مسلم قصر کے دروازے پر
محمدبن اشعث، ابن عقیل کوقصرکے دروازے تک لے کر آیا۔ اس وقت آپ بہت پیاسے تھے۔ ادھر محل کے دروازے پر لوگ بیٹھے اجازت کے منتظر تھے جن میں عمارة بن عقبہ ابی معیط ، عمرو بن حریث ، مسلم بن عمر و اور کثیر بن شہاب (١)قابل ذکر ہیں۔ وہیں پر ٹھنڈے پانی کا کوزہ رکھا ہوا تھا۔ جناب مسلم نے کہا :'' اسقونی من ھذا المائ'' مجھے تھوڑا سا پانی پلادو! تومسلم بن عمر و باہلی بولا : تم دیکھ رہے ہو کہ یہ پانی کتنا ٹھنڈا ہے ! خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں پلایا جائے گایہاں تک کہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں کھولتا ہوا پانی تمہارے نصیب ہو ۔
جناب مسلم نے کہا :'' ویحک من انت ؟'' واے ہو تجھ پر تو کون ہے؟
اس نے کہا : میں اس کا فرزند ہوں (٢) کہ جب تم نے حق ے انکار کیا تواس نے اس کو پہچان لیا اور جب تم نے اپنے امام حاکم سے ناسازگاری کا مظاہرہ کیا تو اس نے خیر خواہی کی اور جب تم نے اس کی نافرمانی اور مخالفت کی تو اس نے اس کی فرمانبر داری اور اطاعت کی ! میں مسلم بن عمرو باہلی ہوں۔ جناب مسلم :'' لأمّک الثکل! ما أجفاک و ماأفظّک و أقسیٰ قلبک و أغلظک ! أنت ۔ یابن باھلہ۔ أولیٰٰ با لحمیم والخلود فی نار جھنم منّی ''
تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے! تو کتنا جفاکار ، خشن ، سخت دل اور بے رحم ہے ۔ اے فرزند باہلہ! جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ اور اس میں ہمیشگی تجھ پر زیب دیتی ہے نہ کہ ہم پر۔
..............
١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ جعفر بن حذیفہ طائی نے اس روایت کو بیان کیا ہے اور سعید بن شیبان نے حدیث کی تعریف کی ہے۔( طبری ،ج ٥، ص ٣٧٥)
٢۔کتابوں میں یہی جملہ موجود ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ میں وہ ہوں ... کیونکہ مسلم بن عمرو باھلی نے اپنے باپ کی تعریف نہیں کی ہے بلکہ اپنی تعریف و تمجید کی ہے ۔
پھر آپ محل کی دیوار پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ یہ حال دیکھ کر عمروبن حریث مخزومی نے اپنے غلام سلیمان کو بھیجا اور وہ کوزہ میںپانی لے کر آیا۔ (١)
اس کے اوپرایک رومال اور ساتھ میں ایک پیالہ بھی تھا۔اس نے پیالہ میں پانی ڈال کرجناب مسلم کو پینے کے لئے دیا لیکن جب بھی آپ پانی کو منھ سے لگاتے پیالہ خون سے بھر جاتا۔جب تیسری بار پیالہ خون سے بھر گیا اور پیتے وقت اس میں آگے کے دو دانت گر گئے تو حضرت مسلم نے فرمایا : '' الحمد للّہ ! لو کان لی من الرزق المقسوم شربتہ''(٢)اگر یہ پانی میرے رزق میں ہوتا تو میں اسے پی لیتا۔
اس کے بعد ابن اشعث نے اجازت چاہی تو اسے دربارمیں داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔ اپنے ہمراہ وہ حضرت مسلم کو بھی ابن زیاد کی خدمت میںلیکر حاضر ہوا لیکن حضرت مسلم نے اسے امیر کے عنوان سے سلام نہیں کیا۔ نگہبان نے کہا : تم امیر کو سلام کیوں نہیں کرتے ۔
..............
١۔ ابو مخنف نے یہاں سے قدامہ بن سعید کی روایت کو کاٹ دیا ہے تاکہ سعید بن مدرک بن عمارہ بن عقبہ ابن ابی معیط سے حدیث بیان کریںکہ اس نے اپنے غلام قیس کو پانی لانے کے لئے روانہ کیا تھا اورو ہ کوزہ آب لے کر آیا جبکہ روایت ظاہر میں قدامہ کی روایت کی طرف پلٹتی ہے اور ہم نے قدامہ بن سعید کی روایت کو جو اس نے اپنے جد زائدہ بن قدامہ ثقفی سے بیان کی ہے ترجیح دی ہے کیونکہ سعید بن مدرک جعل حدیث کے جرم میںمتہم ہے، مثال کے طور پر اس نے اپنے جد عمارہ کی فضیلت میں حدیث گڑھی ہے جبکہ قدامہ کی روایت میںاس قسم کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اس نے اسی روایت میں پانی لانے کے ذکرکو اپنے جدقدامہ سے منسوب نہیں کیاہے جبکہ وہ وہاں موجودتھابلکہ اس کی نسبت عمرو بن حریث کی طرف دی ہے اور عمروبن حریث کی دو خصوصیت ہے؛ ایک تو ا س نے مختار کے سلسلہ میں نرمی سے کام لیاکیونکہ ابن زیاد کے سامنے ایسی گواہی دی کہ مختارکو قتل سے نجات مل گئی۔ دوسرے موقع پراس نے اس وقت ابن زیاد کے سامنے حضرت زینب کی سفارش کی جب وہ آپ کو مارنے کے لئے کمر ہمت باندھ چکاتھا۔ اگر چہ اس کا یہ عمل قریشی غیرت و حمیت کی بنیاد پر تھا لیکن عمارہ بن عقبةبن ابی معیط اموی تو اہل بیت علیہم السلام کاسخت دشمن ہے۔مقدمہ میں اس کے حالات گذرچکے ہیں، وہاںملاحظہ کیجئے۔ شیخ مفید ارشاد ،ص ٢١٥،اور خوارزمی نے ص٢١٠پر اسی نظر کو اختیار کیاہے لیکن سماوی نے ص٤٥ پر دونوں خبروں کو جمع کر کے یہ کہا ہے کہ دونوں نے پانی لانے کو بھیجا تھا جب کہ یہ غلط ہے۔
٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے قدامہ بن سعید نے یہ روایت بیان کی ہے۔( طبری، ج٥،ص٣٧٥)
جناب مسلم نے کہا : ''ان کان یرید قتلی فما سلامی علیہ وان کان لا یرید قتلی فلعمری لیکثرن سلامی علیہ''اگر یہ مجھے قتل کرنا چا ہتا ہے تو پھر سلام کس لئے !اور اگرقتل نہیں کرنا چاہتا تو میری جان کی قسم میرا اس پربہت بہت سلام ہو ۔
ابن زیاد نے کہا : مجھے اپنی جان کی قسم ہے کہ تم ضرور بالضرور قتل کئے جاؤگے ۔
مسلم : ایسا ہی ہوگا ؟
ابن زیاد : ہاں ایساہی ہوگا
مسلم : تو پھر مجھے اتنی مہلت دے کہ میں کسی آشنا سے وصیت کر سکوں ۔
عمر بن سعد سے مسلم کی وصیت
یہ کہہ کر جناب مسلم علیہ السلام عبیداللہ کے درباریوں کی طرف نگاہ دوڑانے لگے تو سعد کے بیٹے عمر پر نظر پڑی۔ اس سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا : '' یا عمر ! انّ بینی و بینک قرابة (١) ولی الیک حاجة وقد یجب لی علیک نجح حاجتی وھو سرّ ''اے عمر !میرے اور تمہارے درمیان رشتہ داری ہے اور تم سے مجھے ایک کام ہے جو راز ہے لہذا تم پر لازم ہے کہ میرے اس کام کو انجام دو۔
عمر سعد نے اس درخواست سے انکار کرنا چا ہاتو عبیداللہ نے کہا : اپنے چچا زادبھائی کی درخواست مت ٹھکراؤ ۔یہ سن کر عمر سعد اٹھا اور وہاں جا کر مسلم کے ہمراہ بیٹھا جہاں ابن زیاد بخوبی دیکھ رہاتھا۔ حضرت مسلم نے اس سے کہا : جب سے میںکوفہ میں آیاہوں اس وقت سے لے کر اب تک سات سو (٧٠٠) درہم کا مقروض ہو چکا ہوں اس کو تم میری طرف سے ادا کردینا۔
دوسری وصیت یہ کہ ہمارے جسد خاکی کو ان سے لے کر دفن کر دینااور تیسری وصیت یہ ہے کہ حسین علیہ السلام کی طرف کسی کو روانہ کر کے انہیں کوفہ آنے سے روک دینا کیونکہ لوگوں کی مسلسل
١۔ جناب مسلم اور عمر سعد کے درمیان ایک قرابت تو قریش ہونے کی بنیاد پر تھی اور ماں کی طرف سے آپ بنی زہرہ جو بنی سعد کا قبیلہ ہے، سے متعلق تھے ۔
درخواست اور مسلسل بیعت کے بعد میں نے ا ن کو لکھ دیا تھا کہ لوگ آپ کے ساتھ ہیں لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ وہ راستہ میں ہوں گے ۔ (١)
..............
١۔ اشعث کے لڑکے سے وصیت کرنے کے بعد دوبارہ پسر سعد سے وصیت کرنے کا مقصد یہ تھا کہ شاید ان میں سے کوئی یک خبر پہنچادے۔
مسلم علیہ السلام ابن زیاد کے رو برو
وصیت کے بعد ابن زیاد جناب مسلم سے مخاطب ہوا اور بولا : اے عقیل کے فرزند ! لوگوں کے کام اچھے سے چل رہے تھے اور سب ہمدل اور متحد تھے، تم نے ان کے شہر میں داخل ہوکر انھیں پراکندہ کردیا ، اختلاف اورکشمکش کا بیج ان کے درمیان ڈال دیا اور انھیں ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑاکیا ؛ سچ بتاؤ ! یہ عمل تم سے کیوں سرزد ہوا ؟
حضرت مسلم نے جواب دیا :'' کلا لست آ تیت و لکن أہل المصر زعموا أن أباک قتل خیار ھم و سفک دماء ھم و عمل فیھم أعمال کسری و قیصر فأ تینا ھم لنأ مر با لعدل و ندعوا لی حکم الکتاب'' ہر گز ایسا نہیں ہے، میں خود سے نہیں آیا ہوں بلکہ اس شہر کے لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ تیرے باپ نے ان کے نیک بزرگوں کو قتل کیا ، ان کا خون بہایا ہے اوران کے درمیان قیصر و کسری کے بادشاہوں جیسا سلوک کیا ہے لہذا ان لوگوں نے ہم کو دعوت دی تاکہ ہم یہاں آکر عدل و انصاف قائم کریںاور حکم خدا کی طرف دعوت دیں ۔
عبیداللہ : اے خدا کے نا فر مان بندے !تجھے ان سب چیزوں سے کیا مطلب جب تو مدینہ میںبیٹھا شراب پی رہا تھا تو ہم ان کے درمیان عدالت اور کتاب خدا کے حکم کی بنیاد پر حکومت کررہے تھے۔
مسلم :'' أنا أشرب الخمر ! واللّٰہ ان اللّٰہ لیعلم أنک غیر صادق وأنک قلت بغیر علم وأنلست کما ذکرت وانّ أحق بشرب الخمر منّی و أولیٰ بھا من یلغ فی دماء المسلمین و لغاً فیقتل النفس الت حرّم اللّٰہ قتلھاو یقتل النفس بغیر النفس و یسفک الدم الحرام و یقتل علی الغضب والعداوة و سوء الظن ویلھو و یلعب کأنّ لم یصنع شیئاً''
میں شراب پی رہا تھا ! خدا کی قسم خدا جانتا ہے کہ تو سچانہیں ہے اور تو نے علم ودانش کے بغیریہ جملہ کہا ہے؛ میں ویسا نہیں ہوں جیساتونے ذکر کیا ہے ،شراب خوار اور مست تووہ ہے جو مسلمین کے خون سے آ غشتہ ہے،جو ایسے نفوس کو قتل کرتاہے جنہیں قتل کرنے سے اللہ نے روکاہے اور جوبے گناہ لوگوں کو قتل کیاکرتاہے ، حرام خو ن کے سیلاب بہاتاہے اور غصہ ، دشمنی اور بد گمانی کی بنیاد پر لو گو ںکو قتل کیاکرتاہے، لھو ولعب وعیش و نوش میںمشغول رہتا ہے اور اس طرح زندگی گذارتا ہے جیسے کوئی خیانت اور بیہودگی انجام ہی نہ دی ہو ؛ایسے شخص پر شراب خواری زیب دیتی ہے نہ کہ ہم پر ۔
ابن زیاد : اے فاسق !یہ تیری ہوی و ہوس ہے جسے خدانے تیرے لئے قرار نہیں دیا؛بلکہ تیری اس آرزوکے درمیان حائل ہوگیا اور تجھے اس کا اہل نہیںسمجھا ۔
مسلم : ''فمن أھلہ ؟ یابن زیاد ! ''اے ابن زیاد ! تو پھر اس کا اہل کون ہے ؟
ابن زیاد : امیر المومنین یزید اس کے اہل ہیں ۔
مسلم : ''الحمد للّہ علی کل حال ، رضینا با للّٰہ حکماً بیننا و بینکم'' خدا کا ہر حال میں شکر گذار ہوںاور اس پر راضی ہوں کہ وہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے ۔
ابن زیاد : ایسی باتیں کررہے ہو کہ گویا قوم و ملت کی پیشوائی اور ان پرحکومت تمہارا حق ہے ۔
مسلم :'' واللّہ ما ھو با لظن ولکنہ الیقین''خدا کی قسم اس میں ذرہ برابر گمان نہیں بلکہ یقیناً یہ ہماراہی حق ہے۔
ابن زیاد :اللہ مجھکو قتل کر دے اگر میں تم کو اس طرح قتل نہ کروں جس طرح پورے اسلام کی تاریخ میںاب تک کسی کو قتل نہیںکیا گیا ہے۔
مسلم : ''أما انک لاتدع سوء القتلة و قبح المثلہ و خبث السیرة و لؤم الغلبة ولا أحد من الناس أحق بھا منک'' ہاں !بے دردی سے قتل کر نے ،بری طرح جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے ، خبیث اور پلید سرشت اور ملامت آمیزعادت کی کثرت کو تم کبھی نہ ترک کرنا تیرے علاوہ ایسا برا کام کوئی انجام بھی نہیں دے سکتا ہے۔ اوباشوں کا ہتھیار گالی ہے لہذا حضرت مسلم علیہ السلام کی عقل آفرین گفتگو اور اپنی قلعی کھلنے کے بعد سمیہ (١)کے فرزند کوجب کوئی جواب نہیں ملا تو اس نے امام حسین ، حضرت علی اور جناب عقیل کو گالیاں دینا شروع کر دیا ۔
حضرت مسلم علیہ السلام کی شہادت
پھر ابن زیاد بولا : اسے محل کی چھت پر لے جاؤاور اس کی گردن مار دو ،اس کے بعد اس کے جسد کو زمین پر پھینک دو ۔یہ وہ موقع تھاجب جناب مسلم نے اشعث کے لڑکے کو مخاطب کر کے فرمایا : '' یابن الاشعث اماواللّٰہ لولاانک آمنتنی ما استسلمت ، قم بسیفک دونی فقد أخفرت ذمتک'' (٢)اے اشعث کے فرزند! خدا کی قسم اگر تو نے امان دینے کا وعدہ نہ کیا ہوتا تو میں جنگ سے کبھی بھی دست بردار نہ ہوتالہذا اب اٹھ اور جسے وعدۂ امان دیا ہے اس کاجواںمردی کے ساتھ دفاع کرکیونکہ تیری حرمت اور تیرے حقوق پامال کئے جارہے ہیں ۔
یہ سنتے ہی محمد بن اشعث آگے بڑھا اور ابن زیاد کے پاس آکر جناب مسلم کے زخمی ہونے ، بکیر بن حمران پر حملہ کرنے اور اپنے امان دینے کا سارا واقعہ ابن زیاد سے کہہ سنایا اور اس بات کی بھی صراحت کی کہ میں نے انہیں امان دی ہے؛ لیکن عبید اللہ بن زیاد بولا : تمہارے امان دینے سے کیاہوتا ہے،کیا ہم نے تمہیں امان دینے کے لئے بھیجا تھا ؟ہم نے تو تم کو فقط اس لئے بھیجا تھاکہ تم اسے لے آؤ ۔یہ سن کر محمد بن اشعث خاموش ہوگیا ۔ (٣)
..............
١۔'' سمیہ ''زیاد کی ماں زمانہ جاہلیت میں برے کاموں کی پرچم دار تھی۔ ابو سفیان اور دوسرے مردوں نے اس سے زنا کیا جسکے نتیجہ میں زیاد کا وجود دنیا میں آیا ۔باپ کے سلسلہ میں اختلاف شروع ہوایہاں تک کہ نوبت قرعہ پر آئی۔ تیروں کو پھینک کر قرعہ کیا گیاتوقرعہ ابو سفیان کے نام نکلا لیکن ہمیشہ اسے بن زیادبن سمیّہ ہی کے نام سے یاد کیا گیا یہاںتک کہ معاویہ نے اسے اپنے باپ سے نسبت دیتے ہوئے اسے اپنا بھائی قرار دیا جو دین اور عرف کی نظر میں معاویہ کا ایک بد ترین عمل تھا ۔
٢۔ابو مخنف کابیان ہے کہ مجھ سے سعید بن مدرک بن عمارہ نے اپنے جد عمارہ بن عقبة بن ابی معیط کے حوالے سے اس حدیث کو ذکر کیا ہے ۔(طبری ،ج٥،ص ٣٧٦)
٣۔ابومخنف کابیان ہے کہ جعفر بن حذیفہ طائی نے مجھ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔( طبری ،ج٥،ص ٣٧٥)
پھرا بن زیادبولا: کہاں ہے وہ شخص جس کے سر اور شانے پر ابن عقیل نے ضرب لگائی تھی؟ یہ کہہ کر اسے بلایا او ر اس سے یو ں مخاطب ہوا : اسے لے کر اوپر جاؤ اور اس کا سر قلم کر کے اپنا انتقام لے لو !یہ سنتے ہی بکیرا حمری ''حضرت مسلم'' کو لے کر محل کی چھت پر اس حالت میں آیا کہ آ پ کی زبان پر تکبیر ( اللّہ اکبر ) واستغفار (استغفراللّہ ...) تھا اور آپ ملائکہ الہٰی اور خدا وندعالم کے رسولوں پر درود و سلام بھیج رہے تھے اور باربارزبان پر یہ فقرے جاری ہو رہے تھے: ''اللھم احکم بیننا و بین قوم غرّونا و کذّبونا و أذلّونا'' خدا یا !ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں دھوکہ دیا ، ہمیں جھٹلایا اور ذلیل کیا !
بکیر بن حمران احمری آپ کو چھت کے اس حصہ کی طرف لے گیا جو اس وقت قصابوں کی جگہ تھی(١) اور وہیں پر آپ کا سر قلم کر کے آپ کو شھید کر دیا۔ سر کاٹنے کے بعداسے نیچے پھینک دیا اوراس کے فوراً ہی بعد جسم کو بھی نیچے ڈال دیا۔
قتل کر نے کے بعد بکیر بن حمران احمری جس نے ابھی ابھی جناب مسلم کو شہیدکیا تھا نیچے اترا تو ابن زیاد نے اس سے پو چھا : اسے قتل کردیا ؟ بکیرنے کہا: ہاں۔
ابن زیاد نے سوال کیا : جب تم اسے اوپر لے جارہے تھے تو وہ کیا کہہ رہا تھا ؟
بکیر: وہ تکبیر، تسبیح اور استغفار کررہا تھا اور جب میں نے اس کو قتل کرنے کے لئے اپنے سے قریب کیا تو اس نے کہا :'' اللھم احکم بیننا وبین قوم کذّبو نا وغرّوناوخذ لونا وقتلونا'' خدا! تو ہی ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں جھٹلا یا ، دھوکہ دیا ، تنہاچھوڑ دیا اور قتل کردیاپھر ہم نے اس سے کہا : میرے نزدیک آ !جب وہ نزدیک آیا تو میں نے ایسی ضربت لگا ئی کہ وہ سنبھل نہ سکا پھر ہم نے دوسری ضربت میں اسے قتل کردیا۔
..............
١۔ارشادمیںص ٢١٦پر شیخ مفید نے الحذا ئیین لکھا ہے یعنی جوتے والوںکی جگہ اور خوارزمی نے ص٢١٥پر سوق القصابین لکھا ہے یعنی قصا بوں کا بازاراورص٢١٤ پرلکھاہے کہ وہ جگہ جہاںبکریاں بیچی جاتی تھیں۔ طبری کی عبارت سے مذکورہ مطلب زیا دہ قابل ترجیح ہے''الیوم''سے مرادابومخنف کا زمانہ ہے کیونکہ اس زما نے میںبالا خانہ کے اس حصہ سے وہ علاقہ دکھائی دیتا تھا ۔
اس گفتگو کے بعد وہ گیا اور جناب مسلم کا سر لا کر ابن زیاد کی خدمت میں پیش کر دیا ۔(١) تقرب جوئی کے لئے اس وقت عمر بن سعد نے آگے بڑھکر ابن زیاد سے کہا : آپ کو معلوم ہے کہ مسلم مجھ سے کیا کہہ رہے تھے ؟ اوراس نے ساری وصیت ابن زیاد کے گوش گزار کردی تو ابن زیادنے مذاق اڑاتے ہوئے کہا : امین خیانت نہیں کر تا؛ ہا ں کبھی کبھی خائن پر امین کا دھو کہ ہو تا ہے۔ (٢)
اس وصیت میں جو چیز یں تم سے مربوط ہیں اس سے ہم تم کو منع نہیں کرتے، تمہا را جو دل چاہے کرو اسکے تم مالک ہو۔(٣)
لیکن حسین نے اگر کوفہ کا رخ نہیں کیا تو ہمیں ان سے کوئی مطلب نہیں ہے اور اگر وہ ادھر آئے تو ہم انھیں نہیں چھوڑیں گے۔ اب رہا سوال مسلم کے جسم کا تو جب ہم نے قتل کر دیا ہے اب ہم کو اس کے جسم سے کوئی مطلب نہیں ہے جس کو جو کرنا ہے کرے ۔(٤)
..............
١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ صقعب بن زہیرنے عون بن ابی حجیفہ کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔( طبری، ج٥، ص٣٧٨)
٢۔ جب پسر سعد نے یہ دیکھا ابن زیاد جناب مسلم کے قاتل ابن حمران سے حضرت کے قتل کے احوال پوچھ رہا ہے تو تقرب جو ئی اور چاپلو سی میںبغیر پو چھے ابن زیاد کو جناب مسلم کی ساری وصیت سنادی تو ابن زیاد نے اسے خیانت کا رکہا ،ہاںچاپلوسوںکا نیتجہ ایسا ہی برا ہو تا ہے۔
٣۔ ''ما لک '' کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گویا اسے ابن زیاد نے جناب مسلم علیہ السلام کاوارث قرار دیا ہے۔
٤۔ بعض روایتوں میںیہ جملہ ہے :اس سلسلہ میں ہم تیری سفارش قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ ہمارے افراد میں سے نہیں ہیں۔ انھوںنے ہم سے جہاد کیا ، ہماری مخالفت کی اور ہماری ہلاکت کی کوشش کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٧٧)اسی روایت ابومخنف میںیہ عبارت ہے کہ'' وزعموا انہ قال...''
|