غفاری برادران
جب اصحاب امام حسین علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ اس بات پر قادر نہیں ہیںکہ آپ کی حفاظت کر سکیں تو ان لوگوں نے آپ کے قدموں میں جان دینے کا عمل شروع کردیا اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے۔اسی شہادت کے میدان میں سبقت کے لئے عزرہ غفاری کے دو فرزند عبداللہ اور عبدالرحمن آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
''یا أباعبداللّٰہ! علیک السلام، حازنا العدوّ الیک ،فا حببنا أن نُقتل بین یدیک و ندفع عنک'' اے ابو عبداللہ! آپ پر سلام ہو ،دشمن کی فوج نے آپ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور ہم سب اس کے نرغے میں ہیں لہٰذا ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے سامنے ان سے جنگ کریں تاکہ آپ کی حفاظت کر سکیں اور آپ کا دفاع کریں۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ''مرحباً بکما ادنوامنی'' تم دونوںقابل قدر ہو، میرے نزدیک آؤ تو وہ دونوں امام علیہ السلام کے قریب آئے اور اس کے بعد میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ان میں سے ایک یہ کہہ رہا تھا :
قد علمت حقا بنو غفار
وخندف بعد بنی نزار
لنضر بنّ معشر الفجار
بکل عضب صارم بتّار
یا قوم ذودوا عن بن الأحرار
بالمشرف والقناالخطّار
بنی غفار بخوبی جانتے ہیں، نیز نسل خندف اور خاندان نزار آگاہ ہوجائیں کہ ہم گروہ فجار کو شمشیر براں سے ضرور ماریں گے۔ اے لوگو! فرزندان حریت وآزادی کی حمایت میں اپنے نیزوں اور شمشیروں سے دفا ع کرو۔
ا س کے بعد ان دونوں نے شدید جنگ کی یہاں تک کہ شھید ہوگئے ۔(ان پراللہ کی رحمت ہو)
قبیلہ جابری کے دو جوان
اس کے بعد قبیلۂ جابری کے دوجوان حارث بن سُریع اور مالک بن عبد بن سریع جو ایک دوسرے کے چچا زاد اورمادری بھائی تھے امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور آپ سے نزدیک تر ہوئے در حالیکہ وہ گریہ کر رہے تھے ۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ''أی ابن اخ مایبکیکما ؟ فواللّٰہ أنّ لأرجوأن تکونا قریر عین عن ساعة '' اے جان برادر! کس چیزنے تم دونوں کو رلادیا؟ میں امید کرتا ہوں کہ تھوڑی ہی دیر میںتمہاری آنکھوں کو ٹھنڈک ملے گی ۔
ان دونوں نے جواب دیا : خدا ہم کو آپ پر نثار کرے! نہیں خدا کی قسم ہم لوگ اپنے آپ پر آنسو نہیں بہارہے ہیں ۔ ہم لوگ تو آپ پر گریہ کناں ہیں کہ آپ چاروں طرف سے گھیر لئے گئے ہیں اور ہمارے پاس آپ کی حفاظت کے لئے کوئی قدرت نہیں ہے۔یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ''فجزاکمااللّٰہ یا ابن اخ بوجدکما من ذالک و مواساتکما ایا بأنفسکما أحسن جزاء المتقین '' اے جان برادر !خدا تم دونوں کو میرے ساتھ اس مواسات کی بہترین جزادے ،ایسی جزا و پاداش جو متقین اور صاحب تقویٰ افراد کو دیتا ہے ۔
پھر یہ جابری جوان امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور آپ کی طرف ملتفت ہوکر عرض کیا : ''السلام علیک یا بن رسول اللّٰہ''اے فرزند رسول خدا آپ پر سلام ہو! امام علیہ السلام نے جواب دیا: ''علیکماالسلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ'' اس کے بعد ان دونوں نے جم کرجہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔( ان دونوں پر خدا کی رحمت ہو)
حنظلہ بن اسعد شبامی کی شہادت
اس کے بعد حنظلہ بن اسعد شبامی آئے اور امام حسین علیہ السلام کے سامنے کھڑے ہو کر با آواز بلند کہنے لگے:'' ےَاْقَوْمِ اِنِّیْ اَخَاْفُ عَلَےْکُمْ مِثْلَ ےَوْمِ الْاَحْزَاْبِ مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَعَادٍ وَ ثَمُوْدَ وَالَّذِےْنَ مِنْ بَعْدِھِمْ وَمَا اللّہُ ےُرِیدُْ ظُلْماً لِلْعِبَادِ وَ ےَا قَوْمِ اِنِّی اَخَافُ عَلَےْکُمْ ےَوْمَ التَّنَادِ ےَوْمَ تُوَلّْوْنَ مُدْبِرِےْنَ مَالَکُمْ مِنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمِ وَمَنْ ےُضْلِلِ اللّہُ فَمَالَہ مِنْ ھَاد ٍ (١) یا قوم لا تقتلوا حسینا فیسحتکم اللّٰہ بعذاب وَقَدْ خَاْبَ مَنِ افْتَرَی''ٰ (٢)
اے میری قوم کے لوگو! مجھے تمہاری نسبت اس دن کا اندیشہ ہے جو بہت سی قوموں کو نصیب ہوا۔( کہیں تمہارا بھی ایسا ہی حال نہ ہو ) جیسا نوح، عاد ،ثمود اور ان کے بعد آنے والی قوموں کا حال ہوا، اور خدا تو اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ، اے میری قوم مجھے تمہاری نسبت قیامت کے دن کا اندیشہ ہے جس دن تم پیٹھ پھیر کر (جہنم کی طرف) چل کھڑے ہوگے تو خدا ( کے عذاب ) سے تم کو کوئی بچانے والا نہ ہوگا اور جسے خدا گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی رو براہ کرنے والا نہیں ۔اے قوم حسین کو قتل نہ کروورنہ خدا تم پرعذاب نازل کرے گا اور یاد رکھو جس نے افترا پردازی کی وہ نامراد رہا ۔
حنظلہ کے اس قرآنی سخن کے بعد امام حسین علیہ السلام نے آپ سے فرمایا :'' یا بن اسعد ! رحمک اللّٰہ ! انھم قد استوجبو ا العذاب حیث رد وا علیک ما دعوتھم الیہ من الحق ونھضوا الیک لیستبیحوک و أصحابک فکیف بھم الأن وقد قتلوا أخوانک
..............
١ ۔سورہ غافر ٣١ و ٣٢
٢۔ سورہ طہ ٦١
الصالحین '' اے فرزنداسعد!خدا تم پر رحمت نازل کرے ان گمراہوں نے جب سے تمہاری دعوت حق کو ٹھکرادیا اورتمہارے ساتھیوںکی خونریزی کی اسی وقت سے در د ناک عذاب کے مستحق ہوگئے ۔ذراتصور کرو کہ اب ان کا حال کیاہوگا جب کہ ان لوگوں نے تمہارے نیک اورصالح بھائیوںکو قتل کردیاہے!
ابن سعد نے کہاآپ نے سچ فر مایا،میں آپ پر نثار ہو جاؤں،آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس کے زیادہ حقدارہیں ۔کیامیںآخرت کی طرف نہ جاؤںاور اپنے بھائیوںسے ملحق نہ ہوجاؤں ؟
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:''رح الی خیر من الدنیا ومافیھا والی ملک لایبلی'' . کیوںنہیں،جاؤ اس چیز کی طرف جو دنیااور اس کی سار ی چیزوںسے بہتر ہے اوراس مملکت کی طرف روانہ ہوجاؤ جوکبھی فنا ہونے والی نہیں ہے ۔
ابن اسعد نے کہا:''السلام علیک یااباعبداللّٰہ ،صلی اللّٰہ علیک وعلی أھل بیتک وعرف بینناو بینک '' سلام ہوآپ پر اے ابو عبداللہ،آپ پر اور آپ کے اہل بیت پر خدا کا درود و سلام ہو نیزوہ ہمارے اور آپ کے درمیان آشنائی قائم فرمائے ۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : آمین آمین ۔
اس کے بعد حنظلہ شبامی میدان قتال میں آئے اور خوب جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گئے ۔( رحمة اللہ علیہ)
عا بس بن ابی شبیب شاکری اور ان کے غلام شوذب کی شہادت (١)
اس کے بعد عابس بن ابی شبیب شاکری آئے، ان کے ہمراہ ان کے باپ شاکر کے غلام شوذب بھی تھے۔آپ نے اس سے پوچھا : ''یا شوذب ! مافی نفسک أن تصنع؟'' اے شوذب تیرے دل میںکیا ہے ؟ تو کیا کرنا چاہتا ہے ؟ اس نے کہا : میرا ارادہ تو یہی ہے کہ آپ کے ہمراہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسہ کی خدمت میں جنگ کروں یہاں تک کہ قتل ہوجاؤں ۔
..............
١۔ یہ وہی عابس ہیں جو کوفہ میں جناب مسلم بن عقیل کے زبانی امام حسین علیہ السلام کا خط پڑھنے کے بعد اٹھے تھے اور حمد و ثنائے الٰہی کے بعد کہا تھا : اما بعد ، میں آپ کو تما م لوگوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں دے رہا ہوں ،نہ ہی یہ جانتا ہوں کہ ان کے عابس نے کہا : تم سے یہی توقع تھی، اب اگر تم جنگ سے منصرف نہیں ہونا چاہتے ہوتو تم آگے بڑھ کر ابوعبداللہ کے سامنے جاؤ تاکہ وہ تمہیں اپنے دیگر اصحاب کی طرح دیکھیں اورتمہارا حساب ان کی طرح خدا کے حوالے کردیں اور میں بھی تمہیں خدا اور ان کے حساب میں ڈال دوں کیوںکہ اگر اس وقت میرے پاس کوئی اور ہو تاجو تم سے زیادہ مجھ سے قریب ہوتا تو مجھے اس بات کی خوشی ہوتی کہ میں اپنے سامنے اسے میدان جنگ میں بھیجوں تاکہ وہ میرے حساب میں آئے؛ کیونکہ آج کادن اسی کاسزاوار ہے کہ ہم اپنی پوری قدرت سے اجرو پاداش طلب کریںاس لئے کہ آج کے بعد کوئی عمل نہیں ہے، بس حساب ہی حساب ہے ۔
دلوں میں کیا ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے آپ کو دھوکہ میں رکھنا چاہتا ہوں۔ خدا کی قسم میں وہ کہہ رہا ہوں جو میرے دل میں ہے۔ خدا کی قسم جب آپ دعوت دیں گے اور بلائیں گے تو میں اس کو اجابت کروں گااور لبیک کہوں گا اور آپ کے ہمراہ آپ کے دشمنوں سے لڑوں گا اور آپ کے دفاع میںانھیں اپنی تلوار سے ماروں گا یہاں تک کہ میں خدا سے ملاقات کرلوں اور اس کے عوض میں میرا کوئی ارادہ نہیں ہے مگر وہ کہ جو اللہ کے پاس ہے۔اس پر حبیب بن مظاہر نے کہا تھا : اللہ تم پر رحمت نازل کرے تمہارے دل میں جو تھا اسے مختصر لفظوں میں تم نے ادا کردیا۔ (. طبری، ج٥،ص ٣٥٥ )جب مسلم بن عقیل ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہوئے اور ١٨ ہزار لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تو مسلم نے امام حسین علیہ السلام کوخط لکھ کر عابس بن ابی شبیب شاکری کے ہاتھوں روانہ کیا تھا کہ آپ جلد آجائیں۔( طبری ،ج٥،ص٣٧٥)
یہ سن کر شوذب آگے بڑھے اورامام حسین علیہ السلام کو سلام کیا پھر میدان میںآئے اور خوب جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے ۔( ان پرخدا کی رحمت ہو)
پھر عابس بن ابی شبیب شاکری نے کہا :'' یاأباعبداللّٰہ ! أما واللّٰہ ما أمسی علی وجہ الأرض قریب ولا بعید أعزعلّ وأحب الیّ منک ولو قدرت علی أن أدفع عنک الضیم والقتل بشیء أعز علّ من نفس و دم لعملتہ، السلام علیک یاأباعبداللّٰہ اشھداللّٰہ انی علی ھدیک و ھد أبیک''
اے ابو عبداللہ ! خدا کی قسم روئے زمین پر کوئی نزدیکی اور دوری رشتہ دار آپ سے زیادہ مجھے عزیز و محبوب نہیں ہے۔ اگر میںاس پر قادر ہوتا کہ اس ظلم و دباؤ اور قتل کو کسی ایسی چیز کے ذریعے آپ سے
دور کرسکوں جو میری جان اور میرے خون سے بھی عزیز تر ہوتو میں اسے ضرور انجام دیتا ، اے ابوعبد اللہ! آپ پر سلام ہو میں خدا کو گواہ بناتا ہوں کہ میں آپ کے اور آپ کے بابا کے صحیح راستے پرگامزن ہوں ۔
پھرنیام سے تلوار نکال کر دشمنوںکی طرف چلے اور اس سے اپنی پیشانی پرایک ضرب لگائی۔(١) ربیع بن تمیم ہمدانی کا بیان ہے :میں نے جب انھیںآتے دیکھا تو پہچان لیااور میں نے لوگوں سے کہا : ''أیھاالناس !'' یہ شیروں کاشیر ہے ،یہ فرزند ابوشبیب شاکری ہے، اس کے سامنے تم میںسے کوئی نہ نکلے ۔
عابس نے ندا دیناشروع کیا : کوئی مرد ہے جو ایک مرد کے مقابلے میں آئے ؟ لیکن کوئی سامنے نہیں آیا ۔عمر بن سعد نے بوکھلا کرکہا : اس پر سنگباری کردو، پس ہر طرف سے آپ پر پتھر پھینکا جانے لگا ۔ جب آپ نے یہ منظر دیکھا تو اپنی زرہ اور خود اتار کر پھینک دیا اور دشمنوں پر ٹوٹ پڑے۔خدا کی قسم میں نے خود دیکھا کہ آپ نے اموی سپاہ کی فوج میں سے دوسو سے زیادہ لوگوں کو تہہ تیغ کیا۔لیکن اس کے بعد سارا لشکرچاروں طرف سے آپ پر ٹوٹ پڑا اورآپ درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔ (٢)و(٣)
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے نمیر بن وعلہ نے بنی ہمدان کے اس شخص سے یہ روایت نقل کی ہے جو اس روز وہ وہاں موجود تھا۔( طبری، ج٥،ص ٤٤٤ )
٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت نقل کی ہے( طبری ،ج٥،ص ٤٤١)
٣۔ میں نے دیکھا کہ آپ کاسر چندلوگوں کے ہاتھوں ادھر ادھر ہورہا ہے اور ہرایک کہہ رہا ہے اسے میں نے قتل کیا تو وہاں عمر بن سعد آیااور بولا : لڑائی مت کرواسے کسی ایک نیزہ نے قتل نہیں کیا ہے یہ سن کر سب وہاں سے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے ۔
یزید بن زیاد ابو شعثاء کندی کی شہادت
یزید بن زیاد مھاصر جنہیں ابو شعثاء کندی کہاجاتا ہے، عمربن سعد کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے آئے تھے لیکن جب امام علیہ السلام کی ساری شرطیںرد کردی گئیں تو امام حسین کی طرف چلے آئے اور اس کے بعد دشمنوں سے خوب جنگ کی۔ اس دن آپ کا رجز یہ تھا:
أنا یزید وأب مھاصر
أشجع من لیث بغیل خادر
یا رب ان للحسین ناصر
ولا بن سعد تارک وھاجر (١)
میں یزید ہوں اور میرے باپ ابو مھاصر تھے، میںشیر بیشہ سے زیادہ شجاع ہوں، پروردگارا میں حسین علیہ السلام کا ناصر ومدد گا ر اور ابن سعد کو ترک کردینے والا اور اس سے دوری اختیار کرنے والا ہوں۔آپ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔مام حسین علیہ السلام کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک کر دشمن کی طرف سو تیر چلائے جس میں سے فقط پانچ تیروں نے خطاکی تھی۔ جب بھی آپ تیرچلاتے تھے فرمایاکرتے تھے :'' أنا بن بھدلة ، فرسان العرجلة''میںخاندان بھدلہ کا فرزند اورعرجلہ کا یکہ تاز ہوں اور امام حسین علیہ السلام فرمارہے تھے:'' اللّٰھم سدد رمیتہ واجعل ثوابہ الجنة'' خدا یا!اس کے تیر کو نشانہ تک راہنمائی کر اور اس کا ثواب جنت قراردے، پھرآپ نے بڑا زبردست جہاد کیا یہاںتک کہ شہید ہوگئے ۔( رحمةاللہ علیہ )
چار دوسرے اصحاب کی شہادت
وہ چارافرادجو طرماح بن عدی کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے تھے اور وہ جابر بن حارث سلیمانی ، مجمع بن عبداللہ عایذی، (٢)عمر بن خالد صیداوی اور عمر بن خالد کے غلام سعد ہیں،
..............
١۔ یہ فضیل بن خدیج کندی کی روایت ہے۔ شاید راوی نے پسر سعد کو چھوڑنے اور اس سے دوری اختیار کرنے اور امام حسین علیہ السلام کی مددو نصرت کرنے کی بات اسی شعر سے حاصل کی ہے در حالیکہ اس سے پہلے عبدالرحمن بن جندب کی روایت عقبہ بن سمعان کے حوالے سے گزر چکی ہے کہ ابن زیاد کا خط لے کر کربلا میں جب حر کے پاس مالک بن نسیر بدی کندی آیا تھا تو اس سے یزید بن زیاد نے کہا تھا : تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے تو کیا لے کر آیا ہے ؟ اس نے کہا : میں کچھ لے کر نہیںآیا ،میں نے اپنے پیشوا کی اطاعت اور اپنی بیعت سے وفاداری کی ہے تو ابو شعشاء نے اس سے کہاتھا : تو نے اپنے رب کی نافرمانی اور اپنی ہلاکت میں اپنے پیشوا کی پیروی کی ہے، تو نے ننگ و عار اور جہنم کو کسب کیا ہے، خدا وند عالم فرماتا ہے:'' وجعلنا ھم أئمة یدعون الی النار و یوم القیامة لاینصرون''اور اس نار کی طرف دعوت دینے والا تیرا پیشوا ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٠٨ ) یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ کربلا پہنچنے سے پہلے آپ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے بلکہ حرسے ملاقات سے پہلے موجود تھے ۔تعجب ہے کہ طبری اور ابو مخنف اس حقیقت کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ۔
٢۔ یہ وہی ہیںجنہوں نے امام حسین علیہ السلام سے کہا تھا : اشراف کوفہ کے تھیلے رشوت سے بھر چکے ہیں،ان کی محبت کو اپنی طرف مائل کرلیا گیا ہے اور انکی خیر خواہی کو اپنے لئے خالص کرلیا گیا ہے ۔یہ ایک گروہ کا حال ہے اور اب رہے دوسرے گروہ کے لوگ توان کے دل آپ کی طرف مائل ہیں لیکن ان کی تلواریں کل آپ کی سمت کھنچی ہوں گی ۔
ان لوگوں نے آگے بڑھ کر اپنی تلواروں سے شدید حملہ کیا اور جب وہ دشمن کی فوج میں اندر تک وارد ہوگئے تو سپاہ اموی نے انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور ان کو اپنے محاصرہ میں لے کر اصحاب حسینی سے ان کارابطہ منقطع کردیا ۔ایسی صورت میں عباس بن علی ( علیھما السلام ) نے دشمنوںپر حملہ کیااور انھیں دشمنوں کی چنگل سے نکال لیا۔ ان چار جوان مردوں نے اپنی تلوار سے پھر زبردست حملہ کیا اور خوب خوب جہاد کیا یہاں تک کہ چاروں ایک ہی جگہ پر شہید ہوگئے ۔(١)
سوید خثعمی و بشر حضر می
یہ دونوں اصحاب حسینی کی دو آخری نشانیاں ہیں جنہیں سوید بن عمرو بن ابی المطاع خثعمی (٢) اور بشر بن عمرو حضرمی کہا جاتا ہے پہلے بشر سامنے آئے اور میدان قتال میںجاکر داد شجاعت لی اور شہید ہوگئے (رحمة اللہ علیہ )پھر سوید میدان کارزار میں آئے اور خوب جہاد کیا یہاں تک کہ کمزور ہو کر زمین پر گر پڑے۔ (٣)آپ اسی طرح شہیدوں کے درمیان کمزور وناتواں پڑے رہے اور آپ کو مردہ سمجھ کر آپ کی تلوار اتار لی گئی لیکن جب امام حسین علیہ السلام شہید کر دئے گئے تو دشمنوں کی آواز آپ کے کانوں میں آئی کہ وہ کہہ رہے ہیں :'' قتل الحسین'' حسین مارڈالے گئے تو آ پ کو غشی سے افاقہ ہوا آپ کے پاس چھری تھی۔آپ کچھ دیر تک اسی چھری سے لڑتے رہے یہاں تک کہ زید بن رقاد جنبی (٤) اور عروہ بن بطار تغلبی نے آپ کو شہید کردیا ،آپ سپاہ حسینی کے آخری شہید ہیں۔ (٥) و (٦)
..............
١۔ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے فضیل بن خدیج کندی نے یہ روایت نقل کی ہے۔( طبری، ج٥،ص ٤٤٥)
٢۔ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے زہیر بن عبدالرحمن بن زہیر خثعمی نے یہ روایت بیان کی ہے۔( طبری ،ج٥،ص ٤٤٦)
٣۔ ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عاصم نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔( . طبری ،ج ٥ ، ص ٤٤٤)
٤۔ یہ شخص حضرت عباس بن علی علیہماالسلام کا قاتل ہے۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٦٨) اسی نے عبداللہ بن مسلم بن عقیل پر تیر چلایا تھا اور کہا کرتاتھا میں نے ان میں کے ایک جوان پر تیر چلایاہے اور اس نے تیر سے بچنے کے لئے اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی پر رکھا تو میں نے اس پر ایسا تیر چلایا کہ اس کی ہتھیلی اس کی پیشانی سے چپک گئی اور اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی سے جدا نہ کرسکا ؛ پھر
اس نے اس نوجوان پر ایک تیر چلاکر اسے شہید کر دیا ۔وہ کہتا ہے : میں جب اس کے پاس آیا تو وہ مر چکا تھا لہذامیں اس تیر کو مسلسل حرکت دیتا رہا تاکہ اسے اس کی پیشانی سے کھینچ لوں لیکن تیر کی نوک کچھ اس طرح اس کی پیشانی میں پیوست ہوچکی تھی کہ میں اسے نہیں کھینچ پایا۔ روزگار اسی طرح گزر تے رہے اور مختار کی حکومت کازمانہ آگیا تو مختار نے عبداللہ بن کامل شاکری کو اس شخص کی طرف روانہ کیا ۔عبداللہ بن کامل اس کے دروازے پر آئے اور اسے گھیر لیا اور لوگوں کی وہاں بھیڑ لگ گئی۔یہ اپنی تلوار سونت کر باہر نکلا تو ابن کامل نے کہا : اس پر تیر چلاؤ اور اسے پتھر مارو، تمام لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ وہ گر گیا پھر ابن کامل نے آگ منگوائی اور اسے اس آگ میں جلادیا درحالیکہ وہ زندہ تھا اور اس کی روح نہیںنکلی تھی۔(طبری ،ج٦، ص ٦٤)یہ شخص قبیلہ جنب سے متعلق تھا (ج ٦ ،ص ٦٤ ) طبری کے علاوہ دوسرے لوگوں نے جہنی حنفی ذکر کیا ہے ۔
٥۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے زہیر بن عبدالرحمن خثعمی نے یہ روایت بیان کی ہے۔( طبری ، ج٥،ص ٤٥٣)
٦۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن عاصم نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : میں نے جب دیکھا کہ اصحاب حسین علیہ السلام شھید ہوچکے ہیں اور اب خاندان رسالت کی نوبت ہے اور آپ کے ہمراہ اصحاب میں سوید بن عمر وبن ابی مطاع خثعمی اور بشر بن عمرو حضرمی کے علاوہ کوئی نہیں بچا ہے تو میں اپنے گھوڑے کو لے کر آیا اور چونکہ دشمن ہمارے گھوڑوں کو پے کررہے تھے لہٰذا ہم نے اپنے ساتھیوں کے خیموں کے درمیان اسے داخل کردیا اور پیدل لڑنا شروع کردیا۔ میں نے اس دن دشمن کے دوآدمیوں کو قتل کیا اور تیسرے کا ہاتھ کاٹ ڈالا ۔اس دن حسین علیہ السلام مجھ سے بار بار کہہ رہے تھے: تمہارے ہاتھ سالم رہیں، اللہ تمہارے ہاتھ کو محفوظ رکھے، اللہ تمہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کی حفاظت کے لئے جزائے خیر عطاکرے ۔اس کے بعدمیں نے امام کی خدمت میں عرض کیا: اے فرزند رسول خدا آپ کو معلوم ہے کہ میرے اور آپ کے درمیان کیا قرار پایا تھا ۔ میں نے آ پ سے کہا تھا کہ میں آپ کی طرف سے اس وقت تک لڑوںگا جب تک آپ کے یارو ناصر موجود ہوںگے اور جب کوئی نہ ہوگا تو مجھے اختیار ہو گا کہ میں پلٹ جاؤں . تو آپ نے کہا تھا ؛ ہاں تمہیں اختیار ہوگا ۔ یہ سن کر حسین علیہ السلام نے فرمایا :تم سچ کہہ رہے ہو لیکن تم یہاں سے کیسے نکل سکو گے اگر تم اس پر قادر ہو تو تم آزاد ہو ۔
جب آپ نے مجھے اجازت دے دی تو میں نے اپنے گھوڑے کو خیمے سے نکالااور اس پر سوار ہو کر اسے ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ اپنے سموں پر اچھل پڑا۔ اس کے بعد اسے فوج کے دریا میں ڈال دیا ۔ گھوڑے سے ٹکرانے والے اِدھر اُدھر گرتے ر ہے اورمیں راستہ بناتا نکلتاگیا لیکن پندرہ (١٥) آدمیوں کے ایک گروہ نے میرا پیچھا کیا یہاں تک کہ میں فرات کے کنارے ایک دیہات شفیہ تک پہنچ گیا۔ جب وہ لوگ وہاں تک میرے ساتھ آئے تو میںپلٹ کر ان پر ٹوٹ پڑا اور ان میںسے کثیر بن عبداللہ شعبی ، ایوب بن مشرح خیوانی اور قیس بن عبداللہ صائدی نے مجھ کو پہچان لیا اور بولے : یہ ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہے ، یہ ہمارا چچا زاد ہے، ہم تمہیں خدا کا واسطہ دیتے ہیں کہ اس سے دست بردار ہوجاؤ۔اس پر ان میں سے بنی تمیم کے تین لوگوں نے کہا : ہاں ہاں خدا کی قسم ہم اپنے بھائیوں کی درخواست کو قبول کریں گے اور جووہ چاہتا ہے اسے انجام دے کر اس سے دست بردار ہوجائیں گے۔جب ان تین تمیمیوں نے ہمارے ساتھیوں کی پیروی کی تو دوسروں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا اس طرح خدا نے مجھے نجات دی۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٤٥)
|