جناب ہانی کی شہادت
جناب مسلم بن عقیل (علیہ السلام) امام علیہ السلام کے شجاع اور بہادر سفیر کی شہادت کے بعد ابن زیاد نے جناب ہانی کے قتل کا حکم جاری کر دیا اور محمد بن اشعث کودیئے گئے وعدہ کو کہ ہانی کواس کے حوالے کر دے گا تاکہ وہ اپنی قوم کی عداوت اور دشمنی سے بچ سکے، وفا کرنے سے انکار کر دیا۔ابن اشعث
کی گزار ش کاسبب یہ تھاکہ وہی جناب ہانی کے پاس گیاتھااور انہیں لیکر آیاتھا۔ابن زیاد نے اپنے و عد ہ سے مکرنے کے بعد فورا ًحکم دیاکہ انہیں بازار میںلے جاؤ اور گردن اڑادو ۔
اموی جلاد اس شریف النفس انسان کا ہاتھ باندھے ہوئے ان کو بازار کی طرف لے کر چلے جہاںبکریاںبیچی جاتی تھیں۔جب یہ افر ادجناب ہانی کووہاںلے کر آئے توآپ آوازدے رہے تھے: ''وامذحجاہ ولامذحج لی الیوم !وامذحجاہ وأین منی مَذحِج ''ہائے قبیلہ ٔمذحج والے کہاں گئے، کو ئی مذحج والامیری مددکو کیوں نہیںآتا؟'' وامذحجاہ '' ارے میرے مذحجی افراد کہاں ہیں؟جب دیکھاکہ میری مدد کو کوئی نہیں آتاتو اپنی ساری طاقت و قدر ت کو جمع کر کے ایک بار ہاتھو ںکو جھٹکادیااوردیکھتے ہی دیکھتے ساری رسیاںٹوٹ گئیں پھر فرمایا: کیاکوئی عصا ،خنجر،پتھر یاہڈی نہیںہے جس سے میں اپنادفاع کرسکوںلیکن ان جلادوںنے چاروں طرف سے ان کو گھیر لیااور دوبارہ رسیو ںسے کس کر جکڑ دیاپھرکسی ایک نے کہا: اپنی گردن اٹھاؤ تاکہ تمہاراکام تمام کر دیاجائے ۔
جناب ہانی نے جواب دیا: میں کبھی ایساسخاوت مند نہیں ر ہاکہ اپنے حق حیات ا ور زندگی کوپامال کر نے کے لئے کسی کی مددکرو ںاسی اثنامیںعبیداللہ کاترکی غلام رشید (١)آگے بڑھااور تلوار سے جناب ہانی پر ایک ضرب لگائی لیکن اس کی تلوار جناب ہانی کاکچھ نہ بگاڑ پائی تو ہانی نے کہا : ''الیٰ اللّٰہ المعاد !اللھم الی رحمتک و رضوانک'' خداہی کی طرف برگشت ہے، خدایا!تیری رحمت اوررضایت کی آرزو ہے ۔وہ پھر آگے بڑھااوردوسری مرتبہ آپ پر وار کر دیا۔ اس ضربت سے آپ نے جام شہادت نوش فر مایا۔(٢)آپ پر خداکی رحمت ہو۔
..............
١۔عبدالرحمن بن حصین مرادی نے اسے عبیداللہ بن زیاد کے ہمراہ قلعہ کے پاس دیکھا اورلوگوں نے کہناشروع کردیاکہ یہ ہانی بن عروہ کاقاتل ہے تو حصین کے لڑکے نے اس کی طرف تیر چلاکر اسے قتل کر دیا۔(طبری، ج٥،ص ٣٧٩؛ارشاد، ص ٢١٧؛تذکرةالخواص)
٢۔ ابو مخنف کا بیا ن ہے کہ صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے حو الے سے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔ ( طبری ،ج٥،ص٣٧٨)
اسکے بعد یہ جلاد آپ کا سر لے کر ابن زیادکے پاس چلے گئے۔ (١)
تیسرا شہید :
جناب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد ابن زیاد نے عبدالاعلی کلبی کو بلایا جسے قبیلہ بنی فتیان کے محلہ سے کثیر بن شہاب نے پکڑااور ابن زیاد کے پاس لے کر آیا تھا۔ابن زیاد نے اس سے کہا : اپنی داستان سناؤ ۔
تو اس نے کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے !میں اس لئے نکلا تھا تاکہ دیکھوں کہ لوگ کیا کر رہے ہیں،اسی اثنا ء میں کثیربن شہاب نے مجھے پکڑلیا ۔
ابن زیاد : تجھے سخت وسنگین قسم کھانی پڑے گی کہ تو فقط اسی کام کے لئے نکلا تھا جس کا تجھے گمان ہے تو اس نے قسم کھا نے سے انکار کر دیا۔
ابن زیاد نے کہا اسے میدان میں لے جاؤ اور اس کی گردن اڑادو !جلادوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس کا سر فوراً قلم کردیا۔
چو تھا شہید :
اس بندئہ خدا کی شہادت کے بعد عمارہ بن صلخب ازدی کو لا یا گیا جو جناب مسلم بن عقیل کی مدد کے لئے نکلے تھے اور انھیں گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس پہنچا دیا گیا تھا۔ابن زیاد نے ان سے پو چھا : تم کس قبیلہ سے ہو؟ انھوں نے جواب دیا'' ازد'' سے تو ابن زیاد نے کہا : اسے اس کے قبیلہ والوں کے پاس لے جاؤ اور اس کی گر دن اڑا دو۔(٢)
..............
١۔ یہاںپر طبری نے اس بات کو بیان نہیں کیاہے کہ ان دونوں بزرگ شخصیتوں کے پیر میں رسی باندھ کر انہیںکو فہ کے بازار وںمیں کھینچا جارہاتھا؛ لیکن مذکورہ روایت کو بیان کرنے کے بعد خو د ابومخنف ہی سے ابی جناب کلبی کے حوالے سے نقل کیاہے کہ اس نے'' عدی بن حرملہ اسدی'' سے اس نے'' عبداللہ بن سلیم'' اور'' مذری بن مشمعل'' (یہ دونوںقبیلہ اسد سے متعلق تھے ) سے اس نے ''بکیر بن مثعبہ اسدی'' سے نقل کیاہے کہ اس نے کہا: میںاس وقت تک کوفہ سے باہر نہیں نکلا تھا یہاں تک کہ مسلم اور ہانی بن عروہ شہید کردئے گئے اور میں نے دیکھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر کوفہ کے بازار میں کھینچاجارہاہے۔ (ج٥ ،ص ٣٩٧)خوارزمی نے ج٢، ص ١٢٥ پر اور ابن شہر آشوب نے ج ٢،ص ٢١٢ پر ذکر کیا ہے کہ ابن زیاد نے کوفہ کے کوڑے خانہ پر ان دونوں کو الٹا لٹکا دیا تھا ۔
٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٧٨، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیرنے عون بن ابی جحیفہ کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے ۔
مختار قید خانہ میں
جب دوسرے دن کا سورج نکلا اور عبیداللہ بن زیاد کے دربار کا دروازہ کھلا اور لوگوں کو دربار میں آنے کی اجازت ملی تو لوگ آہستہ آہستہ دربار میں آنے لگے انہیں آنے والوں میںمختار بھی تھے ۔ عبیداللہ نے انہیں پکارا اور کہاکہ سناہے تم ،لوگوں کو مسلم بن عقیل کی مدد کے لئے اکٹھا کر رہے تھے اور انھیں اکسا رہے تھے ؟
مختار : نہیں ایسا نہیں ہے، میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ میں تو کل آیا اور عمر وبن حریث کے زیر پرچم آگیا ، شب اسی کے ہمراہ گذاری اور صبح تک اسی کے پاس رہا ۔ عمرو بن حریث نے کہا : ہاں یہ سچ کہہ رہے ہیں؛ آپ کو اللہ سلامت رکھے ؛لیکن ابن زیاد نے چھڑی اٹھائی اور مختار کے چہرے پر مار مار کر ان کی پیشانی ، آنکھ ، اور پلک کو زخمی کر دیایہاں تک کہ مختارکی آنکھیں ٹیڑھی ہو گئیں؛ اس کے بعد بولا : تیرے لئے یہی سزاوار ہے۔ خدا کی قسم! اگر عمرو نے گواہی نہ دی ہوتی تو میں ابھی تیری گردن اڑادیتااور حکم دیا کہ اسے فور اً لے جاکرقید خانہ میں ڈا ل د و ۔کارندوں نے فوراً حکم کی تعمیل اور مختار کو قید خانہ میں ڈال دیا۔ یہ اسی طرح قید خانہ میں مقید رہے یہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے۔ (١)
یزید کے پاس سروںکی روانگی
ان خدا جْو، ظلم ستیز ، اور باطل شکن افراد کی شہادت کے بعد عبیدا للہ بن زیاد نے ہانی بن ابی حیہ و داعی کلبی ہمدانی اور زبیر بن ارواح تمیمی کے ہمراہ جناب مسلم بن عقیل اور حضرت ہانی بن عروہ کے سروں کو یزید بن معاویہ کی خدمت میں روانہ کر دیا اور اپنے کاتب عمروبن نافع کو حکم دیا کہ یزید بن معاویہ کے خط میں ان باتوں کی تصریح کر دے جو مسلم اور ہانی پر گزری ہے۔عمرونے ایک لمبا چوڑا خط لکھنا شروع کردیا۔جب ابن زیاد کی نظر اس پر پڑی تو اسے برالگا اس پر اس نے کہا : یہ اتنا لمبا کیا لکھا جا رہا ہے اور یہ فضول باتیں کیا ہیں ؟ اب میں جو بتا رہا ہوں وہی لکھو !پھر اس نے اس طرح خط لکھوانا شروع کیا:
..............
١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ نضر بن صالح نے کہا ہے۔( طبری ج٥ ،ص ٥٦١)
اما بعد اس خدا کی حمد و ثنا جس نے امیر المومنین کا پاس رکھا اور دشمنوں کی خراب کاریوں کو خود ہی درمیان سے ہٹا دیا۔امیر المومنین کی خدمت میں یہ خبر پیش کی جاتی ہے۔ خدا ان کو صاحب کرم قرار دے کہ مسلم بن عقیل نے ہانی بن عروہ مرادی کے گھر پناہ لی تھی اور میں نے ان دونوں کے اوپر جا سوس معین کر دیا تھا اور پورا پلان بناکر ان دونوں کو اپنے چنگل میں لے لیا اور خدا نے مجھے ان دونوں پر قدرت عطا فرمائی لہذا میں نے ان دونوں کے سر اڑا دیئے اور اب آپ کی خدمت میں ان دونوں کے ، سر ہانی بن ابی حیہ کلبی اور زبیر بن ارواح تمیمی کے ہمراہ روانہ کر رہاہوں۔ یہ دونوں حکومت کے خیر خواہ ،فرمانبر دار اور بے چوں و چرا باتوں کو سننے والے ہیں۔ امیر المومنین عراق کے حالات کے سلسلہ میں ان دونوں سے جو پوچھنا چاہتے ہیں پو چھ لیں کیونکہ یہ حالات سے آگاہ، سچے ، بافہم اور صاحب ورع ہیں ۔والسلام
یزید کا جواب
یزید نے اپنے خون آشام جلادکو اس طرح جواب دیا: امابعد، تم حکومت اور نظام کے دفاع میں ویسے ہی ہو جیسا کہ میں چاہتا تھا۔تمہارا کام دور اندیشی پر مبنی آئندہ نگر اور شجاعانہ ہے۔ وہاں کی حکومت کے لئے تم نے اپنی لیاقت اور صلاحیت ثا بت کر دی اور جو امیدیں تم سے وابستہ تھیں اسے عملی جامہ پہنادیا اور اپنے سلسلہ میں میرے گمان اور میری رائے کو واضح اور سچا کر دکھایا۔ تمہارے ان دو پیغام رسانوں کو میں نے بلایا اوران سے عراق کے حالات کے بارے میں سوال بھی کیا تو ان کے فہم و شعور وادراک کو ویساہی پایا جیسا کہ تم نے لکھاتھا ۔ میری تم سے ان کے سلسلہ میں سفارش ہے کہ ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آؤ! مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ حسین بن علی نے عراق کی راہ اختیار کر لی ہے اور تمہاری طرف بڑھ رہے ہیں ۔ اس سلسلہ میں تم حساس جگہوں پر پولس کی چوکی اورحفاظتی پہرے بیٹھادو تا کہ دور سے سب کی آمدو رفت پر نظر رکھ سکو اور اسلحوں سے لیس جوانوں کو آمادہ رکھو ؛کہیں ایسا نہ ہو کہ یکایک حالات بگڑ جائیں؛اورتم کو جو کوئی بھی مشکوک دکھائی دے اسکے بارے میں نگران رہو اور ذرہ برابرشک کی صورت میں بھی اس کو گرفتار کرلو لیکن یاد رہے کہ قتل اسی کو کرو جو تم سے مقابلہ کرے اورہر رونماہونے والے واقعہ کی خبر ہم تک پہنچاتے رہو ۔ والسلام علیک ورحمة اللہ (١)
٨ذی الحجہ ٦٠ھ منگل کے دن جناب مسلم علیہ السلام نے اموی جلاّد کے خلاف قیام کیاتھا۔ جس دن حضرت مسلم بن عقیل نے خروج کیا تھا امام حسین علیہ السلام نے ٹھیک اسی دن یعنی یوم الترویہ کو مکہ چھوڑ دیا ۔(٢)جناب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت پر عبدا للہ بن زبیر اسدی نے اشعار کہے اور فرزدق نے بھی اس سلسلہ میں یہ اشعار کہے ہیں :
ان کنت لا تدرین ما الموت فا نظری
الی ھانیٔ فی السوق و ابن عقیل
الی بطل قد ھشّم السیفُ وجھہ
وآخر یھو من طمار قتیل
أصابھما أمرالأ میر فأ صبحا
احادیث من یسر بکل سبیل
تری جسداً قد غےّرالموت لونہ
و نضح دم قد سال کلّ مسیل
فتی ھوأ حیی من فتاة حیےةٍ
وأقطع من ذی شفرتین صقیل
أیرکب أسماء الھما لیج آمناً
وقد طلبتہ مذحج بذحول
تطوف حو ا لیہ مر ا د و کلّھم
علی رقبة من سائل و مسول
فا ن انتم لم تثأر و ا بأ خیکم
فکونوا بغایا أرُضِےَت بقلیل(٣)و(٤)
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے یہ روایت ابو جناب یحٰبن ابی حیہ کلبی نے بیان کی ہے۔( طبری ،ج٥، ص ٣٨٠) یحییٰ بن ابی حیہ کلبی ابو جناب ہانی بن ابی حیہ کا بھائی ہے جو مسلم وہانی کا سر لے کر یزید کے پاس گیا تھا۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اس کے بھائی نے اس خبر کو فخر و مباہات میں ابو مخنف سے بیان کیا ہے کیونکہ ابن زیاد نے اس کے علم ، صدق، فہم اور ورع کی توصیف کی تھی جس کی یزید کی طرف سے تصدیق بھی ہوئی تھی۔ ہاں ایسی حماقت اور ایسے افعال کا ''کلابیوں'' سے سر زد ہونا بعید نہیں ہے ۔
٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے ذریعہ مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے۔( طبری ،ج٥ ، ص ٣٧٨ )
٣۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔( طبری، ج٥، ص ٣٨١ )
٤۔ طبری نے عمار دہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے حدیث بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ان لوگوں کے شاعر نے اس سلسلے میں یہ کہا ہے اور ان اشعار میں سے تین بیتوں کو کو ذ کر کیا ہے جس کا پہلا مصرع ''فان کنت لا تد رین ماالموت فا نظری'' (طبری، ج٥ ،ص ٣٥٠ ) لیکن یہاں پہلے مصرع میں'' ان کنت لا تدرین'' ذکر کیا ہے جو غلط ہے کیونکہ
اس سے مصرع وزن سے گر رہا ہے ، زبیر کے ''ز'' پر زبر ہے ۔شائد طبری نے اسے ابن اثیر کی الکا مل، ج٤،ص ٣٦، اور مقاتل الطا لبیین سے لیا ہے۔اصفہا نی نے مذکو رہ شخص کی شان میں یہ کہا ہے : ان کا شمارشیعوں کے بزرگ اور برجستہ محدثین میں ہو تا ہے۔عبادبن یعقوب رواجنی متوفی ٢٠٥ھ اور اس جیسے افراد اور جو اس سے بزرگتر تھے انھوں نے زبیر سے روایتں نقل کی ہیں۔ ( الا غانی ،ص ٢٩٠) اس کے علاوہ اور بھی لوگوں نے ان سے روایت نقل کی ہے یہ محمد بن عبد اللہ بن حسن صاحب نفس ذکیہ کے اصحاب میں شمار ہو تے ہیں جو ١٤٥ھ میں منصور کے عہد میں شہید کئے گئے پھر اصفہانی کہتے ہیں : یہ ابو احمد زبیر ی معروف محدث کا باپ ہے ( اغانی ،ص ٢٩٠) جس کا نام محمد بن عبد اللہ بن زبیر ہے؛ کشی نے عبد الر حمن بن سیا بتہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے کچھ دینا ر دے کر حکم دیا کہ یہ دینا ر ان لوگوں کے عیال کے در میان تقسم کردوں جو آپ کے چچا زید کے ہمراہ شہید ہو گئے میں نے ان کے درمیا ن و ہ دینار تقسم کردیئے جس میں سے ٤ دینارعبد اللہ بن زبیر الرّسان کے عیال تک پہنچا دیئے۔ (رجال کشی، رقم٦٢١) شیخ مفید نے ارشاد میں ابو خالد واسطی سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں : امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے ایک ہزار دینار دے کر حکم دیا کہ اسے ان لوگوںکے درمیان تقسم کر دوں جوزید کے ہمراہ مصیبتوں میں گرفتار ہوئے۔ فضیل رسان کے بھائی عبد اللہ بن زبیر کو ان میں سے ٤ درہم میسر ہوا ۔(الا رشاد ،ص ٢٦٩) شاید اس نام کے دو افراد ہیں کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اصفہانی نے عبد اللہ بن زبیرکو شیعوں کے برجستہ اور بزرگ محدثین میں شمار کر نے کے بعد اغانی کی ج١٣،ص ٣١پر اس بات کی تصریح کی ہے کہ وہ بنی امیہ کا پیر وتھا اور دل سے ان سے لگا ؤ رکھتا تھا اور بنی امیہ کے دشمنوں کے مقا بلہ میں ان کی مدد ونصرت کر نا چا ہتا تھا اوراس سلسلے میں بے حد متعصب تھا۔وہ ان کے اور ان کے کا رمندوں کے اوپر کسی کو تر جیح نہیں دیتا تھا۔ زیاداس کی ستائش اور اس کے ساتھ عطا و بخشش کرتا تھا اوراس کے قرضوں کو بھی ادا کر تا تھا۔ ابن زیاد کے بارے میںابن زبیر کی زبانی بہت ساری مدح وستائش موجود ہیں۔اسی طرح اسما ء بن خارجہ فزاری کی مدح میں بھی اس کے اشعار موجود ہیں ۔(اغانی، ج٣١، ص ٣٣و ٣٧) سید مقرم نے اپنی کتاب ''الشھید مسلم ''میںاس مطلب کو ذکر کیاہے اور فرمایاہے : آیا کسی کے لئے یہ سزاوار ہے کہ مسلم اورہانی کے سلسلہ میں اس قسم کے اشعار کو ایسے شخص کی طرف نسبت دے جس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ بنی امیہ کی طرف میلان رکھتاتھااوران کی مدح وستائش میںاس کے اشعار موجود ہیں؟پھر سید مقرم نے ترجیح دی ہے کہ یہ اشعار فرزدق کے ہیں جوانھوں نے ٦٠ھ میں حج سے لوٹتے ہوئے کہے تھے۔ ( الشھید مسلم، ص ٢٠١)اصفہانی نے ان اشعا ر کو ابن زبیر اسدی مدائنی کی طرف منسوب کیا ہے اور اس نے ابو مخنف سے اور اس نے یوسف بن یزید سے روایت کی ہے ۔
اگر تم کو نہیں معلوم ہے کہ افتخار آمیزموت کیا ہوتی ہے تو ہانی اور مسلم بن عقیل کی موت کو بازار میں دیکھ لو جو انتہائی شجاع و بہادراور دلیر ہیں ،جن کے چہرے کو ظلم کی شمشیر نے لہو لہان کردیا اور وہ دوسرا دلیر جس کے خون سے آ غشتہ جسم قصر کے اوپر سے پھینک دیا گیا ۔ امیر عبیداللہ کا بیداد گر اور خشونت و
بربریت پر مبنی وہ حکم تھا جس نے ان دونو ںکو یہاں تک پہنچادیا اور اب ان کی شہامت و شجاعت کی سر گذشت آئندہ نسلوں کے لئے ایک داستان ہوگئی ۔ ان کے بے جان جسم کو دیکھو جس کے رنگ کوموت نے بدل دیا ہے اور سرخ خون ان کے جسم کے ہر حصہ میں رواں ہے ۔ یہ وہ جواں مرد تھے جو شرم و حیا میں دوشیزگان سے بھی زیادہ حیا دار تھے اوربرش میں شمشیر دودم اور صیقل شدہ سے بھی زیادہ ان میں کاٹ تھی ۔ کیا اسماء بن خارجہ فزاری جو اموی جلاد کی جانب سے ان کے پاس گیا تھا اور فریب و دھوکہ دیکر ان کو ابن زیاد کے پاس لے کر آیا، وہ کوفہ کی گلیوںمیں امن و امان کے ساتھ اپنے مرکب پر بیٹھ کر گذرسکتا ہے ؟ جب کہ قبیلہ مذحج ہانی کے پاک خون کا اس سے طلب گار ہے ؟ ادھر قبیلہ مراد اس کے ارد گرد سائلوں کی طرح گھوم رہاہے ۔ ہاں جان لوکہ اگر تم نے اپنے سرو ر و سردار کے خون کا انتقام نہ لیا تو تم وہ فاحشہ عورت ہو جو تھوڑے سے مال کے لئے اپنی عفت و آبرو بیچنے پر راضی ہوجاتی ہے ۔
|