واقعۂ کربلا
 

حبیب بن مظاہر کی شہادت (١)
اسی گیرودار میں حصین بن تمیم تمیمی نے حسینی سپاہیوں پر حملہ کردیا۔ادھر سے حبیب بن مظاہر اس کے سامنے آئے اور اس کے گھوڑے کے چہرے پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ اچھل پڑا اور وہ گھوڑے سے نیچے گر پڑا تو اس کے ساتھیوںنے حملہ کرکے اسے نجات دلائی ۔
..............
١۔ آپ کا شمار کوفہ کے ان زعمائے شیعہ میں ہوتا ہے جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھاتھا۔ ( طبری ،ج٥ ،ص ٣٥٢ ) آپ نے مسلم بن عقیل کو امام علیہ السلام کے لئے یہ کہہ کر جواب دیا تھا : قسم ہے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں میں بھی وہی کہتا ہوں جو انھوں نے کہا اور عابس بن شبیب شاکری کی کی طرف اشارہ کیاتھا ( طبری ،ج٥، ص ٣٥٥ ) کربلا میں عمر بن سعد کے پیغام رساں قرہ بن قیس حنظلی تمیمی سے آپ نے کہا تھا : واے ہو تجھ پر اے قرہ بن قیس ! تو ظالموں کی طرف کیوں کر پلٹ رہاہے، تو اس ذات کی مدد کر جس کے آباء واجداد کی وجہ سے اللہ نے تجھے اور ہمیں دونوں کو کرامت عطا کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤١١ ) جب نو محرم کو شام میںسپاہ اموی عمر بن سعد کی سالاری میں امام حسین علیہ السلام پر حملہ آور ہوئی تھی تو عباس بن علی علیھماالسلام بیس (٢٠)سواروں کے ہمراہ ان لوگوں کے پاس گئے جن بیس میں جناب حبیب بھی تھے۔ حبیب نے اس وقت فرمایاتھا : خدا کی قسم کل قیامت میںوہ قوم بہت بری ہوگی جس نے یہ قدم اٹھایا ہے کہ ذریت و عترت واہل بیت پیغمبرۖ کو قتل کردیا جو اس شہر ود یار کے بہت عبادت گزار ، سحر خیزی میںکوشاں اور اللہ کا بہت ذکر کرنے والے ہیں۔( طبری، ج ٥، ص ٤٢٢ ) جب آپ مسلم بن عوسجہ کے زخمی جسم پر آئے اور مسلم نے امام علیہ السلام کی نصرت کی وصیت کی تو آپ نے فرمایا : رب کعبہ کی قسم میں اسے انجام دوں گا ۔(طبری ،ج٥، ص ٤٣٦ )امام حسین علیہ السلام نے آپ کو بائیں محاذ کا سالار بنایا تھا ۔( طبری، ج٥،ص ٤٢٢ ) حصین بن تمیم آپ کے قتل پر فخر و مباہات کررہا تھا اور آپ کے سر کو گھوڑے کے سینے سے لٹکا دیا تھا۔ آپ کے بیٹے قاسم بن حبیب نے قصاص کے طور پر آپ کے قاتل بدیل بن صریم تمیمی کو قتل کردیا ،یہ دونوں با جمیرا کی جنگ میں مصعب بن زبیر کی فوج میں تھے ۔
حبیب دلیرانہ انداز میں میدان کار زار میں یہ اشعار پڑھ رہے تھے :
أنا حبیب و أب مظاہر
فارس ھیجاء وحرب تسعر
أنتم أعدّ عدّ ة و أکثر
و نحن أوفی منکم وأصبر
و نحن أعلی حجة وأظھر
حقاً و أتقیٰ منکم و أعذر
میں حبیب ہوں اورمیرے باپ مظاہر ہیں۔ جب آتش جنگ بر افروختہ ہوتی ہے تو ہم بڑے بہارد اورمرد میدان ہیں۔ تم اگر چہ تعداد میں بہت زیادہ ہو لیکن وفاداری میں ہم تم سے بہت آگے ہیں اور مصیبتوں میں بہت صابر ہیں ۔ہم حجت و برہان میں سربلند ،حق و حقیقت میں واضح تر اورتقوا کے میدان میں تم سے بہت بہترہیں اور ہم نے تم پر حجت تمام کردی۔پھر فرمایا :
أقسم لو کنا لکم أعداد
أو شطرکم ولیتم اکتاداً
یا شرقوم حسباًو آدا
خدا کی قسم اگر ہم تعداد میں تمہارے برابر ہوتے یا تم سے کچھ کم ہوتے توپھر دیکھتے کہ تمہاری جماعتوںکو کتنے پیچھے کردیتے ،اے حسب ونسب کے اعتبار سے بدترین لوگو!
اس کے بعد آپ نے بڑا سخت جہاد کیا۔جنگ کے دوران بنی تمیم کے ایک شخص بدیل بن صریم نے آپ پر حملہ کیا اور ایک نیزہ مار ا جس سے آپ زمین پر گر پڑے اور چاہا کہ اٹھیں لیکن فوراً حصین بن تمیم نے آپ کے سر پرتلوارسے وار کردیا۔ آپ زمین پر گرپڑے، تمیمی نیچے اترا اوراس نے آپ کاسر قلم کردیا۔ (١) و (٢)
..............
١۔ابو مخنف نقل کرتے ہیں کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے ۔
٢۔ جب بدیل نے سر کاٹ لیا تو حصین اس سے بولا : میں بھی اس کے قتل میں شریک ہوں۔ بدیل بولا : خدا کی قسم میرے علاوہ کسی دوسرے نے اسے قتل نہیں کیا ہے تو حصین نے کہا اچھا یہ سر مجھے دے دو تاکہ میں اسے گھوڑے کی گردن میں لٹکادوں تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں اور جان لیں کہ میں بھی اس کے قتل میںشریک ہوں . پھر تم اسے لے کر عبیداللہ بن زیاد کے پاس چلے جانا۔ وہ جو تمہیں اس کے قتل پر عطایا اور بخشش سے نوازے گا مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ہے لیکن بدیل نے اس سے انکار کیا تو پھر ان کی قوم نے اس مسئلہ میںان دونوں کے درمیان صلح کرائی جس کے نتیجے میں اس نے حبیب بن مظاہر کا سر حصین بن تمیم کو سونپ دیا اور حصین
اپنے گھوڑے کی گردن میں جناب حبیب کا سر لٹکائے پوری فوج میںچکر لگانے لگا پھر اس کے بعد یہ سر بدیل کو لوٹا دیا . جب یہ لوگ کوفہ لوٹے تو بدیل نے اپنے گھوڑے کے سینے سے حبیب کے سرکو لٹکا دیا اوراسی حال میںابن زیاد کے محل میں حضوری دی ۔
قاسم بن حبیب جوابھی جوان تھے انہوں نے یہ منظر دیکھا تواس سوار کے ساتھ ساتھ ہوگئے اوراسے کسی طرح نہیں چھوڑرہے تھے تو بدیل مشکوک ہوگیااور بولا : اے بچے تجھے کیا ہوگیا ہے کہ میرا پیچھا پکڑے ہے ؟ قاسم نے کہا : یہ سر جو تمہارے ساتھ ہے یہ میرے بابا کا سر ہے۔ کیا تم مجھ کو عطا کروگے تاکہ میںاسے دفن کردوں ؟ بدیل: اے بچے امیر اس سے راضی نہ ہوگا کہ یہ سر دفن کیا جائے۔ میںتو یہ چاہتا ہوںکہ ان کے قتل پر امیر مجھے اس کی اچھی پاداش دے۔اس نوجوان بچے نے جواب دیا : لیکن خدا اس پر تمہیں بہت برا عذاب دے گا ،خدا کی قسم تم نے اپنی قوم کے بہترین شخص کو قتل کردیا اور پھر وہ بچہ رونے لگا ۔ یہ واقعہ گزر گیا اور روزگار اسی طرح گزرتے رہے یہاں تک کہ جب مصعب بن زبیر نے'' با جمیرا'' میں جنگ شروع کی تو قاسم بن حبیب بھی اس کے لشکر میںداخل ہوگئے تو وہاں آپ نے اپنے باپ کے قاتل کو ایک خیمے میں دیکھا۔ جب سورج بالکل نصف النہار پر تھا آپ اس کے خیمے میںداخل ہوئے وہ سورہا تھا تو آپ نے تلوار سے اس پر وارکر کے اس کو قتل کردیا۔ ( طبری ،ج٥،ص٤٤٠ )
جب حبیب بن مظاہر شہید ہوگئے تو حسین علیہ السلام کے دل پربڑا دھکا لگا؛ آپ نے فرمایا : ''أحتسب نفس وحماة أصحاب'' خود کو اور اپنی حمایت کرنے والے اصحاب کے حساب کو خدا کے حوالے کرتا ہوں اور وہیں ذخیرہ قرار دیتاہوں ۔

حر بن یزید ریاحی کی شہادت
پھر حر رجز پڑھتے ہوئے سامنے آئے
ان أنا الحر ومأ وی الضیف
أضرب ف أعراضھم با لسیف
عن خیر من حلّ منیٰ والخیف
أضربھم ولا أریٰ من حیف
جان لو کہ میں حر ہوںاور مہمانوں کو پناہ دینے والا ہوں، میں اس مہمان کی آبرو کی حفاظت کے لئے تلوار سے وار کروں گا، یہ وہ ہیں جوحل و منی و خیف سے بہتر ہیں، میں ان لوگوں پر حملہ کروں گااور اسے ذرہ برابر بے عدالتی نہیں سمجھتا۔آپ یہ اشعار بھی پڑھ رہے تھے :
آلیت لا أقتل حتی أقتلا
ولن أصاب الیوم الا مقبلاً
أضربھم با لسیف ضرباً مقصلا
لا ناکلا عنھم ولا مھلّلا
میں قسم کھاتا ہوں کہ میں اس وقت تک نہیں قتل ہوں گا جب تک کہ دشمنوںکو قتل نہ کرلوں اور آج کوئی زخم مجھے نہیں لگے گا مگر یہ کہ سامنے سے ،میں ان لوگوں پر تلوار کا بڑا زبردست وار کروں گا جس کا کام فقط کاٹنا ہوگا نہ تو میں اس سے باز آؤں گا نہ پیچھے ہٹوں گا اورنہ مہلت دوں گا ۔
حر کا دلاورانہ جہاد اپنے اوج و شباب پر تھا کہ زہیر بن قین بھی میدان کارزار میں اتر آئے اور دونوں نے مل کر گھمسان کی جنگ کی۔ جب ان میں سے ایک قلب لشکر پر حملہ کرتا اور وہ دشمنوں کے نرغے میں گھر جاتا تو دوسرا شعلہ جنگ کو برافروختہ کرکے دشمنوں پر عرصہ حیات تنگ کردیتا یہاں تک کہ اپنے ساتھی کو نجات دلادیتا ۔ یہ سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہا اور جنگ کا بازارگرم رہا کہ یکایک پیدلوں کی فوج میں سے ایک نے حر بن یزید پر سخت حملہ کردیا جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت واقع ہوگئی۔ ( آپ پر خدا کادرود و سلام ہو! )

نماز ظہر
پھر امام حسین علیہ السلام نے ان لوگوں کے ہمراہ نماز خوف ادا کی (١)درحالیکہ سعید بن عبداللہ حنفی پیش قدم ہوکر امام علیہ السلام کے آگے آگئے لیکن دشمنوں نے آپ کو تیر کے نشانے پر لے لیا اور ہر دائیں بائیں سے تیر آنے لگے۔ تیروں کا یہ مینہ مسلسل برستا رہا یہاں تک کہ آپ زمین پر گر کر شہید ہوگئے۔ ( رحمة اللہ علیہ )

زہیر بن قین کی شہادت
سعید بن عبداللہ حنفی کی شہادت کے بعد زہیر میدان میںآئے ۔آپ نکلتے وقت امام حسین کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہے تھے :
..............
١۔ شاید یہ نماز قصر ہو نہ کہ نماز خوف ، شیخ مفید نے اپنی روایت میںفقط نماز کا تذکرہ کیا۔( ارشاد ،ص ٢٣٨ ، تذکرہ ، ص ٥٢ ٢)
أقدم ھدیت ھادیاً مھدیاً
فا لیوم تلقی جدک النبےّا
وحسنا و المرتضی علےّاً
وذا الجناحین الفتی الکمیا
واسد اللّٰہ الشھید الحیا
اے راہبر ہدایت اورہادی برحق آگے بڑھیئے آج آپ اپنے جد نبی ، بھائی حسن ، اور بابا علی مرتضی سے ملاقات کریں گے۔آج آپ کی ملاقات جعفر طیار سے ہوگی جنہیں دو پر د یئے گئے ہیں اور شیر خدا و شہید زندہ حمزہ کا دیدار ہوگا ۔
پھر آپ نے بڑا سخت جہاد کیا وقت جہاد آپ یہی کہے رہے تھے :
أنا زھیر وأنا بن القین
أذودھم با لسیف عن حسین(١)
میں زہیر ہوں، میں قین کا فرزند ہوں ،میں تلوار سے ان کے مقابلہ میں حسین کا دفاع کروں گا؛ ناگہاں کثیر بن عبداللہ شعبی اور مھاجر بن اوس نے مل کر ایک سخت حملہ میں آپ کو شہید کر ڈالا۔ ( رحمة اللہ علیہ )

نافع بن ہلال جملی کی شہادت (٢)
آپ نے اپنے ہر تیر پر اپنا نام لکھ لیا تھا اور نام لکھے تیر کو پھینکا کرتے تھے اور یہ کہا کرتے تھے: ''أناا لجملی'' میں جملی ہوں'' أناعلیٰ دین علی'' میں علی علیہ السلام کے دین پر قائم ہوں۔عمربن سعد کے لشکر میں زخمیوں کو چھوڑ کر آپ نے ١٢ لوگوں کو قتل کیا لیکن پھر آپ خود مجروح ہوگئے اور آپ کے دونوں
..............
١۔ سبط بن جوزی نے اس کی روایت کی ہے۔( تذکرہ، ص ٢٥٣، طبع نجف )
٢۔آپ وہی ہیں جس نے کوفہ کے راستہ میں اپنا گھوڑا طرماح بن عدی کے ہاتھوں امام علیہ السلام کے پاس روانہ کیا تھا۔( ج ٥، ص ٤٠٥ ) جب امام اور اصحاب امام علیہ السلام پر پیاس کی شدت ہوئی تو امام نے عباس بن علی علیہما السلام کو بلایا اورآ پ کو ٣٠ سواروں اور ٢٠ پیدلوں کے ہمراہ روانہ کیا، ان کے آگے نافع بن ہلال موجود تھے تو عمر وبن حجاج نے آپ کو مرحبا کہتے ہوئے کہا : پانی پی لو، تمہیںپانی پینا مبارک ہو تو آپ نے کہا نہیں، خدا کی قسم میں اس میں سے ایک قطرہ بھی نہیں پی سکتا جب کہ حسین ابھی پیاسے ہیں۔ ( طبر،ی ج٥، ص ٤١٢) اور جب علی بن قرظہ ، عمر بن قرظہ کا بھائی حسین علیہ السلام پر حملہ آور ہوا تو نافع بن ہلال مرادی نے اس پر اعتراض کیا اور اس کو ایک ایسا نیزہ مارا کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا ۔
بازوٹوٹ گئے تو آپ کو شمر بن ذی الجوشن اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اسیر کرتے ہوئے کھینچتا ہوا عمربن سعد کے پاس لے کر آیا جب کہ آپ کی ڈاڑھی سے خون جاری تھا۔ عمر بن سعد نے آپ سے کہا : وائے ہو تجھ پر اے نافع ! کس چیز نے تمہیں برانگیختہ کیا کہ تم اپنے ساتھ ایسا سلوک کرلو تو نافع بن ہلال جملی نے جواب دیا : میرے رب کو معلوم ہے کہ میرا ارادہ کیا ہے، خدا کی قسم میں نے تمہارے ١٢لوگوں کو قتل کیا ہے، یہ میرے ہاتھوں مجروح اور زخمی ہونے والوں کے علاوہ کی تعداد ہے۔میں اس کوشش پر اپنی ملامت نہیں کرتا ۔اگر میرے بازواور میری کلائی سلامت رہتی تو تم لوگ مجھے اسیر نہیں کرپاتے ۔
شمرنے عمر سعد سے کہا : اللہ آپ کو صحیح و سالم رکھے، اسے قتل کردیجئے ۔
عمربن سعدنے کہا : اگر تم چاہتے ہو تو قتل کردو، پس شمرنے فوراً نیام سے تلوار نکال لی۔
نافع نے اس سے کہا : خدا کی قسم اگر تو مسلمان ہوتا تو تیرے اوپر یہ بڑا سخت ہوتا کہ تو خدا سے اس حال میں ملاقات کرے کہ ہمارا خون تیری گردن پرہو۔خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہماری شہادت اپنی بدترین مخلوق کے ہاتھوں قرار دی۔ یہ سن کر شمر نے آپ کو فوراً قتل کردیا۔( آپ پر خدا کا درود و سلام ہو )