چھٹی منزل: زرود (١)
عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا :
جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو ہماری ساری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی طرح حسین سے راستے میں ملحق ہو جائیں تاکہ دیکھیںکہ بات کہاں تک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں نے اپنے ناقوں کو سر پٹ دو ڑایا؛ یہاں تک کہ مقام زرود (٢)پر ہم ان سے ملحق ہوگئے۔جب ہم لوگ ان کے قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رہنے والا ایک شخص عراق سے حجاز کی طرف روانہ ہے، جیسے ہی اس نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو لیکن ا مام علیہ السلام وہاں پر کھڑ ے رہے گویا اس کے دیدار کے منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات کے لئے مائل نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔
ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ اس شخص کے پاس چلیں اور اس سے پوچھیں اگر اس کے پاس کوفہ کی خبر ہو گی تووہ ہم کو اس سے مطلع کرے گا ؛یہ کہہ کر ہم لوگ چلے یہاں تک کہ اس تک پہنچ ہی گئے، پہنچ کر ہم نے کہا : السلام علیک ، تو اس نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ۔
پھر ہم لوگوں نے پوچھا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہم قبیلہ بنی اسد سے ہیں ۔
ہم لوگوں نے کہا : ہم لوگ بھی بنی اسد سے متعلق ہیں ؛تمہارا نام کیا ہے ؟
..............
١۔یہ جگہ خزیمیہ او رثعلبیہ کے درمیان کوفہ کے راستے میں ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج٤،ص ٣٢٧میں یہی موجود ہے۔
٢۔ یہ خبر اس خبر سے منافات ر کھتی ہے جوابھی گذرچکی کہ یہ لوگ منزل صفاح پر مقام زرو د سے چند منزل قبل فر زدق والے واقعے میں موجود تھے کیونکہ اس خبر سے یہی ظاہر ہوتاہے بلکہ واضح ہے کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے زرود میں ملحق ہوئے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ امام کے ساتھ موجود نہیںتھے بلکہ حج کی ادائیگی کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ منزل صفاح اوائل میںہے جبکہ امام علیہ السلام ''یوم الترویہ'' کو مکہ سے نکلے ہیں۔ اگر یہ لوگ امام علیہ السلام سے منزل صفاح پر ملحق ہوئے ہیںتو پھر حج کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونوں خبروں کا ایک ہی راوی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا؛ نہ ہی ابو جناب ، نہ ابو مخنف اورنہ ہی طبری، مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ حج سے پہلے یہ دونوں منزل صفاح پر امام علیہ السلام سے ملے اور پھر حج کے بعد منزل زرود پر پہنچ کرامام علیہ السلام سے ملحق ہو گئے ۔
اس نے جواب دیا : بکیر بن مثعبہ، ہم لوگوں نے بھی اپنا نام بتایا اور پھر اس سے پوچھا : کیا تم ہمیں ان لوگوں کے بارے میں بتاؤ گے جنہیں تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو؟
اس نے جواب دیا:ہاں! میں جب کوفہ سے نکلاتھا تو مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل کئے جا چکے تھے ۔ ہم نے دیکھا ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر انھیں بازار میں پھرایا جا رہاہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ہم لوگ اس سے جداہوکر اپنے راستے پر چل پڑے یہاں تک کہ( حسین علیہ السلام ) سے ملحق ہوگئے اور ایک دوسری منزل پر ان کے ہمراہ پٹراؤ ڈالا ۔
ساتویں منزل : ثعلبیہ(١)
شام کا وقت تھا جب امام علیہ السلام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کا نام'' ثعلبیہ'' تھا۔جب آپ کے خیمہ نصب ہوچکے تو ہم لوگوں نے آپ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا ۔آ پ نے سلام کا جواب دیا تو ہم لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ہم لوگوں کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے اعلانیہ بیان کریں اوراگر چاہیں۔ توخفیہ اور پوشیدہ طور پر بیان کریں۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''مادون ھولاء سر'' ان لوگوں سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے جو خبر لائے ہو بیان کردو، ہم لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے کل شام اس سوار کو دیکھا تھا جو آپ کے پاس سے گزرا تھا ؟
امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! میں اس سے کوفہ کے بارے میں سوال کرناچاہتا تھا۔ ہم نے کہا: ہم نے اس سے آپ کے لئے خبر لے لی ہے اورآپ کے بجائے ہم لوگوں نے کوفہ کے موضوع پر تحقیق کر لی ہے۔ وہ شخص قبیلہ بنی اسد کاایک مرد تھا جو ہمارے ہی قبیلہ سے تھا ۔ وہ صاحب نظر، سچا، اور صاحب عقل و فضل تھا ۔اس نے ہم لوگوں سے بتایا کہ جب وہ وہاں سے نکلا تھا تومسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل ہوچکے تھے حتیٰ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے پیروںمیں رسی باندھ کر بازار میں گھسیٹا جارہاہے۔یہ سن کر آپ نے فرمایا :
..............
١۔ کوفہ سے مکہ جانے کے لئے جو راستہ مڑتا ہے یہ وہی ہے۔ اس کی نسبت بنی اسد کے ایک شخص ثعلبہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ معجم میں تحریر ہے۔
'' انّاللّہ وانّاالیہ راجعون'' اس جملہ کی آپ نے چند مرتبہ تکرار فرمائی (١)پھر ہم نے عرض کی : آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آ پ اپنے گھر والوں کے ہمراہ یہاں سے واپس لوٹ جائیں ؛کیونکہ اب کوفہ میں آپ کا کوئی ناصر ومدد گا ر نہیں ہے بلکہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سب آپ کے مخالف نہ ہوگئے ہو ں ۔ایسے موقع پر فرزندان عقیل بن ابیطالب اٹھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی (٢) اور کہنے لگے : نہیں خدا کی قسم ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے۔جب تک ہم ان سے اپنا انتقام نہ لے لیں یا وہی مزہ نہ چکھ لیں جس کاذائقہ ہمارے بھائی نے چکھاہے۔ (٣) ان دونوں کا بیان ہے: حسین ( علیہ السلام) نے ہم لوگوںپر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا : ''لاخیر فی العیش بعد ھولاء !'' ان لوگوں کے بعد زندگی میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ اس جملہ سے ہم نے بخوبی سمجھ لیا کہ سفر کے ارادے میں یہ مصمم ہیں تو ہم نے کہا : خدا کرے خیر ہو ! آپ نے بھی ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا:'' رحمکم اللّہ ''اللہ تم دونوں پر رحمت نازل کرے ۔
رات کا سناٹا چھاچکا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ سپیدہ سحر کے انتظار میں ہیں؛جیسے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوئی ،آپ نے اپنے جوانوں اور نو جوانوں سے فرمایا : ''اکثروا من المائ'' پانی زیادہ سے زیادہ جمع کرلو ، ان لوگوں نے خوب خوب پانی جمع کرلیا اور اپنے سفر پر نکل پڑے یہاں تک کہ ایک دوسری منزل تک پہنچ گئے ۔
..............
١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر یہاں عام ہوگئی لیکن عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ میں پہنچ کر امام علیہ السلام نے یہ خط لکھ کر اپنے اصحاب کے سامنے اس کا اعلان کیا تھا؛ یہاں سے امام علیہ السلام کے اس جملے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ'' مادوں ھولاء سر'' یعنی ان کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے لئے یہ خبر سری ہے اور اسی طرح یہ خبر منزل زبالہ تک پوشیدہ ہی رہی لیکن یعقوبی کا بیان ہے کہ مسلم کی شہادت کی خبر آپ کو مقام'' قطقطانہ'' میں ملی تھی۔ (تاریخ یعقوبی ،ج٦ ، ص ٢٣٠ ،ط، نجف )
٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے عدی بن حرملہ اسد کے حوالے سے اور اس نے عبداللہ سے اس خبر کو ہمارے لئے بیان کیاہے۔ ( طبری ،ج٥، ص٣٩٧) ارشاد میں ،ص ٢٢٢ پر ہے کہ عبداللہ بن سلیمان نے یہ روایت بیان کی ہے۔( ارشاد ، طبع نجف )
٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمر بن خالد نے یہ خبر بیان کی ہے ( لیکن صحیح عمرو بن خالد ہے ) اور اس نے زید بن علی بن الحسین سے اور اس نے دائود بن علی بن عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے ۔( طبری ،ج٥، ص ٣٩٧ ؛ارشاد، ص٢٢٢، مسعودی ،ج٣ ،ص ٧٠، الخواص ، ص ٢٤٥ ، طبع نجف)
آٹھویں منزل : زبالہ (١)
یہ نورانی قافلہ اپنے سفرکے راستے طے کرتا ہوا زبالہ (٢)کے علاقے میں پہنچا تو وہاں امام حسین علیہ السلام کو اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن بقطر(٣)کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے ایک نوشتہ نکال کر لوگوں کو آواز دی اور فرمایا :'' بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، أمابعد، فقد أتانا خبر فضیع ! قتل ابن عقیل و ہانی بن عروةو عبداللہ بن یقطر، وقدخذلتنا شیعتنا(٤)فمن أحب منکم الانصراف فلینصرف لیس علیہ منا ذمام ''
بسم اللہ الرحمن الرحیم، امابعد،مجھ تک ایک دل دھلانے والی خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر قتل کردئے گئے ہیں اور ہمار ی محبت کا دم بھرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے لہذا اب تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلاجائے، ہماری جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔
یہ جملہ سنتے ہی لوگ امام علیہ السلام سے جدا ہونے لگے کوئی داہنی طرف جانے لگاکوئی بائیں طرف؛ نتیجہ یہ ہواکہ فقط وہی ساتھی رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے۔ آپ نے یہ کام فقط اس لئے کیاتھا کہ
..............
١۔ یہ جگہ کوفہ سے مکہ جاتے وقت مختلف راستے پیداہونے سے قبل ہے۔ یہاں ایک قلعہ اورجامع مسجد ہے جو بنی اسد کی ہے۔ اس جگہ کا نام عمالقہ کی ایک عورت کے نام پر ہے جیسا کہ معجم البلدان میںیہی ہے ۔
(٢) ابومخنف کا بیان ہے : ابوجناب کلبی نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے میرے لئے یہ خبر بیان کی ہے۔ ( طبری، ج٥، ص ٣٩٨ )
٣۔ ان کے شرح احوال گزر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ان کی والدہ امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی ہیں ۔
٤۔ اس جملہ میں امام علیہ السلام کی تصریح ہے کہ کوفہ کے شیعوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کوفہ اور جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں یہ پہلا اعلان ہے اگرچہ اس کی خبر آپ کو اس سے قبل منزل زرود میں مل چکی تھی؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ جو لوگ وہاں موجود تھے۔ ان کے علاوہ سب پر یہ خبر پوشیدہ تھی کیونکہ یہ امام علیہ السلام کے حکم سے ہوا تھا۔آخر کار آپ نے یہاں'' زبالہ'' میںتمام حاضرین کے لئے اس خبر کا اعلان کردیا ۔
باد یہ نشین عرب اس گمان میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے تھے کہ آپ ایسے شہر میں آئیں گے جوظالم حکمرانوںکی حکومت سے پاک ہوگا اور وہاں کے لوگ آپ کے فرمانبردار ہوں گے لہذا امام علیہ السلام نے ناپسند کیا کہ ایسے لوگ آپ کے ہمسفر ہوں۔امام چاہتے تھے کہ آپ کے ہمراہ صرف وہ رہیں جنہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ جب ان لوگوں پر بات آشکار ہوجائیگی تو کوئی بھی آپ کے ہمراہ نہیںرہے گا مگر وہ لوگ جو عدالت چاہتے ہوں اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہو۔(١)رات اسی منزل پر گزری ،صبح کو آپ نے اپنے جوانوں کو چلنے کا حکم دیاتو انھوں نے سب کو پانی پلاکر اور خوب اچھی طرح پانی بھر کر اپنا سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ درّۂ عقبہ سے آپ کا گزرہوا ۔
نویں منزل : درّہ عقبہ(٢)
یہ نورانی قافلہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتا ہوا درّہ عقبہ تک پہنچا۔وہاں اس قافلہ نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔ (٣) بنی عکرمہ کے ایک شخص نے امام سے عرض کیا: آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیے، خداکی قسم !آپ یہاں سے قدم آگے نہیں بڑھائیں گے مگریہ کہ نیزوں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر آگے بڑھیں گے ، جن لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور آپ کوآنے کی دعوت دی تھی اگر یہ لوگ میدان کارزار کی مصیبتیں برداشت کرکے آپ کے لئے راستہ آسان کردیتے تب آپ وہاں جاتے تو آپ کے لئے بہت اچھا ہوتا لیکن ایسی بحرانی حالت میں جس سے آپ خود آگاہ ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کوفہ جانے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھائیں گے۔
..............
١۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگوں کو جانے کی اجازت دی تو آپ کا مقصد کیا تھا؟ امام علیہ السلام کا یہ بیان تمام چیزوں پر کافی ہے
٢۔واقصہ کے بعد اور قاع سے پہلے مکہ کے راستے میں یہ ایک منزل ہے۔ یہ منزل ان کے لئے ہے جو مکہ جانا چاہتے ہیں۔
٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : ابوعلی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے مجھ سے یہ خبر بیان کی ہے۔( طبری ،ج٥، ص ٣٩٨ ، ارشاد ،ص ٢٢٢ ،طبع نجف)
امام حسین علیہ السلام نے اسے جواب دیا :''یاعبداللّٰہ ! انہ لیس یخفی علیّ ، الرأی ما رأیت ، ولکن اللّٰہ لا یغلب علی أمرہ ''(١)اے بندہ خدا !یہ بات مجھ پر پوشیدہ نہیں ہے ، تمہاری رائے وہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو لیکن تمہارانظریہ خدا کے امر پر غالب نہیں آسکتااور خدا اپنے امرپرمغلوب نہیں ہوسکتا۔ یہ کہہ کر آپ نے وہاں سے کوچ کیا ۔(٢)
دسویں منزل : شراف (٣)
آپ کا قافلہ کوفہ کی سمت روانہ تھا کہ راستے میں ایک منزل پر جاکر پھر ٹھہرا جس کا نام شراف ہے۔ جب صبح نمودار ہوئی تو آپ نے اپنے جوانوں کو حکم دیا کہ پانی بھر لیں ! ان لوگوں نے کافی مقدار میں پانی بھرا اور صبح سویرے سفر شروع کردیا تاکہ دن کی گرمی سے محفوظ رہ سکیں۔ چلتے چلتے دوپہرکاوقت آگیا ابھی قافلہ محو سفر ہی تھا کہ کسی نے کہا:اللّٰہ اکبر ! تو حسین نے بھی اللّٰہ اکبر کہتے ہوئے پوچھا : کس لئے تم نے یکایک تکبیر کہی ؟ اس شخص نے کہا : عراق کے نخلستان دیکھ کر ہم نے خوشی سے تکبیر کہی تو قبیلہ بنی اسد کے ان دونوں لوگوں ( عبداللہ بن سلیم اور مذری بن مشمعل ) نے کہا : ہم نے اس مقام پر ابھی تک خرمہ اور کھجور کا ایک بھی درخت نہیں دیکھا۔ امام حسین علیہ السلام نے پوچھا : تم کیا سمجھتے ہو اس نے کیا دیکھا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا: ہم تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس نے گھوڑ سواروں کے سرو گردن دیکھے ہیں،اس پر اس مرد نے کہا : میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ آگے یہی ہوگا نہ کہ کھجوروں کے درخت ۔
..............
١۔ ارشاد کے ص ٢٢٣ پر ہے کہ اس کے بعد آپ نے فرمایا :'' واللّٰہ لا یدعونی حتی یستخرجوا ھٰذہ العلقہ من جوفی فاذا فعلوا ذالک سلط اللہ علیھم من یذ لّھم حتی یکونوا أذل فرق الامم'' خدا کی قسم یہ مجھے نہیں چھوڑیں گے یہاں تک کہ میرے سرو تن میں جدائی کردیں اور جب یہ ایسا کریں گے تو اللہ ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کرے گا جو ان کو ذلیل و رسوا کریں گے اور نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ یہ لوگ امت کے ذلیل ترین افراد ہوجائیں گے ۔اعلام الوری میں بھی یہی موجود ہے، ص٢٣٢۔
٢۔ابو مخنف کابیان ہے کہ بنی عکرمہ کی ایک فرد'' لوذان'' نے مجھے خبر دی ہے کہ اس کے ایک چچا نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ ( طبری، ج٥ ، ص ٣٩٩ )
٣۔ اس جگہ اور'' واقصہ'' کے درمیان ٢ میل کا فا صلہ ہے اور یہ عراق سے پہلے ہے ۔قادسیہ سے پہلے سعدبن ابی وقاص یہیں ٹھہرے تھے۔یہ جگہ ایسے شخص سے منسوب ہے جسے شراف کہا جاتا ہے۔ اس جگہ سے پانی کا چشمہ پھوٹتا تھاپھر یہاںبہت سارے بڑے بڑے میٹھے پانی کے کنویں کھودے گئے۔ معجم البلدان میں یہی مرقوم ہے ۔
گیارہویں منزل : ذوحسم (١)
ان شرائط کو دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' أمالناملجأ نلجأ الیہ نجعلہ فی ظھورنا و نستقبل من وجہ واحد ؟''کیا کوئی ایسی پناہ گاہ نہیں ہے جس میں پناہ گزیں ہوکر ہم اس فوج کو اپنے پیچھے کردیں اور ان سے دفاع کے لئے فقط ایک ہی طرف سے آمنے سامنے ہوں ؟ ہم لوگوں(بنی اسد کے دونوں افرد) نے عرض کیا : کیوں نہیں ! ذوحسم کا علاقہ آپ کے اس طرف موجودہے، آپ اپنے بائیں جانب اس کی طرف مڑ جائیں، اگر ہم لوگ جلدی سے ادھر مڑ گئے تو وہی ہوگا جو آپ چاہتے ہیں ۔یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے بائیں جانب کا رخ کیا تو ہم لوگ بھی ان کی طرف مڑ گئے اور ہم نے ذوحسم پہنچنے میں جلدی کی لہذا ان لوگوںسے قبل ہم لوگ ذوحسم میں موجود تھے۔ ان لوگوں نے جب دیکھا کہ ہم لوگوں نے اپناراستہ بدل دیا ہے تو وہ لوگ بھی ہماری جانب آنے لگے ۔
امام حسین علیہ السلام نے وہیں پر پڑاؤ ڈالا اور حکم دیا کہ خیمے نصب کئے جائیں ۔ جوانوں نے خیمہ لگانا شروع کردیا، ابھی تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ گھوڑ سواروں کے سر دکھائی دینے لگے،ان کے پرچم گویاپرندوں کے پروں کی طرح تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ساری فوج پہنچ گئی اور وہ ہزار گھوڑ سوار تھے جن کا سر براہ حر بن یزید تمیمی یربو عی تھا۔ دوپہر کی جھلسا دینے والی گرمی میں حر اپنے رسالے کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے بالمقابل آکر کھڑا ہو گیا۔ ادھر حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب سروں پر عمامہ رکھے اپنی تلواروں کو نیام میں رکھے ہوئے تھے ۔
فوج کی تشنہ لبی دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے اپنے جوانوں سے فرمایا :'' اسقواالقوم وارووھم من الماء ورشّفوا الخیل ترشیفا'' اس فوج کو پانی پلاؤ اور انھیں سیراب کردو نیز ان کے
..............
١۔ یہ ایک پہاڑی کا نام ہے۔ نعما ن یہیں آکر شکار کیا کر تا تھا جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔اس کے اور عذیب الہجانات کے درمیان کوفہ تک ٣٣ میل کا فاصلہ ہے جیسا کہ طبری میںبھی یہی ہے ۔سبط بن جوزی نے علما ء سیر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ (امام) حسین کو جناب مسلم علیہ السلام پر گزرنے والے واقعات کا کچھ بھی علم نہیںتھا یہاں تک جب قادسیہ سے ٣ میل کے فاصلہ پر حر بن یزید ریاحی کے رسالہ سے سامنا ہوا تو اس نے مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کے قتل کی خبر امام حسین علیہ السلام کو دی اور مطلع کیا کہ ابن زیاد کوفہ میں آچکا ہے اور ان کوآمادہ کر رہا ہے اور ان سے کہاکہ واپس پلٹ جائیں۔(ملا حظہ ہو ص ٢٤٥طبع نجف )
گھوڑوں کو بھی سیراب کردو۔حکم پاتے ہی حسینی جوا ن ہاتھوں میں مشکیں لئے اٹھے اور سب کو پانی پلانا شروع کر دیا یہاں تک کہ سب کو سیراب کرنے کے بعد بڑے بڑے پیالوں ، طشتوں اور پتھروں کے بڑے بڑے برتن پانی سے بھر کر گھوڑوں کے سامنے رکھ دئے گئے۔ جب وہ جانور تین چار، یاپانچ بار پانی میں منہ ڈال کرپھر اس سے اپنا منہ نکال لیتے تھے (١) تب یہ جوان پانی کے ان برتنوںکودوسرے جانوروں کے پاس لے جاتے تھے؛ ا س طرح سارے کے سارے گھوڑے سیراب ہوگئے ۔(٢) و (٣)
اسی اثنا میں نماز ظہر کا وقت آگیا (٤) تو حسین ( علیہ السلام) نے حجاج بن مسروق جعفی کو اذان دینے کا حکم دیا۔ حجاج نے اذان دی، جب اذان ختم ہو گئی اور اقامت کا وقت آیا تو(امام حسین ) جسم پر ایک لباس اور دوش پر عبا ڈالے اور پیروں میں نعلین پہنے باہر نکلے اور حمد وثنائے الہٰی کے بعد اس طرح گو یا ہوئے :
..............
١۔ ترشیف کا حقیقی معنی یہی ہے ۔
٢۔ طبری کا بیان ہے کہ میں نے یہ واقعہ ہشام سے ابومخنف کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ابومخنف کہتے ہیں کہ ابوجناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم اورمذری سے یہ خبرنقل کی ہے ۔
٣۔طبری کا بیان ہے کہ ہشام نے کہا : مجھ سے لقیط نے علی بن طعان محاربی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ علی بن طعان بن محاربی کہتا ہے : میں حر کے رسالے میں موجود تھا لیکن میں اپنے لشکروالوں میں سب سے آخر میں پہنچنے والوں میں تھا ۔جب حسین نے پیاس کی شدت سے میری اور میرے گھوڑے کی حالت دیکھی تو فرمایا : أنخ الراویہ لیکن چونکہ '' راویہ '' ہم پانی پلانے کے معنی میں سمجھتے تھے لہٰذا ہم کچھ سمجھ نہ سکے تو آپ نے جملہ کو بدلتے ہوئے کہا : یابن أخ أنخ الجمل جان برادر اپنے اونٹ کو نیچے بیٹھاؤ تو میں نے اسے نیچے بیٹھادیا ؛ آپ نے فرمایا: : اشرب پانی پیو!لیکن میں جب بھی پانی پیناچاہتا تھا پانی مشک سے گر جاتا تھا، حسین (علیہ السلام) نے مجھ سے کہاأخنث السقاء چھاگل کو اپنی طرف موڑو! علی بن طعان محاربی کہتاہے کہ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا کہ میں کیا کروں تو خود حسین ( علیہ السلام ) کھڑے ہوئے اورچھاگل کو موڑ کرمیرے منہ سے لگایا ،میں نے پانی پیا، اس کے بعد اپنے گھوڑے کو پانی پلایا۔( طبری ،ج٥، ص ٤٠١ ؛ارشاد ، ص ٢٢٤ ؛خوارزمی ،ص٢٣٠)
٤۔ یہاںپر ابو مخنف کے اخبار کا سلسلہ منقطع ہوجاتاہے لہذا چارو ناچار ہمیں اس مطلب کو مکمل کرنے کے لئے ہشام کلبی کی خبر سے مدد لینی پڑی جو اس نے لقیط سے اور اس نے علی بن طعان محاربی کے حوالے سے نقل کی ہے۔( طبری ،ج٥، ص٤٠١، ارشاد، ص ٢٢٤،خوارزمی، ص ٢٣٠١)
''ایھا الناس ! انھا معذ رة الیٰ اللّٰہ عزّوجل والیکم ، انّ لمء أتیکم حتی أتتنکتبکم وقدّ مت علّ رسلکم ، أن أقدم علینا فا نہ لیس لنا امام ، لعلّ اللّٰہ یجمعنابک علی الھدیٰ فان کنتم علیٰ ذالک فقد جئتکم ، فان تعطونما أطمئنّْ الیہ من عھود کم و مواثیقکم أقدم مصرکم وان لم تفعلو أوکنتم لمقد می کا رھین انصرفت عنکم الیٰ المکان الذی أقبلت منہ الیکم !''
اے لوگو ! خدا ئے عزوجل اور تم لوگوں کے سامنے میرا عذر یہ ہے کہ میں تمہا رے پاس خود سے نہیں آیا؛ بلکہ ایک کے بعد دوسرے خطوط مسلسل آتے رہے اور میرے پاس تمہارے نامہ بر آتے رہے کہ میں چلا آؤں کیونکہ ہمارے پاس کوئی رہبر موجود نہیں ہے، شاید آپ کی وجہ سے خدا ہمیں ہدایت پر یکجا کردے ۔اب اگر تم لوگ اپنے اس قول پر باقی ہو تو میں آگیا ہوں۔ اگر تم کوئی قابل اطمینان عہد ومیثاق پیش کرو گے تو میں تمہارے شہر میں آؤں گا اور اگر تم ایسا نہیں کرتے ہو اور میرا آنا تمہیں نا پسند ہے تومیں اسی جگہ پلٹ جاتا ہوں جدھرسے تمہاری طرف آیا ہوں۔
لیکن ان لوگوں نے امام علیہ السلام کی اس گفتار کا کوئی جواب نہ دیا اور موذن سے کہنے لگے : اقامت کہو تو موذن نے اقامت کہنا شروع کر دی ،حسین ( علیہ السلام) نے حر سے کہا :''أتریدأن تصلّ بأ صحابک''کیا تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتے ہو ؟ حر نے جواب دیا :نہیں ! آپ نماز پڑھائیں اور ہم لوگ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔ (امام) حسین ( علیہ السلام ) نے اور ان لوگوں نے ساتھ ساتھ نماز اداکی۔ نماز کے بعدامام علیہ السلام اپنے خیمے میں چلے گئے۔ خیمے میں پہنچتے ہی آپ کے اصحاب پر وانے کی طرح شمع کے اردگرد آکر بیٹھ گئے ۔ادھر حربھی اپنے خیموں کی طرف روانہ ہو گیا اور وہاں پہنچ کر اس خیمہ میں داخل ہواجو اس کے لئے لگایاگیا تھا ۔جب وہ خیمہ میں آیا تو اس کی فوج کے بعض افراد اس کے پاس آکر بیٹھ گئے اور دیگر فوجی انہیں صفوں میں پلٹ گئے جہاں وہ موجودتھے پھر اس نے ان بقیہ فوجیوں کو بھی وہیں لوٹادیا ۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے جانور کی لگام سنبھالی اور گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے اسی کے سایہ میں بیٹھ گئے۔
پھر جب عصر کا وقت آیا تو حسین (علیہ السلام )نے حکم دیاکہ کوچ کے لئے آمادہ ہوجائیں۔ اس حکم کے بعد اپنے مؤذن کو نماز عصر کے لئے اذان دینے کا حکم دیا ۔موذن نے اذان دی اور اقامت کہی،امام حسین ( علیہ السلام ) آگے بڑھے اور تمام لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز اداکی۔نماز ختم کرنے کے بعد آپ نے پھر حر کے لشکر کی طرف رخ کیا اور حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا :
''یاایھاالناس ! فانکم ان تتقواوتعرفوا الحق لاھلہ یکْن أرضیٰ للّہ ، ونحن أھل البیت أولیٰ بولاےةھٰذالامر علیکم من ھٰؤلاء المدعین مالیس لھم ، والسائرین فیکم بالجور والعدوان ! ان أنتم کرھتمونا وجھلتم حقنا ، وکان رأیکم غیر ما آتتن کتبکم وقدمت بہ علی ّ رسلکم انصرفت عنکم ! ''
اے لوگو! اگر تم تقوی اختیار کرو اور حق کو صاحب حق کے لئے پہچانو توخدا کو یہ چیز سب سے زیادہ راضی کرنے والی ہے ۔ ہم اہل بیت اس نظام کی سربراہی اورولایت کے لئے ان لوگوں سے زیادہ سزاوارہیں جو فقط اس حکومت کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں اور تم میں ظلم و جور وستم کو روا رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر ہم تم لوگوں کو ناپسند ہیں اور تم لوگ ہمارے حق سے جاہل ہو اورتم لوگوںکا نظریہ ان لوگوں کے بر خلاف ہے جو اپنے خطوط کے ذریعہ مجھے یہاں تک لائے ہیں اور میرے لئے قاصد بھیجے ہیں تو میں ابھی تم لوگوں کی طرف سے منصرف ہوکر پلٹ جاتا ہوں ۔
حربن یزیدنے کہا : خداکی قسم! ان خطو ط کے بارے میںہمیںکچھ بھی معلوم نہیںہے جن کاآ پ تذکرہ کررہے ہیں۔امام حسین علیہ السلام نے کہا :یا''عقبة بن سِمعان ! أخرج الخْرجین'' (١)
..............
١۔ یہ بات عنقریب بیان ہوگی کہ امام علیہ السلام جب دشمنوں کی درمیان روز عاشورا خطبہ دے رہے تھے اور ان پرحجت تمام کررہے تھے کہ ان لوگوں نے خود امام علیہ السلام علیہ السلا م کو خط لکھا ہے تو ان لوگوںنے کہا : آپ کیاکہہ رہے ہیں؟ ہم کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں . تو اس وقت حر نے کہا تھا : کیوں نہیں ! خدا کی قسم ہم لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور ہم ہی لوگ آپ کو یہاں لائے ہیں ، خدا باطل اور اہل باطل کا برا کرے، خدا کی قسم! میں دنیا کو آخرت پر اختیار نہیں کرسکتا یہ کہہ کر حر نے اپنے گھوڑے کو موڑ دیا اور امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں داخل ہوگیا۔( ص٢٥١)
اے عقبہ بن سمعان ! ذراخورجین نکالو! عقبہ بن سمعان نے خورجین نکالی تو وہ خطوط سے بھری تھی۔ امام علیہ السلام نے ان تمام خطوط کو ان لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا ۔
حرنے کہا: ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جنہوں نے آپ کوخط لکھا تھا؛ ہم کو تو فقط یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب ہمارا آپ سے سامنا ہو تو ہم کسی طرح آپ سے جدا نہ ہو ںیہاں تک کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں پیش کردیں ۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:'' الموت أدنی الیک من ذالک !'' تمہاری موت اس فکر سے زیادہ نزدیک ہے پھرآپ نے اپنے اصحاب سے کہا :'' قوموا فارکبوا! '' اٹھو اور سوار ہوجاؤ تو وہ سب سوار ہوگئے اور خواتین کے سوار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ سوار ہوکر جب یہ نورانی قافلہ چلنے لگا اورمدینہ کی طرف پلٹنے لگا تو حر کی فوج راستہ روک کر سامنے آکر کھڑی ہوگئی تو امام حسین علیہ السلام نے حرسے کہا :'' ثکلتک أُمک ! ماترید ؟'' تیری ماں تیرے غم میں عزادار ہو!تو کیا چاہتا ہے ؟
حرنے جواب دیا : ''اماواللّہ لو غیرک من العرب یقولھا لی'' خداکی قسم! اگر آپ کے علاوہ عرب میں کسی اور نے یہ جملہ کہاہوتا جو آپ نے مجھ سے کہا ہے اور اس حال میں ہوتا جس میں ابھی آپ ہیںتو میں بھی اسے نہ چھوڑتا اور اس کی ماں کو اس کے غم میں بیٹھادیتا او ر اس سے وہی کہتا جو مجھے کہناچاہیے لیکن خدا کی قسم! میری قدرت نہیں ہے کہ میں آپ کی مادر گرامی کے سلسلہ میں کچھ کہوں مگر یہ کہ ان کا تذکرہ جس قدر اچھائی سے ہوسکتا ہے وہی کرسکتا ہوں ۔(١) اما م حسین علیہ السلام نے دوبارہ حر سے پوچھا : فما ترید ؟ پس تم کیا چاہتے ہو ؟
حرنے کہا: ''أرید واللّٰہ ، أن أنطلق بک الیٰ عبیداللّٰہ بن زیاد '' خدا کی قسم میرا ارادہ یہ ہے کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے چلوں ۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ''اذن واللہ لا أتبعک'' ایسی صورت میں خدا کی قسم میں تمہاری ہمراہی نہیںکروں گا ۔
..............
١۔ اس واقعہ کو ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبیین کے ص٧٤،طبع نجف پر ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔
حرنے جواب دیا:'' اذن واللّٰہ لا أدعک'' ایسی صورت میں خدا کی قسم! میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا ۔
جب بات زیادہ ہوگئی اوردونوں کے درمیان اسی طرح رد وبدل ہونے لگی تو حر نے امام حسین علیہ السلام سے کہا :مجھے آپ سے جنگ کا حکم نہیں دیا گیا ہے، مجھ سے فقط یہ کہا گیا کہ آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں اور آپ کو کوفہ تک لے آوں۔ اب اگر آپ انکار کررہے ہیں تو ایک ایسا راستہ انتخا ب کیجیے جس سے آپ نہ کوفہ جاسکیں اور نہ ہی مدینہ پلٹ سکیں۔میرے خیال میں آپ کے اور ہمارے درمیان یہی منصفانہ رویہ ہوگا پھر میں عبیداللہ بن زیاد کو خط لکھ کر حالات سے آگاہ کروں گا اور آپ کی مرضی ہو گی تو یزید بن معاویہ کو خط لکھئے گا یا پھر عبیداللہ بن زیاد کو خط لکھئے شاید خداوند عالم کوئی ایسا راستہ نکال دے جس کی وجہ سے مجھ کو آپ سے درگیر ہونے سے نجات مل جائے۔
آپ یہاں سے عْذیب اور قادسیہ کے راستہ سے نکل جائیے (اس وقت آپ لوگ ذوحسم میں موجود تھے ) ذوحسم اور عذیب کے درمیان ٣٨میل کا فاصلہ تھا۔امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب اس راستہ پرروانہ ہوگئے اور حر بھی اسی راستہ پر چل پڑا۔(١)
بارہویں منزل : البیضة(٢)
اب یہ نورانی قافلہ نہ تو مدینہ کے راستے پر گامزن تھا۔اورنہ ہی کوفہ کی طرف اپنے قدم بڑھارہا تھابلکہ ایک تیسری طرف رواںدواںتھا ۔چلتے چلتے ایک منزل آئی جسے ''بیضہ '' کہتے ہیں۔یہاں پر حضرت نے اپنے اصحاب اور حرکے لشکر کو مخاطب کر کے ایک خطبہ دیا۔ حمد و ثنائے الہٰی کے بعد آپ نے فرمایا:
''ایھاالناس! ا نّ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ( وآلہ) وسلّم قال :'' من رأی سلطاناًجائر اً مستحلاً لحرم اللّٰہ،ناکثاً لعھد اللّٰہ ، مخالفاًلسنّة رسول اللّٰہ، یعمل فی عباداللّٰہ با لاثم والعدوان فلم یغےّر علیہ بفعل ولا قول ، کان حقاً علی اللّٰہ أن یدخلہ
..............
١۔ ہشام کے حوالے سے جوباتیں ہم بیان کررہے ہیں وہ یہاںپر ختم ہوجاتی ہیں۔( ارشاد،ص٢٢٥،الخواص ،ص ٢٣٢)
٢۔ یہ جگہ'' واقصہ'' اور'' عذیب الھجانات ''کے درمیان ہے ۔
مدخلہ''ألاوانّ ھولاء قد لزموا طاعة الشیطان وترکو ا طاعة الرحمٰن و أظھروا الفساد و عطّلواالحدود ، واستأ ثروا بالف ئ، وأحلوا حرام اللّٰہ و حرّموا حلال اللّٰہ وأنا أحق من غیری''
قد أتتن کتبکم وقد مت علی رسلکم ببیعتکم أنکم لا تسلمونی ولا تخذلون ، فان تممتم علی بیعتکم تصیبوا رشدکم ، فأنا الحسین بن عل وابن فاطمہ بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ (وآ لہ )وسلم نفسمع أنفسکم وأھل مع أھلیکم ، فلکم فیّ أسوة ، وان لم تفعلوا و نقضتم عھدکم ، وخلعتم بیعتی من أعناقکم فلعمرما ھی لکم بنکر ، لقدفعلتموھا بأب و أخ وابن عم مسلم !والمغرور من ا غترّبکم ؛ فحظکم أخطاتم،ونصیبکم ضےّعتم ''ومن نکث فانما ینکث علی نفسہ''(١) وسیغن اللّٰہ عنکم والسلام علیکم ورحمةاللّٰہ و برکاتہ'' (٢)
اے لوگو! رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی ایسے ستم گر حاکم کو دیکھے جو حرام خدا کو حلال سمجھتا ہو، الہٰی عہد وپیمان کو توڑنے والاہو ، اللہ کے رسول کی سنتوں کا مخالف ہو ، گناہ و ستم کے ساتھ بندگان خداسے پیش آتاہواور وہ ایسے پیکر ظلم وجور کے خلاف اپنے قول و فعل کے ذریعہ کوئی تغیر احوال کا اظہار نہ کرے تو خدا وند عالم کو حق حاصل ہے کہ ایسے شخص کو جہنم میںاسی ظالم کے ہمراہ داخل کردے ؛ آگاہ ہوجاؤ کہ ان لوگوں نے شیطان کی پیروی کرلی ہے اور رحمن کی اطاعت کو ترک کردیا ہے ، فساد کو آشکار ، حدود الٰہی کو معطل، انفال اور عوام الناس کے اموال کو غصب ، حلال خدا کو حرام اور حرام خداکو حلال بنادیا ہے اور میں اس راہ و روش کو بدلنے کے لئے سب سے زیادہ سزاوار ہوں ۔
تم لوگوں نے ہمیں خط لکھ کر بلایا ہے اور تمہارے نامہ بر تمہاری بیعتوں کے ساتھ میرے پاس آئے اور کہا: تم لوگ مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑوگے اور کبھی بھی میری مددو نصرت سے دست بردار نہیں
..............
١۔سورہ فتح ٨
٢۔ابومخنف نے عقبہ بن ابی عزار کے حوالے سے اس خبر کو نقل کیا ہے۔
ہوگے۔ اگر تم لوگ اپنے عہد وپیمان پر وفاداری کا ثبوت دیتے ہو تو رشد و سعادت تمہیں نصیب ہوگی کیونکہ میںحسین علی کا لال اور فاطمہ، دختر پیغمبر اسلام کافرزندہوں جس کی جان ،حق کی راہ میں تمہاری جانوں کے ساتھ ہے اور میرا گھرانہ تمہارے گھرانے کے ہمراہ ہے کیونکہ میں تم لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہوں اور اگر تم نے اپنے عہد وپیمان کو توڑدیا اور اپنی گردنوں سے ہماری بیعت کے قلادہ کو اتاردیا تو قسم ہے میری جان کی کہ یہ تمہارے لئے کوئی عارکی بات نہیں ہے؛ کیونکہ تم میرے بابا امیر المومنین اور میرے بھائی حسن اور چچا زاد بھائی مسلم کے ساتھ کر چکے ہو۔حقیقت تو یہ ہے کہ وہ شخص سخت فریب خوردہ ہے جو ان سب باتوں کے بعد تم لوگوں پر بھروسہ کرے ؛ تم لوگوں نے اپنی زندگی کے حصہ کو کم اور اپنے حقوق کو ضائع کردیا ہے۔ '' جو عہد کو توڑے گا وہ خوداپنے نقصان کے لئے عہد شکن ہوگا '' اور خدا تم لوگوں کی مددو نصرت سے بے نیاز ہے ۔ والسلام علیکم و رحمة اللہ وبراکاتہ
امام حسین علیہ السلام کے اس بصیرت افروز بیان کے بعد حر جو سفر میں آپ کے ہمراہ تھاآپ کے پاس آیا اور کہنے لگا :''یاحسین !انی أذکّرک اللّٰہ فی نفسک فانی اشھد لئن قاتلت لتُقْتَلَنَّ ولئن قوتلت لتھلکن فیما أریٰ'' اے حسین ! آپ کو خدا کی یاد دلاتا ہوں کہ آپ دوبارہ اپنے بارے میںفکر کریں!کیونکہ میں گواہ ہوں کہ میرے نظریہ کے مطابق اگر آپ نے ان لوگوں سے جنگ کی تو وہ لوگ آپ کو قتل کرڈالیں گے اور اگر آپ قتل کردئے گئے تو تباہ و برباد ہوجائیں گے ؛یہ سن کر امام حسین نے فرمایا : ''أفبالموت تخوّفن ! وھل یعدوبکم الخطب ان تقتلون ! ماأدری ما أقول لک ! ولکن أقول کما قال أخو الا وس لابن عمہ ولقیہ وھو یرید نصرة رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ ( وآلہ ) وسلم فقال لہ : این تذھب ؟ فانک مقتول! فقال:
سأمضی وما بالموت عار علی الفتٰی
اذا ما نوی حقاً وجاھدمسلماً
وآسی الرجال الصالحین بنفسہ
وفارق مثبوراً یغش و یرغماً (١)
..............
١۔ابن اثیر نے الکامل میں اور شیخ مفید نے ارشاد میں ص ٢٢٥پر ان اشعار کے علاوہ ایک شعر کا اور اضافہ کیا ہے ۔
فان عشت لم اندم وان مت لم الم
و کفی بک ذلاًان تعیش و ترغما
اگر میں زندہ رہا تو نادم نہیں ہوں گا اور اگر دنیا سے گزر گیا تو ملامت نہیں کیا جاؤں گا اور ذلت کے لئے یہی کافی ہے کہ تو زندہ رہے اور ذلیل ہو ۔
کیا تو مجھے موت سے ڈراتاہے ؟ کیا اس سے زیادہ کچھ ہوسکتا ہے کہ تم لوگوں کے بلانے پر میراآنا اور ظلم وستم کے خلاف میرانبرد آزماہونا سبب بنے گا کہ تم لوگ مجھے قتل کردوگے۔میں نہیں سمجھتا کہ میں تم سے کیا کہوں؛ لیکن میں وہی کہتا ہوںجو قبیلہ اوس کے ایک جوان نے اپنے چچازاد بھائی سے اس وقت کہا تھا جب وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مددونصرت کے لئے جارہا تھا۔ اس کے چچا زاد بھائی نے اس سے ملاقات کرتے ہوئے کہا : تم کہاں جارہے ہو ؟ مجھے یقین ہے کہ تم قتل ہوجاؤگے تو اس جوان مرد نے جواب دیا تھا :
میں تو پیغمبر خدا کی طرف جارہاہوں اور موت اس جوان کے لئے ننگ و عار نہیں ہے جس کی نیت حق اور جو ایک مسلمان کی حیثیت سے جہاد کے لئے جارہا ہو ،وہ نیک وصالح افراد کی مصیبت کا ہمراہی ہے اورا س سے جداہے جو ہلاک ہوچکا ہے اور اس کی زندگی ذلت و رسوائی کے ساتھ بسر ہورہی ہے ۔
جب حر نے یہ کلمات سنے تو کنارہ کش ہوگیا اور اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے ہمراہ ایک سمت میں چلنے لگے اور حر اپنے فوجیوں کے ساتھ دوسری طرف آگے بڑھنے لگا۔ چلتے چلتے یہ لوگ اس منزل تک پہنچ گئے جسے'' عذیب الھجانات'' کہتے ہیں ۔
تیرہویں منزل ؛'' عذیب الھجانات ''(١)
یہ قافلہ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق ''ذوحسم'' کے بعد ''بیضہ ''سے ہوتے ہوئے'' عذیب الھجانات'' تک پہنچا ۔وہاں یہ قافلہ ان چار سواروں سے روبروہوا جو کوفہ سے آرہے تھے جن کے راہنما طرماح بن عدی تھے۔ جب یہ لوگ امام حسین علیہ السلام کے پاس پہونچے تو اپنے گھوڑے پر سوار یہ اشعار پڑھ رہے تھے :
..............
١۔'' عذیب'' یہ بنی تمیم کی ایک گھاٹی ہے جو عراق کی سرحدہے۔ یہ جگہ ایرانیوں کے اسلحہ خانہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اس کے اور ''قادسیہ'' کے درمیان ٦میل کا فاصلہ ہے۔ علاقہ '' حیرہ '' کے سربراہ '' نعمان ''کے گھوڑے اسی جگہ پر چرائے جاتے تھے۔کہا جاتا ہے ھجانات ھجین کی جمع ہے جس کے معنی غیر اصل کے ہیں یعنی جو لوگ نجیب الطرفین نہ ہوں ۔
یا ناقتی لا تُذعری من زجری
و شمّری قبل طلوع الفجر
بخیر رکبان و خیر سفر
حتی تحلّی بکر یم النجر
الماجد الحرّ رحیب الصدر
اتنی بہ اللّہ لخیر أ مر
ثمّة أبقاہ بقاء الدھر
اے میرے ناقے! میرے جلدی جلدی چلنے پر خوف زدہ نہ ہو بلکہ تو تیز تیز چل تاکہ سپیدہ سحری تک تو بہترین سوار اور بہترین مسافر تک پہنچ جا؛ یہاں تک کہ اس ذات تک رسائی ہوجائے جس کا خاندان کریم ، بزرگ ، آزاد اور فراخ دل ہے؛جسے خداوندمتعال بہترین کام کے لئے یہاںلایا ہے، اسی لئے خدا اسے اس وقت تک باقی رکھے گا جب تک یہ دنیا اور زمانہ باقی ہے ۔
یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ''أما واللّٰہ اِنّ لأ رجوأن یکون خیراً ما أراداللّٰہ بنا قُتِلنا أو ظفرنا'' خدا کی قسم خدا وندعالم جو ہمارے لئے چاہتا ہے وہی ہما رے لئے خیر ہے؛ چاہے ہم قتل کر دیئے جائیں یا ظلم وستم کے خلاف ظفر یاب ہو جائیں ۔
یہ چار افراد چونکہ کوفہ سے آئے تھے اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مددو نصرت کا ارادہ رکھتے تھے لہٰذا حر بن یزیدسامنے آیا اور امام علیہ السلام سے کہا : یہ لوگ جو کوفہ سے آئے ہیں آپ کے ہمراہ نہیںتھے لہٰذا یا تو میں انھیں قید کرلوں یا کوفہ لو ٹا دوں ۔
تو امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : ل''أمنّعنہّم مما أمنع منہ نفس، انما ہولا ء أنصار وا عوانی وقد کنت أعطیتن ان لا تعرض ل بشیء حتی یاتیک کتاب من ابن زیاد''
میں ان کی جانب سے اسی طرح دفاع اور مما نعت کروں گا جس طرح اپنا دفاع اور اپنے سلسلے میں مما نعت کررہا ہوں؛ کیونکہ یہ میرے ناصر ومدد گار ہیں اور تم نے عہد وپیمان کیا ہے کہ جب تک تمہارے پاس ابن زیاد کا خط نہیں آجاتا اس وقت تک تم مجھ سے درگیر نہ ہو گے ۔
حرنے کہا: ٹھیک ہے لیکن یہ آپ کے ساتھ نہیں آئے ہیں ۔
امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : ''ہم أصحابی وہم بمنزلة من جاء مع فان تممت علیّ ما کان بین وبینک والا نا جز تک '' یہ میرے اصحاب ہیں اورانہیں لوگوں کی طرح ہیں جو میرے ساتھ آئے ہیں ۔اگرتم نے اس عہد وپیمان کو بر قراررکھا جو ہمارے اور تمہارے درمیان ہوا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم تمہارے سامنے میدان کا رزار میں اتر آئیں گے۔یہ سن کر حر ان لوگوں سے دست بردارہو گیا ۔
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام ان لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرما یا :'' أخبر ونی خبرالناس وراء کم '' جن لوگوں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبر سناؤ ۔
تو مجمّع بن عبد اللہ عائذی (١) جو انہیں چار میں سے ایک تھے اور کوفہ سے یہاں آئے تھے، نے آپ سے عرض کیا :'' أما ا شراف الناس فقد اُعظمت رشوتہم ومُلِئَت غرائر ہم ، یستمال ودّہم ویستخلص بہ نصیحتہم فہم ألب واحد علیک ! وأما سائرالناس بعد،فاِنَّ أفئد تہم تھو الیک وسیو فہم غداً مشہورة علیک'' اشراف اور سر برآوردہ افراد کو رشوت کی خطیر رقم دیدی گئی ہے، ان کے تھیلوں کو بھر دیا گیاہے، اس طرح سے ان کی خیر خواہی کواپنی طرف متوجہ کر لیا گیا ہے اور ان کو اپنا محبوب بنا لیا گیاہے۔ یہ گروہ وہ ہے جو آپ کے خلاف دشمن کے ہمراہ ہے اور بقیہ لوگ وہ ہیں جن کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلوار یں کل آپ کے خلاف کھنچی ہوںگی ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا :'' أخبرونی فہل لکم برسول الیکم ؟'' کیا میرا کوئی پیغام رسان تم تک پہنچا ہے ؟ تو ان لوگوں نے پو چھا : کس پیغام رساں کی بات کررہے ہیں ؟ امام حسین نے فر مایا : قیس بن مسہر صیداوی ان لوگوں نے جواب دیا : ہاں !ان کو حصین بن تمیم نے گرفتار کر کے عبید اللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔جب وہ وہاں پہنچے تو عبیداللہ نے انھیں حکم دیا کہ وہ آپ اور آپ کے بابا پر لعنت بھیجیں۔ انھوں نے آپ پر اور آپ کے بابا پر درود سلام بھیجا ، ابن زیاد اور اس کے باپ پر لعنت بھیجی، لوگوں کو آپ کی مدد و نصرت کے لئے بلایا اور انھیں خبر دی کہ آپ آرہے ہیں ۔اس حالت کو دیکھ کر ابن زیاد نے حکم دیا کہ انھیں چھت پر سے نیچے پھینک دیا جائے لہذا آپ کودار الامارہ کے چھت سے نیچے پھینک دیاگیا ۔
..............
١ ۔شاید یہ چار لوگ ، جابر بن حارث سلمانی ، عمروبن خالد صید اوی اور سعد کا غلام ہوں جنکے بارے میں ابو مخنف کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے جنگ کے پہلے ہی مرحلہ میں مقاتلہ کیا اور ایک ہی جگہ شہید ہوگئے ۔(طبری، ج٥ ،ص٤٤٦)
یہ جملہ سننے کے بعد امام حسین علیہ السلام کی آنکھیں آنسؤں سے ڈبڈباگئیںاور آپ کسی طرح اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکے پھر آپ نے فرمایا : ''مِنْھْمْ مَنْ قَضَیٰ نحبہ وَ مِنْھْمْ مَنْ ےَنْتَظِرْوَ مَا بَدَّلْوْا تَبْدِےْلَا ً ''(١)اللّھم اجعل لنا ولھم الجنةنزلاً واجمع بینناوبینھم فی مستقر رحمتک ورغائب مذخورثوابک ''ان میں سے بعض وہ ہیں جو (قربانی دے کر)اپنا عہد وفاکرگئے اور ان میں سے بعض (حکم خداکے) انتظار میں بیٹھے ہیں اور ان لوگوں نے ( اپنا موقف) ذرا بھی نہیں تبدیل کیا ، خدایا ! بہشت کو ہمارے اور ان کے نزول کی جگہ قرار دے اور اپنی رحمتوں کی جایگاہ میں ہمیں اور انھیں یکجا کردے اوراپنے بہترین ثواب کے ذخیرہ سے بہرہ مند فرما! (٢)اس دعا کے بعد طرماح بن عدی امام حسین علیہ السلام کے قریب آئے اور عرض کی :'' أنّی واللّٰہ لا نظر فماأری معک أحداً ولو لم یقاتلک الا ھؤلاء الذین أراھم ملا زمیک لکان کفیٰ بھم وقد رأیت قبل خروج من الکوفة الیک بیوم ظھر الکوفة،و فیہ من الناس مالم ترعینا فی صعید واحدجمعاًاکثرمنہ ، فسألتْ عنھم ، فقیل : اجتمعوا لیعرضوا ثم یسرّحون الی الحسین ، فأنشدک ان قدرت علی أن لا تقدم علیھم شبراً الافعلت ! فان أردت أن تنزل بلداً یمنعک اللّٰہ بہ حتی تری من رأیک و یستبین لک ماأنت صانع ، فسرحتی أنزلک مناع جبلنا الذی یدعی ''أ جا ئ''(٣)فأسیر معک حتی أنزلک القُرَےّةَ''(٤)
خدا کی قسم میں جو دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ آ پ کے سا تھ زیادہ یار و مدد گا ر نہیں ہیں اور اگر انہیں لوگوں کے علاوہ جنہیں میں ساتھ ساتھ دیکھ رہا ہوں کوئی اور نہ ہو ا تو یہی لوگ ان کے لئے کافی ہیں۔ کوفہ
..............
١۔سورہ احزاب٢٣
٢۔ ابو مخنف کابیان ہے کہ عقبہ بن ابی عیزار نے یہ واقعہ بیان کیا ہے۔( طبری ،ج٥، ص ٤٠٣ ، ارشاد ، ص ٢٢٥ ، طبع نجف )
٣۔یہ ایک شخص کا نام ہے جس کے نام پرعلاقہ طئی کا پہاڑ موسوم ہے۔ یہ طئی کے مغربی علاقہ میں سمیرا ء پہاڑ کے بائیں جانب ہے ۔
٤۔یہ قریہ کی اسم تصغیر ہے اور طی کے علاقہ میں ایک جگہ کا نام ہے ۔
سے نکل کر آپ کی طرف آنے سے ایک دن قبل میں نے کوفہ کے پیچھے بہت سارے لوگوں کودیکھا جس سے پہلے ایک ہی جگہ پرمیں نے اتنا جم غفیر نہیں دیکھا تھا۔میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہ مجمع کیسا ہے ؟کسی نے کہا یہ لوگ اس لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ فوجی ٹریننگ لے سکیں اور پھر حسین سے جنگ کے لئے کوچ کریں لہٰذا میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ اگر آپ قادر ہیں تو ایک بالشت بھی ان لوگوں کی طرف نہ بڑھیں ۔ اگر چاہتے ہیں کہ کسی ایسے شہر میں جائیں جہاں خدا آپ کی جان کو ان ظالموں کے چنگل سے نجات دیدے اور پھر آپ دیکھیں کہ آپ کا منشاء کیا ہے اور آپ کے لئے موقعیت پوری طرح واضح ہوجائے تو آپ ہمارے ساتھ چلیں تاکہ ہم آپ کو اپنی طرف ایک پہاڑی علاقہ میںاتار دیں جہاں کوئی پر بھی نہیں مار سکتا، جسے ''آجائ'' کہتے ہیں۔میں وہاں تک آپ کے ساتھ چلوں گا اور آپ کو وہاں کے ایک گاؤں میں جس کا نام ' ' قر یہّ'' ہے اتار دوں گا ۔
امام حسین علیہ السلام نے ان سے فرمایا :'' جزاک اللّہ وقومک خیراً ! انہ قد کان بیننا وبین ہٰؤ لاء القوم قول لسنا نقدرمعہ علی الا نصراف ولا ندری علام تنصرف بنا وبہم الاُمور فی عاقبة !''خدا تمہیں اور تمہاری قوم کو جزائے خیر دے!حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان ایک قول وقرارہے جس کی وجہ سے ہم ان سے جدا نہیں ہو سکتے اور ہمیں یہ نہیں معلوم کہ عاقبت کار ہمارے اور ان کے امور کو کہاں لے جائے گی۔
طر ّماح کا بیان ہے کہ یہ سننے کے بعد میں نے ان کو الوداع کیا اور کہا: خدا آپ کو جن ّ وانس کے شر سے دور رکھے (١) اور حسین( علیہ ا لسلام ) آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ قصر بنی مقاتل تک پہنچ گئے ۔
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ جمیل بن مرید نے طر مّاح کے حوالے سے مجھ کو یہ خبر دی ہے۔( طبری ،ج٥، ص٤٠٦ ) اور پوری خبر یہ ہے کہ طرمّاح کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : میں نے کوفہ سے اپنے گھر والوں کے لئے کچھ آذوقہ فراہم کیا ہے جن کا نفقہ مجھ پر واجب ہے لہذامیں وہاں پہنچ کر اسے رکھ کر انشاء اللہ فوراً آپ کی طرف پلٹ رہا ہوں ۔اگر میں آپ سے ملحق ہو گیا تو خدا کی قسم میں ضرور آپ کی مدد کرنے والا ہوں گا ۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ایسا کرناچاہتے ہو تو جلدی کرو اللہ تم پر رحمت نازل فرمائے ! طر ماح کہتے ہیں : جب میں اپنے گھر والوں کے پاس پہنچا تو آذوقہ ان کے پاس رکھا ، جو چیز ان کے لئے ضروری اور ان کی بہتری میں تھی اسے وہاںفراہم کیا اور ان سے وصیت کی پھر اپنے ارادہ کو ان کے سامنے پیش کر کے فوراً لوٹ گیا یہاں تک کہ جب میں'' عذیب الہجانات'' تک پہنچا تو سماعہ بن بدر نے امام علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنائی تو میںواپس پلٹ گیا۔ ( طبری ،ج٥ ، ٤٠٦ )
چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل (١)
''عذیب الہجا نات ''سے چل کر حسین بن علی علیہ الصلوٰة والسلام قصر بنی مقاتل تک پہنچے۔ وہاں آپ نے پڑاؤ ڈالاتو دیکھاکہ وہاں ایک خیمہ لگا ہواہے، (٢) امام علیہ السلام نے فرمایا :'' لمن ھٰذا الفسطاط''یہ خیمہ کس کا ہے ؟ تو کسی نے کہا : عبید اللہ بن حر جعفی(٣) کا خیمہ ہے ۔ امام علیہ السلا م نے فرمایا :'' ادعو ہ لی'' اسے میرے پاس بلاؤ، پھر ایک پیغام ر ساں کو اس کے پاس روانہ کیا ،جب وہ پیغام رساںوہاں پہنچا تو اس نے کہا : یہ حسین بن علی ہیں جو تم کو بلارہے ہیں ، عبیداللہ بن حر جعفی نے کہا :'' انّاللّٰہ واناالیہ راجعون '' خدا کی قسم میں کوفہ سے نکلا تو مجھے یہ گوارا نہیں تھا کہ کسی جگہ حسین سے ملاقات ہو ، واللہ میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھے دیکھیں یا میں ان کو دیکھوں۔ پیغام رساں واپس پلٹا اور اس نے آکر امام کو اس کے بارے میں خبر دی۔
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام خود اٹھے، نعلین منگوائی،اسے پہن کر کھڑے ہوئے اوربنفس نفیس اس کے پاس گئے ،خیمہ میںداخل ہوکر اسے سلام کیا پھر اسے اپنے ساتھ قیام کی دعوت د ی تو ابن حرنے اپنی با توںکو پھردھرایا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :'' فان لا تنصرنا فاتّق اللّٰہ أن تکون ممن یقاتلنا فواللّٰہ لا یسمع واعیتنا أحد ثم لا ینصرنا الا ہلک'' اگر تم میری مدد نہیں کرناچاہتے ہوتو خدا سے خوف کھا ؤ کہ کہیں مجھ سے جنگ کرنے والوں میں نہ ہو جاؤ ؛کیو نکہ خدا کی قسم کو ئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو میری فریا دسن کر میری مدد نہ کرے مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو جائے گا ۔یہ کہہ کر آپ اس کے پاس سے اٹھ کر چلے آئے۔ (٤)
..............
١۔ معجم میں ہے کہ یہ جگہ چند دیہا توں اور'' قطقطا نہ'' اور'' عین التمر'' کے درمیان واقع ہے۔
٢۔ ابو مخنف نے اس طرح بیان کیا ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٠٧ )
٣۔اس شخص کے حالات کتاب کے آخری حصہ میں بیان کئے جائیں گے۔
٤۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے مجالد بن سعید نے عامر شعبی سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص٤٠٧ ، ارشاد ص، ٢٢٦)
عقبہ بن سمعان کا بیان ہے کہ رات کے آخری حصہ میں امام حسین (علیہ السلام ) نے پا نی بھر نے کا حکم دیا اور جب چھاگلیں بھری جا چکیں تو آپ نے ہم لوگوں کو کوچ کر نے کا حکم دیا اور ہم نے وہی کیا۔ جب ہم لوگ'' قصر بنی مقاتل ''سے کوچ کررہے تھے اور ہمارا سفر جاری تھا تو کچھ دیر کے لئے حسین کی آنکھ لگ گئی ،جب آنکھ کھلی تو آپ یہ فر مارہے تھے:'' انا للّٰہ واناالیہ راجعون والحمد للّٰہ رب العا لمین'' اس جملہ کی آپ نے دو یا تین مرتبہ تکر ار فرما ئی ، یہ سن کر آپ کے فرزند علی بن حسین ( علیہ السلام) آگے بڑھے جو اپنے گھوڑے پر سوارتھے اور آپ نے بھی اپنے بابا کے جملہ کی تکرار'' اناللّٰہ واناالیہ راجعون والحمد للّہ رب العالمین'' کرتے ہوئے فرمایا :''یا ابت جُعلت فداک ممّ حمد ت واستر جعت''بابا جان! آپ پر میری جان قربان ہو،کیا سبب ہو اکہ آپ نے یکبارگی حمد الہٰی کی اور زبان پر کلمۂ استرجاع جاری کیا ؟
امام علیہ السلام نے جواب دیا: ''یا بُن ان خفقت برأس خفقة فعنّ ل فارس علی فرس فقال : القوم یسیرون والمنایا تسر الیھم ، فعلمت أنھا أنفسنا نعیت الینا !'' اے میرے لال !تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگ گئی تھی تو میں نے خواب کے عالم میں دیکھا کہ ایک گھوڑ سوار میرے سامنے نمودارہوا اور اس نے کہا یہ قوم آگے بڑھ رہی ہے اور موت ان کے پیچھے پیچھے چل رہی ہے ،اس سے مجھ کو معلوم ہوگیا یہ مجھے میری شہادت کی خبر دے رہاہے۔
علی بن حسین علیہ السلام :''یاأبت لا أراک اللّٰہ سوئً۔ السنا علی الحق؟''اے بابا ! میں نہیں سمجھتا کہ اللہ آپ کے لئے برا کرے گا کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟
امام حسین علیہ السلام :'' بلیٰ والذی الیہ مرجع العباد ! ''کیوں نہیں ( ہم ہی حق پر ہیں) قسم ہے اس ذات کی جس کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔
علی بن الحسین : ''یاأبت اذاًلا نبالی ، نموت محقین''بابا جان ایسی صورت میںہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے کیوں کہ ہماری موت حق پر ہے ۔
امام حسین : جزاک اللّٰہ من ولد خیر ماجزی ولداً عن والدہ ، خداوند متعال تمہیں وہ بہترین جزا دے جو باپ کی دعا سے بیٹے کو نصیب ہوتی ہے ۔
اسی گفتگو کے درمیان کچھ دیر کے بعد سپیدہ سحری نمودار ہوئی ۔ آپ نے صبح کی نماز ادا کی اور دوبارہ جلدی سے سب اپنی اپنی سواریوں پر بیٹھ گئے اورآپ اپنے اصحاب کو اس سر زمین کے بائیں جانب چلنے کا اشارہ کیا تاکہ انہیں لشکر حر سے جدا اور متفرق کر سکیںلیکن حر بن یزید کی جستجو یہ تھی کہ آپ کوکسی طرح کوفہ سے نزدیک کردے لہٰذا وہ آپ لوگوں کو پراکندہ ہونے سے روک کر واپس پلٹانے لگا اور کوفہ کی طرف شدت سے نزدیک کرنے لگا،اصحاب حسینی نے اس سے ممانعت کی اوران لوگوں کو دور ہٹاتے رہے اور آپ اسی طرح اپنے چاہنے والوں کو بائیں طرف کرتے رہے اور اسی کشمکش میں نینوا آگیا ۔
قربان گاہ عشق :نینوا(١)
چودہ منزلیں ختم ہوچکی تھیںحسین بن علی (علیہما السلام ) نینوامیں اترچکے تھے کہ یکایک ایک سوار اصیل و نجیب گھوڑے پر سوار ، اسلحوں سے لیث اور دوش پر کمان ڈالے کوفہ کی طرف سے نمودار ہوا سب کے سب کھڑے اس کاانتظار کرنے لگے؛ جب وہ نزدیک آیا تو اس نے حر اور اس کے لشکر والوں کو سلام کیا لیکن حسین اور ان کے اصحاب کو سلام نہیں کیا پھر اس نے عبیداللہ بن زیا دکا خط حر کو پیش کردیا اس خط میں یہ عبارت موجود تھی ۔
اما بعد، فجعجع (٢)بالحسین حین یبلغک کتاب ویقدم علیک رسول ، فلا تنزلہ الا بالعراء فی غیر حصن وعلی غیر ما ء و قد امرت رسول أن یلزمک ولا یفارقک حتی یاتین بأنفاذک امر، والسلام ''
..............
١۔ یہ کربلا کاایک علاقہ ہے جو اواخر قرن دوم تک آباد رہا۔
٢۔ ابن منظور نے لسان العرب میں اصمعی سے نقل کیا ہے :'' جعجع ای احبسہ'' جعجع کے معنی یہ ہیں کہ قید کرلو اور ابن فارس نے مقاییس اللغة، ج ١ ،ص ٤١٦ پر لکھا ہے : ''ای الجئہ الی مکان خشن'' یعنی انھیں ایک بے آب و گیاہ علاقہ میں ٹھہراؤ ۔
اما بعد، جیسے ہی نامہ برتمہارے پاس یہ خط لے کر میرا پہنچے حسین کو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں روک لو اور میں نے اپنے فرستادہ کو حکم دیا ہے کہ وہ تم سے جدا نہ ہو اور تمہاری مراقبت میں رہے یہاں تک کہ واپس لوٹ کر مجھے خبر دے کے تم نے میرے حکم کو نافذ کیا ہے۔ والسلام
جب حر نے خط پڑھا تو یہ خط لے کر وہ اس نورانی قافلہ کے پاس آیا اور کہنے لگا : یہ امیر عبیداللہ بن زیاد کا خط ہے جس میں اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو وہیں پر قید رکھوں جہاں پر اس کا خط مجھے ملا ہے اور یہ اس کا قاصداور فرستادہ ہے جسے اس نے حکم دیا ہے کہ وہ مجھ سے جدا نہ ہو یہاں تک کہ میں اس کے منشاء اور حکم کو نافذ کردوں۔
یہ سن کر یزید بن زیاد مہاصر کندی بہدلی (١)معروف بہ شعثاء نے عبیداللہ بن زیاد کے پیغام رساں کو غورسے دیکھااور اس کے سا منے خود کونمایاں کر کے کہا : کیا تو مالک بنُ نسیر بدّی (٢) ہے !( جس کاتعلق قبیلۂ کندہ سے ہے ) ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہاں ! اس پر یزید بن زیا د معروف بہ شعثاء نے اس سے کہا : تیری ماں تیرے غم میںبیٹھے ! یہ تو کیا لے کر آیا ہے ؟
..............
١۔ آپ کا شمار امام حسین علیہ السلام کے لشکر کے تیر اندزوں میں ہوتا ہے اورآپ حملۂ اولی میں شہید ہونے والوں میں سے ہیں۔ آپ نے سو تیر چلائے اور اس کے بعد کھڑے ہوکر کہنے لگے : ان تیروں میں سے ابھی فقط پانچ ہی تیر ہدف پر لگے ہیں اور میرے لئے واضح یہی ہے کہ میں نے پانچ لوگوں کوقتل کیا ہے۔ ابو مخنف ہی نے فضیل بن خدیج کندی سے روایت نقل کی ہے کہ یزید بن زیاد عمر بن سعد کے ہمراہ نکلا تھا لیکن جب حسین علیہ السلام کے ساتھ صلح کی پیش کش ان لوگوں نے ٹھکرادی تو یہ امام علیہ السلام کی طرف چلے آئے اور دشمنوں سے خوب خوب دادشجاعت لی یہاں تک کہ شہید ہوگئے لیکن یہ خبر اوپروالی خبر سے موافقت نہیںرکھتی ۔
٢۔ مالک بن نسیر قبیلہء بنی بْداَء سے متعلق تھا۔ یہ کربلا میں موجود تھا ۔ اس نے امام علیہ السلام کے سر پر تلوار سے ضربت لگائی جس سے آپ کی برنس کٹ گئی اور تلوار آپ کے سر تک پہنچ گئی جس نے آپ کو خون میں غلطاں کردیا ۔اس حالت میںامام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا :'' لا أکلت بھا ولا شربت بھا وحشرک اللہ مع الظالمیں'' تو اس کی وجہ سے نہ کھا پائے اورنہ پی پائے اور خدا تجھے ظالموں کے ساتھ محشور کرے ۔
شہادت کے بعد مالک بن نسیر آپ کی برنس لے کر چلا گیا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ ساری زندگی فقیر رہا یہاں تک کہ مرگیا ۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٤٨) یہ واقعہ ابی مخنف سے مروی ہے۔ '' برنس '' عربی کا ایک غیر مانوس کلمہ ہے۔ یہ ایک لمبی ٹوپی ہے جو روئی سے بنتی ہے اسے نصاریٰ کے عبادت گزار افراد پہنا کرتے تھے۔ صد ر اسلام میںمسلمان عبادت گزار افراد بھی اسے پہنا کرتے تھے جیسا کہ مجمع البحرین میں ہے نیز ابو مخنف نے روایت کی ہے کہ عبد اللہ بن دبّا س نے مختار کو ان لوگوں کا پتہ بتا یا جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا تھا۔انھیں میں سے ایک مالک بن نسیر َبدّی بھی تھا۔ مختار نے فوراً ان قاتلوں کی سمت مالک بن عمرو نہدی کو بھیجا ۔جب مالک بن عمر ووہاں آئے اور وہ سب کے سب قادسیہ میں موجود تھے مالک بن عمرونے ان سب کو گرفتار کرلیا اور ان کو لے کر مختار کے پاس آئے۔ جب یہ قاتلین وہاں پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ مختار نے اس بدّی سے پوچھا : تو ہی وہ ہے جو امام کی برنس لے گیا تھا ؟ تو عبد اللہ بن کامل نے کہا : ہاںیہ وہی ہے . یہ سن کر مختار نے کہا : اس کے دونوں ہاتھ پیر کاٹ دو اور چھوڑ دو تاکہ یہ تڑپے اور مضطرب ہو یہاں تک کہ مرجائے۔ اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا اور اسے چھوڑ دیا گیا تو اس کا خون مسلسل بہتا رہا یہاں تک کہ وہ مرگیا ۔یہ ٦٦ھ کا زمانہ تھا۔ (طبری، ج٦، ص ٥٧)
مالک بن نسیرنے کہا : میں کچھ بھی لے کر نہیں آیا،میں نے توفقط اپنے امام کی اطاعت اور اپنی بیعت پر وفاداری کا ثبوت پیش کیا ہے ۔
شعثاء نے اس کا جواب دیا : تو نے اپنے رب کی معصیت اور اپنے نفس کی ہلا کت میں اپنے رہبر کی اطاعت کی ہے اور یہ فعل انجام دے کر تو نے ذلت ورسوائی اور جہنم کی آگ کو حاصل کیا ہے کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:'' وَ جَعَلْنَاھْمْ اَ ئِمَّةً ےَدْعْوْنَ اِلیَ النَّارِ وَےَوْمَ القِےَامَةِ لَاےْنْصَرْوْنَ''(١)
ہم نے ان کو گمراہوں کا پیشوا بنایاجو لوگو ں کو جہنم کی طرف بلا تے ہیں اور قیامت کے دن (ایسے بے کس ہوں گے کہ ) ان کو ( کسی طرح ) کی مدد نہ دی جائے گی۔ اور وہ تیرا پیشوا ہے ۔
اس کے بعد حر بن یزید ریاحی حسینی قافلہ کو ایسی ہی جگہ پرا تارنے کی کوشش کرنے لگاجہاں نہ پانی تھا اور نہ ہی کوئی قریہ و دیہات (٢)لہذا ان لوگوں نے فرمایا کہ ہمیں چھوڑ دو تاکہ ہم اس قریہ میں چلے
..............
١۔ سورہ قصص آیت ٤١
٢۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کر بلا کسی ایک دیہات اور قریہ کا نام نہیں تھا بلکہ یہ ایک علاقہ تھا جس کے تحت چند قریہ اور دیہات آتے تھے جیسا کہ کتاب '' الدلا ئل والمسائل ''( سید ہبة الدین شہر ستانی) میں موجود ہے۔سبط بن جوزی نے کہا : پھر (امام ) حسین ( علیہ السلام) نے فرمایا :'' ما یقول ھٰذہ الارض'' اس زمین کو کیا کہتے ہیں تو لوگوں نے کہا : اسے کربلا کہتے ہیںاوراسے نینوی بھی کہا جاتا ہے جو اسی کا ایک قریہ ہے۔ یہ سن کر آپ رو نے لگے اور فرمایا:'' کرب وبلا ''یہ کرب وبلا ہے پھر فرمایا : ''اخبرتن ِام سلمة قالت'' مجھ کو ام سلمیٰ نے خبر دی ہے وہ کہتی ہیں کہ'' کان جبرئیل عند رسول اللّہ وانت مع''جبرئیل رسول اللہ کے پاس تھے اور تم میرے ہمراہ تھے'' فبکیت فقال رسول اللّہ : دع ابن فترکتک فاخذک ومنعک فی حجر ہ ''تو تم رونے لگے رسول خدا ۖنے فرمایا : میرے فرزند کو چھوڑ دو۔ میںنے تم کو چھوڑ دیا تونبی اللہ نے تم کو پکڑا اور اپنی گودی میں بیٹھا لیا۔'' فقال جبرئیل : أتحبہ ؟ قال : نعم ! قال : فان أ متک ستقتلہ'' جبرئیل نے پوچھا : کیا آپ اس بچے سے محبت کرتے ہیں تو خدا کے نبی نے جواب دیا : ہاں ! جبرئیل نے کہا : آپ کی امت اس بچے کو شہید کردے گی ۔'' وان شئت أن اْریک تربة أرضہ الت یقتل فیھا ؟ قال : نعم'' اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس زمیں کی مٹی دکھا دوں جس میں یہ قتل کئے جائیں گے توخدا کے نبی نے فرمایا : ہاں ! ام سلمیٰ کہتی ہیں :'' فبسط جبرئیل جنا حہ علی أرض کربلا ء فأراہ ایاہ ثم شمھا وقال: ھٰذہ واللّٰہ ھی الارض التی أخبر بھا جبرئیل رسول اللّٰہ وانن اقتل فیھا''جبرئیل نے زمین کربلا پر اپنے پر پھیلا ئے اور وہ زمین نبی خدا کو دکھا دی ؛. پھر امام حسین علیہ السلام نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا : خدا کی قسم یہی وہ زمین ہے جس
کی خبر جبرئیل نے رسول اللہ کو دی تھی اور میں یہیں قتل کیا جاؤں گا۔سبط بن جوزی کہتے ہیں: ابن سعد نے طبقات میں واقدی کے حوالے سے اسی معنی کو ذکر کیا ہے پھرسبط بن جوزی نے کہا : ابن سعدنے شعبی کے حوالے سے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس نے کہا : جب صفین کے راستے میںعلی علیہ السلام کا کربلا سے گزر ہوا اور آ پ نینوا( فرات کے نزدیک قریہ ہے ) کے قریب پہنچے تو وہاں رکے اور اپنے پانی لانے والے اور طہارت کے امور انجام دینے والے فرد کو آواز دی اور فرمایا : اے ابو عبداللہ مجھے خبر دو کہ اس زمین کوکیا کہتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا : اسے کربلاکہتے ہیں ، یہ سن کر آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور آپ اتنا روئے کہ وہاں کی زمین آپ کے آنسوؤں سے تر ہوگئی پھر فرمایا :'' دخلت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وھو یبک فقلت لہ : ما یبکیک؟'' میں ایک دن رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حا ضر ہواتو دیکھا رورہے ہیں؛ میں نے فوراً آنحضرتۖ سے سوال کیا : آپ کو کس چیز نے رلادیا ؟ آنحضرت ۖنے جواب دیا : ''کان عندی جبرئیل آنفاً و اخبر نی ؛ ان ولدی الحسین علیہ السلام یقتل بشط الفرات بموضع یقال لہ کربلا ئ'' ابھی ابھی جبرئیل میرے پاس موجود تھے، انھوں نے مجھے خبر دی کہ میرافرزند حسین فرات کے کنارے اس جگہ پر قتل کیا جائے گا جسے کربلاکہتے ہیں ۔'' ثم قبض جبرئیل قبضة من تراب فشمنی ایاھا فلم أملک عینی ان فا ضتا ''پھر جبرئیل نے وہاں کی ایک مٹھی خاک اٹھائی جس کو میں نے سونگھا اس کا اثر یہ ہوا کہ میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پا سکا اور سیل اشک جاری ہوگئے ، پھر کہتے ہیں :'' حسن بن کثیر'' اور'' عبد خیر'' نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے: جب علی علیہ السلام کربلا پہنچے تو وہاں رکے اور گریہ کیا اور فرمایا : ''بابی اغلیمة یقتلون ھاھنا،ھٰذا مناخ رکابھم ، ھٰذا موضع رحالھم ، ھٰذا مصرع الرجال ثم ازداد بکاء ہ'' میرے باپ ان جوانوں پر قربان ہوجائیں جو یہاں قتل کئے جائیں گے ۔یہیں پر ان کی قیام گاہ ہوگی اور وہ اپنی رکابوں سے نیچے آئیں گے، یہی ان کے ٹھہرنے کی جگہ ہے، یہی ان کے مردوں کی قتل گاہ ہے، یہ کہتے کہتے آپ کی آنکھوں سے آنسوابل پڑے اور آپ شدت سے رونے لگے۔( تذکرة الخواص ،ص ٢٥٠ ،طبع نجف ) نصربن مزاحم نے اس خبر کو چار طریقوں سے بیان کیا ہے۔ ( صفین ،ص٢٤٠ ، ١٤٢ ،طبع ہارون)
جائیں جسے نینوا کہتے ہیں یا اس دیہات میں چلے جائیں جسے غاضر یہ (١)کہتے ہیںیاایک دوسرے قریہ میں جانے دو جسے شفیہ کہتے ہیں (٢) لیکن حرنے تمام درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا : نہیں خدا کی قسم میں ایسا کرنے پر قادر نہیں ہوں ، یہ شخص میرے پاس جاسوس بناکر بھیجا گیا ہے ۔
..............
١۔ غاضریہ، غاضر کی طرف منسوب ہے جو قبیلہ بنی اسد کا ایک شخص ہے۔ یہ زمین ابھی عون کی قبر کے آس پاس ہے جو کربلا سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر ہے وہاں ایک قلعہ کے آثار موجود ہیں جو قلعہ بنی اسد کے نام سے معروف ہے ۔
٢۔ یہ بھی کربلا کے نزدیک بنی اسد کے کنویں کا مقام ہے ۔
اس بے ادبی پرزہیر بن قین ، امام علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہنے لگے :''یابن رسول اللّٰہ، ان قتال ھولاء أھون من قتال مَن یاتینا من بعدھم ، فلعمری لیاتینا من بعد من تری مالا قبل لنا بہ'' اے فرزند رسولخدا ! ان لوگوں سے ابھی جنگ آسان ہوگی بہ نسبت اُن لوگوں کے جو اِن کے بعد آئیں گے۔ قسم ہے مجھے اپنی جان کی اس کے بعدہماری طرف اتنے لوگ آئیں گے جن کا اس سے پہلے ہم سے کوئی سابقہ نہ ہواہو گا ۔زہیر کے یہ جملے سن کر امام علیہ السلام نے ا ن سے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جوان کے سابقہ بزرگوں کی سیرت کا بیان گر ہے۔ آپ نے فرمایا : ''ماکنت لٔابدأ ھم با لقتال'' میں ان سے جنگ کی ابتداء کرنا نہیں چاہتا اس پر زہیر بن قین نے کہا : تو پھر اس کی اجازت فرمائیے کہ ہم اس قریہ کی طرف چلیں اور وہاں پہنچ کر پڑاؤ ڈالیں کیونکہ یہ قریہ سرسبزو شاداب ہے اور دریائے فرات کے کنارے ہے۔ اگران لوگوں نے ہمیں روکا تو ہم ان سے نبرد آزمائی کریں گے کیونکہ ان سے نبرد آزماہونا آسان ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جو ان کے بعد آئیں گے۔ اس پر امام علیہ السلام نے پوچھا :''وأےة قرےة ھی ؟ ''یہ کون سا قریہ ہے ؟ زہیر نے کہا : ''ھی العقر''اس کانام عقر ہے (١) تو امام علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ''اللّٰھم انی أعوذبک من العقر'' خدا یا !میں عقر سے تیری پناہ مانگتاہوں، پھر آپ نے وہیں اپنے قافلہ کو اتارا۔ یہ جمعرات دوسری محرم ٦١ ھ کا واقعہ ہے جب دوسرا دن نمودار ہواتو سعد بن ابی وقاص (٢)کا بیٹاعمر کوفہ سے چار ہزار فوج لے کر کربلا پہنچ گیا ۔
..............
١۔ بابل کے دیہات میں ایک جگہ ہے جہاں بنو خذنصر( یہ وہی بخت النصر معروف ہے جس کا صحیح تلفظ بنو خذ نصر ہے) رہاکرتے تھے اس علاقہ کو شروع میں کوربابل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا بعد میں کثرت استعمال کی وجہ سے تصحیف ہو کر کربلا کہا جانے لگا ۔
٢۔ مذکورہ شخص کے احوال گذر چکے ہیں ۔
|