امام علیہ السلام کی طرف پسر سعد کا ہجوم
* ایک شب کی مہلت
امام حسین علیہ السلام کی طرف پسر سعد کا ہجوم
راوی کہتا ہے : نماز عصر کے بعد عمر بن سعد نے آوازبلند کی:'' یا خیل اللّٰہ ارکبی وأبشری'' اے لشکر خدا سوار ہوجاؤاور تم کو بشارت ہو!یہ سن کر سارا لشکر سوار ہوگیا اور پھر سب کے سب حسین علیہ السلام اور ان کے اصحا ب کی طرف ٹوٹ پڑے ۔
ادھر امام حسین علیہ السلام اپنے خیمہ کے سامنے اپنی تلوار پر تکیہ دئے بیٹھے تھے کہ اسی اثنامیں در حالیکہ آپ اپنے گھٹنے پر سر رکھے ہوئے تھے ، آپ کی آنکھ لگ گئی لیکن آپ کی بہن حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے چیخ پکار کی آواز سنی تو اپنے بھائی کے قریب گئیں اور عرض کی اے بھیا ! کیا ان آوازوں کو سن رہے ہیں جو اتنے قریب سے آرہی ہیں؟ حسین علیہ السلام نے اپنے سر کو اٹھایا اور فرمایا:
''انی رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ (وآلہ) وسلم فی المنام فقال لی : انک تروح الینا ! ''میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں : تم میری طرف آنے والے ہو ، یہ کلمات سن کر آپ کی بہن نے اپنے چہرہ پیٹ لیااور کہا : '' یا ویلتا '' واے ہو مجھ پر ، یہ سن کر امام علیہ السلام نے فرمایا : ''لیس لک الویل یا اخےّة، اسکتی رحمک الرحمن '' اے میری بہن! تمہارے لئے کوئی وائے نہیں ہے ، خاموش ہوجاؤ، خدائے رحمن تم پر رحمت نازل کرے !
اسی اثناء میں آپ کے بھائی عباس بن علی علیہماالسلام سامنے آئے اور عرض کیا : اے بھائی ! دشمن کی فوج آپ کے سامنے آچکی ہے۔یہ سن کر امام حسین علیہ السلام اٹھے اور فرمایا:
'' یاعباس ارکب بنفس أنت یاأخ حتی تلقاھم فتقول لھم : مالکم ؟ وما بدأ لکم و تسأ لھم عما جاء بھم ؟''
اے عباس ! تم پر میری جان نثار ہو ،میرے بھائی تم ذرا سوار ہوکر ان لوگوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو : تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ اور کیا واقعہ پیش آگیا ہے ؟ اور ان سے سوال کرو کہ کس لئے آ ئے ہیں ؟
یہ سن کر حضرت عباس ٢٠ سواروں کے ہمراہ جن میں زہیر بن قین اور حبیب بن مظاہر (١) بھی تھے دشمن کی فوج کے پاس گئے اور ان سے آپ نے فرمایا : تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اور تم لوگ کیا چاہتے ہو ؟ ان لوگوں نے جواب دیا : امیر کا فرمان آیا ہے کہ ہم آپ کے سامنے یہ معروضہ رکھیں کہ آپ لوگ سر تسلیم خم کر دیں ورنہ ہم تم سے جنگ کریں گے ۔حضرت عباس نے کہا : ''فلا تعجلوا حتی ارجع الی أبی عبداللّٰہ فأعرض علیہ ما ذکر تم'' تم لوگ اتنی جلدی نہ کرو ،میں ابھی پلٹ کر ابوعبداللہ کے پاس جاتا ہوں اور ان کے سامنے تمہاری باتوں کو پیش کرتا ہوں ۔اس پر وہ لوگ رک گئے اور کہنے لگے ٹھیک ہے تم ان کے پاس جاؤ اور ان کوساری رو دا د سے آگاہ کر دو پھر وہ جو کہیں اسے ہمیں آکربتاؤ۔ یہ سن کر حضرت عباس پلٹے اور اپنے گھوڑ ے کو سر پٹ دو ڑاتے ہوئے امام کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ کے سامنے صورت حا ل کو بیان کریں ۔
حضرت عباس کے ساتھ جانے والے دیگر بیس افراد وہیں پر ٹھہرے رہے اور دشمن کی فوج سے گفتگو کرنے لگے ۔حبیب بن مظاہر نے زہیر بن قین سے کہا: اگر آپ چاہیں تو اس فوج سے گفتگو کریں اور اگر چاہیں تو میں بات کروںزہیر بن قین نے کہا :آپ شروع کریں اور آپ ہی ان سے بات کریں تو حبیب بن مظاہر نے کہا : خدا کی قسم کل وہ قوم خداکے نزدیک بڑی بدتر ین قوم ہو گی جو اللہ کے نبی کی ذریت اور پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اہل بیت کو قتل کر نے کا ار ادہ رکھتی ہے، جو اس شہر میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہیں،سپیدہ سحر ی تک عبادتوںمیں مشغول رہتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کیاکر تے ہیں۔حبیب بن مظاہر، زہیر بن قین سے اس بات کو اس طرح کہہ رہے تھے کہ اموی فوج اسے سن
..............
١۔ آ پ کے شرح احوال ان لوگوں کے تذکرے میں گذر چکے ہیں جنھوںنے کوفہ سے حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھا ۔
لے۔ عزرہ بن قیس(١)نے یہ گفتگو سنی تو وہ حبیب سے کہنے لگا : تم نے خود کو پاک و پاکیزہ ثابت کرنے میں اپنی ساری طاقت صرف کر دی۔ زہیر بن قین نے عزرہ سے کہا: اے عزرہ !اللہ نے انھیں پاک و پاکیزہ اور ہدایت یافتہ قرار دیا ہے؛ اے عزرہ !تم تقوائے الہٰی اختیار کرو کیونکہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں؛ اے عزرہ !میں تم کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ تم پاک و پاکیزہ نفو س کے قتل میں گمراہو ں کے معین و مددگار نہ بنو !
عزرہ بن قیس نے جو اب دیا : اے زہیر!ہمارے نزدیک تو تم اس خاندان کے پیرونہ تھے، تم تو عثمانی مذہب تھے۔ (٢)
زہیر بن قین نے کہا : کیا ہمارا موقف تمہارے لئے دلیل نہیں ہے کہ میںپہلے عثمانی تھا! خداکی قسم! میںنے ان کو کوئی خط نہیں لکھا تھا اور نہ کوئی پیغام رساں بھیجا تھا اور نہ ہی انھیں وعدہ دیا تھا کہ میں ان کی مدد و نصرت کروں گا ، بس راستے نے ہمیں اور ان کو یکجاکردیاتو میں نے ان کو جیسے ہی دیکھا ان کے رخ انور نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد دلادی اور پیغمبر اکرمۖ سے ان کی نسبت بھی میرے ذہن میں آگئی اور میں یہ سمجھ گیا کہ وہ اپنے دشمن اور تمہارے حزب وگروہ کی طرف جارہے ہیں؛ یہ وہ موقع تھا جہاں میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ میں ان کی مدد کروں گا اور ان کے حزب و گروہ میں رہوں گا؛ نیز اپنی جان ان کی جان پر قربان کردوں گا تاکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس حق کی حفاظت کرسکوں جسے تم لوگوں نے ضائع کردیا ہے ۔
..............
١۔ اس شخص کے شرح احوال وہاںپر گذر چکے ہیں جہاں امام علیہ السلام کے نام اہل کوفہ کے خط لکھنے کا تذکرہ ہوا ہے کہ یہ اہل کوفہ کے منافقین میں سے ہے ۔
٢۔ یہ پہلی مرتبہ ہے جہاں زہیر بن قین کو واقعہ کربلا میں اس لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ کا یہ پہلا عنوان ہے جو عثمان بن عفان کے سلسلہ میں مورد اختلاف قرار پایا کہ آیا وہ حق پر تھا یا باطل پر۔اس وقت جو علی علیہ السلام کو اپنا مولا سمجھتا تھا وہ علوی اور شیعی کہا جانے لگا اور جو عثمان کو مولا سمجھتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ عثمان حق پر ہے وہ مظلوم قتل کیا گیا ہے وہ عثمانی کہلاتا تھا ۔
ایک شب کی مہلت
ادھر عباس بن علی( علیہماالسلام ) امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور عمر سعد کا پیغام آپ کو سنادیا۔اسے سن کر حضرت نے فرمایا : ''ارجع الیھم فان استطعت أن تؤخر ھم الیٰ غدوة و تد فعھم عنا العشیہ ، لعلنا نصل لربنا اللیلة و ندعوہ و نستغفرہ فھو یعلم ان کنت أحب الصلاة و تلاوة کتابہ و کثرة الدعا والاستغفار''
( میرے بھائی عباس ) تم ان لوگوں کی طرف پلٹ کر جاؤ اور اگرہو سکے تو کل صبح تک کے لئے اس جنگ کو ٹال دواور آج کی شب ان لوگوں کو ہم سے دور کردو تاکہ آج کی شب ہم اپنے رب کی بارگاہ میں نمازادا کریں اوردعاواستغفار کریںکیونکہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ مجھے نماز ، تلاوت کلام مجید ، کثرت دعا اور استغفار سے بڑی محبت ہے ۔
اس مہلت سے امام حسین کا مقصد یہ تھا کہ عبادت کے ساتھ ساتھ کل کے امور کی تدبیر کرسکیں اور اپنے گھر والوں سے وصیت وغیرہ کرسکیں ۔
حضرت عباس بن علی علیہماالسلام اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے فوج دشمن کی طرف آئے اور فرمایا :'' یا ھولاء ! ان أباعبداللّٰہ یسألکم أن تنصرفوا ھٰذہ العشےة حتی ینظر فی ھٰذا الامر فان ھٰذا أمر لم یجر بینکم و بینہ فیہ منطق فاذا أصبحنا التقینا ان شاء اللّٰہ فأمارضینا ہ فأتینا بالامر الذی تسألونہ و تسمونہ ، أو کرھنا فرددنا ہ '' اے قوم ! ابو عبداللہ کی تم لوگوں سے درخواست ہے کہ آج رات تم لوگ ان سے منصرف ہوجاؤ تاکہ وہ اس سلسلے میںفکر کرسکیں کیونکہ اس سلسلے میںان کے اور تم لوگوں کے درمیان کوئی ایسی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ جب صبح ہوگی تو انشاء اللہ ہم لوگ ملاقات کریں گے۔اس وقت یاتو ہم لوگ اس بات پر راضی ہوجائیں گے اور اس بات کو قبول کرلیں گے جس کا تم لوگ ان سے تقاضا کررہے اور اس پر ان سے زبر دستی کررہے ہو یا اگر ہم ناپسند کریں گے تو رد کردیں گے ۔
عمر بن سعد نے یہ سن کر کہا : یا شمر ماتری ؟ شمر تیری رائے کیا ہے ؟
شمرنے جواب دیا : تمہاری کیا رائے ہے ؟ امیر تم ہو اور تمہاری بات نافذہے ۔
عمر بن سعد : میں تو یہ چاہتا ہو ں کہ ایسا نہ ہونے دوں پھر اپنی فوج کی طرف رخ کرکے پوچھا تم لوگ کیا چاہتے ہو ؟ تو عمرو بن حجاج بن سلمہ زبیدی نے کہا : سبحان اللّٰہ! خدا کی قسم اگر وہ لوگ دیلم کے رہنے والے ہوتے اور تم سے یہ سوال کرتے تو تمہارے لئے سزاوار تھا کہ تم اس کا مثبت جواب دیتے ۔
قیس بن اشعث (١) بولا :تم سے یہ لوگ جو سوال کررہے ہیں اس کا انھیں مثبت جواب دو !قسم ہے میری جان کی کہ کل صبح یہ لوگ ضرور تمہارے سامنے میدان کارزار میں آئیں گے ۔
یہ سن کر پسر سعد نے کہا: خداکی قسم اگرمجھے یہ معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ نبرد آزماہوں گے تو میں آج کی شب کی مہلت کبھی نہ دوںگا(٢)علی بن الحسین کا بیان ہے کہ اس کے بعد عمر بن سعد کی جانب سے ایک پیغام رساں آیا اور آکر ایسی جگہ پرکھڑا ہوا جہاں سے اس کی آواز سنائی دے رہی تھی اس نے کہا : ہم نے تم لوگوں کو کل تک کی مہلت دی ہے کل تک اگر تم لوگوں نے سر تسلیم خم کردیا تو ہم لوگ تم لوگوں کو اپنے امیر عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے جائیں گے اور اگر انکا ر کیا توتمھیں ہم نہیں چھوڑیں گے (٣)
..............
١۔یہ شخص روز عاشورہ قبیلہ ربیعہ اور کندہ کی فوج کا سر براہ تھا ۔(طبری ، ج٥،ص ٤٢٢ ) یہی امام حسین علیہ السلام کی اونی ریشمی چادر لوٹ کر لے گیا تھا جسے عربی میں '' قطیفہ '' کہتے ہیں اس کے بعد یہ قیس قطیفہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ (طبری، ج٥ ، ص ٥٣)اصحاب امام حسین علیہ السلام کے سروں کو کوفہ ابن زیاد کے پاس لے جانے والوں میں شمربن ذی الجوشن ، عمرو بن حجاج اور عزرہ بن قیس کے ہمراہ یہ بھی موجود تھا ۔ ان میں سے ١٣ سر یہ اپنے قبیلہ کندہ لے کر روانہ ہوگیا( طبری ، ج٥ ،ص ٤٦٨) یہ شخص محمد بن اشعث جناب مسلم کے قاتل اور جعدہ بنت اشعث امام حسن علیہ السلام کی قاتلہ کا بھائی ہے ۔
٢۔ حارث بن حصیرہ نے عبداللہ بن شریک عامری سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤١٥ ، ارشاد ،ص ٢٣٠)
٣۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن حصیرہ نے عبداللہ بن شریک عامری سے اور اس نے علی بن الحسین سے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری ، ج٥ ،ص ٤١٧)
|