حسین علیہ السلام کا شیر خوار
اس کے بعد حسین علیہ السلام اپنے خیمے کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک چھوٹا سا بچہ جو ابھی شیر خوار تھا یا اس سے تھوڑا سا بڑا تھا جسے عبد اللہ بن حسین(١)کے نام سے یاد کیا جاتاہے آپ کو دیا گیااور آپ نے اس بچہ کو اپنی گود میں بیٹھایا ۔(٢)
ناگہاں قبیلہ بنی اسد کی ایک فرد حرملہ بن کاہل یا ہانی بن ثبیث حضرمی نے ایک تیر چلایااور وہ بچہ اس تیر سے ذبح ہو گیا ۔حسین علیہ السلام نے اس کے خون کواپنے ہاتھوں میں لیا اور جب آپ کی ہتھیلی خون سے بھر گئی تو اسے ز مین پرڈال دیا اور فرمایا :'' رب ان تک حبست عنا النصر من السماء فاجعل ذالک لما ھو خیر ، وانتقم لنا من ھٰؤ لا ء الظالمین'' خدا یا اگر اپنی حکمت کے پیش نظر تو نے آسمان سے اپنی مدد ونصرت کو ہم سے روک لیا ہے تو اس سے بہتر چیز ہمارے لئے قرار دے اور ان ظالموں سے ہمارا انتقام لے۔
..............
١۔ ابو مخنف نے نقل کیا ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ ( طبری ،ج٥،ص ٤٤٨)
٢۔ طبری نے عماردہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ایک تیر آیا اور اس بچہ کو لگا جو آپ کی آغوش میں تھا تواور آپ اس کے خون کو ہاتھ میں لے کر فرمارہے تھے :'' اللھم احکم بیننا و بین قو م دعونا لینصرونا فقتلونا''خدا یا تو ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں بلایا تاکہ ہماری مدد کرے اور پھر ہمیں قتل کردیا۔ (طبری، ج٥ ،ص ٣٨٩ )
یعقو بی کا بیان ہے : آغاز جنگ کے بعد ایک کے بعد ایک جام شہادت نوش فرمانے لگے یہاں تک کہ حسین علیہ السلام تنہا رہ گئے۔ آپ کے اصحاب ،فرزند اور رشتہ داروں میں کوئی باقی نہ رہا؛ آپ تنہا اپنے گھوڑ ے پر بیٹھے تھے کہ ایک بچہ نے اسی وقت دنیامیں آنکھ کھو لی۔ آپ نے اس کے کان میں اذان دی اور ابھی اسکی تحنیک (تالو اور زبان کے درمیان جدائی کرنے ) میں ہی مشغول تھے کہ ایک تیر آیا اور بچہ کے حلق میں پیو ست ہو گیا اور اس نے اسے ذبح کردیا۔اما م حسین علیہ السلام نے اس کے حلق سے تیر نکا لا اور وہ خون میں لت پت ہو گیا۔ اس وقت آپ فر مارہے تھے'' واللّٰہ لأ نت أکرم علی اللّٰہ من الناقة ولمحمد أکرم من الصالح'' خدا کی قسم تو خدا کے سامنے ناقہ (صالح )سے زیادہ ارزش مند ہے اور محمد ۖ صالح سے زیادہ باکر امت ہیں پھر اس کے بعد آکر اس نو نہال کو اپنے فرزند وں اور بھتیجوں کے پاس لٹا دیا۔ (تاریخ یعقوبی، ج٦،ص٢٣٢،طبع نجف )
سبط بن جو زی کا بیان ہے کہ پھر حسین ملتفت ہو ئے کہ ایک بچہ پیاس کی شدت سے رورہا ہے تو آپ اسے اپنے ہاتھ پر لے کر دشمنوں کے سامنے گئے اور فر مایا :'' یا قوم ان لم تر حمو ن فارحمواھٰذا الطفل'' اے قوم ! اگر تم لوگوں کو مجھ پر رحم نہیں آتاتو اس بچہ پر رحم کرولیکن اس کے جواب میں دشمن کی فوج میں سے ایک نے اس بچہ پر تیر چلادیا جس سے وہ ذبح ہوگیا ۔یہ صورت حال دیکھ کر حسین علیہ السلام رودیئے اور کہنے لگے : ''اللّٰھم احکم بیننا وبین القوم دعونا لینصرونا فقتلونا'' خدایا!تو ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں دعوت دی کہ ہم آپ کی نصرت و مدد کریں گے لیکن اس نے ہمیں قتل کردیا۔ اسی درمیان فضامیں ایک آوازگونجی'' دعہ یا حسین! فان لہ مرضعاً فی الجنة'' اے حسین ! اس بچہ کو چھوڑ دو کیونکہ جنت میںاسے دودھ پلانے والی موجود ہے۔ (تذکرہ ،ص ٢٥٢، طبع نجف)
ان تینوں روایتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کربلا میں ایسے تین بچے شھید ہوئے ہیں جو شیر خوار یا اس سے کچھ بڑے تھے اور ابو مخنف نے فقط ایک شیر خوار کا تذکرہ کیا ہے جسے طبری نے ذکر کیا ہے۔اس روایت کی بنیاد پر جناب علی اصغر کی روایت اور امام حسین علیہ السلام کا انہیں میدان میں لے جانے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ واقعہ سبط بن جوزی کی زبانی ثابت ہے لہٰذا اگر کوئی آغوش میں شہید ہونے والے واقعہ کو پڑھتا ہے یا لکھتا ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ حضرت علی اصغر کی شہادت کا منکر ہے اور نہ ہی حضرت علی اصغر کی شہادت کا ذکر کرنے والوں کو اس پر مصر ہونا چاہیے کہ شیر خوار بچے کے عنوان سے فقط یہی شہید ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ دو بچے اور بھی ہیں جو تیر ستم کا نشانہ بنے ہیں۔ ( مترجم )
عبداللہ بن جعفر کے دو فرزندوں کی شہادت
پھر عبداللہ بن جعفر کے فرزند میدان نبرد میں آئے اور دشمن کی فوج نے انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ عبد اللہ بن قطبہ نبہانی طائی نے عون بن عبداللہ بن جعفر بن ابوطالب پر حملہ کرکے انھیں شہید کردیا(١) اور عامر بن نہشل تیمی نے محمد بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب پر حملہ کرکے انھیں شھید کردیا ۔(٢)
آل عقیل کی شہادت
''عثمان بن خالد بن اسیر جہنی'' اور'' بشر بن حوط قابضی ھمدانی'' نے ایک زبردست حملہ میں عبدالرحمن بن عقیل بن ابیطالب کو شہیدکردیا۔ (٣) اوردونوں نے مل کر ان کے لباس وغیرہ لوٹ لئے اور عبداللہ بن عزرہ خثعمی (٤) نے جعفر بن عقیل بن ابیطالب کو تیر مار کر شہید کردیا ،پھر عمروبن صبیح صدائی (٥)
..............
١۔آپ کی مادر گرامی جمانة بنت مسیب بن نجبۂ غزاری تھیں۔ ( طبری ،ج ٥، ص ٤٦٩ ) مسیب بن نجبہ کا شمار کوفہ کے شیعوں میں توابین کے زعماء میں ہوتا ہے۔ ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے کہ آپ کی مادر گرا می عقیلہ بنی ہاشم زینب بنت علی بن ابی طالب ( علیہم السلام )تھیں (ص٦٠ ،طبع نجف ) ۔
٢۔ آپ کی مادر گرامی خوصاء بنت خصفہ بن ثقیف تیمی خاندان بکر بن وائل سے متعلق تھیں۔( طبری ،ج٥،ص ٤٦٩) ابوالفرج نے بھی یہی لکھا ہے ( ص ٦٠ ،طبع نجف )لیکن سبط بن جوزی نے حوط بنت حفصہ التمیمی لکھاہے۔ (تذکرہ، ص ٢٥٥ ، ط نجف )
٣۔ مختار نے ان دونوں کی طرف عبداللہ بن کامل کو روانہ کیا۔ ادھر یہ دونوں جزیرہ یعنی موصل کی طرف نکلنے کا ارادہ کررہے تھے تو عبداللہ بن کامل اور دوسرے لوگ ان دونوں کی تلاش میں نکلے اورمقام جبانہ میں انھیں پالیا۔ وہاں سے ان دونوں کو لے کر آئے اور جعد کے کنویں کے پاس لے گئے اور وہیں ان دونوں کی گردن ماردی اور آگ میں جلادیا ۔ اعشی ہمدان نے ان دونوں پر مرثیہ کہا ہے (طبری، ج٦، ص ٥٩ ) لیکن طبری نے جلد ٥، ص ٤٦٩ پر لکھا ہے کہ عبدالرحمن بن عقیل کو فقط عثمان بن خالد جہنی نے قتل کیا ہے اوربشر بن حوط ہمدانی ان کے ہمراہ اس کے قتل میں شریک نہ تھا لیکن اسی سند سے ابوالفرج نے دونوں کو ذکر کیا۔ ( ص، ٦١،طبع نجف )
٤۔ طبری نے ج٥، ص ٤٦٩ پر لکھ اہے کہ آپ کو بشر بن حوط بن ہمدانی نے شہید کیا اور ج٦، ص ٦٦٥ پر عبداللہ بن عروہ خثعمی لکھا ہے۔ مختار نے اس شخص کو طلب کیا تو یہ آپ کے ہاتھ سے نکل کر مصعب سے ملحق ہوگیا۔ابولفرج نے بعینہ اسی سند کے حوالے سے عبداللہ بن عروہ خثعمی لکھا ہے۔ (ص ٦١طبع نجف )
٥۔ مختار نے اسے طلب کیا تو یہ رات میں اس وقت لایا گیا جب آنکھیں نیند کا مزہ لے رہی تھی۔ اس وقت یہ چھت
پر تھا تاکہ پہچانا نہ جا سکے۔ اسے پکڑا گیا درحالیکہ اس کی تلوار اسکے سر کے نیچے تھی ۔ پکڑنے والے نے اس سے کہا خدا تیری تلوار کا برا کرے جو تجھ سے کتنی دور ہے اور کتنی نزدیک ۔ وہ کہہ رہاتھا کہ میں نے ان لوگوں پر نیزہ چلایا ہے مجروح کیا ہے لیکن کسی کو قتل نہیں کیا ہے۔ اسے مختار کے پاس لایا گیا، مختار نے اسے اسی قصر میں قید کر دیا . جب صبح ہوئی تو لوگوں کو دربارمیں آنے کی اجازت ملی اور لوگ دربار میںداخل ہونے لگے تو وہ قیدی بھی لایا گیا۔ اس نے کہا : اے گرو ہ کفار و فجار ! اگر میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ میں تلوار کی نوک سے لرزہ براندام نہیں ہوتا اورنہ ہی خوف زدہ ہوتا ہوں۔ میرے لئے کتنا باعث سرور ہے کہ میری موت قتل ہے۔ خلق خدا میں مجھے تم لوگوں کے علاوہ کوئی اور قتل کرے گا ۔ میں جانتا ہوں کہ تم لوگ بد ترین مخلوق خدا ہو مگر مجھے اس کی آرزو تھی کہ میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں اس سے تم لوگوں کو کچھ دیر تک مارتا ،پھر اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور ابن کامل جو اس کے پہلو میں تھے اس کی آنکھ پر طمانچہ لگایا،اس پرابن کامل ہنس پڑااور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک دیا پھر گویا ہوا : اس کا گمان یہ ہے کہ اس نے آل محمد کو زخمی کیا ہے اور نیزہ چلایا ہے لہٰذا اس کے فیصلہ کو ہم نے آپ پرچھوڑ دیا ہے۔ مختار نے کہا : میرا نیزہ لاؤ ! فوراً نیزہ لایا گیا، مختار بولے : اس پر نیزہ سے وار کرو یہاں تک کہ یہ مرجائے پس اتنا وار ہوا کہ وہ مرگیا ۔( طبری ،ج٦، ص ٦٥)لیکن طبری نے ج٥،ص ٤٦٩ پر ابو مخنف سے روایت کی ہے کہ اس نے عبداللہ بن عقیل بن ابیطالب علیہم السلام کو قتل کیا ہے اور ج٦،ص ٦٤ پر روایت کی ہے کہ جس نے عبداللہ بن مسلم بن عقیل کو قتل کیا وہ زید بن رقاد جنبی ہے اور وہ یہ کہا کرتا تھا کہ میں نے تمہارے ایک جوان پر تیر چلایا جب کہ وہ اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی پر رکھے ہوئے تھا اور میں نے اس کی ہتھیلی کو اس کی پیشانی سے چپکا دیا اس طرح سے کہ وہ اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی سے جدا نہ کرسکا جب اس کی پیشانی اس طرح ہتھیلی سے چپک گئی تو اس جوان نے کہا :'' اللّٰھم انھم استقلونا واستذلونا اللھم فاقتلھم کماقتلونا و اذلھم کما استذلونا'' خدا یا !ان لوگوں نے ہماری تعداد کم کردی اور ہمیں ذلیل کرنے کی کوشش کی خدا یا! توبھی ان لوگوں کو اسی طرح قتل کرجیسے انھوں نے ہمیں قتل کیا ہے اور انھیں اسی طرح ذلیل و رسوا کر جیسے انھوں نے ہمیں ذلیل و رسوا کر نے کی کوشش کی ہے؛ پھر اس جنبی نے ایک تیراورچلاکر آپ کو شہید کر دیا۔ وہ کہتاہے:جب میں اس جوان کے پاس آیاتووہ مرچکاتھا۔ میں نے اس تیر کو حرکت دیا تاکہ اسے باہر نکال دوں لیکن اس کا پھل کچھ اس طریقے سے پیشانی میں پیوست ہوچکا تھا کہ میں اسے نکالنے سے عاجز ہوگیا۔ اپنے زمانے میں مختار نے عبداللہ بن کامل شاکری کو اس کے سراغ میں روانہ کیا،عبداللہ نے آکراس کے گھر کو گھیر لیا اور وہاں لوگوں کی ایک بھیڑ لگ گئی تو وہ شخص تلوار سونتے باہر نکلا۔ ابن کامل نے کہا : اس پر تیر چلاؤ اور اسے پتھر مارو،لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ وہ زمین پر گر پڑا لیکن اس کے جسم میں ابھی جان باقی تھی۔اس کے بعد ابن کامل نے آگ منگوائی اوراسے زندہ جلادیا۔( طبری، ج٦،ص ٦٤)
نے عبداللہ بن مسلم بن عقیل (١) پرایک تیر چلایا ۔آپ اپنا ہاتھ پیشانی پر لے گئے تاکہ تیر نکال لیں لیکن پھر ہتھیلیوں کو حرکت دینے کی طاقت نہ رہی،اسی دوران ایک دوسرا تیرچلا جو آپ کے سینے میں پیوست ہو گیا(٢)اور بسیط بن یاسر جہنی نے محمد بن ابوسعید بن عقیل کو شہید کر دیا۔ (٣)
حسن بن علی علیہما السلام کے فر زندوں کی شہادت
عبد اللہ بن عقبہ غنوی (٤)نے ابو بکر بن حسن بن علی علیہماالسلام (٥)پر تیر چلا کر انھیں شہید کر دیا (٦)اور عبداللہ بن حسن بن علی( علیہماالسلام ) کوحرملہ بن کاہل اسدی (٧)نے تیر چلاکر شہید کردیا ۔(٨)
..............
١۔ آپ کی مادر گرامی کانام رقیہ بنت علی بن ابیطالب علیہم السلام ہے۔( طبری، ج٥،ص٤٦٩،ابوالفرج ،ص٦٢ ،طبع نجف)
٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے۔( طبری، ج٥،ص٤٦٩ ، ابو الفرج ،ص ٦٢، طبع نجف)
٣۔ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم ازدی سے یہ روایت نقل کی ہے۔( طبری، ج٥ ،ص٤٤٧)
٤۔ ٤٣ھ میں یہ مستوردبن عقبہ کے ہمراہ نکلنے والوں میں شمار ہوتا ہے جو کوفہ میں مغیرہ بن شعبہ کی حکومت کا زمانہ تھا۔یہ وہاں کاتب تھا ۔'' مستورد ''نے حکم دیا کہ یہ اس کے لئے ایک خط لکھے پھر اس خط کو لے کر سماک بن عبید والی مدائن کے پاس لے جائے اور اس کو اپنی طرف بلائے تو اس نے ایسا ہی کیا۔( طبری ،ج٥ ،ص ١٩٠ )جب مستورد کی حکومت مصیبت میں گرفتار ہوئی تو غنوی وہاں سے بھاگ کر کوفہ روانہ ہوگیا اور وہاں شریک بن نملہ کے گھر پہنچا اور اس سے پوچھا کہ مغیرہ سے کہاں ملاقات ہوگی تاکہ یہ اس سے امان لے سکے( طبری، ج٥ ،ص ٩٠) اس نے مغیرہ سے امان طلب کی اور مغیرہ نے اسے امان دے دیا۔( طبری، ج٥،ص ٢٠٦) کربلا کے بعد یہ مختار کے خوف سے بھاگ کر مصعب بن زبیر سے ملحق ہو گیا پھر عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کے ہمراہ ہوگیا۔ ( طبری ،ج٥ ، ص ٢٠٥ ) مختار نے اس کی جستجو کرائی تو معلوم ہوا کہ فرار ہے تومختار نے اس کا گھر منہدم کردیا۔ (طبری ،ج٦،ص ٦٥) ْ
٥۔ طبری نے جلد ٥، ص ٤٦٨ پر یہی لکھا ہے مگر ص ٤٤٨ پر ابوبکر بن حسین بن علی لکھ دیا ہے جو غلط ہے ۔
٦۔ عقبہ بن بشیر اسدی کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو جعفر محمد بن علی بن حسین علیہم السلام نے بیان کیا ہے۔ ( طبری، ج٥، ص ٤٤٨) ابوالفرج نے مدائنی سے اس نے ابو مخنف سے اس نے سلیمان بن ابی راشد اور عمرو بن شمر سے اس نے جابرسے انھوں نے ابو جعفر امام باقر علیہ السلام سے یہ روایت بیان کی ہے۔( مقاتل الطالبیین، ص ٥٧ ،طبع نجف)
٧۔ طبری نے ج٦،ص ٦٥ پر یہی لکھا ہے لیکن یہاں ج٥ ،ص ٤٦٨ پر حرملہ بن کاہن لکھا ہے جو غلط ہے۔اس کے سلسلے میں مختار کی جستجو اور کیفیت قتل کو بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔ہشام کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو ہذیل'' سکون '' کے رہنے والے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ وہ کہتا ہے :خالد بن عبداللہ کے زمانے میں حضرمیوں کی نشست میں ،میں نے ہانی بن ثبیت حضرمی کو دیکھا جو
بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ میں نے سنا کہ وہ کہہ رہاتھا : میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حسین کے قتل کے وقت وہاں موجودتھے۔ خدا کی قسم میں ان دس (١٠) میںکا ایک تھا جو ہمیشہ گھوڑے پر تھے اور میں پورے لشکر میں گھوم رہا تھا اور ان کے روز گار کو بگاڑ رہاتھا اسی اثنا میں ان خیموں سے ایک نوجوان نکلا جس کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی اس کے جسم پر ایک کرتا اور پاجامہ تھا اور وہ بہت خوفزدہ تھا اور وہ ادھرادھر دیکھ رہا تھا گویا میں دیکھ رہا تھا کہ اس کے کان میں دو درتھے جب وہ ادھر ادھر دیکھ رہاتھا تو وہ در ہل رہے تھے ۔
ناگہاں ایک شخص گھوڑے کو سر پٹ دوڑا تاہوا سامنے آیا یہاں تک کہ اس کے نزدیک ہوگیا پھر جب وہ اپنے گھوڑے سے مڑا تو اس نے اس نوجوان کو تلوار سے دو نیم کردیا۔ ابولفرج مدائنی نے اس کی روایت کی ہے۔( ص ٧٩ ،طبع نجف) ابو مخنف کا بیان ہے کہ حسن بن حسن اور عمر بن حسن چھوٹے تھے لہٰذا قتل نہ ہوئے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٤٩) حسین علیہ السلام کے غلاموںمیں سے دو غلام سلیمان اور منجح بھی جام شہادت نوش فرماکر راہی ملک جاوداں ہوگئے ۔(طبری ،ج٥، ص ٤٦٩)
٨۔طبری نے ج٥، ص٤٦٨ پر یہی لکھاہے اور ابو الفرج نے ص ٥٨ ،طبع نجف پر مدائنی کے حوالے سے یہی لکھا ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ بچہ وہی ہے جو خیمہ سے نکل کر اپنے چچا کی شہادت گاہ کی طرف بھاگا تھا اور وہیں پر ان کے پاس شہید کردیا گیا جیسا کہ عنقریب اس کا بیان آئے گا ۔ ارشاد میں مفید نے اس روایت کو صراحت کے ساتھ لکھا ہے۔( ص ٢٤١ ،طبع نجف)
|