بنی ہاشم کے شہداء
* علی بن الحسین اکبر کی شہادت
* قاسم بن حسن کی شہادت
* عباس بن علی اور ان کے بھائی
* لشکر حسینی کے سردار
* آپ کے امتیازات و خصوصیات
* حسن و رشاد ت
* معنوی شوکت
* علمدار کربلا
* سقائی
* سالار عشق و ایمان
* اسلام کا غیرتمند سپاہی
* معراج وفا
* حسین علیہ السلام کا شیر خوار
* عبداللہ بن جعفر کے دو فرزندوں کی شہادت
* آل عقیل کی شہادت
* حسن بن علی علیہما السلام کے فرزندوں کی شہادت
بنی ہاشم کے شہداء
علی بن الحسین اکبر کی شہادت
کربلا میں روز عاشورا اولاد ابو طالب کے سب سے پہلے شہید علی اکبر فرزندحسین بن علی ( علیہم السلام ) ہیں۔ (١)آپ کی مادر گرامی ابو مر ہ بن عروہ بن مسعودثقفی کی بیٹی جناب لیلیٰ تھیں۔(٢)
..............
١۔ ابو مخنف نے اپنی روایت میں جوانھوں نے سلیمان ابن ابی راشد سے بیان کی ہے اورسلیمان نے حمید بن زیاد سے نقل کی ہے اس میں امام سجاد علیہ السلام کو علی بن حسین اصغر کے وصف سے یاد کیا ہے۔ ( طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٤ ) اور جو بچہ امام علیہ السلام کی گود میں شہید ہواتھا اس کا نام اسی سند کے حوالے سے عبداللہ بن حسین ذکر کیا ہے۔ (طبری، ج٥ ، ص ٤٤٨) طبری نے اپنی کتاب ''ذیل المذیل'' میں کہا ہے کہ علی اکبر فرزند حسین اپنے باپ کے ہمراہ کربلا میں ساحل فرات پر شہید ہوئے اور ان کا کوئی بچہ نہیں تھا اور علی بن حسین اصغر اپنے باپ کے ہمراہ کربلا میں موجود تھے۔ اس وقت وہ ٢٣ سال کے تھے اوربیماری کے عالم میں بستر پر پڑے تھے۔ امام سجاد علیہ السلام کا بیان ہے کہ جب میں ابن زیاد کے دربار میں وارد ہوا اور اس نے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ تو میں نے کہا: علی بن الحسین میرا نام سن کر اس نے کہا : کیا اللہ نے علی کو قتل نہیں کیا؟ تو میں نے کہا کہ میرے ایک بھائی تھے جو مجھ سے بڑے تھے ،ان کانام بھی علی تھا، انھیںلوگوں نے قتل کردیا ۔ابن زیاد بولا : نہیں بلکہ اللہ نے اسے قتل کیا ہے ۔میں نے کہا :'' اللّٰہ یتوفیٰ الأنفس حین موتھا'' (ذیل المذیل، ص ٦٣٠ ، طبع دارا لمعارف ) اس مطلب کو ابو الفرج نے بھی بیان کیا ہے۔ ( مقاتل الطالبیین، ص ٨٠ ،طبع نجف ) اسی طرح یعقوبی نے بھی علی اکبر ذکر کیا ہے اور امام سجاد علیہ السلام کو علی بن الحسین اصغر ذکر کیا ہے۔ ( تاریخ یعقوبی، ج٢،ص ٢٣٣، طبع نجف ) مسعودی نے بھی یہی ذکر کیا ہے۔ ( مروج الذھب، ج ٣،ص ٧١ ) نیز سبط بن جوزی کا بھی یہی بیان ہے۔ (تذکرہ، ص ٢٢٥ ) شیخ مفید نے ارشاد میں فقط علی بن الحسین ذکر کیا ہے اور اکبر کا اضافہ نہیںکیا ہے۔
٢۔ ٦ھ میں عروہ بن مسعود ثقفی نے طائف میں قبیلہ ء ثقیف سے مکہ کی طرف کوچ کیا اور قریش کے تمام اہل و عیال اوران کے اطاعت گزاروں کا حلیف ہوگیا ۔ صلح حدیبیہ کے سال جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کے ہمراہ عمرہ کی غرض سے آئے اورآپۖ نے ان کی طرف بدیل بن ورقا ء خزاعی کو پیغام لے کر روانہ کیا جسے پیغام رساں کہا جاتا تھااُدھر دوسری طرف عروہ کھڑا ہوااور اس نے قریش کے سربرآوردہ لوگوں سے کہا : یہ مرد تمہیں رشد و ہدایت کی راہ دکھارہا ہے، اسے تم لوگ قبول کرلو اور مجھے اجازت دو تاکہ میں ان کے پاس جاؤں۔ ان لوگوں نے کہاجاؤ تو عروہ پیغمبر اکرم ۖکے پاس آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرنا شروع کیا۔نبی اکرم ۖنے اس سے بھی اس قسم کی باتیں کہیں جو بدیل سے فرمائی تھی کہ ہم یہاں کسی سے جنگ کے لئے نہیں آئے ہیں،ہم تو یہاں فقط عمرہ انجام دینے کے لئے ہیں۔ جنگ قریش کو رسوا کردے گی اور انھیںنقصان پہنچائے گی۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ اس دین میں آجائیں جس میں سب آگئے ہیں تو وہ ایسا کریں ورنہ آرام کریں اور اگر وہ اس سے انکار کرتے ہیں تو قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اس پر میں ان سے نبرد آزمائی کروں گایہاں تک کہ یا تو میں بالکل تنہا رہ
جاؤں یا اللہ اپنے امر کو نافذکردے ۔ اس وقت عروہ نے کہا اے محمد ! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اپنی قوم کو محکم کرلیا ہے ؟کیا آپ نے اس سے پہلے کسی عرب سے سنا ہے کہ وہ اپنی قوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور دوسروں کا ہوجائے؟ خدا کی قسم میں ان مختلف چہرے اور مختلف طبیعت کے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ فرار کرجائیں گے اور آپ کو تنہاچھوڑدیں گے۔عروہ یہ کہہ رہاتھا اور بڑے غور سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کو دیکھے جارہاتھا، پھر عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف پلٹ گیا اور بولا : اے قوم ! خدا کی قسم میں سارے بادشاہوں کے پاس گیا ہوں ،میں قیصر و کسریٰ اورنجاشی کے پاس بھی گیا ہوں ،خدا کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو نہیںدیکھا کہ اس کے اصحاب ا س کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنا محمد کے اصحاب محمد کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم اگر وہ لعاب دہن باہر ڈالتے ہیں تو ان میں کا ایک اسے اپنی ہتھیلی پر لے کر اسے اپنے چہرہ اور جسم پر مل لیتا ہے . جب وہ کوئی حکم دیتے ہیںاسے فوراً انجام دیتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کے بقیہ پانی کے لئے سب لڑنے لگتے ہیں اور جب وہ کچھ بولتے ہیں تو یہ لوگ بالکل خاموش ہو کر تعظیم میں نظریں گڑا کر ان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔انھوں نے تمہاری طرف رشد وہدایت کی راہ پیش کی ہے تمہیں چاہیے اسے قبول کرلو! ( طبری ،ج٦، ص ٤٢٧ ) ٨ھ میں یہ جنگ حنین میں ایک گوشے میں منجنیقیں بنانے کی تعلیم دیا کرتے تھے اور خود جنگ حنین میں موجود نہیں تھے۔ ابوسفیان نے اپنی بیٹی آمنہ کی اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ حنین کے دن ابو سفیان ، مغیرہ بن شعبہ کے ہمراہ طائف آیا اوردونوں نے مل کر قبیلہ ثقیف کو آوازدی کہ ہمیں امن دو تاکہ ہم تم سے کچھ گفتگو کریں۔ ان لوگوں نے ان دونوں کو امن و امان دے دیا توان لوگوں نے قریش کی عورتوں کو اسیر ی کے خوف میں چھوڑ دیا تو ان لوگوں نے انکار کیا ( طبری ،ج٣ ،ص ٨٤ ) جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل طائف کے پاس سے واپس لوٹنے لگے توعروہ بن مسعود آپ کے پیچھے ہولئے اور مدینے پہنچنے سے پہلے ہی عروہ نے آپ کو درک کرلیا اور آپ کے ہاتھوں پر اسلام لے آئے۔ نبی اکرمۖ نے آپ سے کہا کہ اسی اسلام کے ہمراہ اپنی قوم کی طرف پلٹ جائیںکیونکہ عروہ بن مسعود اپنی قوم میں بہت محبوب تھے اور آپ کی باتوں کو لوگ بے چوںو چرا قبول کرلیتے تھے لہٰذاعروہ بن مسعود اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے نکل پڑے۔ وہ اس امید میں تھے کہ ان کے مقام و منزلت کے پیش نظر لوگ ان کی مخالفت نہیں کریں گے لیکن ان کی قوم نے چاروں طرف سے ان پر تیروں کی بارش کردی اور آپ کو شھید کردیا گیا۔ وقت شہادت کسی نے ان سے پوچھا : اپنے خون کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے ؟ تو عروہ نے جواب دیا : یہ کرامت اور بزرگی ہے جس سے خدا نے مجھے سرفراز کیا اور ایک جام شہادت ہے جسے خدا نے مجھے نوش کرایا ہے۔ میرا اجر وہی ہو گاجو ان لوگوں کا اجر ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ جنگ میں شہید ہوئے لہٰذا تم لوگ مجھے انھیں کے ہمراہ دفن کرنا لہذا۔آپ کو انھیںلوگوں کے ہمراہ دفن کیا گیا۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے بارے میں فرمایا: ان کی مثال اپنی قوم میں اس طرح ہے جیسے صاحب یسٰین اپنی قوم میں۔'' ان مثلہ فی قومہ کمثل صاحب یسٰین فی قومہ''( طبری، ج٣،ص ٩٧) سیرة بن ہشام، ج٢،ص ٣٢٥)نبی خدا ۖ نے آپ کا اور آ کے بھائی اسود بن مسعود کا قرض ادا کیا۔ (طبری، ج٣، ص ١٠٠)
آپ نے دشمنوں پر سخت حملہ کرنا شروع کیا درحالیکہ آپ یہ کہے جارہے تھے :
أنا علّ بن حسین بن عل
نحن و رب البیت أولیٰ بالنب
تاللّٰہ لا یحکم فینا ابن الدّع(١)
میں علی ، حسین بن علی کا فرزند ہوں ، رب کعبہ کی قسم ہم نبی سے سب سے زیادہ نزدیک ہیں، خدا کی قسم بے حسب ونسب باپ کا لڑکا ہم پر حکمرانی نہیں کرسکتا ۔
آپ نے بارہادشمن کے قلب لشکر پر حملہ کیا اوران رزمیہ اشعار کو دھراتے رہے۔جب مرہ بن منقذعبدی (٢)نے آپ کو دیکھا تو بولا : تمام عرب کا گناہ میرے سر پر ہو !اگر یہ میرے پاس سے گزرا تومیں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کروں گا جیسا یہ کررہا ہے؛ اس کے باپ کوا س کے غم میں بیٹھادوں گا! اس اثنا ء میںآپ اپنی تلوار سے سخت حملہ کرتے ہوئے ادھر سے گزرے، پس مرہ بن منقذنے نیزہ کاایسا وار کیا کہ آپ زمین پر گرگئے دشمنوں نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور اپنی تلواروں سے آپ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے ۔(٣)و(٤)
..............
١۔ ابو لفرج اصفہانی نے روایت کی ہے کہ سخت حملے کے بعد علی اکبر اپنے بابا کے پاس آئے اور عرض کیا: بابا پیاس مارے ڈال رہی ہے تو حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : ''اصبر حبیبی حتی یسقیک رسول اللّٰہ بکاسہ ''اے میرے لال صبر کرو یہاں تک کہ رسولۖ خدا تمہیں جام کوثر سے سیراب کریں اس کے بعد آپ نے دشمنوں پر پے در پے کئی حملے کئے ۔(مقاتل الطالبیین، ص ٧٧ )
٢۔ اس کی نسبت بنی عبد قیس کی طرف ہے۔ یہ جنگ صفین میں اپنے باپ منقذ بن نعمان کے ہمراہ حضرت علی کے ساتھ تھا اور عبد قیس کا پرچم اپنے باپ سے لے لیا پھر وہ اسی کے پاس رہا۔( طبری، ج٤،ص ٥٢٢ )٦٦ھ میں مختار نے عبداللہ بن کامل شاکری کو اس کے پاس روانہ کیا تو وہ اس کے گھر پر آئے اور اسے گھیر لیا تویہ اپنے ہاتھ میں نیزہ لئے تیز گھوڑے پر سوار تھا ۔ ابن کامل نے تلوار سے ایک ضرب لگائی تواس نے بائیں ہاتھ سے اپنا بچاؤ کیا لیکن تلوار اس پر لگی اور گر پڑا ۔ پھر مصعب بن زبیر سے ملحق ہوگیا درحالیکہ اس کے ہاتھ شل تھے۔ (طبری، ج ٦،ص٦٤)
٣۔ ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے زہیر بن عبدالرحمن بن زہیر خثعمی نے یہ روایت نقل کی ہے (طبری ،ج٥،ص ٤٤٦ ) اور ابو الفرج نے بھی ابو مخنف سے زہیر بن عبداللہ خثعمی کے حوالے سے روایت کی ہے ( مقاتل الطالبیین، ص ٧٦ ) اورانھوں
نے ایک دوسری سند کے حوالے سے روایت کی ہے کہ جب علی بن الحسین میدان جنگ میں دشمن کی طرف آنے لگے تو حسین کی نگاہیںان کے ساتھ ساتھ تھیں اور وہ گریہ کناں تھے پھر فرمایا : ''اللّٰھم کن أنت الشھید علیھم فقد برز الیھم غلام أشبہ الخلق برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم'' خدا یا! تو اس قوم پر گواہ رہنا کہ ان کی طرف اب وہ جوان جارہاہے جو سیرت و صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ ہے۔
٤۔ ابو الفرج ہی نے روایت کی ہے کہ : زمین پر آتے وقت علی اکبر نے آوازدی : ''یاأبتاہ!علیک السلام '' باباآپ پر میرا سلام ہو،'' ھذاجدی رسول اللّٰہ یقرئک السلام و یقول: عجل القدوم الینا ثم شھق شھقة و فارق الدنیا''یہ ہمارے جد رسول خدا ہیں جو آپ کو سلام کہہ رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ ہمارے پاس جلدی آئو. پھر ایک چیخ ماری اور دنیا سے رخصت ہو گئے ۔
امام حسین علیہ السلا م خو ن میں ڈوبے فرزند کے پاس یہ کہتے ہوئے آئے:'' قتل اللّٰہ قوماً قتلوک یا بن'' اے میرے لال !خدا اس قوم کو قتل کرے جس نے تجھے قتل کیاہے،'' ماأجرأھم علیٰ الرّحمٰن وعلی انتھاک حرمة الرسول''یہ لوگ مہربان خدا پر اور رسولۖ کی ہتک حرمت پر کتنے بے باک ہیں،''علی الدنیا بعدک العفا''. میرے لا ل تمہارے بعد اس دنیا کی زندگی پر خاک ہو. ناگاہ اس اثناء میں ایک بی بی شتاباں خیمے سے باہر نکلی وہ آوز دے رہی تھی :'' یاأخےّاہ ! و یابن أخیاہ '' اے میرے بھائی اے جان برادر!وہ آئیں اور خود کو علی اکبر پر گرادیا تو حسین علیہ السلام ان کے پاس آئے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں خیمے میںلوٹا دیا اور خود ہاشمی جوانوں کی طرف رخ کر کے کہا :'' احملوا أخاکم الی الفسطاط'' اپنے بھائی کو اٹھاکر خیمے میں لے جاؤ ''فحملوہ من مصرعہ حتی و ضعوہ بین یدی الفسطاط الذی کانوا یقاتلون أمامہ'' (١)
ان جوانوں نے لاشہ علی اکبر کو مقتل سے اٹھا کراس خیمے کے پاس رکھ دیا جس کے آگے وہ لوگ مشغول جہاد تھے ۔
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ ( طبری ،ج٥، ص ٤٤٦) اور ابو الفرج نے بھی اسی سند کو ذکر کیا ہے ۔(مقاتل الطالبیین، ص ٧٦و٧٧ )
قاسم بن حسن کی شہادت
حمید بن مسلم کا بیان ہے : ہماری جانب ایک نو جوان نکل کر آیا ،اس کا چہرہ گویا چاند کا ٹکڑا تھا، اس کے ہاتھ میں تلوار تھی، جسم پر ایک کرتہ اور پائجامہ تھا،پیروں میں نعلین تھی جس میں سے ایک کا تسمہ ٹوٹا ہو ا تھا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ بائیں طرف والی نعلین تھی۔
عمر وبن سعد بن نفیل ازدی(١) نے مجھ سے کہا :خدا کی قسم میں اس بچہ پر ضرور حملہ کروں گا تو میں نے کہا : ''سبحان اللّٰہ'' تو اپنے اس کام سے کیاچاہتا ہے۔لشکر کا یہ انبوہ جو اس کو اپنے گھیرے میں لئے ہے تیری خواہش پوری کرنے کے لئے کافی ہے لیکن اس نے اپنی بات پھر دھرائی : خدا کی قسم میں اس پر ضرور حملہ کروں گا، یہ کہہ کر اس نے اس جوان پر زبردست حملہ کردیا اورتھوڑی دیرنہ گزری تھی کہ تلوار سے اس کے سر پر ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ منہ کے بھل زمین پرگر پڑا اور آواز دی :'' یا عماہ ! ''اے چچا مدد کو آیئے۔
یہ سن کر امام حسین علیہ السلام شکاری پرندے کی طرح وہاں نمودار ہوئے اور غضب ناک و خشمگین شیر کی طرح دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور عمرو پر تلوار سے حملہ کیا۔ اس نے بچاؤ کے لئے ہاتھ اٹھا یا تو کہنیوں سے اس کے ہاتھ کٹ گئے یہ حال دیکھ کر لشکر ادھر ادھر ہونے لگا اور وہ شقی ( عمر و بن سعد) پامال ہو کر مر گیا۔ جب غبار چھٹا تو امام حسین علیہ السلام قاسم کے بالین پر موجود تھے اور وہ ایڑیاں رگڑ رہے تھے ۔
اور حسین علیہ السلام یہ کہہ رہے تھے : بعداً لقوم قتلوک ومن خصمھم یوم القیامة فیک جدک ، عزّ واللّٰہ علیٰ عمک أن تدعوہ فلا یجیبک أو یجیبک ثم لا ینفعک صوت واللّٰہ کثر واترہ و قل ناصرہ'' برا ہو اُس قوم کا جس نے تجھے قتل کردیا اور قیامت کے دن تمہارے دادااس کے خلاف دعو یدار ہوں گے۔تمہارے چچا پر یہ بہت سخت ہے کہ تم انھیں بلاؤ اور وہ تمہاری مدد کو نہ آسکیں اور آئے بھی تو تجھے کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔خدا کی قسم تمہاری مد د کی آواز آج ایسی ہے کہ جس کی غربت و تنہائی زیادہ اور اس پر مدد کرنے والے کم ہیں ۔
..............
١۔ طبری، ج٥،ص ٤٦٨ ، اس شخص کا نام سعد بن عمرو بن نفیل ازدی لکھا ہے اور دونوں خبر ابو مخنف ہی سے مروی ہے ۔
پھر حسین نے اس نوجوان کو اٹھایا گویا میں دیکھ رہا تھا کہ اس نوجوان کے دونوں پیر زمین پر خط دے رہے ہیں جبکہ حسین نے اس کا سینہ اپنے سینے سے لگارکھا تھا پھر اس نوجوان کو لے کر آئے اور اپنے بیٹے علی بن الحسین کی لاش کے پاس رکھ دیا اور ان کے اردگرد آپ کے اہل بیت کے دوسرے شہید تھے، میں نے پوچھا یہ جوان کون تھا ؟ تو مجھے جواب ملا : یہ قاسم بن حسن بن علی بن ابیطالب (علیہم السلام) تھے۔ (١)
..............
١۔ ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤٤٧ و ارشاد ، ص ٢٣٩)
|