امام حسین علیہ السلام کی جانب پسر سعد کی روانگی
* ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا خط
* ابن زیاد کا جواب
* پسر سعد اور امام علیہ السلام کی ملاقات
* ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا دوسرا خط
* ابن زیاد کا پسر سعد کے نام دوسرا خط
* خط کے ہمراہ شمر کا کربلا میں ورود
* جناب عباس اور ان کے بھائیوں کے نام امان نامہ
* امام علیہ السلام اور ان کے اصحاب پر پانی کی بندش
امام حسین علیہ السلام کی جانب پسر سعد کی روانگی
امام حسین علیہ السلام کی طرف پسر سعد کی روانگی کا سبب یہ تھا کہ عبیداللہ بن زیاد نے اسے اہل کوفہ کی چارہزار فوج کے ہمراہ ''ہمدان ''اور'' ری'' کے درمیان ایک علا قہ کی طرف روانہ کیا تھا جسے دشتبہ(١) کہتے ہیں جہاں دیلمیوں نے حکومت کے خلاف خروج کر کے غلبہ حاصل کر لیا تھا ۔ ابن زیاد نے خط لکھ کر ''ری'' کی حکومت اس کے سپردکی اور اسے روانگی کا حکم دیا ۔
عمر بن سعد اپنی فوج کے ہمراہ روانہ ہو گیا۔'' حمام اعین ''(٢) کے پاس جا کر پڑاؤ ڈالا لیکن جب امام حسین علیہ السلام کامسئلہ سامنے آیا کہ وہ کو فہ کی طرف آرہے ہیں تو ابن زیاد نے عمر سعد کو بلا یا اور کہا : تم حسین کی طرف روانہ ہو جاؤ اور جب ہمارے اور اس کے درمیان کی مشکل حل ہو جائے تب تم اپنے کام کی طرف جانا۔ اس پر عمر بن سعد نے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے اگر آپ بہتر سمجھیں تو مجھے اس سے معاف فرمائیں اور یہ کام خود انجام دیں۔ یہ سن کر ابن زیاد نے کہا : ہاں یہ ممکن ہے لیکن اس شرط پر کہ تم وہ عہد نا مہ واپس کر دو جو میں نے تم کو'' ری'' کے سلسلے میں دیا ہے۔جیسے ہی ابن زیاد نے یہ کہا ویسے ہی عمر بن سعد بولا:مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے تاکہ میں خوب فکر کرسکوں اور وہاں سے اٹھ کر اپنے خیر خوا ہوں کے پاس مشورہ کرنے کے لئے آیا۔تمام مشورہ دینے والوں نے اسے اس کام میں ہا تھ ڈالنے سے منع کیا ۔
..............
١۔عربی میں اس کو دستبی کہتے ہیں جو فارسی میں دشتبہ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک خوبصورت، سر سبز وشاداب اور بہت بڑاعلا قہ ہے جو ہمدان اور ری کے درمیان ہے۔ بعد میں یہ قزوین سے منسوب ہوگیا جیسا کہ معجم البلدان ،ج٤، ص ٥٨میں ذکر ہوا ہے۔
٢۔ یہ کوفہ کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات ہے جہاں عمر بن سعد کا ایک حمام تھا جو اس کے غلام'' اعین'' کے ہاتھ میں تھا۔ اسی کے نام پر اس علا قہ کا نام'' حمام اعین'' ہو گیا۔( القمقام ،ص٤٨٦)
اس کا بھا نجا حمزہ بن مغیرہ بن شعبہ (١)اس کے پاس آیا اور کہنے لگا : اے ماموں ! میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ آپ حسین کی طرف نہ جائیں ورنہ آپ اپنے رب کے گناہ گار اور اپنے نزدیکی رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والے ہوں گے۔ خدا کی قسم اگر آپ دنیا سے اس حال میں کوچ کریں کہ آپ تمام دنیا کے مالک ومختار ہوںاور وہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے تو یہ آپ کے لئے اس سے بہتر ہے کہ آپ اللہ سے اس حال میںملا قات کریں کہ حسین کے خون کا دھبہ آپ کے دامن پر ہو !اس پر ابن سعد نے کہا : انشا ء اللہ میں ایسا ہی کروں گا ۔(٢)
یہاں سے طبری کی روایت میں ابومخنف کی خبروں کے سلسلہ میں انقطاع پایا جاتا ہے اور ابن سعد کے کربلا میں وارد ہونے کی داستان کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس خلاء کو طبری نے ''عوانہ بن حکم'' کی خبر سے پُر کیا ہے۔ چار وناچا ربط بر قرار رکھنے کے لئے ہمیں اسی سلسلے سے متصل ہونا پڑرہا ہے ۔
ہشام کابیان ہے :مجھ سے'' عوانہ بن حکم'' نے عمار ابن عبداللہ بن یسارجہنی کے حوالے سے بیان کیا ہے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ میرے والد نے کہا :میں عمر بن سعدکے پاس حاضر ہواتواس کو امام حسین علیہ السلام کی طرف روانگی کا حکم مل چکا تھا۔مجھے دیکھ کر اس نے فوراًکہا :امیر نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں حسین کی طرف روانہ ہوجاؤں لیکن میں نے اس مہم سے انکا رکر دیا ۔ میں نے اس سے کہا: اللہ تمہارا مدد گا ہے، اس نے تم کو صحیح راستہ دکھا یاہے۔ تم یہیں رہو اور یہ کام انجام نہ دو اور نہ ہی حسین کی طرف جاؤ! یسار جھنی کہتا ہے: یہ کہہ کر میں پسر سعد کے پاس سے نکل آیا توکہنے والے نے آکر مجھے خبر
..............
١۔ ٧٧ھ میں حجاج بن یوسف ثقفی نے اسے ہمدان کا عامل بنا یا (طبری ،ج٥،ص ٢٨٤) اور اس کا بھائی مطرف بن مغیرہ مدائن میں تھا۔ اس نے حجاج کے خلا ف خروج کیا تو اس کے بھائی حمزہ نے خاموشی کے ساتھ مال اور اسلحے سے اس کی مدد کی (طبری ،ج٥، ص ٢٩٢)لہذا حجاج نے قیس بن سعد عجلی کو (جو ان دنوں حمزہ بن مغیرہ کی پو لس کا سر براہ تھا۔ حمزہ کے عہدہ پرمعین کر کے ہمدان روانہ کیا اور حکم دیا کہ حمزہ بن مغیرہ کو زنجیر وںسے جکڑ کر قید کر لو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور اسے زنجیرمیں جکڑ کر قید کردیا۔ ( طبری، ج٥ ،ص ٢٩٤)
٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے عبد الرحمن بن جندب نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤٠٧) اسی سند کے ساتھ ابو الفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبیین میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے ۔(ص٧٤) لیکن عقبہ کی جگہ پر عتبہ بن سمعان ذکر کیا ہے۔ شیخ مفید نے بھی اس خبر کو الارشاد، ص ٢٢٦ پر ذکر کیا ہے ۔
دی کہ عمر بن سعد لوگوں کو حسین کے خلاف جنگ کر نے کے لئے بلا رہا ہے ؛ یہ سن کر میں حیرت زدہ ہو گیا! فوراً اس کے پاس آیا، وہ اس وقت بیٹھا ہوا تھا ااورمجھے دیکھ کر اپنا چہرہ فوراً موڑ لیا۔میں سمجھ گیا کہ اس نے جانے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے اور میں فوراً اس کے پاس سے نکل آیا۔ راوی کا بیان ہے : وہاںسے عمر بن سعد ، ابن زیاد کے پاس آیا اور کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے !آپ نے ایک کام میرے سپرد کیا ہے اور اس کا عہد نامہ بھی میرے لئے لکھ دیا ہے۔ لوگوں نے اس بات کو سن بھی لیا ہے ( کہ میں ''ری'' جا رہا ہوں) تو اب اگر آپ بہتر سمجھیں تو ہمارے لئے اسی حکم کو نافذ رکھیں اورحسین کی طرف اس لشکر میں سے کوفہ کے کسی سر برآوردہ شخص کو بھیج دیں کیونکہ میں فنون جنگ کے لحاظ سے ان سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار نہیں ہوں۔اس کے بعد پسر سعد نے چند لوگوں کے نام ابن زیاد کی خدمت میں پیش کئے تو ابن زیاد نے اس سے کہا : تم مجھے اشراف کوفہ کے سلسلے میں سبق مت سکھاؤ اور حسین کی طرف کس کو روانہ کیا جائے اس سلسلہ میںمیں نے تم سے کوئی مشورہ نہیں چاہا ہے۔ اگر تم چاہتے ہو تو ہمارے لشکر کے ساتھ روانہ ہو جاؤورنہ ہمارے عہد نامہ کو ہمیں لوٹا دو ! جب پسر سعد نے دیکھا کہ ابن زیاد ہٹ دھرمی پر آچکا ہے تو اس نے کہا : ٹھیک ہے میں ر وانہ ہورہاہوں۔ یسار جھنی کا بیان ہے : وہاں سے نکل کر پسر سعد چار ہزار (١) فوج کے ساتھ حسین کی طرف روانہ ہوا اور حسین کے نینوا وارد ہونے کے دوسرے دن کربلا میں وارد ہو گیا۔ راوی کا بیان ہے
١۔ یہی روایت'' الارشاد'' کے ص ٢٢٧ پر بھی موجودہے نیز مقتل محمد بن ابی طالب سے ایک روایت منقول ہے جس کا خلا صہ یہ ہے : پسر سعد ٩ ہزار کے لشکر کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی طرف روانہ ہوا ۔ اس کے بعد یزید بن رکاب کلبی ٢ ہزار کی فوج کے ہمراہ ، حصین بن تمیم سکونی ٤ ہزارکی فوج ، فلان مازنی ٣ ہزارکی فوج اور نصر بن فلان ٢ہزار کے لشکر کے ہمراہ حسین کی طرف روانہ ہوئے۔ اس طرح سوار اور پیدل ملا کر ٢٠ ہزار کا لشکر کربلا میں پہنچ گیا۔ شافعی نے اپنی کتاب مطالب السئول میں ذکر کیا ہے کہ وہ ٢٢ ہزار افراد تھے اور شیخ صدوق نے اپنی امالی میں امام جعفر صادق کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ ٣٠ ہزار افراد تھے۔( الامالی، ص ١٠١، طبع بیروت ) سبط بن جوزی نے محمد بن سیرین سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے : اس پسر سعد کے سلسلے میں علی بن ابی طالب علیہ السلام کی کرامت آشکار ہوگئی کیونکہ آپ کی عمر بن سعد سے اس وقت ملا قات ہوئی جب وہ جوان تھااور آپ نے اس سے فر مایا : ''ویحک یابن سعد کیف بک اِذااقمت یوما مقاماً تخیر فیہ بین الجنة والنار فتختار النار'' (تذکرہ ،ص٢٤٧،ط نجف ) اے پسر سعد تیرا حال اس وقت کیا ہوگا جب ایک دن تو ایسی جگہ کھڑا ہوگا جہاں تجھے جنت و جہنم کے درمیان مختار بنایا جائے گااور تو جہنم کو چن لے گا ۔
کہ وہاں پہنچ کر عمر بن سعد نے عزرہ بن قیس احمسی (١)کو حسین ( علیہ السلام) کی طرف روانہ کیا اور کہا : ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ کون سی چیز ان کو یہاں لائی ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں ؟ یہ عزرہ ان لوگوں میں سے ایک ہے جنہوں نے حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھا لہٰذا اسے شرم آئی کہ وہ یہ پیغام لے کر وہاں جائے ؛ جب اس نے انکار کردیا تو پسر سعد نے ان تمام سربر آوردہ افراد کے سامنے یہ پیش کش رکھی جن لوگوں نے حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھالیکن ان تمام لوگوں نے جانے سے انکار کردیا اور اس بات کو پسندنہیں کیا یہاں تک کہ ان کے درمیان ایک شخص کثیر بن عبداللہ شعبی اٹھا ( جو بڑا بے باک رزم آور تھا اور اس کے چہرے پر کوئی تاثّر نہیں تھا ) اور کہنے لگا : میں ان کے پاس جاؤں گا خدا کی قسم اگر میں چاہو ںتو انھیں دھوکہ سے قتل بھی کرسکتا ہوں۔ (٢)عمر بن سعد نے کہا : میں یہ نہیں چاہتا کہ تم ان کو قتل کرو ،بس تم جاؤ اور یہ پوچھوکہ وہ کس لئے آئے ہیں ؟
راوی کا بیان ہے : وہ اٹھا اور حسین کی طرف آیا۔ جیسے ہی ابو ثمامہ صا ئدی (٣)نے اسے دیکھا امام حسین علیہ السلام سے عرض کیا : اے ابو عبداللہ خدا آپ کو سلامت رکھے! آپ کی طرف وہ شخص آرہا ہے جو روئے زمین پر شریرترین اور بد ترین شخص ہے، جو خون بہانے اور دھوکے سے قتل کرنے میں بڑا بے باک ہے؛ یہ کہہ کر ابو ثمامہ اس کی طرف بڑھے اور فرمایا: اپنی تلوارخود سے الگ کرو ! اس نے کہا : نہیں خدا کی قسم یہ میری کرامت کے خلاف ہے۔ میں تو ایک پیغام رساں ہوں،اگر تم لوگوں نے چاہا تو میں اس پیغام کو تم تک پہنچادوں گا جو تمہارے لئے لے کر آیا ہوں اور اگرانکا رکیا تو واپس چلاجاؤں گا۔
..............
١۔ شیخ مفید نے الارشاد میں عروہ بن قیس لکھا ہے۔ اس شخص کے شرح احوال اس سے پہلے گذر چکے جہاں ان لوگوں کا تذکرہ ہوا ہے جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھا ۔ یہ کوفہ کا ایک منافق ہے جو اموی مسلک تھا ۔
٢۔ یہ شخص امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت وہاں موجود تھا ۔ زہیر بن قین کے خطبہ کی روایت بھی اسی سے منقول ہے۔ ( طبری ،ج٥،ص٤٢٦) یہ وہی شخص ہے جو مہاجر بن اوس کے ہمراہ آپ کے قتل میں شریک تھا۔ ( طبری ، ج٥، ص ٤٤١)اور یہ وہی شخص ہے جس نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کا پیچھا کیا تا کہ اسے قتل کردے لیکن جب اسے پہچان لیا کہ یہ ہمدان سے متعلق ہے تو کہا : یہ ہمارا چچا زادبھائی ہے ،یہ کہہ کر اس سے دست بردار ہوگیا ۔( طبری، ج٥، ص ٤٤٥)
٣۔ ان کے شرح احوال اس سے قبل گذر چکے ہیں ۔
ابو ثمامہ : ٹھیک ہے پھر میں تمہارے قبضۂ شمشیر کو اپنے ہاتھوں میں لے لوں گا اس کے بعد تم جو کچھ بیان کرنا چاہتے ہو بیان کرلینا ۔
کثیر بن عبداللہ : نہیں خدا کی قسم تم اسے چھوبھی نہیں سکتے ۔
ابو ثمامہ صائدی : تم جو پیغام لے کر آئے ہو اس سے مجھ کو خبر دار کردو ،میں تمہار ی طرف سے امام تک پہنچادوں گا اورمیں تم کو اجا زت نہیں دے سکتا کہ آنحضرت کے قریب جاؤ کیونکہ تم فاجرو دھوکہ باز ہو ۔کثیر بن عبداللہ نے ابو ثمامہ کی بات قبول کرنے سے انکار کردیا اور عمر بن سعد کی طرف روانہ ہوگیا ، وہاں جا کراس نے عمر بن سعد کو ساری خبر سے مطلع کردیا ۔اس کے بعد پسر سعد نے قرہ بن قیس حنظلی کو بلایا اور اس سے کہا : وائے ہو تجھ پر اے قرّہ ! جا حسین سے ملاقات کراور ان سے پوچھ کہ وہ کس لئے آئے ہیں اور ان کا ارادہ کیا ہے ؟ یہ سن کر قرّہ بن قیس آپ کے پاس آیا۔ جیسے ہی حسین نے اسے سامنے دیکھااپنے اصحاب سے دریافت کیاکہ کیاتم لوگ اسے پہچانتے ہو ؟ حبیب بن مظاہر (١)نے کہا : ہاں ! یہ قبیلۂ حنظلہ تمیمی سے تعلق رکھتاہے اور ہماری بہن کا لڑکا ہے۔ ہم تو اسے صحیح فکرو عقیدہ کا سمجھتے تھے اور میں نہیں سمجھ پارہاہوں کہ یہ یہاں کیسے موجود ہے۔ (٢) قرّہ بن قیس نزدیک آیا ،امام حسین علیہ السلام کوسلام کیا اور
..............
١۔ کربلا کی خبر میں یہاں حبیب بن مظاہر کا پہلی بار تذکرہ ملتا ہے اور راوی نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ آپ یہاں کس طرح پہنچے۔ آپ کے احوال گذرچکے ہیں کہ آپ ان شیعی زعماء میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے کوفہ سے امام علیہ السلام کو خط لکھا تھا ۔ عنقریب آپ کی شہادت کے حالات بیان کرتے وقت آپ کی زندگی کے بعض رخ پیش کئے جائیں گے ۔
٢۔ یہ حر بن یزیدریاحی کے لشکر میں تھا ۔عدی بن حرملہ اسدی اس روایت کونقل کرتا ہے کہ یہ کہا کرتا تھا : خدا کی قسم اگر حر نے مجھے اس بات پر مطلع کیا ہوتا جس کا ان کے دل میں ارادہ تھا تو میں بھی ان کے ہمراہ حسین علیہ السلام کی طرف نکل جاتا۔ ( طبری ، ج٥،ص٤٢٧ ) اسی شخص سے ابو زہیر عبسی اس خبر کو نقل کرتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی مخدرات کو امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہلبیت کی قتل گاہ کی طرف سے لے جایا گیا اور وہیں پر زینب نے اپنے بھائی حسین بن علی علیھما السلام پر مرثیہ پڑھا۔ ( طبری ،ج٥، ص ٤٥٦) حبیب بن مظاہر نے اسے امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لئے بلایا اور کہا کہ ظالمین کی طرف نہ جاؤ تو قرّہ نے ان سے کہا : ابھی میں اپنے امیر کی طرف پلٹ رہاہوں اور ان کے پیغام کا جواب دے کر اپنی رائے بیان کردوں گا لیکن وہ عمر بن سعد کی طرف جا کر وہاں سے پلٹ کر حسین کی طرف نہیںآیایہاں تک کہ آپ شہید ہوگئے۔ (طبری ،ج٥، ص٤١١؛ ارشاد ،ص٢٢٨)
عمر سعد کا پیغام آپ تک پہنچادیا تو حسین علیہ السلام نے فرمایا: ''کتب الیّ أھل مصرکم ھٰذا : أن أقدم ، فأمَّااذکرھون فأنا أنصرف عنھم '' تمہارے شہر کے لوگوں نے مجھے یہ خط لکھا کہ میںچلاآؤں، اب اگر وہ لوگ ناپسند کرتے ہیں تو میں ان کے درمیان سے چلاجاؤں گا۔
راوی کہتا ہے کہ نامہ بر عمر بن سعد کی طرف پلٹ گیا اور ساری خبر اس کے گوش گزار کردی۔ پسر سعدنے اس سے کہا : میں یہ امید کرتا ہوں کہ خداہمیں ان سے جنگ وقتال کرنے سے عافیت میں رکھے اور اسی مطلب کو اس نے لکھ کر ابن زیاد کے پاس روانہ کردیا۔ ابو مخنف کے بجائے دیگر راویوں کی روایت یہاں پر آکر ختم ہوجاتی ہے ۔
ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا خط
عمر بن سعد کا خط عبید اللہ بن زیاد کو پہنچا جس میں مر قوم تھا :
''بسم اللّٰہ الر حمٰن الر حیم . أما بعد فانّی حیث نزلت بالحسین بعثت الیہ رسولی ، فسأ لتہ : عمّا أقد مہ ، وما ذایطلب ویسأ ل ؟ فقال : کتب الّ أہل ھٰذہ البلاد وأتتن رسلہم فسألون القدوم ففعلت ، فأمَّا اِذ کر ھون فبدا لھم غیر ما أتتن رسلھم فأنا منصرف عنھم ''
بسم اللہ الرحمن الر حیم ، اما بعد، میں جیسے ہی حسین کے نزدیک پہنچا میں نے ان کی طرف اپنے ایک پیغام رساں کو بھیجا اور ان سے پوچھا کہ وہ یہاں کس لئے آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ اس شہر کے لوگوں نے مجھے خط لکھا تھا اور ان کے نامہ بر میرے پاس آئے تھے انھوں نے مجھ سے در خواست کی تھی کہ میں چلا آؤں تو میں چلا آیا لیکن اب اگر انھیں میرا آنانا پسند ہے اور نامہ بروں کو بھیج کر انھوں نے جومجھے بلا یا تھا اب اگر اس سے پلٹ گئے ہیں تو میں ان کے درمیان سے چلا جاتا ہوں ۔
جب ابن زیاد تک یہ خط پہنچاتو اس نے اسے پڑھنے کے بعد یہ شعر پڑھا۔
الا ن اِذ علقت مخا لبنا بہ
یرجو النجاة ولات حین مناص!
جب ہمارے چنگل میں پھنس گیا ہے تو نجات کی امید کرتا ہے لیکن اب کوئی راہ فرار نہیں ہے۔
ابن زیاد کا جواب
خط پڑھنے کے بعد ابن زیاد نے عمر بن سعد کے نام جواب کے طور پرخط لکھا :
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، اما بعد ، فقد بلغن کتا بک وفھمت ماذکرت ، فأعرض علی الحسین أن یبایع لیزید بن معاویہ ھو وجمیع أصحابہ ، فاذافعل ذالک رأینا رأےَنا، والسلام ۔
بسم اللہ الر حمن الر حیم ، اما بعد، تمہارا خط مجھے موصول ہوا اور تم نے جو ذکر کیا ہے اسے میں نے سمجھ لیا اب حسین سے کہو کہ وہ اور ان کے تما م اصحاب یزید بن معاویہ کی بیعت کر لیں ۔ اگر انھوں نے ایسا کر لیا تو پھر ان کے سلسلے میں ہم تم کو اپنا نظریہ بتائیں گے ۔ والسلام
جب عمر بن سعد کے پاس وہ خط آیا تو اس نے کہا : میں اسی گمان میں تھا کہ ابن زیاد عافیت کو قبول نہیں کرے گا۔ (١)
پسر سعد کی امام علیہ السلام سے ملاقات
جب بات یہاں تک پہنچ گئی تو حسین علیہ السلام نے عمر بن سعد کی جانب عمروبن قرظة بن کعب انصاری (٢) کو بھیجا کہ وہ آپ سے دونوں لشکروں کے درمیان ملا قات کرے۔
وقت مقررہ پر عمر بن سعد اپنے تقریبا ً ٢٠ سواروں کے ہمراہ باہر نکلا تو امام حسین علیہ السلام بھی اسی انداز میں نکلے لیکن جب وہ لوگ ملے تو امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ کنارے
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے نضربن صالح بن حبیب بن زہیر عبسی نے حسان بن فائد بن بکیر عبسی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کے عمر سعد کا خط آیا تھا۔( طبری، ج٥، ص ٤١١و ارشاد ،ص٢٢٨)
٢۔عمر و بن قرظة حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے لیکن انکا بھائی علی بن قرظہ ،عمربن سعد کے ہمراہ تھا ۔جب اس کے بھائی عمرو شہید ہوگئے تو اس نے اصحاب حسین علیہ السلام پر حملہ کر دیا تاکہ اپنے بھائی کا انتقام لے سکے۔نافع بن ہلال مرادی نے اس پر نیزہ سے حملہ کیا اور اس کو زمین پر گرادیا ۔دوسری طرف نافع پر اس کے ساتھیوں نے حملہ کیا ۔ اس کے بعد اس کا علاج کیا گیاتو وہ ٹھیک ہوگیا۔ (طبری، ج٥، ص ٤٣٤)
ہوجائیں اور عمربن سعد نے بھی اپنے سپاہیوں کو یہی حکم دیا پھر دونوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ گفتگو بڑی طولانی تھی یہاں تک کہ رات کا کچھ حصہ گذرگیا۔ اس کے بعد دونوں اپنے اصحاب کے ہمراہ اپنے لشکر کی طرف واپس لوٹ گئے اس گفتگو کے درمیان جیسا کہ لوگ گما ن کرتے ہیںکہ امام حسین علیہ السلام نے عمرسعد سے کہا کہ آؤ میرے ساتھ یزید بن معاویہ کے پاس چلو اور ہم لوگ دونوں لشکروں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ عمر سعد نے کہا: ایسی صورت میں تو میرا گھر منہدم کردیا جائے گا ۔حسین نے کہا : میں تمہارا گھر بنوا دوں گا ۔ عمر سعد نے کہا : میرے مال ومنال اور باغ وبوستان لوٹ لئے جائیں گے، حسین نے کہا: میں تم کو حجاز میں اپنے مال میں سے اس سے زیادہ دے دوں گا لیکن عمر سعد نے اسے قبول نہیں کیا اور انکار کردیا ۔
اس طرح لوگوں نے آپس میں گفتگو کی اور یہ بات پھیل گئی جبکہ ان میں سے کسی نے بھی کچھ نہیں سنا تھا اور انھیں کسی بات کا علم نہیں تھا۔ (١) اسی طرح اپنے وہم وگمان کے مطابق لوگ یہ کہنے لگے کہ حسین نے کہا تھا کہ تم لوگ میری تین باتوںمیں سے کوئی ایک بات قبول کرلو:
١۔ میں اسی جگہ پلٹ جاؤں جہاں سے آیا ہوں ۔
٢۔ میں یزید بن معاویہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں تو وہ میرے اور اپنے درمیان اپنی رائے کا اظہار خیال کرے۔
٣۔ یا تم لوگ مجھے کسی بھی اسلامی حدود میں بھیج دو تاکہ میں انھیںکا ایک فرد ہو جاؤں اور میرے لئے و ہ تما م چیزیں ہوں جو ان لوگوں کے لئے ہیں۔ (٢)
..............
١۔ ابو جناب نے ہانی بن ثبیت حضر می کے حوالے سے مجھ سے روایت کی ہے اور وہ عمربن سعد کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کے وقت موجود تھا۔ اسی خبر سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ وہ شخص ان ہی ٢٠ سواروں میں تھا جو رات کے وقت ملا قات کے ہنگام پسرسعدکے ہمراہ تھے۔ وہ کہتا ہے ہم نے اس گفتگو سے اندازہ لگایا ہے کیونکہ ہم ان دونوں کی آواز یں نہیں سن رہے تھے ۔(طبری ،ج٥،ص ٤١٣، الارشاد ،ص ٢٢٩)سبط بن جوزی کا بیان ہے : یہ عمروہی ہے جس کی طرف پیغام رساں کوبھیجاگیا تھا کہ وہ اور حسین علیہ السلام یکجا ہوں تو عمر بن سعد اور امام حسین علیہ السلام تنہائی میں ایک جگہ جمع ہوئے۔ (تذ کرہ ،ص٢٤٨،ط نجف)
٢۔ یہ وہ مطلب جس پر محدثین کا ایک گروہ متفق ہے اور ہم سے مجالد بن سعید اور صقعب بن زہیر ازدی اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے یہ روایت نقل کی ہے۔( طبری، ج٥، ص٤١٣، ابو الفرج ،ص ٧٥،ط نجف)
عقبہ بن سمعان کا اس سلسلے میں بیان ہے کہ میں حسین کے ساتھ تھا ؛آپ کے ہمراہ میں مدینہ سے مکہ اور مکہ سے عراق آیا اور میں آپ سے پل بھر کے لئے بھی جدا نہیں ہو ایہاں تک کہ آپ شہید کر دیئے گئے۔اس کا کہنا ہے کہ خدا کی قسم مدینہ، مکہ ،دوران سفر اور عراق میں حتیٰ کہ شہادت کے وقت تک امام کا کوئی خطبہ اور کلام ایسا نہیں تھا جسے میں نے نہ سنا ہواور خدا کی قسم لوگ جو ذکر کرتے ہیں اورگمان کر تے ہیں کہ آپ نے یہ کہا کہ میں یزید بن معاویہ کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیدوں گایہ سر اسر غلط ہے اورآپ نے یہ بھی نہیں کہا کہ ہمیں کسی اسلامی حدود میں بھیج دیا جائے، ہاں آپ نے یہ فرمایا تھا : ''دعونی فلأذھب فی ھٰذہ الارض العریضة حتی ننظر ما یصیر أمر الناس'' (١) مجھے چھوڑدوتاکہ میں اس وسیع وعریض زمین پر کہیں بھی چلاجاؤں تاکہ دیکھو ںکہ لوگوں کا انجام کار کہاں پہنچتا ہے ۔
ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا دوسرا خط
امام علیہ السلام سے مخفیانہ گفتگوکے بعد عمر سعد نے ابن زیاد کے نام ایک دوسراخط لکھا:
''اما بعد ، فان اﷲقدأطفاالنائرة ، وجمع الکلمةو أصلح أمرالا مة، ھٰذا حسین قدأعطان ان یرجع الی المکان الذی منہ أتی أوأن نسےّرہ الی أیّ ثغر من ثغور المسلمین شئنا فیکون رجلا من المسلمین لہ مالھم وعلیہ ما علیھم أوأن یات یزید أمیر المومنین فیضع یدہ ف یدہ فیریٰ فیما بینہ وبین رأیہ ،وف ھٰذالکم رضاً وللأمةصلاح''
اما بعد، اﷲ نے فتنہ کی آگ کو بجھا دیا، ہماہنگی واتحاد کو ایجاد کردیا ہے اور امت کے امور کو صلح و خیر کی طرف موڑدیاہے۔ یہ حسین ہیں جو مجھے وعدہ دے رہے ہیں کہ یاوہ اسی جگہ پلٹ جائیںگے جہاں سے آئے ہیں یاہم انھیں جہاں مناسب سمجھیںکسی اسلامی حدود میں روانہ کردیں کہ وہ انھیں کا جز قرار پائیںتا کہ جو ان لوگوں کے لئے ہو و ہی ان کے لئے ہو اور جوان لوگوںکے ضرر میں ہو وہی ان کے ضرر
..............
١ ۔اس مطلب کو ابو مخنف نے عبد الرحمن بن جندب کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبد الرحمن بن جندب نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے نقل کیا ہے۔( طبری ،ج٥، ص ٤١٣، الخواص ،ص ٢٤٨)
میں ہو یا یہ کہ وہ یزید امیر المومنین کے پاس جاکر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیدیں اور وہ ان کے اور اپنے درمیان جو فیصلہ کرنا چاہیں کریں، یہ بات ایسی ہے جس میں آپ کی رضایت اور امت کی خیر و صلاح ہے ۔
جب عبیداللہ بن زیا د نے اس خط کوپڑھا تووہ بولا : یہ اپنے امیر کے لئے ایک خیر خواہ شخص کا خط ہے جو اپنی قوم پر شفیق ہے؛ ہاں ہم نے اسے قبول کرلیا ۔ اس وقت شمر بن ذی الجوشن (١) وہیں پرموجود تھا۔وہ فوراً کھڑا ہو ا اور بولا : کیا تم اس شخص سے اس بات کو قبو ل کرلوگے !جب کہ وہ تمہاری زمین پر آچکاہے اور بالکل تمہارے پہلو میں ہے ؛ خدا کی قسم اگروہ تمہارے شہر وحکومت سے باہرنکل گیا اور تمہارے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیا توقدرت و اقتدارا ورشان و شوکت اس کے ہاتھ میں ہوگی اور تم ناتواں و عاجزہوجاؤگے۔میرا نظریہ تو یہ ہے تم یہ وعدہ نہ دو کیونکہ یہ باعث توہین ہے۔ہاں اگروہ اوراس کے اصحاب تمہارے حکم (٢)کے تابع ہوجائیں تو اب اگر تم چاہو ان کوسزا دو کیونکہ وہ تمہارے ہاتھ میں ہے اور اگرتم معاف کرناچاہو؛ تو یہ بھی تمہارے دست قدرت میں ہے۔امیر ! مجھے خبر ملی ہے کہ حسین اور عمر سعد دونوںاپنے اپنے لشکر کے درمیان بیٹھ کر کافی رات تک گفتگو کیاکرتے ہیں۔
یہ سن کر ابن زیاد نے کہا : تمہاری رائے اچھی اور تمہارا نظریہ صحیح ہے۔ (٣)
..............
١۔ اس کے تفصیلی حالات گذر چکے ہیں کہ اشراف کوفہ میں سے ایک یہ بھی ابن زیاد کے ہمراہ قصر میں تھا ۔
٢۔سبط بن جوزی نے ص ٢٤٨ پراس واقعہ کو بطور مختصر لکھاہے اور اضافہ کیاہے کہ اس نے اپنے جوابی خط کے نیچے یہ شعرلکھا :
الآ ن حین تعلقتہ حبالنا
یرجوا لنجاةولات حین مناص
اب جب وہ ہمارے پھندے میں آچکاہے تو نجات کی امید رکھتا ہے اب کوئی راہ فرار نہیں ہے۔
٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے مجالد بن سعید ہمدانی اور صقعب بن زہیر نے یہ روایت نقل کی ہے ۔ (طبری ،ج٥،ص٤١٤ ، ارشاد ، ص٢٢٩)
ابن زیاد کا پسر سعد کے نام دوسرا جواب
اس کے بعدعبیداللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کے نام خط لکھا ۔
''امابعد ، فان لم أبعثک الی حسین لتکف عنہ ، ولتطاولہ ولالتمنیہ السلامة والبقاء ،ولالتقعد لہ عند شافعاً... أنظر فان نزل حسین و أصحابہ علی الحکم واستسلموا ، فابعث بھم الّسلماًوان أبوا فا زحف الیھم حتی تقتلھم و تمثل بھم فَاِنھم لذالک مستحقون ! فان قتل حسین فأوطی الخیل صدرہ وظھرہ ! فانہ عاق شاق ۔ قاطع ظلوم ولیس دھر فی ھٰذا أن یضرّ بعد الموت شیئاً ،ولکن علّ قول لوقدقتلتہ فعلت ھٰذابہ ! ان أنت مضیت لا مرنافیہ جزیناک جزاء السامع المطیع ، وان أبیت فاعتزل عملنا وجند نا، و خل ّ بین شمر بن ذی الجو شن و بین العسکر،فانّاقدأمرنابأمرنا۔ والسلام ''(١)
امابعد ، میں نے تم کو اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ تم ان سے دستبردار ہوجاؤ اور نہ اس لئے بھیجا ہے کہ مسئلہ کو پھیلا کرطولانی بنادو اور نہ ہی اس لئے کہ ان کی سلامتی و بقاکے خواہاں رہو اور نہ ہی اس لئے کہ وہاں بیٹھ کر مجھ سے حسین کے لئے شفاعت کی درخواست کرو ... دیکھو ! اگر حسین اور ان کے اصحاب نے ہمارے حکم پر گردن جھکادی اورسر تسلیم خم کر دیا تو سلامتی کے ساتھ انھیں میرے پاس بھیج دو اور اگر وہ انکار کریں تو ان پر حملہ کرکے انھیں قتل کردو اور ان کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے اور مثلہ کردو کیونکہ یہ لوگ اسی کے حق دار ہیں ۔
قتل حسین کے بعد ان کی پشت اور ان کے سینہ کو گھوڑوں سے پامال کر دو کیونکہ انہوںنے دوری اختیار کی ہے وہ ناسپاس ہیں۔انہوںنے اختلاف پھیلایاہے، وہ حق ناشناس اور ظلم کے خو گرہیں۔ میری یہ تمنا اور آرزو نہیں ہے کہ موت کے بعد انہیں کوئی نقصان پہنچایا جائے لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ مرنے کے بعد ان کے ساتھ ایسا ہی کروں گا لہذا اب اگر تم نے ہمارے حکم پر عمل کیا تو ہم تم کو وہی جزا و
..............
١۔ابو مخنف کا کہنا ہے کہ مجھ سے ابو جناب کلبی نے یہ روایت بیان کی ہے۔( طبری ، ج ٥ ، ص ٤١٥ ارشاد ، ص ٢٢٩و الخواص، ٨ ٢٤)
پاداش دیں گے جو ایک مطیع وفرمانبردار کی جزاہوتی ہے اوراگر تم نے انکار کیا تو تم ہمارے عہدے اور فوج سے کنارہ کش ہوجاؤ اور فوج کو شمر بن ذی الجوشن کے حوالے کردو کہ ہمیں جو فرمان دینا تھا وہ ہم اسے دے چکے ہیں۔ والسلام
خط لکھنے کے بعد عبید اللہ بن زیاد نے شمر بن الجوشن کو بلا یا اور اس سے کہا : عمر بن سعد کے پاس یہ خط لے کر جاؤ ۔ میں نے اسے لکھا ہے کہ حسین اور ان کے اصحاب سے کہے کہ وہ میرے فرمان پر تسلیم محض ہو جائیں! اگر ان لوگو ں نے ایسا کیا تو فوراً ان لوگوں کو میرے پاس صحیح وسالم روانہ کردو اور اگر انکار کریں تو ان سے نبردآزما ہوجاؤ ۔اگر عمر بن سعد نے ایسا کیا تو تم اس کی بات سن کر اس کی اطاعت کر نا اور اگر اس نے انکار کیا تو تم ان لوگوں سے جنگ کرنا اور ایسے میں تم اس لشکر کے امیر ہوگے اور اس پر حملہ کر کے اس کی گر دن مار دینا اور اس کا ( یعنی پسر سعد ) سر میرے پاس بھیج دینا ۔(١) جب شمر نے وہ خط اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس کے ساتھ عبد اللہ بن ابی المحل بن حزام (کلابی ) جانے کے لئے اٹھاتو عبد اللہ نے کہا: خدا امیر کو سلامت رکھے حقیقت یہ ہے کہ عباس ، عبد اللہ ، جعفر اور عثمان یہ سب ہماری بہن ام البنین کے صاجزادے ہیں جو حسین کے ہمراہ ہیں۔ اگر آپ بہتر سمجھیں تو ان کے لئے ایک امان نامہ لکھ دیں ۔
ابن زیاد نے جواب دیا : ہاں سر آنکھوں پر، اس کے بعد اپنے کاتب کو بلا یا اور اس نے ان لوگوں کے لئے امان نامہ لکھ دیا ۔ عبد اللہ بن ابی المحل بن حزام کلا بی نے اس امان نامہ کو اپنے غلام کْزمان کے ہمراہ روانہ کیا ۔
خط کے ہمراہ شمر کا کر بلا میں ورود
عبید اللہ بن زیاد کاخط لے کر شمر بن ذی الجوشن عمر بن سعد کے پاس پہنچا جب وہ اس کے قریب آیا اور خط پڑھ کر اس کو سنایاتو خط سن کر عمر بن سعد نے اس سے کہا :
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ ( طبری، ج٥ ،ص ٤١٤و ارشاد ،ص ٩ ٩٢)
''ویلک مالک ! لا قرّ ب اللّٰہ دارک ، وقبّح اللّٰہ ماقدّ مت بہ علّ ! واللّٰہ لَاَظنک أنت ثنیتہ أن یقبل ماکتبت بہ الیہ أفسدت علینا أمراًکنّارجوناأن یصلح ، لایستسلم واللّٰہ حسین أن نفساً ابےّة (١)لبین جنبیہ ''
وائے ہو تجھ پر تو نے یہ کیا کیا !خدا تجھے غارت کرے . اللہ تیرا برا کرے! تو میرے پاس کیا لے کر آیا ہے۔ خدا کی قسم مجھے یقین ہے کہ تو نے چاپلوسی کے ذریعہ اسے میری تحریر پر عمل کرنے سے بازر کھا ہو گا ۔تو نے کام خراب کر دیا ۔ہم تو اس امید میں تھے کہ صلح ہوجائے گی۔ خدا کی قسم حسین کبھی بھی خود کو ابن زیاد کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ یں گے کیونکہ یقینا حسین کے سینے میں ایک غیور دل ہے۔
شمر کا دل سیاہ ہو چکا تھا اس کو ان سب چیزوں سے کیا مطلب تھا۔ اس نے فوراً پوچھا : تم اتنا بتاؤ کہ تم کیا کر نا چاہتے ہو ؟ کیا تم امیر کے فرمان کو اجراء کروگے اور ان کے دشمن کو قتل کروگے ؟ اگر نہیں تو ہمارے اور اس لشکر کے درمیان سے ہٹ جاؤ ۔
عمر بن سعد : نہیں اور نہ ہی تیرے لئے کوئی کرامت ہے ۔ میں خود ہی اس عہدہ پر باقی رہوں گا۔ تو جا اور پیدلوں کی فوج کی سر براہی انجام دے ۔
جناب عباس اور ان کے بھائیوں کے نام امان نامہ
ایسے بحرانی حالات میں شمر اصحاب امام حسین علیہ السلام کے پاس آیا اور بولا : ہماری بہن کے بیٹے کہاں ہیں ؟ تو امیر المومنین علی علیہ السلام کے فرزند عباس ، عبد اللہ جعفر اور عثمان علیہم السلام اس کے پاس آئے اور فرمایا :''مالک وما ترید ؟ ''کیا کام ہے اور تو کیا چاہتا ہے ؟
شمرنے کہا : اے میری بہن کے صاحبزادو تم سب کے سب امان میں ہو۔
یہ سن کر ان غیر تمند جوانوں نے جواب دیا :'' لعنک اللّہ ولعن أمانک ]لئن کنت خالنا [ أتوْ مننا وابن رسول اللّٰہ لا أمان لہ ! ''
..............
١۔ شیخ مفید نے ارشاد میں ص٢١٣ یہ جملہ اس طرح لکھا ہے:'' ان نفس أبیہ لبین حبنبیہ'' یقیناً حسین کے سینے میں ان کے باپ کا دل ہے۔
خداتجھ پر لعنت کرے اور تیرے امان پر بھی لعنت ہو ( اگر تو ہمارا ماموں ہے تو) کیا تو ہمیں امان دے رہا ہے لیکن فرزند رسو لخدا کے لئے کوئی امان نہیں ہے!
اور جب عبد اللہ بن ابی المحل بن حزام کلا بی کا غلام کْز مان امان نامہ لے کر کربلا پہنچا اور ان غیرتمندوں کے پاس جا کر انھیں آوازدی اور کہا : یہ امان نامہ ہے جو تمہارے ماموں نے تمہیں بھیجا ہے تو انھوں نے کہا : '' أقریٔ خالنا السلام وقل لہ : أن لا حاجة لنا فی أما نکم، أمان اللّٰہ خیر من أمان بن سمےّة ! ''(١) ہمارے ماموں سے ہمارا سلام کہنا اور ان سے کہد ینا کہ ہم کو تم لوگوں کے امان کی کوئی حاجت نہیں ہے ، اللہ کی امان فرزندسمیہ کی امان سے زیادہ بہتر ہے ۔
امام علیہ السلام اور ان کے اصحاب پر پانی کی بندش
عبید اللہ بن زیاد کا ایک اورخط عمر بن سعد تک پہنچا :
اما بعد ، حسین اور ان کے اصحاب اور پانی کے درمیان اس طرح حائل ہو جاؤ کہ ایک قطرہ بھی ان تک نہ پہونچ سکے ؛ٹھیک اسی طرح جس طرح تقی وزکی و مظلوم امیر المومنین عثمان بن عفان کے ساتھ کیا گیا تھا ۔
راوی کہتا ہے کہ اس خط کا آنا تھا کہا عمر سعد نے فوراً عمرو بن حجاج (٢) کو پانچ سو سواروں کے ہمراہ فرات کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ سب کے سب پانی پر پہنچ کرحسین اور ان کے اصحاب اور پانی کے درمیان حائل ہو گئے تا کہ کو ئی ایک قطرہ بھی پانی نہ پی سکے۔ یہ امام حسین کی شہادت سے ٣ دن پہلے کا واقعہ ہے ۔
راوی کہتا ہے کہ جب حسین اور ان کے اصحاب کی پیاس میں شدت واقع ہوئی تو آپ نے اپنے بھائی عباس بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام ) کو بلا یا اور انہیں تیس(٣٠) سوار اور بیس(٢٠) پیدل افراد کے ہمراہ فرات کی طرف روانہ کیا اور ان کے ساتھ بیس (٢٠) مشکیں بھی بھیجیں۔ وہ لوگ گئے یہاں
..............
١۔الا رشاد ،ص٢٣٠،التذکرہ ،ص ٢٤٩
٢۔ اس کے حالات بھی گذر چکے ہیں کہ یہ بھی انہیں اشراف میں سے ہے جو ابن زیاد کے ساتھ قصر میںموجود تھے۔
تک کہ پانی کے قریب پہنچے۔ن لوگوں کے آگے پر چم لئے نافع بن ہلال جملی (١) رواں دواں تھے۔ یہ دیکھ کر عمر وبن حجاج زبیدی نے کہا :
کون ہے ؟ جواب ملا : نافع بن ہلال
عمر وبن حجاج نے سوا ل کیا : کس لئے آئے ہو ؟
نافع بن ہلال نے جواب دیا : ہم اس پانی میں سے کچھ پینے کے لئے آئے جس سے تم لوگوں نے ہمیں دورکردیا ہے ۔
عمرو بن حجاج نے کہا : پیو تمہارے لئے یہ پانی مبارک ہو۔
نافع بن ہلال نے فرمایا: نہیں خدا کی قسم ہم اس وقت تک پانی نہیں پی سکتے جب تک حسین اور ان کے اصحاب پیاسے ہیں جنہیں تم دیکھ رہے ہو ( یہ کہہ کر ان اصحاب کی طرف اشارہ کیا ) اسی اثنا میں وہ اصحاب آشکار ہو گئے اور پانی تک پہنچ گئے ۔
عمرو بن حجاج نے کہا : ان لوگوں کے پانی پینے کی کوئی سبیل نہیں ہے ،ہم لوگوں کو یہاں اسی لئے رکھا گیا ہے تاکہ ان لوگوں کو پانی پینے سے روکیں ۔
جب نافع کے دیگر پیدل ساتھی پانی کے پاس پہنچ گئے تونافع نے کہا : اپنی مشکوں کوبھرو وہ لوگ بھی آگے بڑھے اور مشکیزوں کو پانی سے بھر لیا ۔
لیکن عمر وبن حجاج اور اس کی فوج نے ان پیدلوںپر حملہ کردیا ۔ادھر سے عباس بن علی اور نافع بن ہلال نے ان پر حملہ کیا اور انہیں روکے رکھا، پھر اپنے سپاہیوں کی طرف آئے تو ان لوگوں نے کہا :
..............
١۔ آپ ہی نے اپنے گھوڑے کے ہمراہ کوفہ سے ٤آدمیوں کوراستے میں امام علیہ السلام کے پاس بھیجا تھاجن میں طرماح بن عدی بھی تھے۔ یہ پہلی خبر ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ کربلامیں آپ امام علیہ السلام سے آکر مل گئے تھے اور آپ ہی وہ ہیں جنہوں نے علی بن قرظہ انصاری، عمر و بن قرظہ کے بھائی پر نیزہ چلایاتھا جو عمر سعد کے ساتھ تھا۔(طبری،ج٥،ص ٣٣٤) آپ نے اس کانا م اپنی تیر کے اوپر لکھ لیا تھا ۔ آپ نے اپنے تیروں سے ١٢ لوگوں کو مارا یہاں تک کہ آپ کا ہاتھ ٹوٹ گیا اور شمر نے آپ کو اسیر بنالیا پھر پسر سعد کے پاس لے جانے کے بعد آپ کو قتل کر دیا۔( ج٥،ص٤٤٣)
آپ لوگ اسی طرح ان لوگوں کو کوروکئے اور ان کے نزدیک کھڑے رہئے تاکہ ہم خیموں تک پانی پہنچاسکیں۔
ادھر عمروبن حجاج اور اس کے سپاہیوں نے پھر حملہ کیا تو ان لوگوں نے بھی دلیری سے دفاع کیا اور آخر کار حسین علیہ السلام کے فداکار اصحاب پانی کومنزلگاہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی شب نافع بن ہلال نے عمر وبن حجاج کی فوج کے ایک سپاہی کو نیزہ مارا جس سے وہ نیزہ ٹوٹ گیا اور بعد میںوہ مر گیا۔ (١) دشمن کی فوج کا یہ پہلا مقتول ہے جو اس شب مجروح ہوا تھا ۔
..............
١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم ازدی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ ( طبری ، ج٥ ص ٢١٢ ) ابو الفرج نے ابو مخنف سے اسی سند کوذکر کیا ہے۔( ص ٧٨ ) ارشاد میں شیخ مفید نے حمید بن مسلم سے یہی روایت نقل کی ہے۔( ص ٢٢٨)
|