واقعۂ کربلا
 

امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کی آخری گفتگو
عبد اللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ ہم دونوں حج کی غرض سے مکہ روانہ ہو ئے اور یوم ترویہ وارد مکہ ہو ئے۔وہاں پرہم نے سورج چڑہتے وقت حسین اورعبداللہ بن زبیر کو خانہ کعبہ کے دروازہ اور حجر الاسود کے درمیان کھڑے ہوئے دیکھا ، ہم دونوں ان کے نزدیک آگئے تو عبد اللہ بن زبیر کو حسین سے یہ کہتے ہو ئے سنا : اگر آپ یہاں قیام فرمائیں گے تو ہم بھی یہیں سکونت اختیار کریں گے اور یہاں کی حکومت اپنے ہا تھوں میں لے لیں پھرہم آپ کی پشت پنا ہی اور مدد کریں گے اور آپ کے مخلص و خیر خواہ ہو کر آپ کی بیعت کر لیں گے ۔
امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :'' اِن أبی حدّثنی : ''ان بھا کبشاً یستحلّْ حرمتھا ''! فما اْحبّ ان أکون أنا ذالک الکبش'' (١) و(٢)
میرے بابا نے مجھ سے ایک حدیث بیان فرمائی ہے کہ یہاں ایک سر برآوردہ شخص آئے گا جو اس حرم کی حرمت کو پامال کرے گا ، مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ سر برآوردہ شخص میںقرارپاؤں ۔
ابن زبیرنے کہا : فرزند فاطمہ ! آپ ذرا میرے نزدیک آیئے تو امام علیہ السلام نے اپنے کانوں کو اس کے لبوں سے نزدیک کر دیا ۔ اس نے راز کی کچھ باتیں کیں پھرامام حسین ہماری طرف ملتفت ہوئے اور فر مایا :'' أتدرون ما یقول ابن زبیر ؟'' تم لوگو ںکو معلو م ہے کہ ابن زبیر نے کیا کہا ؟
ہم نے جواب دیا :. ہم آپ پر قربان ہوجائیں! ہمیں نہیں معلوم ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے فر مایا: وہ کہہ رہاتھا کہ آپ اسی حرم میںخانہ خداکے نزدیک قیام پذیر رہیئے، میں آپ کے لئے لوگوں کو جمع کرکے آپ کی فرمانبرداری کی دعوت دوں گا۔پھر حسین نے فرمایا:
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ ابو جناب یحٰبن ابی حیہ نے عدی بن حرملہ اسدی سے، اس نے عبد اللہ سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٣٨٤)
٢۔ الکبش : اس نر بکر ے کو کہتے ہیں جو عام طور پر گلہ کے آگے رہتا ہے۔ یہ درواقع تشبیہ ان لوگوں کے لئے ہے جو کسی امر کی قیادت کرتے ہیں۔ اس حدیث کے ذریعہ سے امام علیہ السلام نے ابن زبیر کو یاد دلا یا کہ شاید یاد آوری اس کو فائدہ پہنچا ئے لیکن یاد آوری تو مو منین کے لئے نفع بخش ہو تی ہے۔ ''فان الذکری تنفع المو منین ''
''واللّٰہ لئن أقتل خارجاً منھا بشبر أحبّ الیّ من أن اْقتل داخلاً منھا بشبر وأیم اللّٰہ لو کنت فی حجر ھا مة من ھٰذ ہ الھوام لا ستخرجونی حتی یقفوافیّ حا جتھم، واللّٰہ لیعتدنّ علیّ کما اعتدت الیھود فی السبت'' (١ ) و(٢)
خداکی قسم! اگر میں حرم سے ایک بالشت دور قتل کیاجاؤں تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس کے کہ میں حرم کے اندر قتل کردیا جاؤں، خدا کی قسم! اگر میں حشرات الارض کے سوراخ میں بھی چلاجاؤں توبھی یہ لوگ مجھے وہاں سے نکال کر میرے سلسلہ میں اپنی حاجت اور خواہش پوری کرکے ہی دم لیں گے۔ خدا کی قسم! یہ لوگ اس طرح مجھ پر ظلم و ستم روا رکھیں گے جس طرح روز شنبہ یہودیوں نے ظلم و ستم کیا تھا۔

عمرو بن سعید اشدق کا موقف
جب امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے روانگی اختیار کی تو مکہ کے گورنرعمروبن سعید بن عاص(٣) کے نمائندوں نے یحٰ بن سعید (٤)کی سربراہی میں حضرت پر اعتراض کیا۔ اور سب کے سب
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ ابو سعیدعقیصانے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں ...۔( طبری ،ج٥،ص٣٨٥)
٢۔ یہ وہ بہترین جواب ہے جو امام حسین علیہ السلام نے تمام سوالو ں کے جو اب میںبہت مختصرطور پردیاہے کہ بہر حال بنی امیہ کو حضر ت کی تلاش ہے ؛ آپ جہاں کہیں بھی ہوں وہ آپ پر ظلم و ستم کریں گے پس ایسی صورت میں لازم ہے کہ آپ فوراً مکہ چھوڑ دیں تاکہ آپ کی مثال بکری کے اس گلہ کے بکرے کی جیسی نہ ہوجائے جو آگے آگے رہتا ہے جس کا ذکر آپ کے والد حضرت امیر المومنین نے کیا تھا۔ اسی خوف سے آپ فوراً نکل گئے کہ کہیں آپ کی اور آپ کے خاندان کی بے حرمتی نہ ہوجائے اور ادھر اہل کوفہ کی دعوت کا جواب بھی ہوجائے گا جو آپ کے لئے ان پر اتمام حجت ہو گی تا کہ یہ الزام نہ آئے کہ رسول ۖخدا کے بعد امت کے لئے کوئی حجت نہ تھی اور لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ اللہ کی جانب سے تو پیغمبروں کے بعد ہمارے لئے کوئی حجت ہی نہ تھی۔''لئلا یکون للناس علی اللّٰہ حجة بعدالرسول'' ( سورہ ٔنساء ١٦٥)اور تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے :'' لولا أرسلت الینا رسولأ منذراًو أقمت لنا علماً ھادیاً فنتبع آیاتک '' تو نے ہم تک ڈرانے والا کوئی پیغمبر کیو ں نہ بھیجا اور ہمارے لئے کوئی ہدایت کرنے والی نشانی کیوں نہ قائم کی تاکہ ہم تیری نشانیوں کی پیروی کر تے۔اہم بات یہ ہے کہ اس وحشت وخوف کے ماحول میں کوفہ نہ جاتے تو اور کہاں جاتے؛ جب کہ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود آپ پر تنگ کردی گئی تھی ۔
٣۔ جب عمر و بن سعید مدینہ کا والی ہوا تو اس نے عبیداللہ بن ابی رافع جو امام علی بن ابیطالب کے کاتب تھے،کو بلایا اور ان سے پوچھا: تمہارامولا کون ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )(یہ ابو رافع ،ابوا حیحہ سعید بن عاص اکبر کے غلام تھے جو سعید بن عاص کے بیٹوں کو میراث میںملے تھے۔ ان میں سے تین بیٹوں نے اپناحصہ آزاد کردیا اور یہ سب کے سب جنگ بدر میں مارڈالے گئے اورایک بیٹے خالد بن سعید نے اپنا حصہ رسول ۖخدا کو ھبہ کردیا تو آ پ نے اسے آزاد کر یا ) یہ سنتے ہی اس نے سو کوڑے لگائے پھر پوچھا تیرا مالک ومولا کون ہے ؟ انہوں نے پھر جواب دیا :ر سول خدا ! تو اس نے پھر سو کوڑے لگائے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا، وہ پوچھتا جاتا تھا اور یہ جواب میں کہتے جاتے تھے: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور وہ کوڑے برسائے جاتاتھا یہاں تک کہ پانچ سو کوڑے مارے اور پھر پوچھاکہ تمہارامولا و مالک کون ہے؟ تو تاب نہ لاکرعبیداللہ بن ابورافع نے کہہ دیا :تم لوگ میرے مالک و مختار ہو ۔یہی وجہ ہے کہ جب عبدالملک نے عمرو بن سعید کو قتل کیا تو عبیداللہ بن ابی رافع نے شعر میں قاتل کا شکریہ اداکیا۔( طبری ،ج٣، ص ١٧٠ )
عمرو بن سعیدنے ابن زبیر سے جنگ کی۔ ( طبری ، ج٥،ص ٣٤٣ ) اور جو بھی ابن زبیر کا طرفدار تھا اسے مدینہ میں مارڈالاتھا ۔جن میں سے ایک محمد بن عمار بن یاسر تھے۔اس نے ان میں سے چالیس یا پچاس یا ساٹھ لوگوں کوماراہے ۔( طبری ،ج٥ ،ص ٣٤٤ ) جب اس تک امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر پہنچی تو اس نے خوشیاں منائیں اور جب بنی ہاشم کی عورتوں کا بین سنا تو کہنے لگا کہ یہ بین عثمان کے قتل پر انکے گھر کی عورتوں کے بین کا جواب ہے پھر یہ منبر پر گیا اور لوگوں کو اس سے باخبر کیا ۔ اس کے بعد یزید کو معلوم ہوا کہ عمرو بن سعید ، ابن زبیر سے رفق و محبت سے پیش آرہاہے اور اس پر تشدد نہیںکر رہاہے تو یکم ذی الحجہ ٦١ھکو اسے معزول کردیا۔ ( طبری ،ج٥ ،ص٤٧٧ ) تو یہ اٹھکر یزید کے پاس آیااور اس سے معذرت خواہی کی۔ ( طبری ،ج٥،ص ٤٧٩) اس کاباپ سعید بن عاص ، معاویہ کے زمانے میں مدینہ کا والی تھا۔ (طبری، ج٥ ، ص٢٤١)
٤۔یہ عمرو بن سعید کابھائی ہے۔اس نے شام میںعبدالملک کے دربار میں ان ایک ہزار جوانوں کے ساتھ اپنے بھائی کی مدد کی جو اس کے ساتھی اور غلام تھے لیکن آخر میں وہ سب بھاگ گئے اور اسے قید کر لیا گیا پھر آزاد کردیا گیا تو یہ ابن زبیر سے ملحق ہو گیا۔ ( طبری، ج٦،ص ١٤٣، ١٤٧) پھر کوفہ روانہ ہوگیا اور اپنے ماموؤں کے پاس پناہ لی جو جعفی قبیلہ سے متعلق تھے۔جب عبدالملک کوفہ میں داخل ہوا اور لوگوں نے اس کی بیعت کرنا شروع کردی تو اس نے بھی اس کی بیعت کر لی اور امن کی درخواست کی۔ (طبری ،ج٦ ، ص ١٦٢)
امام علیہ السلام سے کہنے لگے : اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے! آپ کہاں جارہے ہیں ! امام علیہ السلام نے انکار کیا اور دونوںفریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انھوں نے تازیانہ بلندکر لیا لیکن امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رہے۔ جب امام علیہ السلام کو ان لوگوں نے جاتے ہوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کہا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو جماعت سے نکل کر اس امت کے درمیان
تفرقہ اندازی کررہے ہو ! ان لوگوں کی باتیں سن کر امام علیہ السلام نے قران مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِےْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئْ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ'' (١) و(٢)
اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارا عمل ہمارے لئے اور تمہاری کارستانی تمہارے لئے ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں۔

عبداللہ بن جعفر کاخط
چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیہم السلام )کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے نکل رہے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب(٣) نے ایک خط لکھ کر اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد (٤)کے ہمراہ روانہ کیا جس کی عبارت یہ ہے:
..............
١۔ سورہ ٔیونس ٤١
٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٨٥،ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔
٣۔ آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پہنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔( طبری، ج٤، ص٥١٠)آپ کی ذات وہ ہے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میںمشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ہی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج٤، ص ٥٥٤)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررہے تھے۔ ( طبری ،ج٥ ، ص ١٤٨)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے ( طبری ،ج٥،ص ١٦٠) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونوں اماموں کے ہمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ ( طبری ،ج٥ ، ص ١٦٥) آپ کے دونوں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا : ''واللّہ لو شھدتہ ،لأ حببت الّا أفارقہ حتی أقتل معہ'' خداکی قسم اگر میں موجود ہوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ہوں یہاں تک کہ ان کے ہمراہ قتل ہوجاؤں۔ ( طبری ج٥ ، ص ٤٦٦ )
٤۔یہ دونوں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلامیںجام شہادت نوش فرماکرسرفراز ہوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ماں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ہیں( مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میںشمار ہوتے ہیں ) اور محمد کی ماںخو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ہیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ہیں ۔
'' امابعد ، فانّی أسألک باللّہ لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجہ الذی تتوجہ لہ أن یکون فیہ ھلاکک واستئصال اھل بیتک ، أن ھلکت الیوم طفیٔ نور الارض فانک علم المھتدین ورجاء المؤمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی أثر الکتاب؛ والسلام ''
اما بعد : جب آپ کی نگاہ میرے خط پر پڑے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے ؛کیو نکہ آپ نے جس طرف کا رخ کیا ہے مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلا کت اور آپ کے خاندان کی اسیری ہے اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش ہو جا ئے گا؛ کیوںکہ آپ ہدایت یافتہ افراد کے پر چمدار اور مو منین کی امید ہیں؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں۔ میں اس خط کے پہنچتے پہنچتے آپ کی خدمت میں شر فیاب ہو رہا ہوں۔ والسلام
عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا : حسین ( علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا ؤ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمہاری باتوں سے مطمئن ہو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحٰ بن سعید کے ہمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے وہ مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ہو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ہو ئے کہا : تم جو چا ہتے ہو لکھ کر میرے پاس لے آؤ میں اس پر مہر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :
بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ہے ۔
اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ہوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ہے اور جس میں آپ کی ہدایت ہے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ہے ۔
خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحٰبن سعید کوروانہ کررہا ہوں ؛آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس تشریف لے آئیے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بہترین جائیگاہ ہے۔ میںخداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاہوں ۔ والسلام
خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کہا: اس پر مہر لگاؤ تواس نے فوراًاس پر اپنی مہر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحٰ امام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ کی خدمت میں یحٰ بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:
بسم اللّہ الرحمن الرحیم
امابعد، فانہ لم یشاقق اللہ ورسولہ من دعاالی اللّٰہ عزَّو جلَّ وعمل صالحاًو قال أنّنی من المسلمین؛وقد دعوت الیٰ الامان والبرّو الصلة فخیرالامان امان اللہ ولن یؤمّن اللّٰہ یوم القیامةمن لم یخفہ فی الدنیا، فنسأل اللّٰہ مخافة فی الدنیاتوجب لنا أمانہ یو م القیامة فان کنت نویت بالکتاب صلتی و برّی فجُزیتَ خیراًفی الدنیاوالآخرة۔ والسلام
بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، امابعد،ہر وہ شخص جو لوگوں کو خدائے عزّو جلّ کی طرف دعوت دیتاہے اور عمل صالح انجام دیتاہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوںتو وہ خدااور رسول کی مخالفت نہیں کرتا ہے اور تم نے جو مجھے امان ، نیکی اور صلہ رحم کی دعوت دی ہے تو جان لو کہ بہترین امان خداوندمتعال کی امان ہے اور قیامت میں وہ شخص اللہ کی امان میں نہیں ہے جو دنیا میںاللہ سے نہیں ڈرتا ۔میں دنیامیں خدا سے اس خوف کی درخواست کرتا ہوںجو آخرت میں قیامت کے دن ہمارے لئے اما ن کا باعث ہو۔اب اگر تم نے اپنے خط کے ذریعہ میر ے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کی نیت کی ہے تو تم کو دنیاوآخر ت میںاس کی جزا ملے گی۔
وہ دونوں امام علیہ السلام کا جواب لے کرعمرو بن سعید کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم دونوں نے تمہارے خط کو ان کے سامنے پڑھا اور اس سلسلے میں بڑی کو شش بھی کی لیکن اس سلسلہ میں ان کا عذر یہ تھا کہ وہ فر ما رہے تھے :'' انّی رأیت رؤیاً فیھارسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ ( وآلہ ) وسلم وأُمرتُ فیھا بأ مرٍأنا ما ضٍ لہ، علیّ کان أولٰ''
میں نے ایک ملکو تی خواب دیکھا ہے جس میں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ ( وآلہ ) وسلم موجو د تھے۔ اس خوا ب میںآپ نے مجھ کو ایک چیز کا حکم دیا گیا ہے۔میں اس پر ضرور عمل کروں گا اور یہ مجھ پر سب سے زیادہ اولیٰ ہے۔
جب ان دونوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ خواب کیا تھا ؟تو آپ نے فر مایا :'' ما حدثت بھا أحداً وما أنا محدّ ث بھا حتی ألقی ربِّی''(١) اور (٢)میں یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی میں یہ خواب کسی سے بیان کرنے والا ہوں یہاں تک کہ اپنے رب سے ملا قات کر لوں۔
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیہما السلام ) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٨٨)
٢۔امام علیہ السلام یہ مناسب نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنے سفر کے رازسے سب کو آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا ہے وہ سب بیان نہیں کر دیتا ہے خصوصاً جبکہ انسان ظرف و جودکے لحاظ سے مختلف و متفاوت ہوںاور امام علیہ السلام پر واجب ہے کہ ہر شخص کو اس کے وجود کی وسعت اور معرفت کی گنجا ئش کے اعتبار سے آشنائی بہم پہنچائیں، اسی لئے امام علیہ السلام نے ان لوگوں کو ایک واقعی جو اب دیدیا کہ'' لم یشا قق اللہ ورسولہ من دعا الی اللّٰہ وعمل صالحاً ...وخیر الا مان أمان اللّٰہ و لن یؤمن اللّٰہ یوم القیامةمن لم یخفہ فی الدنیا فنسأل اللّٰہ مخافةفی الدنیا تو جب لنا أما نہ یوم القیامہ ''
اور جب وہ لوگ اس جواب سے قانع نہ ہو ئے تو امام علیہ السلام نے کہہ دیاکہ آپ کو ایک ایسے خواب میں حکم دیا گیا ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے کہ آپ اپنے سفر کو جاری رکھیں؛ لیکن آپ نے اس خواب کو بیان نہیں کیا اور یہ کہہ کربات تمام کردی : '' وما أنا محدث لھا حتی ألقی ربی ''
شاید یہیں پرا حمد بن اعثم کوفی متوفی ٣١٠ ھ نے امام علیہ السلام کے اس خواب کا تذکر ہ کر دیا ہے جو آپ نے اپنے جد کی قبر پر مد ینہ میں دیکھا تھا لیکن یہ کیسے معلوم کہ یہ خواب وہی ہے ؟ جب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی ملا قات سے قبل میںکسی سے بھی بیان نہیں کروں گا یعنی یہ وہی بات ہے جس کا میں نے عہد کیا ہے ۔ واللہ اعلم بہ ، اللہ اس سے بہتر آگاہ ہے۔