|
زہیر بن قین کا خطبہ
اس کے بعد زہیر بن قین اپنے گھوڑے پر جس کی دم پر بہت سارے بال تھے اسلحوں سے لیس سوار ہوکر نکلے اور فرمایا :'' یا أھل الکوفة! نذارلکم من عذا ب اللّہ نذار ! انّ حقاً علی المسلم نصیحة أخیہ المسلم ،و نحن حتی الآن أخوة وعلی دین واحد و ملة واحد ة مالم یقع بیننا وبیکم السیف ، وأنتم للنصحےة مناّ أھل ، فاذا وقع السیف انقطعت العصمة وکُنّا أمة وانتم اُمّة ۔
ان اللّٰہ قد ابتلانا وایاکم بذرّےة نبیہ محمد صلی اللّٰہ علیہ] وآلہ [ و سلم لینظر مانحن وأنتم عاملون ، أنا ندعوکم الی نصرھم و خذلان الطاغےة عبیداللّہ بن زیاد ، فانکم لاتدرکون منھما الا بسوء عمر سلطانھما کلّہ ، لیسملان أعینکم، و یقطعان أیدیکم وأرجلکم ، ویمثّلان بکم ، ویرفعانکم علی جذوع النخل ، ویقتلان أما ثلکم وقرّاء کم : أمثال حجر بن عد وأصحابہ ،وھان بن عروہ وأشباھہ.
فسبّوہ واثنوا علی عبیداللہ بن زیاد ودعوا لہ وقالوا : واللّٰہ لا نبرح حتی نقتل صاحبک ومن معہ ، أو نبعث بہ وبأصحابہ الی الامیر عبیداللّٰہ سلماً !فقال لھم :
عباداللّٰہ،انّ ولد فاطمة رضوان اللّٰہ علیھا أحق بالود ّ والنصر من ابن سمےّة فان لم تنصروھم فاعیذکم باللّٰہ أن تقتلوھم ،فخلوا بین الرجل و بین ابن عمّہ یزید بن معاوےة ، فلعمری أن یزید لیرض من طاعتکم بدون قتل الحسین ]علیہ السلام [ ۔
فرماہ شمر بن ذ الجوشن بسھم وقال : اسکت ، اسکت اللہ نامتک ابرمتنابکثرة کلامک !
فقال لہ زہیر : یا بن البوّال علی عقبیہ ماایاک أخاطب ، انما أنت بہیمة! واللّٰہ ماأظنّک تحکم من کتاب اللّٰہ آیتین ! فابشر با لخز یوم القیامة والعذاب الالیم !
فقال لہ شمر: ان اللّہ قاتلک و صاحبک عن ساعة!
قال : أفبا لموت تخوّفن ! فواللّٰہ للموت معہ أحب الی من الخلد معکم ! ثم أقبل علی الناس رافعاً صوتہ فقال :
عباد اللّہ ! لا یغرنکم من دینکم ھٰذا الجلف الجافی و أشباھہ، فواللّٰہ لا تنال شفاعة ْ محمد صلی اللّٰہ علیہ ]وآلہ[ وسلم قوماً ھراقوا دماء ذرّیتہ وأھل بیتہ ، وقتلوا من نصرھم وذبّ عن حریمھم !
فناداہ رجل فقال لہ : انّ أبا عبداللّٰہ یقول لک : أقبل ، فلعمر لئن کان مومن آل فرعون نصح لقومہ وأبلغ فی الدعا ء ، لقد نصحت لھٰؤلاء وأبلغت ، لو نفع النصح والا بلاغ ''اے اہل کوفہ ! میں تم کو خدا کے عذاب سے ہوشیار کررہاہوں ! کیونکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلما ن بھائی کو نصیحت کرناایک اسلامی حق ہے اور جب تک ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار نہیں چلی ہے ہم لوگ ایک دوسرے کے بھائی اور ایک دین و ملت کے پیرو ہیں، لہذاہماری جانب سے تم لوگ نصیحت کے اہل اور حقدار ہو ؛ہاں جب تلوار اٹھ جائے گی تو پھر یہ حق و حرمت خود بخود منقطع ہوجائے گا اور ہم ایک امت ہوںگے اور تم دوسری امت و گروہ ہوجاؤگے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ خدا نے ہمیں اور تم لوگوں کو اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کے سلسلے میں مورد آزمائش قرار دیا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ ہم اور تم ان کے سلسلے میں کیا کرتے ہیں ، لہذا ہم تم کو ان کی مدد و نصرت اور سرکش عبیداللہ بن زیاد کو چھوڑدینے کی دعوت دیتے ہیں؛ کیونکہ تم لوگ ان دونوں باپ بیٹوں سے ان کے دوران حکومت میں برائی کے علاوہ کچھ بھی نہیںپاؤ گے۔ یہ دونوں تمہاری آنکھیں پھوڑتے رہیں گے ، تمہارے ہاتھوں اور پیروں کو کاٹتے رہیں گے اور تم کو مثلہ کرکے کھجور کے درخت پر لٹکاتے رہیں گے اور تمہارے بزرگوں اور قاریان قرآن کو اسی طرح قتل کرتے رہیں گے جس طرح حجر بن عدی ،(١) ان کے اصحاب ، ہانی بن عروہ(٢) اور ان جیسے دوسرے افرادکو قتل کیا۔
اس پر ان لوگوں نے زہیر بن قین کو گالیاں دیں اور عبیداللہ بن زیاد کی تعریف و تمجید کرتے رہے؛ اس کے لئے دعائیں کیں اور بولے : خدا کی قسم ہم اس وقت تک یہاں سے نہیںجائیں گے جب تک تمہارے سالار اور جو لوگ ان کے ہمراہ ہیںان کو قتل نہ کرلیں یا امیر عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں
..............
١۔ آپ یمن کے رہنے والے تھے۔ . ١٦ھ میں جنگ قادسیہ میں مدد گار کے عنوان سے شریک تھے۔ ( طبری ،ج ٤ ،ص٢٧٠ ) کوفہ سے بصرہ کی جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی نصرت کے لئے سب سے پہلے آپ نے مثبت جواب دیا تھا۔ (طبری، ج٤،ص ٤٨٥ ) اس سے پہلے یہ عثمان کے خلاف لوگوں کو بر انگیختہ کر نے والوں میں شمار ہوتے تھے۔ (طبری، ج٤ ،ص ٤٨٨)آپ کوفہ میں قبیلہ مذحج اور اہل یمن کے اشعری قبیلہ والوں کے سربراہ تھے۔ (طبری، ج٤، ص ٥٠٠ ) جنگ صفین میں آپ حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ جنگ کے لئے نکلتے تھے۔ ( طبری ،ج٤،ص ٥٧٤) آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے صفین میں تحکیم حکمین کے صحیفہ کے خلاف گواہی دی تھی ۔(طبری، ج٥ ،ص ٥٤)خوارج سے جنگ کے موقع پر نہروان میں آپ میمنہ کے سربراہ تھے۔ ( طبری، ج٥،ص٨٥) ٣٩ھ میں علی علیہ السلام نے آپ کو چار ہزار لشکر کے ہمراہ کوفہ سے ضحاک بن قیس کے ٣ ہزار کے لشکر سے مقابلہ کے لئے روانہ کیا تھا تو حدود شام میں مقام '' تدمر'' میں آپ اس سے ملحق ہوگئے اور آپ نے اس کے ٢٠ آدمیوں کو قتل کردیا یہاں تک رات ہوگئی تو ضحاک بھاگ کھڑا ہوا اور حجر لوٹ آئے۔ ( طبری، ج٥، ص ١٣٥ ) جب عام الجماعة میں معاویہ کوفہ آیا تو اس نے مغیرہ بن شعبہ کو وہاں کا والی بنادیا اور مغیرہ نے حضرت علی علیہ السلام کو گا لیاں دینے کابد ترین عمل شروع کر دیا؛ اس پر حجر نے مغیرہ کا زبردست مقابلہ کیا یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا۔ معاویہ نے زیاد بن ابیہ کو وہاںکا گورنر بنادیا تو اس نے بھی وہی رویہّ اپنا یا اور حجر نے بھی اپنی رفتار کو برقرار رکھا تو زیاد بن ابیہ نے انہیں گرفتار کرکے معاویہ کے پاس بھیج دیا اور معاویہ نے آپ کو قتل کردیا۔ (طبری ،ج٥،ص٢٧٠)
٢۔مسلم بن عقیل علیہ السلام کے بارے میں گفتگوکے دوران آپ کے شرح احوال گذر چکی ہے ۔
تسلیم محض کر کے نہ بھیج دیں۔اس پر زہیر بن قین نے ان لوگوں سے کہا : بندگان خدا ! فرزند فاطمہ رضوان اللہ علیھا ، ابن سمیہ (١)سے زیادہ مدد و نصرت کے سزاوار ہیں۔اگر تم ان کی مدد کرنا نہیں چاہتے ہو تو میں تم کو خدا کاواسطہ دیتا ہوں اور اس کی پناہ میں دیتا ہوں کہ تم انھیں قتل نہ کرو ، تم لوگ اس مرد بزرگوار اوران کے ابن عم یزید بن معاویہ کے درمیان سے ہٹ جاؤ؛ قسم ہے میری جان کی کہ یزید قتل حسین (علیہ السلام) کے بغیر بھی تمہاری اطاعت سے راضی رہے گا ۔
جب زہیر بن قین کی تقریر یہاں تک پہنچی تو شمر بن ذی الجوشن نے آپ کی طرف ایک تیر پھینکااور بولا خاموش ہوجا ! خدا تیری آواز کو خاموش کردے، اپنی زیادہ گوئی سے تو نے ہمارے دل کو برمادیا ہے۔اس جسارت پر زہیر بن قین نے شمر سے کہا : اے بے حیااور بد چلن ماں کے بیٹے جو اپنے پیروںکے پیچھے پیشاب کرتی رہتی تھی!میں تجھ سے مخا طب نہیں ہوں، تو توجانور ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ تو کتاب خدا کی دو آیتوں سے بھی واقف ہوگا ؛ قیامت کے دن ذلت و خواری اور درد ناک عذاب کی تجھے بشارت ہو۔یہ سن کر شمر نے کہا : خدا تجھے اور تیرے سالار کو ابھی موت دیدے !
..............
١۔ سمیہ ایک زنا کار کنیزتھی۔ زمان جاہلیت میں اس کا شمار برے کام کی پرچمدار عورتوں میں ہوتا تھا ۔اس سے قریش کے چھ مردوں نے زنا کیاجس کے نتیجہ میں زیاد دنیا میں آیا۔اس کے بعد ان چھ لوگوں میں تنازعہ اور جھگڑا شروع ہو گیا کہ یہ کس کا بچہ ہے؟ جب اس کے اصلی باپ کاپتہ نہ چل سکا تواسے زیاد ابن ابیہ یعنی زیاد اپنے باپ کا بیٹا یا زیاد بن عبید یا زیاد بن سمیہ کہا جانے لگا یہاں تک کہ معاویہ نے اسے اپنے باپ سے ملحق کرلیاتو اسے بعض لوگ زیاد بن ابی سفیان کہنے لگے ۔
جب معاویہ نے اسے کوفہ کا والی بنایا اور اس نے حجر بن عدی کو گرفتار کیااوران کے خلاف گواہوں کو جمع کرناشروع کیا تو اس فہرست میں شداد بن بزیعہ کے نام پر اس کی نگاہ گئی تو وہ بولا : اس کاکوئی باپ نہیں ہے جس کی طرف نسبت دی جائے ! اسے گواہوں کی فہرست سے نکالو، اس پر کسی نے کہا : یہ حصین کا بھائی ہے جو منذر کالڑکا ہے،تو زیاد بولا: پھر اسے اسی کے باپ کی طرف منسوب کرو ، اس سفارش کے بعد اس کا نام گواہوں کی فہرست میں لکھا گیااور اسے منذر کی طرف منسوب کیا گیا۔جب شداد تک یہ خبر پہنچی تو وہ بولا : وائے ہو اس پسر زنا کارپر ! کیا اس کی ماں اس کے باپ سے زیادہ معروف نہیں ہے؟ خدا کی قسم اسے فقط اسکی ماںسمیہ سے منسوب کیاجاتا ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٢٧٠)
یزید بن مفرغ حمیری سجستان کی جنگ میں عبیداللہ کے بھائی عباد بن زیاد کے ہمراہ تھا وہاں ان لوگوں پر جب سختی کی زندگی گزرنے لگی تو ابن مفرغ نے عباد کی ہجو میںاشعار کہے
اذا أودی معاویہ بن حرب
فبشرشِعب قعبک بانصداع
فاشھد ان امک لم تباشر
أبا سفیان و اضعة القناع
ولکن کان أمرا ً فیہ لبس
علی وجل شدید وا ر تیاع
جب معاویہ بن حرب مرجائے گاتو تجھے بشارت ہو کہ تیرا پیالہ ٹوٹ جائے گا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ پردہ ہٹا کر تیری ماں نے ابو سفیان سے مباشرت نہیں کی تھی ۔لیکن یہ امر ایسا تھا کہ جس میں زیادہ خوف اوردہشت سے بات مشتبہ ہوگئی ۔
اس نے پھر کہا
أ لا أ بلغ معا و ےة بن حرب
مغلغلة من ا لر جل ا لیما نی
أتغضب أن یقال:أبو ک عف
وترضٰی أن یقال: أبوک زان
فا شھد أن رحمک من زیاد
کر حم ا لفیل من و لد ا لا تا ن
( طبری، ج٥،ص ٣١٧ )کیا میں معاویہ بن حرب تک یمانی مرد کا قصیدہ مغلغلہ نہ پہنچا ؤں کیا تو اس سے غضبناک ہوتا ہے کہ کہا جائے : تیرا باپ پاک دامن تھا ؟ اور اس سے راضی ہوتا ہے کہ کہا جائے : تیرا باپ زنا کار تھا ؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو زیاد کا بچہ اسی طرح ہے جس طرح گدھی کا بچہ ہاتھی ہو ۔
خاندان زیادکی ایک فرد جسے صغدی بن سلم بن حرب کے نام سے یاد کیاجاتا تھا مھدی عباسی کے پاس حاضر ہوا جو اس وقت کے مظالم پر نگاہ رکھے ہوئے تھا ۔ اس شخص کو دیکھ کرمہدی عباسی نے پوچھا : تو کون ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں آپ کا چچا زاد رشتہ دار ہوں ! مھدی عباسی نے پوچھا : تم ہمارے کس چچا کے خاندان سے ہو ؟ تو اس نے خود کو زیاد سے نسبت دی ۔ یہ سن کر مہدی نے کہا : اے زناکا ر سمیہ کے بچہ ! تو کب سے ہمارا ابن عم ہوگیا ؟ اس کے بعد اسے باہر نکالنے کا حکم دیا گیا۔ اس کی گردن پکڑ کر اسے باہر نکال دیا گیا۔ اس کے بعدمہدی عباسی حاضرین کی طرف ملتفت ہوا اور کہا : خاندان زیاد کے بارے میں کسی کو کچھ علم ہے ؟ تو ان میں سے کسی کوکچھ معلوم نہ تھا ۔ اسی اثناء میں ایک مرد جسے عیسیٰ بن موسیٰ یا موسیٰ بن عیسیٰ کہتے ہیں ابو علی سلیمان سے ملا تو ابو علی سلیمان نے اس سے درخواست کی کہ زیاد اورآل زیاد کے بارے میں جوکچھ کہاجاتا ہے اسے مکتوب کردو تاکہ میںاسے مھدی عباسی تک لے جاؤں۔ اس نے ساری روداد لکھ دی اور اس نے اس مکتوب کو وہاں بھیج دیا۔
ہارون الرشید اس زمانے میں مھدی کی جانب سے بصرہ کا والی تھا ، پس مھدی نے حکم دیا کہ ہارون کوایک خط لکھا جائے۔ اس خط میں مھدی نے حکم دیا کہ آل زیاد کا نام قریش و عرب کے دیوان سے نکال دیا جائے۔ مہدی کے خط کا متن یہ تھا : قبیلہ ثقیف کے خاندان عبد آل علاج کی ایک فرد عبید کے لڑکے زیاد کو خود سے ملحق کرنے کی معاویہ بن ابی سفیان کی رائے اور اس کا دعو یٰ ایسا تھا جس سے اس کے مرنے کے بعد تمام مسلمانوں نے اوراس کے زمانے میں بھی کافی لوگوں نے انکار کیاکیونکہ وہ لوگ اہل فضل
ورضا اور صاحبان علم وتقویٰ تھے اور انہیں زیاد ،زیاد کے باپ اور اس کی ماں کے بارے میں سب کچھ معلوم تھا ۔
معاویہ کے لئے اس کام کا باعث ورع و ہدایت یا ہدایت گر سنت کی اتباع نہیں تھی اور نہ ہی گزشتہ ائمہ حق کی پیروی نے اسے اس بات کی دعوت دی تھی؛ اسے توبس اپنے دین اور اپنی آخرت کو خراب کرنے کا شوق تھا اور وہ کتاب و سنت کی مخا لفت پر مصمم ارادہ کرچکا تھا۔ زیاد کے سلسلہ میں خوش بینی سے پھولانہیں سماتا تھا کہ زیاد اپنے کام میں جلد باز نہیں ہے، وہ نافذالقول ہے اور باطل پر معاویہ کی مدد اور پشت پناہی میں اس کی امیدوں پر کھرا اترتا ہے جب کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ ) وسلم نے فرمایاتھا : بچہ جس بستر پرپیدا ہو اسی کا ہے اور زناکارکا حق سنگ سار ہونا ہے اور آپ نے فرمایا: جو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام سے پکارا جائے اور جو اپنے موالی کے علاوہ کسی دوسرے سے منسوب ہو تو اس پر خدا، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو؛ خدا وند عالم نہ تو اس کی توبہ قبول کرے گااورنہ ہی اس کا فدیہ قبول ہوگا۔قسم ہے میری جان کی کہ زیاد نہ تو ابوسفیان کی گود میں پیدا ہوا نہ ہی اس کے بستر پر ، نہ ہی عبید ابوسفیان کا غلام تھا ، نہ سمیہ اس کی کنیز تھی ، نہ ہی یہ دونوں اس کی ملک میں تھے اور نہ ہی یہ دونوں کسی اور سبب کی بنیاد پر اس کی طرف منتقل ہوئے تھے لہذا معاویہ نے زیاد کو اپنے سے ملحق کرنے کے سلسلہ میں جو کچھ بھی انجام دیا اور جو اقدامات کئے سب میںاس نے امر خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ ) وسلم کی مخالفت کی ہے اور اپنی ہواو ہوس کی پیروی، حق سے روگردانی اور جانب داری کا ثبوت دیا ہے۔ خدا وند متعال فرماتا ہے:'' ومن أضل ممن اتبع ھواہ بغیرھدی من اللّٰہ ان اللّٰہ لایھدی القوم الظالمین ''( قصص ٥٠)اور اس نے جناب داود علیہ السلام کو جب حکم، نبوت، مال اور خلافت عطا کیا تو فرمایا:'' یاداؤد اناجعلناک خلیفةً فی الارض فاحکم بین الناس بالحق''ْْ(ص ٢٦) اور جب معاویہ نے ( جسے اہل حفظ احادیث بخوبی جانتے ہیں ) موالی بنی مغیرہ مخزومین سے مکالمہ کیا جب وہ لوگ نصر بن حجاج سلمی کو خو د سے ملحق کرنا چاہتے تھے اور اسے اپنے قبیلے والا کہنا چاہتے تھے تو معاویہ نے اپنے بستر کے نیچے پتھرآمادہ کرکے رکھا تھا جو ان کی طرف رسولۖ خدا کے قول للعاھرالحجرکی بنیاد پر پھینکنے لگا۔ تو ان لوگوں نے کہا ہم نے توتجھے زیاد کے سلسلے میں جو تو نے کیا اس میں حق جو ازدید یا کیا تو ہمیں ہمارے فعل میں جو ہم اپنے ساتھی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں حق جواز نہیں دے گا ؟ تو معاویہ نے کہا : رسول خدا صلی اللہ علیہ(وآلہ ) وسلم کا فیصلہ تم لوگوں کے لئے معاویہ کے فیصلہ سے بہتر ہے۔( طبری ،ج١ ،ص ١٣١) یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت اور امام علیہ السلام کی دعوت کا مثبت جواب دینے سے قبل اگر چہ زہیر بن قین عثمانی تھے؛ لیکن زیاد کو خود سے ملحق کر نے اور حجر بن عدی کو قتل کرنے پر وہ معاویہ سے ناراض تھے لہٰذا ان کا نفس آمادہ تھا کہ وہ عثمانی مذہب سے نکل جائیں نیز اس کی بھی آماد گی تھی کہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید اور ا س کے گرگوں کے خلاف اظہار ناراضگی کریں اور امام علیہ السلام کی دعوت قبول کریں اور وہ راستہ ترک کر دیں جس پر ابھی تک چل رہے تھے۔
زہیر بن قین نے کہا کہ تو مجھے موت سے ڈراتا ہے۔ خد اکی قسم ان کے ساتھ موت میرے لئے تم لوگوں کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہنے سے بہتر ہے،پھر اپنا رخ لشکر کی طرف کر کے بلند آواز میں کہا:
بندگان خدا ! یہ اجڈ ، اکھڑ، خشک مغز اور اس جیسے افراد تم کو تمہارے دین سے دھوکہ میں نہ رکھیں۔ خدا کی قسم وہ قوم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نہیں حاصل کرپائے گی جس نے ان کی ذریت اور اہل بیت کا خون بہایا ہے اور انھیں قتل کیا ہے جو ان کی مدد و نصرت اور ان کے حریم کی پاسبانی کررہے تھے ۔
یہ وہ موقع تھا جب حسینی سپاہ کے ایک شخص نے زہیر کو آواز دے کر کہا :ابو عبداللہ فرمارہے ہیں کہ آجاؤ خدا کی قسم! اگر مومن آل فرعون (١) نے اپنی قوم کو نصیحت کی تھی اور اپنی آخری کو شش ان کو بلانے میں صرف کر دی تھی تو تم نے بھی اس قوم کو نصیحت کردی اور پیغام پہنچادیاہے۔ اگرنصیحت و تبلیغ ان کے لئے نفع بخش ہوتی تو یہ نصیحت ان کے لئے کافی ہے۔ (٢)
..............
١۔امام علیہ السلام نے مومن آل فرعون کی تشبیہ اس لئے دی کہ آپ پہلے عثمانی تھے گویا قوم بنی امیہ سے متعلق تھے۔
٢۔ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے علی بن حنظلہ بن اسعد شبامی نے اپنی ہی قوم کے ایک فرد سے یہ روایت نقل کی ہے جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت وہاں حاضر تھا ،جسے کثیر بن عبداللہ شعبی کہتے ہیں؛ اس کا بیان ہے : جب ہم حسین کی طرف ہجوم آور ہوئے تو زہیر بن قین ہماری طرف آئے اور خطبہ دیا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٢٦) یعقوبی نے بھی اس خطبہ کو ج٢،ص ٢٣٠ ،طبع نجف پر ذکر کیا ہے ۔
حر ریاحی کی بازگشت
جب عمر بن سعد اپنے لشکر کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام پر ہجو م آو رہو رہاتھا تو حر بن یزید نے عمر بن سعد سے کہا: اللہ تمہارا بھلا کرے !کیاتم اس مرد سے ضرور جنگ کرو گے ؟
عمر بن سعدنے جواب دیا: ''أی واللّہ قتالاً أیسرہ أن تسقط الروؤس تطیح الایدی!''ہاں !خد ا کی قسم ایسی جنگ ہوگی جس کاآسان ترین مرحلہ یہ ہوگا کہ ( درختوںکے پتوں کی طرح) سر تن سے جداہوںگے اورہاتھ کٹ کٹ کر گریںگے ۔
حرنے سوال کیا : ''أفمالکم ف واحد ة من الخصال التی عرض علیکم رضا !'' کیاان مشورں میںسے کوئی ایک بھی تمہارے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔
عمربن سعد نے جواب دیا:'' أماواللّٰہ لوکان الامر الّلفعلت ولکن أمیرک قدأبیٰ ذالک'' خداکی قسم اگر یہ کام میرے ہاتھ میںہوتا تومیںاسے ضرورقبول کرتا لیکن میں کیاکروں کہ تمہار اامیر اس سے انکا ر کرتاہے ۔
یہ سن کر حر نے کنارہ کشی اختیار کرلی او رایک جگہ پر جاکر کھڑاہوگیااس کے ہمراہ ا موی فوج کا ایک سپاہی قرہ بن قیس (١)بھی تھا ۔حر نے قرّہ سے کہا:''یاقرّہ ! ھل سقیت فرسک الیوم ؟''اے قرہ ! کیاتو نے آج اپنے گھوڑے کو پانی پلایا؟ قرہ نے جواب دیا : نہیں ! حر نے کہا : پھر تو ضرور پلانے کا ارادہ رکھتاہوگا ؟
قرہ کا بیان ہے : خدا کی قسم میں یہ سمجھا کہ وہ وہاں سے دور ہونا چاہتا ہے اور جنگ میں شریک ہونانہیں چاہتا اور اسے بھی ناپسند کرتا ہے کہ جب وہ یہ کام انجام دے تو میں وہاں موجود رہوں کیونکہ اسے خوف تھا کہ کہیں میں اس کی خبر وہاں نہ پہنچادوں ۔
بہر حال میں نے اس سے کہا: میں نے تو ابھی اسے پانی نہیں پلایا ہے ؛اب اسے لے جارہاہوں تاکہ پانی پلادوں؛ یہ کہہ کر میں نے اس جگہ کوچھوڑ دیا جہاں وہ موجود تھا۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس کے ارادہ کی اطلاع ہوتی تو میں اس کے ہمراہ حسین( علیہ السلام) کے ہم رکاب ہوجاتا ۔
ادھر حر نے آہستہ آہستہ امام حسین علیہ السلام کی طرف نزدیک ہوناشروع کیا۔حر کی یہ کیفیت دیکھ کر اموی لشکر کے ایک فوجی مہاجر بن اوس (٢)نے آپ سے کہا : اے فرزند یزید تمہارا ارادہ کیا ہے ؟ کیا توکسی پر حملہ کرنا چاہتا ہے ؟ تو حر خاموش رہا اور وہ اس طرح لرزہ بر اندام تھا جیسے بجلی کڑکتی ہو۔ . مہاجر بن اوس نے پھر کہا: اے فرزند یزید تمہارا ارادہ کیا ہے ؟ خدا کی قسم تمہارا کام شک میں ڈالنے والا ہے۔ خدا کی
..............
١۔امام حسین کے کربلامیںواردہونے کے بیان میں اس شخص کے حالات گزرچکے ہیںاوریہ کہ حبیب بن مظاہر نے اسے امام علیہ السلام کی نصرت و مدد کی دعوت دی تھی تو اس نے سونچنے کا وعدہ دیاتھالیکن واپس نہیں پلٹا۔ ظاہر ہے کہ ناقل خبر یہی ہے اور اپنے سلسلہ میںخود ہی مدعی ہے ۔
٢۔ شعبی کے ہمراہ یہ زہیر بن قین کا قاتل ہے۔( طبری ،ج٥، ص ٤٤١ )
قسم جنگ کے وقت میں نے کبھی بھی تمہاری ایسی حالت نہیں دیکھی جیسی ابھی دیکھ رہاہوں، اگر مجھ سے پوچھا جاتا کہ اہل کوفہ میں سب سے شجاع اور دلیر کون ہے تو میں تیرا نام لیتالیکن اس وقت میں جوتیری حالت دیکھ رہاہوں وہ کیا ہے ؟
حرنے کہا : ''انّواللّہ أخےّر نفس بین الجنة والنار ، واللّٰہ لا اختار علی الجنة شیئاً ولو قطعت وحرّقت ! ''خدا کی قسم میں خود کو جنت و جہنم کے درمیان مختار دیکھ رہاہوں اور خدا کی قسم میں جنت پر کسی دوسری چیز کو اختیار نہیں کروں گا چاہے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے۔
پھر حر نے اپنے گھوڑے پر ایک ضرب لگائی اور خود کو حسینی لشکر تک پہنچادیا اور امام حسین کی خدمت میں عرض کیا :''جعلنی اللّٰہ فداک یا بن رسول اللّٰہ ! أنا صاحبک الذی حبستک عن الرجوع وسایرتک فی الطریق ، و جعجعت بک فی ھذاالمکان ، واللّٰہ الذ لاالہ الا ھو ما ظننت أن القوم یردون علیک ما عرضت علیھم أبداً ولا یبلغون منک ھذہ المنزلة فقلت ف نفس : لا أبا ل أن أطیع القوم فی بعض أمرھم ، ولا یرون ان خرجت من طاعتھم ، وأما ھم فسیقبلون من حسین علیہ السلام ھذہ الخصال التی یعرض علیھم ، واللّٰہ لو ظننت أنھم لا یقبلونھا منک ما رکبتھا منک ، وان قد جئتک تائباً مما کان من الی ربّ ومواسیاًلک بنفس حتی أموت بین یدیک ، أفَتَریٰ ذلک ل توبة ؟! ''
اے فرزند رسول خدا ! میری جان آپ پر نثار ہو ! میں ہی وہ ہوں جس نے آپ کو پلٹنے سے روکا اور آپ کے ہمراہ راستے میں یہاں تک چل کر آیا ، میں ہی وہ ہوں جو آپ کو اس خشک اور جلتے ہوئے صحرا میں لے کر آیا۔قسم ہے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں گمان بھی نہیں کر رہاتھا کہ یہ لوگ آپ کے منطقی مشورہ اور صلح آمیز گفتگوکو قبول نہیں کریں گے، میرے تصور میں بھی یہ نہ تھا کہ یہ لوگ آپ کو اس منزل تک پہنچادیں گے میں اپنے آپ میں کہہ رہاتھا چلو کوئی بات نہیں ہے کہ اس قوم کی اس کے بعض امرمیں اطاعت کر لیتا ہوں تاکہ وہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں ان کی اطاعت سے باہر نہیں نکل آیا ہوں۔میں ہمیشہ اسی فکر میں تھا کہ آپ جو مشورہ دیں گے اسے یہ لوگ ضرور قبول کرلیں گے۔خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ لوگ آپ سے کچھ بھی قبول نہیں کریں گے تو میں کبھی بھی اس کا مرتکب نہ ہوتا۔اے فرزند پیغمبر ! اب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور ہر اس چیز سے خدا کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں جو میں نے انجام دیا ہے اور اپنے تمام وجود کے ساتھ آپ کی مدد کروں گا ؛یہاں تک کہ مجھے آپ کے سامنے موت آجائے۔ کیا آپ کی نگاہ میں میری توبہ قابل قبول ہے ؟
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' نعم ، یتوب اللّٰہ علیک و یغفر لک! مااسمک؟'' ہاں تمہاری توبہ قبول ہے، اللہ بھی تمہاری توبہ قبول کرے اور تمہیں بخش دے ! تمہارا نام کیا ہے ؟
حرنے جواب دیا : میں حر بن یزید ہوں۔ (١) امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' أنت الحر کما سمتک أمّک أنت الحر ان شاء اللّٰہ فی الدنیا والآ خرة انزل '' تو حر ہے جیسا کہ تیری ماں نے تیرا نام رکھاہے،ان شاء اللہ تو دنیا و آخرت دونوںمیں حر اور آزاد ہے، نیچے اتر آ ۔
حرنے عرض کیا:'' أنالک فارساً خیر منی لک راجلاً ، أقاتلھم علی فرس ساعة والی النزول ما یصیر آ خر أمر ''میںآپ کی بارگاہ میں سوار رہوں یہ میرے لئے نیچے آنے سے بہتر ہے تاکہ کچھ دیر اپنے گھوڑے پر ان سے جنگ کرسکوں اور جب میں نیچے اتروں تو یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہوں ۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' فاصنع ما بدا لک'' تم جس فکر میں ہو اسے انجام دو ۔ اس گفتگو کے بعدحر اپنے لشکر کے سامنے آئے اور اس سے مخاطب ہوکر کہا :
..............
١۔ ایک احتمال تو یہ ہے کہ چونکہ حر اسلحہ سے لیس تھا اور شرم سے اپنا سر جھکائے تھا لہذا امام علیہ السلام نے اسے نہیں پہچانا اور سوال کیا ورنہ آپ حر کو پہلے سے پہچانتے تھے۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ حر کے نام سے صفت کا استفادہ کرنا چاہتے تھے لہٰذا نام پوچھا ورنہ جو اوصاف اس نے بتائے تھے اس سے تو ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ آنے والا حر ہی تھا۔ (مترجم )
حر بن یزید ریاحی کا خطبہ
''ایھا القوم ! ألا تقبلون من حسین علیہ السلام خصلة من ھذہ الخصال التی عرض علیکم فیعافیکم اللّٰہ من حربہ و قتالہ ؟
قالوا: ھذا الامیر عمر بن سعد فکلّمہ ۔
فکلّمہ بمثل ما کلّمہ بہ قبل ، و بمثل ما کلّم بہ أصحابہ۔
قال عمر ]بن سعد[ قد حرصتُ ، لو وجدت الی ذالک سبیلاً فعلتُ۔
فقال ؛ یا اھل الکوفة ! لاُمکم الھبل والعبر اذا دعوتموہ حتی اذا أتاکم أسلمتموہ ! وزعمتم أنکم قاتلوا أنفسکم دونہ ، ثم عدوتم علیہ لتقتلوہ ! أمسکتم بنفسہ و أخذتم بکظمہ ، وأحطتم بہ من کل جانب ، فمنعتموہ التوجّہ فی بلاد اللّہ العریضة حتی یأمن و یأمن أھل بیتہ ، و أصبح فی أیدیکم کالاسیر ، لا یملک لنفسہ نفعاً و لا یدفع ضراً ، وحلا تموہ و نساء ہ و صبیتہ و أصحابہ عن ماء الفرات الجاری ، الذ یشربہ الیھود والمجوس والنصران ، وتمرغ فیہ خنازیر السواد و کلابہ ، ھاھم أولاء قد صرعھم العطش ، بئسما خلفتم محمداً فی ذریتہ ! لاسقاکم اللّہ یوم الظماء ان لم تتوبوا و تنزعوا عما أنتم علیہ من یومکم ھذا فی ساعتکم ھذہ''
اے قوم ! حسین کی بتائی ہوئی راہوں میں سے کسی ایک راہ کو کیوں نہیںقبول کرلیتے تاکہ خدا تمہیں ان سے جنگ اور ان کے قتل سے معاف فرمادے ۔
لشکر نے کہا : یہ امیر عمر بن سعد ہیں انھیں سے بات کرو ۔.
تو حر نے عمر بن سعد سے بھی وہی بات کی جو اس سے پہلے کی تھی اور جو باتیںابھی لشکر سے کی تھیں۔عمر بن سعد نے جواب دیا :میں اس کا بڑا حریص تھا کہ اگر میں کوئی بھی راستہ پاتا تو ضرور یہ کام انجام دیتا ۔
یہ سن کر حر نے لشکر کو مخاطب کر کے کہا :اے اہل کوفہ! تمہاری مائیںتمہارے غم میں روئیں؛کیونکہ تم ہی لوگوں نے ان کو یہاں آنے کی دعوت دی تھی اور جب وہ چلے آئے تو تم لوگ انھیں اس ظالم کے سپرد کرناچاہتے ہو۔ پہلے تم اس کے مدعی تھے کہ ان پر اپنی جان نثار کردوگے پھر اپنی بات سے پلٹ کر انھیں قتل کرنا چاہتے ہو۔ تم لوگوں نے یہاں ان کو روک رکھا اور ان کی بزرگواری اور کظم غیظ کے مقابلہ میں ان پر پہرہ ڈال دیا اور انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور اللہ کی اس وسیع و عریض زمین میں ان کو کہیں جانے بھی نہیں دیتے کہ وہ اور ان کے اہل بیت امن و امان کی زندگی گزار سکیں۔یہ تمہارے ہاتھوں میںاسیروں کی طرح ہوگئے ہیں جو نہ تو خود کو کوئی نفع پہنچاسکتے ہیں اورنہ ہی خود سے ضرر و نقصان کو دور کر سکتے ہیں۔ تم لوگوں نے ان پر، ان کی عورتوںپر ، ان کے بچے اوران کے اصحاب پر اس فرات کے بہتے پانی کو روک دیا ہے جس سے یہود و مجوسی اور نصرانی سیراب ہورہے ہیں ، جس میں کالے سور اور کتے لوٹ رہے ہیں؛ لیکن یہی پانی ہے جو ان پر بند ہے اور پیاس سے یہ لوگ جاں بلب ہیں۔ حقیقت میں تم لوگوں نے محمدۖ کے بعدان کی ذریت کے ساتھ بڑا برا سلوک کیا ہے۔ خدا قیامت کے دن ،جس دن شدت کی پیاس ہوگی تم لوگوںکو سیراب نہ کرے۔اگر تم اپنے افعال سے آج اسی وقت توبہ نہ کرلو۔(١)
جب حر کی تقریر یہاں تک پہنچی تو پیدلوں کی فوج میں سے ایک نے آپ پر حملہ کردیا اور تیر بارانی شروع کردی(٢) لیکن حر پلٹ کر امام حسین علیہ السلام کے پاس آکر کھڑے ہوگئے ۔
حر کی اس دلسوز تقریر کا بعض دلوں پریہ اثرہوا کہ وہ حسین بن علی علیہما السلام کی طر ف چلے آئے ان میں سے ایک یزید بن یزید مھاصر ہیں جو عمر بن سعد کے ہمراہ حسین سے جنگ کے لئے آئے تھے۔ جب امام حسین علیہ السلام کی تما م شرطوں کو رد کردیا گیا اور جنگ کا بازار گرم ہوگیا تو آپ حسینی لشکر کی طرف چلے آئے (٣)آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو حر کی تقریر سے راہ حسین کے سالک ہوئے ہیں۔
..............
١۔ الارشاد ، ص ٢٣٥، ا لتذکرہ ،ص ٢٥٢
٢۔ ابو جناب کلبی اور عدی بن حرملہ سے یہ روایت منقول ہے۔( طبری ، ج٥ ،ص ٤٢٧، ارشاد، ص ٢٣٥ )
٣۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے فضیل بن خدیج کندی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ یزید بن زیاد وہی ابو شعشاء کندی ہے جو قبیلہ بہدلہ سے متعلق تھا۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٤٥ )
|
|