واقعۂ کربلا
 

مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی
* امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کا موقف
* ابن عباس کی گفتگو
* ابن عباس کی ایک دوسری گفتگو
* عمر بن عبدالرحمن مخزومی کی گفتگو
* امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیرکی آخری گفتگو
* عمرو بن سعید اشدق کا موقف
* عبداللہ بن جعفر کا خط
مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی (١)
٢٨ رجب ٦٠ھبروز یکشنبہ امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے مکہ کی طرف کوچ کیا اورشب جمعہ ٣ شعبان ٦٠ ھ کو مکہ میں داخل ہوئے ۔ اس کے بعد شعبان ، رمضان ، شوال ، ذی قعدہ تک امام حسین علیہ السلام مکہ میں قیام پذیر رہے اور جب ذی الحجہ کے ٨ دن گذر گئے تو ''یوم الترویہ'' ( جس دن تمام حاجی مکہ میں آجاتے ہیں ) بروز سہ شنبہ امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے سفر اختیار کیا جس دن جناب مسلم بن عقیل نے کوفہ میں اموی حکومت کے خلاف قیام کیا تھا ۔

امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کا موقف
مکہ میں امام حسین علیہ السلام کے پاس آنے والوں میں سے ایک ابن زبیر بھی تھاجو کبھی تو دوروزپے در پے آیا کرتا تھا اورکبھی دو روز میں ایک مرتبہ آیا کرتا۔اسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی تھی کہ جب تک مکہ میں امام حسین علیہ السلام موجود ہیں اہل حجاز نہ تو اس کی پیروی کریں گے اور نہ ہی اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی شخصیت ان کی نگاہوں میں عظیم ہے اور انھوں نے ان کے دلوں میں جگہ بنالی ہے۔ (٢)
..............
١۔ طبری کا بیان ہے کہ اسی سال ٦٠ھ ماہ رمضان میں یزیدنے ولید کو معزول کر کے اس کی جگہ پر عمرو بن سعید بن عاص اشدق کو مدینہ کا امیر بنا دیا ۔ عمرو ماہ رمضان میں وہاں پہنچا ۔یہ شخص بہت بڑا کینہ توز اور بہت بولنے والا تھا (طبری ،ج٥، ص ٣٤٣) بعض روایتوں میں ہے کہ ماہ ذی قعدہ ٦٠ھ میں مدینہ آیا تھا (طبری ،ج٥،ِ ص ٣٤٦)پھر طبری کا بیان ہے کہ یزید بن معاویہ نے اسی سال ( ٦٠ ھ ) ولید بن عتبہ کو مکہ کی ریاست سے بھی معزول کر دیااور ان دونوں کی ریاست عمروبن سعید بن عاص کے سپرد کر دی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ اسی سال عمرو بن سعید نے لوگوں کے ساتھ حج بھی انجام دیادرحالیکہ وہ مکہ اور مدینہ کا حاکم تھا۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٩)
٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبدالرحمن بن جندب نے روایت کی اور عبدالرحمن کا بیان ہے کہ مجھ سے عقبہ بن سمعان نے یہ روایت بیان کی ہے جو امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب رباب بنت امرء القیس کا غلام تھا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٣٥١)
ایک دن وہ کسی وقت امام حسین علیہ السلام کے پاس گفتگوکے لئے آکر بیٹھا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ تباہ کار افراد ہم کو اس طرح چھوڑ دیں گے اور ہم سے دست بردار ہوجائیں گے کیونکہ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ ہم اسلام کے فداکار مہاجر ہیں اور قوم و ملت کے نظم و نسق کی ذمہ داری اور اس کی زمام ہمارے ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔ آپ مجھے بتائیں کہ آپ کا ارادہ کیا ہے اور آپ کیا کرنا چاہتے ہیں ؟
امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : خداکی قسم میںنے تو یہ فکر کی ہے کہ میں کوفہ چلاجاؤں کیونکہ ہمارے پیروئوں اور وہاں کے اشراف نے مجھے خط لکھ کر کوفہ بلا یا ہے اور میں خداسے یہی چاہتا ہوں کہ جو میرے لئے بہتر ہے وہی میرے حق میں انجام دے۔
ابن زبیرنے کہا : خداکی قسم اگر کوفہ میں آپ کے پیروئوں کی طرح میرے بھی چاہنے والے ہوتے تو میںانھیں نہیںچھوڑتا اور فوراً چلاجاتا ، پھر اسے خیال آیا کہ اس قسم کی باتوں سے اس کاراز کھل جائے گا اور وہ متہم ہوجائے گا لہٰذا فوراً بولا : ویسے اگر آ پ حجاز میں بھی قیام پذیر رہیں اور یہاں بھی امت کے امور اپنے ہاتھوں میں لینا چاہیں تو انشااللہ آپ کی کوئی مخالفت نہیںکرے گا۔ یہ کہہ کروہ اٹھا اور فوراً چلاگیاتو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اس بندہ خداکے لئے دنیا میں اس سے زیادہ محبوب تر کوئی چیز نہ ہوگی کہ میں حجاز سے نکل کر عراق چلاجاؤں اسے بخوبی معلوم ہے کہ میرے رہتے ہوئے لوگ اس کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کریں گے لہٰذاوہ چاہتا ہے کہ میں اس شہر سے چلا جاؤں تا کہ اس کے لئے راستہ آسان ہوجائے۔ (١) و(٢)
..............
١۔ابومخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے (طبری، ج٥، ص ٣٨٢)
٢۔واقعیت یہ ہے کہ عبداللہ بن زبیرکو کوفیوں کی منافقت اور نیرنگ و دھوکہ بازی کا خوف نہیں تھا بلکہ وہ اپنے مقصد تک پہونچنے کی فکرمیں تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام بھی اس کے ظرف وجود اور روحی و فکری گنجایش میں اتنی وسعت نہیں دیکھ رہے تھے کہ انجام کو اس کے لئے بیان کردیں؛ کیونکہ عقل مند آدمی ہر اس چیز کو بیان نہیں کر تا جس کو وہ جانتاہے اور دوسروں کو تمام واقعات سے رو شناس نہیں کراتا۔لوگوں کے افکار اور ان کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں اور بہت سارے افراد اپنے وجود میں اس بات کی توانائی نہیں رکھتے کہ بہت سارے حقائق سے آگاہ ہوسکیں، اسی بنیاد پر امام حسین علیہ السلام نے ابن زبیر کی فکری صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ان کے مطابق انہیں جواب دیا۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ابن زبیر کو امام حسین علیہ السلام کے قیام سے ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں تھا بلکہ وہ امام کو قیام کی ترغیب دلا رہا تھا،بحث فقط زمان و مکان کے بارے میں تھی ۔


ابن عباس کی گفتگو
جب امام حسین علیہ السلام نے مکہ چھوڑکر کوفہ جانے کا ار اد ہ کیا تو ابن عباس آپ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کی :یابن عم (اے چچا کے فرزند ) لوگوں کے درمیان یہ بات پھیل چکی ہے کہ آپ عراق کی طرف روانہ ہونے والے ہیں۔ ذرامجھے بتائیے کہ آپ کیا کرناچاہتے ہیں ؟امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :'' انی قد أجمعت المسیر فی احدیومیّ ھٰذین (١) ان شاء اللّہ تعالیٰ '' میںنے ایک دو روز میںنکلنے کاقطعی فیصلہ کر رکھاہے، ان شاء اللہ ۔

١۔چونکہ مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی کی تاریخ ٨ذی الحجہ یوم الترویہ بعدازظہر ہے اور یہ وہ وقت ہے جب لوگ منی کی طرف جارہے ہوتے ہیں(طبری، ج ٥ ،ص٣٨٥ )اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ابن عباس اور امام علیہ السلام کے درمیان یہ گفتگو ٦ذی الحجہ کو انجام پذیر ہوئی ہے اور اس خبر کامشتہر ہونااس گفتگو سے زیادہ سے زیادہ دو دن پہلے ہے یعنی ٤ذی الحجہ کو یہ خبر پھیل گئی کہ امام علیہ السلام مکہ ترک کرنے و الے ہیں؛لیکن اس سے قبل اس خبر کے مشتہر ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ کون ساسبب ہے جس کی بنیاد پر اتنے دن مکہ میںرہنے کے بعد عین حج کے دن حج تما م ہونے سے پہلے ہی امام حسین علیہ السلام نے مکہ چھوڑدیا؟اگر یہ کہا جائے کہ جناب مسلم بن عقیل کے خط کی بنیاد پر جلدی کی، کیو نکہ اس میںمرقوم تھاکہ خط ملتے ہی فوراًروانہ ہو جائیے تو یہ صحیح نہیں ہے کیو نکہ جناب مسلم بن عقیل نے اپنی شہادت سے ٢٧دن قبل یعنی ٢ ١ یا١٣ذی القعدہ کو امام حسین علیہ السلام کو خط لکھاہے۔ ایسی صورت میں تقریباً دس(١٠) دن کے اندر یعنی ٢٧ ذی قعدہ تک یہ خط امام علیہ السلام کو موصول ہوچکا تھالہذا اگر امام علیہ السلام کو سفر کرنا ہی تھا تو انھیں دنوں میں سفر کر لیتے ۔یہ ٤دن قبل خبر کا مشتہر ہونا اور عین حج کے موقع پر سفر کرنے کا راز کیا ہے ؟ اس کا جواب ہمیں فرزدق کے سوال کے جواب میں ملتا ہے،جب راستے میں فرزدق شاعر کی ملاقات امام حسین علیہ السلام سے ہوئی تو اس نے بھی امام علیہ السلام سے یہی سوال کیا کہ اتنی جلدی کیا تھی کہ آپ حج چھوڑکر جارہے ہیں ؟
امام علیہ السلام نے جواب دیا :'' لولم أعجل لأخذت''(طبری ،ج٥،ص ٣٨٦) اگر میں جلدی نہ کر تا تو گرفتار کر لیاجا تا۔یہی وجہ ہے کہ شیخ مفید قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ جب امام علیہ السلام نے عراق کا قصد کیا تو خانہ کعبہ کا طواف کیا،صفاو مروہ کے درمیان سعی کی اور اسے عمرہ قرار دے کر احرام سے خارج ہو گئے کیونکہ مولا کا مل حج انجام دینے پر متمکن نہ تھے ہر آن اس کا خطرہ تھا کہ عین حج کے مو قع پر آپ کو گر فتار کر کے یزید بن معاویہ تک پہنچا دیا جائے لہٰذا امام علیہ السلام فوراً مکہ سے نکل گئے ۔( ارشاد، ص ٢١٨)معاویہ بن عمارنے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :ماہ ذی الحجہ میں امام حسین علیہ السلام نے عمرہ انجام دیا پھر یوم الترویہ (٨ ذی الحجہ )کو عراق کی طرف کوچ کرگئے ۔یہ موقع وہ تھاکہ ادھر آپ عین حج کے موقع پر مکہ سے کوچ
کررہے تھے ادھر حجاج کرام حج کے لئے مکہ سے منیٰ کی طرف جارہے تھے ۔ ذی الحجہ میں جو حج نہ کرنا چاہے اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کہ عمرہ انجام دے لے۔
اسی طرح ابراہیم بن عمر یمانی نے روایت کی ہے کہ انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو ایام حج میںعمرہ انجام دے کر باہر آجائے او روہاں سے ا پنے شہر کی طرف نکل جائے تو اس کا حکم کیا ہے ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا: کوئی مشکل نہیں ہے پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا : امام حسین علیہ السلام عمرہ انجام دے کر یوم الترویہ مکہ سے روانہ ہوئے تھے۔(وسائل، ج١٠ ،ص ٢٤٦)
یہی وجہ ہے کہ شیخ شوشتری نے فرمایا : دشمنوں نے پوری کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح امام حسین علیہ السلام کو پکڑ لیں یا دھوکہ سے قتل کردیں،خواہ آپ کعبہ کی دیوار سے لپٹے ہوں۔ امام علیہ السلام ان کے باطل ارادہ سے آگاہ تھے لہٰذا اپنے احرام کو عمرہ مفردہ میں تبدیل کر دیا اور حج تمتع ترک کردیا۔ ( الخصائص، ص ٣٢،ط تبریز)شیخ طبرسی نے اعلام الوریٰ کی ایک خاص فصل میںامام علیہ السلام کے سفر کے واقعہ اور آپ کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔ وہاں پر آپ نے ارشاد میں موجودشیخ مفید کی عبارت کوتقریباًبعینہ ذکر کیا ہے اوراس کی تصریح بھی نہیں کی ہے۔ اس فصل میں آپ نے انہیں باتوں کو ذکر کیا ہے جسے شیخ مفید نے لکھا ہے۔ہاں وہاں کلمہ '' تمام الحج''کے بجائے'' اتمام الحج ''کردیاہے جو غلط ہے اور شاید نسخہ برداروں کی خطا ہے۔ اس خطا کا سبب یہ ہے کہ ان دونوںکلمات میں بڑا فرق ہے کیونکہ کلمہ'' الاتمام'' کا مطلب یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے احرام حج باندھ لیا تھا جبکہ کلمہ'' تمام الحج'' اس معنی کی طرف راہنمائی نہیں کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ '' الارشاد'' کے نسخہ مختلف ہیں کیونکہ شیخ قرشی نے شیخ مفید کے کلام کو اسی طرح نقل کیا ہے جس طرح طبرسی نے'' اتمام الحج '' نقل کیا ہے۔( ج٣ ،ص ٥٠) یہ انھوںں نے ارشاد کے ص ٢٤٣سے نقل کیا ہے جبکہ ہم نے ارشاد کے ص ٢١٨ طبع حیدریہ پر'' تمام الحج'' دیکھاہے اور یہی صحیح ہے ۔
ابن عباس نے کہا : میں آپ کے اس ارارہ سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ذرا مجھے بتائیے کہ کیا آپ اس قوم کی طرف سفرکرنا چاہتے ہیں جنھوں نے اپنے ظالم اور ستمگار حکمراں کو نابود کردیاہے اور اپنے شہر و دیار کو ان کے چنگل سے نجات دلادی ہے اور اپنے دشمنوں کو وہاں سے نکال بھگایا ہے ؟ اگر ان لوگوں نے ایساکیا ہے تو آپ فوراً رخت سفر باندھ لیجئے لیکن اگر ان لوگوں نے آپ کو اس حال میں بلایا ہے کہ ان کا حاکم ان پر مسلط اور قہر و غلبہ کے ساتھ ان پر قابض ہے ،اس کے عاملین شہروں میں اس کی طرف سے مالیات وصول کررہے ہیں تو ایسی صورت میں ان لوگوں نے آپ کو جنگ و جدال کے لئے بلایا ہے جس کی کوئی ضمانت نہیں اور نہ ہی آپ اس بات سے امن وامان میں ہیں کہ وہ آپ کو دھوکہ دیں، جھٹلائیں ، مخالفت کریں اور چھوڑدیں، نیز آپ اس سے بھی امان میں نہیں ہیں کہ اگر وہ آپ کی طرف آئیں تو آپ کے سخت دشمن بن جائیں ۔
امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : میں خدا سے طلب خیر کروں گا پھر دیکھوں گا کہ کیا ہوتا ہے۔ ( ١ ) و ( ٢)
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج ٥،ص٣٨٣)
٢۔ یہ بات یہاں قابل توجہ ہے کہ ابن عباس ظلم کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مخا لف نہیں ہیں بلکہ قیام کے لئے حالات سازگار ہیں یا نہیں ، اس میں انھیں شک ہے۔امام حسین علیہ السلام نے بھی ان کے نظریہ کو رد نہیں کیا بلکہ آپ ان کو اپنا خیر خواہ سمجھتے تھے لیکن اسی حال میں اپنے بلند مقصد اور اپنی رسالت کے سلسلہ میں کوشاں تھے کیونکہ آپ اسی ماحول میں نظام اموی کے خلاف قیام کو لازم سمجھ رہے تھے۔
ابن عباس کی ایک دوسری گفتگو
سورج آہستہ آہستہ مغرب کے دامن میں اپنا چہرہ چھپانے لگا اورشب آگئی، اسی رات یا دوسرے دن صبح ابن عباس دوبارہ امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یابن عم ! میں بے حد صبر و تحمل سے کام لینا چاہتا ہوں لیکن مجھ سے صبر نہیں ہوتا کیونکہ میں اس سفر کو آپ کے لئے بے حد خطر ناک سمجھتا ہوں اور آپ کی ہلاکت سے مجھے خوف آتا ہے کیونکہ عراقی دھوکہ باز ہیں؛ آپ خدا را ان کے قریب نہ جائیے؛ آپ اسی شہر میں مقیم رہیں کیونکہ آپ سید حجاز ہیں۔ اب اگر اہل عراق آپ کو چاہتے ہیں تو آپ ان کو خط لکھ دیجیے کہ پہلے وہ اپنے دشمنوں کو وہاںسے بھگا ئیںپھر آپ وہاں جائیے؛اور اگر آپ نے جانے کے لئے عزم بالجزم کرہی لیا ہے تو آپ یمن روانہ ہوجائیں کیونکہ وہاں کی زمین وسیع ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آپ توحید و عدالت کی دعوت اچھی طرح دے سکتے ہیں۔ مجھے اس بات کی بھر پور امید ہے کہ آپ جو کرنا چاہتے ہیں وہاں کسی فشار اور طاقت فرسا رنج و غم کے بغیر انجام دے سکتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : ''یابن عم !انی واللّہ لأ علم انک ناصح (١) ومشفق ولکنی ازمعت و اجمعت علی المسیر''
یابن عم ! خدا کی قسم مجھے یقینی طور پر یہ معلوم ہے کہ آپ مخلص اور مشفق ہیں لیکن آپ یہ جان لیں کہ میں عزم با لجزم کر چکا ہوں اور سفرکے لئے تیار ہوں۔
ابن عباس نے کہا : اگر ایسا ہے کہ آپ حتماً جانا ہی چاہتے ہیں تو اپنے ساتھ مخدرات اور بچوں کو نہ لیں جائیں ؛کیونکہ میں آپ کے قتل اور خاندان کی اسیری سے خوف زدہ ہوں۔ (٢)

عمر بن عبد الرحمن مخزومی کی گفتگو
عمر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی (٣) کا بیان ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام عراق جانے کے لئے سامان سفر باندھ چکے تو میں ان کی خدمت میں آکر ان کی ملاقات سے شرفیاب ہوا
..............
١۔ امام حسین علیہ السلام کے اس جملہ میں کلمہ ''ناصح '' خلوص و اخلاص کے معنی میں استعمال ہواہے، موعظہ اور نصیحت کے معنی میںاستعمال نہیں ہوا ہے ۔ اس لفظ کے لئے یہ معنی جدید اور نیا ہے، اس کا اصلی معنی نہیں ہے، امام فرمارہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ ابن عباس کی گفتار میں خلوص و شفقت اور محبت و عطوفت پنہاں ہے۔ اس سے انداہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابن عباس امام علیہ السلام کے قیام کے مخالف نہ تھے بلکہ وہ اس شک وتردید میں تھے کہ قیام کے لئے حالات سازگار اور مناسب ہیں یا نہیں اور امام علیہ السلام نے بھی اس سلسلے میں ان کی بات کو رد نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ اس کے باوجود بھی وہ قیام کے لئے عازم ہیں کیونکہ وہ اس قیام کو شریعت مقدسہ کی زندگی کے لئے لازم اورضروری سمجھتے ہیں۔
٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری ج٥، ص ٣٨٣ )
٣۔یہ وہی شخص ہے جسے مختار کے عہد حکومت میں عبداللہ بن زبیر نے ٦٦ھ میں کوفہ کا والی بنادیا تو مختار نے زائدہ بن قدامہ ثقفی کو اس کے پاس پانچ سو (٥٠٠) سپاہیوں اور ستر (٧٠) ہزار درہم کے ساتھ روانہ کیا تا کہ وہ ان درہموں کے مقابلہ میں مختار کے لئے کوفہ کی گورنری چھوڑدے اور اگر وہ اس پر راضی نہ ہو تو پھر ان سپاہیوں سے نبرد آزماہوجائے۔ عمر بن عبد الرحمن نے وہ درہم قبول کر لئے اور ر ا ہی ٔ بصرہ ہوگیا۔ (طبری، ج٦،ص ٧١ ) اب رہا امام علیہ السلام کی مدح و ثنا کا سوال تو اس روایت کا ناقل خود یہی شخص ہے۔ اس کا دادا حارث بن ہشام اور اس کا بھائی جھل بن ہشام دونوں ہی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمن تھے۔ ہم نے اس کا تذکرہ مقدمہ میں کیاہے۔
اورثنائے الہٰی کے بعد ان کی خدمت میں عرض کیا: یابن عم !میں آپ کی خدمت میںایک درخواست لے کر حاضرہواہوںجسے مخلصانہ نصیحت کے طور پرآپ سے عرض کرناچاہتاہوں ،اب اگر آپ مجھے اپناخیر خواہ اورصاحب فکر سلیم سمجھتے ہیں تومیں وہ عرضداشت آپ کی خدمت میں پیش کرو ںورنہ میں جو کہناچاہتاہوںاس سے صرف نظرکرلوں ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:'' قل فواللّٰہ ما أظنّک بسییٔ الرأولا ھو ٍ(١) للقبیح من الأمر و ا لفعل ''
تم جو کہنا چاہتے ہو کہو، خدا کی قسم میں اس بات کا گمان بھی نہیں کرتا کہ تم میرے لئے برا تصور رکھتے ہو اور میری بھلائی نہیں چاہتے۔
عمر بن عبدالرحمن مخزومی نے کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ آپ عراق جانا چاہتے ہیں اور میں آپ کے اس سفر سے خوفزدہ ہوں ؛کیونکہ آپ ایسے شہر میں جانا چاہتے ہیں جس میں اُمراء اور عاملین دونوںموجود ہیں اور ان کی پشت پناہی کے لئے بیت المال کا ذخیرہ موجود ہے۔ قوم درہم ودینار کی غلام ہے اور میں اس سے بھی آپ کو امن و امان میں نہیں سمجھتا کہ وہی لوگ آپ سے مقابلہ اور جنگ کے لئے کھڑے ہو جائیں گے جو ا بھی آپ کی نصرت کا وعدہ کررہے ہیں اور آپ کے دشمن کی دشمنی سے زیادہ آپ سے محبت کا دم بھرتے ہیں ۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:'' جزاک اللّہ خیراً یابن عم ! فقد واللّٰہ علمت أنک مشیت بنصح و تکلّمت بعقل و مھما یقض من أمر یکن ، أخذت برأیک أو تر کتہ فأنت عندی أحمد مشیر وأنصحُ ناصح ''(٢)اے چچا کے فرزند خدا تم کو جزائے خیر دے ! خدا کی قسم مجھے معلوم ہے کہ تم خیر خواہی کے لئے آئے ہو اور تمہاری گفتگومیں عقل و خرد کے جلوے ہیں؛ بنابر این حسب ضرورت یا تو تمہاری رائے پرعمل کروں گا یا اسے ترک کروں گا لیکن جو بھی ہو تم میرے نزدیک اچھا مشورہ دینے والے اور بہترین خیر خواہ ہو ۔
..............
١۔ ھوٍ یعنی ھا ویا جس کی اصل ھویٰ ہے جس کے معنی برا ارادہ رکھنے والے کے ہیں ۔
٢۔طبری ،ج ٥،ص ٣٨٢ ،ہشام نے ابومخنف کے حوالے سے کہا ہے کہ مجھ سے صقعب بن زبیر نے عمر بن عبد الر حمن کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔