واقعۂ کربلا
 

ابن زیاد کے قتل کا منصوبہ
انہی شرائط میں ہانی بن عروہ مریض ہو جاتے ہیں اورعبیداللہ ابن زیاد، ہانی کی عیادت کے لئے آتا ہے۔ ابن زیاد کے آنے سے پہلے عمارةبن عبیدسلولی نے(١)ہانی سے کہا : ہمارے اجتماع کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح اس خون آشام جلا دکو موت کے گھاٹ اتار دیں۔اللہ نے آج ہم کو مہلت دیدی ہے لہذا جیسے ہی وہ آئے اسے قتل کردیا جائے۔ لیکن ہانی نے کہا: مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ میرے گھر میںقتل کیا جائے لہٰذا ابن زیاد آیا، عیادت کی اور چلا گیا ۔
ابھی اس واقعہ کو ایک ہفتہ نہ گزار تھاکہ شریک بن اعور حارثی مریض ہو گیا۔ چونکہ وہ تمام حکمرانوں سے نزدیک تھا منجملہ ابن زیاد کا بھی مقرب تھااور دوسری طرف اس کے دل میں تشیع اور محبت اہل بیت کی گرمی شعلہ ورتھی لہذا جب عبید اللہ ابن زیاد نے اس کے پاس آدمی بھیج کر کہا کہ آج شام میں تمہا رے دیدار کو آؤںگا تو شریک نے جناب مسلم کو بلا کر کہا : وہ فا جر آج رات میری عیادت کو آے گا جب وہ آکر بیٹھے تو آپ پردے کے پیچھے سے آکر اسے قتل کر دیجئے پھر محل میں جا کر بیٹھ جائیے ، اس کے بعد کوئی نہیں ہے جو آ پ اور اس کے درمیان حائل ہو سکے۔ اب اگر میں اپنے اس مرض سے صحت یاب ہو گیا تو میں بصرہ چلا جاؤں گا اور حکومت آپ کی ہو گی ۔
جب رات آئی تو ابن زیاد شریک کی عیادت کے لئے آیا اور مسلم نے اپنے آپ کو آمادہ کیا۔ شریک نے مسلم سے کہا : دیکھو جب وہ بیٹھ جائے تو فرصت کو ہاتھ سے جا نے نہ دینااسی اثنا میں ہانی بن عروہ کھڑے ہوئے اور کہا : مجھے پسند نہیں ہے کہ وہ میرے گھر میں قتل ہو ( گویا ہانی اس کو اپنے لئے ننگ وعار سمجھ رہے تھے ) بنا برین عبیداللہ بن زیاد آیا اور داخل خانہ ہو کر شریک کی احوال پرسی کی۔ اس احوال پرسی نے طول اختیار کیا لیکن شریک نے دیکھا کہ مسلم نہیں نکل رہے ہیںلہذا فرصت کے فوت ہونے کے خوف سے ایک شعر پڑھا جس کا معنی اس طرح ہے : کس انتظار میں ہو کہ سلمیٰ کو سلام وتہنیت پیش کرو ؟ مجھے
..............
١۔ یہ کو فہ والوں کے نامہ بروں میں سے ایک ہیں جو ٥٣ خطوط لے کر گئے تھے اور امام علیہ السلام نے انہیں مسلم بن عقیل ،قیس بن مسہر صیداوی اور عبد الر حمن ارجی کے ساتھ کوفہ روانہ کیا تھا۔
سیراب کرو چاہے اس میں میری جان چلی جاے!یہ شعر اس نے دو تین بار پڑھا تو ابن زیاد نے کہا : تم کو کیا ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرض کی شدت سے تم ہذیان بک رہے ہو!ہانی نے کہا : ہاں ! اللہ آپ کوصحیح وسالم رکھے ؛صبح سے لے کر اب تک ان کی حالت ایسی ہی ہے۔ اس پر ابن زیاد اٹھ کر چلا گیا ۔ مسلم باہر نکلے تو شریک نے کہا اس کے قتل سے تمہیں کس چیز نے روک دیا ؟ مسلم نے جواب دیا : ''خصلتا ن'' دو چیزوں نے روک دیا ''اما احد ہما: فکر اھة ھانیٔ أن یقتل فی دارہ'' پہلی چیز تو یہ کہ ہانی کو ناپسند تھا کہ وہ ان کے گھر میں قتل کیا جائے''اما الأخریٰ : فحد یث حدثہ الناس عن النب صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلّم ان الا یمان قید الفتک ولا یفتک المؤ من '' دوسری چیز حدیث نبوی ہے جسے لوگوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نقل کیا ہے کہ خدا پر ایمان، غفلت کی حالت میں قتل کر نے سے روک دیتاہے اور مومن دھوکے سے کبھی کسی کو قتل نہیں کرتا ۔
اس پر ہانی نے کہا : خدا کی قسم اگر تم قتل کرتے تو میںبھی اس فاسق و فاجر اور دھو کہ باز کو قتل کرنے میں شریک رہتا لیکن مجھے یہ نا پسند تھا کہ وہ میرے گھر میں قتل ہو۔ (١)

معقل کی جناب مسلم سے ملاقات
معقل چند دن جناب مسلم بن عوسجہ کے گھر میںرہاتا کہ جناب مسلم بن عقیل کے پاس جا سکے۔ چند دنوں کے بعد یہ جناب مسلم بن عو سجہ کے توسط سے مسلم بن عقیل علیہ السلام کے پاس پہنچ گیا ۔ جناب مسلم بن عو سجہ نے سارا واقعہ تفصیل سے سنا دیا تو جناب مسلم بن عقیل نے بیعت لے لی اور جناب ابو ثما مہ صائدی (٢)کو حکم دیا کہ اس سے وہ پیسہ لے لیں جو وہ لے کر آیا ہے اس کے بعد معقل نے آنا جانا شروع کر دیا ۔وہ یہاں آکر ان کی خبروں کو سنتا ، رازوں سے آشنا ہو تا پھر وہاں سے نکل کر جا تا اور ابن زیاد کو ساری سر گذشت سنا دیتاتھا ۔
..............
١۔ابو مخنف نے معلی بن کلیب سے اور اس نے ابو وداک سے روایت کی ہے۔( طبری ،ج٥ ، ص ٣٦١)
٢۔ ابو ثمامہ چونکہ مسائل اقتصادی سے آگا ہ تھے لہٰذا جو اموال لوگ دیتے تھے اسے بھی جناب مسلم کی طرف سے
آپ ہی لیتے تھے اور اس سے اسلحہ خرید ا کر تے تھے۔آپ عرب کے شہسواروں اور شیعوں کے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ( طبری ،ج٥،ص ٣٦٤) جناب مسلم نے ان کو قبیلہ ٔ ہمدان اور قبیلہ بنی تمیم کے لوگوں کی سر براہی سوپنی تھی۔ ( طبری ،ج٥ ، ص ٣٦٩) آپ کر بلا میں بھی حاضر تھے اور وہاں امام حسین علیہ السلام سے نماز پڑھنے کی در خواست کی تو امام علیہ السلام نے آپ کے حق میںخیر کی دعا کی اور فرمایا :'' ذکر ت الصلوٰة جعلک اللّہ من المصلین الذ اکر ین''تم نے نما ز کو یاد کیا ؛خدا تم کوان نما زگزاروں میں شامل کرے جو ہمیشہ یاد الہٰی میں رہتے ہیں۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٤٣٩) نماز سے پہلے ہی آپ کے اس چچا زادبھائی نے آپ سے مبارز طلبی کی تھی جو عمر بن سعد کے لشکر میںتھااور آپ نے اس ملعون کو قتل کیا تھا۔(طبری ،ج٥، ص ٤٤١)

ہانی کا دربار میں طلب کیا جانا
انہی دنوں ایک دن ابن زیاد نے اپنے درباریوں سے پوچھا: ہانی مجھے یہاں دکھائی نہیں دے رہے ہیں؟ حاضرین نے جواب دیا: وہ مشکوک ہیں۔اس پر عبیداللہ بن زیاد نے محمد بن اشعث،(١)
..............
١۔ محمد بن اشعث بن قیس کندی : اسی شخص سے زیاد نے کوفہ کی اور اس کے قبیلہ کی بزرگ شخصیت جناب حجربن عدی کو طلب کیا ۔حجر نے اس سے درخواست کی کہ زیادسے امان کا مطالبہ کرے اور مجھے معاویہ کے پاس بھیج دے پھرمعاویہ جو چاہے میرے ساتھ سلوک کرے۔ شروع میں تو اس نے اسے قبول کرلیا لیکن آخر کا رحجر کو زیاد کے حوالے کر دیا۔( طبری ج ٥؛ص ٢٦٣،٢٦٤)اس کی اس حرکت پر عبیدہ کندی نے محمد بن اشعث پر طنز کیا کہ تو نے حجر کے ساتھ دغا کی اور مسلم علیہ السلام سے جنگ پر آمادہ ہوا اس سلسلہ میں اس نے شعر کہہ ڈالے:
أسلمت عمک لم تقاتل دونہ
فرقاً ولولا انت کان منیعا
وقتلت وافد آل بیت محمد
وسلبت أسیافالہ ودروعا
( طبر ی، ج، ص٢٨٥)تونے اپنے چچا کی طرف سے لڑنے کے بجائے انہیں ظلم کے ہاتھوں سونپ دیا اور ان کی نجات کے لئے کچھ بھی نہ کیا جب کہ اگر تو انھیں دھو کہ نہ دیتا تو کبھی بھی وہ لوگ ان پر ہاتھ نہیں رکھ پاتے ؛اسی طرح تو نے سفیر حسین علیہ السلام اور نمائندہ خاندان اہلبیت کو شہید کر دیا اور ان کے اسلحوں کو تاراج کردیا۔'' کندہ'' اور ''حضرموت ''کے جتنے لوگ اس کی اطاعت میں تھے سبھی نے ابن زیاد کی طرف سے پرچم امان بلند کرکے مسلم بن عقیل کو فریب و دھوکہ دیکر چھوڑدینے کے لئے کہا (طبری، ج ٥،ص ٣٦٩)لیکن جنگ کے لئے ابن زیاد نے اسی کو قبیلہ قیس کے جوانوں کے ساتھ روانہ کیا کیونکہ ہر آیندہ نگر انسان ابن عقیل سے مقاتلہ اور جنگ کو ناپسند کرتا تھا ۔(طبری ، ج٥،ص ٣٧٣) طبری کا کہنا ہے کہ اسی نے جناب مسلم کو امان دیا ۔(طبری ،ج٥ ، ص ٢٧٤) لیکن جب ابن زیاد کو اس امان کی خبر ملی تو اس نے قبول نہیں کیا ۔( طبری ،ج٥، ص ٣٧٥ ) اسی طرح ہانی بن عروہ کے سلسلہ میں بھی سفارش کی لیکن اس کی سفارش قبول نہیں ہوئی ۔( طبری ،ج ٥ ،ص ٣٧٨) قبیلہ کندہ عمر بن سعد کے حکم پر قیام کرتے
تھے کیونکہ وہ سب پسر سعد کے ماموں ہوتے تھے۔ جب یزید بن معاویہ ہلاک ہوگیا اور ان لوگوں کو ابن زیاد نے اپنی طرف بلایا تو ان لوگوں نے ابن زیاد کو چھوڑدیا اور عمر بن سعد کو اپنا حاکم بنا لیا۔ جب ہمدان کے مردوں نے تلواریں کھینچ لیں اور ان کی عورتیں امام حسین علیہ السلام پر رونے لگیں تو اشعث کا لڑکا اپنے ارادے سے منصرف ہو گیا اور بولا : ایسا مسئلہ پیش آگیا ہے کہ اب ہم اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے ( طبری ،ج٥، ص ٥٢٥) اس کے بعد ان لوگوں نے مکہ میں ابن زبیر کو خط لکھا تو ابن زبیر نے محمدبن اشعث بن قیس کو موصل بھیج دیا۔ جب موصل میں اس نے قدم رکھا تو وہاں مختار کی جانب سے عبدالرحمن بن سعیدبن قیس امیر تھالہذا یہ موصل سے نکل کرتکریت آگیا اور وہاںقبیلوں کے اشراف وغیرہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کردیا اور انتظار کرنے لگا کہ دیکھیں لوگ کیا کرتے ہیںپھر خود جناب مختار کے پاس جاکر ان کی بیعت کرلی (طبری ، ج٦، ص ٣٦) لیکن جب ابن زیاد شام کے لشکر کے ہمراہ موصل آیا اور مختار کے ساتھیوں سے جنگ کے لئے خروج کیا تو اشراف کوفہ بھی اس سے مل گئے اور اس کے ساتھ حملہ کردیا۔ انہیں کوفیوں میںمحمدبن اشعث بھی تھا اور اس کا بیٹا اسحاق بن محمد بن اشعث۔انھوں نے قبیلہ ''کندہ ''کے ایک گروہ کے ساتھ جناب مختار پر خروج کیا۔ ( طبری ،ج٦،ص ٣٩، ٤٥) لیکن ان سب کے متفرق ہو جانے او شکست کھانے کے بعد محمد بن اشعث ابن قیس قادسیہ کے پہلو میں اپنے قریہ کی طرف نکل گیا ۔ مختار نے وہاں اپنے ساتھیوںکو بھیجا لیکن محمد بن اشعث وہاں سے نکل کر مصعب بن زبیر سے ملحق ہوگیا۔مختار کے سپاہیوں نے اس کا گھر منہدم کر دیا ( طبری، ج٦، ص٦٦) پھر مصعب نے اس کو حکم دیا کہ وہ مہلب بن صفرہ کے پاس چلاجائے اور مصعب کا یہ خط اسے دیدے ۔وہ یہ چلاگیا اور پھر مہلب کے ساتھ مختار سے جنگ کے لئے آیا (طبری ،ج٦،ص٩٤) پھر کوفہ کی ایک عظیم فوج کے ساتھ آیا جس کا مقصد مختار کو ہٹاناتھا۔ وہ فوج بصرہ والی فوج سے زیادہ خطرناک تھی۔ وہ شکست کھاکر اسیر ہونے کے لئے تیار نہیں تھے یہاں تک کہ مختار ان کو قتل کردیتے ۔وہ مصعب کے ہمراہ مختار سے جنگ کرنے میں ماراگیا ۔مصعب نے اس کے بیٹے عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کو کوفہ کے کوڑے خانے کے پاس اس کی لاش کے لئے بھیجا ۔( طبری ،ج٦، ص ١٠٤)
اسماء بن خارجہ (١)اورعمرو بن حجاج (٢) کو بلایا( عمروبن حجاج کی بہن روعة، ہانی بن عروہ کی بیوی تھی )اور ان سے پوچھا: ہانی بن عروہ کو ہم تک آنے سے کس نے روکاہے ؟ اس پر ان لوگو ں نے جواب
..............
١۔اسے فزاری بھی کہاجاتا ہے۔ یہ شخص وہی ہے جس نے جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی تحریر کی تھی (طبری ،ج٥، ص ٩٢٠٧) یہ وہی ہے جسے حجاج نے کمیل بن زیاد نخعی اور عمیر بن صنائی کے سلسلے میں یاد کیا تھا۔ یہ دونوں وہ تھے جنہوں نے عثمان کی طرف خروج کیا تھا ۔ حجاج نے ان دونوں کو قتل کر دیا ۔(طبری،ج٤، ص ٤٠٤)اسی نے ابن زیاد پر ہانی بن عروہ کو مارنے کے سلسلے میں اعتراض کیا تھا تو ابن زیاد نے حکم دیا کہ اسے قید کرلو (طبری، ج٥،ص ٣٦٧)پھر یہ ابن مطیع کے اصحاب میں شمار ہونے لگا (طبری ،ج ٦ ، ص ٣١) پھر ٦٨ھمیں مصعب بن زبیر کے ساتھیوں میں ہوگیا ۔(طبری، ج٦ ،ص ١٢٤)
٢۔امام حسین علیہ السلام کو جن لوگوں نے خط لکھا ان میں ایک یہ بھی ہے۔اس سے قبل اس شخص کے احوال بیان ہوچکے ہیں۔
دیا ہم لوگ نہیں جانتے ہیں !اللہ آپ کو صحیح وسالم رکھے۔اس پر ابن زیاد نے کہا : مجھے تو خبر ملی ہے کہ وہ صحت یاب ہوچکے ہیں اور اپنے گھر کے دروازہ پر بیٹھا کر تے ہیں لہٰذا تم جاؤ،ان سے ملاقات کرو اور انھیںسمجھادو کہ حکومت کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داری سے کوتاہی نہ کریں کیونکہ یہ مجھے پسند نہیں ہے کہ ان جیسے اشراف و بزرگانِ عرب میری نظر سے گر جا ئیں۔ (١)

ہانی، ابن زیاد کے دربار میں
یہ تمام افرادہانی کے پاس گئے اور شام تک ان کے پاس بیٹھے رہے۔ اس وقت جناب ہانی بن عروہ اپنے گھر کے دروازہ پر بیٹھے تھے۔ ان لوگوںنے جناب ہانی سے پوچھا کہ آپ امیر سے ملاقات کرنے کیوں نہیں آتے ؟وہ تو آپ کو بہت یاد کرتے ہیںاور کہا ہے کہ اگر آپ مریض ہیں تو میں عیادت کے لئے آوں۔ ہانی نے جواب دیا : بیماری میرے آنے میںمانع ہے تو اس پر ان لوگوں نے کہا : امیر تک یہ خبر پہنچی ہے کہ ہرشام کو آپ اپنے گھرکے دروازہ پر بیٹھتے ہیں اور انہیں انتظار میں رکھے ہیں۔ آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ حاکم ایسی چیزوں کے متحمل نہیں ہوتے ہیں ؛لہٰذا ہم آپ کو قسم دیتے ہیں کہ آپ ابھی ہمارے ساتھ چلیں۔اس پر ہانی نے لباس منگوائے اور اسے پہناپھر خچر منگواکر اس پر سوار ہوکر قصر کے پاس پہنچے اور گویا وہاں پہنچتے ہی ان بعض چیزوں سے آگاہ ہوگئے تھے جو ہونے والی تھیں لہذاحسان بن خارجہ سے کہا : جان برادر ! خدا کی قسم میں اس مرد سے خائف ہوں ، تم اس سلسلسہ میں کیا کہتے ہو؟اس پر حسان بن خارجہ نے کہا : اے چچا خدا کی قسم! میں آپ کے سلسلے میں ذرہ برابر خوف زدہ نہیں ہوں ؛ آپ اپنے دل میں کسی خوف کو راہ کیوں دیتے ہیں جب کہ آپ بالکل بری ہیں ؟ ابن زیاد کے گرگے جناب ہانی کو لے کر دربار میں داخل ہوئے۔ ابن زیاد کی نگاہ جیسے ہی ہانی پر پڑی زیر لب کہنے لگا ۔ احمق اپنے پیروں سے چل کر
..............
١۔ابو مخنف نے معلی بن کلیب سے اور اس نے ابوودّاک سے نقل کیا ہے پھر مجالد بن سعید ، حسن بن عقبہ مرادی اور نمیربن وعلہ نے ابو وداک سے نقل کیا ہے۔( طبری ،ج٥، ص ٣٦١، ٣٦٤ و الارشاد ،ص ١٠٨)
اپنی موت کی طرف آیا ہے۔جب ہانی ابن زیاد کے پاس پہنچے تو قاضی شریح(١) بھی وہاں موجود تھا۔ ابن زیاد نے ہانی کی طرف متوجہ ہو کر کہا :
ارید حیا تہ و یرید قتلی
عذیرک من خلیلک من مراد
میںاس کی حیات کی فکر میں ہوں لیکن یہ تو مجھکو قتل کرنا چاہتا ہے، ذرا اس سے پوچھو کہ اس کے پاس قبیلۂ مراد کے اپنے دوست کے لئے کون ساعذرہے ۔

ہانی، ابن زیاد کے روبرو
ہانی بن عروہ اپنی درایت سے ابن زیاد کے ارادہ کو بھانپ چکے تھے لہٰذا خود ہی ابن زیاد کو مخاطب کیا: اے امیر ! تمہارا منظور نظر کیا ہے ؟ ابن زیاد بولا : ہانی ! بس کرو ! اپنے ارد گرد تم امیر المومنین اور مسلمین کے خلاف کیا کھیل کھیل رہے ہو ۔ تم نے مسلم بن عقیل کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے اور اپنے اطراف میں اسلحوں اور جنگجوؤں کو جمع کر رہے ہو اور اس گمان میں ہو کہ یہ بات مجھ سے پوشیدہ ہے ۔
..............
١۔ اس کا نام شریح بن حارث کندی ہے۔ عمر نے ١٨ھ میں اسے کوفہ کا قاضی بنایا تھا۔ (طبری ،ج٤، ص ١٠١)اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کوفیوں کو عثمان کی مدد و نصرت کے لئے شعلہ ور کیا تھا۔ (طبری ،ج ٤، ص ٣٥٢) شریح بن حارث قاضی ہی نے گواہوں کی گواہی کے ذیل میں جناب حجر بن عدی کے خلاف تحریر لکھی تھی لیکن وہ کہتا ہے کہ مجھ سے ابن زیاد نے جب ان کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ وہ بڑے روز ہ دار اور نماز گزار ہیں۔ (طبری، ج٥، ص ٢٧٠)زیاد نے اس سے مشورہ کیا کہ اپنے مجزوم ہاتھ کو کاٹ دے تواس نے مشورہ دیا کہ ایسا نہ کرو! اس پر لوگوں نے اس کی ملامت کی تو اس نے کہا کہ رسول خدا نے فرمایا ہے :'' المستشار مؤتمن '' جس سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امین ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٢٨٩)ابن زبیر نے اسے قاضیٔ کوفہ بنانا چاہا تو اس نے انکار کردیا ۔(طبری، ج٥، ص ٥٨٢)لیکن مختار کی جانب سے قضاوت کی دعوت کو قبول کرلیا پھر جب اس نے یہ سنا کہ مختار کے افرادکی زبان پر یہ زمزمہ ہے کہ یہ عثمانی ہے اور یہ جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والوں میں شمار ہوتا ہے حضرت علی علیہ السلام نے اسے قضاوت کے عہدہ سے معزول کردیا تھا اور ہانی کے سلسلے میں اس نے صحیح خبر نہیں دی تھی تو اس نے مریض ہونے کا بہانہ بناکر قضاوت چھوڑدی۔ مختار نے اس کی جگہ پر عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کو قاضی بنادیا پھر عبداللہ بن مالک طائی کو قضاوت کا عہدہ دیدیا۔ (طبری، ج ٦ ، ص ٣٤) مختار کے بعد اس نے ابن زبیر کی طرف سے قضاوت کو قبول کرلیا( طبری ،ج ٦ ،ص ١٤٩) اور حجاج کے زمانے میں اس عہدہ سے ٧٩ھ میںاس عہدہ سے استعفی دیدیا اور مشورہ دیا کہ بردہ بن ابو موسی اشعری کو قاضی بنادے۔ حجاج نے استعفی قبول کرکے ابو بردہ کو والی بنادیا ۔اس نے تقریبا ساٹھ ٦٠ سال تک قضاوت کی۔
ہانی : میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے اور نہ ہی مسلم میرے پاس ہیں۔
ابن زیاد : کیوں نہیں ! تم نے ایسا ہی کیا ہے ۔
ہانی : میں نے یہ کام انجام نہیں دیا ہے ۔
ابن زیاد :کیوں نہیں ! یہ کام تم نے ہی کیا ہے۔
اس ردّ و قدح اور توتو میں میں کا سلسلہ بڑھتا ہی گیااور ابن زیاد ان باتوں کا ذمہ داران کو ٹھہراتا رہا اور ہانی انکار کرتے رہے۔ آخر کار ابن زیاد نے معقل کو بلایا جوجاسوسی کے فرائض انجام دے رہاتھا۔ معقل فوراًسامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ ابن زیاد نے کہا : اسے پہچانتے ہو ؟ تو ہانی نے کہا : ہاں، اس وقت ہانی کے سمجھ میں آیا کہ یہ جاسوس تھا جو وہاں کی باتیں یہاں آکر سنایا کرتا تھا۔ اب چار وناچار ہانی بولے :
میری باتیں سنو اور اسے سچ سمجھو!خدا کی قسم میں تم سے جھوٹ نہیں بول رہاہوں۔ قسم ہے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔میں نے مسلم کو اپنے گھر آنے کی دعوت نہیں دی تھی اور نہ ہی میں اس کے سلسلہ میں کچھ جانتا تھا لیکن ایک دن میں نے انہیں اپنے گھر کے دروازہ پر بیٹھاہوا دیکھا ۔انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میرے گھر میں آجائیں تو مجھے اس درخواست کو ٹھکرانے میں شرم آئی اور وہ اس طرح میری حرمت میں داخل ہوگئے۔ میں نے انہیں اپنے گھر میں جگہ دی،انکی مہمان نوازی کی اور پناہ دی ۔یہی وہ بات ہے جو ان کے سلسلہ میں تم تک پہنچائی گئی ہے۔اب اگر تم چاہو تو میں ابھی سنگین عہدو پیمان باندھ لوں کہ میرا حکومت کے خلاف شورش اور برائی کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اگر چاہوتو میں تمہارے پاس کوئی چیزگرو رکھ دوں تاکہ دوبارہ تمہارے پاس آجاؤں اور ان کے پاس جاکر انہیں حکم دوں کہ میرے گھر سے نکل کر جہاں چاہے چلاجائے اور میرے پیمان و میری ہمسایگی سے نکل جائے ۔
ابن زیاد : ہرگز نہیں ! میں اس وقت تک تم کو نہیں جانے دوں گا جب تک تم انہیں یہاں نہ لے آؤ!
ہانی : نہیں خدا کی قسم میں اسے کبھی نہیں لاؤں گا !میں اپنے مہمان کو یہاں لے آؤں تاکہ تم اسے قتل کردو !
ابن زیاد: خداکی قسم تم ضرور اسے یہاں لاؤ گے۔
ہانی : خدا کی قسم میں کبھی نہیں لاؤں گا ۔
جب دونوں کے درمیان اسی طرح تکرار بڑھتی گئی تو مسلم بن عمرو باہلی اٹھا اور اس نے کہا : خدا امیر کو سلا مت رکھے ! کچھ دیر آپ مجھے اور ان کو تنہا چھوڑ دیں تا کہ میں ان سے کچھ گفتگو کر سکوں اور اس کے بعد ہانی سے کہا : آپ اٹھ کر یہاں میرے پاس آیئے تاکہ میں آپ سے کچھ گفتگو کر سکوں ۔ہانی وہاں سے اٹھ کر اس کے کنارے آگئے جہاں ابن زیاد سے دوری تھی لیکن اتنی دوری پر تھے کہ ابن زیاد ان دونوں کو بخوبی دیکھ سکتا تھا اور جب ان دونوں کی آواز یں بلند ہو رہی تھیں تو وہ بخوبی ان کی گفتگو سن رہا تھالیکن جب وہ لوگ آہستہ آہستہ گفتگو کر رہے تھے تو یہ بات چیت ابن زیاد کے لئے نا مفہوم تھی۔ مسلم بن عمرو باہلی نے ہانی سے کہا : ا ے ہانی !تم کو خدا کا واسطہ ہے کہ اپنی جان کو خطرہ میں نہ ڈالو اور اپنے خاندان اور قبیلہ کو بلا ؤں میں مبتلا مت کرو!خدا کی قسم میں تمہا رے قتل سے بہت زیادہ پر یشان ہوں اور یہ نہیں چاہتا کہ تم قتل کر دئے جاؤ۔ یہ ( مسلم بن عقیل ) جو تمہارے مہمان ہیںیہ انہیں لوگوں کے چچا زاد بھائی ہیں۔ یہ لوگ نہ تو انہیں قتل کریں گے اور نہ ہی نقصان پہنچائیں گے پس تم انہیںحاکم کوسونپ دو۔ اس میں نہ تو تمہا ری ذلت وخواری ہے اور نہ ہی تمہارے لئے عیب و منقصت ہے، تم تو انہیں فقط حاکم کے حوالے کر رہے ہو ۔
ہانی : کیوں نہیں ! خدا کی قسم اس میں میری ذلت وخواری ہے۔میں اپنے مہمان اور ہمسایہ کو اسے سونپ دوں ! جب کہ میں ابھی صحیح وسالم ہوں، دیکھنے اور سننے کی صلا حیت ابھی باقی ہے،میرے بازؤں کی مچھلیاں ابھی قوت رکھتی ہیںاور میرے ناصرو مددگا ر بڑی تعداد میں موجودہیں خدا کی قسم اگر میں تنہا رہ جاؤں اور میرا کو ئی ناصر ومددگا ر نہ رہے تب بھی میں اس کے ہاتھوں اپنے مہمان کو نہیں سونپوں گا یہاں تک کہ اس کے لئے مجھے موت آجائے۔ یہ جملے ہانی اس یقین کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ ان کاقبیلہ ابھی ابھی ان کی مدد کے لئے حرکت میں آجائے گا اور اس ظلم وجورکے خلاف تلوار کھینچ لے گالہٰذا وہ بار بار قسم کھارہے تھے کہ میں خدا کی قسم کبھی بھی اپنے مہمان سے دست بردارنہیں ہوں گا ۔

موت کی دھمکی
ابن زیاد نے ہانی کی گفتگو سننے کے بعد کہا : اسے میرے پاس لاؤ! ہانی کو اس کے پاس لے جا یا گیا؛ جب ہانی وہاں پہنچے توابن زیاد نے کہا : خدا کی قسم تم اسے (جناب مسلم) ضرور یہاں لاؤ گے ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا ۔
ہانی : اگر تم ایسا کروگے تو اپنے محل کے ارد گرد برہنہ شمشیروں کو پاؤ گے۔ (١) وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے قبیلہ والے باہر ان کی باتیں سن رہے ہیں ۔
ابن زیاد : وائے ہو تجھ پر ! تو مجھے بر ہنہ شمشیروں سے ڈراتا ہے ! اسے میرے نزدیک لاؤ! جب نزدیک لا یا گیا تو چھڑی سے ہانی کے چہرہ پراتنا مارا کہ ان کی پیشانی اور رخسار زخمی ہوگئے،ناک ٹوٹ گئی اور خون کپڑوں پربہنے لگا،رخسار اور پیشانی کے گوشت کٹ کرداڑھی پر گرگئے اور آخر کار چھڑی ٹوٹ گئی ۔
ہا نی نے اپنے بچاؤ کے لئے وہیں کھڑے ایک شخص کے تلوار کے دستہ پر ہاتھ مارا لیکن لوگوں نے ان کو پکڑ لیا اور یہ کام نہ کرنے دیا ۔
..............
١۔طبری نے عیسیٰ بن یزید کنانی سے روایت کی ہے کہ ابن زیاد نے ہا نی سے کہا : کیا تم کو معلوم نہیںہے کہ جب میرا باپ اس شہر میں آیا تو تم کو اور حجر بن عدی کو چھوڑکر اس شہر کے تمام شیعوں کو قتل کر دیا تھا اور حجر کے ساتھ جو ہواوہ تم کو معلوم ہے۔ اس کے بعد تمہاری معاشرت ہمیشہ اچھی رہی پھر تمہارے باپ نے امیر کوفہ کو لکھا کہ تم سے ہا نی کے سلسلے میں میری درخواست اور حاجت ہے۔ ہانی نے جواب دیا : ہاں ! تو ابن زیاد بولا : کیا اس کی جزا یہی تھی کے تم اپنے گھر میں اس شخص کو چھپا ئے رکھو جو مجھے قتل کر نا چا ہتا ہے ! ہانی نے جواب دیا: میں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ابن زیاد نے اپنے تمیمی غلام کو نکال کرسامنے کھڑا کر دیا جو ان لوگوں کی جا سوسی کیا کر تا تھا۔جب ہا نی نے اسے دیکھا فوراً سمجھ گئے کہ یہ ساری خبریں پہنچا یا کر تا تھا پھر ہا نی بولے : اے امیر ! جو باتیں تجھ تک پہنچی ہیں وہ صحیح ہیں لیکن میں نے تمہارے حقوق کو ضائع نہیں کیا ہے،امن میں ہے اور ہلا کت سے محفوظ ،پس تو جس طرح چاہتا ہے خوش رہ۔
ابن زیاد کا غلام مہران وہیں اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں چھٹری تھی، وہ چلا یا : ہائے یہ کیسی ذلت ہے ! یہ جو لا ہاغلام آپ کو امان دے رہا ہے ۔یہ کہہ کر چھڑی ابن زیاد کی طرف پھینکی اور کہا اس کو پکڑیے اور اس نے جناب ہانی کے بالوں کو پکڑا اور ابن زیاد نے اس چھڑی سے ہانی کو مارنا شروع کیا یہاں تک کہ ان کی ناک اور پیشانی ٹوٹ گئی اور چھڑی کے اوپر کا حصہ ٹوٹ کردیوار سے ٹکرایا اور اس میں گھس گیا۔ ( طبری ،ج٥، ص ٣٦١)
ابن زیاد نعرہ لگا تے ہوئے:اے ہانی! کیا تو خارجی ہو گیا ہے اور امیر المو منین کے خلاف شورش بر پا کر رہا ہے ؟ آگا ہ ہو جا کہ تونے اس کے ذریعہ سے خود کو بڑی سخت سزا میں مبتلا کر لیا ہے۔ اب تیرا قتل ہمارے لئے صحیح اور حلا ل ہے۔پھر حکم دیا کہ اسے پکڑ و اور محل کے ایک کمرے میں ڈال دو۔کمرے کا دروازہ بند کر کے اس پر ایک نگھبان معین کردو ۔ جلا دوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی ، لیکن اسی موقع پر اسماء بن خارجہ اٹھ کھڑا ہو ا اور بولا : کیا ہم فریب کا ر اور دھوکہ باز پیغام رساں تھے جو آج تیری طرف سے ان کے پاس گئے تھے تا کہ انہیں تیرے پاس لے آئیں اور جب وہ آجائیں تو ان کے چہرہ کو توچھڑی سے چور چور کردے اور ان کی داڑھی کو خون سے رنگین کردے! اسکے بعد قتل کا بھی در پئے ہو جائے!
ابن زیاد بولا : تو ابھی تک یہیں ہے، پس حکم دیا کہ اسے مارو ! جلا دوں نے اس کے سر و گر دن پر مار نا شروع کیا اور اسے قید کر دیا ۔
محمد بن اشعث بولا : ہم امیر کے منشا ء ومرام سے راضی ہیںخواہ ان کی رائے ہمارے حق میں ہو یا ہمارے نقصان۔ میں ، واقعاً ہمارے امیر بڑے مودّب ہیں۔ (١) اس کے بعد محمد بن اشعث اٹھ کر عبید اللہ بن زیادکے پاس آیا اور اس سے محو سخن ہوا : اے امیر ! شہر میںہا نی بن عروہ کی شان و منزلت اور قبیلہ میں ان کے گھر کی عزت آپ پر ہویداہے۔ ان کی قوم کو معلوم ہے کہ ہم دو آدمی ان کو یہاں آپ کے پاس لے کر آئے ہیں لہذا آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ ان کو ہمیں دیدیںکیونکہ میں ان کی قوم سے دشمنی مول لینا نہیں چا ہتا۔ ان کی قوم اس شہر اور اہل یمن کے درمیان با عزت قوم میںشمار ہوتی ہے ۔ (٢)اس پرابن زیاد نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کرے گا۔ (٣)
..............
١۔ طبری ،ج٥، ص ٣٦٧ ، ابو مخنف نے کہاکہ اس مطلب کو مجھ سے نمیر بن واعلہ نے ابو وداک کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
٢۔ کیو نکہ قبیلہ ء کندہ کا شمار کوفہ میں یمنی قبا ئل میں ہو تا تھا اور قبیلہ مذحج اور مراد'' قبیلہ کندہ ''میں سے تھے ۔
٣۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے حوالے سے یہ روایت کی ہے۔ ( طبری، ج٥، ص ٣٧٨، ''الارشاد'' ص ٢١٠ ، خوارزمی ص ٢٠٥)
عمر وبن حجاج تک یہ خبر پہنچی کہ ہانی مارڈالے گئے تو وہ قبیلۂ مذحج کے ہمراہ ایک بڑی بھیڑ کو لیکر چلا جس نے پورے قصر کو گھیر لیا ؛پھر وہاں پہنچ کر چلا یا : میں عمروبن حجاج ہو ں اور یہ قبیلۂ مذحج کے جنگجو جو ان اور ان کے اشراف وبزرگان ہیں۔ ہم نے نہ تو حکومت کی فرما نبرداری سے سر پیچی کی ہے،نہ امت میں تفرفہ ایجاد کیا ہے اور نہ ہی امت سے جدا ہو ئے ہیں لیکن انہیں خبر ملی ہے کہ ان کے بزرگ کو قتل کر دیا گیا ہے اور یہ ان کے لئے بڑا سخت مرحلہ ہے۔
ابن زیاد کو فوراًخبر دی گئی کہ قبیلہ مذحج کے افراد دروازہ پہ کھڑے ہیں۔ ابن زیاد نے فوراً قاضی شریح سے کہا : تم فوراً ان کے سردار کے پاس جاؤ اور اسے دیکھو پھر آکر ان لوگو ں کو بتاؤ کہ وہ قتل نہیں ہوا ہے اور تم نے خود اسے دیکھا ہے۔ (١)شریح کہتا ہے : میں ہا نی کے پاس گیا جیسے ہی ہا نی نے مجھے دیکھا ویسے ہی کہا : اے خدا ! اے مسلمانوں ! کیا میرے قبیلہ والے مرگئے ہیں؟! وہ دیندار افراد کہاں ہیں؟شہر والے سب کہاں ہیں ؟ کیا سچ مچ وہ سب مرگئے ہیں اور مجھے اپنے اور اپنے بچوں کے دشمنوں کے درمیان تنہا چھوڑ دیا ہے؟ ! خون ان کے چہرے سے ٹپک رہا تھا اور وہ اسی عالم میں چیخ رہے تھے کہ اسی اثناء میں انھوں نے دروازہ پر چیخ پکار کی آواز سنی۔میں یہ آواز یں سن کر با ہر آیا ۔وہ بھی تھوڑا سا مجھ سے نزدیک ہوئے اور کہا : اے شر یح ! میں گمان کر رہا ہوں کہ یہ قبیلہ ء مذحج اورمیرے چاہنے والے مسلمانوں کی آواز یں ہیں؛ جو مجھے بچا نے آئے ہیں؛ اگر ان میں سے دس بھی آجائیں تو مجھے نجات دلا دیں گے ۔
شریح کہتاہے کہ میںان کے پاس گیاجو محل کے دروازہ پر کھڑے تھے لیکن چونکہ ابن زیاد نے اپنے ایک گرگے'' حمید بن بکر احمری'' کوہمارے ساتھ روانہ کردیاتھا جو اپنی برہنہ شمشیرکے ساتھ ہمیشہ ابن زیاد کے سر پر اس کی محافظت کیا کرتاتھالہٰذاامیر کے حکم کے خلاف میںکچھ نہ کہہ سکااوران کے سامنے جاکریہی کہا: اے لوگو!امیر کو جب تمہاری آمد کی اطلاع ملی اورہانی کے سلسلے میںتمہاری گفتگو سنی تو مجھے فورا ً ان کے پاس بھیجاتاکہ میںنزدیک سے ان کو دیکھ کر آوں میںخود ان کے پاس گیااور دیکھا کہ وہ زندہ
..............
١۔طبری ،ج٥ ،ص ٣٦٧، ابو مخنف کا بیان ہیکہ یہ روایت مجھ سے نمیر بن واعلہ نے ابو وداک کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔(ارشاد ،ص ٢١٠ ،خوارزمی، ص ٢٠٥)
ہیں،ان کے قتل کے سلسلے میںتم لوگوں کو جو خبر دی گئی ہے وہ سب غلط ہے۔ اس پر عمروبن حجاج اور اس کے ساتھیوں نے کہا: اگر وہ قتل نہیںہوئے ہیںتوخدا کاشکرہے یہ کہکر وہ سب پلٹ گئے۔ (١)

ہانی کو قید کرنے کے بعد ابن زیاد کا خطبہ
ہانی کوقید کرنے کے بعدابن زیاد لوگوںکی شورش سے ہر اساںاور خوفزدہ ہوگیا لہٰذا قوم کے سربرآوردہ افراد اور اپنے حشم و خدم نیزاپنی پولس کے افسروں کے ہمراہ محل کے باہر آیا اور منبر پر گیا۔ حمد و ثناے الٰہی کے بعدبولا: امابعد، اے لوگو!خداوند عالم کی فرمانبرداری اور اپنے حاکم کی اطاعت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو نیز اختلاف اور افتراق سے بچو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے ،ذلیل و رسوا ہوجاؤگے ، قتل ، جفا اور محرومیت تمہارا مقدر ہوجائے گی! آگاہ ہوجاؤکہ تمہارا بھائی وہ ہے جو سچ بولتا ہے اور جو ہوشیار کردیتا ہے اس کا عذر معقول ہے۔ (٢)
..............
١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے عبد الرحمن بن شریح سے یہ روایت نقل کی ہے۔اس نے کہاکہ میںنے اسماعیل بن طلحہ سے حدیث سنی ہے۔( طبری ،ج٥،ص٣٦٧)
٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ حجاج بن علی نے مجھ سے محمد بن بشر ہمدانی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔( طبری، ج٥ ، ص٣٦٨)