انصار اورساتھی قتل کئے جاچکے ہوںاس کا دل اتنامستحکم، اس کاقلب اتنامطمئن اور اپنے دشمن کے مقابلہ میںاس قدرشجاع ہو جتنے کہ حسین علیہ السلام تھے۔ خداکی قسم میںنے ان سے پہلے اور ان کے بعد کسی کو ان کے
..............
١۔ابومخنف نے حجاج سے اور اس نے عبداللہ بن عمار بارقی سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص٤٥٢)
٢۔یہ ابو مخنف کی روایت میںہے۔( طبری ،ج٥،ص٤٥٠ ) ابوالفرج نے بھی اس کی روایت کی ہے۔( ص٧٩)
٣۔ یہی شخص امیرالمومنین علیہ السلا م کی اس خبر کا بھی راوی ہے جس میں آپ ٢٦ھ میں صفین کی طرف جارہے تھے تو فرات پر پل بنانے کی بات ہوئی تھی۔( طبری ،ج٥،ص ٥٦٥ )
جیسانہیں دیکھا۔اگرپیدل کی فوج ہوتی تھی تو چپ وراست سے ایساذلیل ورسواہو کے بھاگتی تھی جیسے شیر کودیکھ کرہرن بھاگتے ہیں۔(١)اسی دوران عمر بن سعد ، امام حسین علیہ السلام کے قریب آیا، اسی اثناء میںامام کی بہن زینب بنت فاطمہ علیھاالسلام خیمہ سے باہرنکلیںاورآوازدی : ''یاعمر بن سعد ! أیقتل أبو عبداللّٰہ وأنت تنظر الیہ '' اے عمر بن سعد ! کیاابو عبداللہ الحسین قتل کئے جارہے ہیں اور توکھڑادیکھ رہا ہے۔ تو اس نے اپنا چہرہ ان کی طرف سے پھیرلیا(٢)گو یا میں عمر کے آنسوؤں کو دیکھ رہاتھا جو اس کے رخسار اور ڈاڑھی پر بہہ رہے تھے ۔(٣)
ادھر آپ دشمنوں کی فوج پر بڑھ بڑھ کر حملہ کرتے ہوئے فرمارہے تھے :'' أعلی قتل تحاثون ؟ اما واللہ لا تقتلو ن بعد عبدا من عباداللّٰہ أسخط علیکم لقتلہ من !و أیم اللہ ان لأرجو أن یکرمنی اللّٰہ بھوا نکم ثم ینتقم ل منکم من حیث لا تشعرون (٤)
أماواللّٰہ لو قد قتلتمون لقد ألقی اللّٰہ بأسکم بینکم وسفک دمائکم ثم لا یرضی لکم حتی یضاعف لکم العذاب الألیم !''(٥)
..............
١۔روایت میں معزیٰ اور ذئب استعمال ہوا ہے جس کے معنی گلہء گوسفند اور بھیڑئیے کے ہیںعرب تہذیب اور کلچر میں کسی کی شجاعت ثابت کرنے کی یہ بہترین مثال ہے لیکن ہماری ثقافت میں بزرگ شخصیتوں کو بھیڑئیے سے تعبیر کرنا ان کی توہین ہے اور قاری پر بھی گراں ہے لہٰذا محققین کرام نے مترجمین کو اس بات کی پوری اجازت دی ہے کہ وہ تشبیہات کے ترجمہ میںاپنی تہذیب اور کلچر (culture)کا پورا پورا لحاظ رکھیں ، اسی بنیاد پر ترجمہ میںشیر اور ہرن استعمال کیا گیا ہے جو شجاعت اور خوف کی تشبیہات ہیں۔ (مترجم )
٢۔ شیخ مفید نے ارشاد میں یہ روایت بیان کی ہے۔( الارشاد ،ص٢٤٢، طبع نجف )
٣) یہ روایت'' حجاج ''سے ہے۔ اس نے اسے عبداللہ بن عمار بارقی سے نقل کیا ہے۔( طبری ،ج٥،ص ٤٥١) شیخ مفید نے ارشاد میںحمید بن مسلم سے روایت کی ہے۔( ص ٢٤١ )
٤۔امام علیہ السلام کی دعا مستجاب ہوئی اور کچھ زمانے کے بعد مختار نے قیام کیا اور اپنی سپاہ کی ایک فرد ابا عمرہ کو عمربن سعد کی طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ اسے لے کرآ۔ وہ گیا یہاں تک کہ اس کے پاس وارد ہوا اور کہا : امیر نے تم کو طلب کیا ہے۔ عمر بن سعد اٹھا لیکن اپنے جبہ ہی میں پھنس گیا تو ابو عمرہ نے اپنی تلوار سے اس پر وار کرکے اسے قتل کر دیا اور اس کے سر کو اپنی قبا کے نچلے حصے میں رکھا اور اس کو مختار کے سامنے لاکر پیش کردیا ۔
حفص بن عمر بن سعد، مختار کے پاس ہی بیٹھا تھا ۔مختار نے اس سے کہا : کیا تم اس سر کو پہچانتے ہو ؟ تو اس نے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہاکہ اس کے بعد زندگی میں کوئی اچھا ئی نہیں ہے ! تو مختار نے کہا : تم اس کے بعد زندہ نہیں رہوگے ! اور حکم دیا کہ اسے بھی قتل کردیا جائے۔ اسے قتل کردیا گیا اور اس کا سر اس کے باپ کے ہمراہ رکھ دیا گیا۔ (. طبری ،ج ٦، ص ٦١ )
٥۔ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔( طبری ،ج ٥، ص ٤٥٢)
کیا تم لوگ میرے قتل پر( لوگوں کو) بر انگیختہ کررہے ہو ؟خدا کی قسم میرے بعد خدا تمہارے ہاتھوں کسی کے قتل پر اس حد تک غضبناک نہیں ہوگا جتنا میرے قتل پروہ تم سے غضبناک ہوگا ،خدا کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ تمہارے ذلیل قرار دینے کی وجہ سے خدا مجھے صاحب عزت و کرامت قرار دے گاپھر تم سے ایسا انتقام لے گا کہ تم لوگ سمجھ بھی نہ پاؤ گے خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے مجھے قتل کردیا تو خدا تمہاری شرارتوں کو تمہارے ہی درمیان ڈال دے گا ، تمہارے خون تمہارے ہی ہاتھوں سے زمین پر بہا کریں گے اس پر بھی وہ تم سے راضی نہ ہوگا یہاں تک کہ درد ناک عذاب میںتمہارے لئے چند گُنا اضافہ کردے گا ۔
پھر پیدلوں کی فوج کے ہمراہ جس میںسنان بن انس نخعی ، خولی بن یزید اصبحی (١)صالح بن وہب یزنی ، خشم بن عمرو جعفی اور عبدالرحمن جعفی (٢) موجود تھے شمر ملعون امام حسین علیہ السلام کی طرف آگے بڑھا اور لوگوں کوامام حسین علیہ السلام کے قتل پر اُکسانے لگا تو ان لوگوں نے حسین علیہ السلام کو پوری طرح اپنے گھیرے میں لے لیا ۔ اسی اثنا ء میں امام حسین علیہ السلام کی طرف سے آپ کے خاندان کاایک بچہ (٣)میدان میںآنکلا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن زینب بنت علی (علیہماالسلام ) سے کہا:''احبسیہ'' بہن اسے روکو، تو آپ کی بہن زینب بنت علی( علیہما السلام) نے روکنے کے لئے اس بچے کو پکڑا لیکن اس بچہ نے خود کو چھڑا لیا اور دوڑتے ہوئے جاکر خود کو حسین علیہ السلام پر گرادیا ۔
..............
١۔مختار نے اس کی طرف معاذ بن ہانی بن عدی کندی جناب حجر کے بھتیجے کو روانہ کیا،نیز اس کے ہمراہ ابو عمرہ ، اپنے نگہبانوں کے سردار کو بھی اس کی طرف بھیجا تو خولی اپنے گھر کی دہلیز میں جا کر چھپ گیا۔ '' معاذ'' نے ابو عمرہ کو حکم دیا کہ اس کے گھر کی تلاشی لے۔ وہ سب کے سب گھر میں داخل ہوئے، اس کی بیوی باہر نکلی، ان لوگوں نے اس سے پوچھا : تیرا شوہر کہاں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : میں نہیں جانتی اور اپنے ہاتھ سے دہلیز کی طرف اشارہ کردیا تو وہ لوگ اس میں داخل ہوگئے۔ اسے وہاں اس حال میں پایا کہ وہ اپنے سر کو کھجور کی ٹوکری میں ڈالے ہوئے ہے۔ ان لوگوں نے اسے وہاں سے نکالا اور جلادیا۔( طبری، ج٦، ص ٥٩ )
٢۔ یہ حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والوں میں سے ہے ۔(طبری ،ج٥،ص ٢٧٠) روز عاشوراعمربن سعد کے لشکر میں یہ قبیلہ مذحج و اسدکا سالار تھا جیسا کہ اس سے قبل یہ بات گزر چکی ہے۔ ( طبری، ج ٥، ص ٤٤٢ )
٣۔ شیخ مفید نے ارشاد کے ص ٢٤١ پر لکھا ہے کہ وہ بچہ عبداللہ بن حسن تھا اورارشاد میں مختلف جگہوں پر اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ابو مخنف کے حوالے سے یہ بات گزر چکی ہے کہ حرملہ بن کاہل اسدی نے تیر چلاکر اس بچہ کو شہید کردیا ۔ یہاں یہ روایت ابوالفرج نے ابو مخنف سے نقل کی ہے اور انھوں نے سلیمان بن ابی راشد سے اور اس نے حمید بن مسلم سے روایت کی ہے ۔(ص ٧٧ ،طبع نجف)
اسی وقت بحر بن کعب نے ام حسین علیہ السلام پر تلوارچلائی تو اس بچہ نے کہا : ''یابن الخبیثہ ! أ تقتل عم'' اے پلید عورت کے لڑکے ! کیا تومیرے چچا کوقتل کر رہا ہے ؟ (١) تو اس نے تلوار سے اس بچہ پر وار کردیا۔ اس بچے نے اپنے ہاتھ کو سپر قرار دیا اور بچہ کا ہاتھ کٹ کر لٹکنے لگا تو اس بچے نے آواز دی:'' یا أمتاہ'' اے مادر گرامی مدد کیجیے۔ حسین علیہ السلام نے فوراً اسے سینے سے لگالیا اور فرمایا:'' یابن أخ (٢) اصبر علی مانزل بک واحتسب فی ذالک الخیر ، فان اللّٰہ یلحقک بآبائک الصالحین برسول اللّٰہ وعلی بن أبی طالب و حمزة والحسن بن علی صلی اللّٰہ علیھم أجمعین'' (٣) و(٤)
''اللھم امسک عنھم قطر السماء وامنعھم برکات الارض اللّٰھم فان متعتھم الی حین ففرقھم فرقاواجعلھم طرائق قددا ً ولاترضی عنھم الولاة أبداً فانھم دعونا لینصرو نا فعد وا علینا فقتلونا'' (٥)
جان برادر !اس مصیبت پر صبر کرو جو تم پر نازل ہوئی اوراس کو راہ خدا میں خیر شمار کرو، کیونکہ خدا تم کو تمہارے صالح اور نیکو کار آباء و اجداد رسول خدا ، علی بن ابیطالب ،حمزہ اور حسن بن علی، ان سب پر خد ا کا در ود و سلام ہو،کے ساتھ ملحق کرے گا ۔خدایا !آسمان سے با رش کو ان کے لئے روک دے اورزمین کی برکتوںسے انھیں محرو م کردے! خدایا!اگرا پنی حکمت کی بنیاد پر تونے اب تک انھیں بہرہ مند کیاہے تواب ان کے درمیان جدائی اورپراکندگی قرار دے اور ان کے راستوںکو جداجداکردے اور ان کے حکمرانوںکو کبھی بھی ان سے راضی نہ رکھناکیونکہ انھوںنے ہمیںبلایاتاکہ ہماری مددکریں لیکن ہم پر حملہ کردیااور ہمیں قتل کر دیا۔
پھر اس بھری دوپہر میںکافی دیر تک حسین علیہ السلام آستانہ ٔ شہادت پر پڑے رہے کہ اگر دشمنوں میں سے کوئی بھی آپ کو قتل کرنا چاہتا تو قتل کردیتالیکن ان میںسے ہر ایک اس عظیم گناہ سے کنارہ کشی اختیار کر رہا تھا اور اسے دوسرے پر ڈال رہا تھا ۔ہر گر وہ چاہ رہا تھا کہ دوسرا گروہ یہ کام انجام دے کہ اسی اثناء میں شمر چلّایا :وائے ہو تم لوگوںپر! اس مردکے سلسلے میںکیاانتظارکررہے ہو، اسے قتل کرڈالو، تمہاری مائیں تمہارے غم میں بیٹھیں! اس جملہ کااثر یہ ہوا کہ چاروں طرف سے دشمن آ پ پر حملے کرنے لگے ۔
..............
ا، ٢، ٣۔ گزشتہ صفحہ کا حاشیہ نمبر ٥ ملاحظہ ہو ۔
٤۔ابو مخنف نے اپنی روایت میں بیان کیا ہے۔ ( طبری، ج٥،ص ٤٥٠ ) ابوالفرج نے ابومخنف سے سلیمان بن ابی راشد کے حوالے سے اوراس نے حمید بن مسلم سے روایت نقل کی ہے۔ (ص٧٧،طبع نجف )
٥۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشدنے حمید بن مسلم سے یہ روایت نقل کی ہے۔( طبری، ج٥،ص ٤٥١وارشاد ،ص ٢٤١ )

آخری لمحات
اب آپ پر چاروں طرف سے حملے ہونے لگے۔زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ کی بائیں ہتھیلی پر ایک ضرب لگائی (١) اور ایک ضرب آپ کے شانے پر لگائی۔ یہ وہ موقع تھاجب آپ کے بیٹھنے کی تاب ختم ہوچکی تھی۔ آپ منہ کے بل زمین پرآئے اسی حال میں سنان بن انس نخعی آگے بڑھا اور آپ پر ایک نیزہ مارا جو آپ کے جسم میں پیوست ہوگیا لیکن اب کوئی بھی امام حسین علیہ السلام کے نزدیک نہیں ہورہاتھا مگر یہ کہ سنان بن انس ہی آگے بڑھا اور اس خوف میں کہ کہیں کوئی دوسرا شخص حسین علیہ السلام کے سر کو امیر کے پاس نہ لے جائے؛ لہٰذا وہ آپ کی شہادت گاہ کے پاس آیا اورآپ کو ذبح کردیا اورآپ کے سر کو کاٹ ڈالا (٢)اور اسے خولی بن یزید اصبحی کی طرف پھینک دیا ۔
اب لباس اور اسباب لوٹنے کی نوبت آئی تو آپ کے جسم پر جو کچھ بھی تھا کوئی نہ کوئی لوٹ کر لے گیا۔ آپ کی اس یمانی چادر کو جسے قطیفہ(٣) کہاجاتا ہے قیس بن اشعث نے لے لیا۔ (٤) اسحاق بن حیوة بن حضرمی نے امام حسین علیہ السلام کی قمیص کو لوٹ لیا(٥)قبیلۂ بنی نہشل کے ایک شخص نے آپ کی تلوار لے لی، آپ کی نعلین کو ''اسود اودی'' نے اٹھا لیا۔آپ کے پاجامہ کو'' بحر بن کعب ''لے گیا(٦) اور آپ کو برہنہ چھوڑ دیا ۔(٧)
..............
١ ۔ارشاد میں بایاں بازو ہے۔( ص ٢٤٢) تذکرة الخواص میں بھی یہی ہے۔( ص ٢٥٣ ) مقرم نے اسے الا تحاف بحب الاشراف سے نقل کیا ہے۔( ص ١٦ )
٢۔ امام حسین کے قاتل کے سلسلے میں سبط بن جوزی نے پانچ اقوال ذکر کئے ہیں۔ آخر میں ترجیح دی ہے کہ سنان بن انس ہی آپ کا قاتل تھا پھرروایت کی ہے کہ یہ حجاج کے پاس گیا تواس نے پوچھا کہ تو ہی قاتل حسین ہے؟ اس نے کہا ہاں ! تو حجاج نے کہا : بشارت ہو کہ تواور وہ کبھی ایک گھر میں یکجا نہیںہوں گے ۔ لوگوں کا کہنا ہے حجاج سے اس سے اچھا جملہ کبھی بھی اس کے علاوہ نہیں سناگیا۔ ا س کا بیان ہے کہ شہادت کے بعد حسین کے جسم کے زخم شمار کئے گئے تو ٣٣ نیزہ کے زخم اور ٣٤ تلوار کے زخم تھے اور ان لوگوں نے آپ کے کپڑے میںایک سو بیس ( ١٢٠) تیر کے نشان پائے ۔
٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید کے مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے( طبری ،ج٥، ص ٤٥٣ )
٤۔ شب عاشور کی بحث میںاس کے احوال گزر چکے ہیں ۔
٥۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے۔ ( طبری، ج٥،ص ٤٥٥ )
٦۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے۔(طبری، ج٥، ص ٤٥٢ )
٧۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے ر وایت کی ہے۔( طبری، ج٥،ص ٤٥١ ) اسی طرح سبط بن جوزی نے بھی صرا حت کی ہے کہ وہ لوگ وہ سب کچھ لوٹ لے گئے جوآپ کے جسم پر تھا حتی یہ کہ'' بحر بن کعب تمیمی'' آپ کاپاجامہ بھی لے گیا۔ (طبری، ج٥،ص ٢٥٣) ارشاد میںشیخ مفید نے اضافہ کیا ہے کہ بحربن کعب لعنة اللہ علیہ کے دونوں ہاتھ اس واقعہ کے بعد گرمی میں سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہوجاتے تھے اورسردی میں مرطوب ہوجاتے تھے اور اس سے بد بو دار خون ٹپکتا تھا یہاں تک کہ خدا نے اسے ہلا ک کردیا ۔(ص ٢٤١ ، ٢٤٢ )

خیموں کی تا راجی
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد دشمنوں نے آپ کی خواتین ، مال واسباب ، ورس(١)وزیورات اور اونٹوں کی طرف رخ کیا۔ اگر کوئی خاتون اپنے پردہ اور چادر سے دفاع کرتی تووہ زور و غلبہ کے ذریعہ چادر یںچھینے لئے جا رہے تھے۔ (٢) لشکریوں نے سنان بن انس سے کہا : تونے حسین فرزند علی وفاطمہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کیا ،تو نے عرب کی اس سب سے بزرگ وباعزت شخصیت کو قتل کیا جو یہاں ان لوگوں کے پاس آئے تھے تاکہ تمہارے حاکموں کو ان کی حکومت سے ہٹا دیں تو اب تم اپنے حاکموں کے پاس جاؤ اور ان سے اپنی پاداش لو۔ اگر وہ حسین کے قتل کے بدلے میں اپنے گھر کا سارا مال بھی دیدیں تب بھی کم ہے ۔
..............
١۔ ورس ایک قسم کا پیلا پھول ہے جو زعفران کی طرح ہوتا ہے۔یہ خوشبودار ہوتا ہے اور رنگنے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ یمن سے لا یا گیا تھا جسے امام علیہ السلام نے مکہ سے نکلنے کے بعد منزل'' تنعیم'' میں ان لوگوں سے اپنے قبضہ میں لے لیا تھا جو اسے یزید کی طرف لے جارہے تھے۔ روز عاشورا یہ ورس زیاد بن مالک صبیعی ،عمران بن خالد وعنزی ، عبد الرحمن بجلی اور عبد اللہ بن قیس خولانی کے ہاتھوں لگا تھا۔ جب مختار کو ان سب کا پتہ معلوم ہوگیا تو ان سب کو طلب کیا۔ سب وہاں مختار کے پاس لائے گئے۔ مختار نے ان لوگوں سے کہا : اے نیکو کاروں کے قاتلو؛اے جو انان جنت کے سردار کے قاتلو ! کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ خدا نے تم سے آج انتقام لینے کے لئے تمہیں یہاں بھیجا ہے ! تم لوگ اس برے دن میں ورس لے کر آئے تھے ! پھر ان لوگوں کو بازا ر میں لے جایا گیا اور ان کی گرد نیں اڑادی گئیں۔
٢۔ ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم سے یہ روایت کی ہے۔( طبری ،ج٥، ص ٤٥٣) یعقوبی کا بیا ن ہے : دشمنوں نے آپ کے خیموں کو تاراج کردیا اور آپ کی حرمت شکنی کی۔(ج٢،ص ٢٣٢) شیخ مفید نے بھی اس کی روایت کی ہے۔( ارشاد ،ص ٢٤٢) سبط بن جوزی کا بیان ہے : دشمنوں نے آپ کی عورتوں اور بیٹیوں کی چادر یں اتار کرا نھیںبرہنہ کردیا ۔(ص ٢٥٤)
چونکہ وہ ایک کم عقل وبے خرد انسان تھا لہٰذا اپنے گھوڑے پر بیٹھا اور عمر بن سعد کے خیمہ کے پاس آکر باآواز بلند چلا یا :
أو قر رکا بی فضة وذھباً
أنا قتلت الملک المحجّبا
قتلت خیر الناس أماً وأباً
وخیر ھم اذ ینسبون نسباً (١)
میری رکاب کو سونے چاندی سے بھر دو کیونکہ میںنے شاہو ں کے شاہ کو تمہاے لئے قتل کر دیا، میں نے اسے قتل کیا جو ماں باپ کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بہتر انسان تھے اور جب نسب کی بات آئے تو ان کا نسب سب سے اچھا ہے ۔
یہ سن کر عمر بن سعد نے کہا : اس کو میرے پاس لاؤ ۔جب اسے ابن سعد کے پاس لایا گیا تواس نے اپنی چھڑی سے مارکر اس سے کہا : اے دیوانہ ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ایسا مجنوں ہے کہ کبھی صحت یاب نہیں ہو سکتا ۔ تو کیسی باتیں کر رہا ہے کیا تجھے اس قسم کی باتیں کر نی چاہیے ؟ خدا کی قسم اگر تیری ان باتوں کو ابن زیادنے سن لیا تو تیری گردن اڑادے گا۔
ادھر شمر بن ذی الجوشن جو پیدلوں کی فوج کے ہمراہ خیموں کی تاراجی میں مشغول تھا خیموں کو لوٹتے ہو ئے علی بن الحسین اصغر کی طرف پہنچاجو بستر پربیماری کے عالم میں پڑے تھے اس وقت پید لوں کی فوج جو اس کے ہمراہ تھی، میں سے ایک نے کہا کیا ہم اسے قتل نہ کردیں ؟ حمید بن مسلم کہتا ہے : میں نے کہا سبحان اللہ ! کیا ہم بچوں کو بھی قتل کریں گے ؟ یہ بچہ ہی تو ہے!(٢)
..............
١۔ابو الفرج نے اس کی روایت کی ہے۔( ص ٨٠ ،طبع نجف ، تذکرة الخواص ،ص ٢٥٤،نجف ومروج الذہب ، مسعودی ،ج٣،ص٧٠)
٢۔ طبری نے اپنی کتاب ''ذیل المذیل'' میں بیان کیا ہے : علی بن حسین اصغر اپنے بابا کے ہمراہ کربلا میں موجود تھے۔ اس وقت آپ ٢٣ سال کے تھے اور بستر پر بیماری کے عالم میں پڑے تھے ۔ جب حسین ( علیہ السلام) شہید ہوگئے تو شمر بن ذی الجوشن نے کہا : تم لوگ اسے قتل کر دو ! تو اسی کے لشکر یوں میں سے ایک نے کہا : سبحان اللّٰہ ! ایک ایسے نوجوان کو قتل کرو گے جو مریض ہے اور تم سے لڑبھی نہیں رہا ہے پھر عمر بن سعد آگیا اور اس نے کہا : آگاہ ہو جاؤ کہ کوئی بھی تم میں سے نہ تو ان عورتوں کو نقصان پہنچا ئے ،نہ ہی اس مریض کو۔( ذیل المذیل ،ص ٦٣٠، طبع دار المعارف ،تحقیق محمد ابو الفضل ابرا ہیمی ) اسی سے ملتی جلتی بات شیخ مفید نے لکھی ہے۔( ص ٢٤٤، تذکرہ ،ص ٢٥٦، ٢٥٨،طبع نجف)
اسی اثناء میں عمر بن سعد وہاںپہنچ گیا اور اس نے کہا آگاہ ہو جاؤ کہ کوئی بھی اس نوجوان مریض کو کسی بھی طرح کوئی نقصان نہیں پہنچا ئے گا اور نہ تم لوگوں میں سے کوئی بھی کسی بھی صورت میں عورتوں کے خیموں میں داخل ہوگا . اور جس نے جو مال واسباب لوٹا ہے وہ فوراً انھیں لوٹا دے لیکن کسی نے شمہ برابر بھی کچھ نہ لوٹا یا ۔
پھر عمر بن سعد نے عقبہ بن سمعان کو پکڑا اور اس سے پوچھا تو کون ہے تو اس نے جواب دیا : میں ایک زرخرید غلام ہوں تو عمر بن سعد نے اسے بھی چھوڑ دیا . اس طرح سپاہ حسینی میں اس غلام کے علاوہ کو ئی اور زندہ باقی نہ بچا۔ (١)
..............
١۔ اس کے علا وہ چند افرادہیں اور جو زندہ بچے ہیں۔ ١۔مرقع بن ثمامہ اسدی آپ اپنے زانوں پر بیٹھ کر تیر پھینک رہے تھے تو ان کی قوم کا ایک گروہ ان کے سامنے آیا اور ان لوگوں نے اس سے کہا : تو امان میں ہے ہماری طرف چلا آتو وہ چلا آیا ۔جب عمر بن سعد ان لوگوں کے ہمراہ ابن زیاد کے پاس آیا اور اس شخص کی خبر سنائی تو ابن زیاد نے اسے شہر'' زرارہ'' شہربدر کردیا جو عمان کے خلیج میں ایک گرم سیر علا قہ ہے۔ اس جگہ ان لوگوں کو شہر بدر کیا جاتا تھا جوحکومت کے مجرم ہوتے تھے۔
٢۔اس سے قبل ضحاک بن عبد اللہ مشرقی ہمدانی کا واقعہ گزر چکا ہے کہ وہ اپنی شرط کے مطابق امام علیہ السلام سے اجازت لے کر آپ کو تنہاچھوڑکر چلا گیا تھا ۔قتل سے بچ جانے والوں میں بھی ایک سے زیادہ لوگ ہیں ۔ اس سلسلے میں ابو مخنف کے الفاظ یہ ہیں کہ علی بن الحسین اپنی صغر سنی کی وجہ سے بچ گئے اور قتل نہ ہوئے ۔(طبری ،ج٥، ص ٤٦٨) اسی طرح امام حسن کے دو فرزند حسن بن حسن بن علی اور عمر بن حسن بھی صغر سنی کی وجہ سے چھوڑ دئے گئے اور قتل نہیں ہوئے (طبری، ج٥،ص ٤٦٩) لیکن عبد اللہ بن حسن شہید ہوگئے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٦٨) ابو الفرج کا بیا ن ہے : حسن بن حسن بن علی زخموں کی وجہ سے سست ہو گئے تو انھیں اٹھا کر دوسری جگہ چھوڑ دیا گیا۔( ص ١٧٩،طبع نجف)

پامالی
پھر عمر بن سعد نے اپنے لشکر والوں کو آوازدی کہ تم میں سے کون آمادہ ہے جو لاش حسین پر گھوڑے دوڑائے ۔اس کے جواب میںدس (١٠) آدمیوں نے آمادہ گی کا ظہار کیا جن میں اسحاق بن حیوة حضرمی اور احبش بن مر ثد حضرمی قابل ذکر ہیں۔ یہ دس افراد آئے اور اپنے گھوڑوں سے امام حسین کی لاش کو روند ڈالا یہاں تک کہ آپ کے سینہ اور پشت کی ہڈیاں چور چور ہوگئیں (١)پھر عمر بن سعد نے اپنے لشکرکے کشتوں کی نماز جنازہ پڑھی اور انھیں دفن کر دیا اوراسی دن خولی بن یزید کے ہاتھوں امام علیہ السلام کا سر عبیداللہ بن زیاد کے پاس روانہ کیا گیا۔ جب وہ محل تک پہنچا تو دیکھا محل کا دروازہ بند ہے لہذا اپنے گھر آیا اور اس سر مقدس کو اپنے گھر میں ایک طشت میں چھپادیا (٢) جب صبح ہوئی تو سر کے ہمراہ عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میںحاضر ہو ا۔
..............
١۔ اسحاق بن حیوة حضرمی سفید داغ کے مرض میں مبتلا ہو گیا اور مجھے خبر ملی ہے کہ احبش بن مرثد حضرمی اس کے بعد کسی جنگ میں کھڑا تھا کہ پچھم کی طرف سے ایک تیر آیا ( پتہ نہیں چلاکہ تیر انداز کون ہے ) اور اس کے سینے میں پیوست ہو گیا اوروہ وہیں ہلاک ہوگیا۔ پامالی کی روایت کو ا بوالفرج نے ص ٧٩پر تحریر کیا ہے ۔اس طرح مروج الذہب ،ج ٣ ، ص ٧٢ ، ارشاد، ص ٢٤٢ ، طبع نجف اور تذکرة الخواص ،ص ٢٥٤ پر بھی یہ روایت موجود ہے ۔ سبط بن جوزی کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے آپ کی پشت پر سیاہ نشانات دیکھے اوراس کے بارے میں دریافت کیا تو کسی نے کہا : آپ رات کو اپنی پیٹھ پر کھانا رکھ کر مدینہ کے مساکین میں تقسیم کیا کرتے تھے ۔ پسر سعد نے اس عظیم شقاوت کا ارتکاب ابن زیاد کے قول کی پیروی کرتے ہوئے کیا تھا کیونکہ اس نے کہا تھا جب حسین قتل ہوجائیں توگھوڑے دوڑاکہ کر ان کے سینہ اور پیٹھ کو روند ڈالنا کیونکہ یہ دوری پیدا کرنے والے اور جدائی ڈالنے والے ہیں،بڑے ظالم اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والے ہیںمیری آرزو یہ نہیں ہے کہ مرنے کے بعد انھیں کوئی نقصان پہنچاؤں لیکن میں نے قسم کھائی ہے کہ اگر میں انھیں قتل کردوں تو ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کروں۔(طبری، ج ٥ ،ص ٤١٥ )
٢۔ ہشام کا بیا ن ہے : مجھ سے میرے باپ نے حدیث بیان کی ہے اور انہوں نے ''نوار بنت مالک بن عقرب'' جو ''حضرمی''قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی ( خولی کی بیوی تھی ) سے روایت کی ہے کہ وہ کہتی ہے : خولی امام حسین علیہ السلام کے سرکو لے کر گھرآیااور اسے گھر میں ایک طشت کے اندر چھپا کے رکھ دیا پھر کمرے میں داخل ہوا اور اپنے بستر پر آگیا تو میں نے ا س سے پوچھا کیا خبرہے ؟ تیرے پاس کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا:'' جئتکِ بغنی الدھر، ھذا رأس الحسین معک فی الدار'' میں تیرے لئے دنیا اور روزگار کی بے نیازی لے کر آیا ہوں یہ حسین کا سر ہے جو تیرے ساتھ گھر میں ہے۔یہ سن کر میں نے کہا:'' ویلک جاء الناس با لذھب والفضةو جئت برأس ابن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ( وآلہ) وسلم، لا واللّٰہ لا یجمع رأسی و رأسک بیت أبداً'' وائے ہو تجھ پر ! لوگ سونا اور چاندی لے کر آتے ہیں اور تو فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر لے کر آیا ہے ،نہیں خدا کی قسم اس گھر میں آج کے بعد کبھی بھی میرا اور تیرا سر یکجا نہیں ہوگا ۔ پھراپنے بستر سے اتری اور کمرے سے باہر آئی اور گھر کے اس حصہ میں گئی جہاں وہ سر موجود تھا اور بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی ۔خدا کی قسم میں دیکھ رہی تھی کہ مسلسل ستون کی طرح ایک نور آسمان تک اس طشت کی طرف چمک رہا ہے اور ایک سفید پرندہ اس کے ارد گرد پرواز کررہا ہے۔ (. طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٥)