واقعۂ کربلا
 

امام حسین علیہ السلام مکہ میں
* عبد اللہ بن مطیع عدوی
* امام حسین علیہ السلام کا مکہ میںورود
* کوفیوں کے خطوط
* امام حسین علیہ السلام کا جواب
* حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر
* راستے سے جناب مسلم کا امام علیہ السلام کے نا م خط
* مسلم کو امام علیہ السلام کا جواب

امام حسین علیہ السلام مکہ میں
امام حسین علیہ السلام مکہ کے را ستے میں : عقبہ بن سمعان کا بیا ن ہے کہ ہم مدینہ سے باہم نکلے اور اصلی راستے سے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں کسی نے امام حسین علیہ السلام سے کہا : اگر ہم بھی ابن زبیر کی طرح کسی نامعلوم راستے سے نکل جائیں تو کیا ایسا نہیں ہوگا کہ وہ ہم کو پکڑنہیںپائیں ؟
امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : ''لاواللّہ لا أفارقہ حتی یقضی اللّہ ما احب الیہ'' (١) نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہو سکتا میںسید ھے راستے کو نہیں چھوڑ سکتا یہاں تک کہ خدا میرے حق میں وہ فیصلہ کرے جو اس کو سب سے زیاد ہ پسندہے۔

عبد اللہ بن مطیع عدوی (٢)
اسی وقت عبداللہ بن مطیع حضر ت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میںشرفیاب ہوا اور امام
..............
١۔طبری ج ٥، ص٣٥١، طبری کا بیان ہے کہ میں نے یہ حدیث ہشام بن محمد سے اور انھوں نے ابی مخنف سے نقل کی ہے ، ابو مخنف کابیان ہے کہ مجھ سے عبدالرحمن بن جندب نے اور عبد الرحمن بن جندب کا بیان ہے کہ مجھ سے عقبہ بن سمعان نے بیان کیا ہے جو امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب رباب بنت امرء القیس کلبیہ کا غلام تھا۔ اس کے حالات پہلے بیان ہو چکے ہیں۔
٢۔ عبد اللہ بن مطیع قر شی کی ولادت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوئی ۔ جب اہل مدینہ نے یزید کے لشکر پر حملہ کیا تو یہ قریش کے ہمراہ تھا (طبری، ج ٥،ص ٤٨١) پھر یہ ابن زبیر سے مکہ میں ملحق ہو گیا اور اس کے ہمراہ جنگ میں شرکت کی پھر ابن زبیر ہی کی جانب سے والی کوفہ مقرر ہوا ۔طبری، ج٥، ص٦٢٢، تاریخ یعقوبی ج٣،ص ٣و٥ ،تاریخ مسعودی ج ٣،ص ٨٣ ،مقتل خوارزمی ج ٢،ص ٢٠٢، یہ پورا واقعہ محمد بن اسحاق سے منقول ہے۔کوفہ میں مختار سے اس کا جھگڑا ہو گیا تو مختار نے اسے کوفہ سے نکال دیا۔ طبری ،ج٥، ص٣١،عنقرب طبری کی یہ روایت بھی نظرسے گذرے گی کہ ہشام ، ابو مخنف سے اور وہ محمد بن قیس سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دوسری مرتبہ بھی ابن مطیع نے امام علیہ السلام سے مقام ''حاجر ''کے بعد اور مقام ''زرود'' سے قبل پانی کے کسی چشمہ پر ملاقات کی ہے ۔طبری، ج ٥ ، ص ٣٩٥ ۔
سے کہنے لگا : میری جان آپ پر قربان ہو ، آپ کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟امام علیہ السلام نے جواب دیا : ابھی تو میں مکہ جا نا چاہتا ہوں بعد میں اللہ جدھر چاہے گااس ی مرضی کے مطابق اسی طرف چلاجائوں گا ۔
عبداللہ بن مطیع نے کہا:خدا وندعالم آپ پر رحمت نازل کرے اور ہمیں آپ پر قربان کرے! آپ اگر مکہ جارہے ہیں تو دیکھئے کوفہ سے کبھی نزدیک نہ ہوئیے گا؛ یہ بڑی بری جگہ ہے، اسی جگہ آپ کے بابا کو قتل کیا گیا ، یہیں آپ کے بھائی کوزخمی کیا گیا اور ظلم و ستم کے مقابلہ میں وہ تنہا پڑگئے اوردھوکہ سے ان کی جان لے لی گئی۔ آپ حرم ہی میں رہیے ؛کیونکہ آپ سید و سردار عرب ہیں۔ خدا کی قسم اہل حجاز میں کوئی بھی آپ کا ہم نظیر نہیں ہے۔اگر آپ یہاں رہ گئے تو لوگ ہر چہار جانب سے آپ کی طرف آئیں گے لہٰذا آپ حرم نہ چھوڑئیے ۔ میرے چچا ،ماموںاور میرا سارا خاندان آپ پر قربان ہوجائے اے میر ے مولا! اگر آپ شہید کر دئیے گئے تو ہم سب کے سب غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کردئیے جائیںگے۔(١)

امام حسین علیہ السلام کامکہ میں ورود
اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے امام علیہ السلام ٣شعبان (٢)شب جمعہ کو وارد مکہ ہوئے۔(٣) اس کے بعد آپ نے شعبان المعظم، رمضان المباک ، شوال المکرم ، ذی قعدہ اور ٨ذی الحجہ تک مکہ میں قیام فرمایا ۔(٤) مکہ پہنچتے ہی ہر چہار جانب سے لوگوں کی رفت و آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔عالم اسلام سے جتنے عمرہ کرنے والے آتے تھے موقع ملتے ہی آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوتے تھے ۔
..............
١۔ص٢٤٣ پر سبط بن جوزی نے اس کی روایت کی ہے۔ راوی ہشام اور محمد بن اسحاق ہیں۔ خوارزمی نے ص١٨٩ پر اعثم کوفی سے روایت کی ہے ۔
٢۔طبری ،ج٥،ص٣٨٧،ابومخنف کا بیان ہے کہ اس روایت کو ہم سے صقعب بن زہیر نے اوران سے عون بن ابی جحیفہ نے نقل کیا ہے۔گذشتہ سطروںسے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ امام علیہ السلام ٢٨ رجب کو مدینہ سے نکلے ،اس بنا پر٣ شعبان کومکہ پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ فقط پانچ دنوں میںیہ مسافت طے ہوئی ہے اورمکہ سے مدینہ کی مسا فت ٥٠٠کیلو میٹر ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام علیہ السلام نے روزانہ ١٠٠کلیومیٹرکی مسافت کو طے کیا اور یہ عام کارواں کی سفری مسافت سے بہت زیادہ ہے کیونکہ عام طور سے قافلوںکی ایک روزہ مسافت ٨فرسخ ہواکرتی تھی جبکہ امام علیہ السلام کی ایک دن کی مسافت تقریبا ١٨فرسخ ہوتی ہے ، اسکا مطلب یہ ہوا کہ امام علیہ السلام نے اگر چہ راستہ کو تبدیل نہیں فرمایاکیونکہ اس میں خوف فرار تھا اور امام علیہ ا لسلام کی توہین تھی لیکن آپ نے اپنی جان کی حفاظت کے لئے کہ جس کے ہمراہ مقصد عجین تھا راستہ کو جلدی جلدی طے کیا ۔
٣۔طبری ، ج ٥ ، ص ٣٥١ ،عقبہ بن سمعان کی خبر۔
٤۔طبری ، ج٥، ص ٣٨١،عون بن جحیفہ کی خبر ، سبط بن جوزی نے ہشام سے بھی روایت نقل کی ہے۔ تذکرة الخواص ، ص٢٤٥۔
ابن زبیر جو خوف و ہراس کی وجہ سے کعبہ کے اندر محصور تھے اور ان کا کام فقط نماز و طواف رہ گیا تھا۔وہ بھی آنے والوں کے ہمراہ امام علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئے۔ کبھی تو وہ روزانہ آتے بلکہ ایک دن میںدو بار آتے تھے اور کبھی کبھی دودنوں میں ایک بار حاضر ہوتے تھے ... ۔اس ملاقات میںوہ ہمیشہ امام علیہ السلام سے رائے اور مشورہ کیا کرتے تھے ، لیکن اس کے باوجودمکہ میں امام علیہ السلام کا وجود ابن زبیر کے لئے سب سے زیادہ گراںتھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ امام حسین علیہ السلام کے رہتے ہوئے کوئی بھی ان کی بیعت اور پیروی نہیں کرے گا ، اس لئے کہ امام حسین علیہ السلام لوگوں کی نگاہوں میںصاحب شان و شوکت تھے۔ آپ کی حکمرانی لوگوں کے دلوں پرتھی اورلوگ آپ کے فرمانبردار تھے۔(١)
..............
١۔ طبری ، ج٥ ،ص٣٥١، یہ عقبہ بن سمعان کی روایت ہے ۔ ارشاد ، شیخ مفید ،ص ٢٠٢ ۔