مسلم کی تنہائی کے بعد ابن زیاد کا خطبہ
نماز کے بعد ابن زیاد منبر پر گیا اور حمد و ثناے الہٰی بجالانے کے بعد بولا : امابعدجا ہل اور بیو قوف ابن عقیل کو تم لوگو ں نے دیکھا کہ اختلاف اور جدائی لے کر یہاں آیا۔میں ہر اس شخص کی حرمت سے بری الذ مہ ہوں۔جس کے گھر میں ہم نے مسلم کو پا لیا اور جو بھی مسلم کو لے کرآئے گا اس کا خون بہا اسے دیدیا جا ئے گا ! اے بندگا ن خدا تقویٰ اختیار کرو ، اپنی طاعت وبیعت پر برقرار رہواور اپنی حرمت شکنی کے راستے نہ کھولو ۔
اس کے بعدسپاہیوں کے سربراہ حصین بن تمیم کی طرف رخ کیا اور کہا : اے حصین بن تمیم ! ہشیار ہو جا اگر شہر کو فہ کا کو ئی دروازہ بھی کھلا یا یہ مرد اس شہر سے نکل گیا اور تو اسے نہ پکڑ سکا تو یہ دن تیری ماں کے لئے عزاکا دن ہو گا ! ہم نے تجھے کو فیوں کے سارے گھر کو سونپ دیا ہے، تو آزاد ہے، جس گھر میں چاہے جا کر تلا ش کر لہٰذا تو فوراً شہر کوفہ کے دروازوںپر نگہبانوں کو لگا دے اور کل صبح سے دقت کے ساتھ گھروں کی تلا شی لے اورٹوہ میں لگ جا یہا ں تک کہ اس مرد کو میرے سامنے پیش کرے۔
ابن زیاد مسلم کی تلا ش میں
اس آتشیں تقریر کے بعد ابن زیاد منبر سے نیچے آگیا اور محل کے اندر چلا گیا اس کے بعدعمرو بن حریث مخزومی (١)کے ہا تھ میں ایک پر چم دے کر اسے اپنے اطرافیوں اور کار کنوں کا سر براہ بنا دیا(٢) اور اپنی
..............
١۔ یہ وہی شخص ہے جس نے نہاوند کی فتح کے بعد مسلمانوں کے غنا ئم جولو لو و مرجان اور یاقوت و زمّردسے بڑے بڑے ٹوکروں پر مشتمل تھے غنائم کے منشی سائب بن اقرع ثقفی کو دھوکہ دے کر دو ہزار درہم میں خرید لیا۔ اس کے بعد اسے لیکر سر زمین کفر میں پہنچا اور اسے چالیس لاکھ میں بیچا۔ اس طرح ٢١ھ میں یہ عرب کے سرمایہ داروں میں شمار ہونے لگا ، یہ کوفہ میںسعید بن عاص کا جانشین تھااور ٣٤ھ میں یہ لوگوں کو عثمان کے سلسلہ میں تحرک سے روکتا تھا۔( طبری، ج٤ ،ص ٣٣٢) ٥١ ھمیں یہ کوفہ میںزیاد بن سمیہ کاجانشین تھا ۔ اس نے جناب حجربن عدی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف گواہی دی تو ان کے ساتھیوں نے ان پر پتھراو کردیا۔( طبری، ج٥، ص ٢٥٦ ، ٢٦٨) یہ ایک مدت اہل مدینہ کا سربراہ تھا۔ ٦٤ھمیں یہ کوفہ میں ابن زیاد کا جانشین تھا ۔جب یزید ہلاک ہوگیا اور ابن زیاد نے لوگوں کو اپنی بیعت کی طرف بلایا تواس نے ابن زیاد کی پیروی کی اور لوگوں کو ابن زیاد کی طرف دعوت دینے لگا۔اس وقت کوفیوں نے اس پر پتھراؤ
کردیا،( طبری، ج٥ ،ص ٥٢٤) اس کو محل سے نکال دیا( طبری ،ج٥،ص ٥٦٠) اور اسے معزول کردیا۔ ٦٦ھ میں یہ مختار کے انقلاب میں شر یک ہو گیا۔ (طبری ،ج ٥، ص ٣٠) کوفہ میںاس کا ایک حمام بھی تھا۔( طبری، ج٦، ص ٤٨) عبد الملک نے اسے ٧١ھ میں اپنے مقر بین میں شامل کرلیا۔( طبری ،ج٦، ٣٧٦) اس نے مسلم بن عقیل کے لئے پانی لانے سے انکار کر دیااور ابن زیاد کے سامنے جناب زینب کی سفارش نہیںکی۔ (طبری، ج٥،ص ٤٥٧) مگر یہ قریش کی غیرت تھی جس نے ایسا کر نے پر مجبور کیا ۔٨٥ھمیں اسے موت آگئی۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت ''ذیل المذیل'' ص ٥٢٧، طبع سویڈن کے مطابق اس کی عمر ١٢سال تھی۔
نیا بت میں اسے حکم دیا کہ مسجد میںبیٹھ کر لوگوں کے امور کو حل وفصل کرے۔
عبیدا للہ کے خلاف جناب مسلم کے قیام کی خبر پورے کو فہ میں پھیل چکی تھی۔ جناب مختار کوبھی جو کو فہ کے نزدیک ایک گاؤں میں زندگی بسر کر رہے تھے جسے '' لقفا'' کہتے ہیںاور آپ جناب مسلم کے ہا تھوں پر بیعت کر نے کے بعد اس گاؤں میں لوگوں سے جناب مسلم کے لئے بیعت لے رہے تھے،انہیں نصیحتیںکر رہے تھے اور لوگوں کو آپ کی فر ما نبرداری کی دعوت دے رہے تھے ،جیسے جناب مسلم کی غر بت و تنہا ئی کی خبر ملی اپنے دوستوں ، غلاموں اور ہم فکروں کے ہمراہ ان کی مدد کے لئے روانہ ہوگئے۔ غروب آفتاب کا وقت تھا کہ مختا ر مسجد کو فہ کے باب الفیل کے پاس آکر رکے ۔اپنے راستے میں عمرو بن حریث کے پاس وہ پر چم امان دیکھا جسے عبید اللہ نے جناب مسلم کے ساتھیوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس کے ہا تھوں سونپا تھا ۔
جب مختار باب الفیل کے پاس تھے کہ وہاں سے ہا نی بن ابی حیہ وداعی کا گذرہوا۔ (١) اس نے مختار سے کہا : تم یہاں کس لئے کھڑے ہو؟ ! نہ تو لوگوں کے ساتھ ہو نہ ہی اپنے راستہ پر ہو ؟ اس پر مختار نے کہا : تم لوگوں کی عظیم غلطی اور خطا پر میرے افکار متز لزل ہیں ۔
ہا نی بن ابی حیہ نے کہا : میں سمجھتا ہو ں کہ خود کو قتل کر وانا چاہتے ہو ۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے آگے بڑھ کر عمروبن حریث کے پاس گیا اور اسے اس واقعہ سے خبر دار کردیا ۔(٢)
..............
٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے مجالد بن سعید نے یہ روایت کی ہے۔( طبری ،ج ٥، ص٣٧١ ، ٣٧٣ )
١۔اس کا شمار انہیں لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے جناب حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف گواہی دی تھی( طبری ،ج٥،ص ٢٧٠) نیز یہ ان لوگوں میں سے ایک ہے جو جناب مسلم اور جناب ہانی کے سر کو لے کر یزید کے پاس گئے تھے۔ ( طبری ،ج٥، ص ٣٨ ) ٦٤ ھ میں یہ شخص ابن زبیر کے عہد حکومت میں مکہ میں مختار سے ملا اور اسے مختار سے معلوم ہوا کہ وہ کوفہ پلٹنے والے ہیں اور وہاں سے حملہ کرنے والے ہیں تو اس نے مختار کو گمراہ کن فتنے سے ڈرایا۔( طبری، ج ٥، ص ٥٧٨) ٢۔طبری، ج٥ ص، ٥٦٩، ابو مخنف نے نضر بن صالح سے نقل کیا ہے۔
مختار کا نظریہ
عبد الرحمن بن ا بی عمیر ثقفی (١) کا بیان ہے کہ میں عمرو بن حریث کے پاس بیٹھا تھا کہ ہا نی بن ابی حیہ مختار کی سنانی لیکر پہنچا ۔ابن حریث نے مجھ سے کہا : اٹھو اور اپنے چچا سے کہو کہ مسلم بن عقیل کو نہیں معلوم ہے کہ تم کہاں ہو اور اپنی حرمت شکنی کے لئے راستہ نہ کھو لو۔ میں اٹھا کہ انہیں جا کر لاؤں اس پر زائدہ بن قدامہ بن مسعود (٢) اٹھا اور اس نے کہا کہ وہ مختار کو لا ئے گا لیکن اس شرط پر کہ وہ امان میں ہوں۔ عمروبن حریث نے کہا :
میری جانب سے وہ امن میں ہیں اور اگر بات امیر عبیداللہ بن زیاد تک پہنچی تو میں اس کے سامنے کھڑے ہو کر مختار کے حق میں گواہی دوںگا اور بہتر ین طریقہ سے سفارش کروںگا ۔
اس پر زائدہ بن قدامہ نے کہا : ایسی صورت میںانشا ء اللہ خیر کے علا وہ کچھ بھی نہیں ہے ۔
عبد الر حمن کا بیان ہے کہ میں نکلا اورمیرے ہمراہ زائدہ بھی مختار کی طرف نکلا ۔ہم دونوں نے مختار کو خبر دی اور انہیں قسم دی کہ اپنے لئے مشکل کھڑی نہ کریں اور حرمت شکنی کا راستہ نہ کھو لیں۔اس پر وہ ابن حریث کے پاس آئے، سلام کیا اور اس کے پر چم تلے رات بھر بیٹھے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ (٣)
..............
١۔٦٧ھ میں یہ مختار کے قیام میں شریک تھے۔ (طبری، ج٦، ص ٩٨) ظاہر یہ ہے کہ یہ عبد الرحمن بن عبداللہ بن عثمان ثقفی ہے جو معاویہ کی بہن ام حکم کا بیٹا ہے، جسے معاویہ نے ٥٨ھ میںکوفہ کا عامل بنا یا تھا ۔یہ عہدہ معاویہ نے ضحاک بن قیس کے بعداسے دیا تھا۔ اس کی پولس کا سر براہ زائدہ بن قدامہ ثقفی تھا( طبری ،ج٥، ص ٣١٠)اور اس سے پہلے ٥١ھ میںیہ موصل میںمعاویہ کا عامل تھا ۔اسی نے یہ گمان کرتے ہوئے کہ عثمان کے قتل کاقصاص لے رہا ہے جناب عمروبن حمق خزاعی کو مرض کے عالم میں قتل کر دیاتھا۔( طبری، ج٥، ص ٢٦٥)اس کی بری سیرت کی وجہ سے اہل کو فہ نے اس کو مطرود کر دیا تو یہ اپنے ماموں معاویہ سے ملحق ہو گیا۔ اس نے اس کو مصر کا والی بنا دیا۔وہاں سے بھی اس کو نکال بھگایاگیاتو وہ معاویہ کے پاس لوٹ گیا ( ج٥، ص ٣١٢) اور اگر اس کی یزید سے رشتہ داری نہ ہوتی تو ابن حریث اس کو کوئی فائدہ نہ پہونچاتا ۔
٢۔مقدمہ میں اس کی پوری تفصیل گذرچکی ہے، رجوع کریں۔
٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے: نضر بن صالح نے عبد الرحمن بن ابی عمیر ثقفی کے حوالے سے مجھے یہ خبردی ہے۔( طبری ،ج٥، ص ٥٧٠)
ابو جناب کلبی کا بیان ہے کہ کثیر بن شہاب حارثی کی ملاقات ایک جوان سے ہوئی جو اسلحو ںسے لیس تھا؛ جسے عبد الاعلی بن یزید کلبی کہتے ہیں۔ابن شہاب نے اسے گر فتار کرکے ابن زیاد کے پاس پہنچا دیا اور اس جواں مرد کی ساری داستان کہہ سنائی تو کلبی نے ابن زیاد سے کہا : میں نے تمہاری ہی طرف آنے کا ارادہ کیاتھالیکن ابن زیاد نے اس کی بات نہ مانی اور کہا کہ یہ تم نے اپنا ارادہ بتایا ہے ؛یہ کہنے کے بعداس نے اسے قید کرنے کا حکم صادر کردیا اور لوگوں نے اسے قید کردیا۔ (١)
دوسری صبح
دوسرے دن کا سورج افق پر طلوع ہوا اور اپنے ساتھ داستانوں کا لشکر لے کر آیا ۔صبح ہوتے ہی ابن زیاد اپنے دربار میں آکر بیٹھا اور لوگوں کو آنے کی اجازت دی تو لوگ دربار میں داخل ہو نے لگے۔ انہیں داخل ہونے والوں میں محمد بن اشعث بھی تھا۔ابن زیاد بولا : آفرین اور مرحبا! اس شخص پر جواپنے امیر سے نہ تو خیانت کرتا ہے اور نہ ہی مورد تہمت واقع ہوتا ہے ۔یہ کہہ کر اسے اپنے پہلو میںجگہ دی ۔
ادھر دوسرے دن صبح نیک شرست جناب مسلم کو پناہ دینے والی ضعیفہ کا لڑکا بلال بن اُسید عبدالر حمن بن محمد بن اشعث کے پاس آیا اور ساری روداد سنادی کہ مسلم بن عقیل اس کے گھر میں اس کی ماں کی پناہ میں ہیں ۔ عبدالرحمن وہاں سے فوراً اپنے باپ کے پاس آیا جوابن زیاد کے پاس موجود تھا اور آہستہ آہستہ سب کچھ سنا دیا۔ اس سر گوشی کو جب ابن زیاد نے دیکھا تو اس نے کہا : یہ تم سے کیا کہہ رہا تھا؟ محمد بن اشعث بولا : اس نے مجھ کو ابھی ابھی خبر دی ہے کہ مسلم ابن عقیل ہمارے ہی قبیلہ کے ایک گھر میں پناہ لئے ہوئے ہیں ۔ابن زیاد نے اپنی چھڑی کی نوک اس کے پہلو میں چبھائی اور بولا : اٹھو اور ابھی اسے لے کر یہاں آؤ!(٢)
..............
١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے ابوجناب کلبی نے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٦٩)
٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ یہ روایت مجالد بن سعید نے مجھ سے بیان کی ہے۔( طبری، ج٥، ص٣٧١، الاشاد، ص ٢١٣، تذکرةالخواص،ص ٢٠٨)
محمد بن اشعث جناب مسلم کے مقابلے میں
ابن زیاد نے عمروبن حریث کے پاس ایک آدمی کو بھیجا جو اس وقت مسجد میں اس کا جانشین تھا کہ فوراً قبیلہ قیس کے ساٹھ یا ستر آدمیوں کو ابن اشعث کے ساتھ روانہ کرے ۔ابن زیاد کو یہ ناپسند تھا کہ ابن اشعث کے قبیلہ کے لوگ اس کے ہمراہ جائیں(١)کیونکہ اسے معلوم تھا کہ تمام قبیلوں کو یہ ناپسند ہے کہ وہ مسلم ابن عقیل جیسی شخصیت کے مد مقابل آئیں۔ عمر و بن حریث نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے فوراًعمرو بن عبیداللہ بن عباس سلمی کی سربراہی میں قبیلہ قیس کے ساٹھ یاستر آدمیوں کوابن اشعث کے ہمراہ روانہ کیا۔ ان سب نے اس گھرکو محاصرہ میں لے لیا جس میںجناب مسلم موجود تھے ۔
جناب مسلم کا ابن اشعث سے جہاد
جب گھوڑوں کی ٹاپوں کی صدا ور سپاہیوںکی آواز جناب مسلم کے کانوں میں پہنچی توآپ سمجھ گئے کہ لشکر آ گیا ہے لہٰذا نیام سے شمشیر کو باہر نکا لا اور فوراً مقابلہ کے لئے باہر آگئے۔ ان لوگوں نے گھر پرحملہ کر دیا لیکن جناب مسلم نے اس گھر کا دفاع کرتے ہوئے ان پر ایسا زبر دست حملہ کیا کہ وہ تاب نہ لا کر پیچھے ہٹ گئے۔ جب وہ پھر آگے بڑھے تو جناب مسلم نے پھر ویسا ہی حملہ کیا۔ اسی اثنا میں بکیر بن حمران احمری شامی نے آپ کے رخسار پر ضرب لگائی جس سے آپ کے اوپر والے ہونٹ کٹ گئے اور تلوار نچلے ہونٹ کو زخمی کر گئی جس سے آپ کے آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ ادھر جناب مسلم نے بھی مرگبار تلوار اس کے سر پر چلائی اور ایک دوسری تلوار اس کے شانے کے نیچے ماری کہ قریب تھا کہ اس کے شکم میں چلی جائے۔
..............
١۔لیکن خود ابن اشعث کو بھیجنے کا سبب شاید یہ ہو کہ اس کے جانے کی وجہ سے مسلم خود اسی کے خاندان کی کنیز(طوعہ جس کا بیٹا بلال ہے) کے گھر سے نکلیں گے۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن زیاد کس طرح عشائر اور بادیہ نشین لوگوں کے امور سے آگاہ تھا اور کسی طرح ان سے اپنے مقاصد کو حل کرتا تھا ۔
آگ اور پتھر کی بارش
جب ان لوگوں نے یہ دیکھا کہ مسلم کی حالت یہ ہے توگھروں کی چھتوں سے پتھر پھینکنا شروع کردیا اور اس یکّہ و تنہا سفیر حسینی پرآگ کے شعلہ برسا نے لگے ۔جناب مسلم نے جب یہ حالت دیکھی تو تلوار کھینچ کر مقابلے میں آگئے اور ان سے نبرد آزما ہوگئے۔ اسی وقت محمد بن اشعث آیا اور کہنے لگا : اے جوان ! تیرے لئے امان ہے لہٰذا تو خود کو قتل کرنے کا سامان فراہم نہ کر!جناب مسلم اپنے جہاد کو جاری رکھتے ہوئے رزمیہ اشعار پڑھ رہے تھے۔
اقسمت لااُقتل الاحرّا
وان رایت الموت شیئاًنکرا
میں نے قسم کھائی ہے کہ میں آزادی کے ساتھ قتل کیا جاؤں گا ۔ اگر چہ موت کو میں بری چیز سمجھتا ہوں ۔
کل امریء یوماً ملاق شرا
و یخلط البارد سخناًمرّاً
ہر انسان ایک دن شر میں گرفتار ہوتا ہے اور زندگی کی سختی و گرمی آرام و آسائش سے آمیختہ ہے ۔
ردّ شعاع النفس فاستقر(١)
أخاف أن أکذب أوأ غرّا
خوف و ہراس کو اپنے سے دور کرو تاکہ ہمیشہ زندہ و پائندہ رہو ۔ مجھے تو اس کا خوف ہے کہ یہ قوم مجھے جھوٹا وعدہ دے کر دھوکہ دینے کے در پے ہے۔
..............
١۔ہمارے پاس طبری اور غیر طبری کا جو نسخہ موجود ہے اس میں شعاع النفس کی جگہ شعاع الشمس موجود ہے ۔ شیخ سماوی نے ابصار العین ص ٤٩پر ذکر کیا ہے کہ یہ رد و بدل اس کی جانب سے ہے جو شعاع النفس کے معنی نہیںجانتا ہے اور یہ تصور کرتا ہے کہ شعاع الشمس زیادہ بہتر ہے جب کہ شعاع النفس سے مراد جان کا خوف ہے۔ عرب یہ کہا کرتے ہیں :'' مارت نفسہ شعاعا '' یعنی اس کی جان سورج کی کرنوں کی طرح جدا ہوگئی۔یہ جملہ اس وقت کہاجاتا ہے جب خوف بہت شدید ہو؛ کیونکہ شعاع کے معنی ہی یہ ہیں کہ کوئی چیز کسی سے دقت کے ساتھ جدا ہوجائے۔ یہی معنی شعر میں بھی استعمال ہوا ہے''أقول لھا و قد طارت شعاعا من الأ بطال ویحک لا تراعی''اس شعر میں شعاع کا مطلب یہ ہے کہ خوف کے بعد دل ٹھہر گیا ۔
فریب امان اور گرفتاری
محمد بن اشعث نے حضرت مسلم سے کہا : تم سے جھو ٹ نہیں بولا جارہا ہے نہ ہی تم کوفریب اور دھوکہ دیاجارہاہے، یہ لوگ تو تمہارے چچا ہی کی اولاد ہیں نہ کہ تمہارے قاتل اور تم سے لڑائی کرنے والے۔دوسری طرف سنگ باری نے جناب مسلم کو بے حد زخمی کر دیا تھااورآپ لڑتے لڑتے تھک چکے تھے۔لہٰذا اسی گھر کی دیوار پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔ محمد بن اشعث نے آپ کے پاس آکر کہا: آ پ کے لئے امان ہے۔ جناب مسلم نے اس سے پوچھا : آمن انا ؟ کیا واقعاً میں امان میں ہوں؟محمد بن اشعث نے جواب دیا : ہاں ،اور ابن اشعث کے ہمراہ پوری فوج نے کہا : ہاں ہاں تم امان میں ہو تو جناب مسلم نے کہا :'' أما لولم تؤمّنونی ما وضعت یدی فی أیدیکم''اگرتم لوگوں نے مجھے امان نہیں دیا ہوتا تو میں کبھی بھی تمہارے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ نہ دیتا۔ ( اس جملہ سے ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ مسلم امان پر راضی ہوچکے ہیں )اس کے بعد وہ لوگ ایک خچر لے کر آئے اور جناب مسلم کو اس پر سوار کیا اورسب ان کے اطراف جمع ہوگئے اور ان کی گردن سے تلوار نکالی۔یہ دیکھ کر گویا جناب مسلم خود سے مایوس ہوگئے، ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور آپ نے فرمایا : ''ھذا اول الغدر'' یہ سب سے پہلا دھوکہ ہے ۔
محمد بن اشعث بولا:ا مید ہے کہ آپ کو کوئی مشکل نہ ہوگی۔ جناب مسلم نے کہا:امید کے سوا کچھ نہیں ہے، تم لوگوں کا امان نامہ کہاں ہے !''اناللّہ و انّا الیہ راجعون!''اور یہ کہہ کر رو پڑے۔ اس موقع پر عمرو بن عبیداللہ سلمی جو ایک دوسرے گروہ کا سربراہ تھا آپ سے مخاطب ہوکر بولا :بے شک اگر ایک شخص وہ چیزطلب کرے جس کے تم طلبگار تھے اور اس راہ میں اسے وہ مشکلات پیش آئیں جو تمہیں پیش آئی ہیں تو اسے رونا نہیں چاہیے۔
جناب مسلم نے فرمایا : ''انی واللّٰہ ما لنفسی ابکی ''خداکی قسم میں اپنے لئے نہیں رورہا ہوں '' ولا لھا من القتل أرثی'' اور نہ ہی قتل ہونے کے خوف سے میں مرثیہ کناں ہوں؛ اگر چہ میں پلک جھپکتے تلف ہونا پسند نہیں کرتا تھا ''ولکن أبکی لأھلی المقبلین الیّ'' میں تو ان لوگوں پر آنسو بہارہاہوں جو میرے پیچھے آرہے ہیں۔ ''ابکی لحسین و آل حسین (علیھم السلام )'' میں تو حسین اور اولاد حسین پر آنسو بہا رہاہوں ۔
حضرت مسلم کی محمد بن اشعث سے وصیت
پھر حضرت مسلم علیہ السلام نے محمد بن اشعث کی طرف رخ کر کے فرمایا : ''یاعبداللّٰہ انّی أراک واللّٰہ ، ستعجز عن أمانی، فھل عندک خیرتستطیع أن تبعث من عندک رجلاً علی لسانی ےُبلغ حسیناً ، فا نی لا أراہ الا قد خرج الیکم مُقبلاً أو ھو خارج غداًھو وأھل بیتہ ، وان ما تری من جزع لذالک فیقول (الرسول) انّ ابن عقیل بعثن الیک وھو فی أید القوم أسیرلا یری أن یمش حتی یقتل وھو یقول : ارجع بأھل بیتک ، ولا یغرّک أھل الکوفة ! فانھم أصحاب ابیک الذی کان یتمنّی فراقھم بالموت أو القتل ! ان أھل الکوفہ کذبوک و کذبون ! ولیس لمُکذَّب رأی !'' (١)
اے بندہ خدا !میں تو خدا کی قسم یہ دیکھ ر ہا ہوں کہ توعنقریب مجھے امان دلانے سے عاجز ہو جائے گا ؛ کیا تجھ سے نیکی کی امید کی جاسکتی ہے ؟کیا تم کسی ایسے شخص کو اپنی طرف سے بھیجنے کی قدرت رکھتے ہو جو میری زبانی حسین علیہ السلام کو پیغام پہنچادے ، کیو نکہ میں یہ سمجھتاہوںکہ وہ تم لوگوں کی طرف آنے کے لئے آج نکل چکے ہو نگے یا کل نکل جائیں گے جبکہ ان کے ہمر اہ ان کا پورا خاندان ہوگا۔تم جو ان آنسو ؤں کو دیکھ رہے تھے اس کا سبب یہی ہے ۔ وہ پیغام رساںجاکرامام حسین علیہ السلام یہ کہہ دے کہ ابن عقیل نے مجھے آپ کے پاس اس حال میں بھیجاہے کہ وہ گرفتار ہوچکے ہیںاور قدم بقدم شہادت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔وہ اس عالم میں یہ کہہ رہے ہیںکہ آپ اپنے اہل بیت کے ساتھ پلٹ جایئے! کہیںاہل کوفہ آپ کو دھوکہ نہ دے دیں کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جوآپ کے باباکے ساتھی تھے لیکن حضرت آرزو کرتے تھے کہ موت یا قتل کے ذریعہ ان سے جداہوجائیں۔اہل کوفہ نے آپ کو جھٹلایااور مجھے بھی جھٹلایا اور جھوٹے شخص کی کوئی رائے اور کوئی نظر نہیں ہوتی ۔
اس پر محمد بن اشعث بولا:میں تمہارا پیغام ضرور پہنچاؤں گااور ابن زیاد کو ضروربتاؤں گاکہ میں نے تم کو امان دی ۔
..............
١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ قدامہ بن سعید بن زائدہ بن قدامہ ثقفی نے اسے اپنے جد زائدہ سے ہمارے لئے روایت کی ہے۔ ( طبری،ج٥،ص٣٧٢) شرح حال، مقدمہ میں ملا حظہ ہو۔
|