واقعۂ کربلا
 

عباس بن علی اور ان کے بھائی
پھر عباس بن علی (علیہما السلام ) نے اپنے بھایئوں : عبد اللہ ، جعفر اور عثمان سے کہا : یا بن أم ! تقد مواحتی أرثیکم فانہ لا ولد لکم ! اے مرے ماں جایو ! آگے بڑھو تاکہ میں تم پر مرثیہ پڑھ سکوں کیونکہ تمہاراکوئی بچہ نہیں ہے جو تم پر نوحہ کرے ۔
ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور میدان جنگ میں آئے اور بڑا زبر دست جہاد کیا یہاں تک کہ سب کے سب شہید ہوگئے ۔(خدا ان سب پر رحمت نازل کرے) (٢)
..............
٢۔ ابو مخنف نے حضرت عباس بن علی علیہما السلام کا مقتل اور ان کی شہادت کا تذکرہ نہیں کیاہے لہٰذا ہم اسے مختلف مقاتل کی زبانی ذکر کرتے ہیں ۔ارشاد میں شیخ مفید فرما تے ہیں : جب حسین علیہ السلام پر پیاس کا غلبہ ہوا تو آپ نے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر فرات کا ارادہ کیا، آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے بھائی عباس بھی تھے۔ ابن سعد لعنة اللّٰہ علیہ کا لشکرآپ کے لئے مانع ہوا اور اس لشکرمیں'' بنی دارم'' کا ایک شخص بھی تھا جس نے اپنی فوج سے کہا : وائے ہو تم پر ان کے اور فرات کے درمیان حائل ہو جاؤ اور انھیں پانی تک نہ پہنچنے دو، اس پر حسین علیہ السلام نے بددعا کی'' اللّٰھم أظمئہ '' خدا یا! اسے پیاسا رکھ ! یہ سن کر''دارمی'' کو غصہ آگیا اور اس نے تیر چلادیا جو آپ کی ٹھڈی میں لگا ۔حسین علیہ السلام نے اس تیر کو نکالا اور ٹھڈی کے نیچے اپنا ہاتھ لگا یا تو خون سے آپ کی دونوں ہتھیلیاں بھر گئیں ۔آپ نے اس خون کو زمین پر ڈال دیا اور فرمایا :'' اللّٰھم انی أشکوا الیک ما یفعل بابن بنت نبیک'' خدا یا !میں تجھ سے شکوہ کرتا ہوں کہ تیرے نبی کے نواسے کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے پھرآپ اپنی جگہ لوٹ آئے؛ لیکن پیاس میں اضافہ ہورہاتھا۔ ادھر دشمنوں نے عباس کو اس طرح اپنے گھیرے میںلے لیا کہ آپ کا رابطہ امام حسین علیہ السلام سے منقطع ہو گیا۔ آپ تنہا دشمنوں سے مقابلہ کرنے لگے یہاں تک کہ آپ شھید ہوگئے ،آپ پر اللہ کی رحمت ہو۔ زید بن ورقاء حنفی(١) اور
حکیم بن طفیل سنسبی نے آپ کو اس وقت شہید کیا جب آپ زخموں سے چور ہوچکے تھے اور حرکت کی طاقت نہ تھی۔ ( ارشاد، ص ٢٤٠ ، طبع نجف اشرف )یہاں سے ہم مقتل الحسین مقرم ، مقتل الحسین امین، ابصارالعین سماوی،فاجعةالطف علامہ قزوینی ، عمدة الطالب اورخصال صدوق، ج١،ص ٦٨، اور تاریخ طبری کی مدد سے حضرت ابو الفضل العباس کی شخصیت پر تھوڑی سی روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں ؛ شاید بارگاہ ایزدی میں یہ کوشش آخرت کی رسوائی سے نجات دلائے اور سقائے سکینہ کی خدمت اقدس میں یہ سعی ناچیز تحفہ قرار پائے۔
..............
(١)طبری نے زید بن رقاد جنبی لکھا ہے۔ (ج٥،ص ٤٦٨) اور جلد ٦ ،صفحہ ٦٤ پر لکھا ہے کہ یہ جَنَب کا ایک شخص تھا۔ یہ شخص عبد اللہ بن مسلم بن عقیل اور سویدبن عمرو خثعمی صحابی امام حسین علیہ السلام کا بھی قاتل ہے۔ اس کے احوال سوید کی شہادت کے ذیل میں گزر چکے ہیں۔مختار نے اسے زندہ جلا دیا تھا۔ اسے حنفی کہنا واضح تحریف ہے ۔
لشکر حسینی کے سردار
علمدار حسینی عباس( علیہ السلا م)آخر میں امام حسین علیہ السلام کی مدد و نصرت اورآ پ کے حقوق و بلند مقاصد کے دفاع میں تنہا رہ گئے تھے ؛کیوں کہ تمام یاور و انصار اور بھائی بھتیجے اور فرزند شہید ہو چکے تھے ۔آپ نا قابل توصیف شجاعت و شہامت کے ساتھ اپنے آقا حسین علیہ السلام کی حفاظت میں پہاڑ کی طرح مستحکم تھے۔ حوادث کی تند وتیز ہوائیں آپ کے وجود پر اثر انداز نہیں ہورہی تھیں۔ آپ قابل افتخارشخصیت کے مالک تھے کیونکہ علم وعقل ، ایمان و عمل اور جہادو شہادت میں یکتائے تاز روزگار تھے۔ ان خصوصیات کو ہم آپ کے رجز ، آپ کے اعمال اور آ پ کے بیانات میں واضح طور پر مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔

آپ کے امتیازات و خصوصیات
حقیقت میں آپ فضیلتوں کے سر چشمہ اور انسانی قدروں کے سربراہ تھے۔ آپ کے امتیازو خصوصیات قابل قدر و تحسین اور انسان ساز ہیں ، وہ اوصاف و خصوصیات جو فردی و اجتماعی زندگی کو نیک بختی اور نجات کے معراجی مراحل تک پہنچاتے ہیں۔ یہاں پر آپ کے بعض اوصاف کا تذکرہ منظور نظر ہے ۔

١۔ حسن ورشاد ت
آپ بلند قامت ، خوش سیما اور خوب رو تھے ۔ خاندان کے درمیان ایک خاص عظمت و شکوہ کے حامل تھے لہٰذا قمربنی ہاشم یعنی بنی ہاشم کے چاند کہلاتے تھے . جب آ پ حق و عدالت سے دفاع کے لئے مرکب پر سوار ہوتے تھے تو آپ کی صولت و ہیبت سے شیر دل افراد خوف زدہ ہوجاتے تھے اور رزم آورو دلیرافرادترس و خوف میں مبتلا ہو کر لرزہ براندام ہوجاتے تھے ۔
حق و عدالت کی راہ میں جاں نثاری ، دلاوری اور شجاعت آپ کا طرۂ امتیاز تھا ۔یہ صفت آپ نے اپنے شہسوار باپ امیرا لمومنین علی علیہ السلام سے حاصل کی تھی۔ اگر چہ آپ کی مادر گرامی بھی علم ومعنویت کی پیکر اور عرب کی ایک شجاع خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔حضرت علی علیہ ا لسلام نے بڑے ہی اہتمام سے آپ کی مادر گرامی کا انتخاب کیا تھا اور جب اس اہتمام کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا : ''لتلدلی فارساً شجاعاً''میں چاہتا ہوں کہ وہ خاتون میرے لئے ایک شجاع بچہ دنیا میں لے کر آئے۔ یہ سبب تھا کہ افق علوی سے بنی ہاشم کا چاند خورشید فاطمی کی حفاظت کے لئے آسمان ام البنین پر طلوع ہوا ۔

٢۔معنوی شوکت
دنیا میں ایک سے ایک بہادر ، پہلوان ، شجاع اور خوبصورت گزرے ہیں۔ اگر ہم ابو الفضل عباس کو فقط اس نگاہ سے دیکھیں کہ آپ رشید قامت ، ہلالی ابرو ، ستواںناک اور گلابی ہونٹوں والے تھے تو تاریخ کے پاس ایسے سینکڑوں نمونے ہیں جو خوبصورت بھی تھے اور بہادر بھی لیکن ابولفضل العباس علیہ السلام کی خصوصیت فقط یہ نہ تھی کہ آپ فقط خوبصورت اور بہادر تھے بلکہ آپ کی اہم خصوصیت جو آپ کو گوہر نایاب بناتی ہے وہ آپ کا باطنی جوہر اور باطنی حسن ہے یعنی آپ کا ایمان ، اخلاص ، مردانگی ، انسان دوستی ، سچائی ، امانت داری ، آزادی ، عدالت خواہی ، تقویٰ ، حلم ، جانثاری اور وہ پیروی محض ہے جو اپنے امام علیہ السلام کے سامنے پیش کی ہے ۔ تاریخ میں ایک بہادر ، دلیر اور شجاع کا اتنے سخت اور دل ہلادینے والے حوادث میں اس قدر تابع اور مطیع ہونا کہیں نہیں ملتا اور نہ ملے گا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے آپ کی بلند و بالا شخصیت کی اس طرح منظر کشی کی ہے:''کان عمنا العباس نافذ البصیرة ، صلب الایمان ، جاھد مع اخیہ الحسین علیہ السلام وأبلی بلاء حسناًو مضی شھیداً ''( عمدة الطالب، ٣٥٦) ہمارے چچا عباس عمیق بصیرت والے اور محکم صاحب ایمان تھے جس میں کوئی تزلزل نہ تھا، آپ نے اپنے بھائی حسین علیہ السلام کے ہمراہ جہاد کیا اور بلاؤں کی آماجگاہ میں بہتر ین امتیاز حاصل کیا اور شہید ہو گئے ۔امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :'' رحم اللّٰہ العباس فلقد آثر وابلیٰ وفدا أخاہ بنفسہ حتی قطعت یداہ فأبدلہ اللّٰہ عزو جل بھما جناحین یطیر بھما مع الملائکة فی الجنة کما جعل لجعفر بن ابیطالب وان للعباس عنداللّٰہ تبارک وتعالٰی منزلة یغبطہ بھا جمیع الشھداء یوم القیامة'' (خصال شیخ صدوق ج١؛ ص ٦٨)
خدا (ہمارے چچا ) عباس پر رحمت نازل کرے، حقیقت تو یہ ہے کہ آپ نے نا قابل وصف ایثار کا ثبوت دیا
اور بزرگ ترین آزمائش میں کامیاب ہوکر سر بلند و سرفراز ہوگئے اور آخر کار اپنی جان کو اپنے بھائی پر نثار کردیا یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ کٹ گئے تو اللہ عز و جل نے اس کے بدلے آپ کو دو پر عطا کئے جس کی مدد سے آپ جنت میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں جس طرح خدا نے جعفر بن ابوطالب کو پر عطا کئے تھے ۔
اللہ تباک و تعالی کے نزدیک جناب عباس کی وہ قدر و منزلت ہے کہ قیامت کے دن تمام شہداء آپ پر رشک کریں گے ۔

٣۔ علمدار کربلا
آپ کی ایک اہم فضیلت یہ ہے کہ روز عاشوراآپ حسینی لشکر کے علمدار تھے اور یہ اتنا بلند و بالا مرتبہ ہے کہ آسانی سے کسی کو نہیں ملتا ۔
جنگ کے بدترین ماحول میں آپ اجازت لے کر میدان کارزار میں آئے لیکن سرکار سیدالشھداء کو آپ سے اتنی محبت تھی کہ فقط فراق و جدائی کے تصور نے امام کی آنکھوں کے جام کو لبریز کردیا اور سیل اشک جاری ہوگئے؛ یہاں تک کہ آپ کی ریش مبارک آنسوؤ ں سے ترہوگئی پھر فرمایا :'' اخی أنت العلامة من عسکری''میرے بھائی تم تو میرے لشکر کے علمدار ہوتو حضرت عباس علیہ السلام نے فرمایا :'' فداک روح أخیک لقد ضاق صدری من حیاة الدنیا وأرید آخذ الثار من ھولاء المنافقین'' آپ کے بھائی کی جان آپ پر نثار ہو ، حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی سے میرا سینہ تنگ ہوچکا ہے میں چاہتا ہوں کہ ان منافقوں سے انتقام لوں ۔

٤۔ سقائی
آپ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ آپ سقا کے لقب سے نوازے گئے اور حسینی لشکر کی پیاس بجھانے کے لئے پانی کی سبیل کی خاطر نہر فرات کی طرف دشمنوں کے نرغے میں چل پڑے ،۔بچوں کی تشنگی نے آپ کے دل کو برمادیا۔ امام حسین علیہ السلام سے میدان جنگ کی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا : ''فاطلب لھولاء الأطفال قلیلاً من المائ'' بھائی اگر میدان میں جانا چاہتے ہو تو ان بچوں کے لئے دشمنوں سے تھوڑا سا پانی طلب کرو ۔

٥۔سالار عشق و ایمان
عبا س غازی کی یہی وہ صفت ہے جو آپ کو دوسرے ساونت اوردلیروں سے جدا کرکے بہادری اور شجاعت کا حقیقی پیکر بناتی ہے۔ آپ کی جگہ پر کوئی بھی بہادر ہوتا تو وہ میدان جنگ میں آتے ہی تلوار سونت کر جنگ میں مشغول ہوجاتا لیکن یہ عباس پروردہ ٔآغوش تربیت علی مرتضیٰ ہیں جسمی توانائی کے علاوہ ان کا قلب تقویٰ ، اخلاق ، علم وحلم سے معمور ہے، اسی لئے
جب میدان میں آئے تو پہلے سردار لشکر عمر بن سعد کو ہدایت کی، راہ دکھائی اور اس سے مخاطب ہو کر کہا :'' یا عمر بن سعد ! ھٰذا الحسین ابن بنت رسول اللّٰہ قد قتلتم أصحابہ و أخوتہ وبنی عمہ وبقی فریداً مع أولادہ و عیالہ وھم عطاشا، قد أحرق الظماء قلوبھم فاسقوھم شربة من الماء لأن أولادہ و أطفالہ قد و صلوا الی الھلاک''.اے عمر بن سعد ! یہ حسین نواسہ رسول ہیں جن کے اصحاب ، بھائیوں اور چچا زادگان کو تم لوگوں نے قتل کردیا ہے اور وہ اپنی اولاد اور عیال کے ہمراہ تنہارہ گئے ہیں اور بہت پیاسے ہیں . پیاس سے ان کا کلیجہ بھنا جا رہا ہے لہٰذاانھیںتھوڑا ساپانی پلادو؛ کیوں کہ ان کی اولاد اور بچے پیاس سے جاں بہ لب ہیں۔ آپ کے ان جملوں کا اثر یہ ہواکہ بعض بالکل خاموش ہوگئے ، بعض بے حد متاثر ہو کر رونے لگے لیکن شمر و شبث جیسے شقاوت پیکروں نے تعصب کی آگ میں جل کر کہا :'' یابن أبی تراب ! قل لأ خیک : لو کان کل وجہ الارض مائً وھوتحت أید ینا ما سقیناکم منہ قطرة حتی تدخلوا فی بیعة یزید'' اے ابو تراب کے فرزند ! اپنے بھائی سے کہہ دوکہ اگر ساری زمین پانی پانی ہوجائے اور وہ ہمارے دست قدرت میں ہو تب بھی ہم تم کو ایک قطرہ پانی نہیں پلائیں گے یہاں تک کہ تم لوگ یزید کی بیعت کرلو۔

٦۔ اسلام کا غیرت مند سپاہی
حضرت عباس علیہ السلام اموی سپاہ کی غیر عاقلانہ اور جاہلانہ گفتگوپر افسوس کر کے اپنے آقا کے پاس لوٹ آئے اور سارے واقعات سے آگاہ کردیا ۔
امام حسین علیہ السلام قرآن اور خاندان رسالت کی تنہائی پر آنسو بہا نے لگے اور اتنا روئے کہ یہ آنسو آپ کے سینے اور لباس پر ٹپکنے لگے ۔دوسری طرف ننھے بچوں کی صدائے العطش بار بار حضرت عباس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب اسلام کا یہ غیر تمند سپاہی اپنے گھوڑے پرسوار ہوا اور خیمہ سے مشکیزہ لے کر دلیرانہ اور صفدرانہ انداز میں لشکر پر ٹوٹ پڑا۔عمر بن سعد نے خاندان رسالت پر پانی بند کرنے کے لئے چار (٤) ہزار کا رسالہ فرات کے کنارے تعینات کر رکھا تھا اور وہ کسی طرح اصحاب واولاد حسین علیہ السلام کو پانی تک پہنچنے نہیں دے رہے تھے ۔علمدار لشکر حسینی نے اسی رسالہ پر حملہ کیا۔ آپ جو امیر المو منین علیہ السلام کی ایک نشانی تھے اپنی ناقابل وصف شجاعت وشہامت کے ساتھ دشمن کی فوج کوتتر بتر کردیا ،فوج کے پہرے کو بالکل تو ڑدیا اور ان میں سے اسی (٨٠) لوگوں کو قتل کردیا جوان میں سب سے زیادہ شریر تھے ۔
آپ کی شجا عانہ آوازفضا میں گونج رہی تھی :
لا أرھب الموت اذاالموت رقا
حتی أواری فی المصالیت لقی
انّ أنا العباس أعدوا با لسقّا
ولا أخاف الشرّ یوم الملتقی
موت جب میری طرف رخ کرتی ہے تو میں اس سے نہیں ڈرتا یہاں تک کہ خدا کی مدد سے آتش افروز اور جنگجوؤں کے سروں کو خاک میں ملا دوں . ،میں عباس ہوں جسے سقائیت کا رتبہ ملا ہے اور میں پانی ضرور پہنچاؤں گا ،میںحق وباطل سے مڈبھیڑ کے دن کبھی بھی باطل کی شرانگیز یوں سے نہیں ڈرتا ۔

٧۔معراج وفا
حضرت ابو الفصل نے اپنی ناقابل وصف شجاعت سے دشمن کی صفوں کو تتر بتر کردیا اور خود فرات میں داخل ہوگئے ۔پیاس کی شدت کی وجہ سے چلو میں پانی لیاتا کہ تھوڑا ساپی لیں لیکن اسی پانی میں حسین علیہ السلام کی پیاس کا عکس جھلکنے لگا ؛پانی کو فرات کے منہ پر مار دیا اور اپنی روح کو مخاطب کرکے فرمایا:
یانفس من بعد الحسین ھون
وبعد ہ لا کنت ان تکون
ھٰذا الحسین شارب المنون
وتشر بین بارد المعین
ھیھا ت ما ھٰذ ا فعال دین
ولا فعال صادق الیقین
اے نفس تو حسین کے بعد ذلیل ورسوا ہے اور ان کے بعد زندگی کی تمنا نہیں ہے ،یہ حسین ہیں جو جام شہادت نوش فرما رہے ہیں اور تو صاف و خوش گوار پانی پیئے گا ، یہ ہم سے بہت دور ہے، یہ ہمارے دین کا کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ کام سچے یقین رکھنے والے کا ہو سکتا ہے ۔
اس کے بعد مشک کو پانی سے بھرکردوش پر رکھا اور خیام حسینی کا رخ کیا۔ وہ تتربتر فوج جس نے اتنی مدت میں خود کو آمادہ کرلیا تھا آپ پر راستہ کو بند کر دیا اور ہزاروں لوگوں نے آپ کو تیروں کی باڑہ پر لے لیا؛ جس کے نیتجے میں آپ کا پورا جسم تیروں کی آماجگاہ ہوگیا اور تیروں نے آپ کے سارے بدن کوچھلنی کرد یا لیکن آپ شجاعت وشہامت کے ساتھ ان پر وار کرتے رہے اور خیموںتک پہنچنے کا راستہ بناتے رہے کہ اسی درمیان ایک پلیدشخص'' زید بن ورقاء ''جو ایک خرمہ کے درخت کے پیچھے چھپا تھا ایک دوسرے ظالم حکیم بن طفیل کی مدد سے پیچھے سے آپ کے داہنے ہاتھ پر ایسا وار کیا کہ آپ کا ہاتھ کٹ گیا ۔ آپ نے پر چم کو بائیں ہاتھ میں لے لیا اور پر جوش انداز میں یہ رزمیہ اشعارپڑھنے لگے :
واللّہ ان قطعتم یمنی
انی أحامی أبد ً اعن دینی
وعن امام صادق الیقین
نجل النبی الطاھر الأ مین
خدا کی قسم اگر چہ تم نے میرا داہنا ہاتھ کاٹ دیا ہے لیکن میں ہمیشہ اپنے دین اور اپنے سچے یقین والے امام کی حمایت کرتا رہا ہوں گا جو طاہر وامین بنی کے نواسے ہیں ۔
اپنے اس شور انگیز اشعار کے ساتھ آپ نے خیمہ تک پہنچنے کی کوشش کو جاری رکھا یہاں تک کہ مسلسل خون بہنے سے آپ پر نقاہت طاری ہوگئی لیکن آپ اپنی طرف تو جہ کئے بغیر خیمہ کی طرف رواں دواں تھے کہ کسی نے آپ کا بایاں ہاتھ بھی کمین گاہ سے کاٹ دیا لیکن پھربھی آپ نے اپنے جہاد کو جاری رکھا اور یہ اشعار پڑھنے لگے :
یا نفس لا تخش من الکفار
وابشر برحمة الجبار
قد قطعواببغیھم یسار
فأ صلھم یا رب حرّ النار
اے نفس کفار سے نہ ڈر ؛تجھے رحمت جبار کی بشارت ہو ؛ انھوں نے دھوکہ سے میرا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا تو پروردگار اتو انھیں جہنم کی آگ کی گرمی میں واصل کردے ۔
آپ کے دونوں ہاتھ کٹ چکے تھے لیکن آپ کی شجاعت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی آپ اس امید میں تھے کہ پانی خیمہ تک پہنچ جائے گا لیکن نا گہاں دشمنوں کی طرف سے ایک تیر آیا اور مشک پر لگا مشک کا سا راپانی زمین پربہہ گیا ۔ اب عباس علیہ السلا م کی فکر بدل گئی ،اب کیا کیا جائے ؟ نہ تو ہاتھ باقی ہیں کہ دوبارہ دشمن کی صفوں پر حملہ کیا جائے اور نہ ہی پانی بچا کہ خیمہ کی طرف جائیں۔ابھی آپ اسی فکر میں تھے کہ ایک لعین نے ایک گرز آہنی آپ کے سر پر مارا ،عباس زمین پر آئے صدادی: ''یا أخاہ أدرک أخاک'' بھائی ، اپنے بھائی کی مدد کو پہونچئے ۔
اب میری کمر ٹوٹ گئی : علمدار کی آواز سنتے ہی امام حسین علیہ السلام ایک غضباک شیر کی طرح دشمن کی فوج پرٹوٹ پڑے اور خود کو بھائی تک پہنچا دیا لیکن جب دیکھا کہ ہاتھ قلم ہو چکے ہیں پیشانی زخمی ہو چکی ہے اور تیر عباس کی آنکھوں میں پیوست ہے تو حسین علیہ السلام خمیدہ کمر لئے بھائی کہ پاس آئے اور خون میں غلطیدہ علمدار کے پاس بیٹھ گئے، سر زانو پر رکھا اسی اثنا میں عباس ہمیشہ کے لئے سوگئے اور حسین علیہ السلام نے مرثیہ شروع کیا:''أخی الأن انکسر ظھر و قلت حیلت و شمت ب عدوّ'' اے میرے بھائی اب میری کمر ٹوٹ گئی، راہ وچارہ تدبیر مسدود ہوگئی اور دشمن مجھ پر خندہ زن ہے ،پھر فرمایا :
الیوم نامت أعین بک لم تنم
وتسھدت أخری فعزمنامھا
اب وہ انکھیں سوئیں گی جو تمہارے خوف سے نہیں سوتی تھیںاور وہ آنکھیں بیدار رہیں گی جو تمہارے وجود
سے آرام سے سوتی تھیں۔ایک شاعر نے امام حسین علیہ السلام کی زبانی اہل حرم کے محافظ کو اس طرح یاد کیا ہے :
عباس تسمع زینبا تدعوک من
ل یا حما اذا العدی سلبون ؟
أولست تسمع ماتقول سکینة
عماہ یوم الأ سر من یحمین؟
اے عبا س! تم سن رہے ہوزینب تم کو مخاطب کر کے کہہ رہی ہے کہ اے زینب کے محافظ و حامی تمہاری شہادت کے بعد دشمنوں کے حملہ کے مقا بلہ اب ہماری حفاظت کون کرے گا ؟
کیا تم نہیں سن رہے ہوکہ سکینہ کیا کہہ رہی ہے چچا جان آپ کی شہادت کے بعد اسیری کے دنوں میں ہماری حفاظت و حمایت کون کرے گا ؟
اس کے بعد غم و اندوہ کی ایک دنیا لے کر آپ خیمے کی طرف پلٹے، سکینہ نے جیسے ہی بابا کو آتے دیکھا دوڑتی ہوئی گئیں اور پوچھا :'' أبتاہ ھل لک علم بعم العباس ؟'' بابا ! آپ کو چچا کی کوئی خبر ہے ؟ یہ سن کر مولا رونے لگے اور فرمایا : ''یا بنتاہ أن عمک قد قتل'' بیٹی تیرے چچامارڈالے گئے ۔