واقعۂ کربلا
 

جناب مسلم علیہ السلام کاقیام
سب سے پہلے جناب مسلم نے عبداللہ بن خازم کو محل کی طرف خبر لانے کے لئے روانہ کیا تاکہ وہ جناب ہانی کی سرگذشت سے آگاہ کرے۔عبداللہ بن خازم کہتا ہے : جب ہانی کو زد و کوب کے بعد قید کردیا گیا تو میں فوراً اپنے گھوڑے پر بیٹھ گیا اور میں وہ سب سے پہلا شخص تھاجس نے جناب مسلم کو وہاں کے تمام حالات سے آگاہ کیاتھا۔ اس وقت قبیلہ مراد کی عورتیں چلارہی تھیں : ہاے رے مصیبت و غم ، ارے یہ کیسا سانحہ ہمارے قبیلہ پر ہوگیا ۔میں جناب مسلم کے پاس آیا اور ساری خبرسناڈالی؛ جناب مسلم نے مجھے فوراً حکم دیا کہ میں ان کے اصحاب کے درمیان صدابلندکروں ''یا منصور امت'' اے امت کے مددگارو !
اس وقت سب کے سب جناب مسلم کے ارد و گرد جمع تھے اور ١٨ہزار بیعت کرنے والوں میں٤ہزار اس وقت موجود تھے۔ میں نے آواز لگائی : یامنصو امت اے امت کے مدد گارو ! میری آواز ہوا کے دوش پر لہرائی اور سب کے سب جمع ہوگئے پھر جناب مسلم نے لشکر کو منظم کرتے ہوئے عبداللہ بن عمرو بن عزیز کندی کو قبیلہ کندہ اور ربیعہ کا سربراہ بنایا اور فرمایا : ابھی لشکر کے ہمراہ میرے سامنے حرکت کر جا ؤ پھر مسلم بن عوسجہ اسدی کو قبیلہ مذحج اور اسد کی سربراہی سونپی اور فرمایا :تم ان پیدلوں کے ساتھ نکل جاؤ کہ ان کے سربراہ تم ہو۔اس کے بعد ابو ثمامہ صائدی کو تمیم اور ہمدان کی سر براہی اور عباس بن جعدہ جدلی (١) کومدینہ والوںکا سر براہ بنایا اورخود قبیلۂ مراد کے لوگوں کے ساتھ چل پڑے ۔

اشراف کوفہ کا اجتماع
کوفہ کے سر بر آوردہ ا فراد ابن زیادکے پاس اضطراری دروازہ سے پہنچ گئے جو دارالر ومیین(٢) سے ملاہوا تھا۔عبیداللہ بن زیاد نے کثیر بن شہاب بن حصین حارثی (٣)کو بلایا اور اسے
..............
١۔یہ شخص ہمیںمختار کی اس فوج کے میسرہ(بایاں محاذ) پر دکھائی دیتا ہے جو مدینہ میںابن زبیر سے لڑنے آئی تھی لیکن وہاں اسکانام عیاش بن جعدہ جدلی ملتا ہے۔ جب یہ لوگ ابن زبیر کی فوج کے سامنے شکست خوردہ ہوگئے تویہ ابن زبیرکے امان کے پرچم تلے نہیںگئے جب کہ اس کے ہمراہ ٣٠٠افراد تھے لہٰذاجب یہ لوگ ان کے ہتھے چڑھے تو ان لوگوںنے ١٠٠ لوگو ںکو قتل کر دیااور جو (٢٠٠) دوسو کے آس پاس بچے تھے ان میںسے اکثر راستے میںمر گئے۔ (طبری ،ج٦،ص٧٤) چو نکہ ہم نے عباس اور عیاش کا اس کے علا وہ کوئی ذکر کہیں نہیں دیکھا ہے اور اس قرینہ سے کہ انہو ں نے جناب مختار سے وفا کا ثبوت پیش کیا بعید معلوم ہو تا ہے کہ کو ئی دوشخص ہو بلکہ تر جیح اس کو حاصل ہے کہ یہ ایک شخص ہے جس کانام یا عباس ہے یاعیاش۔ یہ جناب مسلم کے بعد زندہ رہے یہاںتک کہ جناب مختار کے ساتھ خروج کیااوریاتووہاںقتل ہوئے یا وفات پاگئے ۔
٢۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ'' دارالر و میین '' دارالامارہ کے پیچھے سے متصل تھا۔چونکہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے وہ لوگ یہاں مسلمانوں کی پناہ میں رہتے تھے لہٰذاعبیداللہ اور اس کے افراد ادھر سے ان سے رفت وآمد رکھتے تھے۔افسوس کہ یاران جناب مسلم اس دروازہ کے بند ہونے سے غافل تھے ۔
٣۔ یہ شخص وہی ہے جس نے جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی تحریر کی تھی ( طبری ،ج ٥، ص ٢٦٩) اور حجر اوران کے ساتھیوں کو معاویہ کے پاس لے گیا تھا۔(طبری ،ج٥،ص ٢٧٠) اشراف کوفہ میں یہی وہ پہلا شخص ہے جس سے ابن زیاد نے عہد وپیمان کیا کہ لوگوں کو دھوکہ دے کر جناب مسلم علیہ السلام سے دورکرے گا۔(طبری،ج٥،ص٣٧٠)
حکم دیا کہ اپنے مذحجی پیرو ئوں کے ہمراہ کوفہ کی گلیوں میں منتشر ہوجائے اور لوگوں کو جھوٹے پروپگنڈہ کے ذریعہ جناب مسلم سے دور کردے۔انھیں جنگ سے ڈرائے اور حاکم کے ظلم و ستم اور قیدو بند سے بر حذر کرائے ۔
اسی طرح محمدبن اشعث کو حکم دیا کہ قبیلہ کندہ اور حضر موت میں سے جو اس کے طرف دار ہیںان کے ہمراہ پرچم امان لے کر نکلے اور کہے جو اس میںپرچم تلے آجائے گا وہ امان میں ہے۔ اسی طرح قعقاع بن شور ذھلی، (١)شبث بن ربعی تمیمی ، حجار بن ابجر عجلی اور شمر بن ذی الجوش عامری (٢و٣)سے بھی اسی قسم کی باتیں کہیں۔ شبث بن ربعی کے ہاتھ میں پرچم دے کر کہا : تم ایک بلندی سے نمودار ہوکر اپنے نوکر
..............
١۔یہ وہی شخص ہے جس نے جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی تحریر کی تھی۔( طبری، ج٥، ص ٢٦٩) اور جناب مسلم علیہ السلام کے مقابلہ پر بھی آیا تھا۔ (طبری ،ج٥، ص ٢٧٠، ٢٨١)
٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٦٨،ابو مخنف کا بیان ہے کہ یہ روایت مجھ سے یوسف بن یزید نے عبداللہ بن خازم کے حوالے سے نقل کی ہے ۔
٣۔یہ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں تھا ( طبری، ج٥، ص ٦٨)( لیکن اپنی بد اعمالیوں کے نتیجے میں اس حد تک پہنچا کہ ) اس کا نام بھی جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والوں میں آتا ہے۔ ( طبری، ج٥، ص ٣٧٠ ) اسی نے ابن زیاد کو امام حسین علیہ السلام کے قتل پر شعلہ ور کیا تھا ۔( طبری، ج٥، ص ٤١٤ ) یہ کربلامیں موجود تھا وہاں اس نے ام البنین کے فرزندوں جناب عباس علیہ السلام کے بھائیوں کو امان کی دعوت دی تھی اور امام حسین علیہ السلام کو چھوڑنے کی طرف راغب کیا تھا۔ (طبری، ج٥، ص ٤١٥ ) جب شب عاشور امام حسین علیہ السلام کو ایک رات کی مہلت دینے کے سلسلہ میں پسر سعد نے اس سے مشورہ کیا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔(طبری ،ج٥،ص ٤١٧) یہ پسر سعد کے لشکر میں میسرہ ( بائیں محاذ )کا سردار تھا (طبری، ج٥،ص ٤٦٦)اسی نے امام حسین علیہ السلام کے خطبہ کا جواب دریدہ دھنی اور بد کلامی کے ذریعہ سے دیا تھا تو جناب حبیب بن مظاہر نے اسکی بڑی ملامت کی تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٣٦) جناب زہیر بن قین کے خطبہ کا جواب اس نے تیر پھینک کر دیا تھا جس پر جناب زہیر بن قین نے اس کی لعنت وملامت کی تھی ۔( طبری، ج٥، ص ٤٣٦ ) پسر سعد کے میسرہ سے اس نے امام حسین علیہ السلام کے بائیں محاذ پر حملہ کیا ( طبری ،ج٥، ص ٤٣٦) اور امام علیہ السلام کے خیمہ پر تیر پھینکا اور چلا یا کہ آگ لاؤاور خیموں کو رہنے والوں کے ہمراہ جلادو یہ آواز سن کرمخدرات عصمت با آواز بلند رونے لگیں اور باہر نکلنا چاہا لیکن امام حسین علیہ السلام نے ڈھارس بندھوائی (طبری ،ج٥، ص ٤٣٨) اسی نے جناب نافع بن ہلال جملی کو قتل کیا۔ ( طبری ،ج٥، ص ٤٤٢) جناب امام سجاد علیہ السلام کو بھی قتل کرنا چاہتاتھالیکن لوگوں نے منع کیا۔ ( طبری ،ج٥، ص ٤٥٤) یہ ا ن لوگوں میں شمار ہوتا ہے جو سروں کو لے کر ابن زیاد کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ( طبری ،ج٥،ص ٤٥٦) اور انہیں مقدس سروںکو اسیروں کے ہمراہ لے کر یزید کے دربار میں حاضر ہواتھا۔( طبری، ج٥،ص ٤٦٠و٤٦٣) اس کے ہمراہ ٢٠ مقدس سر تھے جو گرد غبار میں اٹے تھے۔ (طبری، ج٥، ص ٤٦٨)ابن مطیع نے مختار سے لڑنے کے لئے اسے سالم کے ایک گروہ کے ہمراہ روانہ کیا، (طبری ،ج٦،ص ١٨) اس کے ہمراہ دوہزار سپاہی تھے۔ ( طبری ،ج٦، ص ٢٩) یہ ان لوگوں میں شامل ہوتا ہے جو اشراف کوفہ کے ساتھ مختار سے لڑنے آئے تھے(طبری ،ج٦، ص ٤٤) اور جب ہزیمت کا سامنا ہواتو کوفہ سے بھاگ کھڑاہوا اور ہزیمت کے عالم میں فرارکے وقت ٦٤ھ میں عبدالرحمن بن ابی الکنود کے ہاتھوں ماراگیا۔ ( طبری ،ج٦،ص٥٢، ٥٣)کلمہ ''شمر''عبری زبان کا لفظ ہے جس کی اصل شامر ہے بمعنی سامر ،جیسا کہ آج کل اسحاق شامیر کہاجاتا ہے ۔
سرشت اور فرمانبردارافراد کو انعام و اکرام و احترام وپاداش کے وعدہ سے سرشار کردو اور خاندان رسالت کے پیرو ئوںکو ڈراؤ کہ سنگین کیفر ، قطع حقوق اور محرومیت میں مبتلا ہونگے اور ان کے دلوں میں یہ کہہ کر خوف ڈال دوکہ عبیداللہ کی مدد کے لئے شام سے لشکر آنے ہی والا ہے۔ (١)

پرچم امان کے ساتھ اشراف کوفہ
جناب مسلم سے لوگوںکو دور کرنے کے لئے اشراف کوفہ ابن زیاد کے قصرسے پرچم امان کے ہمراہ باہر نکلے۔ ان میں سب سے پہلے کثیر بن شہاب نے بولنا شروع کیا ۔اس نے کہا: اے لوگو!اپنے گھر اور گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ ، خشونت ، بدی اور شر میں جلدی نہ کرو ، اپنی جان کو موت کے منہ میں نہ ڈالو!کیونکہ امیرالمومنین یزید کی فوج شام سے پہنچنے ہی والی ہے۔ جان لو کہ امیر نے عہد کیا ہے کہ اگرآج شام تک تم نے اپنی جنگ کا سلسلہ جاری رکھا اور اس سے منصرف نہ ہوئے تو وہ تمہاری نسل کو حقوق سے محروم کردیں گے اورتمہارے جنگجوؤںکو اہل شام کی فوج میں تتر بتر کردیں گے۔جان لو کہ حاکم کا فیصلہ یہ ہے کہ بیماروں کے بدلے صحت یاب افرادپکڑے جائیں اور غائب کے بجائے حاضر لوگ قید کئے جائیں گے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا یہاں تک کہ شورش کرنے والا اس وبال کا مزہ چکھ لے جسے اس نے اپنے ہاتھوں سے شروع کیا تھا ۔
ابن شہاب کے بعد دوسرے اشراف نے بھی اسی قسم کے الفاظ کی تکرار کی۔جب لوگوں نے اپنے بزرگوں سے اس طرح کی باتیں سنیںتوانہوں نے جداہونا شروع کردیا ...۔(٢) نوبت یہاں تک پہنچی کہ عورتیں اپنے بچوں ،بھائیوں اور شوہروںکا ہاتھ پکڑکر کہنے لگیں چلویہاںجتنے لوگ ہیں وہی کافی ہیں۔دوسری طرف مرد اپنے بھائیوں اور بیٹوں کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے : کل'' شام'' سے فوج آرہی ہے ۔ اس جنگ اور شر میں تم کیا کرسکتے ہو۔ یہ کہہ کر لوگ اپنے اپنے عزیزوں کو لے جانے لگے۔ (٣)
..............
١ ۔ابومخنف نے کہا : مجھ سے ابو جناب کلبی نے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٦٩)
٢۔ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے عبد بن خازم کثیرازدی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔ ( طبری، ج٥، ص ٣٧٠)
٣۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے مجالد بن سعید نے یہ روایت نقل کی ہے۔ ( طبری، ج٥، ص ٣٧١ )
ادھر ابن زیاد کی بتائی ہو ئی سازشوں پر عمل کر تے ہوئے محمد بن اشعث محل سے با ہر نکلا اور قبیلہ بنی عمارہ کے گھروں کے پاس جا کر کھڑا ہوا ۔''عمارہ ازدی''کو جو اسلحہ لے کر جناب مسلم کی مدد کے لئے نکل کر ان کے مددگاروں سے ملحق ہو نا چاہ رہے تھے گر فتار کر لیااور ابن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ وہاں اس نے اس جواں مرد کو قید کر لیا۔ جناب مسلم کوجیسے ہی اس کی خبر ملی فوراً مسجد سے عبد الر حمن بن شریح شبامی (١) کو اس ملعون(محمد بن اشعث) کی طرف بھیجا ۔ اس خیانت کار نے جیسے ہی حق وحقیقت کے جوانوں کو دیکھاوہاں سے بھاگ کھڑا ہوا.(دوسری طرف قعقاع بن شور ذہلی نے ایک علا قہ سے جسے ''عرار'' کہتے ہیں جناب مسلم اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کردیا)(٢) اور محمد بن اشعث کو پیغام بھیجا کہ میں نے مقام ''عرار '' سے حملہ شروع کر دیا ہے،تم پر یشان نہ ہو لیکن پھر خود عقب نشینی کرلی۔ (٣)
ادھر تیسری طرف شبث بن ربعی نے جناب مسلم کے سپاہیوںکے ساتھ جنگ شروع کر دی اور کچھ دیر لڑنے کے بعد اپنے سپاہیوں سے کہنے لگا : شام تک انتظار کرویہ سب کے سب پر اکندہ ہو جائیں گے۔اس پر قعقاع بن شور نے کہا : تم نے تو خود ان لوگوں کا راستہ بند کررکھا ہے ،انہیں چھوڑ دو یہ خود ہی متفرق ہو جائیں گے۔ (٤)

جناب مسلم علیہ السلام کی غربت و تنہائی
عباس جدلی کا بیان ہے کہ جب ہم جناب مسلم بن عقیل کے ہمراہ نکلے تھے تو ہماری تعداد ٤ ہزار تھی لیکن ابھی محل تک پہنچنے بھی نہ پا ئے تھے کہ ہم ٣٠٠ کے اند ر سمٹ گئے ۔ (٥) اس جدائی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا گو یا ہر شخص فرار کی فکر میں تھا۔ اب رات کا پر دہ دن کی سفیدی پر غالب ہو رہا تھا اور
..............
١۔ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے مجھ سے یہ روایت کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٦٩)
٢۔ اس مطلب کو ہارون بن مسلم نے علی بن صالح سے عیسیٰ بن یزید کے حوالے سے نقل کیا ہے۔( طبری ج٥ ص ٣٨١) چو نکہ یہ مطلب ابو مخنف کی خبر میں نہیں ہے لہٰذا اسے بر یکٹ میں لکھا گیا ہے۔
٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ یہ روایت مجھ سے سیلمان بن ابی راشد نے عبد اللہ بن خازم کثیرازدی کے حوالے سے بیان کی ہے ۔(طبری ،ج٥ ،ص٣٧٠)
٤۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے مجا لد بن سعیدنے یہ روایت کی ہے ۔
٥۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ یہ روایت مجھ سے یو نس بن ابو اسحاق نے کی ہے۔( طبری ،ج ٥ ،ص ٣٦٩)
وہاں مسجد میں فقط ٣٠ افراد مو جود تھے ۔مسلم نے انہی ٣٠ لوگوں کے ساتھ نماز اداکی۔ جناب مسلم نے جب یہ حالت دیکھی تو مسجد سے نکل کر کو چہ ء کندہ کا رخ کیا ۔ گلی پار کر تے وقت دیکھا تو فقط ١٠ آدمی آپ کے ساتھ تھے اور جب گلی ختم ہو گئی تو اب مسلم تنہا تھے۔ اب جو مسلم ملتفت ہو ئے تو محسوس کیا کہ ان کے ساتھ کو ئی راستہ بتا نے والا بھی نہیں ہے اور کوئی ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر دشمن سامنے آجائے تو اپنی جان پر کھیل کے انھیں بچالے۔ چارو ناچار بے مقصد کو فہ کی گلیوں میں سر گرداں گھو منے لگے۔کچھ سمجھ ہی میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں جا ئیں ۔چلتے چلتے آپ قبیلہ کندہ کے بنی'' جبلہ'' کے گھر وں کی طرف نکل گئے اور وہاں آپ کا قدم آکر ایک خاتون کے دروازہ پر رکا جسے ''طو عہ ''کہتے ہیں جو ام ولد تھی۔ یہ اشعث بن قیس(١) کی کنیزتھی جب اس سے اشعث کو بچہ ہوگیا( جس کی وجہ سے وہ ام ولید کہی جانے لگی)
..............
١۔ ١٠ ھ میں اشعث ٦٠ لوگوں کے ہمراہ پیغمبر اسلام کی خدمت میں شرفیاب ہو ا اور اسلام قبول کیا ۔ یہ اپنی ماں کی طرف سے آکل مرار کی طرف منسوب تھا۔چو نکہ وہ ملوک تھے اور اس نے چاہاکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اسی سے منتسب کریں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے'' نضر بن کنانہ ''سے منتسب کیا تو اس پراس نے کسی تعجب کا اظہار نہیں کیا۔(طبری ،ج٣ ، ص ١٣٧) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بہن(قتیلہ ) سے شادی کی لیکن ہمبستری سے قبل ہی آپ کی روح ملک جاوداں کو کوچ کر گئی اور یہ عورت اپنے بھا ئی اشعث کے ہمراہ مرتد ہو گئی۔( طبری، ج ٣، ص ١٦٨) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اشعث اسلام کی طرف آکر دوبارہ مرتد ہو گیا اور جنگ شروع کردی لیکن ہز یمت کا سامنا کرنا پڑا تو امان مانگ لیا، اس پر مسلمانوںنے امان دیدی ( طبری ،ج٣،ص ٣٣٥۔٣٣٧) پھر اسے دوسرے اسیروں اور قیدیوں کے ہمراہ ابو بکر کے پاس لے جایا گیا تو خلیفہ ء اول نے معاف کر کے اس کی بیٹی ام فروہ سے شادی کی درخواست کردی اور اس سے رشتہ ازدواج میں منسک ہو گئے لیکن مبا شرت نہیں کی۔ بعدہ اشعث پھر مرتد ہو گیا لیکن ابو بکر نے پھر اس کے اسلام کو قبول کر لیا ۔لغز شوں کو معاف کر دیا اور اس کے گھر والوں کو اسے لو ٹا دیا۔ (طبری، ج٣،ص ٣٣٩)اپنی وفات کے وقت ابو بکر نے کہا : جس دن اشعث بن قیس قیدی بنا کر لا یا گیا تھا اے کا ش اسی دن میں نے اس کی گردن ماردی ہو تی؛ کیونکہ کو ئی شراور برائی ایسی نہیں ہے جسکی اس نے مددنہ کی ہو۔( طبری ،ج٣،ص ٤٣) جنگ قادسیہ میں اہل یمن کے ١٧٠٠ افراد پر مشتمل لشکر کے ساتھ اشعث ملحق ہو گیا۔( طبری ،ج٣،ص ٣٨٧) سعد ابن ابی وقاص نے اسے ان لوگوں میں پایا جو جسم و جسمانیت کے اعتبار سے بھی قابل دید تھے ، صاحب رعب و وہشت اور صاحب نظر بھی تھے لہذا سعد نے ان لوگوںکو اہل فارس کے بادشاہ کو دعوت دینے کے لئے بھیجا۔ (طبری ،ج٣،ص ٤٩٦) یہ جنگ میں اہل فارس کے خلاف اس نعرہ کے ذریعہ اپنی قوم کا دل بڑھا رہا تھا کہ عرب نمونہ ہیں ، فارس کی زبان میں خدا نازل نہیں ہوا ہے۔ (طبری، ج٣،ص ٣٩و ٥٦٠ ) قبیلہ کندہ کے ٧٠٠ جوانوں کے ہمراہ اس نے حملہ کیا اور اہل فارس کے سر براہ کو قتل کر ڈالا ۔(طبری ،ج٣، ص ٥٦٣) وہاں سے جو غنائم
اور انفال خالد بن ولید کو ملے تھے اس پر اس کو لا لچ آگئی اور اس نے اسی میں سے کچھ مانگ لیا تو ١٠ ہزار کی اجازت اسے دیدی۔ (طبری، ج٤،ص ٦٧) واقعۂ نہا وند میں بھی یہ موجود تھا۔ (طبری ،ج٤،ص١٢٩) ٣٠ ھ میں عراق کے ''طیرناباد ''کے علا قہ میں جو انفال کے اموال تھے اسے اس نے'' حضرموت''کے اپنے اموال کے بدلے میں عثمان سے خریدلیا۔ (طبری ،ج٤،ص ٢٨٠) ٣٤ھ میں سعید بن عاص نے کوفہ سے اسے آذربایجان کا والی بنا کر بھیجا۔ (طبری، ج٤،ص٥٦٩) پھر آذربایجان کی حکومت کے زمانے میں ہی عثمان اس دنیا سے چل بسے (طبری ،ج٤،ص ٤٢٢) اور حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ہوئے تو آپ نے اسے اپنی بیعت کی طرف بلایا اور اپنی نصرت ومدد کے لئے اس جگہ کو چھوڑ دینے کے لئے کہا تو اس نے بیعت کرلی اور وہاں سے چلا آیا۔ (طبری، ج٤،ص ٥٦١) جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر سے پانی لے کر آنے کی ذمہ داری بھی اسے سونپی گئی تھی۔(طبری ،ج٤،ص٥٦١)یہی وہ ہے جس نے حضرت علی علیہ السلام کی زبردست مخالفت کی تو حضرت تحکیم پر راضی ہو گئے لیکن اس نے حکمیت کے لئے ابو موسی اشعری پرزور ڈالا اور جن لوگوں سے حضرت علی علیہ السلام راضی تھے جیسے ابن عباس اور مالک اشتر اس سے اس نے انکار کرتے ہوئے اشعری کی حکمیت پر اصرار کر تا رہا اورجنگ سے انکار کر تا رہا ۔(طبری ،ج٤، ص٥١) یہ وہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حکمیت کے کاغذ پر سب سے پہلے گواہی کے لئے دستخط کئے اور مالک اشتر کوبھی اس کے لئے بلا یا تو انھوں نے انکار کیا ؛اس پر اس نے ان کی تو ہین کی ، ان کو گا لیا ں دیں اور مکتوب پڑھ کرلوگوں کو سنانے لگا۔ (طبری، ج٥،ص٥٥) نہروان کے بعد علی علیہ السلام سے ہٹ کر معاویہ کی طرف پلٹ گیا اور کوفہ کے حجة الاستعداد میں پلٹنے پر اصرار کیا۔ (طبری ،ج٥،ص ٨٩) عثمان نے اسے لالچ دلائی تھی کہ آذربایجان کا خراج ایک لاکھ ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ١٣٠) کو فہ میں اس نے ایک مسجد بھی بنوائی تھی۔
تواشعث نے اسے آزاد کر دیا ۔ اس نے اسید حضرمی (١)سے شادی کرلی ۔اسی شادی کے نتیجہ میں بلال نامی لڑکا پیدا ہواتھاجو ان دنوں دوسرے لوگوںکے ہمراہ گھر سے باہر تھا اور ابھی تک لوٹا نہیں تھا۔ اس کی ماںدروازے پر کھڑی اس کا انتظار کررہی تھی۔جناب مسلم نے اس خاتون کو دیکھتے ہی اسے سلام کیا تو اس نے فوراًجواب دیا ۔
اس پر جناب مسلم نے اس سے کہا :''یاأمة اللّٰہ اسقینی مائ''اے کنیز خدا !میں پیاسا ہوں مجھے پانی پلادے۔ وہ خاتون اندر گئی، ظرف لے کر لوٹی اور جناب مسلم کو پانی دیا پانی پی کر جناب مسلم وہیں بیٹھ گئے۔ وہ جب برتن رکھ کر آئی تو دیکھا مسلم وہیں بیٹھے ہیں تو اس نے کہا : یاعبداللّٰہ ألم تشرب؟اے بندہ خدا کیا تو نے پانی نہیں پیا ؟
..............
١۔ یہ اسید بن مالک حضرمی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کربلامیں اسی نے جناب مسلم کے فرزند عبداللہ کو شہید کیا اور اس کا بیٹاوہ ہے جس نے حاکم کو یہ اطلاع دی کہ مسلم میرے گھر میںہیں اوریہی خبر رسانی جناب مسلم کی شہادت پر تمام ہوئی ۔
جناب مسلم نے کہا:کیوں نہیں،طوعہ نے کہا:تو اب اپنے گھر والوں کے پاس چلے جااس پر جناب مسلم خاموش ہوگئے اور وہ نیک خاتون اندر چلی گئی۔ کچھ دیر کے بعد جب پھر لوٹ کر آئی تو دیکھا جناب مسلم وہیں بیٹھے ہیں۔ اس نے اپنے جملے پھر دھرائے ۔اس پر وہ سفیر حسینی پھر خاموش رہا تو اس عورت نے حضرت مسلم سے کہا : سبحان اللہ ! اے بندہ خدا میرے سلسلہ میں اللہ سے خوف کھا ۔جا اپنے گھر والوں کی طرف چلاجااللہ تجھے عافیت میںرکھے ؛تیرے لئے میرے گھر کے دروازے پر بیٹھنا مناسب نہیں ہے اور میں تیرے اس بیٹھنے کو تیرے لئے حلال نہیں کروں گی، اتنا سنناتھا کہ جناب مسلم کھڑے ہوگئے اور فرمایا :
'' یا أمةاللّٰہ ، مالی فی المصر منزل ولا عشیرہ فھل لک اِلی أجر و معروف ولعلی مکافِئُکِ بہ بعد الیوم؟''اے کنیز خدا ! کہاں جاؤں ؟ اس شہر میں نہ تو میرا کوئی گھر ہے نہ ہی میرے گھر والے ہیں، کیا تم ایک اچھا کام انجام دینا چاہتی ہو جس کا اجر اللہ سے پاؤ اور شاید آج کے بعد میں بھی کچھ اس کا بدلہ دے سکوں ؟
طوعہ : اے بندہ خدا ! تو کون ہے ؟ اور وہ نیک کام کیا ہے ؟
مسلم : میں مسلم بن عقیل ہوں ۔اس قوم نے مجھے جھٹلایا اور دھوکہ دیا ۔
طوعہ : تم سچ مچ مسلم ہو!
مسلم : ہاں!میں مسلم ہوں ۔
طوعہ : تو بس اب اندر آجاؤ !یہ کہہ کر وہ نیک سرشت خاتون آپ کو اندرون خانہ ایک ایسے کمرے میں لے گئی جس میں وہ خود نہیں رہا کرتی تھی۔ اس کے بعد اس کمرے میں بستر بچھایااور جناب مسلم کو اس پر بٹھا کر رات کا کھانا پیش کیا لیکن آپ نے کچھ نہ کھایا ۔
ادھر طوعہ اپنے بیٹے کے انتظار میں لحظہ شماری کررہی تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں اس کا بیٹا آگیا ۔ اس نے غور کیا کہ کمرے میں ماں کا آناجانا بہت زیادہ ہے لہذا اس نے کہا : ماںکمرے میں تمہارا آناجانا مجھے شک میں ڈال رہا ہے۔کیا اس میں کوئی بات ہے ؟ طوعہ نے کہا بیٹا اس بات کو رہنے دو اورصرف نظر کرو۔ . بیٹے نے ماں سے کہا : خدا کی قسم تم کو مجھے بتا نا ہی ہوگا ۔
طوعہ : ہاں بات تو ہے لیکن تم اس کے بارے میں کچھ نہ پوچھو ۔اس پر بیٹے نے بہت اصرار کیا تو ماں نے کہا : اے بیٹا ! میں بتائے تو دیتی ہو ں لیکن دیکھو کسی سے بھی اسے نہ بتانا ۔اسکے بعد طوعہ نے بیٹے سے قسم کھلوائی تو اس نے قسم کھالی کہ کسی سے نہیں بتائے گا اس کے بعد ماں نے اسے سارے ماجرے سے آگاہ کردیا۔ یہ سن کر وہ لیٹ گیا اور خاموش ہوگیا ۔(١)

ابن زیاد کا موقف
جب رات کااچھا خاصہ وقت گذر گیا اور کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ابن زیاد نے دیکھا کہ مسلم بن عقیل کے مدد کرنے والوں اور نصرت کرنے والوں کی اس طرح کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے جیسے اس سے قبل سنائی دے رہی تھی تو اس نے اپنے گرگوں سے کہا:ذرادیکھو!ا ن میں سے کوئی تمہیں دکھائی دے رہاہے ؟ وہ لوگ گئے لیکن کوئی دکھائی نہیں دیا تو ابن زیاد نے کہا: ذرا غور سے دیکھو !شاید وہ لوگ کسی سایہ میں چھپے کمین میں بیٹھے ہوں ،لہٰذا ان لوگوں نے مسجد کے اندر باہراور اطراف میں دیکھا، اس کے بعد مشعلیں روشن کرکے دیکھنے لگے کہ کہیں کوئی چھپاہو اتو نہیں ہے۔ کچھ دیر کے لئے مشعلوں کو روشن رکھا پھر بجھادیا، اس کے بعد قندیلوں کو رسےّوں میں محکم باندھ دیا اور اس میںآگ روشن کرکے اوپر سے
..............
١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجا لد بن سعید نے مجھ سے اس روایت کو بیان کی ہے۔( طبری، ج٥،ص٣٧١، ارشاد ،ص ٢١٢، خوارزمی ،ص ٢٠٨ ) طبری نے عماردہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :جب مسلم نے یہ دیکھا کہ وہ سڑک پر تنہا رہ گئے ہیں تو ایک گھر کے دروازہ پر آکر بیٹھ گئے۔ وہاں سے ایک عورت نکلی تو مسلم نے اس سے کہا : ''اسقینی'' مجھ کو پانی پلا ؤ تو اس خاتون نے پا نی لا کر پلا یا پھر وہ اندر چلی گئی اور مسلم وہیں مشیت الہٰی کے سہارے بیٹھے رہے پھر وہ نکلی تو دیکھا مسلم وہیں بیٹھے ہیں تو اس نے کہا : ائے بند ہ خدا ! تیر ایہاں بیٹھنا شک وشبہ سے خالی نہیں ہے، تو اٹھ جا ! اس پر جناب مسلم نے کہا : میں مسلم بن عقیل ہوں کیا تو مجھ کو پناہ دے سکتی ہے ؟ اس خاتون نے جواب دیا: ہاں!اس خاتون کا بیٹامحمد بن اشعث کے موالی میں شمار ہوتا تھا جب بیٹے کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے جاکر محمد کو خبر دے دی اور محمد نے جا کر عبیداللہ کو خبر پہنچادی توعبیداللہ نے وہاںاپنی پولس کے سربراہ عمروبن حریث مخزومی کو بھیجااوراس کے ہمراہ عبدالرحمن بن محمدبن ا شعث بھی تھا۔مسلم کو خبر بھی نہ ہوئی اور سارا گھر گھیر لیاگیا ۔(طبری ،ج٥،ص ٣٥٠) اس کے پیچھے اس کی فوج کا سربراہ حصین بن تمیم بھی آگیا۔
نیچے کی طرف رکھ دیا اور ہر گو شہ و کنارکو قندیلوں سے روشن کردیا یہاںتک کہ منبر کے اطراف کو بھی روشن کردیا ۔جب ہر طرح سے انھیں یقین ہوگیا کہ کوئی نہیں ہے تو ابن زیاد کو خبر دی کہ کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ابن زیاد نے فوراً اپنے کاتب عمر وبن نافع (١)کو حکم دیا کہ فوراً جا کر یہ اعلان کرے کہ حاکم ہر اس شخص کی حرمت سے دست بردار ہے جو نماز عشاء مسجد کے علاوہ کہیں اور پڑھے ،خواہ وہ پولس ہو یا عرفاء ،صاحبان شرف ہوں یا جنگجو۔ اس خطر ناک اور تہدید آمیز اعلان کا اثر یہ ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے مسجد لوگوں سے چھلکنے لگی۔ ایسے موقع پر حصین بن تمیم تمیمی (٢)جو اس کے نگہبانوںکا سردار تھا اس نے ابن زیاد سے کہا : اگر آپ چاہیں تو خود نماز پڑھائیں یا کسی دوسرے کو بھیج دیں جو نماز پڑھادے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ آپ کے بعض دشمن آپ پر حملہ نہ کردیں ! اس پر ابن زیاد نے کہا : میرے محافظین و نگہبانوں سے کہوکہ جس طرح وہ میری حفاظت کے لئے صف باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں اس طرح نماز کی پہلی صف میں کھڑے ہوں اور تم ان سب پر نگاہ رکھو۔ اس کے بعد حکم دیا کہ باب سدّہ جو مسجد میں کھلتا تھا اور اب تک بند تھا اسے کھولا جائے پھر ابن زیاد اپنے گرگوں کے ہمراہ وہاں سے نکلا اور لوگوں کونمازپڑھائی۔
..............
١۔ یہ وہی کاتب ہے جس نے یزید کو جناب مسلم کے قتل کے لئے خط لکھا تھا۔ اس نے خط لکھنے میں دیر لگا ئی تو ابن زیاد کو ناگوار لگا۔(طبری ،ج٥،ص ٣٨ )
٢۔ابن زیاد نے اسے قادسیہ کی طرف اس فوج کو منظم کرنے کے لئے بھیجا تھا جو'' خفان''،'' قطقطانہ'' اور''لعلع''کے درمیا ن تھی۔ (طبری ،ج٥،ص ٣٩٤ ) یہ وہی شخص ہے جس نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے ایلچی جناب قیس بن مسہر کو ابن زیاد کے پاس بھیجا اور اس نے انہیں قتل کردیا ۔( طبری ،ج٥، ص ٣٩٥ ) اسی طرح عبداللہ بن بقطر کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا ۔(طبری ،ج٥،ص ٣٩٨ ) یہی شخص حر کے ساتھ بنی تمیم کے ایک ہزار لوگوں کے ہمراہ قادسیہ سے آگے آگے تھا تاکہ امام حسین علیہ السلام کو گھیرے یہ کربلا میں پولس کا سربراہ تھا اور جناب حر کو قتل کرنے کے لئے اپنی فوج کو شعلہ ور کررہا تھا۔ ( طبری، ج ٥ ،ص ٤٣٤)پسر سعد نے اس کے ہمراہ ٥٠٠ پانچ سو تیر انداز بھیجے تھے اوراس نے ان لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے اصحاب پر تیروں کی بارش کرنے کے لئے بھیجا۔ ان تیر اندازوں نے نزدیک سے تیروں کا مینہ برسادیا اور ان کے گھوڑوں کو پئے کردیا۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٣٧)جب امام حسین علیہ السلام کے اصحاب ہنگام ظہر نماز کے لئے آمادہ ہورہے تھے تو اس نے حملہ کردیا ۔جناب حبیب بن مظاہر اس کے سامنے آئے اور اس کے گھوڑے پر تلوار سے حملہ کیا تو وہ اچھل کر زمین پر گر گیا۔ اس پر بدیل بن صریم عقفانی نے جناب حبیب کے سر پر اپنی تلوار سے ضرب لگائی اور بنی تمیم کے دوسرے سپاہی نے آپ پر نیزہ سے حملہ کیا پھر حصین بن تمیم پلٹ کر آیا اوراس نے تلوار سے آپ کے سر پر حملہ کیا اس کے اثر سے آپ زمین پر گر پڑے، وہاں ایک تمیمی آیا اور اس نے آپ کا سر کاٹ کر حصین کے ہاتھ میں دیا ۔ اس نے سر کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکا لیا اور لشکر پر حملہ کیا پھر قاتل کو لوٹادیا (طبری ،ج ٥،ص ٤٤٠) آخر کار جب امام حسین نہر فرات کے قریب آرہے تھے تو اس نے تیر چلایا جو آپ کے منہ پر لگا جس پر آپ نے اس کوبد دعا کی۔( طبری ،ج٥،ص ٤٤٩)