نافع بن ہلال
اسی ہنگا مہ خیز ماحول میں نافع بن ہلال مرادی جملی مصروف جنگ تھے اور کہے جارہے تھے :
'' أنا الجملی أنا علیٰ دین عل (علیہ السلام )''میں ہلال بن نافع جملی ہوں ، میں دین علی علیہ السلام پر قائم ہوں ۔یہ سن کر فوج اموی کی ایک فرد جسے مزاحم بن حریث کہتے ہیں سامنے آیا اور بولا : میں عثمان کے دین پر قائم ہوں۔ نافع بن ہلال نے اس سے کہا : تو شیطان کے دین پر بر قرار ہے پھر اس پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا ۔
یہ صورت حال دیکھ کر عمر وبن حجاج زبیدی چلایا کہ اے احمق اور بے شعور لوگو !تم کو کچھ معلوم ہے کہ تم کس سے لڑ رہے ہو ؟ یہ شہر کے بہادر ،شجاع ، فداکارا ور جانباز ہیں، تم میں سے کو ئی بھی ان کے مقابلہ میں نہ آئے ۔ یہ دیکھنے میں کم ہیں اور بہت ممکن ہے کہ باقی رہ جائیں۔ خدا کی قسم اگر تم لوگ (١)ان پر فقط پتھر پھینکو تو ان کو قتل کر دو گے۔یہ سن کر عمر بن سعد بولا تمہارا نظریہ بالکل صحیح ہے اور میری رائے بھی یہی ہے . اس وقت اس نے اعلان کیا کہ فوج کہ سب سپاہی اس پر آمادہ ہو جائیں کہ ان لوگوں سے اس طرح جنگ نہ کریں کہ ایک ان کی طرف سے اور ایک تمہاری طرف سے ہو۔ (٢)
الحملة الثانےة (دوسرا حملہ )
پھر عمرو بن حجاج زبیدی لشکر امام حسین علیہ السلام سے نزدیک ہوتا ہوا بولا: اے اہل کوفہ ! اپنی اطاعت اور اپنی جماعت کے اتحاد واتفاق پر پا بند رہو اور اس کے قتل میں کوئی شک وشبہ نہ کرو جو دین سے منحرف ہوگیا اور ہمارے پیشوا اور امام کا مخالف ہے۔
یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا :'' یا عمروبن حجاج !أعلّ تحّرض الناس ؟ أنحن مرقنا وأ نتم ثبتُّم علیہ ! أما واللّہ لتعلمنّ لو قد قُبضت أروا حکم ومُتم علی أعما لکم أےّنا مرق من الدین ومن ھو أولی بصل النار''
اے عمروبن حجاج ! کیا تو لوگوں کو میرے خلاف اکسا رہا ہے؟ کیا ہم دین سے منحرف ہیں اور تم
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو زہیر نضربن صالح عبسی نے یہ روایت نقل کی ہے۔( طبری ،ج٥، ص ٤٣٤)
٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ یحٰ بن ہانی بن عروہ مراوی نے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٣٥)
لوگ اس پر قائم ہو ! خدا کی قسم اگر تمہاری روحیں قبض کرلی جائیں اور تم لوگوں کو انھیں اعمال پر موت آجائے تو تمہیں ضرور معلوم ہو جائے گا کہ منحرف کون اور جہنم میں جلنے کا سزاوار کون ہے ۔
پھر عمروبن حجاج نے عمربن سعد کے داہنے محاذفرات کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کے لشکر پر حملہ کر دیا ۔کچھ دیر تک جنگ کا بازار گرم رہا اور اس حملہ میں امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی ایک جماعت شہید ہو گئی جس میں سے ایک مسلم بن عوسجہ ہیں ۔
مسلم بن عوسجہ (١)
عمروبن حجاج کے سپاہیوں میں سے عبد الر حمن بجلی اور مسلم بن عبد اللہ ضبّا بی نے آپ کو شہید کیا۔ آپ کی شہادت پر خوشی سے جھومتے ہوئے عمروبن حجاج کے سپاہیوں نے آواز لگائی :
ہم نے مسلم بن عوسجہ اسدی کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد عمروبن حجاج اور اس کے سپا ہی لوٹ گئے اور غبار کا ایک بادل اٹھا۔جب وہ بادل چھٹ گیا تو اصحاب حسین نے مسلم بن عوسجہ کو جانکنی کے عالم میں
..............
١۔ اس خبر میں آیا ہے کہ اصحاب حسین میں سب سے پہلے مسلم بن عوسجہ اسدی شہید ہوئے جبکہ اس سے پہلے بریر اور عمروبن قرظہ کی شہادت کا تذکرہ گزرچکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس حملہ کے بعد کچھ دیر کے لئے جنگ بند ہو گئی تھی اس کے بعد جب جنگ شروع ہوئی تو دوسرے حملہ میں سب سے پہلے شہید ہونے والوں میں آپ کا شمار ہو تا ہے۔ آپ کوفہ میں امام حسین علیہ السلام کے لئے بیعت لے رہے تھے۔ ابن زیاد کا جاسوس معقل آپ ہی کے توسط سے مسلم تک پہنچ سکا تھا۔( طبری، ج٥، ص ٣٦٢) مسلم بن عقیل نے کوفہ میں آپ کو قبیلہء مذحج اور اسد کا سالا ر بنا یا تھا۔ ( طبری ،ج٥ ،ص ٣٦٩) آپ ہی وہ ہیں جو کر بلا میںشب عاشور امام حسین علیہ السلام کے خطبہ کے بعد اٹھے اور فرمایا : اگر ہم آپ کو چھوڑ دیں تو اللہ کی بارگاہ میں آپ کے حق کی ادائیگی میں ہمارا عذر کیا ہوگا؟! خدا کی قسم یہاں تک کہ میں اپنے نیزہ کو ان کے سینوں میں تو ڑنہ لوں اور اپنی تلوار سے جب تک اس کا دستہ میرے ہاتھ میں ہے ان کو مارنہ لوں میں آپ کو نہیں چھوڑ سکتا اور اگر میرے پاس ان کو قتل کرنے کے لئے کوئی اسلحہ نہ ہو ا تو میں ان کو آپ کے پاس رہ کرپتھر ماروں گا یہا ں تک کہ آپ کے ہمراہ مجھے موت آجائے۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤١٩) آپ ہی وہ ہیںجنہوں نے شمر پر تیر چلا نے کی اجازت اس طرح طلب کی تھی : فرزند رسول خدا میری جان آپ پر نثار ہو، کیا میں اس پر ایک تیر نہ چلا دوں؟ یہ آدمی بڑا فاسق وفاجر ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرما یا تھا : میں جنگ میں ابتدا کرنا نہیں چاہتا ۔(طبری، ج٥، ص ٤٢٤) لیکن آپ کوفہ سے کس طرح امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے کچھ پتہ نہیں، تاریخ اس سلسلہ میں بالکل خاموش ہے ۔
دیکھا ۔ امام حسین علیہ السلام چل کر آپ کے پاس آئے۔ اس وقت آپ کے جسم میں رمق حیات موجود تھی۔امام علیہ السلام نے مسلم بن عوسجہ کو مخاطب کر کے فرمایا : ''رحمک ربک یامسلم بن عوسجہ، فمنھم من قضی نحبہ و منھم من ینتظر ومابدّلواتبدیلاً ''(١)
اے مسلم بن عوسجہ خدا تم پر رحمت نازل کرے ، ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنا وقت پوراکرگئے اوربعض منتظر ہیں اوران لوگوںنے اپنی بات ذرابھی نہیں بدلی۔ اس کے بعد حبیب بن مظاہر مسلم کے قریب آئے اور فر مایا : ''عزعلّ مصرعک یامسلم ، أبشر بالجنة '' اے مسلم تمہاری شہادت مجھ پر بہت سنگین ہے، جاؤ جنت کی تمہیں بشارت ہو ،یہ سن کر بڑی نحیف آوازمیں مسلم نے حبیب سے کہا : ''بشرک ا للّٰہ بخیر''اللہ تمہیں نیکی و خیر کی بشارت دے، یہ سن کر حبیب نے مسلم بن عوسجہ سے کہا : ''لولا ان أعلم أن فی اثرک لاحق بک من ساعت ھٰذہ لأحببت أن توصین بکل ما أ ھمک حتی أحفظک فی کل ذالک بما أنت أھل لہ فی القرا بة والدین'' اگر مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میں تمہارے پیچھے پیچھے ابھی آرہاہوں تو میرے لئے یہ بات بڑی محبوب تھی کہ تم مجھ سے ہر اس چیز کی وصیت کرو جو تمہارے لئے اہم ہو تاکہ میں ان میںسے ہرایک کو پورا کرسکوں جو تمہارے قرابت داروں اور دین کے سلسلے میں اہمیت رکھتے ہیں ۔
مسلم بن عوسجہ نے کہا'' بل انا اوصیک بھذا رحمک اللّہ أن تموت دونہ''میری وصیت تو صرف ان کے سلسلے میں ہے ،خدا تم پر رحمت نازل کرے یہ کہہ کرا پنے ہاتھ سے حسین کی طرف اشارہ کیا کہ تم ان پر قربان ہو جانا ، انھیں کے سامنے موت کو گلے لگا لینا۔
حبیب نے کہا : رب کعبہ کی قسم میں ایسا ہی کروں گا؛ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہت جلد مسلم بن عوسجہ نے ان لوگوں کے ہاتھوں پر دم توڑ دیا ( خدا ان پر رحمت نازل کر ے ) آپ کی موت کا منظر دیکھ کر آپ کی کنیزآہ و فریاد کرنے لگی : ''یا بن عوسجتاہ یا سیداہ'' (٢)
..............
١۔سورہ احزاب ٢٣
٢۔عمرو بن حجاج کے سپاہیوں نے جب آوازلگائی کہ ہم نے مسلم بن عوسجہ اسدی کو قتل کردیا تو شبث بن ربعی تمیمی نے اپنے بعض ان
ساتھیوں سے کہا جو اس کے ہمراہ تھے : تمہاری مائیں تمہارے غم میں بیٹھیں، تم نے اپنے ہاتھوں سے خود کو قتل کیا ہے اور دوسروں کی خاطر خود کوذلیل کیا ہے۔تم اس پر خوش ہورہے ہو کہ مسلم بن عوسجہ کو قتل کردیا۔ قسم اس کی جس پر میںاسلام لایا بارہا میں نے مسلمانوںکے د رمیان ان کی شخصیت کو بزرگ دیکھا ہے۔ آذر بایجان کے علاقۂ سلقظ میں خود میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے ٦ مشرکوں کو مسلمین کے لشکر کے پہنچنے سے قبل قتل کیا تھا۔ ایسی ذات کو قتل کرکے تم لوگ خوش ہو رہے ہو ۔
الحملةالثالثة ( تیسرا حملہ )
بائیں محاذ سے شمر بن ذی الجوشن نے حسینی سپاہ کے بائیں محاذپر حملہ کیا تو اصحاب حسینی نے دلیرانہ دفاع کیا اور نیزوں سے اس پر اور اس کے سپاہیوں پر حملہ کیا ۔ اسی گیرودار میں ہانی بن ثبیت حضرمی اور بکیر بن حی تمیمی نے عبداللہ بن عمیر کلبی پر حملہ کیا اور ان دونوں نے مل کر آپ کوشہید کر دیا ۔( آپ پر خداکی رحمت ہو )(١)
اصحاب حسین کے حملے اور نبرد آزمائی
اپنے دفاع میںاصحاب امام حسین علیہ السلام نے بڑا سخت جہاد کیا، ان کے سواروں نے جن کی تعداد٣٢ تھی (٢) حملہ شروع کیا ،وہ اہل کوفہ کے جس سوار پر حملہ کررہے تھے اسے رسوا کردے رہے تھے ۔
جب عزرہ بن قیس تمیمی ( جو اہل کوفہ کی فوج کا سربراہ تھا ) نے دیکھا کہ اس کے لشکر کو ہر طرف سے رسوا ہونا پڑہا ہے تو اس نے عبدالرحمن بن حصین کو عمر بن سعد کے پاس یہ کہہ کر بھیجاکہ کیا تم نہیں دیکھ
..............
١۔اس خبر میں آیا ہے کہ یہ اصحاب حسین کے دوسرے شھید ہیں لیکن یہ ایک وہم ہے ۔
٢۔ شاید باقیماندہ سواروں کا تذکرہ ہو ورنہ مسعودی کا بیان تو یہ ہے کہ آنحضرت جب کربلا وارد ہوئے تو آپ کے اہل بیت اور انصار پانچ سو اسپ سوار تھے اور سو (١٠٠) پیدل ، پھر وہ کہتے ہیں : امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ ان میں سے شہید ہونے والے ٨٧ افراد ہیں ۔( مروج الذہب ،ج٣ ،ص ٨٨) سید بن طاوؤس نے لھوف میں امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ٤٥ اسپ سوار تھے اور سو (١٠٠) پیدل ۔یہی تعداد سبط بن جوزی نے بھی ذکر کی ہے۔( ص ٢٤٦و ٢٥١) تعجب کی بات یہ ہے کہ سبط بن جوزی نے مسعودی سے نقل کیا ہے کہ ایک ہزار پیدل تھے جب کہ مروج الذھب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
*آذر بایجان کے حدود میں شمال عراق او ر ایران کے مغربی علاقہ میں ایک پہاڑ ہے جیسا کہ قمقام ،ص ٤٩٢میں موجود ہے ۔
رہے ہو کہ ان چند لوگوں کے ہاتھوں ابھی سے ہمارے سواروں پر کیا گزررہی ہے، جلد از جلد پیدلوں اور تیر اندازوں کو روانہ کروکہ روزگار ہم پر سخت ہوچکا ہے۔عمر بن سعد نے شبث بن ربعی سے کہا : کیا تم ان کی طرف پیش قدمی نہیں کروگے ۔
شبث بن ربعی نے کہا؛ سبحان اللہ ! کیا جان بوجھ کر قبیلہ مضر کے بزرگوں اور سارے شہر کے بوڑھوں کو تیر اندازوں میں بھیجنا چاہتے ہو۔ کیا اس کام کے لئے میرے علاوہ کوئی اور نہیں ہے ؟ تو عمر بن سعد نے حصین بن تمیم کو پکارا اور اس کے ہمراہ زرہ پوشوں اور پانچ سو (٥٠٠) تیراندازوں کو روانہ کیا ۔وہ سب کے سب سپاہ حسینی کے مد مقابل آئے لیکن ابھی وہ سب کے سب حسین اور اصحاب حسین کے نزدیک بھی نہ آئے تھے کہ ان لوگوں نے تیر بارانی شروع کردی ابھی تھوڑی دیر بھی نہ گذری تھی کہ اصحاب حسینی نے گھوڑوں کو پے کردیا اور وہ سب کے سب پیدل ہوگئے۔
اسی گیر ودار میں حر بن یزید ریاحی کاگھوڑا بھی زخمی کر دیا گیا۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ گھوڑا لرزنے لگا اور تڑپتے ہوئے زمین پر گر پڑا'' حر'' بڑی پھرتی سے اس گھوڑے سے نیچے آئے گویا شیر بیشۂ شجاعت کی طرح گھوڑے سے نیچے کو د پڑے درحالیکہ انکے ہاتھوں میں تلوار تھی اور وہ کہے جا رہے تھے :
ان تعقروا بی فانا ابن الحر
اشجع من ذ لبد ھزبر (١)
اس میںکوئی شک نہیں کہ اصحاب حسینی نے بڑا سخت جہاد کیا یہاں تک کہ سورج نصف النھارپر آگیا اور گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی اور اس طرح ان لوگوں سے نبرد آزمارہے کہ دشمن ایک طرف کے علاوہ دوسری طرف سے ان پر حملہ آور نہ ہوسکے ؛کیونکہ ان کے خیمے ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور نزدیک نزدیک تھے ۔
..............
١۔ ہزبر فارسی کا لفظ ہے جس کا فارسی تلفظ ہزبر ہے جو شیر کے معنی میںاستعمال ہوتا ہے یعنی اگر تم نے میرا گھوڑا پے کردیا تو کیا ہوا میں فرزند حر ہوں۔ میں شیر بیشہء شجاعت سے بھی زیادہ شجاع ہوں۔محترم قاری پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اس شعر میں'' انا ابن حر'' کہا جارہا ہے جب کہ خود حر اس شعر کے پڑھنے والے ہیں۔اس مطلب پر نہ تو ابو مخنف نے ،نہ ہی کلبی نے ،نہ ہی طبری نے اور نہ ہی کسی دوسرے نے کوئی بھی حاشیہ لگایا ۔ ممکن ہے کہ جس وقت کہاہو اس وقت ابن حروہاں موجود ہو ،یعنی توبہ کے وقت اور امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہادت کے وقت اور ممکن ہے کہ حر کے دادا یا خاندان کے بزرگ کا نام حر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ نام کے بجائے معنی اور صفت کاارادہ کیا ہو۔ شیخ مفید نے بھی اس رجز کا ذکر کیا ہے لیکن کوئی حاشیہ نہیں لگایا ہے۔ (ارشاد ،ص ٢٣٧ )
جب عمر سعد نے یہ صورت حال دیکھی تو اس نے اپنے پیدل سپاہیوں کو بھیجا تاکہ ہرچہار جانب سے خیموں کی طنابوں کو اکھاڑ کر ویران کردیں تاکہ حسینی سپاہ کو چاروں طرف سے گھیرے میںلے لیا جائے لیکن ادھر اصحاب حسینی تین تین چار چارکرکے گروہ میں تقسیم ہوگئے اور خیموںکی طرف بڑھنے والوں پر حملہ کرکے ان کی صفوں کو پراکندہ کرنے لگے، اس کے بعد انھیں قتل کرنے لگے ، تیر چلانے لگے اور ان کے گھو ڑوں کو پے کرنے لگے ۔
اس صورت حال کو دیکھ کر عمر بن سعد نے کہا : انھیں آگ لگا کر جلادو ! تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : انھیں چھوڑدو انھیں جلالینے دو ؛کیونکہ اگر یہ خیموں کو جلا بھی لیتے ہیں تب بھی ادھر سے تم پر حملہ نہیں کر پائیں گے اور ویسا ہی ہوا سپاہ اموی ایک طرف کے علاوہ دوسری طرف سے جنگ نہ کر پائی ۔
الحملة الرابعہ (چوتھا حملہ )
اس نا برابر جنگ میںایک بار پھر بائیںمحاذسے شمر بن ذی الجوشن نے امام حسین علیہ السلام کے خیمے پر ایک نیزہ پھینکا اور پکارا میرے پاس آگ لاؤ تا کہ میں اس گھرکو گھر والوں کے ساتھ آگ لگا دوں، یہ سن کر مخدرات آہ و فریاد کرنے لگیں اور خیمہ سے باہر نکلنے لگیں ۔
ادھر امام حسین علیہ السلام نے آواز دی :'' یا بن ذ الجوشن ! أنت تدعوبالنار لتحرق بیت علیٰ أھل ؟ حرقک اللّٰہ بالنار''اے ذی الجوشن کے بیٹے ! تو آگ منگوارہاہے تاکہ میرے گھر کو میرے گھر والوں کے ساتھ جلادے ؟ خدا تجھ کو جہنم کی آگ میں جلائے۔ (١)حمید بن مسلم ازدی کا بیان ہے کہ میں نے شمر سے کہا : سبحان اللّٰہ! اس میں صلاح وخیر نہیں ہے کہ تم اپنے لئے دونوں صفتوں کو یکجا کرلو : عذاب خدا کے بھی مستحق ہو اور بچوں اور خواتین کو بھی قتل کر دو، خدا کی قسم ان کے مردوں کو قتل کرنا ہی تمہارے امیر کوخوش کردے گا ۔ (٢)اسی اثناء میں شبث بن ربعی تمیمی ،شمر کے پاس آیا
١۔ طبری ،ج ٥ ، ص ٢٤٧ ، ابو مخنف کابیان ہے : مجھ سے'' نمیر بن وعلة'' نے بیان کیا ہے کہ ایوب مشرخ خیوانی اس روایت کو بیان کرتا تھا۔
٢۔حمید کہتا ہے کہ شمر نے پوچھا :تو کون ہے؟ تو میں ڈر گیا کہ اگر اس نے مجھے پہچان لیا توبادشاہ کے پاس مجھے نقصان پہنچائے گا لہٰذا میں نے کہہ دیا : میں نہیں بتاؤں گا کہ میں کون ہوں ۔
اور بولا : میں نے گفتگو میں تجھ جیسا بد زبان انسان نہیں دیکھااور تیرے موقف سے قبیح ترین کسی کا موقف نہیں پایا ۔ ان تمام شور و غل کے بعد کیا تو عورتوں کو ڈرانے والابن گیا ہے ۔
عین اسی موقع پر زہیر بن قین اپنے دس(١٠) ساتھیوں کے ہمراہ شمر اوراسکے لشکر پرٹوٹ پڑے اور بڑا سخت حملہ کرکے انھیںخیموں سے دور کر دیا یہاں تک کہ وہ لوگ عقب نشینی پر مجبور ہوگئے ۔
پھر کیاتھا ٹڈی دل لشکر نے حسینی لشکر پر زبردست حملہ کردیا جس کانتیجہ یہ ہواکہ اصحاب حسینی برگ خزاں کی طرح یکے بعد دیگرے جام شہا دت نوش فرمانے لگے۔ اس سپاہ کے ایک یادو سپاہی بھی شہید ہوتے تو واضح ہوجاتا تھالیکن وہ لوگ چونکہ کثیر تعداد میں تھے اس لئے پتہ نہیں چل پاتا تھا کہ ان میں سے کتنے قتل ہوئے ۔
نماز ظہر کی آمادگی
جب ابو ثمامہ عمر و بن عبداللہ صائدی (١) نے یہ منظر دیکھا توامام حسین علیہ السلام سے کہا:'' یا أبا عبداللہ !نفس لک الفدا ء انّ أری ھٰؤلاء قد اقتربوا منک، ولا واللّٰہ لا تقتل حتی أقتل دونک انشاء اللّٰہ ،واحب أن ألقی رب وقد صلیت ھٰذہ الصلاةالتی دنا وقتھا''اے ابوعبداللہ! میری جان آپ پر نثار ہو ! میںیہ دیکھ رہا ہوںکہ یہ دشمن آپ سے قریب ترہوتے جارہے ہیں، نہیں خدا کی قسم، آپ اس وقت تک قتل نہیں کئے جاسکتے جب تک انشاء اللہ میں آپ کے قدموں میں قربان نہ ہوجاؤں، بس میں یہ چاہتا ہوں کہ میں خدا سے اس حا ل میں ملاقات کروں کہ یہ نماز جس کا وقت نزدیک آچکا ہے آپ کے ہمراہ ادا کر لوں۔
١۔آپ کا تعلق قبیلہ ہمدان سے ہے۔ آپ کوفہ میں ان اموال کی جمع آوری کررہے تھے جو شیعہ حضرات جناب مسلم کو مدد کے طور پردے رہے تھے اور جناب مسلم ہی کے حکم سے اس سے اسلحے خرید رہے تھے۔( طبری ،ج٥ ،ص ٣٦٤ ) اپنے قیام کے وقت جناب مسلم نے آپ کو تمیم اور ہمدان کا سربراہ قرار دیا تھا۔( طبری، ج ٥، ص٣٦٩) آپ ہی وہ ہیں جس نے کربلا میںعمر بن سعد کے پیغام رساں کو امام حسین علیہ السلام کو پہچنوایا تھا کہ یہ عزرہ بن احمسی ہے اور عرض کیا تھا کہ آپ کے پاس اہل زمین کابد ترین انسان آرہاہے جو خون بہانے میں اور دھوکہ سے قتل کرنے میں بڑا جری ہے اور آپ ہی نے اسے امام حسین علیہ السلام تک آنے سے اس خوف میںروکا تھا کہ کہیںوہ امام علیہ ا لسلام پر حملہ نہ کردے۔(طبری، ج٥ ،ص٤١٠ )
یہ سن کر امام علیہ السلام نے اپنا سر اٹھایا اور پھر فرمایا :'' ذکرت الصلاة ، جعلک اللّٰہ من المصلین الذاکرین ! نعم ھذا أوّل وقتھا''تم نے نماز کو یاد کیا ، خدا تم کوصاحبان ذکراور نمازگزاروں میں قرار دے !ہاں یہ نماز کا اوّل وقت ہے ۔
پھر فرمایا: ''سلوھم أن یکفوا عنا حتی نصل ''ان سے سوال کرو کہ ہم سے دست بردار ہوجائیں تا کہ ہم نماز ادا کرلیں۔ یہ سن کر حصین بن تمیم نے کہا : ''انھا لا تقبل! ''تمہاری نماز قبول نہیںہے !یہ سنکر حبیب بن مظاہر نے فوراً جواب دیا : ''زعمت ان الصلاة من آل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ (وآلہ وسلم ) لا تقبل وتقبل منک یا حمار؟''اے گدھے توگمان کرتا ہے کہ آل رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز قبول نہیں ہوگی اور تیری نماز قبول ہوجائے گی ؟
|