واقعۂ کربلا
 

صبح عاشور ا
* سپاہ حسین میں صبح کا منظر
* روز عاشورا امام علیہ السلام کا پہلا خطبہ
* زہیر بن قین کا خطبہ
* حر ریاحی کی باز گشت
* حر بن یزید ریاحی کا خطبہ

صبح عاشورا
روز شنبہ کی صبح محرم کی دسویں تاریخ تھی، اذان صبح ہوتے ہی عمر بن سعد نے نماز صبح پڑھی، اپنے فوجیوں کے ہمراہ باہر آیا (١) اور اپنی فوج کو اس طرح ترتیب دیا :
(١) عبد اللہ بن زہیر ازدی (٢) کو اہل مدینہ کا سربراہ قرار دیا ۔
(٢) عبدالرحمن بن ابی سبرہ جعفی کو قبیلہ مذحج و اسد کا سالار قرار دیا ۔(٣)
(٣) قیس بن اشعث بن قیس کندی کو قبیلہ ربیعہ و کندہ کا سالار قرار دیا ۔
(٤) حر بن یزید ریاحی ( تمیمی یربوعی ) کو قبیلہ تمیم و ہمدان کا سربراہ بنایا ۔
(٥) عمرو بن حجاج زبیدی کومیمنہ کا سردار بنایا ۔
(٦) شمر بن ذی الجوشن ( خبابی کلابی ) کو میسرہ کا سردار بنایا۔
..............
١۔ طبری ج٦ ،ص ٤٢١و٤٢٢، ابو مخنف کا بیان ہے : عبد اللہ بن عاصم نے ضحاک بن عبد اللہ مشرقی سے یہ روایت بیان کی ہے۔ ارشاد ،ص ٢٣٣ پر فقط ضحاک بن عبد اللہ مرقوم ہے ۔
امانت کی خاطر روز شنبہ روز عاشورا لکھ دیا گیا جبکہ یہ تاریخ اور یہ دن امام حسین علیہ السلام کے کربلا وارد ہونے کی تاریخ اور دن کے منافی ہے جو خود طبری نے ذکر کیا ہے کہ امام علیہ السلام ٢ محرم بروز پنجشنبہ وارد کربلا ہوئے اس بنیا د پر عاشورا روز جمعہ ہوتا ہے نہ کہ شنبہ۔حسن ظن کی بنیا د پر ہم یہ توجیہ کرسکتے ہیں کہ یہ دوروایتیں دوراویوں سے ہیں لہٰذا یہ اختلاف ہے۔ بہر حال روز جمعہ عاشورا کا ہونا مشہور ہے۔(مترجم )
٢۔ حجاج کے زمانے میں ری کے امیر عدی بن وتاّد کے ہمراہ مطرف بن مغیرہ بن شعبہ سے اصفہا ن میں جنگ کے دوران یہ میمنہ کا سردار تھا۔ (طبری ،ج٦ ،ص ٢٩٦) طبری میں اس کا آخری تذکرہ یہ ملتا ہے کہ ١٠٢ ھ میں یہ سعد کے نگہبانوں میں تھا ۔ اس پر تیروں سے اتنی جراحت وزخم پہنچے کہ اس کا جسم سیہی ( ایک جانور جسکے جسم پر کانٹے ہی کا نٹے ہوتے ہیں ) کی طرح ہو گیا ۔(طبری ،ج٦ ،ص ٦١٣) کربلا سے پہلے اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔
٣۔ یہ وہ شخص ہے جس نے ٥١ھ حجر بن عدی کندی کے خلاف گواہی دی تھی۔( طبری، ج٥،ص ٢٧٠) یہ قبیلہ مذحج اور اسد کے پیدلوں پر سربراہ تھا۔ شمر بن ذی الجوشن نے اسے امام حسین علیہ السلام کے قتل پر بر انگیختہ کیا تو اس نے انکار کیا اور شمرکو گالیاں دیں۔ ( طبری ،ج٥،ص ٤٥٠ )
( ٧) عزرہ بن قیس احمسی کو سواروںکا سپہ سالار بنایا۔
(٨) شبث بن ربعی ریاحی تمیمی کو پیدلوں کا سربراہ قرار دیا۔
(٩) پرچم اپنے غلام ذوید (١) کے ہاتھوں میں دیا ۔
(١٠) اور خود سارے لشکر کا سربراہ بن کر قلب لشکر میں حملہ کے لئے آمادہ ہوگیا ۔

سپاہ حسینی میں صبح کا منظر
ادھر سپیدہ سحری نمودار ہوئی اور ادھر لشکر نور میں خورشید عاشورا امام حسین علیہ السلام نے آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بلند کرکے دعا کی :'' اللّٰھم أنت ثقت فی کل کرب و رجائ ف کل شدة و أنت ل فی کل أمر نزل ب ثقة و عدّة ، کم من ھم یضعّف فیہ الفؤاد ، و تقلّ فیہ الحیلة ، و یخذل فیہ الصدیق ویشمت فیہ العدوّ، أنزلتہ بک و شکوتہ الیک ، رغبة من عمن سواک ، ففرّجتہ ، و کشفتہ ، فأنت ولّ کل نعمة، صاحب کل حسنة ومنتھی کل رغبة'' (٢)
خدا یا! توہی کرب و تکلیف میں میری تکیہ گاہ اور ہر سختی میں میری امید ہے۔ ہر وہ مصیبت جو مجھ پر نازل ہوئی اس میں تو ہی میری تکیہ گاہ اور پناہ گاہ ہے ؛ کتنی ایسی مصیبتیں اورکتنے ایسے غم و اندوہ ہیں جس میں دل کمزور اور راہ چارہ و تدبیر مسدود ہوجاتی ہے، دوست وآشنا تنہا چھوڑ دیتے ہیںاور دشمن برا بھلا کہتے ہیں لیکن میں ان تمام مصیبتوں میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں اور تجھ ہی سے اس(امت ) کا گلہ ہے اور
..............
١۔ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے فضیل بن خدیج کندی نے، اس سے محمدبن بشر نے اور اس سے عمر وبن حضرمی نے یہ روایت کی ہے۔( طبری ، ج٥ ، ص ٤٢٢ )
٢۔ اس روایت کو ابو مخنف نے اپنے بعض ساتھیوں سے اور ان لوگوں نے ابو خالد کاہلی سے بیان کیا ہے (طبری ،ج٥،ص ٤٢٣ ) شیخ مفید نے ارشاد کے ص ٢٣٣ پر فرمایا ہے : ابو مخنف ، علی بن الحسین علیہ السلام سے اورابو خالد سے روایت کرتے ہیں جو ان کے ساتھیوں میںتھا اور ابو خالد نے اس خبر کو امام علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔ اگر چہ طبری نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے ۔
تیرے علاوہ سب سے امیدیں توڑ لی ہیں؛ تو نے گشائش پیدا کی ہے اور مصیبتوں کے سیاہ بادل کو چھانٹ دیا ہے پس تو ہی ہر نعمت کا ولی ، ہرنیکی کا مالک اورتمام امیدوں اور رغبتوں کی انتہا ہے ۔
ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کا بیان ہے:( یہ اصحاب حسین میں سے وہیں جو زخمی ہونے کے بعد دشمنوں کے ہاتھوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے ) جب اموی فوج ہماری طرف بڑھی تو ان لوگوں نے دیکھا کہ بانس اور لکڑی سے آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔یہ وہی آگ تھی جسے ہم لوگوں نے اپنے خیموں کے پیچھے جلایا تھا تاکہ پیچھے سے یہ لوگ ہم پرحملہ آور نہ ہوسکیں ۔اسی اثنا ء میںدشمن فوج کا ایک سپاہی اپنے گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا میری طرف آیا ،وہ اسلحہ سے پوری طرح لیث تھا ،وہ ہم لوگوں سے کچھ نہ بولا یہاں تک کہ ہمارے خیموں سے گزرنے لگا اور غور سے ہمارے خیموں کو دیکھنے لگا لیکن اسے پیچھے کچھ دیکھائی نہ پڑافقط بھڑ کتے ہوئے شعلے تھے جواسے دکھائی دے رہے تھے؛ وہ پلٹا اور چیخ کر بولا :'' یا حسین! استعجلت النار فی الدنیا قبل یوم القیامة. '' اے حسین! قیامت سے پہلے ہی دنیا میں آگ کے لئے جلدی کردی ؟
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''من ھٰذا کأنہ شمر بن ذی الجوشن؟'' یہ کون ہے ؟ گویا یہ شمر بن ذی الجوشن ہے ؟ جواب ملا : خدا آپ کو سلامت رکھے !ہاں یہ وہی ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے یہ سن کر جواب دیا :'' یا بن راعےة المعزیٰ أنت أولی بھا صلیا! ''اے بیابان زادہ، بے ثقافت اوربد چلن! آگ میں جلنے کا حق دار تو ہے نہ کہ میں ۔
امام حسین علیہ السلام کے جواب کے بعد مسلم بن عوسجہ نے آپ سے عرض کیا : ''یابن رسول اللّٰہ جعلت فداک ألاأرمیہ بسھم فانہ قد أمکننی ولیس یسقط سھم منی فالفاسق من أعظم الجبارین'' میری جان آپ پر نثار ہو، کیا اجازت ہے کہ ایک تیر چلادوں، اس وقت یہ بالکل میری زد پر آگیا ہے میراتیر خطا نہیں کرے گا اوریہ آدمی بہت فاسق و فاجر ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے مسلم بن عوسجہ کو جواب دیا :'' لا ترمہ ، فانی أکرہ أن أبد أھم''(١)نہیں ایسا نہیں کر نا؛ میں جنگ میں ابتدا ء کر نا نہیں چاہتا ۔

روز عاشورا امام حسین علیہ السلام کا پہلا خطبہ
جب فوج آپ سے نزدیک ہونے لگی تو آپ نے اپنا ناقہ منگوا یا اور اس پر سوار ہو کرلشکر میں آئے اور با آواز بلند اس طرح تقریر شروع کی جسے اکثر وبیشتر لوگ سن رہے تھے :
''أیھا الناس ! اسمعو ا قول ولاتعجلو ن حتی أعظکم بما یحق لکم علّ وحتی أعتذر لکم من مقدم الیکم ، فان قبلتم عذر وصدقتم قول وأعطتیتمو ن النصف ، کنتم بذالک أسعد ولم یکن لکم علّ سبیل ، وان لم تقبلوا منّ العذرولم تعطوا النصف من أنفسکم فَاَجْمَعْوْا أمْرَ کْمْ وَشْرَکَا ئَ کْمْ ثْمَّ لَا ےْکْنْ اَمْرَکْمْ عَلَےْکْمْ غْمَّة ثْمَّ اقْضْوْا اِلََّ وَلَا تُنْظِرُوْنَ (٢) اِنَّ وَلَِّ اللّہُ الَّذِیْ نَزّلَ الْکِتَابَ وَھْوْ ےَتَوَلََّی الصَّا لِحِےْنَ'' (٣)
ایھا الناس ! میری بات، سنو جلدی نہ کرو !یہاں تک کہ میں تم کو اس حد تک نصیحت کردوں جو مجھ پر تمہارا حق ہے، یعنی تمہیں بے خبر نہ رہنے دوں اور حقیقت حال سے مطلع کر دوں تاکہ حجت تمام ہوجائے۔میں چاہتا ہوں کہ تمارے سامنے اپنا عذر پیش کردوںکہ میںکیوں آیا ہوں اور تمہارے شہر کا رخ کیوں کیا ۔ اگر تم نے میرے عذر کو قبول کرلیا اور میرے کہے کی تصدیق کر کے میری بات مان لی اور میرے ساتھ انصاف کیاتو یہ تمہارے لئے خوش قسمتی ہوگی اور اگر تم نے میرے عذرکو نہ مانااور انصاف کرنانہ چاہا تو مجھ کو کوئی پروا نہیں ہے۔تم اور جس جس کو چاہو تمام جماعت کو اپنے ساتھ متفق کرلو اور میری مخالفت پر ہم آہنگ ہوجاؤ پھر دیکھو کوئی حسرت تمہارے دل میں نہ رہ جائے اور پوری طاقت سے میرا خاتمہ کردو، مجھے ایک لحظہ کے لئے بھی مہلت نہ دو۔میرا بھروسہ تو بس خدا پر ہے جس نے کتاب نازل فرمائی ہے اور وہی صالحین کا مددگار ہے ۔
..............
١۔ابو مخنف کا کہنا ہے کہ مجھ سے عبد اللہ بن عاصم نے بیان کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : مجھ سے ضحاک مشرقی نے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٤٢٣وارشاد ، ص٢٣٤ )
٢۔ سورہ یونس ،آیت ٧١
٣۔ سورہ اعراف، آیت ١٩٦
یہ وہ دلسوز تقریر تھی جسے سن کر مخدرات کا دامن صبر لبریز ہوگیا اور آپ کی بہنیں نالہ و شیون کرنے لگیں ؛اسی طرح آپ کی صاحبزادیاں بھی آنسوبہانے لگیں۔جب رونے کی آواز آئی تو آپ نے اپنے بھائی عباس بن علی علیھما السلام اور اپنے فرزند جناب علی اکبر کو ان لوگوںکے پاس روانہ کیا اور ان دونوں سے فرمایا : جاؤ ان لوگوں کو چپ کراؤ!قسم ہے میری جان کی انھیں ابھی بہت زیادہ آنسوبہاناہے ۔
جب وہ مخدرات خاموش ہوگئیں تو آپ نے حمد و ثنائے الہٰی اور خدا کا تذکرہ اسطرح کیا جس کا وہ اہل تھا پھر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود و سلام بھیجا ، خدا کے ملائکہ اور اس کے پیغمبر وں پر بھی درود و سلام بھیجا۔ ( اس کے بعد بحر ذخار فصاحت و بلاغت میں ایسا تموج آیا کہ راوی کہتا ہے ) خدا کی قسم !اس دن سے پہلے اور اس دن کے بعد میں نے حضرت کے مانند فصیح البیان مقرر نہیں دیکھا ۔
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :
'' اما بعد : فانسبونی فا نظر وا من أنا ؟ ثم ارجعو ا الی أنفسکم وعا تبوھا فأ نظروا ھل یحل لکم قتل وانتھاک حرمت؟ ألست ابن بنت نبیکم صلی اللّہ علیہ (و آلہ ) وسلّم وابن وصےّہ وابن عمّہ وأوّل المؤمنین باللّہ والمصدّق لرسولہ بما جاء بہ من عند ربہ ، أو لیس حمزة سید الشھداء عم اب ؟ أو لیس جعفر الشھید الطیار ذوالجناحین عم ؟! أولم یبلغکم قول مستفیض فیکم : أن رسول اللّہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم قال لی و أخی : '' ھذان سےّدا شباب أھل الجنّة '' ؟
فان صدّقتمونی بماأقول ، فھو الحق فو اللّٰہ ما تعمّدت کذباً مذعلمت أن اللّٰہ یمقت علیہ أھلہ و یضر بہ من ا ختلقہ...
وان کذبتمونی فانّ فیکم من ان سالتموہ عن ذالک أخبرکم سلوا جابر بن عبداللّہ الانصاری (١)أو ابا سعید الخدری (٢)أو سھل بن سعد الساعدی (٣)
..............
١۔ امیرا لمومنین علیہ السلام کی شہادت سے پہلے ٤٠ ھ میں بسر بن ارطاة کے ہاتھوں پر معاویہ کی بیعت کرنے سے آپ نے انکار کردیا تھا اور کہا تھاکہ یہ گمراہی کی بیعت ہے۔ یہاں تک کہ بسر بن ارطاہ نے آپ کو بیعت کرنے پر مجبورکیا تو جان کے خوف سے آپ نے بیعت کر لی۔ ( طبری ، ج٥، ص ١٣٩ ) ٥٠ھ میں جب معاویہ نے حج کی انجام دہی کے بعدرسول کا منبر اور عصا
مدینہ سے شام منتقل کرنا چاہا تو آپ نے اسے اس فعل سے روکا اور وہ رک گیا۔ ( طبری، ج٥،ص ٢٣٩ ) ٧٤ھ میں جب عبدا لملک کی جانب سے ''حجاج'' مدینہ آیا تواس نے اصحاب رسول کی توہین اور سر کوبی کرناشروع کردی اور انھیں زنجیروں میں جکڑ دیا۔ انہیں میں سے ایک جابر بھی تھے ۔
٢۔ رسوالخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے اصحاب کو میدان جنگ کی طرف لے جاتے وقت آپ کو بچپنے کی وجہ سے لوٹادیا تھا۔ (طبری، ج٢، ص ٥٠٥ ) آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں حدیثیں نقل کیا کرتے تھے ( طبری،ج٣ ،ص ١٤٩)لیکن عثمان کے قتل کے بعد ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے انکار کیا تھا۔ یہ عثمانی مذہب تھے۔ (طبری ، ج٤،ص ٤٣٠)
٣۔ یہ بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں حدیثیں نقل کیا کرتے تھے۔ ( طبری ج ،٣،ص ٤١٩) انھوں نے ہی روایت کی ہے کہ بصرہ کے فتنہ میں عایشہ نے پہلے عثمان بن حنیف کے قتل کا حکم دیا پھر قید کرنے کا حکم دیا ۔( طبری، ج ٤،ص ٤٦٨) یہ علی علیہ السلام کی ر وایتوں کو بیان کر تے ہیں۔ ( طبری ،ج٤ ،ص ٥٤٧) ٧٤ھ میں عبدالملک کی جانب سے ''حجاج'' جب مدینہ میں وارد ہوا تو اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین اور سر کوبی کی اور انہیں زنجیروں میں جکڑ دیا ۔ ان بلا وںاور مصیبتوں میں گرفتار ہونے والوں میں ایک سھل بن سعد بھی تھے۔ ان لوگوں پر حجاج نے عثمان کا ساتھ نہ دینے کی تہمت لگائی تھی ۔( طبری ،ج ٦،ص ١٩٥)
أو زید بن ارقم (١) أوانس بن مالک (٢)
یخبروکم : انھم سمعوا ھٰذہ المقالة من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ل ولا خ ، أفما فی ھٰذا حاجز لکم عن سفک دم ؟''
..............
١۔ یہ بھی علی علیہ السلام کے فضائل میں روایتیں نقل کیا کرتے تھے۔ ( طبری، ج٢،ص٣١) آپ ہی وہ ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کی باتوں کی خبر دی تھی ۔(طبری ،ج٢،ص٦٠٥ ) زید بن ارقم ہی نے ابن زیاد پر اعتراض کیا تھا اور ابو عبداللہ علیہ السلام کے دو لبوں پر چھڑی مارنے سے منع کیا تھا۔ ( طبری ،ج ٥ ،ص ٤٥٦ ) الاعلام ،ج ٤، ص ١٨٨ کے بیان کے مطابق ٦٨ھ میں وفات پائی ۔
٢۔ جب ١٧ھمیں عمر نے ابو موسی اشعری کو بصرہ کا گورنر بنایا تو انس بن مالک سے مدد طلب کی (طبری ج٤ ص ٧١ ) اور شوستر کی فتح میںاس کو شریک کیا ۔(طبری ،ج٤، ص ٨٦ ) ٣٥ھ میں یہ بصرہ میں لوگوں کو عثمان کی مدد کے لئے بر انگیختہ کررہے تھے۔( طبری، ج٤ ،ص ٣٥٢) ان کا شمار انہی لوگوں میںہوتاہے جن سے ٤٥ھ میں زیاد بن ابیہ نے بصرہ میں مدد طلب کی تھی۔ (طبری ،ج ٥، ص ٢٢٤) عاشورا کے دن یہ بصرہ میں تھے۔ . ٦٤ھ میں ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد ابن زبیر نے ان کو بصرہ کاامیر بنادیا تو انہوں نے ٤٠ دنوں تک نماز پڑھائی (طبری ،ج٥،ص ٥٢٨) اور ٦٤ ھمیں جب عبد الملک کی جانب سے ''حجاج ''مدینہ آیا اور اصحاب رسول خدا کی سر کوبی اور توہین کرنے لگا اور انہیں زنجیروں میں جکڑنے لگا تو انس کی گردن میں زنجیر ڈالی، اس طرح وہ چاہتا تھا کہ ان کو ذلیل کرے اور اس کا انتقام لے کہ اس نے ابن زبیر کی ولایت کیوں قبول کی تھی۔ ( طبری ،ج ٦، ص ١٩٥ )
تم ذرا میرا نسب بیان کرو اوریکھو کہ میں کون ہوں ؟ پھر خود اپنے نفسوں کی طرف رجوع کرو، اپنے گریبان میں منہ ڈالوا ور خود اپنے آپ سے جواب طلب کرو اور غور کرو کہ تمہارے لئے میرا خون بہانا اور میری ہتک حرمت کرناکہاں تک جائز ہے ؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ نہیںہوں ؟ اور آپ کے وصی ، آپ کے چچا زاد بھائی ، ان پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور ہر اس چیز کی تصدیق کرنے والے جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے کا فرزند نہیںہوں ؟ کیا حمزہ سید الشہداء میرے باپ کے چچا نہیں ہیں ؟ کیا جعفر طیار جنہیں شہادت کے بعدخدا نے دو پر پرواز عطا کئے ،میرے چچا نہیں ہیں ؟ کیا یہ حدیث تمہارے گوش زد نہیں ہوئی جو زبان زد خلائق ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا : یہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں۔ اب اگر تم مجھے سچا سمجھتے ہو اور میری بات کو سچ جانتے ہو کہ حقیقتاًیہ بات سچی ہے کیونکہ خدا کی قسم جب سے مجھے معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنے پر اللہ عذاب نازل کرتاہے اور ساختہ اور پرداختہ باتیں کرنے والا ضرر و نقصان اٹھاتا ہے اسی وقت سے میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا؛اور اگر تم مجھے جھٹلاتے ہو تو اسلامی دنیا میںابھی ایسے افراد موجود ہیں کہ اگر تم ان سے دریافت کرو تو وہ تم کو بتلائیں گے؛تم جابر بن عبداللہ انصاری ، ابو سعید خدری، سہل بن سعد ساعدی، زید بن ارقم ، یا انس بن مالک سے پوچھ لو، وہ تمہیںبتائیں گے کہ انھوں نے اس حدیث کو رسول اللہۖ سے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں سنا ہے۔کیا رسالتمآبۖ کی یہ حدیث تم کو میری خونریزی سے روکنے کے لئے کافی نہیں ہے؟
جب تقریر یہاں تک پہنچی تو شمر بن ذی الجوشن بیچ میں بول پڑا :
'' ھو یعبد اللّٰہ علی حرف ان کان یدر ما تقول!''(١)اگر کوئی یہ درک کرلے کہ تم کیا کہہ ر ہے تو اس نے خدا کی ایک پہلو میں عبادت کی ہے ۔
شمر کے یہ جسارت آمیز کلمات سن کر حبیب بن مظاہر رطب اللسان ہوئے : ''واللّٰہ ان لاراک تعبد اللہ علی سبعین حرفا و أنا أشھد أنک صادق ما تدر ما یقول قد طبع اللّٰہ علی قلبک''
..............
١۔ سبط بن جوزی نے ص ٢٥٢ ،طبع نجف میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔
خدا کی قسم میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تو خدا کی ستر(٧٠) حرفوں اور تمام جوانب میں عبادت کرتا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تو سچ کہہ رہاہے کہ تو نہیں سمجھ پارہاہے وہ کیا کہہ رہے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ خدانے تیرے قلب پر مہر لگادی ہے ۔
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے اپنی تقریر پھر شروع کی :'' فان کنتم ف شک من ھٰذا القول أفتشکون أثراً بعد؟ أما ان ابن بنت نبیکم فواللّٰہ مابین المشرق والمغرب ابن بنت نبّ غیر منکم ولا من غیرکم ، انا ابن بنت نبیکم خا صة۔''
''ٔاخبرون أتطلبون بقتیل منکم قتلتہ ؟ أو مال استھلکتہ أو بقصاص من جراحة ؟ فأ خذوا لا یکلّمونہ ... ''
فنادی : یا شبث بن رِبعی ویا حجّار بن ابجَر و یا قیس بن الاشعث ویا یزید بن الحارث (١) ألم تکتبوا اِلَّ : أن قد أینعت الثمار و اخضرّ الجناب و طمّت الجمام وانما تقدم علی جند لک مجند فا قبل ؟!
قالوا لہ : لم نفعل !(٢) فقال : سبحان اللّٰہ !بلیٰ واللّہ لقد فعلتم،ثم قال : ایھاالناس ! اذاکرھتمون فد عونأنصرف عنکم الیٰ مامنمن الارض۔
فقال لہ قیس بن اشعث : أولا تنزل علی حکم بن عمّک ! فانھم لن یروک الاما تحب ولن یصل الیک منھم مکروہ!
فقال الحسین علیہ السلام :أنت اخوأخیک]محمد بن اشعث [ أتریدأن یطلبک بنو ھاشم بأکثر من دم مسلم بن عقیل ؟ لا واللّٰہ لا أعطیھم بیداعطائ
..............
١۔ ان لوگوںکے حالات وہاںگزر چکے ہیں جہاں یہ بیان کیا گیا کہ اہل کوفہ نے امام کو خط لکھا اور یہ اس گروہ کے منافقین میں سے تھے ۔
٢۔ سبط بن جوزی کا بیان ہے : ان لوگوں نے کہا ہمیں نہیں معلوم کہ تم کیا کہہ رہے ہو تو حر بن یزید یربوعی جوان کے لشکر کا سپہ سالار تھا اس نے کہا : کیوں نہیں خدا کی قسم ہم لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور ہم ہی آپ کو یہاں لائے ہیں۔ خدا باطل اور اہل باطل کا برا کرے میں دنیا کو آخرت پر اختیار نہیں کر سکتا۔( ص ٢٥١ )
الذلیل ولا أقرّ ا قرار العبید! (١)
عباداللّہ ''وَاِنِّْ عْذْتْ بِرَبِّیْ وَ رَبِّکُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنَ (٢) أعُوذُبِرَبِّی وَرَبِّکُمْ مِنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لا ےُوْمِنُ بِےَوْمِ الْحِسَاب''(٣)
اور اگر تمہیںرسول ۖکی حدیث میں شک ہے تو کیا اس میں بھی شک ہے کہ میں تمہارے نبی کا نوسہ ہوں ؟ خدا کی قسم مشرق و مغرب میںمیرے سوا کوئی نبی کا نواسہ نہیں ہے،فقط میں ہی ہوں جو تمہارے نبی کا نواسہ ہوں۔ذرا بتاؤ تو سہی میرے قتل پر کیوں آمادہ ہو ؟ کیا اپنے کسی مقتول کا بدلہ لے رہے ہو جو میرے ہاتھوں قتل ہوا ہے یا اپنے کسی مال کا مطالبہ رکھتے ہو جسے میں نے تلف کردیا ہے ؟ یا کسی زخم کا قصاص چاہتے ہو ؟
لشکر پر خا موشی چھائی تھی، کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر حضرت نے خاص طور پر لوگوں کو آواز دی : اے شبث بن ربعی ، اے حجار بن ابجر ، اے قیس بن اشعث اور اے یزید بن حارث کیا تم لوگوں نے مجھے یہ نہیں لکھا تھا کہ میوے پختہ اور رسیدہ ہیں ، کھیتیاں لہلہارہی ہیں ، چشمے پُر آب اور لشکر آپ کی مدد کے لئے تیار ہیں، آپ چلے آئیے ؟ ان سب نے امام علیہ السلام کو جواب دیا : ہم نے تو ایسا کچھ بھی نہیں لکھا تھا ، توامام علیہ السلام نے فرمایا : سبحان اللہ ! کیوں نہیں خدا کی قسم تم لوگوں نے لکھا تھا اور ضرور لکھا تھا؛پھر عام لشکر کی طرف مخاطب ہوکر گویا ہوئے : جب تمہیں میرا آنا ناگوار ہے تو مجھے واپس ایسی جگہ چلے جانے دو جہاں امن وامان کے ساتھ زندگی گذار سکوں ۔
یہ سن کر قیس بن اشعث بولا : آپ اپنے چچا زادبھائیوں کے حکم کے آ گے سر تسلیم کیوں خم نہیں کردیتے ۔وہ لوگ ہرگز آپ کے ساتھ کچھ بھی نہیں کریں گے مگر یہ کہ وہی جو آپ کوپسند ہوگا اور ان کی جانب سے آپ کو کوئی ناپسندامر نہیں دکھائی دے گا ۔
..............
١۔ شیخ مفید نے ارشاد کے ص ٢٣٥ پرا ور ابن نما نے مثیرالاحزا ن کے ص ٢٦ پر'' ولا افرفرار العبید'' لکھا ہے ۔مقرم نے اپنے مقتل ص ٢٨٠ پر اسی کو ترجیح دی ہے لیکن ابن اشعث کے جواب میں اقرار زیادہ مناسب ہے، نہ کہ فرار کیونکہ ابن اشعث نے آپ کے سامنے فرار کی پیشکش نہیں کی تھی بلکہ اقرار کی گزارش کررہا تھا۔مقرم نے اپنے قول کی دلیل کے لئے'' مصقلہ بن ہبیرہ'' کے سلسلے میں امیرالمومنین کا جملہ : وفر ّ فرار العبد ( وہ غلام کی طرح بھاگ گیا ) پیش کیا ہے لیکن مصقلہ کا فعل امام حسین علیہ السلام کے احوال سے متناسب نہیں ہے جیسا کہ یہ واضح ہے۔ ٢۔ دخان آیت ٢٠ ٣۔ سورۂ مومن آیت٢٧
امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : تو اپنے بھائی ( محمد بن اشعث ) کا بھائی ہے ؛کیا توچاہتا ہے کہ بنی ہاشم ،مسلم بن عقیل کے علاوہ مزید خون کے تجھ سے طلبگار ہوں ؟ خدا کی قسم ایسا تو نہ ہوگا کہ میں ذلت کے ساتھ خود کو اس کے سپرد کردوں اور غلامانہ زندگی کااپنے لئے اقرار کرلوں۔ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میرے دامن پر کوئی دھبہ رہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں اس جابر و سرکش سے جو روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ اس کے بعد آپ پلٹ آئے اور اپنے ناقہ کو بٹھادیا اور عقبہ بن سمعان کو حکم دیا کہ اسے زانو بند لگادے۔ (١)
..............
١۔طبری ،ج٥ ،ص ٤٢٣، ٤٢٦،ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن عاصم نے یہ روایت نقل کی ہے اور ابن عا صم کا بیان ہے کہ مجھ سے ضحاک مشرقی نے یہ روایت بیان کی ہے ۔